ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

کے فقهی فتاوی کے اختلافی موارد

  • تقلید
  • نجاسات و مطهرات
  • وضو
  • غسل
  • احکام میت
  • تیمم
  • نماز
  • روزہ
  • خمس
    پرنٹ  ;  PDF
     
    خمس
     
    222
    معدنی کان کا نصاب احتیاط کی بناپر 105 مثقال معمولی چاندی یا 15 مثقال سونا ہے یعنی اگر جس چیز کو گنج سے نکالا ہے اخراجات نکالنے کے بعد اس کی قیمت 105 مثقال چاندی یا 15 مثقال سونے کے برابر ہوجائے تو احتیاط واجب کی بنا پر خمس دینا چاہیے۔
    (تحریر الوسیلہ، القول فی ما یجب فیہ الخمس، الثانی، المعدن)
    اگر معدنی کان سے کوئی چیز نکالے چنانچہ نکالے گئے مواد کی قیمت اس کو نکالنے اور صاف کرنے کے اخراجات نکالنے کے بعد 15 مثقال سونے کے برابر ہو تو اس کا خمس ادا کرنا واجب ہے اور اس کی قیمت اس مقدار سے کم ہوتو خمس نہیں ہے۔
    (جزوہ خمس، م4)

     

    223
    اگر غوطہ خوری یعنی سمندر میں جاکر موتی اور ہیرا جیسے جواہرات نکالے خواہ اگنے والے ہوں خواہ معدنی، چنانچہ باہر نکالنے کے اخراجات نکالنے کے بعد اس کی قیمت 15 سونے کے چنے کے برابر ہوجائے تو اس کا خمس ادا کرنا چاہئے خواہ ایک دفعہ سمندر سے نکالے خواہ چند مرتبہ نکالے، باہر نکالنے والی چیز ایک جنس کی ہو خواہ کئی اجناس کی۔
    اگر بڑے دریاوں مثلا دجلہ اور فرات میں ڈبکی لگائے اور جواہرات باہر نکالے چنانچہ اس دریا سے جواہرات نکالتے ہیں تو اس کا خمس دینا چاہئے۔
    (تحریر الوسیلہ، القول فی ما یجب فیہ الخمس، الرابع، الغوص و م4)
    غوطہ خوری کے ذریعے نکالنے والے جواہر پر خمس واجب ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سمندر سے نکالنے والی چیز ایک جنس کی ہو یا کئی اجناس کی، ایک دفعہ ہو یا کئی دفعہ جو نزدیک ہوں اور احتیاط واجب کی بناپر بڑے دریا مثلا نیل، فرات اور کارون بھی سمندر کے حکم میں ہیں۔
    (جزوہ خمس، م9)

     

    224
    ساتواں: حلال جو حرام سے مخلوط ہوا ہے۔۔۔ اگر اس کا مالک معدود افراد کے درمیان ہو تو احتیاط یہ ہے کہ اس کا کھاتہ کلئیر کرے (اور کسی طریقے سے ان کی رضایت حاصل کرے) پس اگر ممکن نہ ہوتو(مالک تعیین کرنے کے لئے) قرعہ اندازی کرے۔
    (تحریر الوسیلہ، القول فی ما یجب فیہ الخمس، السابع)
    اگر مال کا مالک معدود افراد کے درمیان ہو تو احتیاط یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے ان کی رضایت حاصل کرے اور اگر ممکن نہ ہو اور کسی ایک طرف کا مال ہونے کا زیادہ امکان نہ ہوتو افراد کے درمیان برابر تقسیم کرے۔
    (درس خارج مکاسب محرمہ، ج614 و 615)

     

    225
    ساتواں: حلال جو حرام سے مخلوط ہوا ہے۔ اگر اس کا مالک معلوم نہ ہو یا لامحدود افراد میں ہو تو احتیاطا حاکم کے اذن سے جس کو چاہے صدقہ دے جب تک کسی شخص کے بارے میں خصوصی گمان نہ ہو (کہ اس کا مالک ہے) ورنہ احتیاط ترک نہ کرے اور اسی مخصوص شخص کو صدقہ دے اس شرط کے ساتھ کہ وہ شخص صدقے کا مستحق ہو۔
    (تحریر الوسیلہ، القول فی ما یجب فیہ الخمس، السابع)
    مجہول المالک مال کا مالک معلوم کرنے کے لے جستجو کرنا واجب ہے اور مالک ملنے کی صورت میں مال اسی کو واپس کرے اور اگر ملنے سے ناامید ہوجائے تو اس کی طرف سے فقیر کو صدقہ دے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ حاکم شرع سے اجازہ لے۔
    (درس خارج مکاسب محرمہ، ج588)

     

    226
    اگر پتہ چلے کہ حرام کی مقدار خمس سے زیادہ ہے لیکن اس مقدار کو نہیں جانتا ہو تو مال کو حلال اور پاک کرنے میں خمس نکالنا کافی ہے مگر یہ کہ احتیاط (مستحب) یہ ہے کہ خمس دینے کے علاوہ حرام کے بارے میں ایسی چیز دے کر حاکم شرع سے مصالحت کرے جس کو دینے کے بعد بری الذمہ ہونے کا یقین ہوجائے اور مجہول المالک کا حکم اس پر جاری کرے اور اس سے زیادہ احتیاط یہ ہے کہ یقینی مقدار حاکم شروع کے حوالے کرے اور مشکوک کے بارے میں مصالحت کرے اور حاکم شرع اس کو دونوں مصرف (خمس اور مجہول المالک کے مصرف) پر تطبیق کرتے ہوئے احتیاط کرے۔
    (تحریر الوسیلہ، القول فی ما یجب فیہ الخمس، م28)
    اگر غیر سے متعلق مال کی مقدار دقیق معلوم نہ ہو لیکن اجمالی طور پر جانتا ہو کہ پانچویں حصے سے زیادہ ہے تو احتیاط کی بناپر خمس کو جتنی مقدار زائد ہونے پر یقین ہے اس کے ساتھ حاکم شرع کو دے تاکہ ان موارد میں خرچ کرے جو خمس اور صدقہ دونوں کا مصرف شمار ہوتے ہیں۔
    (جزوہ خمس، م13)

     

    227
    مجہول المالک والے مال کو صدقہ دینے کے بعد اس کا مالک مل جائے تو احتیاط واجب کی بناپر صدقہ دینے والا ضامن ہے۔
    (العروۃ الوثقی، کتاب الخمس، حاشیہ م33)
    مجہول المالک والے مال کو صدقہ دینے کے بعد اس کا مالک مل جائے اور صدقہ دینے پر راضی نہ ہو تو صدقہ دینے والا ضامن نہیں ہے اور مالک کو اس کی مثل یا قیمت ادا کرنا لازم نہیں ہے۔
    (درس خارج مکاسب محرمہ، ج596)

     

    228
    اگر کسی کے پاس وہ چیزیں ہیں جن پر خمس واجب نہیں ہوا ہے یا خمس ادا کیا گیا ہے اور بازار میں ان کی قیمت بڑھ جائے تو بڑھنے والی قیمت کا اس پر خمس واجب نہیں ہے اس صورت میں جب یہی اشیاء تجارت میں مال یا سرمایہ نہ ہوں مثلا ان کو خریدنے کا مقصد ان کو محفوظ رکھنا اور ان کی منفعت اور پیداوار سے استفادہ کرنا ہو لیکن اگر مقصد یہ ہو کہ ان اشیاء سے تجارت کرے تو بڑھنے والی قیمت پر سال پورا ہونے کے بعد خمس واجب ہے اس شرط کے ساتھ کہ ان کو فروخت کرنا اور قیمت وصول کرنا ممکن ہو اور اگر فقط آئندہ سال میں ممکن ہو تو قیمت میں ہونے والا اضافہ اس سال کی منفعت ہوگا نہ گذشتہ سال کی منفعت۔
    (تحریر الوسیلہ، القول فی ما یجب فیہ الخمس، م8)
    ارث اور ہبہ پر خمس نہیں ہے اگرچہ ان کی قیمت بڑھ گئی ہو مگر یہ کہ اس کو سرمایہ بنائے (یعنی بیچنے کے لئے رکھے) اس صورت میں احتیاط واجب کی بناپر فروخت کرنے کے بعد اس کی قیمت میں ہونے والا اضافہ سال کی درآمد شمار ہوگا اور خمس کے سال کے اختتام پر موجود ہونے کی صورت میں اس کا خمس دینا چاہئے۔
    اگر وہ چیز جو اخراجات کا حصہ نہیں ہے، بیچنے کی نیت کے بغیر سال کی درآمد سے خریدے تو سال کے اختتام پر اس کی جتنی قیمت بنتی ہے اس کا خمس ادا کرے اور قیمت بڑھ جائے تو بڑھنے والی قیمت پر (بازار میں بڑھنے والا ریٹ) جب تک فروخت نہ کیا جائے، خمس نہیں لگے گا اور فروخت کرنے کے بعد افراط زر کی مقدار کٹوتی کے بعد بڑھنے والی مقدار فروخت کرنے والے سال کی منفعت میں شمار ہوگی۔
    (جزوہ خمس، م40، 44، 53)

     

    229
    اگر سال کے آغاز میں اخراجات کے لئے قرض لے لے یا ضرورت کی بعض اشیاء کو ادھار پر خریدے یا فائدہ ملنے سے پہلے سرمایہ میں سے ایک مقدار اخراجات میں خرچ کرے تو اسی اندازے کے مطابق منفعت سے کم کرنا جائز ہے۔
    (تحریر الوسیلہ، القول فی ما یجب فیہ الخمس، م20)
    اگر منفعت ملنے سے پہلے زندگی کے اخراجات کے لئے قرض لے لے یا جس پیسے پر خمس نہیں لگا ہے (مثلا ارث) اس سے نکالے تو احتیاط واجب کی بناپر ان اخراجات کو منفعت سے کم نہیں کرسکتا ہے اور اس کا خمس دینا چاہئے لیکن اگر منفعت حاصل ہونے کے بعد اس مال کو زندگی کے اخراجات میں خرچ کرے جس پر خمس نہیں لگا ہے تو سال کے اختتام پر اسی مقدار میں درآمد سے کم ہوگا۔
    (استفتاء، 10)
    سوال: اگر درآمد ملنے کے بعد قرض یا ادھار لئے ہوئے مال کو اخراجات میں خرچ کرے یا اخراجات کی چیز کو ادھار خریدے اور جس وقت اخراجات میں خرچ کرے گذشتہ درآمد سے کچھ باقی نہ بچا ہو اور اس کے بعد اسی سال کے دوران دوسری درآمد کسب کرے تو کیا سال کے آخر میں جو کچھ خرچ کیا ہے اس کو منہا کرسکتا ہے؟
    جواب: سوال میں تحریر فرضیے میں اسی مقدار کے مطابق درآمد سے منہا ہوگا۔
    (استفتاء، 104)

     

    230
    اگر قالین، برتن یا گھوڑا وغیرہ جو اصل مال باقی رہنے کے ساتھ استفادہ کیا جاتا ہے، خریدے تو ان کا خمس واجب نہیں ہے مگر جب ضرورت کے دائرے سے نکل جائے تو اس صورت میں احتیاط کے طور پر ان کا خمس واجب ہے۔
    (تحریر الوسیلہ، القول فی ما یجب فیہ الخمس، م16)
    اگر خمس دینے سے پہلے کسب کی منفعت سے گھریلو اشیاء خریدے اور سال کے دوران اس کی ضرورت ختم ہوجائے تو خمس کے سال کے وقت اس کا خمس دینا واجب ہے لیکن خمس کا سال گزرنے کے بعد اخراجات سے خارج ہوجائے تو خمس نہیں ہے۔
    سوال: اگر کوئی شخص ضرورت کے مطابق گھر مہیا کرے لیکن مختلف وجوہات کی بناپر قیام نہ کرسکے یا ایک مدت کے لئے کرایہ پر دے اس کے بعد سکونت سے منحرف ہوجائے اور اس کو بیچ دے تو اس فرض کے ساتھ اس مدت کے دوران خمس کا سال گزر گیا ہے، اس کے خمس کا کیا حکم ہے؟
    جواب: سکونت شرط نہیں ہے ضرورت اور شان کے مطابق ہونے سے ہی اخراجات شمار ہوگا اور حتی کہ فروخت کرنے کے بعد بھی خمس نہیں ہے۔
    (جزوہ خمس، م83 ، استفتاء، 12)

     

    231
    خمس مال سے ہی تعلق رکھتا ہے لیکن مالک کو اختیار ہے کہ اسی مال سے دے یا کسی دوسرے مال سے۔
    (تحریر الوسیلہ، القول فی ما یجب فیہ الخمس، م23)
    خمس کے سال سے اگلے سال تک خمس کو تاخیر کرنا جائز نہیں ہے اور جو شخص خمس کے سال کے آغاز پر خمس ادا نہ کرے یہ خمس اس کے ذمے باقی رہے گا جس کو ادا کرنا چاہئے اور کرنسی کی قدر میں کمی ہونے کی صورت میں کم ہونے والی مقدار کو بھی ادا کرنا چاہئے اگر یہ مقدار معلوم نہ ہو تو حاکم شرع کے ساتھ مصالحت کرے۔
    جن موارد میں خمس تعلق رکھنے والا مال چاول اور گندم کی طرح مثلی ہو اور مکلف خمس کے سال کے آغاز میں ادا نہ کرے تو احتیاط یہ ہے کہ ادا کرنے کے وقت اس مثل کی قیمت کو بھی مدنظر رکھے اور جو بھی زیادہ کم ہو مکلف سے لیا جائے۔
    (جزوہ خمس، م108 و استفتاء، 1)

     

    232
    اگر نابالغ کے مال پر خمس لگے (مثلا معدن یا حلال حرام سے مخلوط ہوجائے) تو اس کے شرعی ولی پر ادا کرنا واجب ہے لیکن اس کے اموال سے تجارت کے ذریعے حاصل ہونے والی منفعت یا کسب کے منافع کا خمس جس کو ادا کرنا شرعی ولی پر واجب نہیں ہے بلکہ احتیاط کی بناپر حاصل ہونے والی منفعت باقی رہے بلوغ تک پہنچنے کے بعد اس بچے پر خمس ادا کرنا واجب ہے۔
    (العروۃ الوثقی، کتاب الخمس، فصل فیما یجب فیہ الخمس، م84)
    بچے کے کسب کے منافع چنانچہ سال کے دوران اس کے اخراجات میں خرچ نہ ہوجائیں تو خمس لگے گا اور اس کا شرعی ولی خمس ادا کرسکتا ہے اور اگر ادا نہ کرے تو بلوغ تک پہنچنے کے بعد بچے پر خمس ادا کرنا واجب ہے۔
    استفتاء، 108)

     

    233
    اگرمجنون کا کچھ مال سال کے اخراجات سے بچ جائے تو احتیاط یہ ہے کہ اس کا خمس ادا کریں۔
    (استفتائات صحیفہ امام)
    مجنون کی آمدنی کے منافع اگر سال کے دوران اس کے اخراجات میں خرچ نہ ہوجائیں تو اس پر خمس لگے گا اور اس کا شرعی قیم اس کو ادا کرسکتا ہے اور اگر ادا نہ کرے تو ہوش میں آنے اور سالم ہونے کے بعد مجنون پر خمس دینا واجب ہے اور مرنے تک ہوش میں نہ آئے تو اس کے ترکے سے ادا کیا جائے۔
    (استفتاء، 108)

     

    234
    اگر بید اور چنار وغیرہ کا درخت لگائے تو ان کو فروخت کرنے کے سال ان کا خمس ادا کرے اگرچہ فروخت نہ کرے لیکن اگر مثلا ہر سال تراشی جانے والی شاخوں سے استفادہ کیا جائے اور صرف وہ شاخیں یا آمدنی کے دوسرے منافع کو ملاکر سال کے اخراجات سے زیادہ ہوجائیں تو ہر سال کے آخر میں اس کا خمس ادا کرے۔
    (توضیح المسائل، م1772)
    زرعی محصولات اس مرحلے تک پہنچنے سے پہلے جو کسان کا ہدف ہوتا ہے (مثلا انگور کا درخت لگانے کا مقصد پکا ہوا انگور حاصل کرنا ہے) اگر اس طرح ہو کہ فائدہ صدق کرتا ہے (مالی ارزش رکھتا ہو) تو خمس کے سال کے آخر میں خمس لگے گا اور اسی طرح ہے اس مسئلے کے دوسرے مصادیق مثلا نامکمل عمارت جو مکمل کرکے بیچنے کے قصد سے زیرتعمیر ہے۔
    (استفتاء، 108)

     

    235
    انسان اس مال میں تصرف نہیں کرسکتا ہے جس کا خمس ادا نہ کرنے کا یقین رکھتا ہے۔
    اگر جس پیسے کا خمس ادا نہیں کیا ہے اس سے کوئی جنس خریدے یعنی بیچنے والے کو کہے کہ اس جنس کو اس پیسے کے بدلے خریدوں گا یا خریدتے وقت اس کا قصد یہ ہو کہ خمس ادا نہ کرنے والے پیسے سے قیمت دے گا چنانچہ حاکم شرع پانچویں حصے کے معاملے کی اجازت دے تو اس مقدار کے برابر معاملہ صحیح ہے۔
    (توضیح المسائل، م1795، 1760)
    اس شخص کے پاس کھانا کھانے میں کوئی اشکال نہیں جو اہل خمس نہیں ہے۔
    اگر کسی شخص کے مال کے ساتھ خمس تعلق پیدا کرے لیکن اس کا خمس نہیں دیا ہو اور کوئی معاملہ انجام دے تو صحیح ہے۔
    (جزو خمس، م139، 141)

     

    236
    احتیاط یہ ہے کہ مکلف اگر نفقہ کے لئے دے رہا ہو تو اس شخص کو خمس نہ دے جس کا نفقہ اس کے ذمے ہے مثلا بیوی لیکن نفقہ کے علاوہ کسی اور چیز کے لئے جس کی اس کو ضرورت ہے اور خمس دینے والے پر اس کو مہیا کرنا واجب نہیں ہے، خمس دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
    (تحریر الوسیلہ، القول فی قسمتہ و مستحقیہ، م4)
    اگر کسی شخص کے خاندان کا کوئی فرد جس کا نفقہ اس پر واجب ہے، سید اور فقیر ہو تو اپنا خمس اس کو نہیں دے سکتا ہے۔
    (جزوہ خمس، م136)

     

    237
    اگر کئی سال تک پیسہ محفوظ رکھے تاکہ گھر خرید لے تو اخراجات شمار نہیں ہوگا اور اس کا خمس دینا واجب ہے۔
    (تحریر الوسیلہ، القول فیما یجب فیہ الخمس، م17)
    درآمد کی منفعت سے بچایا ہوا مال اگر زندگی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ہو تو خمس کے سال کے اختتام پر خمس لگے گا مگر یہ کہ بچت کا پیسہ زندگی کے ضروری لوازمات یا لازمی اخراجات پورا کرنے کے لئے ہو تو اس صورت میں اگر خمس کے سال کے بعد مستقبل قریب (چند دنوں) میں ان کاموں میں خرچ ہوجائے تو خمس نہیں ہے۔
    (اجوبۃ الاستفتائات، س909)

     

    خمس کے بارے میں مخصوص مسائل

     

    33
    کرایہ دار ڈپازٹ کے طور پر جو پیسہ مالک مکان کو دینے پر مجبور ہے، چنانچہ (ڈپازٹ کے بغیر) مکمل کرایہ ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو یا مالک مکان قبول نہ کرے تو اپنی شان کے مطابق گھر کرایہ پر لینے کے لئے قرارداد کے مطابق مالک مکان کو دینے والے ڈپازٹ پر خمس نہیں لگے گا اور اخراجات کا حکم رکھتا ہے۔
    (استفتاء، 101)

     

    34
    احتمالی حادثات کے لئے بچت کیا ہوا پیسہ چنانچہ خمس دینے کے بعد باقی ماندہ پیسہ کافی نہ ہو اور پریشانی دور نہیں ہوتی ہے تو خمس نہیں لگے گا اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ (نئی آمدنی ملنے کی وجہ سے) پریشانی ختم ہونے کے بعد خرچ نہ ہونے والی مقدار کا خمس ادا کیا جائے۔
    (استفتاء، 101)

     

    35
    خمس ادا کرنے سے مکلف کا ذمہ بری ہوجاتا ہے اگرچہ قصد قربت کے ساتھ نہ ہو۔
    (استفتاء، 101)

     

    36
    سوال: اطلاع دیئے بغیر دوسروں کی طرف سے خمس ادا کرنا بری الذمہ ہونے کا باعث ہے؟
    جواب: ہاں، کافی ہے۔

     

    37
    خمس کا سال ختم ہونے کے بعد جدید سال کی پہلی آمدنی ملنے میں کچھ عرصہ فاصلہ آئے تو نئے خمس کے سال کا آغاز پہلی آمدنی ملنے کی تاریخ کو قرار دے سکتے ہیں۔
    (استفتاء، 103)

     

    38
    اگر کسی کو کتابوں کے صفحات کے اندر پیسے مل جائیں اور تردید ہوجائے کہ گذشتہ سال کی درآمد کا حصہ ہے کہ فورا خمس دیا جائے یا جدید سال کی درآمد کا حصہ ہے کہ خمس کے سال کے اختتام تک مہلت ہے اور اخراجات میں خرچ کرسکتا ہے تو جدید سال کی درآمد کا حصہ شمار ہوگا۔
    (استفتاء، 104)

     

    39
    سوال: اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ خمس اخراجات میں سے بچنے والی رقم پر واجب ہوتا ہے، اگر مکلف کو علم ہو کہ خمس کے سال کے اختتام تک اس کی درآمد اخراجات میں خرچ نہیں ہوگی تو خمس کے سال کے اختتام سے پہلے خمس ادا کرنا واجب ہے؟
    جواب: سال کے اختتام سے پہلے خمس ادا کرنا واجب نہیں ہے۔

     

    40
    جس حج کو ابھی تک انجام نہیں دیا گیا ہے، اس کی اجرت پر فائدہ صدق کرنا، اسی طرح اجارے کی نماز اور روزہ جو آئندہ سال بجا لائے جاتے ہیں، اس پر فائدہ صدق کرنا معلوم نہیں ہے اور اس کو رواں سال کی منفعت میں سے شمار نہیں کیا جاسکتا ہے پس اس پر خمس واجب نہیں ہے۔
    (استفتاء، 13)

     

    41
    سوال: کوئی شخص دوسرے کو ہدیہ دے اور سنجیدہ قصد رکھتا تھا اور خمس سے فرار کا قصد نہیں رکھتا تھا اگر خمس کے سال کے بعد ہبہ سے منحرف ہوجائے اور واپس لے تو کیا اس کا خمس دینا چاہئے؟
    جواب: ہبہ سے منحرف ہوتے ہی اس کا خمس دینا چاہئے۔
    (استفتاء، 30)

     

    42
    سوال: اگر اس سرمایے پر خمس لگنے کے بارے میں شک کرے جس سے زندگی کے معاملات چل رہے ہیں تو کیا وظیفہ ہے؟
    جواب: سوال کے فرض کے مطابق خمس دینا واجب نہیں ہے بنیادی طور اخراجات کے بعد خمس کا مطلب یہ ہے کہ اخراجات سے بچ جانا ثابت ہونا چاہئے۔
    (استفتاء، 107)

     

    43
    اگر میت کی تجہیز کے لئے اس کے ترکہ سے خرچ کیا جائے تو خرچ ہونے والی مقدار کا خمس دینا واجب نہیں ہے۔

     

    44
    سوال: کیا ہبہ معوضہ خواہ مشروطہ ہو یا غیر مشروطہ، پر خمس واجب ہے؟
    جواب: ہبہ کی دونوں قسمیں کسب شمار نہیں ہوتی ہیں اور خمس نہیں ہے۔
    (استفتاء، 112)

     

    بیمہ سے ملنے والا پیسہ
    وہ پیسہ جو لائف انشورنس یا کسی عضو کی معذوری کے عنوان سے بیمہ کرنے والے کو ملتا ہے، سال کی آمدنی شمار ہوتا ہے لیکن جو پیسہ اس کے مرنے کے بعد لواحقین کو ملتا ہے وہ ایک قسم کا احسان شمار ہوتا ہے اور آمدنی نہیں اور خمس بھی نہیں ہے۔
    جو پیسہ علاج وغیرہ کے لئے آمدنی سے خرچ کیا جاتا ہے اور بعد میں مثلا بیمہ کمپنی اس کو ادا کرتی ہے، جدید آمدنی نہیں بلکہ اپنے پیسے واپس مل گئے ہیں چنانچہ خمس کے سال تک زندگی کے اخراجات میں خرچ نہ ہوجائیں خمس لگے گا لیکن اگر خمس کا سال گزرنے کے بعد کمپنی سے مل جائے فورا اس کا خمس ادا کرے۔
    وہ پیسے جو بیمہ کمپنی نقصان کی تلافی کے لئے ادا کرتی ہے مثلا گاڑی کا بیمہ، آگ لگنا، زرعی فصل، آمدنی کا حصہ ہیں۔ چنانچہ خمس کے سال کے آغاز تک زندگی کے اخراجات میں خرچ نہ ہوجائے تو خمس ادا کرنا واجب ہے۔
    بے روزگاری کا بیمہ وغیرہ جو (پیسہ وصول کرنے والے کے علاوہ) آجر یا دوسرے شخص اور بیمہ کمپنی کے درمیان قرارداد کی بنیاد پر ادا کیا جاتا ہے، وصول کرنے والے کے لئے ہدیہ ہے اور خمس نہیں ہے لیکن وصول کرنے والے اور بیمہ کمپنی کے درمیان قرارداد کی بنیاد پر ہو یا آجر اور پیسہ وصول کرنے درمیان شرط کی بنیاد پر آجر نے ادا کیا ہو تو خمس تعلق رکھتا ہے۔
    وہ پیسہ جو ڈرائیونگ کے حادثات میں گاڑی کو نقصان پہنچانے والا یا اس کی طرف سے بیمہ کمپنی نقصان کی تلافی کے لئے مالک کو ادا کرتی ہے (تیسرے شخص کا بیمہ) آمدنی شمار نہیں ہوگا اور خمس نہیں ہے۔
    (استفتاء، 11)
  • زکات
  • نذر
  • حج
  • نگاہ اور پوشش
  • نکاح
  • معاملات
  • شکار اور ذبح کے احکام
  • کھانے پینے کے احکام
  • گمشدہ مال
  • بیوی کا ارث
  • وقف
  • صدقہ
  • طبی مسائل
  • مختلف موضوعات سے مختص مسائل
700 /