ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی
دریافت:

کے فقهی فتاوی کے اختلافی موارد

  • تقلید
  • نجاسات و مطهرات
  • وضو
  • غسل
  • احکام میت
  • تیمم
  • نماز
  • روزہ
    • روزہ واجب ہونے اور صحیح ہونے کی شرائط
    • نیت
    • مبطلات روزہ
    • روزے کی قضا
      پرنٹ  ;  PDF
       
      روزے کی قضا

       

      197
      جس شخص نے رمضان کے روزے کی قضا رکھا ہے اگر ظہر کے بعد عمدا ایسا کام کرے جو روزے کا باطل کرتا ہے تو دس فقیروں میں سے ہر ایک کو ایک مد (تقریبا دس گرام) کھانا دے اور اگر نہیں دے سکتا ہے تو تین دن روزہ رکھے جو احتیاط واجب کی بناپر مسلسل رکھنا چاہئے۔
      (تحریر الوسیلہ، کتاب الکفارات، القول فی اقسامھا)
      اگر کوئی شخص ماہ رمضان کے روزے کی قضا رکھے اور ظہر کے بعد عمداً روزے کو توڑدے تو ضروری ہے کہ دس فقیروں کو کھانا کھلائے اور اگر یہ نہیں کرسکتا ہو تو تین دن روزہ رکھے۔
      (رسالہ نماز و روزہ، م921)

       

      198
      اگر کسی عذر کی وجہ سے کئی دن روزہ نہ رکھے اور بعد میں شک کرے کہ کب اس کا عذر برطرف ہوا تو روزہ چھوٹ جانے کی کم مقدار کی قضا کرے مثلا کوئی رمضان سے پہلے سفر میں تھا اور نہیں جانتا تھا کہ رمضان کی پانچویں کو سفر سے لوٹا تھا یا چھٹی کو تو پانچ روزے رکھ سکتا ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ زیادہ مقدار کی قضا کرے۔
      (العروۃ الوثقی، فی احکام القضاء، م6
      جس شخص نے ماہ رمضان میں کئی دن عذر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھا ہو چنانچہ اگر عذر شروع ہونے کا وقت جانتا ہو مثلاً مہینے کی پانچویں تاریخ کو سفر کیا تھا لیکن دسویں کی رات کو واپس آیا تھا تا کہ چھوٹ جانے والے روزوں کی تعداد پانچ ہو یا گیارہویں کی رات کو واپس آیا تھا تا کہ چھے روزے چھوٹ گئے ہوں تو اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ زیادہ دنوں کی قضا کرے۔
      (رسالہ نماز و روزہ، م918)

       

      199
      عمدا انجام دینے والا ہر کام روزے کو باطل کرتا ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ حکم کو جانتا تھا یا نہیں جانتا تھا جاہل مقصرمیں اقوی کی بناپر اور جاہل قاصر میں احتیاط (واجب) کی بناپر اور چنانچہ مسئلہ یاد کرسکتا تھا تو احتیاط واجب کی بناپر اس پر کفارہ ثابت ہوگا۔
      (تحریر الوسیلہ، فیما یجب الامساک عنہ، م18)
      اگر حکم شرعی سے مطلع نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام انجام دے جو روزے کو باطل کرتا ہے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس کی قضا کرنا چاہئے لیکن کفارہ واجب نہیں ہے۔
      (رسالہ نماز و روزہ، م880)

       

      200
      ماہ رمضان میں سفر کرنا اگرچہ روزے سے فرار کرنے کے لئے ہی کیوں نہ ہو، جائز ہے لیکن ماہ رمضان کے 23 دن گزرنے سے پہلے مکروہ ہے مگر یہ کہ حج یا عمرے کا سفر ہو یا کوئی مال تلف ہونے یا کسی بھائی کی موت کے خوف سے سفر کرے۔
      (تحریر الوسیلہ، شرائط صحۃ الصوم و وجوبہ، م6)
      ماہ رمضان میں سفر کرنا اگرچہ روزے سے بچنے کے لئے ہی کیوں نہ ہو،جائز ہے۔ البتہ بہتر ہے کہ سفر نہ کرے مگر اس صورت میں کہ جب سفر کسی ضروری یا نیک کام کے لئے ہو۔
      (رسالہ نماز و روزہ، م936)

       

      201
      اگر کسی شخص پر ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور معین روزہ واجب ہو تو اس دن سفر نہیں کرنا چاہئے اور اگر سفر میں ہو تو کسی جگہ دس دن ٹھہرنے کا قصد کرے اور اس دن روزہ رکھے لیکن اگر کسی معین دن روزہ رکھنے کی نذر کی ہے تو اس دن سفر کرسکتا ہے۔
      (تحریر الوسیلہ، شرائط صحۃ الصوم و وجوبہ، م6)
      جس شخص پر معین روزہ واجب ہو یا کئی روزوں کی قضا ہو اور وقت کم ہو تو سفر کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر سفر میں ہے تو واپس آنا لازم نہیں ہے تاکہ اس دن یا چند دن روزہ رکھے مثلا اس شخص کی طرح جو سفر میں ہے اور روزہ اس پر ساقط ہے مثلا ماہ مبارک، اس حوالے سے روزوں کے اقسام میں کوئی فرق نہیں ہے۔
      (استفتاء، 178)

       

      202
      اگر روزہ دار ظہر سے پہلے سفر کرے تو حدترخص تک پہنچنے کے بعد اپنا روزہ کھولنا چاہئے۔
      (توضیح المسائل، م1721)
      اگر کوئی ظہر سے پہلے سفر کرے چنانچہ رات سے ہی سفر کا قصد رکھتا ہو تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر دن میں سفر کا قصد کیا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر روزہ رکھنا ضروری ہے اور ماہ رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے۔
      (رسالہ نماز و روزہ، م939)

       

      203
      جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا ہے یا اس کے لئے باعث مشقت ہے تو روزہ اس پر واجب نہیں ہے لیکن دوسری صورت (باعث مشقت) میں ہر روز کے لئے ایک مد (تقریبا دس سیر) گندم یا جو وغیرہ فقیر کو دے۔
      جس شخص نے بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھا ہے اگر رمضان کے بعد روزہ رکھ سکے تو احتیاط واجب کی بناپر جو روزے نہیں رکھے ہیں، ان کی قضا بجالائے۔
      (تحریر الوسیلہ، شرائط صحہ الصوم، م8و 10)
      بڑھاپے کی وجہ سے مرد یا عورت روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں تو ان پر روزہ واجب نہیں ہے اسی طرح اگر روزہ رکھنا مشقت کا باعث ہو لیکن اس صورت میں ہر دن کے لئے ایک مد کھانا (مثلاً گندم، جو یا چاول) فقیر کو فدیہ دیں اور پہلی صورت میں بھی احتیاط کی بناپر یہ فدیہ دے اور دونوں صورتوں میں چنانچہ رمضان کے بعد روزہ رکھ سکیں تو احتیاط مستحب کی بناپر روزوں کی قضا کریں۔
      رسالہ نماز و روزہ، م958)

       

      204
      اگر انسان کو زیادہ پیاس لگنے کی بیماری ہو اور پیاس کو تحمل نہیں کرسکتا ہو یا مشقت کا باعث ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن دوسری صورت میں ہر روز کے لئے ایک مد گندم یا جو وغیرہ فقیر کو دے اور چنانچہ بعد میں روزہ رکھ سکے تو احتیاط واجب کی بناپر جو روزے نہیں رکھے ہیں، ان کی قضا بجالائے۔
      (تحریر الوسیلہ، شرائط صحۃ الصوم، م8)
      اگر کوئی شخص ایسی بیماری میں مبتلا ہو کہ جس میں پیاس زیادہ لگتی ہو اور جس کو تحمل نہیں کرسکتا ہو یا پیاس کو تحمل کرنا اس کے لئے مشقت رکھتا ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے۔ البتہ دوسری صورت میں(جب مشقت ہو) ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد کھانا فقیر کو دے اور احتیاط واجب کی بناپر پہلی صورت میں بھی یہی فدیہ دے اور چنانچہ ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھ سکے تو احتیاط مستحب کی بناپر روزوں کی قضا بجالائے۔
      (رسالہ نماز و روزہ، م959)

       

      205
      اگر تحقیق کے بعد یقین یا گمان ہوجائے کہ صبح نہیں ہوئی ہے اور کوئی چیز کھالے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوئی تھی تو قضا واجب نہیں ہے بلکہ اگر تحقیق کے بعد شک کرے کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام کرے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوئی تھی تو قضا واجب نہیں ہے۔
      (تحریر الوسیلہ، القول می ما یترتب علیہ الافطار، م12)
      اگر تحقیق اور صبح نہ ہونے پر علم ہونے کے بعد روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دیا ہو اور بعد میں پتہ چلے کہ صبح ہوگئی تھی تو اس دن کی قضا واجب نہیں ہے۔
      (رسالہ نماز و روزہ، م905)

       

      206
      بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ باپ سے (سرکشی اور بغاوت کے علاوہ) قضا ہونے والے روزوں کی قضا بجالائے البتہ اگر عمدا اور سرکشی کرتے ہوئے ترک کیا ہے تو اس کی قضا واجب نہیں ہے لیکن احتیاط یہ ہے کہ اس صورت میں بھی واجب ہے بلکہ یہ احتیاط ترک نہیں ہونا چاہئے لیکن بڑے بیٹے پر ماں کے قضا روزے واجب نہیں ہیں اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اس کو بجالائے۔
      (تحریر الوسیلہ، قضاء صوم شہر رمضان، م12 و فی صلاۃ القضاء، م16)
      اگر باپ نےاور نیز احتیاط واجب کی بنا پر ماں نے سفر کے علاوہ کسی اور عذر کی وجہ سے اپنے روزے نہ رکھے ہوں اور قضا کرنے پر قادر ہوتے ہوئے قضا نہ کی ہو تو بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ ان کی وفات کے بعد خود یا کسی کو اجیر بنا کر ان روزوں کی قضا بجالائے لیکن سفر کی وجہ سے جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضا بڑے بیٹے پر واجب ہے اگرچہ والدین قضا بجالانے کی فرصت نہیں رکھتے تھے یا ممکن نہیں تھا۔
      والدین نے جو روزے عمداً نہیں رکھے ہیں احتیاط واجب کی بناپر بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔
      (رسالہ نماز و روزہ، م934 و 935)

       

    • وہ صورتیں جن میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں
    • رویت ہلال
    • روزے کی اقسام
    • روزہ کے بارے میں مخصوص مسائل
    • اعتکاف
  • خمس
  • زکات
  • نذر
  • حج
  • نگاہ اور پوشش
  • نکاح
  • معاملات
  • شکار اور ذبح کے احکام
  • کھانے پینے کے احکام
  • گمشدہ مال
  • بیوی کا ارث
  • وقف
  • صدقہ
  • طبی مسائل
  • مختلف موضوعات سے مختص مسائل
700 /