دریافت:
احکام آموزشی
- پہلا جلد
- پہلی فصل: تقلید
- دوسری فصل: طہارت
- تیسری فصل: نماز
- سبق 27: نمازوں کی اقسام
سبق 27: نمازوں کی اقسام
واجب اور مستحب نمازیں۔ یومیہ نوافل1۔ واجب اور مستحب نمازیں
واجب نمازیں
یومیہ نمازیں
نماز طواف جو خانہ کعبہ کے واجب طواف کے بعد پڑھی جاتی ہے۔
نماز آیات جو سورج گرہن، چاند گرہن اور زلزلہ وغیرہ کے وقت پڑھی جاتی ہے۔
نماز میت جو مردہ مسلمان پر پڑھی جاتی ہے۔
باپ اور احتیاط واجب کی بناپر ماں کی قضا نماز جو بڑے بیٹے پر واجب ہے
وہ نماز جو نذر، عہد، قسم یا اجارہ کی وجہ سے پڑھنا واجب ہے[1]
مستحب نمازیں
مثلا شب و روز کے مستحبات
توجہمستحب نمازیں بہت زیادہ ہیں اور ان کو نافلہ کہتے ہیں۔ نافلہ نمازوں میں سے یومیہ نوافل مخصوصا نماز شب کی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
2۔ یومیہ نوافل
روزانہ کی نماز پنجگانہ میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک مستحب نماز ہے جس کو اس کی نافلہ کہتے ہیں۔ ان نوافل کو پڑھنا بہت اہم ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب ذکر ہوا ہے علاوہ براین مستحب ہے کہ آدھی رات کے بعد نافلہ شب پڑھیں۔ اس نماز کی بھی معنوی خصوصیات ہیں اور مناسب ہے کہ اس کی پابندی کریں۔
2۔ یومیہ نوافل
1۔ نافلہ ظہر: نماز ظہر سے پہلے آٹھ رکعات
2۔ نافلہ عصر: نماز عصر سے پہلے آٹھ رکعات
3۔ نافلہ مغرب: نماز مغرب کے بعد چار رکعات
4۔ نافلہ عشا: نماز عشا کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے
5۔ نافلہ صبح : نماز فجر سے پہلے دو رکعت
6۔ نافلہ شب: آدھی رات سےاذان صبح تک گیارہ رکعات (بہتر ہے کہ رات کے آخری تہائی میں پڑھی جائے ۔ اگرچہ فجر سے جس قدر نزدیک ہو اس کی کی فضیلت زیادہ ہے)
توجہ
جمعہ کے روز نماز ظہر اور عصر کی نافلہ بیس رکعات ہیں یعنی ظہر اور عصر کی نافلہ میں چار رکعات بڑھ جاتی ہیں اور بہتر ہے کہ پوری بیس رکعات کو زوال آفتاب سے پہلے بجالائیں لیکن اگر زوال کے بعد غروب تک بھی بجالائیں تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
چونکہ عشا کی دو رکعت نافلہ ایک رکعت شمار ہوتی ہے لہذا یومیہ نوافل مجموعی طور پر چونتیس رکعات (واجب نمازوں سے دوگنا) ہیں۔
3۔ اگر ظہر اورعصر کی نافلہ اس کے وقت[2] کے اندر لیکن نماز ظہر اور عصر کو ادا کرنے کے بعد پڑھی جائے تو احتیاط واجب کی بناپر ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر (مافی الذمہ کے قصد سے) پڑھی جائے۔
4۔ نماز شب گیارہ رکعات ہیں۔ آٹھ رکعات دو دو رکعت کرکے پڑھی جاتی ہیں جس کو نماز شب کہتے ہیں اور دو رکعات یعنی نماز شفع نماز صبح کی طرح پڑھی جاتی ہیں اور نماز وتر ایک رکعت ہے جس کی قنوت میں دعاؤں کی کتابوں میں مذکور ترتیب کے مطابق استغفار اور مومنین کے لئے دعا اور اللہ تعالی سے حاجات طلب کرنا مستحب ہے۔
5۔ نافلہ نمازوں میں سورہ واجب نہیں ہے بلکہ ہر رکعت میں سورہ حمد کی قرائت کافی ہے اگرچہ سورہ بھی پڑھنا مستحب ہے
6۔ نماز شب کو اندھیرے میں اور دوسروں سے چھپاکر پڑھنا شرط نہیں ہے لیکن اس میں ریاکاری بھی جائز نہیں ہے۔
توجہنوافل کو دو دو رکعت کرکے پڑھنا چاہئے مگر نماز وتر جس کی ایک رکعت ہے بنابراین نماز شب کو دو چار رکعتی، ایک دو رکعتی اور ایک نماز وتر کی صورت میں پڑھنا صحیح نہیں ہے۔
نوافل کو بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں اگرچہ کھڑے ہوکر پڑھنا بہتر ہے اور بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں مستحب ہے کہ ہر دو رکعات کو ایک رکعت شمار کیاجائے نماز وتیرہ (عشا کی نافلہ) اس سے مستثنی ہے جس کو احتیاط کے طور پر کھڑے ہونے کے بجائے بیٹھ کر پڑھنا چاہئے۔
جس سفر میں نماز قصر ہوتی ہے، ظہر اور عصر کی نافلہ نماز پڑھنا (اگرچہ رجاء کی نیت سےکیوں نہ ہو) جائز نہیں ہے۔
عشاکی نافلہ (وتیرہ) کو سفر کے دوران رجاء کی نیت اور ثواب کی امید سے بجالانا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے۔
یومیہ نوافل میں سے ہر ایک کا معین وقت ہے جو تفصیلی رسالوں میں مذکور ہے۔
تمرین
1۔ واجب نمازیں کون کونسی ہیں؟
2۔ یومیہ نوافل کی کتنی رکعات ہیں؟ وضاحت کریں۔
3۔ نماز ظہر اور عصر پڑھنے کے بعد ظہر اور عصر کی نافلہ کو اس کے وقت کے اندر کس نیت سے پڑھنا چاہئے؟
4۔ نماز شب کیسے پڑھی جاتی ہے؟
5۔ کیا نماز شب پڑھنے کے دوران ضروری ہے کہ دوسرے متوجہ نہ ہوں؟ کیا اس کو تاریکی میں بجالانا چاہئے؟
6۔ سفر میں کونسی نافلہ نمازیں ساقط ہیں؟
[1] در حقیقت نذر، عہد، قسم اور اجارہ پر عمل کرنا واجب ہے ایسا نہیں ہے کہ مستحب نماز واجب میں بدل گئی ہو۔
[2] ظہر کی نافلہ کا وقت ابتدائے ظہر سے لے کر شاخص سے ظاہر ہونے والا سایہ شاخص کے7/2 ہونے تک ہے مثلا شاخص کی لمبائی سات بالشت ہو تو جب ظہر کےبعد شاخص سے نمودار ہونے والا سایہ دو بالشت کے برابر ہوجائے تو نافلہ ظہر کا آخری وقت ہے۔ نافلہ عصر کا وقت تب تک رہتا ہے جب تک ظہر کے بعد شاخص سے ظاہر ہونے والا سایہ شاخص کے 7/4 تک نہ ہوجائے۔
- سبق 28: نماز پڑھنے والے کا لباس (1)
سبق 28: نماز پڑھنے والے کا لباس (1)
نماز میں بدن ڈھانپنے کی مقدار۔ نماز پڑھنے والے کے لباس کی شرائط ((1))1۔ نماز میں ڈھانپنے کی مقدار
1۔ مرد کو چاہئے کہ نماز کی حالت میں اپنی شرمگاہ کو چھپائے اگر چہ کوئی اس کو نہیں دیکھ رہا ہو۔ بہتر ہے کہ ناف سے زانو تک چھپائے۔
2۔ عورت کو چاہئے کہ نماز کے دوران اپنے پورے بدن اور بالوں کو چھپائے لیکن چہرے کا وہ حصہ جو وضو میں دھونا واجب ہے، ہاتھوں اور پاوں کو ٹخنے تک چھپانا لازم نہیں ہے البتہ نامحرم ہوتو پاوں کو بھی ٹخنوں تک چھپائے۔
توجہچونکہ ٹھوڑی چہرے کا حصہ ہے لہذا نماز کے دورا ن اس کو چھپانا لازم نہیں ہےلیکن اس کا نچلا حصہ چھپانا واجب ہے۔
اگر نماز کے دوران متوجہ ہوجائے کہ واجب مقدار میں بدن پوشیدہ نہیں ہے تو احتیاط یہ ہے کہ نماز کو پورا کرے اور دوبارہ پڑھے البتہ اگر فوراخود کو چھپائے تو بعید نہیں کہ نماز صحیح ہو۔
اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ واجب مقدار میں بدن کو نہیں ڈھانپا تھا تو نماز صحیح ہے۔
2۔ نماز پڑھنے والے کے لباس کی شرائط
1۔ پاک ہو
2۔ غصبی نہ ہو (مباح ہو)
3۔ مردار کے اجزا سے نہ ہو
4۔ حرام گوشت حیوان کا نہ ہو
5۔ مرد کا لباس سونے کا نہ ہو
6۔ مرد کا لباس خالص ریشم کا نہ ہو
توجہ
پانچویں اور چھٹی شرط مردوں کے لباس سے مخصوص ہیں۔
1۔ لباس پاک ہو
1۔ نماز پڑھنے والے کا لباس پاک ہونا چاہئے
2۔ کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ نجس بدن اور لباس کے ساتھ نماز باطل ہے اگرنجس بدن یا لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو نماز باطل ہے مگر یہ کہ غافل یا جاہل قاصر ہو یعنی نجس لباس کے ساتھ نماز باطل ہونے کا اس کو احتمال بھی نہیں تھا۔
3۔ کوئی شخص نہیں جانتا ہے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور نماز کے بعد معلوم ہوجائے تو نماز صحیح ہے لیکن اگر نجس ہونا معلوم تھامگر بھول کر اس کے ساتھ نماز پڑھی ہے تو نماز باطل ہے۔
4۔ اگر نماز کے دوران معلوم ہوجائے کہ بدن یا لباس نجس ہےچنانچہ علم ہوجائے کہ نماز سے پہلے ہی نجس تھا اور وقت وسیع ہو تو نماز باطل ہے اور پاک کرنے کے بعد نماز دوبارہ پڑھے، وقت تنگ ہونے کی صورت میں اگر بدن یا لباس کو دھونے یا لباس کو بدلنے یا اتارنے سے نماز کی حالت خراب نہ ہوتی ہو تو نماز کی حالت میں ہی ایسا کرےاور اس کے بعد نماز جاری رکھے۔ اگر ان کاموں کو انجام دینے سے نماز کی حالت خراب ہوتی ہو تو اسی حالت میں نماز کو جاری رکھے اور نماز صحیح ہے۔
5۔ اگر نجس لباس کو دھولے اور پاک ہونے کا یقین ہوجائے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ پاک نہیں ہوا ہے تو نماز صحیح ہے لیکن بعد کی نمازوں کے لئے لباس کو پاک کرے۔
6۔ اگر مکلف کو شک ہوجائے کہ اس کا لباس نجس ہوا ہے یا نہیں توپا کی پر بنارکھتے ہوے اس کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح ہے بنابراین الکحل پر مشتمل عطر جس کا نجس ہونا معلوم نہیں، سے معطر کپڑوں میں نماز پڑھنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ضرورت کی وجہ سے بول کے مخرج کو پتھر یا لکڑی یا دوسری چیز سے پاک کرنے پر مجبور ہو اور گھر واپس پہنچنے کے بعد اس کو پاک کرتا ہو چنانچہ لباس کا پیشاب سے نجس ہونا اس کو معلوم نہ ہوتو نماز کے موقع پر اس کو بدلنا یا دھونا لازم نہیں ہے۔
وہ موارد کہ جن میں نماز پڑھنے والے کا لباس پاک ہونا لازم نہیں
1۔ زخم، جراحت یا پھوڑے کی وجہ سے لباس یا بدن خون سے آلودہ ہوا ہو۔
2۔لباس یا بدن پر موجود خون درہم (شہادت کی انگلی کاگرہ) سے کم ہو۔
3۔ نماز پڑھنے والے کے چھوٹے لباس مثلا جوراب جس سے شرمگاہ کو چھپانہ سکے، نجس ہو۔
4۔ نجس لباس یا بدن کے ساتھ نماز پڑھنے پر مجبور ہو۔
1۔ زخم، جراحت یا پھوڑے کی وجہ سے بدن یا لباس خون سے آلودہ ہو۔
1۔ اگر نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر خون جراحت یا پھوڑا ہو اس طرح کہ بدن یا لباس کو دھونا یا اس کو تبدیل کرنا معمولا اس شخص کے لئے سخت ہو تو جب تک زخم، جراحت یا پھوڑا ٹھیک نہ ہوجائے اس خون کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے اسی طرح خون کے ساتھ نکلنے والا پیپ یا زخم پر دوائی ڈالی جائے اور نجس ہوجائے۔
2۔ معمولی اور جلدی ٹھیک ہونے والے زخم سے نکلنے والا خون جس کو دھونا آسان ہے،یہ حکم نہیں رکھتا ہے (یعنی اگر نماز پڑھنے والےکے بدن یا لباس پر ہوتو اس کی نماز باطل ہے)
2۔ بدن یا لباس پر موجود خون درہم سے کم ہو۔
1۔ اگر نماز پڑھنے والے کا بدن یا لباس گذشتہ مورد میں مذکور تینوں خون کے علاوہ کسی اور خون سے آلودہ ہوجائے تو ایک درہم سے کم ہونے کی صورت میں (ان شرائط کے ساتھ جو بیان کی جائیں گی) نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں لیکن اگر شہادت کی انگلی کے اوپری گرہ کے برابر یا اس سے زیادہ ہوتو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں اشکال ہے۔
2۔ درہم سے کم خون کی شرائط
1۔ حیض کا خون نہ ہو۔
اگر حیض کا معمولی خون بھی نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر ہوتو نماز باطل ہے اور احتیاط واجب کی بناپر خون نفاس اور استحاضہ کا بھی یہی حکم ہے۔
2۔ نجس العین حیوانات (کتا اور سؤر) اور حرام گوشت حیوان، مردار اور کافر کا خون نہ ہو۔
3۔ اس خون کے ساتھ باہر سے کوئی رطوبت نہ لگی ہومگر اس صورت میں جب رطوبت خون میں مخلوط ہوکر ختم ہوجائے اور مجموعی طورپر مجاز مقدار سے بڑھ نہ جائے تو اس صورت میں اس کے ساتھ نماز صحیح ہے اس کے علاوہ باقی صورتوں میں احتیاط واجب کی بناپر اشکال رکھتا ہے۔
3۔ اگر انسان کا بدن یا لباس خونی نہ ہوجائے لیکن خون لگنے کی وجہ سے نجس ہوجائے تو اس کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا ہے۔
3۔ نماز پڑھنے والے کے چھوٹے لباس مثلا جوراب جس سے شرمگاہ کو چھپانہ سکے، نجس ہوجائے
1۔ اگر نماز پڑھنے والے کے چھوٹے لباس مثلا جوراب، دستانہ اور عرقچین (گول ٹوپی) جس سے شرم گاہ کو چھپایا نہ جاسکتا ہو اور اسی طرح انگوٹھی، چوڑی وغیرہ نجاست لگنے سے نجس ہوجائے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
2۔ اگر رومال، چابی یا چاقو جیسی نجس اشیاء، انسان اپنے ہمراہ رکھ کر نماز پڑھے تو اس کے ساتھ نمازپڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
4۔ نجس لباس یا بدن کے ساتھ نماز پڑھنے پر مجبور ہو۔
اگر کوئی شخص سردی یا پانی نہ ہونے کی وجہ سے نجس لباس یا بدن کے ساتھ نماز پڑھنے پر مجبور ہوتو اس کی نماز صحیح ہے۔
2۔ غصبی نہ ہو
1۔ نماز پڑھنے والے کا لباس مباح ہو (غصبی نہ ہو)
2۔ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو یا فراموش کرے کہ اس کا لباس غصبی ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے اسی طرح ہے اگر غصبی پہننا حرام ہونے کو نہیں جانتا ہولیکن اگر حرام ہونا جانتا ہو تو اگرچہ نماز باطل ہونا نہیں جانتا ہو چنانچہ عمدا غصبی لباس میں نماز پڑھے تو اس نماز کو غیر غصبی لباس کے ساتھ دوبارہ پڑھنا چاہئے۔
3۔ مردار کے اجزا کا نہ ہو
1۔ نماز پڑھنے والے کا لباس خون جہندہ رکھنے والے مردار کے اجزا کا نہیں ہونا چاہئے اور احتیاط واجب یہ ہےکہ خون جہندہ نہ رکھنے والے مردار کے اجزا سے بھی نہ ہو۔
2۔ اگر ذرہ برابر مردار کے اجزاء نماز پڑھنے والے کے ساتھ ہوں تو احتیاط کی بناپر نماز باطل ہےلیکن بے جان اجزا مثلا بال، اون، سینگ اور ہڈی ہو اور حیوان بھی در اصل حلال گوشت ہو تو نماز باطل نہیں ہے۔
3۔ غیر مسلم ممالک سے درآمد کئے جانے والے حلال گوشت حیوانات کی پوست اور کھال جن کا تذکیہ مشکوک ہے، پاک اور نجس ہونے میں مردار کا حکم نہیں رکھتی اور پاک ہیں لیکن ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتے البتہ اگر حکم شرعی معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے تو نماز صحیح ہے۔ اگر درآمد کرنے والا مسلمان ہو اوراس شخص کے توسط سے اس کے تذکیہ کے بارے میں چھان بین ہونے کا احتمال دیاجائے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
4۔ حرام گوشت حیوان سے نہ بنا ہو
1۔ نماز پڑھنے والے کا لباس حرام گوشت حیوان کے اجزاء سے نہ بنا ہو حتی اگر حرام گوشت حیوان کا ایک بال بھی نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس کے ساتھ ہوتو نماز باطل ہے۔
2۔ گر حرام گوشت حیوان مثلا بلی کے منہ یا ناک کا پانی یا دوسری رطوبت نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر لگی ہو تو نماز باطل ہے مگر یہ کہ خشک ہونے کے بعد برطرف ہوگئی ہو۔بنابراین حرام گوشت پرندوں کا فضلہ نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر لگا ہو تو اس کے ساتھ نماز باطل ہے لیکن اگر خشک ہونے کے بعد بدن یا لباس سے زائل ہوگیا ہے تو نماز صحیح ہے۔
3۔ انسان کا بال، پسینہ اور منہ کا پانی، شہد کا موم، مروارید اور صدف نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر لگا ہو تو نماز میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
4۔ اگر کسی لباس کے بارے میں شک ہو کہ حلال گوشت حیوان کا ہے یا حرام گوشت کا تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
(1) تذکیہ ان شرائط کو کہا جاتا ہے جو اسلام میں حلال گوشت حیوانات کو پاک یا حلال کرنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ حلال گوشت حیوان کا تذکیہ یہ ہے کہ حیوان کے اجزاء کو پاک کرنا اور اس کا گوشت کھانے کے لئے حلال کرنا، حرام گوشت حیوانات کا تذکیہ یہ ہے کہ اس کے اجزاء کو پاک کرنا۔ تذکیہ کے مختلف طریقے ہیں؛ اونٹ کے علاوہ باقی حیوانات کو ذبح کیا جاتا ہے، اونٹ کو نحر اور جنگلی حیوانات کو شکار کرکے تذکیہ کیا جاتا ہے۔
تمرین
1۔ عورتوں کو نماز کے دوران کتنی مقدار میں اپنا بدن چھپانا چاہئے؟ کیا چھوٹے آستین والے لباس اور جوراب پہننا اشکال رکھتا ہے؟
2۔ اگر کوئی عورت نماز کے دوران متوجہ ہوجائے کہ اس کے کچھ بال نکلے ہوئے ہیں اور فورا چھپا لے تو نماز کو دوبارہ پڑھنا چاہئے؟
3۔نماز پڑھنے والے کے لباس کی شرائط کون کونسی ہیں؟
4۔ کن موارد میں نماز پڑھنے والے کا لباس پاک ہونا لازم نہیں ہے؟ بیان کریں۔
5۔ اگر نماز پڑھنے والا خون سے نجس شدہ رومال وغیرہ اٹھائے یا اپنی جیب میں رکھے تو کیا اس کی نماز باطل ہے؟
- سبق 29: نماز پڑھنے والے کا لباس (2)
سبق 29: نماز پڑھنے والے کا لباس (2)
نماز پڑھنے والے کے لباس کی شرائط ((2))۔ جن موارد میں نماز پڑھنے والے کا بدن یا لباس پاک ہونا لازم نہیں
5۔ مرد کا لباس سونے کا نہ ہو
1۔ جو لباس سونے سے بنایا گیا ہو یا اس میں سونا استعمال کیا گیا ہو ، مرد کے لئے اس کو پہننا حرام اور اس میں نماز باطل ہے لیکن عورت کے لئے( نماز اور دیگر) تمام حالات میں کوئی اشکال نہیں رکھتا۔
2۔ مرد وں کے لئے سونے کی زنجیر، انگوٹھی اور ہاتھ کی گھڑی استعمال کرنا حرام ہے اوراحتیاط واجب کی بناپر اس کے ساتھ نماز باطل ہے۔
3۔ اگر کوئی مرد نہیں جانتا ہو یا بھول جائے کہ اس کی انگوٹھی یا لباس سونے کا ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
توجہمردوں کے لئے سونے کا پہننا یا گلے میں ڈالنا حرام ہونے کا معیار یہ نہیں ہے کہ زینت کہا جائے بلکہ کسی بھی حالت میں اور کسی بھی نیت کے ساتھ استعمال کرنا حرام ہےاگرچہ انگوٹھی، چوڑی اور ہار وغیرہ زینت شمار نہ کیا جائے بلکہ عرف میں ازدواجی زندگی کے آغاز کی علامت ہو (تو بھی حرام ہے) اور اگرچہ دوسروں کی نگاہوں سے مخفی ہو، لیکن اس کو ہڈی کے آپریشن اور دندانسازی کے لئے استعمال کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے۔
مردوں کے لئے سونا پہننا حرام ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اس کی مدت کم ہو مثلا نکاح کے دوران یا زیادہ ہو۔
سفید سونا اگر زرد سونا ہو جو کسی مادے کے ساتھ مخلوط کرنے کی وجہ سے سفید ہوا ہو تو زرد سونے کا حکم رکھتا ہے لیکن اگر اس میں سونے کا عنصر اتنا کم ہو کہ عرف میں سونا نہ کہا جائے تو کوئی مانع نہیں ہے۔
پلاٹینم سونا نہیں اور اس کا حکم نہیں رکھتا ہے بنابراین اس کو استعمال کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
6۔ مرد کا لباس خالص ریشم کا نہ ہو
مرد کا لباس یہاں تک کہ وہ لباس بھی جس سے شرم گاہ کو چھپایا نہ جائے مثلا گول والی ٹوپی، جوراب وغیرہ بھی خالص ریشم کا ہوا تو اس کے ساتھ نماز باطل ہے اور مرد کے لئے نماز کے علاوہ بھی اس کو پہننا حرام ہے لیکن اگر ریشم کا رومال وغیرہ نماز پڑھنے والے کے ہمراہ مثلا جیب میں ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے اور نماز باطل نہیں ہوتی ہے۔
تمرین
1۔ کیا مردوں کے لئے زینت کی نیت کے بغیر اس طرح کہ دوسرے نہ دیکھیں، سونے کا استعمال جائز ہے؟
2۔ مردوں کے لئے سفید سونے کی جنس سے بنی انگوٹھی استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟
3۔ اگر نماز پڑھنے والا نماز کے دوران متوجہ ہوجائے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے تو اس کی نمازکا کیا حکم ہے؟
- سبق 30: نماز پڑھنے والے کی جگہ (1)
سبق 30: نماز پڑھنے والے کی جگہ (1)
نماز پڑھنے والے کی جگہ کی شرائط ((1))نماز پڑھنے والے کی جگہ کی شرائط
1۔ مباح ہو (یعنی غصبی نہ ہو)
2۔ متحرک نہ ہو
3۔ ان جگہوں میں سے نہ ہو جہاں ٹھہرنا حرام ہے
4۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام علیہ السلام کی قبر سےآگے کھڑے نہ ہو
5۔ نماز پڑھنے والے کی سجدہ کرنے کی جگہ پاک ہو
6۔ مرد اور عورت کے درمیان نماز کی حالت میں احتیاط واجب کی بناپر کم از کم ایک بالشت فاصلہ ہو
7۔ ہموار ہو
1۔ مباح ہو
1۔ نماز کی جگہ غصبی نہیں ہونا چاہئے۔ غصبی جگہ میں نماز پڑھنا اگرچہ قالین اور پلنگ غصبی نہ ہو پھر بھی باطل ہے۔
2۔ اگر کسی جگہ کا غصبی ہونا معلوم نہ ہو یا فراموش کیا ہو اور نماز پڑھے تو نماز صحیح ہے۔
3۔ اگر کوئی جانتا ہو کہ جگہ غصبی ہے لیکن غصبی جگہ میں نماز باطل ہونے کو نہیں جانتا ہے اور اگر اس جگہ نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے۔
4۔ اگر کوئی دوسرے شخص کے ساتھ کسی چیز کی ملکیت میں شریک ہے چنانچہ ہر ایک کی ملکیت دوسرے سے جدا نہ ہو تو اپنے شریک کی رضایت کے بغیر اس جگہ نماز نہیں پڑھ سکتا ہے۔
توجہجو زمین پہلے وقف ہو اور حکومت نے اس کو قبضے میں لے کر سکول تعمیر کیا ہو اگر ایسا قابل توجہ احتمال دیا جائے کہ مذکورہ قبضے کا شرعی جواز موجود ہے تو اس جگہ میں نماز پڑھنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے اسی طرح بعض سکول جن کو ان کے مالکوں کی رضایت کے بغیر حاصل کیا گیا ہے اگر قابل توجہ احتمال دیا جائے کہ متعلقہ ذمہ داروں نے قانونی اور شرعی جواز کے ساتھ ان زمینوں میں سکول بنانے کے لئے اقدام کیا ہے تو اس میں نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
کوئی شخص حکومتی گھر میں رہتا ہو جس میں رہنے کی مدت اختتام کو پہنچی ہو اور خالی کرنے کا نوٹس بھی دیا گیا ہو اگر متعلقہ ذمہ داروں کی جانب سے مقررہ مدت کے بعد اس گھر کو استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو تو اس شخص کا اس میں تصرف (مثلا نماز پڑھنا) غصب کے حکم میں ہے۔
ان اداروں میں جو پہلے قبرستان تھے، نماز پڑھنا اور دوسرے تصرفات میں کوئی اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ شرعی طریقے سے ثابت ہوجائے کہ جس زمین میں عمارت بنائی گئی ہے وہ مردوں کو دفن کرنے کے لئے وقف ہے اور غیر شرعی طریقے سے اس میں تصرف کرکے عمارت بنائی گئی ہے۔
موجودہ پارک وغیرہ میں نماز پڑھنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے اور صرف غصبی ہونے یا زمینوں کی ملکیت مشخص نہ ہونے کے احتمال کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی۔
جس زمین کا مالک حکومت کی طرف سے اس پر قبضے پرراضی نہ ہو اور اس زمین میں نماز پڑھنے وغیرہ کے بارے میں اپنی ناراضگی کا اعلان کرچکا ہو تو اگر شرعی مالک سے اس زمین کو قبضے میں لینا مجلس شورای اسلامی (پارلیمنٹ) کے ذریعے منظور شدہ قانون کے مطابق اورشورای نگہبان (گارڈین کونسل) کی تائید کے ساتھ ہو تو اس جگہ میں نماز پڑھنےاور دوسرے تصرفات میں کوئی اشکال نہیں ہے
وہ کمپنیاں اور ادارے جن کا اختیار حکومت کے ہاتھ میں ہے اور شرعی عدالت کے ذریعے ان کے مالکوں سے قبضے میں لیا گیا ہو چنانچہ احتمال دیا جائے کہ قبضے کا حکم دینے والاقاضی قانونی طور پر صلاحیت رکھتا ہو اور شرعی اور قانونی تقاضوں کے مطابق قبضے کا حکم دیا ہے تو اس کا عمل شرعی طور پر صحیح ہونے کے حکم میں ہے اور اسی بناپر اس جگہ میں نماز پڑھنا اور دیگر تصرفات جائز ہیں اور اس پر غصب ہونے کا حکم جاری نہیں ہوگا۔
جن جگہوں کو ظالم حکومت نے قبضے میں لیا ہو اگر غصب پر علم ہوتو غصبی چیز کے احکام اور آثار اس پر لاگو ہوں گے (بنابراین اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے)
تمرین
1۔ نماز پڑھنے والے کی جگہ کی شرائط بیان کریں۔
2۔ اگر کوئی غصبی زمین میں جائے نماز یا لکڑی وغیرہ پر نماز پڑھے تو صحیح ہے یا باطل؟
3۔ اگر کوئی شخص حکومتی گھر میں رہتا ہو جس میں قیام کی مدت ختم اور خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا ہو تو مقررہ مدت کے بعد اس کی نمازوں کو کیا حکم ہے؟
4۔ جس زمین کا مالک حکومت کے ذریعے اس پر قبضے پر راضی نہ ہو اور اس میں نماز پڑھنے وغیرہ کی نسبت اپنی ناراضگی کا اعلان کرچکا ہو تو اس میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
5۔ جن جگہوں کو ظالم حکومت غصب کرتی ہے، ان میں بیٹھنا، نماز پڑھنا یا گزرنا جائز ہے یا نہیں؟
- سبق 31: نماز پڑھنے والے کی جگہ (2)
سبق 31: نماز پڑھنے والے کی جگہ (2)
نماز پڑھنے والے کی جگہ کی شرائط ((2))2۔ متحرک نہ ہو
نماز پڑھنے والے کی جگہ متحرک نہ ہو یعنی اس طرح ہو کہ نماز پڑھنے والاحرکت کے بغیر اور آرام سے نماز پڑھ سکے بنابراین جہاں بے اختیار بدن کو حرکت آئے مثلا گاڑی اور ریل چلتے ہوئے یا سپرنگ والے بیڈوغیرہ پر نماز صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ وقت کی کمی یا کسی اور وجہ سے ایسی جگہ نماز پڑھنے پر مجبور ہو۔
توجہشہروں کے درمیان چلنے والی بسوں میں سفر کرنے والوں کو نماز کا وقت ختم ہونے کا خوف ہوتو واجب ہے کہ ڈرائیور سے کسی مناسب جگہ بس کو روکنے کی درخواست کریں اور ڈرائیور پر بھی ان کی بات ماننا واجب ہے۔ اگر کسی قابل قبول عذر یا بغیر کسی دلیل کے بس کو روکنے سے اجتناب کرے تو مسافروں پر واجب ہے کہ اگر وقت ختم ہونے کا خوف ہو تو حرکت کی حالت میں بس کے اندرنماز پڑھیں اورحتی الامکان قبلے کی سمت، قیام، رکوع اور سجود کی رعایت کریں۔
وہ شخص کہ جس کو کشتی کے ساتھ ڈیوٹی پر بھیجا جاتا ہے اگر نماز کا وقت ہوجائے اور اسی وقت نماز نہ پڑھے تو وقت کے اندر نماز پڑھنے کا ٹائم نہ ملتا ہو تو واجب ہے کہ اسی وقت جس طرح ممکن ہو نماز پڑھے اگر اسی کشتی کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔
3۔ ایسی جگہ نہ ہو جہاں بیٹھناحرام ہو
نماز پڑھنے والے کی جگہ ایسی نہ ہو جہاں ٹھہرنا حرام ہو مثلا انسان کی جان کو حقیقی خطرہ ہو اسی طرح وہ جگہ اس نوعیت کی نہ ہو جہاں کھڑا ہونا یا بیٹھنا حرام ہو مثلا قالین جس کی ہر جگہ خدا کا نام یا قرآنی آیات تحریر ہوں۔
4۔ پیغمبر ﷺ اور امام ؑ کی قبر کے آگے نہ ہو
نماز پڑھتے وقت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام علیہ السلام کی قبر سے آگے کھڑے نہ ہو لیکن برابر میں کھڑا ہوجائے تو کوئی اشکال نہیں۔
5۔ سجدے کی جگہ پا ک ہو
نماز پڑھنے والے کے سجدے کی جگہ پاک ہو۔ اگر پیشانی کے علاوہ دوسرے اعضاء رکھنے کی جگہ نجس ہو چنانچہ اس کی نجاست بدن یا لباس تک سرایت نہ کرے تو کوئی اشکال نہیں اور نماز صحیح ہے۔
6۔ احتیاط واجب کی بناپر نماز کی حالت میں مرد اور عورت کے درمیان کم از کم ایک بالشت فاصلہ ہو
احتیاط واجب کی بناپر نماز کی حالت میں مرد اور عورت کے درمیان کم از کم ایک بالشت فاصلہ ہونا چاہئے اس صورت میں اگر مرد اور عورت ایک دوسرے کے برابر یا عورت مرد سے آگے کھڑی ہوجائے تو دونوں کی نماز صحیح ہے ۔
7۔ ہموار ہو
لازم ہے کہ نماز پڑھنے والے کی پیشانی رکھنے کی جگہ اس کے دونوں زانوؤں اور پاؤں کے انگوٹھےرکھنے کی جگہ سے ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ اوپر یا نیچے نہ ہو۔
نماز پڑھنے والے کی جگہ کے بارے میں دو نکتہ
واجب نماز کو خانہ کعبہ کے اندر بجالانا مکروہ ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی چھت پر نماز نہ پڑھے۔
جن سجادوں پر تصویریں موجود ہوں یا جس سجدہ گاہ پر نقش ہو اس پر نماز پڑھنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے لیکن اگر اس طرح ہو کہ شیعوں پر تہمت لگانے کا بہانہ مل جائے تو ان کو بنانا اور ان پر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اور اسی طرح اگر توجہ ہٹنے اور نماز میں حضور قلب کے ختم ہونے کا باعث ہو تو مکروہ ہے۔
تمرین
1۔ جن جگہوں میں بے اختیار بدن ہلتا ہے مثلا گاڑی، نماز کا کیا حکم ہے؟
2۔ اگر نماز پڑھنے والے کی جگہ پاک نہ ہو لیکن سجدے کی جگہ پاک ہو تو کیا نماز صحیح ہے؟
3۔ جس قالین پرہر جگہ خدا کا نام یا قرآنی آیات تحریر ہیں، نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
4۔ کیا نماز کے دوران مردوں کو ہر صورت میں عورتوں سے آگے کھڑے ہونا چاہئے؟
5۔ خانہ کعبہ کے اندر واجب نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
6۔ جس سجادے پر تصویر ہو یا جس مہر پر نقش موجود ہو، نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
- سبق 32: مسجد کے احکام (1)
سبق 32: مسجد کے احکام (1)
مسجد کے بارے میں حرام احکام1۔ مسجد کو نجس کرنا
2۔ مسجد کو سونے سے تزئین کرنا اس صورت میں جب اسراف شمار کیا جائے
3۔ مسجد کی شان اور اور حرمت کے برخلاف کاموں کو انجام دینا
4۔ کفار کا مسجد میں داخل ہونا
5۔ مسجد کو خراب کرنا
6۔ مسجد کے وقف کی کیفیت کے برخلاف عمل کرنا
1۔ مسجد کو نجس کرنا
مسجد کی زمین، دیوار اوراندرونی و بیرونی چھت کو نجس کرنا حرام ہے اگر نجس ہوجائے تو اس کو فوراپاک کرنا واجب ہے۔
توجہوہ مسجد جس کو غصب یا توڑدیا گیا ہو اور اس کی جگہ دوسری عمارت بنائی گئی ہو یا متروک ہونے کی وجہ سے مسجد کے آثار مٹ گئے ہوں اور دوبارہ تعمیر کی امید بھی نہ ہومثلا آبادی منتقل ہوگئی ہو تو اس کو نجس کرنا حرام نہیں اگرچہ احتیاط مستحب ہے کہ اس کو نجس نہ کریں۔
2۔ مسجد کو سونے سے تزئین کرنا اس صورت میں جب اسراف شمار کیا جائے
اگر مسجد کو سونے سے تزئین کرنا اسراف شمار کیا جائے تو حرام ہے اور اس صورت کے علاوہ بھی مکروہ ہے۔
3۔ مسجد کی شان اور اور حرمت کے برخلاف کاموں کو انجام دینا
مسجد کے مقام و منزلت کی رعایت کرنا واجب ہے اور اس کی شان کے منافی کاموں کو انجام دینے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
4۔ کفار کا مسجد میں داخل ہونا
مسلمانوں کی مسجد میں کفار کاداخل ہونا جائز نہیں ہے اگرچہ تاریخی آثار دیکھنے کی غرض سے ہی کیوں نہ ہو، مسجد حرام ہو یا دوسری مساجد، ان کا اندر داخل ہونا مسجد کی بے حرمتی شمار ہوجائے یا نہ ہوجائے۔
5۔ مسجد کو خراب کرنا
پوری مسجد یا اس کے کسی حصے کو خراب کرنا جائز نہیں ہے مگر اس صورت میں جب کوئی مصلحت درکار ہو جس کو اہمیت نہ دینا یا نظرانداز کرنا ممکن نہ ہو۔
توجہ
مسجد کو خراب کرنے سے وہ مسجد ہونے سے خارج نہیں ہوتی ہے اس لحاظ سے مسجد کے شرعی آثار اس پر مرتب ہوں گے مگر ایسی مسجد جو خراب اور متروک ہو اور اس کی جگہ دوسری عمارت تعمیر کی گئی ہو یا متروک رہنے کی وجہ سے مسجد کے آثار مٹ گئے ہوں اور اس کی تعمیر نو کی بھی کوئی امید نہ ہو بنابراین وہ زمین جو مسجد کی صحن ہو اور مسجد شہری حکومت کے تعمیراتی منصوبے کے تحت سڑک میں آجائے اور ضرورت کی وجہ سے اس کا ایک حصہ خراب کیا گیاہو چنانچہ اگر پہلی حالت میں واپس آنے کا کوئی احتمال نہ ہو تو مسجد کے شرعی احکام جاری نہیں ہوں گے۔
6۔ مسجد کو وقف کرنے کی کیفیت کے خلاف عمل کرنا
1۔ مسجد کو وقف کرنے کی کیفیت کی مخالفت یا اس کو تبدیل اور تغییر کرنا جائز نہیں ہے بنابراین
مسجدکو فلموں کی نمائش گاہ بنانا جائز نہیں لیکن اگر مذہبی اور انقلابی فلموں کی نمائش جو مفید مطالب اور مخصوص مناسبت کی وجہ سے سبق آموز، ضرورت کے مطابق اور امام جماعت کی نگرانی میں ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے۔
2۔ علمی کلاسز اور اس جیسے دیگر کام کرنا اگر مسجد کی شان کے خلاف نہ ہو اور نماز جماعت اور نمازیوں کے لئے زحمت ایجاد نہ کرے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
3۔ مسجد کی سہولیات مثلا بجلی اورساؤنڈ سسٹم وغیرہ سے مرحومین کے ایصال ثواب کی مجلس وغیرہ کے لئے استفادہ کرنے کا جواز مسجد کے لئے ان سہولیات کے وقف اور نذر کی کیفیت پر منحصر ہے۔
4۔ مسجد کی شبستان کے کونے میں لائبریری یا عجائب گھر وغیرہ بنانا اگر اس شبستان کے وقف کی کیفیت سے تضاد رکھتا ہو یا مسجد کی عمارت میں تبدیلی کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس کام کےلئے مسجد کے ساتھ ایک مکان تیار کیا جائے۔
5۔ اگر مسجد کی صحن میں مسجد کے شرعی احکام سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے کمرے تعمیر کریں تو ان کو خراب کرکے صحن کو پہلی حالت میں لائے اسی طرح اگر کوئی جگہ پہلے مسجد تھی اور مسئلے سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے چائے کا کمرہ وغیرہ تعمیر کیا جائے تو اس جگہ کو مسجد کی حالت میں واپس لانا واجب ہے۔
6۔ مسجد میں میت کو دفن کرنا جائز نہیں ہے اور میت وصیت کرے کہ اس کو مسجد میں دفن کریں تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے مگر یہ کہ وقف کا صیغہ جاری کرتے ہوئے میت دفن کرنے کو مستثنی کیا گیا ہو۔
7۔ مسجد کے زیرزمین حصے کو تین شرائط کے ساتھ کرایے پر دے سکتے ہیں؛
1۔ مسجد کا عنوان صدق نہیں آتا ہو
2۔ تعمیرات کا جزو نہ ہو جس کی مسجد کو ضرورت ہو
3۔ اس کاوقف وقف انتفاع نہ ہو(منفعت کا وقف ہو)
تمرین
1۔ مسجد کے حرام احکام بیان کریں۔
2۔ کیا مسجد کے اندر کھیل کی مشق کرنا جائز ہے؟
3۔ کیا ائمہ معصومینؑ کی ولادت کے موقع پر مسجد سے فرحت بخش موسیقی جاری کرنے میں شرعا اشکال ہے؟
4۔ کیا کفار کا مسجد میں داخل ہونا شرعا جائز ہےاگرچہ تاریخی آثار دیکھنے کےلئے آئے ہوں؟
5۔ بجلی اور ساؤنڈ سسٹم جیسے مسجد کی سہولیات سے مرحومین کی مجلس ترحیم کے لئے استفادہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
6۔ کیا مسجد کے زیرزمین حصے کو اس کی شان کے مناسب کام کے لئے کرایے پر دینا جائز ہے؟
- سبق 33: مسجد کے احکام (2)
سبق 33: مسجد کے احکام (2)
مسجد کے مستحب احکام
2۔ مسجد کے مستحب احکام
1۔ مسجد کو صاف اور آباد کرنا
2۔ مسجد میں جانے کے لئے عطر لگانا اور پاک و صاف کپڑے پہننا
3۔ جوتے اور پاؤں کو نجاست اور کثافت سے آلودہ ہونے سے محفوظ رکھنا
4۔ مسجد میں سب سے پہلے جانا اور سب سے آخر میں نکلنا
5۔ مسجد میں داخل اور خارج ہوتے وقت زبان پر ذکر اور دل میں خضوع رکھنا
6۔ مسجد میں داخل ہونے کے بعد تحیت مسجد کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھنا
مسجد کے احکام کے بارے میں چند نکات
مسجد میں سونا مکروہ ہے
مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت مردوں سے مخصوص نہیں بلکہ عورتوں کو بھی شامل کرتی ہے۔
نماز جماعت کی خاطر محلے کی مسجد کو چھوڑ کر دوسری مسجد مخصوصا شہر کی جامع مسجد میں جانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
توجہجامع مسجد وہ مسجد ہے جو شہر کے کسی خاص گروہ یا طبقے سے مخصوص کئے بغیر تمام لوگوں کے اجتماع کے لئے بنائی گئی ہو
عوامی تعمیراتی ادارے جو رہائشی مکانات تعمیر کرتے ہیں اور ابتدا میں محلوں میں عمومی عمارتیں مثلا مسجد بنانے پر اتفاق کرتے ہیں لیکن ادارے کے بعض حصہ دار رہائشی مکانات کو تحویل میں لیتے وقت اپنی بات سے منحرف ہوکر کہتے ہیں کہ ہم مسجد بنانے پر راضی نہیں ہیں چنانچہ اگر مسجد بنانے اور وقف کرنے کے بعد منحرف ہوجائیں تو کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن اگر مسجد کا شرعی وقف ثابت ہونے سے پہلے ہو تو زمین جن لوگوں سے تعلق رکھتی ہے ان سب کی رضایت کے بغیران کے اموال سے مسجد بنانا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کسی عقد لازم کے ضمن میں ان سب پر شرط رکھی گئی ہو کہ ادارے کی زمین کا ایک حصہ مسجد بنانے کے لئے مخصوص ہوگی اور اعضاء نے بھی اس شرط کو قبول کیا ہو تو اس صورت میں منحرف ہونے کا حق نہیں رکھتے ہیں اور ان کا منحرف ہونا کوئی اثر بھی نہیں رکھتا ہے۔
جس مسجد کو تعمیر نو کی ضرورت ہو اگر تعمیر کا کام رضاکارانہ اور مفت میں (کسی مخیر شخص کے مال سے) ہو تو حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
کفار کے ذریعے بنائی گئی مسجد میں نماز پڑھنے اور اسی طرح کفار مسجد بنانے کے لئے رضاکارانہ مالی مدد کریں تو اس کو لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسجد کے سامان اور لوازمات کواگر اس میں استعمال نہیں کیا جاتا ہو تو دوسری مساجد کے استعمال کے لئے لے جانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
عزاخانے اور امام بارگاہ مسجد کا حکم نہیں رکھتے ہیں۔
جس امام بارگاہ کو امام بارگاہ کے طور پر شرعی لحاظ سے صحیح طرح وقف کیا گیا ہو اس کو مسجد کی حیثیت سے مسجد کے ساتھ ضم کرنا جائز نہیں ہے۔
توجہکسی امامزادے ؑ کے مرقد کے لئے نذر شدہ اجناس اور قالین کو محلے کی جامع مسجد میں استعمال کرنا چنانچہ امامزادہ کے مرقد اوراس کے زائرین کی ضرورت سے زائد ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے۔
تمرین
1۔ مسجد کے مستحب احکام کو بیان کریں۔
2۔ مسجد میں سونے کا کیا حکم ہے؟
3۔ عورتوں کے لئے مسجد میں نماز پڑھنا بہتر ہے یا گھر میں؟
4۔ جامع مسجد کی تعریف کریں۔
5۔ اگر مسجدکی تعمیر نو کی ضرورت ہو تو حاکم شرع یا اس کے وکیل سے اجازت لیناواجب ہے؟
6۔ حضرت ابوالفضل عباس ؑ وغیرہ کے نام سے تعمیر ہونے والے عزاخانے مسجد کا حکم رکھتے ہیں یا نہیں؟
- سبق 34: قبلہ
سبق 34: قبلہ
قبلہ کے احکام1۔ قبلہ کے احکام
1۔ مسلمان کو چاہئے کہ نماز کو کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھے اس لحاظ سے اس کو قبلہ کہتے ہیں البتہ جو لوگ دور ہیں ان کے لئے حقیقی محاذات (رو برو ہونا) ممکن نہیں اور اتنا کافی ہے لوگ کہیں کہ قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہا ہے۔
توجہقبلے کی طرف رخ کرنے کا معیار یہ ہے کہ انسان کرہ ارض کی سطح سے بیت عتیق (کعبہ) کی طرف ہو یعنی سطح زمین کی طرف سے کعبہ جوکہ مکہ مکرمہ میں بنایا گیا ہے، کی طرف رخ کرکے کھڑےہوجائے بنابراین اگر انسان کرہ ارض کے ایسے مقام پر ہو جہاں سے چاروں طرف سے مکہ کی طرف مستقیم خطوط کھینچیں تو مسافت کے اعتبار سے مساوی ہوں تو قبلہ کے لئے جس طرف چاہے رخ کرکے نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر خطوط کی مسافت بعض اطراف میں کم اور اس قدر نزدیک ہو کہ اس مقدار کے ساتھ عرفا رو بقبلہ ہونے میں اختلاف ہوجائے تو انسان پر واجب ہے کہ کم تر والی سمت کو انتخاب کرے۔
مستحب نمازوں کو راستے میں چلتے ہوئے یا سواری کی حالت میں پڑھ سکتے ہیں اور اس صورت میں لازم نہیں ہے کہ نماز کو روبقبلہ ہوکر بجالائیں۔
2۔ نمازپڑھنے والے کو قبلے کی سمت کے بارے میں یقین یا اطمینان ہونا چاہئے؛ چاہے صحیح اور معتبر قبلہ نما کے ذریعے ہو یا سورج اور ستاروں کے طلوع اور تابش (اس صورت میں جب اس سے استفادہ کرنا چانتا ہو) یا دیگر ذرائع سے ہو۔ اگر اطمینان پیدا نہ کرسکے تو جس طرف زیادہ گمان ہو اسی سمت نماز پڑھے مثلا محراب مسجد سے گمان ہوجائے۔
3۔ اگر قبلے کی سمت معلوم کرنے کے لئے کوئی راہ نہ ہو اور کسی سمت گمان بھی نہ ہو تو احتیاط واجب کی بناپر چاروں طرف رخ کرکے نماز پڑھے اور چار نماز پڑھنے کا وقت نہ ہو تو جتنا وقت ہے اس کے مطابق نماز پڑھے۔
4۔ جس شخص کو قبلے کی سمت کے بارے میں یقین نہ ہو قبلے کی طرف رخ کرکے انجام دینے والے باقی کاموں مثلا حیوانات کو ذبح کرنا وغیرہ میں بھی اپنے گمان پر عمل کرے۔ اگر کسی بھی طرف گمان نہ جائے تو جس طرف بھی رخ کرکے انجام دے صحیح ہے۔
توجہقبلے کی سمت کی تعیین کے لئے شاخص یا قبلہ نماز پر اعتماد کرنا چنانچہ مکلف کے لئے باعث اطمینان ہوتو صحیح ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے ۔ اس صورت کے علاوہ جس طرف زیادہ گمان ہو نماز پڑھنا چاہئے۔
قبلے کی تشخیص کے لئے شاخص کو استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مئی کی اٹھائیسویں اور جولائی کی سولہویں تاریخ کو ظہر کے وقت جب مکہ کی افق پر سورج عمودی حالت میں کعبہ پر چمکتا ہے(وہ وقت جب مکہ سے اذان کی صدا بلند ہوتی ہے) سیدھی لکڑی یا چھڑی وغیرہ کو ہموار زمین میں عمودی سمت میں ڈال دیں شاخص کا سایہ جس سمت کو دکھائے قبلہ کی سمت ہے (یعنی قبلے کی سمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
تمرین
1۔ روبہ قبلہ ہونے کا معیار کیا ہے؟
2۔ راستے میں چلتے ہوئے یا سواری کی حالت میں مستحب نماز پڑھیں تو کیا قبلہ کی رعایت لازم ہے؟
3۔ اگر نماز پڑھنے والا قبلہ کی سمت کے بارے میں مطمئن نہ ہوتو اس کا کیا وظیفہ ہے؟
4۔ اگر انسان ایسی کیفیت میں ہوکہ کسی بھی طرح قبلہ کی سمت معلوم نہ ہواور کسی بھی سمت کے بارے میں گمان نہ ہوجائے تو کسی طرف نماز پڑھنا چاہئے؟
5۔ کیا قبلہ نما پر اعتماد کرنا صحیح ہے؟
6۔ قبلہ کی تشخیص کے لئے شاخص سے استفادہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟
- سبق 35: یومیہ نمازیں (1)
سبق 35: یومیہ نمازیں (1)
یومیہ نمازوں کی اہمیت۔ یومیہ نمازوں کی تعداد۔ یومیہ نمازوں کے اوقات1۔ یومیہ نمازوں کی ا ہمیت
1. پانچ وقت پڑھی جانے والی یومیہ نمازیں اسلامی شریعت کے نہایت اہم واجبات میں سے بلکہ دین کا ستون ہیں اور نماز کو ترک کرنا یا حقیر سمجھنا شرعا حرام اور عقاب کے مستحق ہونے کا باعث ہے۔
2۔ نماز کو کسی بھی صورت میں ترک نہیں کیا جاسکتا حتی جنگ کی حالت میں بھی بنابراین اگر کوئی مجاہد شدید جھڑپ کی وجہ سے سورہ فاتحہ پڑھنے یا سجدہ یا رکوع کرنے سے قاصر ہوتو ہر ممکن طریقے سے نماز پڑھے اور اگر رکوع اور سجدہ کرنے پر قادر نہ ہوتو رکوع اور سجدے کے بجائے اشارہ کرنا کافی ہے۔
2۔ یومیہ نمازوں کی تعداد
یومیہ واجب نمازیں
1۔ نماز صبح : دو رکعت
2۔ نماز ظہر: چار رکعت
3۔ نماز عصر : چار رکعت
4۔ نماز مغرب: تین رکعت
5۔ نماز عشا: چار رکعت
توجہ
سفر میں چار رکعت والی نمازیں (ظہر، عصر اور عشا) دو رکعت پڑھی جاتی ہیں جس کی خصوصیات اور احکام بیان کئے جائیں گے{ ان شاء اللہ}
3۔ یومیہ نمازوں کے اوقات
1۔ نماز صبح کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے۔
2۔ نماز صبح کے وقت کا شرعی معیار صبح صادق[1] ہے (کاذب نہیں) یہ کام مکلف کی اپنی تشخیص پر منحصر ہے۔
3۔ طلوع فجر (صبح کے فریضے کا وقت) ہونے میں چاندنی رات اور دیگر راتوں میں کوئی فرق نہیں اگرچہ بہتر ہے کہ چاندنی راتوں میں نماز پڑھنے والا اتنا صبر کرے کہ صبح کی سفیدی رات کی چاندنی پر غالب آئے اور اس کے بعد نماز پڑھے۔
2۔ نماز ظہر کا وقت
نماز ظہر کا وقت ظہر کی ابتدا (یعنی جب سورج پوری طرح اوپر آنے کی وجہ سے ہر چیز کا سایہ کم ہوجائے اور دوبارہ مشرق کی طرف بڑھنے لگے) سے لے کر اس وقت تک ہے جب تک غروب آفتاب میں صرف نماز عصر پڑھنے کا وقت باقی بچ گیا ہو۔
3نماز عصر کا وقت
نماز عصر کا وقت اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب ظہر کے وقت سے اتنا گزر گیا ہو جس میں نماز ظہر پڑھ سکے اس کے بعد غروب آفتاب تک ہے۔
4۔ نماز مغرب کا وقت
نماز مغرب کا وقت آسمان میں غروب آفتاب کے بعد مشرق کی طرف سے پیدا ہونے والی سرخی ختم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے جب آدھی رات ہونے میں اتنا وقت باقی ہو جس میں فقط نماز عشاء پڑھ سکیں۔
توجہغروب آفتاب اور حمرہ مشرقیہ کے زوال(غروب آفتاب کے بعد مشرق کی طرف نمودار ہونے والی سرخی ختم ہونے) میں سال کے مختلف موسم کے مطابق اختلاف ہوتا ہے۔
5۔ نماز عشا کا وقت
نماز عشا کا وقت نماز مغرب کے اول وقت سے اتنا گزرجائے جس میں نماز مغرب پڑھ سکے اس کے بعد آدھی رات تک ہے۔
توجہ(نماز مغرب و عشا کے لئے ) آدھی رات غروب آفتاب اور صبح صادق کا درمیانی فاصلہ ہے بنابراین ظہر شرعی کے بعد تقریبا گیارہ گھنٹے اور پندہ منٹ نماز مغرب وعشا کا آخری وقت ہے۔
تمرین
1۔ جو شخص نماز کو عمدا ترک کرے یا حقیر سمجھے اس کا کیا حکم ہے؟
2۔ کیا چاندنی راتوں میں نماز صبح پڑھنے کے لئے پندہ سے بیس منٹ تک انتظار کرنا چاہئے؟
3۔ سورج کا نور زمین تک پہنچنے میں تقریبا آٹھ منٹ لگتے ہیں بنابراین نماز صبح کا وقت ختم ہونے کا معیار طلوع آفتاب ہے یا اس کا نور زمین پر پہنچنا؟
4۔ نماز عصر کا وقت مغرب کی اذان تک ہے یا غروب آفتاب تک؟
5۔ غروب آفتاب اور اذان مغرب کے درمیان کتنے منٹ کا فاصلہ ہوتا ہے؟
6۔ نماز عشا کے لئے آدھی رات کا وقت کیا ہے؟
[1] صبح صادق صبح کاذب کے مقابلے میں ہے۔ صبح کاذب اس سفیدی کو کہتے ہیں جو صبح صادق سے پہلے آسمان میں ظاہر ہوتی ہے اور افق پر پھیلنے کے بجائے عمودی شکل میں اوپر کی طرف منعکس ہوتی ہے۔ صبح صادق اس وقت ہوتی ہے جب سفیدی افق کی سطح کے ساتھ متصل اور کم روشنی کے ساتھ افق پر پھیل جائےاور وقت گزرنے کے ساتھ اس کی روشنی میں اضافہ ہوجائے۔ چونکہ صبح صادق باریک ہوتی ہے لہذا اس کو مشاہدہ کرنے کے لئے مشرق کا افق پوری طرح کھلا اور مکمل تاریک ہونا چاہئے جو شہروں کے اندر نہایت مشکل ہے۔ چونکہ طلوع فجر کو واضح اور دقیق تشخیص دینا سخت ہے لہذا احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے اذان شروع ہونے کے دس منٹ بعد صبح کی نماز ادا کی جائے۔
- سبق 36: یومیہ نمازیں (2)
سبق 36: یومیہ نمازیں (2)
اوقات نماز کے احکام۔ نمازوں کے درمیان ترتیب4۔ اوقات نماز کے احکام
1۔ نماز کےوقت کو معلوم کرنے کے طریقے
1۔ انسان کو خود وقت داخل ہونے پر یقین یا اطمینان ہوجائے
2۔ دو عادل مرد وقت داخل ہونے کی خبر دیں۔
3۔ موثق اور وقت شناس موذن اذان دے۔
توجہ
جب تک نماز کا وقت شناخت کرنے کےطریقوں میں سے کوئی ایک ثابت نہ ہوجائے نماز شروع کرنا جائز نہیں ہے۔
اگر نماز کا وقت داخل ہونے کا یقین ہوجائے اور نماز شروع کرے اور نما زکے دوران شک کرے کہ وقت داخل ہوا ہے یا نہیں تو اس کی نماز باطل ہے لیکن اگر نماز کے دوران وقت داخل ہونے پر یقین ہو اور شک کرے کہ جتنی نماز پڑھی ہے وہ وقت کے اندر پڑھی ہے یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے۔
2۔ دخول وقت ثابت ہونے کا معیار مکلف کے لئے اطمینان حاصل ہونا ہے بنابراین
1۔ اجتماعی ذرائع ابلاغ جو ایک دن پہلے اوقات شرعی کا اعلان کرتے ہیں چنانچہ اگر مکلف کے لئے وقت داخل ہونے پر اطمینان پیدا ہوجائے تو ان پر اعتماد کرسکتے ہیں۔
2۔ اگر اذان شروع ہونے کی وجہ سے مکلف کو اطمینان ہوجائے کہ نماز کا وقت داخل ہوگیا ہے تو اذان ختم ہونے تک صبر کرنا لازم نہیں اور نماز کو شروع کرسکتا ہے[1]۔
3۔ مکلف کو چاہئے کہ یومیہ نمازوں کے اوقات کے بارے میں (حتی کہ قطب کے نزدیک علاقوں میں بھی) اپنی سکونت کے علاقے کے افق کی رعایت کرے۔
4۔ دو علاقوں کا صرف طلوع فجر یا زوال آفتاب یا غروب آفتاب میں برابر ہونا اس بات کا مستلزم نہیں ہے کہ دوسرے اوقات کی مقدار میں بھی برابر ہوں بلکہ غالبا ان تین اوقات میں شہروں کے درمیان فرق بھی مختلف ہے مثلا اگر دو صوبوں کے درمیان ظہر کے وقت میں پچیس منٹ کا فرق ہو تو نماز صبح اور نماز مغرب میں یہ فرق بدل جاتا ہے (ممکن ہے کہ پچیس منٹ سے کم یا زیادہ کا فرق ہوجائے)۔
5۔ اگر کسی کے پاس ایک رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہے تو نماز کو ادا کی نیت سے پڑھنا چاہئے لیکن نماز کو عمدا اس وقت تک تاخیر نہیں کرنا چاہئے اور اگر کم از کم ایک رکعت نماز کا وقت ہونے یا نہ ہونے میں شک کرے تو نماز کو مافی الذمہ کی نیت سے بجالانا چاہئے۔
6۔ دو نمازوں (ظہر و عصر یا مغرب و عشا) کا وقت داخل ہونے کے بعد مکلف کو اختیار ہے کہ دونوں نمازوں کو پے در پے ایک ساتھ پڑھے یا ہر نماز کو اس کے وقت فضیلت میں پڑھے۔
7۔ مستحب ہے کہ انسان نماز کو اول وقت میں بجالائے اور اس کے بارے میں اسلامی دستورات میں زیادہ سفارش کی گئی ہے اور اگر اول وقت میں نہ پڑھ سکے تو بہتر ہے جس قدر اول وقت سے نزدیک ہو پڑھے مگر یہ کہ نماز کو تاخیر کرنا کسی وجہ سے بہتر ہو مثلا جماعت کے ساتھ پڑھنا چاہے۔
8۔ اگر قرض خواہ اپنے قرض کا مطالبہ کرے چنانچہ انسان کے لئے ممکن ہے تو پہلے اپنا قرضہ ادا کرے اس کے بعد نماز پڑھے اسی طرح ہے کہ کوئی اور کام پیش آئے جو فورا انجام دینا واجب ہو البتہ نماز کا وقت تنگ ہونے کی صورت میں پہلے نماز پڑھنا چاہئے۔
5۔ نمازوں کے درمیان ترتیب
1۔ نماز ظہر اور عصر کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے یعنی پہلے نماز ظہر اس کے بعد نماز عصر اسی طرح نماز مغرب اور عشا کے درمیان بھی ترتیب کی رعایت کرنا چاہئے اور اگر عمدا نماز عصر کو نماز ظہر سے پہلے یا عشا کو مغرب سے پہلے پڑھے تو باطل ہے۔
2۔ اگر کوئی اشتباہ یا غفلت کی وجہ سے دوسری نماز کو پہلے پڑھے مثلا نماز عشا کو نماز مغرب سے پہلے پڑھے اور نماز تمام ہونے کے بعد متوجہ ہوجائے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
3۔ اگر نماز ظہر کی نیت سے نماز میں مشغول ہوجائے اور نماز کے دوران یاد آئے کہ پہلے نماز ظہر پڑھی ہے تو اس نماز کو توڑنا چاہئے اور اس کے بعد نماز عصر کو پڑھے اسی طرح نماز مغرب و عشا میں بھی (یہی حکم ہے)
4۔ اگر نماز ظہر کو پڑھنے کے خیال سے عصر کی نیت سے نماز میں مشغول ہوجائے اور نماز کے دوران متوجہ ہوجائے کہ نماز ظہر نہیں پڑھی ہے چنانچہ نماز ظہر اور عصر کا مشترک وقت ہے تو فورا نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹا دے اور نماز کو تمام کرے اور اس کے بعد نماز عصر کو بجالائے اور اگر نماز ظہر کا مخصوص وقت ہے تو بنابراحتیاط واجب نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹا دے اور نماز کو تمام کرے لیکن بعد میں دونوں نمازوں (ظہر و عصر) کو ترتیب کے ساتھ بجالائے۔
5۔ اگر اس خیال سے کہ نماز مغرب پڑھی ہے، نماز عشاء میں مشغول ہوجائے اور نماز کے دوران غلطی کی طرف متوجہ ہوجائے چنانچہ نماز مغرب و عشاء کا مشترک وقت ہے اور چوتھی رکعت کے رکوع میں نہیں پہنچا ہے تو نماز مغرب کی نیت کرے اور نماز کو پورا کرے اور اس کے بعد نماز عشاء پڑھے۔ اگر چوتھی رکعت کے رکوع میں پہنچا ہے تو احتیاط کی بناپر نماز تمام کرے اس کے بعد مغرب اور عشاء کی نماز کو ترتیب کے ساتھ بجالائے۔ اسی طرح اگر مغرب کا مخصوص وقت ہے اور چوتھی رکعت کے رکوع میں نہیں پہنچا ہے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ مغرب کی نیت کرے اور نماز کو تمام کرے اس کے بعد دونوں نمازوںکو ترتیب کے ساتھ بجالائے۔
تمرین
1۔ نماز کا وقت معلوم کرنے کے طریقے کون کونسے ہیں؟
2۔ اذان شروع ہوتے ہی نماز کا وقت ہوجاتا ہے یا اذان ختم ہونے تک صبر کرکے اس کے بعد نماز شروع کرنا چاہئے؟
3۔ کیا مختلف صوبوں کے درمیان افق مختلف ہونے کی وجہ سے شرعی اوقات میں ہونے والااختلاف تینوں نمازوں میں ایک جیسا ہے؟
4۔ نماز کی کتنی مقدار وقت کے اندر ہوتو ادا کی نیت کرنا صحیح ہے؟ اگر اس مقدار کے وقت کے اندر ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں شک ہوجائے تو کیا وظیفہ ہے؟
5۔ اگر نماز ظہر کی نیت سے نماز میں مشغول ہوجائے اور نماز کے درمیان یاد آئے کہ نماز ظہر پہلے پڑھ چکا ہے تو کیا حکم ہے؟
6۔ اگر کوئی نماز عشا کے دوران متوجہ ہوجائے کہ نماز مغرب نہیں پڑھی ہے تو کیا حکم ہے؟
[1] البتہ چنانچہ پہلے کہا گیا کہ نماز صبح کے بارے میں احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے اذان شروع ہونے کے تقریبا دس منٹ بعد نماز صبح پڑھے۔
- سبق 37: یومیہ نمازیں (3)
سبق 37: یومیہ نمازیں (3)
اذان اور اقامہ6۔ اذان اور اقامہ
1۔ یومیہ واجب نمازوں سے پہلے اذان اور اقامت کہنا مستحب ہے اور نماز فجراور نماز مغرب مخصوصا نماز جماعت میں مستحب ہونے کی تاکید کی گئی ہے لیکن دوسری واجب نمازوں مثلا نماز آیات میں اذان و اقامہ نہیں ہیں۔
2۔ اذان اٹھارہ جملوں پر مشتمل ہے جو ذیل کی ترتیب سے ہیں؛
1۔ اَللهُ اَکْبَرُ» چار مرتبہ (یعنی اللہ اس سے زیادہ بزرگ ہے کہ اس کی تعریف کی جائے)
2۔ «اَشْهَد اَنْ لا اِلهَ اِلاَّ اللهُ» دو مرتبہ، (یعنی گواہی دیتا ہوں کہ خدواند یکتا کے سوا کوئی معبود نہیں)
3۔ «اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً (صلّی الله علیه و آله )رَسُولُ اللهِ» دو مرتبہ، (یعنی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں)
4۔ «حَیَّ عَلَی الصَّلاهِ» دو مرتبہ، (یعنی نماز کی طرف جلدی کرو)
5۔ «حَیَّ عَلَی الفَلاحِ» دو مرتبہ، (یعنی فلاح اور رستگاری کی طرف جلدی کرو)
6۔ «حَیَّ عَلی خَیْرِ العَمَلِ» دو مرتبہ، (یعنی بہترین کام کی طرف جلدی کرو)
7۔ «اَللهُ اَکْبَرُ» دو مرتبہ، (یعنی اللہ تعالی اس سے زیادہ بزرگ ہے کہ اس کی تعریف کی جائے)
8۔ «لا اِلهَ اِلاَّ اللهُ» دو مرتبہ. (یعنی خدواند یکتا کے سوا کوئی معبود نہیں)
3۔ اقامہ 17 جملوں پر مشتمل ہے اس طرح کہ اس کی ہر چیز اذان کی طرح ہے فقط اس فرق کے ساتھ کہ اقامت کے شروع میں الله اکبر دو مرتبہ کہا جائے گا اور آخر میں «لااله الا الله» ایک مرتبہ کہاجاتا ہے اور «حیّ علی خیر العمل» کے بعد دو مرتبہ «قد قامت الصلوة» (یعنی نماز قائم ہوگئی) کہا جاتا ہے ۔
اذان اور اقامہ کے بارے میں چند نکات
«اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیّاً وَلیُّ اللهِ» (یعنی گواہی دیتا ہوں کہ علی علیہ السلام تمام مخلوقات پر اللہ کے ولی ہیں)کہنا اذان او اقامہ کا جز نہیں ہے لیکن تشیع کے شعار کی حیثیت سے اہم ہے اور قصد قربت مطلق کی نیت سے کہنا چاہئے۔
اذان دینا (یعنی نماز کا وقت داخل ہونے کا اعلان کرنا) اور سننے والوں کی جانب سے اس کو تکرار کرنا موکد مستحبات میں سے ہے۔
نماز کا وقت داخل ہونے کا اعلان کرنے کے لئے معمول کے مطابق اسپیکر پر اذان دینا اشکال نہیں رکھتا لیکن مسجد کے سپیکر کے ذریعے قرآن اور دعا وغیرہ پڑھنااگر پڑوسیوں کے لئے اذیت کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے۔
مرد کے لئے عورت کی اذان پر اکتفا کرنا محل اشکال ہے۔
تمرین
1۔ اذان اور اقامہ کا کیا حکم ہے؟
2۔ اذان اور اقامہ میں کیا فرق ہے؟
3۔ کیا شہادت سوم جو سید الاوصیاء حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کی ولایت پر دلالت کرتی ہے، اذان اور اقامہ میں واجب ہے یا نہیں؟
4۔ کیا مرد کے لئے نماز میں عورت کی اذان پر اکتفا کرنا جائز ہے؟
- سبق 38: یومیہ نمازیں (4)
سبق 38: یومیہ نمازیں (4)
واجبات نماز ((1))7۔ واجبات نماز
وہ واجب افعال جن سے نماز تشکیل پاتی ہے، گیارہ ہیں؛
1۔ نیت
2۔ تکبیرہ الاحرام
3۔ قیام
4۔ قرائت
5۔ رکوع
6۔ سجدے
7۔ ذکر
8۔ تشہد
9۔ سلام
10۔ ترتیب
11۔ مولات
توجہ
واجبات نماز میں سے بعض رکن ہیں یعنی اگر نما زمیں ان کو بجا نہ لائیں یا واجب مقدار سے زیادہ بجالائیں حتی کہ سہوا اور فراموشی سے کیوں نہ ہو نماز باطل ہوتی ہے (لیکن غیر رکنی واجبات اگر عمدا کم یا زیادہ ہوجائیں تو نماز باطل ہوتی ہے لیکن اگر سہوا ہوتو نماز صحیح ہے مثلا قرائت)
ارکان نماز
1۔ نیت
2۔ تکبیرہ الاحرام
3۔ قیام (تکبیرہ الاحرام کے دوران اور رکوع میں جانے کے دوران والا قیام)
4۔ رکوع
5۔ دو سجدے
1۔ نیت
1۔ نیت کے معنی او ر حکم
نماز میں نیت واجب ہے اس سے مراد یہ ہے کہ معین نماز کو بجالانے کا مقصد اللہ کے حکم کی اطاعت ہے۔
توجہ
نماز میں واجب نیت نماز کو خدا کے لئے انجام دینے کا قصد ہے اور لازم نہیں کہ اپنے دل یا زبان پر جاری کرے مثلا کہے کہ چار رکعت نماز ظہر پڑھتا ہوں قربۃ الی اللہ
نماز پڑھنے والے کے لئے یہ بات جاننا لازم ہے کہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے بنابراین اگر چار رکعتی نماز کی نیت کرے لیکن ظہر اور عصر میں سے معین نہ کرے تو اس کی نماز باطل ہے۔
انسان کو چاہئے کہ نماز کو اللہ کے فرمان کی اطاعت کے قصد سے بجالائے بنابراین اگر ریاکاری یعنی دین داری کو دکھانے وغیرہ کے لئے نماز پڑھے تو حرام اور نماز باطل ہے اگر نماز کے بعض اجزا میں ریا کرے تو احتیاط واجب کی بناپر نماز کو دوبارہ بجالانا چاہئے۔
2۔ نیت میں عدول (پھرجانا)
وہ موارد جن میں عدول واجب ہے
نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے نماز عصر سے نماز ظہر کی طرف عدول کرنا اس صورت میں جب نماز کے دوران متوجہ ہوجائے کہ نماز ظہر نہیں پڑھی ہے۔
نماز عشا کے مخصوص وقت سے پہلے نماز عشا سے نماز مغرب کی طرف عدول کرنا اس صورت میں جب نماز عشا کے دوران متوجہ ہوجائے کہ نماز مغرب نہیں پڑھی ہے اور محل عدول سے تجاوز بھی نہ کیا یعنی چوتھی رکعت کے رکوع سے پہلے ہو۔
اگر دو قضا نماز جن کی ادا نماز میں ترتیب معتبر ہے (مثلا ظہر اور عصر کی قضا) کسی کے ذمے ہو اور فراموشی کی وجہ سے پہلی نماز کو پڑھنے سے پہلے دوسری میں مشغول ہوجائے۔
وہ موارد جن میں عدول جائز ہے
ادا نماز سے واجب قضا نماز کی طرف عدول کرنا (البتہ اگر صرف ایک قضا نماز اس کے ذمے ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ قضا نماز کی طرف عدول کرے مخصوصا اگر قضا نماز اسی دن کی ہو)
نماز جماعت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے واجب نماز سے مستحب کی طرف عدول کرنا
جمعہ کے دن ظہر میں واجب نماز سے نافلہ کی طرف عدول کرنا اس شخص کے لئے جس نے سورہ جمعہ کو پڑھنا فراموش کیا ہو اور اس کے بجائے دوسرا سورہ پڑھا ہو اور نصف تک پہنچا ہو یا اس سے گزر گیا ہو۔
تمرین
1۔ واجبات نماز بیان کریں۔
2۔ واجبات رکنی اور غیر رکنی کے درمیان کیا فرق ہے؟
3۔ ارکان نماز کون کونسے ہیں؟
4۔ کیا نیت کو دل میں یا زبان پر جاری کرنا لازم ہے؟
5۔ کن موارد میں نماز کے اندر عدول واجب ہے؟
6۔ نماز کے اندر عدول مستحب ہونے کے موارد کون کونسے ہیں؟
- سبق 39: یومیہ نمازیں (5)
سبق 39: یومیہ نمازیں (5)
واجبات نماز ((2))2۔ تکبیرہ الاحرام
تکبیرہ الاحرام کے معنی اور اس کا حکم
نماز میں تکبیرہ الاحرام واجب ہے اور اس سے مراد نماز کے شروع میں «اَللهُ اَکْبَرُ» کہنا ہے۔
توجہنماز کے آغاز میں تکبیرہ الاحرام نہ کہنا عمدا ہو یا سہوا نماز باطل ہونے کا باعث ہے اسی طرح نماز کے آغاز میں اس کو صحیح طرح کہنے کے بعد دوسری دفعہ فاصلے کے ساتھ (موالات ٹوٹنے کے برابر نہ ہو) یا بغیر فاصلے کے ' الله اکبر' کہے تو نماز باطل ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ یہ تکرار عمدا ہو یا سہوا ہو۔
2۔ تکبیرہ الاحرام کے واجبات
1۔ تکبیرہ الاحرام کو اس طرح کہے کہ تلفظ شمار کیا جائےاور اس کی علامت یہ ہے کہ انسان جو زبان پر جاری کرتا ہے( اگر اس کی قوت سماعت کمزور نہ ہو یا شو رو غل نہ ہو تو )سن لے۔
2۔ تکبیرہ الاحرام کو صحیح عربی میں کہنا چاہئے اور اگر فارسی میں اس کا ترجمہ یا غلط عربی میں کہے (مثلا اللہ میں 'ہ' کو فتحہ کے ساتھ کہے) تو صحیح نہیں ہے۔
توجہاگر نماز پڑھنے والا تکبیرہ الاحرام کے صحیح تلفظ کی کیفیت نہیں جانتا ہو تو اس کو سیکھنا واجب ہے۔
3۔ تکبیرہ الاحرام کہنے کے دوران بدن سکون کے ساتھ اور حرکت کے بغیر ہونا چاہئے بنابراین اگر عمدا اور اختیار کے ساتھ اس وقت تکبیرہ الاحرام کہے جب بدن حرکت میں ہو تو نماز باطل ہے۔
3۔ تکبیرہ الاحرام میں شک
اصل تکبیر میں شک (یعنی شک کرے کہ تکبیرہ الاحرام کہا ہے یا نہیں)
چنانچہ اذکار اور قرائت میں مشغول ہوا ہے تو اپنے شک کی پروا نہ کرے اور نماز کو جاری رکھے۔
اذکار اور قرائت میں مشغول نہیں ہوا ہے تو تکبیر کہنا چاہئے۔
تکبیر کے صحیح ہونے میں شک (یعنی تکبیرہ الاحرام کے بعد شک کرے کہ صحیح کہا ہے یا نہیں) تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
3۔ قیام (کھڑا ہونا)
قیام کی اقسام
رکن
تکبیرہ الاحرام کے دوران قیام
رکوع میں جانے کے دوران قیام (قیام متصل بہ رکوع)
غیر رکن
قرائت کے دوران قیام
رکوع کے بعد قیام
1۔ اگر کوئی کھڑا ہوکر نماز پڑھ سکتا ہو اور کوئی عذر بھی نہ ہوتو نماز کے شروع سے رکوع میں جانے تک کھڑا ہونا چاہئے اور رکوع کے بعد اور سجدے میں جانے سے پہلے بھی قیام کرنا واجب ہے۔ ان صورتوں میں قیام کو عمدا ترک کرنا نماز باطل ہونے کا باعث ہے۔
2۔ تکبیرہ الاحرام کی حالت میں کھڑا ہونا نیز قرائت ختم ہونے اور رکوع سے پہلے قیام رکن ہے یعنی اگر سہوا اور فراموشی کی وجہ سےبھی اس کو ترک کرے تو نماز باطل ہوتی ہے۔
توجہاگر رکوع کو فراموش کرے اور حمد و سورے کے بعد بیٹھ جائے اور اس وقت یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو کھڑا ہوجائے اور قیام کرے اور قیام کی حالت سے رکوع میں جائے پس اگر کھڑے ہوکر قیام کئے بغیر اسی حالت میں رکوع کے لئے جھک جائے تو اس کی نماز باطل ہے۔
2۔ قیام کے واجبات
نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ قیام کے دوران بدن کو حرکت نہ دے اور کسی ایک طرف واضح طور پر نہ جھکے اور کسی چیز سے ٹیک نہ لگائے مگر یہ کہ مجبوری، سہوا یا فراموشی کی بناپر ہو۔
توجہجب نماز پڑھنے والا قرائت یا تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات پڑھنے میں مشغول ہو اس کا بدن آرام کے ساتھ ہونا چاہئے اور اگر تھوڑا آگے یا پیچھے یا دائیں یا بائیں طرف بدن کو حرکت دینا چاہے تو جس ذکر کو پڑھنے میں مشغول ہے، حرکت کی حالت میں اس کو ترک کرے۔
3۔ قیام کے بعض مستحبات
1۔ بدن کو سیدھا رکھے۔
2۔ کندھوں کو نیچے رکھے۔
3۔ ہاتھوں کو رانوں پر رکھے۔
4۔ انگلیوں کو ملاکر رکھے۔
5۔ سجدہ گاہ پر نگاہ کرے۔
6۔ بدن کا وزن دونوں پاؤں پر برابر رکھے۔
7۔ خشوع اور خضوع کے ساتھ رہے۔
8۔ پاؤں کو برابر میں رکھے۔
4۔ قیام کے احکام
1۔ کوئی نماز کے دوران کھڑا نہیں ہوسکے تو بیٹھ کر نماز پڑھے لیکن اگر کسی چیز سے ٹیک لگاکر کھڑا ہوسکتا ہو تو اس کا وظیفہ یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھے۔
2۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے لیٹ کر نماز پڑھے اور احتیاط واجب کی بناپر اگر ممکن ہے تو دائیں پہلو پر لیٹ جائے اور چہرے اور بدن کا رخ قبلے کی طرف ہو ورنہ بائیں پہلو پر لیٹ جائےاور اگر اس طرح بھی ممکن نہ ہوتو پشت کے بل لیٹ جائے اس طرح کہ پاوں کے تلوے کا رخ قبلے کی طرف ہو۔
3۔جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے اگر حمد اور سورہ پڑھنے کے بعد کھڑا ہونے اور رکوع کرنے پر قادر ہوجائے تو کھڑا ہونا چاہئے اور قیام کی حالت سے رکوع میں جانا چاہئے۔
4۔ جو شخص لیٹ کر نماز پڑھتا ہے اگر نماز کے دوران کسی زحمت اور تکلیف کے بغیر بیٹھ سکے یا کھڑا ہوسکے تو جس قدر ممکن ہے کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر پڑھنا چاہئے اسی طرح جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے جس قدر بغیر تکلیف اور زحمت کے ممکن ہو کھڑا ہوکر نماز پڑھے۔
5۔ جو شخص کھڑا ہوکر نماز پڑھ سکتا ہے اگر کھڑا ہونے سے بیمار ہونے یا کوئی نقصان پہنچنے کا خوف محسوس کرے تو بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہےاور اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے میں یہی خوف ہوجائے تو لیٹ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔
6۔ جو شخص احتمال دے کہ نماز کے آخری وقت میں کھڑا ہوکرنماز پڑھ سکے گا تو احتیاط( واجب) کی بناپر اس وقت تک صبر کرنا چاہئے لیکن کسی عذر کی وجہ سے اول وقت میں بیٹھ کر نماز پڑھے اور آخر وقت تک عذر برطرف نہ ہوجائےتوجو نماز پڑھی ہے وہ صحیح ہے اور دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ۔
7۔ اگر کوئی اول وقت میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اور یقین تھا کہ آخری وقت تک اس کی ناتوانی باقی رہے گی لیکن اگر وقت ختم ہونے سے پہلے کھڑے ہوکر پڑھنے کے قابل ہوجائے تو نماز کو کھڑے ہوکر دوبارہ پڑھنا چاہئے۔
تمرین
1۔ اگر تکبیرہ الاحرام کو صحیح اور کامل عربی میں نہ کہے تو نماز صحیح ہے یا نہیں؟
2۔ اگر کوئی تکبیرہ الاحرام پڑھنے میں شک کرے تو کیا حکم ہے؟
3۔ واجب قیام کی اقسام بیان کریں۔
4۔ کیا انسان نماز کے دوران تھوڑا آگے یا پیچھے جاسکتا ہے یا بدن کو تھوڑا دائیں یا بائیں حرکت دے سکتا ہے؟
5۔ قیام کے بعض مستحبات کو ذکر کریں۔
6۔ اگر کوئی شخص اول وقت میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہوتو کیا نماز کو بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے؟
- سبق 40: یومیہ نمازیں (6)
سبق 40: یومیہ نمازیں (6)
واجبات نماز ((3))4۔ قرائت
قرائت کے اجزا
یومیہ واجب نمازوں میں پہلی اور دوسری رکعت میں حمد اور احتیاط واجب کی بناپر ایک مکمل سورہ پڑھے۔
دوسری اور تیسری رکعت میں صرف حمد یا ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ اور احتیاط مستحب کی بناپر تین مرتبہ پڑھے۔
1۔ یومیہ واجب نمازوں کی پہلی اور دوسری رکعت میں تکبیرہ الاحرام کےبعد سورہ حمد اور اس کے بعد احتیاط واجب کی بناپر قرآن مجید کا ایک مکمل سورہ پڑھنا چاہئے اور ایک یا چند آیات پڑھنا کافی نہیں ہے۔
2۔ نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعت میں اختیار ہے کہ (سورہ کے بغیر) صرف حمد پڑھے یا تسبیحات اربعہ یعنی «سُبْحانَ اللهِ وَ الْحَمْدُ للهِ وَ لا اِلهَ اِلاَّ اللهُ وَ اللهُ اَکْبَرُ» پڑھے۔
2۔ پہلی اور دوسری رکعت میں قرائت کے احکام
1۔ سورہ فیل اور سورہ ایلاف ایک سورہ کے حکم میں ہیں اور حمد کے بعد ان میں سے ایک کو پڑھنا کافی نہیں ہے اسی طرح سورہ ضحی اور سورہ الم نشرح بھی ہیں۔
توجہاگر کسی شخص نے مسئلے سے جاہل ہونے کی وجہ سے اپنی نمازوں میں صرف سورہ فیل یا سورہ انشراح پڑھی ہے تو چنانچہ مسئلے کو یاد کرنے میں کوتاہی نہ کی ہو تو اس کی گذشتہ نمازیں صحیح ہونے کے حکم میں ہیں۔
2۔ یومیہ واجب نمازوں میں حمد اور سورہ کی قرائت کے بعد بعض آیات کو قرآن کی نیت سے قرائت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
3۔ اگر نماز کا وقت تنگ ہو یا سورہ پڑھنے کی صورت میں ڈر ہو کہ چور یا درندہ یا کوئی اور چیز اس کو نقصان پہنچائے گی تو سورہ نہیں پڑھنا چاہئے۔
4۔ اگر غلطی سے حمد سے پہلے سورہ پڑھے اور رکوع میں جانے سے پہلے اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوجائے تو حمد کے بعد دوبارہ سورہ پڑھنا چاہئے اور اگر سورہ پڑھنے کے دوران متوجہ ہوجائے تو سورہ کو چھوڑدے اور حمد پڑھنے کے بعد سورہ کو شروع سے پڑھے۔
5۔ اگر حمد اور سورہ یا ان میں سے کسی کو فراموش کرے اور رکوع میں پہنچنے کے بعد پتہ چلے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
6۔ اگر رکوع میں جانے سے پہلے یاد آئے کہ الحمد او ر سورہ یا فقط سورہ نہیں پڑھا ہے تو پڑھنا چاہئے اور رکوع میں جائے اور اگر یاد آئے کہ فقط الحمد نہیں پڑھا ہے تو الحمد کو پڑھے اور اس کے بعد دوبارہ سورہ پڑھے اور اگر جھکا ہو اور رکوع میں پہنچنے سے پہلے یاد آئے کہ الحمد یا سورہ یا دونوں کو نہیں پڑھا ہے تو کھڑے ہوجائے اور اسی دستور کے مطابق عمل کرے۔
7۔ واجب نماز میں ان سوروں کو پڑھنا جائز نہیں جن میں واجب سجدے ہیں۔ اگر عمدا یا بھول کر ان سوروں میں سے کسی کو پڑھے اور سجدے والی آیت پر پہنچ جائے تو احتیاط واجب کی بناپر سجدہ تلاوت بجالائے اور کھڑے ہوجائے اور اگر سورہ ختم نہیں ہوا ہے تو اس کو آخر تک پہنچائے اور نماز ختم کرے اور اس کے بعد نماز کو دوبارہ پڑھے۔ اگر سجدے والی آیت پر پہنچنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ سورہ کو ترک کرے اور دوسرا سورہ پڑھے اور نماز کو تمام کرنے کے بعد دوبارہ پڑھے۔
8۔ اگر نماز کی حالت میں سجد ے والی آیت سن لے تو نماز صحیح ہے اور آیت سننے کے بعد سجدہ کرنے کے بجائے اشارے سے سجدہ کرے اوراس کے بعد نماز کو جاری رکھے۔
9۔ اگر کوئی شخص الحمد کے بعد سورہ ' قل هو الله احد' یا 'قل یاایها الکافرون' شروع کرے تو اس کو چھوڑ کر دوسرا سورہ نہیں پڑھ سکتا لیکن نماز جمعہ میں اگر سورہ جمعہ یا منافقون کے بجائے بھول کر ان دونوں سوروں میں سے کسی ایک کو پڑھے تو اس کو چھوڑ کر سورہ جمعہ اور منافقون کو پڑھ سکتا ہے۔
10۔ اگرکوئی نماز میں سورہ' قل هو الله احد' اور 'قل یاایها الکافرون' کے علاوہ دوسرا سورہ پڑھے تو جب تک نصف سے زیادہ نہ پڑھا ہو اس کو چھوڑ کر کوئی اور سورہ پڑھ سکتا ہے۔
11۔ اگر جس سورے کی تلاوت میں مشغول ہے اس کا ایک حصہ فراموش ہوجائے یا وقت کی کمی یا دوسری وجہ سے اس کو آخر تک نہ پڑھ سکے تو چھوڑ دے اور دوسرا سورہ پڑھے۔ اس صورت میں کوئی فرق نہیں ہے کہ نصف سے گزر گیا ہو یا نہ ہو یا جس سورے کو پڑھنے میں مشغول ہے وہ قل هو الله احد اور قل یاایها الکافرون ہو یا کوئی اور سورہ۔
12۔ مستحب نمازوں میں سورہ پڑھنا لازم نہیں ہے اگرچہ منت ماننے کی وجہ سے وہ نماز واجب ہوئی ہو۔ لیکن بعض مستحب نمازوں میں مخصوص سورے ہیں مثلا نماز برائے والدین چنانچہ کوئی اس نماز کے دستور پر عمل کرنا چاہے تو وہی سورہ پڑھے۔
3۔ تیسری اور چوتھی رکعت میں قرائت کےاحکام
1۔ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں ایک دفعہ سبحان الله والحمدلله ولا الله الاالله والله اکبر پڑھنا کافی ہے اگرچہ احتیاط (مستحب) یہ ہے کہ تین دفعہ پڑھا جائے
2۔ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ تسبیحات اربعہ کو تین مرتبہ پڑھا ہے یا اس سے زیادہ یا کم تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے لیکن جب تک رکوع میں نہ گیا ہو کم پر بنارکھ کر تسبیحات کو تکرار کرسکتا ہے تاکہ یقین ہوجائے کہ تین مرتبہ پڑھا ہے۔
3۔ کسی کو تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ پڑھنے کی عادت ہو ، اگر سورہ حمد پڑھنا چاہے لیکن اپنےارادے سے ٖغافل ہوکر عادت کی وجہ سے تسبیحات پڑھے تو نماز صحیح ہے اور اسی طرح ہے اگر سورہ حمد پڑھنے کی عادت ہو اور تسبیحات پڑھنے کا ارادہ کرے لیکن غفلت کی وجہ سےالحمد پڑھے
4۔ اگر کوئی تیسری یا چوتھی رکعت میں غفلت کی وجہ سے الحمد او ر سورہ پڑھے اور نماز کے بعد متوجہ ہوجائے تو نماز صحیح اور دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
5۔ اگر کوئی قیام کی حالت میں شک کرے کہ الحمد یا تسبیحات پڑھا ہے یا نہیں تو الحمد یا تسبیحات پڑھے لیکن اگر مستحب استغفار پڑھتے ہوئے شک کرے کہ تسبیحات پڑھا ہے یا نہیں تو اس کو پڑھنا لازم نہیں ہے۔
6۔ اگر تیسری اور چوتھی رکعت کے رکوع میں شک کرے کہ الحمد یا تسبیحات پڑھا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے لیکن اگر رکوع میں جاتے وقت جبکہ رکوع کی حد تک نہ پہنچا ہو اور شک کرے تو احتیاط واجب کی بناپر واپس پلٹ جائے اور الحمد یا تسبیحات پڑھے۔
تمرین
1۔ یومیہ واجب نمازوں میں قرائت کن اجزا سے تشکیل پاتی ہے؟
2۔ اگر کوئی شخص جہالت کی وجہ سے نماز میں صرف سورہ فیل یا سورہ انشراح پڑھے تو اس کا کیاوظیفہ ہے؟
3۔ واجب نماز میں سجدے والے سوروں کو پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
4۔ مستحب نمازوں میں سورہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
5۔ اگر کسی کو معلوم نہ ہو کہ نماز کی تیسری یا چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کو تین مرتبہ یا اس سے زیادہ یا کم پڑھا ہے تو کیا حکم ہے؟
6۔ اگر کوئی شخص نماز کے دوران غفلت کی وجہ سے تیسری یا چوتھی رکعت میں حمد او ر سورہ پڑھے اور نماز کے بعد متوجہ ہوجائے تو کیا اس پر نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟
- سبق 41: یومیہ نمازیں (7)
سبق 41: یومیہ نمازیں (7)
واجبات نماز ((4))4۔ قرا ئت میں جہر و اخفات (بلند اور آہستہ پڑھنا)
جہر واخفات
پہلی اور دوسری رکعت میں حمد اور سورہ
نماز صبح اور مغرب و عشا میں
مرد ہوتو بلند آواز میں پڑھنا چاہئے
عورت ہوتو آہستہ پڑھ سکتی ہے لیکن اگر نامحرم اس کی آواز سنے تو آہستہ پڑھنا بہتر ہے۔
نماز ظہر اور عصر میں «بسمالله الرحمن الرحیم »، کے علاوہ آہستہ پڑھنا چاہئے نماز پڑھنے والا چاہے مرد ہو یا عورت۔
تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ یا صرف حمد کو آہستہ پڑھنا چاہئے ، نماز پڑھنے والا مرد ہو چاہے عورت لیکن اگر حمد پڑھے تو احتیاط کی بنا پر «بسمالله الرحمن الرحیم » کو بھی آہستہ پڑھنا چاہئے۔
1۔ واجب ہے کہ مرد نماز صبح، مغرب اور عشا میں حمد اور سورہ کو بلند آوازمیں اور ظہر اور عصر میں حمد اور سورہ کو آہستہ پڑھے اور عورتوں کو بھی چاہئے کہ نماز ظہر اور عصر میں حمد اور سورہ کو آہستہ پڑھیں لیکن نماز صبح ، مغرب اور عشا میں حمد اور سورہ کو بلند آواز میں یا آہستہ پڑھ سکتی ہیں لیکن اگر نامحرم ان کی آواز سنے تو بہتر ہے کہ آہستہ پڑھیں۔
2۔ مرد اور عورت دونوں پر واجب ہےکہ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات یا حمد کو آہستہ پڑھیں لیکن اگر حمد پڑھیں تو احتیاط کی بناپر «بسمالله الرحمن الرحیم » کو بھی آہستہ پڑھنا چاہئے
توجہنماز صبح، مغرب اور عشا میں بلند آواز میں اور نماز ظہر اور عصر میں آہستہ پڑھنا واجب ہونا حمد اور سورہ کی قرائت سے مختص ہے جس طرح نماز مغرب اور عشا کی پہلی اور دوسری رکعت کے علاوہ میں آہستہ پڑھنا واجب ہونا تیسری اور چوتھی رکعت کے صرف حمد یا تسبیحات سے مخصوص ہے لیکن رکوع، سجدہ، تشہد، سلام اور دیگر واجب اذکار کو نماز پنجگانہ میں بلند آواز یا آہستہ پڑھنے میں مکلف کو اختیار ہے۔
واجب نمازوں میں جہر و اخفات کے واجب ہونے کے لحاظ سے ادا اور قضا نماز کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اگرچہ قضا نماز احتیاطی کیوں نہ ہو۔
اخفات (آہستہ پڑھنے) کا معیار آواز کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ اس کو واضح نہ کرنا ہے اسی کے مدمقابل جہر (بلند پڑھنے ) کا معیار آواز کو آشکار کرنا ہے۔
اگرکوئی جس مورد میں بلند آواز سے پڑھنا چاہئے، عمدا آہستہ پڑھے یا جہاں آہستہ پڑھنا چاہئے ، عمدا بلند آواز سے پڑھے تو نماز باطل ہے لیکن اگر فراموشی یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے ہو تو نماز صحیح ہے چنانچہ الحمد اور سورہ یا تسبیحات پڑھتے ہوئے غلطی کی طرف متوجہ ہوجائے تو جتنی مقدار غلطی سے بلند یا آہستہ پڑھا ہے، دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہے۔
اگرکوئی الحمد اور سورہ پڑھتے ہوئے آواز کو معمول سے زیادہ بلند کرے مثلا فریاد کے ساتھ پڑھے تو نماز باطل ہے۔
5۔ قرائت کے واجبات
1۔ قرائت میں کلمات کو زبان سے اس طرح ادا کرے کہ قرائت کہا جائے بنابراین قرائت قلبی یعنی کلمات کو زبان سے ادا کئے بغیر دل میں گزارنا کافی نہیں ہے۔ قرائت کہلانے کی علامت یہ ہے کہ نماز پڑھنے والے کی قوت سماعت کمزور نہ ہو یا ماحول میں شورو غل نہ ہوتو جو زبان پر جاری کررہا ہے اس کو سن سکے۔
توجہاگر کوئی شخص گونگا ہو اور تکلم کی قدرت نہ رکھتا ہولیکن اس کے حواس سالم ہوں چنانچہ اشارے کے ساتھ نماز پڑھے تو صحیح اور کافی ہے۔
2۔واجب ہے کہ انسان نماز کو غلطی کے بغیر اور صحیح پڑھے۔ جو شخص کسی بھی طور پر صحیح ادا ئیگی کو یاد نہیں کرسکتا ہو ضروری ہے کہ جس طریقے سے بھی ممکن ہو نماز پڑھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے۔
توجہجو شخص نماز کا الحمد و سورہ یا دوسری چیزوںکو اچھی طرح نہیں جانتا ہو اور یاد کرسکتا ہو چنانچہ نماز کا وقت وسیع ہو تو یاد کرے اور اگر وقت تنگ ہو تو احتیاط واجب کی بناپر ممکن ہوتو جماعت کے ساتھ نماز پڑھے۔
قرائت صحیح ہونے کا معیار حروف کی حرکات و سکنات کی رعایت اور ان کو ان کے مخارج سے اس طرح ادا کرنا ہے کہ عربی زبان والے اس کوکوئی دوسرا حرف نہیں بلکہ اسی حرف کی ادائیگی قرار دیں۔
قرائت میں تجوید کے محسنات کی رعایت لازم نہیں ہے۔
اگرکوئی الحمد یا سورہ کا ایک کلمہ نہیں جانتا ہو یا عمدا نہ پڑھے یا عمدا کسی حرف کے بجائے دوسرا حرف کہے مثلا 'ض' کے بجائے'ز' کہے یا کلمات کے زبر اور زیرکو بدل دے یا تشدید کو ادا نہ کرے تو نماز باطل ہے۔
اگر کوئی نماز کی قرائت یا اذکار کو غلط پڑھتا تھا مثلا کلمہ 'یولد' میں لام کو زبر کے بجائے زیر کے ساتھ پڑھتا تھا چنانچہ جاہل مقصر[1] ہو تو احتیاط واجب کی بناپر نماز باطل ہے۔ اگر جاہل قاصر[2] ہو اور صحیح ہونے کے خیال سے اسی طرح پڑھتا تھا تو نماز صحیح ہے۔
«مالِکِ یَوْمِ الدِّینِ» میں «مالِکِ» کو «ملِکِ» بھی پڑھا جاتا ہے اور نماز میں دونوں قرائت احتیاط کے طور پر کوئی اشکال نہیں ہے۔
اگرکوئی نماز کی قرائت کے دوران ایک آیت کو دوسری آیت سے ملادے تو پہلی آیت کی آخری حرکت کو ظاہر کرنا لازم نہیں ہے مثلا 'مالِکِ یَوْمِ الدِّین' پڑھے اور آیت کے آخر میں نون کو ساکن کرکے فورا پڑھے: 'اِیّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیّاکَ نَسْتَعینُ' تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ اس کو وصل بہ سکون کہتے ہیں۔ اسی طرح جن کلمات سے آیت تشکیل پائی ہے ا ن کی آخری حرکت کا بھی یہی حکم ہے اگرچہ آخری مورد میں احتیاط (مستحب) یہ ہے کہ وصل بہ سکون نہ کرے۔
اگر «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ» پڑھنے کے دوران فورا عطف کئے بغیر وقف کے ساتھ پڑھے اور اس کے بعد «وَ لاَ الضَّالِّینَ» کی قرائت کرے تو فاصلہ اور وقف کی وجہ سے جملہ کی وحدت کو نقصان نہ پہنچے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
اگرکوئی کسی آیت کو پڑھتے وقت پہلی آیت کے صحیح پڑھنے کے بارے میں شک کرےتو اپنے شک کی پروا نہ کرے اسی طرح کسی جملے کو ادا کرتے وقت پہلے جملے کی درست ادائیگی کے بارے میں شک کرے مثلا اِیّاکَ نَسْتَعینُ پڑھتے وقت شک کرے کہ اِیّاکَ نَعْبُدُصحیح پڑھاہے یا نہیں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے البتہ اگر جس کے صحیح ادا کرنے کے بارے میں شک ہے اس کو احتیاط کرتے ہوئے دوبارہ پڑھے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
3۔ الحمد اور سورہ یا تسبیحات قرائت کرتے وقت بدن حرکت کے بغیر اور ساکن ہونا چاہئے اور اگر قدرے آگے یا پیچھے ہونا چاہے یا بدن کو دائیں یا بائیں حرکت دینا چاہے تو حرکت کرتے ہوئے ذکر پڑھنا چھوڑدے۔
6۔ قرائت کے آداب
1۔ پہلی رکعت میں حمد سے پہلے «اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ» پڑھے۔
2۔ نماز ظہر اور عصر میں پہلی اور دوسری رکعت میں «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرِّحِیمِ» کو بلند آواز میں پڑھے۔
3۔ حمد و سورہ کو ترتیل کے ساتھ پڑھے۔
4۔ ہر آیہ کے آخر میں وقف کرے یعنی اس کو بعد والی آیہ کے ساتھ متصل نہ کرے۔
5۔ حمد اور سورہ پڑھتے وقت آیات کے معانی کی طرف توجہ رکھے۔
6۔ سورہ حمد کی قرائت کے بعدخواہ جماعت میں ہو یا فرادی، امام ہو یا ماموم 'الحمد الله رب العالمین' کہے۔
7۔ سورہ 'قل هو الله احد' کے بعد ایک، دو یا تین مرتبہ کہے 'کذالک الله ربی'
8۔ حمد کی قرائت کے بعد اور سورہ کے بعد بھی تھوڑی دیر ٹھہر جائے اور اس کے بعد نماز کو جاری رکھے۔
9۔ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات کے بعد استغفار کرے مثلا کہے'استغفرالله ربی و اتوب الیه' یا کہے' اللهم اغفرلی'۔
2۔ قرائت کے بعض مکروہات
1۔ یومیہ نمازوں میں سے کسی ایک میں بھی سورہ 'قل هو الله احد' کا نہ پڑھنا۔
2۔ سورہ 'قل هو الله احد' کے علاوہ کسی اور سورہ کا ایک نماز کی دونوں رکعتوں میں تکرار کرنا ۔
تمرین
1۔ کیا عورتیں نماز صبح، مغرب اور عشا میں حمد اور سورہ کو بلند آواز میں پڑھ سکتی ہیں؟
2۔ اگر نماز صبح کی قضا پڑھنا چاہے تو بلند آواز میں پڑھنا چاہئے یا آہستہ؟
3۔ نماز صبح ، مغرب اور عشا میں بلند آواز میں قرائت نہ کرے تو کیا حکم ہے؟
4۔ کسی نے نماز کے کلمات کو اسی طریقے سے ادا کیا جس طرح ماں باپ اور سکول میں سیکھا تھا اور بعد میں پتہ چلے کہ کلمات کو غلط ادا کرتا رہا ہے تو اس طریقے سے پڑھنے والی نمازیں صحیح ہیں یا نہیں؟
5۔ قرائت صحیح ہونے کا معیار کیا ہے؟
6۔ وصل بہ سکون سے کیا مراد اور اس کا کیا حکم ہے؟
- سبق 42: یومیہ نمازیں (8)
سبق 42: یومیہ نمازیں (8)
واجبات نماز ((5))5۔ رکوع
1۔ رکوع کے معنی اور حکم
ہر رکعت میں قرائت کے بعد ایک رکوع واجب ہے ۔ رکوع یعنی اس قدر جھکنا کہ ہاتھوں کو زانو پر رکھ سکے۔
توجہاگر کوئی رکوع کی حد تک پہنچنے اور بدن ساکن ہونے کے بعد سر کو اٹھائے اور دوسری مرتبہ رکوع کی نیت سے جھک جائے تو اس کی نماز باطل ہے (کیونکہ رکوع رکن ہے اور اس کا زیادہ ہونا نماز کو باطل کرتا ہے)
2۔ واجبات رکوع
1۔ اتنا جھکنا کہ ہاتھوں کو زانو پر رکھ سکے۔
2۔ ذکر
3۔ رکوع کاذکر پڑھتے وقت بدن کا ساکن ہونا
4۔ رکوع کے بعد کھڑے ہونا
5۔ رکوع کے بعد بدن کا ساکن ہونا
1۔ اتنا جھکنا کہ ہاتھوں کو زانو پر رکھ سکے
1۔ ہر رکعت میں قرائت کے بعد اس قدر جھک جائے ہاتھ کو گھٹنوں پر رکھ سکے اور اگر انگلیوں کے سرے بھی گھٹنوں تک پہنچیں تو کافی ہے۔
2۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ رکوع کی حالت میں ہاتھو ں کو زانو پر رکھے۔
3۔ ضروی ہے کہ جھکنا رکوع کی نیت سے ہو بنابراین اگر کسی اور کام کے لئے جھکے مثلا جانور کو ذبح کرنے یا کسی چیز کو اٹھانے کے لئے جھکے اسے رکوع قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ ضروری ہے دوبارہ کھڑا ہوجائے اور رکوع کے لئے جھکے۔ اس عمل کی وجہ سے رکن میں اضافہ نہیں ہوتا اور نماز باطل نہیں ہوتی ہے۔
4۔ جو شخص بیٹھ کر رکوع کرتا ہے اس قدر جھکنا کافی ہے چہرہ گھٹنوں کے بالمقابل جا پہنچے اور ہاتھ کو گھٹنوں پر رکھنا لازم نہیں ہے۔
3۔ ذکر
1۔ رکوع کا واجب ذکر ایک دفعہ سُبْحانَ رَبِّیَ الْعَظیْمِ وَ بِحَمْدِهِ یا تین دفعہ سُبْحانَ اللهِ ہے۔ اگر اس کے بجائے (سجدے کے مخصوص ذکر کے علاوہ) دوسرا ذکر مثلا اَلْحَمْدُ لِلهِ اور اَللّهُ اَکبَرُ وغیرہ اسی مقدار میں پڑھے توبھی کافی ہے۔
2۔ اگر رکوع اور سجدے کے ذکر کو ایک دوسرے سے بدل دے چنانچہ سہوا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے اسی طرح ہے اگر عمدا ہو اور مطلقا ذکر خدا وند متعال کی نیت سے پڑھے لیکن اس کے مخصوص ذکر کو بھی پڑھنا چاہئے۔
3۔ رکوع کا ذکر پڑھنے کے دوران بدن کا ساکن ہونا
1۔ رکوع میں واجب ذکر پڑھتے وقت بدن آرام اور ساکن ہونا چاہئے حتی رکوع میں اذکار کو مستحب ہونے کی نیت سے پڑھنے کے دوران بھی مثلا «سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ وَ بِحَمْدِهِ» کو تکرار کرے وغیرہ، احتیاط واجب یہ ہے کہ بدن کو آرام اور ساکن رکھے۔
2۔ اگر رکوع کے واجب ذکر پڑھنے کے دوران بدن بے اختیار حرکت کرے اور حالت طمانینت ختم ہوجائے تو بدن ساکن ہونے کے بعد واجب ذکر کو دوبارہ پڑھنا چاہئے۔
3۔ اگر کوئی جانتا ہو کہ رکوع کا واجب ذکر پڑھنے کے دوران طمانینت واجب ہے
اگر رکوع کی حد تک پہنچنے اور بدن ساکن ہونے سے پہلے ذکر شروع کرے چنانچہ عمدا ایسا کرےتو اس کی نماز باطل ہے
اگر سہوا ایسا کرے تو رکوع کی حد تک پہنچنے اور بدن کے ساکن ہونے کے بعد واجب ذکر کو دوبارہ پڑھے۔
اگر واجب ذکر تمام ہونے سے پہلے رکوع سے سر کو اٹھا لےچنانچہ عمدا ایسا کرے تو اس کی نماز باطل ہے
اگر سہوا ایسا کرے اور رکوع کی حد سے خارج ہونے سے پہلے متوجہ ہوجائے کہ ذکر تمام نہیں ہوا تھا تو اسی حالت میں ساکن ہوجائے اور رکوع کا ذکر پڑھے۔
اگر رکوع کی حد سے خارج ہونے کے بعد متوجہ ہوجائے کہ ذکر تمام نہیں ہوا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے۔
4۔ جو شخص بیماری یا کسی اور وجہ سے رکوع کی حالت میں تین دفعہ سُبْحانَ اللهِ پڑھنے تک نہیں بیٹھ سکتا ہو تو ایک دفعہ سُبْحانَ اللهِ پڑھنا کافی ہے اور اگر رکوع کی حالت میں فقط ایک لمحہ بیٹھ سکتا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اسی وقت ذکر شروع کرے اور سر اٹھاتے ہوئے ذکر کو ختم کرے۔
4۔ رکوع کے بعد کھڑا ہونا اور ساکن ہونا
رکوع کا ذکر ختم ہونے کے بعد کھڑا ہوجائے اور بدن ساکن ہونے کے بعد سجدے میں جائے اور اگر کھڑا ہونے سے پہلے یا بدن ساکن ہونے سے پہلے عمدا سجدے میں جائے تو نماز باطل ہے۔
3۔ کوئی رکوع کو فراموش کرے
اگر پہلے سجدے میں پہنچنے سے پہلے یاد آئے تو کھڑا ہونا چاہئے اور قیام کی حالت سے رکوع میں جائے اور چنانچہ جھکنے کی حالت میں ہی رکوع جائے تو کافی نہیں اور اگر اس رکوع پر اکتفا کرے تو اس کی نماز باطل ہے۔
دوسرے سجدے میں پہنچنے کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز باطل ہے (کیونکہ ایک رکن کو ترک کرکے بعد والے رکن میں داخل ہوا ہے)
دوسرے سجدے میں پہنچنے سے پہلے یاد آئے (یعنی پہلے سجدے میں یا اس کے بعد اور دوسرے سجدے میں داخل ہونے سے پہلے یاد آئے) تو کھڑا ہوجائے اور رکوع کرے اور اس کے بعد دو نوں سجدے بجالائے اور نماز کو تمام کرے اور نماز کے بعد احتیاط مستحب کی بناپرسجدہ زیادہ ہونے کی وجہ سے دو سجدہ سہو بجالائے۔
4۔ رکوع کے بعض مستحبات
1۔ رکوع میں جانے سے پہلے جب قیام کی حالت میں ہو تکبیر کہے
2۔ اگر نماز پڑھنے والا مرد ہے تو رکوع کی حالت میں گھٹنوں کو پیچھے کی طرف دھکیلے اور اگر عورت ہے تو گھٹنوں کو پیچھے کی طرف نہ دھکیلے
3۔ سر کو نیچے نہ جھکائے اور پیٹھ کے برابر رکھے
4۔ ہاتھ کی ہتھیلی کو گھٹنوں پر رکھے
5۔ دونوں پاوں کے درمیان دیکھے
6۔ رکوع کے ذکر سے پہلے یا بعد میں صلوات پڑھے
7۔ رکوع سے سر اٹھانے اور کھڑا ہونے کے بعد جب بدن ساکن ہو تو پڑھے: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ
8۔ اگر نماز پڑھنے والا عورت ہے تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے اوپر رکھے۔
تمرین
1۔ واجبات رکوع کون کونسے ہیں؟
2۔ کیا رکوع کی حالت میں ہاتھوں کو زانو پر رکھنا واجب ہے؟
3۔ اگر کوئی بیٹھ کررکوع کرے تو کس قدر جھکنا چاہئے؟
4۔ اگر رکوع کا واجب ذکر پڑھنے کے دوران بے اختیار بدن حرکت کرے اور واجب طمانینت ختم ہوجائے تو کیا حکم ہے؟
5۔ اگر کوئی رکوع کو فراموش کرے اور دوسرے سجدے میں پہنچنے سے پہلے یاد آئے تو کیا حکم ہے؟
6۔ رکوع کے پانچ مستحبات بیان کریں۔
- سبق 43: یومیہ نمازیں (9)
سبق 43: یومیہ نمازیں (9)
واجبات نماز ((6))6۔ سجدے
1۔ سجدہ کے معنی اور احکام
نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ واجب اور مستحب نمازوں کی ہر رکعت میں رکوع کے بعد دو سجدے کرے۔ سجدہ یہ ہےکہ پیشانی کو خضوع کے ساتھ زمین پر رکھے۔
توجہایک رکعت میں دو سجدے ملاکر رکن ہیں اس طرح کہ اگر عمدا یا فراموشی سے دونوں کو ترک کرے یا دو سجدے زیادہ ہوجائیں تو نماز باطل ہوتی ہے۔
اگر عمدا ایک سجدہ کم یا زیادہ کرے تو نماز باطل ہے اور اگر سہوا ایسا کرے تو نماز باطل نہیں ہے لیکن اس کے کچھ احکام ہیں جو بعد میں بیان کریں گے۔
واجبات سجدہ1۔ بدن کے سات اعضاء کو زمین پر رکھے
2۔ ذکر پڑھے
3۔ سجدے کا ذکر پڑھنے کے دوران بدن ساکن ہو
4۔ ذکر کے دوران سات اعضاء زمین پر ہوں
5۔ دو سجدوں کے درمیان سر اٹھا ئے، بیٹھ جائے اور بدن ساکن ہو
6۔ سجدے کے مقامات مساوی ہوںمگر چار ملی ہوئی انگلیوں کے برابر ہو
7۔ پیشانی رکھنے کی جگہ پاک ہو
8۔ پیشانی اور سجدہ گاہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو
9۔ پیشانی کو ایسی جگہ پر رکھے جس پر سجدہ صحیح ہو
10۔ جن رکعتوں میں تشہد نہیں ہے، دوسرے سجدے کے بعد احتیاط واجب کی بناپر بیٹھ جائے۔
1۔ بدن کے سات اعضاء کو زمین پر رکھنا
1۔ جن اعضاء کو سجدے کے دوران زمین پر رکھنا چاہئے
1۔ پیشانی
2۔ 3۔ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلی
4۔ 5۔ دونوں گھٹنے
6۔7۔ پاؤں کے دونوں انگوٹھوں کے سرے
توجہ
نماز کے دوران چھوٹے سوراخ والے ٹائلز پر ہاتھ رکھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
اگر سجدے کے دوران پاؤں کے انگوٹھے کے علاوہ دوسری انگلیوں کو بھی زمین پر رکھے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
2۔ اگر عمدا یا سہوا پیشانی کو زمین پر نہ رکھے تو سجدہ نہیں ہوگا اگرچہ دوسرے چھ اعضاء (دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور پاوں کے دونوں انگوٹھے) زمین پر رکھے ہوں لیکن اگر پیشانی کو زمین پر رکھے اور سہوا دوسرے اعضاء کو زمین پر نہ رکھے یا سہوا ذکر نہ پڑھے تو سجدہ صحیح ہے۔
3۔ اگر کوئی شخص پیشانی کو زمین پر نہیں رکھ سکتا ہو تو جس قدر ممکن ہو جھک جائے اور سجدہ گاہ یا ایسی چیز کو جس پر سجدہ صحیح ہو، بلند جگہ پر رکھے اور اس طرح پیشانی کو اس پر رکھے کہ لوگ کہیں سجدہ کیا ہے لیکن اگر ممکن ہو تو ہتھیلیوں، گھٹنوں اور پاوں کے انگوٹھوں کو معمول کے مطابق زمین پر رکھے اور اگر سجدہ گاہ کو رکھنے کے لئے کوئی چیز نہ ہو تو اس کو ہاتھوں سے اٹھائے اور پیشانی کو اس پر رکھے۔
4۔ اگر کوئی بلند سجدہ گاہ پر سجدہ نہیں کرسکتا ہو تو تو سجدے کے بدلے سر سے اور اگر (یہ بھی) نہیں کرسکتا ہو تو آنکھ سے اشارہ کرے۔
توجہ
اگر کوئی شخص خاص جسمانی حالت کی وجہ سے بدن کے سات اعضاء کو زمین پر نہیں رکھ سکتا ہو اور وہیل چئیر استعمال کرتا ہو چنانچہ وہیل چئیر ، تکیہ یا چارپائی پر سجدہ گاہ رکھنے پر قدرت رکھتا ہے تو اسی طرح سجدہ کرنا چاہئے اور اس کی نماز صحیح ہے ورنہ جیسے ممکن ہو اگرچہ سر کے اشارے سے یا سر سے ممکن نہ ہو تو آنکھ کے اشارے سے سجدہ اور رکوع کرے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
5۔ اگر کوئی کیچڑ والی زمین پر نماز پڑھتا ہو چنانچہ بدن اور لباس کا آلودہ ہونا اس کے لئے مشقت کا باعث ہوتو سجدہ کے لئے سر سے اشارہ کرتے ہوئے کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکتا ہے اور تشہد کو بھی کھڑے ہوکر پڑھ سکتا ہے۔
2۔ ذکر
1۔ سجدے کا واجب ذکر ایک دفعہ سُبْحانَ رَبِّیَ الْاَعْلی وَ بِحَمْدِهِ یا تین دفعہ سُبْحانَ اللهِ پڑھنا ہے اور اگر اس کے بجائے ( رکوع کے مخصوص ذکر کے علاوہ) کوئی اور ذکر مثلا اَلْحَمْدُ لِلّهِ، اَللهُ اَکْبَرُ وغیرہ اسی مقدار میں پڑھے تو کافی ہے۔
2۔ اگر رکوع اور سجدے کے ذکر کو ایک دوسرے سے بدل کر پڑھے چنانچہ سہوا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے اسی طرح ہے اگر عمدا ہو اور مطلقا ذکر خدا وند متعال کی نیت سے پڑھے لیکن اس کے مخصوص ذکر کو بھی پڑھنا چاہئے۔
3۔ سجدے کے ذکر کے دوران بدن کا ساکن ہونا
1۔ سجدے کی حالت میں واجب ذکر پڑھنے کے دوران بدن آرام اور ساکن ہوناچاہئے بلکہ اگر کوئی ذکر سجدے میں مستحب ہونے کی نیت سے پڑھے مثلا سُبْحانَ رَبِّیَ الْاَعْلی وَ بِحَمْدِهِ وغیرہ کو تکرار کرے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ بدن کو ساکن رکھے۔
3۔ اگر کوئی جانتا ہو کہ سجدے کا واجب ذکر پڑھنے کے دوران بدن کا ساکن ہونا واجب ہے چنانچہ
اگر پیشانی زمین پر پہنچنے اور بدن ساکن ہونے سے پہلے ذکر پڑھے اگر عمدا ہوتو اس کی نماز باطل ہے
اگر سہوا ہو اور سجدے کی حالت میں متوجہ ہوجائے تو جب بدن ساکن ہوتو دوبارہ پڑھے
اگر سجدے سے سر اٹھانے کے بعد متوجہ ہوجائے تواس کی نماز صحیح ہے۔
اگر ذکر تمام ہونے سے پہلے سجدے سے سر اٹھالے چنانچہ عمدا ہوتو اس کی نماز باطل ہے
اگر سہوا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔
3۔ اگر میٹرس وغیرہ پر سجدہ کرے کہ بدن پہلے حرکت کرتاہے اور ساکن ہوجاتا ہےچنانچہ اس وقت ذکر پڑھے جب بدن ساکن ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
4۔ ذکر کے دوران سات اعضاء کا زمین پر ہونا
1۔ اگر سجدے کا ذکر پڑھتے ہوئے سات اعضاء میں سے کسی کو عمدا زمین سے اٹھالے تو نماز باطل ہے لیکن جب ذکر پڑھنے میں مشغول نہ ہو اور پیشانی کے علاوہ کسی اور عضو کو اٹھا کر دوبارہ زمین پر رکھے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
2۔ اگر سجدے کا ذکر ختم ہونے سے پہلے سہوا پیشانی کو زمین سے اٹھالے تو دوبارہ زمین پر نہیں رکھ سکتا اورضروری ہے کہ اسے ایک سجدہ شمار کرے لیکن اگر دوسرے اعضاء کو سہوا زمین سے اٹھالے تو دوبارہ زمین پر رکھے اور ذکر پڑھے۔
3۔ اگر سجدے کے دوران پیشانی سجدہ گاہ سے لگے اور بے اختیار اٹھ جائے تو دوبارہ زمین پر رکھے اور سجدے کا ذکر پڑھے اور دونوں کو ملاکر ایک سجدہ شمار کرے۔
5۔ دونوں سجدوں کے درمیان سر کو اٹھانا، بیٹھنا اور ساکن ہونا
پہلے سجدے کا ذکر تمام ہونے کے بعد بیٹھنا چاہئے تاکہ بدن ساکن ہوجائے اور دوبارہ سجدے میں جائے۔
6۔ سجدے کے مقامات کا مساوی ہونا مگر چار ملی ہوئی انگلیوں کے برابر ہو
سجدے کی حالت میں پیشانی کی جگہ گھٹنوں اور پاوں کی انگلیوں کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ پست یا بلند نہیں ہونا چاہئے۔
7۔ پیشانی رکھنے کی جگہ کا پاک ہونا
مہر یا جس چیز پر سجدہ کیا جاتا ہے، پاک ہونا چاہئے لیکن ان کو نجس قالین پر رکھے یا ایک طرف نجس ہو اور پیشانی کو دوسری طرف رکھے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
8۔ پیشانی اور سجدہ گاہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہونا
پیشانی اور سجدہ گاہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہونا چاہئے بنابراین اگر درمیان میں کوئی حائل ہو مثلا سر کے بال، ٹوپی یا مہر کا میل اس طرح کہ پیشانی مہر سے نہ لگے وغیرہ تو نماز باطل ہے لیکن اگر صرف مہر کا رنگ بدل گیا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
توجہاگر سجدے کے دوران متوجہ ہوجائے کہ چادر یا روسری وغیرہ حائل ہونے کی وجہ سے پیشانی سجدہ گاہ پر نہیں لگی ہے توواجب ہے کہ سر کو زمین سے اٹھائے بغیر اپنی پیشانی کو حرکت دے تاکہ سجدہ گاہ پر پیشانی لگ جائے۔ اگر سر کو زمین سے اٹھالے چنانچہ نادانی یا فراموشی کی وجہ سے ہو اور صرف ایک رکعت کے ایک سجدے میں ہو تو نماز صحیح اور دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے لیکن اگر جانتے ہوئے اور عمدا ہو یا ایک رکعت کے دونوں سجدوں میں ایسا ہوجائے تو نماز باطل ہےاور اس کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
9۔ پیشانی کو ایسی چیز پر رکھنا جس پر سجدہ صحیح ہے
پیشانی کو ایسی چیز پر رکھنا چاہئے جس پر سجدہ صحیح ہو۔
10۔ جن رکعتوں میں تشہد نہیں ہے احتیاط واجب کی بناپر دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ جانا
چار رکعتی نمازوں کی پہلی رکعت اور نیز دوسری رکعت میں احتیاط واجب کی بناپر دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ جانا چاہئے اور اس کے بعد اگلی رکعت کے لئے کھڑا ہوجائےا لبتہ اگر تھوڑی دیر بیٹھے بغیر اگلی رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے تو نماز باطل نہیں ہے۔
تمرین
1۔ نماز میں ایک سجدے کے زیادہ یا کم ہونے کا کیا حکم ہے؟
2۔ کیا سجدے کے دوران پاؤں کے انگوٹھے کے علاوہ دوسری انگلیوں کو بھی زمین پر رکھنا جائز ہے؟
3۔ اگر کوئی پیشانی کو زمین پر نہ رکھ سکے تو کیا حکم ہے؟
4۔ میٹرس وغیرہ پر سجدہ کرنا صحیح ہے یا نہیں؟
5۔ سیاہ اور میلے سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال ہے یا نہیں؟
6۔ جن رکعتوں میں تشہد نہیں ہے، دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ جانا کیا واجب ہے؟
- سبق 44: یومیہ نمازیں (10)
سبق 44: یومیہ نمازیں (10)
واجبات نماز ((7))3۔ وہ چیزیں جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے
زمین
وہ چیز جو زمین سے نکلتی ہے
زمین اور اس سے نکلنے والی چیز کی تین شرائط
1۔ کھائی نہ جاتی ہو
2۔ پہنی نہ جاتی ہو
3۔ معدنیات میں سے نہ ہو
1۔ سجدہ زمین یا زمین سے اگنے والی گھاس پر کیا جانا چاہئے جو کھائی اور پہنی نہ جاتی ہومثلا پتھر، مٹی، لکڑی، درختوں کے پتے وغیرہ۔ کھانے اور پہننے کی چیزوں پر سجدہ صحیح نہیں ہے اگرچہ زمین سے اگتی ہوں مثلا گندم اور کپاس اور معدنیات جو زمین کے اجزا شمار نہیں ہوتیں مثلا سونا، چاندی اور شیشہ وغیرہ۔
2۔ سنگ مرمر اور وہ پتھر جو عمارت بنانے یا اس کی زینت کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اسی طرح عقیق، فیروزہ اور دْر وغیرہ پر سجدہ کرنا صحیح ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ آخری قسم (عقیق، فیروزہ اور در وغیرہ) پر سجدہ نہ کرے۔
3۔ ایسی چیزوں پر سجدہ صحیح ہے جو زمین سے اگتی ہیں اور فقط حیوانات کی خوراک ہیں مثلا بھوسا اور گھاس ۔
4۔ چائے کے سبز پتے پر سجدہ کرنا احتیاط واجب کی بناپر صحیح نہیں ہے لیکن قہوہ کے درخت کے پتے پرجس کو خوراک کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا ہے، سجدہ صحیح ہے۔
5۔ جن پھولوں کو کھایا نہیں جاتا ان پر سجدہ صحیح ہے نیز وہ جڑی بوٹیاں جو زمین سے اگتی ہیں اور فقط دوائی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں ان پر سجدہ صحیح ہے مثلا ختمی اور بنفشہ کا پھول لیکن وہ جڑی بوٹیاں جو دوائی کے علاوہ طبی فوائد اور خصوصیات کی وجہ سے کھائی جاتی ہیں ان پرسجدہ صحیح نہیں ہے مثلا خاکشیر وغیرہ
6۔ ایسی گھاس جو بعض شہروں میں یا بعض لوگ کھاتے ہیں لیکن دوسرے لوگ اشیائے خوردنی کے طور پر استعمال نہیں کرتے ہیں، خوراک شمار ہوتی ہے اور اس پر سجدہ صحیح نہیں ہے۔
7۔ اینٹ، مٹی کے برتن، جپسم، چونے کے پتھر اور سیمنٹ پر سجدہ کرنا صحیح ہے۔
8۔ لکڑی اور گھاس (کتان اور روئی کے علاوہ) سے تیارہ شدہ کاغذ پر سجدہ صحیح ہے۔
9۔ اگر ایسی چیز نہ ہو جس پر سجدہ صحیح ہے یا سردی یا گرمی وغیرہ کی وجہ سے اس پر سجدہ کرنا ممکن نہ ہو چنانچہ روئی یا کتان کی جنس سے تیار شدہ لباس یا روئی اور کتان کی جنس سے تیار شدہ کوئی اور چیز ہو تو اس پر سجدہ کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جب تک روئی اور کتان سے تیارشدہ لباس ممکن ہو دوسری جنس سے تیار شدہ لباس پر سجدہ نہ کرے اور اگرایسی اشیاء اختیار میں نہ ہوں تو احتیاط واجب کی بناپر ہاتھ کی پشت پر سجدہ کرے۔
10۔ جس چیز پر سجدہ کرنا ہو اگر نماز کے دوران وہ گم ہوجائے اور ایسی چیز بھی نہ ہو جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو تو چنانچہ نماز کا وقت وسیع ہو تو نماز کو توڑ دے اور اگر وقت تنگ ہو تو گذشتہ مسئلے میں بتائی گئی ترتیب کے مطابق عمل کرے۔
11۔ جہاں تقیہ واجب ہو فرش وغیرہ پر سجدہ کرسکتا ہے اور نماز کے دوسری جگہ جانا لازم نہیں ہے لیکن اگر اسی جگہ کسی زحمت کے بغیر چٹائی یا پتھر وغیرہ پر سجدہ کرسکتا ہو تو احتیاط واجب کی بناپر ان اشیاء پر سجدہ کرے۔
12۔ اگر پہلے سجدے کے دوران سجدہ گاہ پیشانی سے چپک جائے تو دوسرے سجدے کے لئے سجدہ گاہ کو پیشانی سے جدا کرے اور اگر سجدہ گاہ کو پیشانی سے جدا نہ کرے اور اسی حالت میں دوسرے سجدے میں جائے تو اشکال ہے۔
توجہمٹی اور زمین پر سجدہ کرنا سب سے بہترین سجدہ ہے جو خدا کے حضور خضوع و خشوع کی علامت ہے اور سجدے کے لئےکوئی بھی مٹی تربت مقدس سید الشہداء علیہ السلام کے برابر فضیلت نہیں رکھتی ہے۔
4۔ بعض مستحبات سجدہ
1۔ سجدے سے پہلے اور بعد میں بدن جب ساکن ہوتو تکبیر کہے۔
2۔ دو سجدوں کے درمیان جب بدن ساکن ہو تو کہے: اَسْتَغفِرُ اللهَ رَبِّی وَ اَتُوبُ اِلَیْهِ۔
3۔ سجدے کو طول دے اور اس میں ذکر پڑھے اور دنیوی و اخروی حاجات کے لئے دعا کرے اور صلوات پڑھے۔
4۔ سجدے کے بعد بائیں ران پر بیٹھ جائے اور دائیں پاوں کا اوپر والا حصہ بائیں پاوں کے تلوے پر رکھے۔
توجہسجدے کی حالت میں قرآن پڑھنا مکروہ ہے( یعنی کم ثواب ملتا ہے)
سجدے کے بارے میں دو نکتے
اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا حرام ہے اور بعض لوگ ائمہ علیہم السلام کے مزارات کے سامنے پیشانی کو زمین پر رکھتے ہیں، اگر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کی نیت سے ایسا کریں تو اشکال نہیں ہے ورنہ حرام ہے۔
چار سوروں سورہ سجدہ (الم تنزیل)، فصلت (حم سجدہ)، نجم اور علق میں سے ہر ایک میں واجب سجدے کی ایک آیت ہے جسےاگر انسان پڑھے یا سنے تو ختم ہونے کے فورا بعد سجدہ کرنا ضروری ہے اور اگر فراموش کرے تو جب بھی یاد آئے سجدے کو انجام دے۔
توجہآیات سجدہ
1۔ سورہ سجدہ، آیت 15
2۔ سورہ فصلت، آیت 37
3۔ سورہ نجم، آیت 62
4۔ سورہ علق، آیت 19
اگر ریڈیو، ٹی وی یا ٹیپ ریکارڈر وغیرہ سے نشر ہونے والی آیت سجدہ کو سنے تو سجدہ واجب ہے۔
قرآن کے واجب سجدے میں ان چیزوں پر سجدہ کرے جن پر نماز کے دوران سجدہ صحیح ہے لیکن نماز کے سجدے کی دوسری شرائط مثلا رو بقبلہ ہونا یا باوضو ہونا وغیرہ اس سجدے میں لازم نہیں ہے۔
قرآن کے واجب سجدے میں پیشانی کو زمین پر رکھنا کافی ہے اور ذکر پڑھنا لازم نہیں ہے البتہ اس میں ذکر پڑھنا مستحب ہے اور بہتر ہے کہ پڑھے: لااِلهَ اِلاَّ اللهُ حَقّاً حَقّاً، لااِلَهَ اِلاَّ اللهُ اِیماناً وَ تَصْدِیقاً، لااِلهَ اِلاَّ اللهُ عُبُودِیَّةً وَ رِقّاً، سَجَدْتُ لَکَ یا رَبِّ تَعَبُّداً وَ رِقّاً، لامُستَنْکِفاً وَ لامُسْتَکْبِراً، بَلْ اَنَا عَبْدٌ ذَلِیلٌ ضَعِیفٌ خائِفٌ مُسْتَجیرٌ.
تمرین
1۔ کون کونسی چیزوں پر سجدہ صحیح ہے؟ ان کی کیا شرائط ہیں؟
2۔ کاغذ پر سجدہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
3۔ اگر نماز کے دوران سجدہ گاہ گم ہوجائے اور کوئی ایسی چیز بھی نہ ہو جس پر سجدہ صحیح ہے، تو کیا وظیفہ ہے؟
4۔ سب سے بہترین سجدہ کونسا ہے؟
5۔ بعض لوگ ائمہ علیہم السلام کے آستانے کے دروازے پر سجدہ کرتے ہیں، کیا یہ عمل صحیح ہے؟
6۔ اگر کوئی سجدے کی آیت کو ٹیپ ریکارڈ یا ریڈیو سے سن لے تو کیا فورا سجدہ کرنا چاہئے؟
- سبق 45: یومیہ نمازیں (11)
سبق 45: یومیہ نمازیں (11)
واجبات نماز ((8))7۔ ذکر
1۔ ذکر کے معنی
ہر عبارت جس میں اللہ تعالی کی یاد ہو ذکر شمار کی جاتی ہے (مثلا اللہ اکبر، الحمد للہ، سبحان اللہ وغیرہ) محمد و آل محمد پر صلوات بہترین ذکر ہے لیکن رکوع اور سجدہ میں واجب ذکر یہ ہے کہ ایک مرتبہ رکوع میں سبحان ربّی العظیم و بحمده» اور ایک مرتبہ سجدے میں «سبحان ربّی الاعلی و بحمده» پڑھے یا تین مرتبہ «سبحان الله» پڑھے اور اگر اس کے بجائے دوسرا ذکر مثلا «الحمدلله»، «الله اکبر» وغیرہ کو اسی مقدار میں پڑھے تو کافی ہے۔
2۔ واجبات ذکر
1۔ نماز کے اذکار کو اس طرح پڑھنا چاہئے کہ تلفظ شمار کیا جائے اور اس کی علامت یہ ہے کہ جو پڑھ کر زبان پر جاری کررہا ہے (چنانچہ قوت سماعت کمزور یا شور نہ ہو تو)خود سن لے۔
2۔ واجب ہے کہ تمام واجب اذکار کو صحیح عربی میں پڑھے اور اگر نمازپڑھنے والا عربی کلمات کے صحیح تلفظ سے واقف نہ ہوتو سیکھنا چاہئے اور اگر سیکھنے پر قادر نہ ہوتو معذور ہے۔
3۔ واجب ہے کہ تمام واجب اور مستحب اذکار کو اس وقت پڑھے جب بدن ساکن اور آرام ہو ۔ اگر تھوڑا آگے یا پیچھے یا دائیں یا بائیں طرف حرکت کرنا چاہے تو جس ذکر کو پڑھنے میں مشغول ہے اس کو حرکت کی حالت میں پڑھنا چھوڑ دے البتہ ذکر کو مطلق ذکر کی نیت سے حرکت کی حالت میں پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
ذکر کے بارے میں چند نکتے
اگر رکوع اور سجدے کے ذکر کو ایک دوسرے سے بدل دے تو چنانچہ سہوا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر عمداہو تو جائز نہیں ہے مگر یہ کہ مطلق ذکر خدا کی نیت سے پڑھے لیکن ضروری ہے کہ اس کے مخصوص ذکر کو بھی پڑھے۔
اگر رکوع اور سجدے کے بعد متوجہ ہوجائے کہ رکوع یا سجدہ کا ذکر غلط پڑھا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
سجدہ اور رکوع میں واجب ذکر کی قرائت کے بعد اس واجب ذکر کو تکرار کرنا افضل ہے اور بہتر ہے کہ طاق عدد پر ختم کرے اور سجدے میں مذکورہ ذکر کے علاوہ صلوات پڑھنا اور دنیوی و اخروی حاجت طلب کرنا مستحب ہے۔
مستحب ہے کہ رکوع میں جانے سے پہلے اور بعد میں اور ہر سجدے کے بعد تکبیر کہے۔ تکبیر رکوع یا سجدے میں جانے کی حالت یا سجدے سے سر اٹھانے کی حالت میں نہیں کہنا چاہئے لیکن کلی طور پر رکوع اور سجدے میں جاتے ہوئے یا اس سے سر اٹھاتے ہوئے اور دیگر حالات میں تکبیر اور دوسرے اذکار کو مطلق ذکر کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں۔
مستحب ہے کہ «بِحَوْلِ اللهِ وَ قُوَّتِهِ اَقُومُ وَ اَقْعُدُ» (اللہ کی قوت اور مدد سے اٹھتا ہوں اور بیٹھتا ہوں) کو اگلی رکعت کے قیام میں جاتے ہوئے پڑھے۔
8۔ تشہد
1۔ تشہد کے معنی اور حکم
تمام نمازوں کی دوسری رکعت ،نماز مغرب کی تیسری رکعت اور نماز ظہر، عصر اور عشا کی چوتھی رکعت میں نماز پڑھنے والے کو دوسرے سجدے کے بعد بیٹھنا چاہئے اور بدن ساکن ہونے کے بعد تشہد میں مذکور جملوں کو زبان پر جاری کرنا چاہئے۔ اس عمل کو تشہد کہتے ہیں۔
2۔ تشہد کا ذکر
تشہد کی حالت میں واجب ذکر یہ ہے: «اَشهَدُ اَنْ لاَ اِلهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَریکَ لَهُ، وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ».
توجہ
مستحب ہے کہ مذکورہ جملوں سے پہلے پڑھے: «اَلْحَمْدُ للهِ»، یا پڑھے: «بِسْمِ اللهِ وَ بِاللهِ وَ الْحَمْدُ للهِ وَ خَیْرُ الْاَسْمَاءِ للهِ»، اسی طرح مستحب ہے کہ صلوات کے بعد کہے: «وَ تَقَبَّلْ شَفاعَتَهُ وَ ارْفَعْ دَرَجَتَهُ».
تشہد میں پیغمبر اکرم پر صلوات «اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ» کے بعد وقف کرے اور اس کے بعد «وَ آلِ مُحَمَّدٍ» کو اس طرح پڑھے کہ جملے کی وحدت پر کوئی اثر نہ پڑے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
3۔ تشہد کو فراموش کرے
1۔ اگر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے لیکن رکوع سے پہلے یاد آئےکہ تشہد کو نہیں پڑھا ہے تو بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور دوبارہ کھڑا ہوجائے تیسری رکعت کی تسبیحات کو دوبارہ پڑھے اور نماز جاری رکھے اور نماز کے بعد بے جا قیام کے لئے احتیاط مستحب کی بناپر دو سجدہ سہو بجالائے۔
2۔ اگر تیسری رکعت کے رکوع میں یا اس کے بعد یاد آئے تو نماز کو ختم کرے اور سلام کے بعد بھولے ہوئے تشہد کے لئے دو سجدہ سہو بجالائے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے تشہد کی قضا کرے۔
9۔ سلام
1۔ سلام اور اس کا حکم
نماز کا آخری جزء سلام ہے جس کو پڑھنے کے بعد نماز ختم ہوتی ہے۔ نماز کا واجب سلام یہ ہے کہ کہے: «اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ» اور بہتر ہے کہ «وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ» کو بھی اضافہ کرے یا کہے: «اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَ عَلی عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینَ».
توجہ
مستحب ہے کہ مذکورہ بالا دو سلام سے پہلے کہے: «اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّهَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ».
2۔ اگر نماز کا سلام فراموش کرے اور اس وقت یاد آئے تو نماز کی شکل ختم نہ ہوئی ہو اور ایسا کام بھی نہ کیا ہو جس کو عمدا یا بھول کر انجام دینے سے نماز باطل ہوتی ہے مثلا قبلے سے رخ موڑنا تو سلام کہے اور نماز صحیح ہے۔
تمرین
1۔ ذکر سے کیا مراد ہے؟ کیا پیغمبر اکرمﷺ اور ان کی آل پر صلوات ذکر میں شامل ہے؟
2۔ رکوع اور سجدے کے اذکار کو عمدا بدل کر پڑھنے میں کوئی اشکال ہے یا نہیں؟
3۔ سجدہ اور رکوع میں واجب ذکر کی قرائت کے بعد کونسا ذکر افضل ہے؟
4۔ نماز کے دوران قیام کے لئے حرکت کرتے ہوئے «بِحَوْلِ اللهِ وَ قُوَّتِهِ اَقُومُ وَ اَقْعُدُ» کو پڑھنا صحیح ہے یا نہیں؟
5۔ اگرتشہد کے دوران «اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ» پڑھ کر وقف کرے اور اس کے بعد «وَ آلِ مُحَمَّدٍ» پڑھے تو کیا حکم ہے؟
6۔ اگر کوئی سلام کو فراموش کرے تو کیا حکم ہے؟
- سبق 46: یومیہ نمازیں (12)
سبق 46: یومیہ نمازیں (12)
واجبات نماز ((9))
قنوت ۔ تعقیبات10۔ ترتیب
1۔ ترتیب اور اس کا حکم
نماز پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ نماز کو بتائی گئی ترتیب کے مطابق پڑھے اور ہر جزء کو اس کے مخصوص مقام پر ادا کرے بنابراین اگر کوئی عمدا اس ترتیب کی رعایت نہ کرے مثلا الحمد سے پہلے سورہ پڑھے یا رکوع سے پہلے سجدہ کرے تو اس کی نماز باطل ہے۔
2۔ سہوا ترتیب کی رعایت نہ کرنے کا حکم
سہوا کسی جز کا دوسرے سے مقدم ہونا
1۔ اگر کسی رکن کو دوسرے رکن پر مقدم کرے مثلا دونوں سجدوں کو بھول جائے اور اگلی رکعت کے رکوع میں جانے کے بعد یاد آئے تو نماز باطل ہے۔
2۔ اگر کسی غیر رکن کو رکن پر مقدم کرے مثلا دونوں سجدے بھول جائے اور اور تشہد پڑھے اس کے بعد یاد آئے کہ دونوں سجدے انجام نہیں دیا ہے تو رکن کو انجام دینا چاہئے اور جو اشتباہا پڑھا ہے دوبارہ پڑھے۔
3۔ رکن کو غیر رکن پر مقدم کرے مثلا حمد بھول جائے اور رکوع میں داخل ہونے کے بعد یاد آئے کہ حمد نہیں پڑھا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
4۔ غیر رکن کو غیر رکن پر مقدم کرے مثلا حمد بھول جائے اور سورہ پڑھنے میں مشغول ہوجائے چنانچہ رکوع میں جانے سے پہلے یاد آئے کہ حمد نہیں پڑھا ہے تو جو چیز بھول گیا ہے مثلا حمد اس کو دوبارہ پڑھے اور اس کے بعد جس چیز کو اشتباہا پہلے پڑھا ہے مثلا سورہ دوبارہ پڑھے۔
11۔ موالات
نماز پڑھنےوالے کو چاہئے کہ نماز کے اجزاء مثلا رکوع، سجدہ اور تشہد وغیرہ کو پے در پے بجالائے اور ان کے درمیان طویل اور غیرمعمولی فاصلہ نہ ڈالے۔ بنابراین اگر نماز کے اجزاء کے درمیان اتنا فاصلہ ڈالے کہ دیکھنے والے کی نظر میں نماز کی حالت سے خارج ہوجائے تو نماز باطل ہے۔
توجہاگر کوئی شخص کلمات یا ایک کلمے کے حروف کے درمیان بھولے سے غیر معمولی فاصلہ ڈالے لیکن ایسا نہ ہو کہ نماز کی صورت ختم ہوجائے اور اس کے بعد والے رکن میں پہنچنے کے بعد متوجہ ہوجائے تو نماز صحیح ہے اور ان کلمات و جملوں کو دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہے لیکن اگر بعد والے رکن میں پہنچنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو پلٹ جائے اور دوبارہ پڑھے۔
8۔ قنوت
1۔ قنوت کے معنی اور اس کا حکم
مستحب ہے کہ تمام واجب اور مستحب نمازوں کی دوسری رکعت میں الحمد اور سورے کے بعد اور رکوع سے پہلے ہاتھوں کو بلند کرے اور دعا پڑھے۔ اس عمل کو قنوت کہتے ہیں۔
توجہ
نماز جمعہ میں پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے اور دوسری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت کو بجالاتے ہیں۔
عید فطر اور عید قربان کی نماز میں پہلی رکعت میں پانچ اور دوسری رکعت میں چار قنوت ہیں۔
2۔ ذکر قنوت
قنوت میں کوئی بھی ذکر، دعا یا قرآن کی آیت پڑھ سکتے ہیں حتی کہ ایک صلوات یا سُبْحَانَ اللهِ یا بِسْمِ اللهِ یا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ پر بھی اکتفا کرسکتے ہیں لیکن بہترہے قرآن میں موجود دعائیں پڑھے مثلا رَبَّنا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَ فِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنَا عَذابَ النَّار یا معصومین علیہم السلام سے منقول دعائیں اور اذکار پڑھے مثلا لا اِلَهَ اِلاّ اللهُ الحَلِیمُ الکَرِیمُ، لا اِلهَ اِلاّ اللهُ العَلِیُّ العَظِیمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَ رَبِّ الْاَرَضِینَ السَّبْعِ وَ مَا فِیهِنَّ وَ مَا بَیْنَهُنَّ وَ رَبِّ الْعَرْشِ العَظِیمِ وَ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العَالَمینَ.
9۔ تعقیبات
تعقیبات نماز کو عربی میں پڑھنا لازم نہیں ہے لیکن بہتر ہے کہ معصومین علیہم السلام سے منقول دعاوں اور اذکار کو پڑھے ان میں سے بہترین ذکر تسبیح حضرت زہرا علیہا السلام کے نام سے معروف ہے جس میں 34 مرتبہ اللهُ اَکْبَرُ، 33مرتبہ الْحَمْدُ لِلهِ اور 33 مرتبہ سُبْحَانَ اللهِ ہے۔
توجہ
دعاوں کی کتابوں میں معصومین علیہم السلام سے بہترین اور خوبصورت مضامین کے ساتھ دعائیں نقل ہوئی ہیں۔
مستحب ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد سجدہ شکر بجالائے یعنی نماز کی توفیق ہونے اور دوسری نعمتوں کے شکر کی نیت سے پیشانی کو زمین پر رکھے اور بہتر ہے کہ تین مرتبہ یا اس سے زیادہ کہے: شکرا لله ۔
تمرین
1۔ اگر غلطی سے کسی رکن کو دوسرے رکن پر مقدم کرے تو نماز کا کیا حکم ہے؟
2۔ ترتیب اور موالات کے درمیان کیا فرق ہے؟
3۔ نماز میں موالات کو ترک کرنے کا حکم بیان کریں۔
4۔ عید فطر اور عید قربان کی نماز میں کتنی قنوت ہیں؟
5۔ کیا قنوت میں ایک دفعہ صلوات پر اکتفا کرسکتے ہیں؟
6۔ تعقیبات نماز میں کونسی دعا اور ذکر پڑھنا بہتر ہے؟
- سبق 47: یومیہ نمازیں (13)
سبق 47: یومیہ نمازیں (13)
نماز کا ترجمہ10۔ نماز کا ترجمہ
نماز پڑھنے والے کے مناسب ہے کہ نماز کے اذکار و الفاظ کو ان کے معانی پر توجہ دیتے ہوئے اور خشوع و حضور قلب کے ساتھ زبان پر جاری کرے تاکہ روح کی پاکیزگی اور دل کو خدا سے نزدیک کرنے کے لئے نماز کی فرصت سے استفادہ کرسکے۔
1۔ سورہ حمد کا ترجمہ
1۔ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ اللہ کے نام سے جس کی بے انتہا رحمت اور فیض دنیا میں سب انسانوں کے لئے عام ہے اور اس کی ابدی رحمت اور بخشش مومنین سے مخصوص ہے۔
2۔ اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمینَ تعریف اور ستائش اس خدا کی ذات سے مخصوص ہے جو تمام موجودات کا پالنے والا ہے۔
3۔ اَلرَّحْمنِ الرَّحیمِ وہ رحمان ہے (جس کی بخشش اور فضل دنیا میں تمام انسانوں کے لئے ہے) اور رحیم ہے (جس کی ابدی بخشش اور فضل مومنین سے مخصوص ہے)۔
4۔ مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ روز جزا (قیامت) کا اختیار اس کے ہاتھ میں ہے۔
5۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعینُ ہم فقط تیری بندگی کرتے ہیں اور فقط تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔
6۔ اِهْدِنَا الصَّراطَ المُسْتَقِیمَ ہمیں راہ راست کی طرف ہدایت فرما
7۔ صِراطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ان لوگوں کے راستے کی جانب جنہیں تو نے نعمت عطا کی ہے (ان کے دلوں میں اپنی معرفت کا نور روشن کیا ہے)
8۔ غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَ لَاالضَّالِّینَ جو تیرے غضب کا شکار نہ ہوئے اور گمراہی سے دوچار نہ ہوئے ( یعنی تو نے بڑی نعمت عطا کرنے کے بعدانہوں نے ناشکری اور گناہ نہیں کیا کہ تیرے غضب اور اپنی گمراہی کا باعث بنے)
2۔ سورہ توحید کا ترجمہ
1۔ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ: (اس کا ترجمہ گزر گیا)
2۔ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ آپ کہہ دیں کہ خدا یکتا ہے.
3۔ اَللهُ الصَّمَدُ خدا بے نیاز ہے اور تمام موجودات کو خدا کی ضرورت ہے۔
4۔ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُولَدْ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
5۔ وَ لَمْ یَکُنْ لَهُ کُفُواً اَحَدٌ کوئی بھی اس کے مثل نہیں ہے۔
3۔ رکوع اور سجدے کے اذکار اور بعض مستحبات کا ترجمہ
1۔ سُبْحَانِ اللهِ خدا پاک اور منزہ ہے۔
2۔ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظیمِ وَ بِحَمْدِه میرا عظیم پروردگار پاک و منزہ ہے اور میں اس کی ستائش میں مشغول ہوں۔
3۔ سُبْحانَ رَبِّیَ الْاَعْلی وَ بِحَمْدِهِ میرا پروردگار پاک و منزہ اور سب سے بالاتر ہے اور میں اس کی ستائش میں مشغول ہوں۔
4۔ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ خدا کی عنایت اس پر ہو جو اس کی ستائش کرتا ہے۔
5۔ اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّی وَ اَتُوبُ اِلَیْهِ میں اس خدا سے مغفرت چاہتا ہوں جو میرا پروردگار ہے اور میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
6۔ بِحَوْلِ اللهِ وَ قُوَّتِهِ اَقُومُ وَ اَقْعُدُ میں خدا کی قوت اور ارادے سے اٹھتا اور بیٹھتا ہوں۔
4۔ قنوت کا ترجمہ
1۔ رَبَّنا آتِنا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَ فِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً اے پروردگار! ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں نیکی عطا کر۔
2۔ وَ قِنَا عَذَابَ النَّار اور ہمیں آگ کے عذاب سے دور رکھ۔
3۔ لا اِلَهَ اِلاَّ اللهُ الحَلِیمُ الکَرِیمُ اس حلیم و کریم خدا کےعلاوہ کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں ہے۔
4۔ لا اِلَهَ اِلاَّ اللهُ العَلِیُّ العَظیمُ اس بلند مرتبہ اور بزرگ خدا کے علاوہ کوئی بھی معبود نہیں ہے۔
5۔ سُبْحانَ اللهِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ پاک و منزہ ہے وہ خدا جو سات آسمانوں کا پروردگار ہے۔
6۔ وَرَبِّ الاَرَضیْنَ السَّبْعِ اور سات زمینوں کا پروردگار ہے۔
7۔ وَمَا فِیْهِنَّ وَ مَا بَیْنَهُنَّ اور ہر اس چیز کا پروردگار ہے جو ان میں اور دونوں کے درمیان ہے۔
8۔ وَ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظیمِ اور عرش عظیم کا پروردگار ہے۔
9۔ وَ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ اور حمد و ثناء اس خدا کے لئے مخصوص ہے جو تمام موجودات کا پالنے والا ہے۔
5۔ تسبیحات اربعہ کا ترجمہ
1۔ سُبْحانَ اللهِ خدا پاک و منزہ ہے۔
2۔ وَالحَمْدُ لِلهِ حمد و ثناء خدا کے لئے مخصوص ہے۔
3۔ وَ لاَ اِلهَ اِلاَّ اللهُ اور اللہ کے علاوہ کوئی پرستش کے لائق نہیں۔
4۔ وَ اللهُ اَکْبَرُ اور اللہ سب سے بزرگ ہے۔
6۔ تشہد اور سلام کا ترجمہ
1۔ اَلْحَمْدُ لِلهِ حمد و ثناء اللہ کے لئے مخصوص ہے۔
2۔ اَشْهَدُ اَنْ لاَ اِلهَ اِلاَّ اللهُ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی پرستش کے لائق نہیں ہے۔
3۔ وَحْدَهُ لاَ شَریکَ لَهُ جو یکتا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔
4۔ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
5۔ اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ اے خدا رحمت بھیج محمد اور آل محمد پر۔
6۔ وَ تَقَبَّلْ شَفاعَتَهُ وَ ارْفَعْ دَرَجَتَهُ اور اس کی شفاعت کو قبول کر اور اس کا درجہ بلند فرما۔
7۔ اَلسَّلامُ عَلَیْکَ اَیُّهَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ اے نبی آپ پر اللہ کا درود، رحمت اور برکتیں نازل ہوں۔
8۔ اَلسَّلامُ عَلَیْنَا وَ عَلی عِبادِ اللهِ الصَّالِحینَ ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر درود ہو۔
9۔ اَلسَّلامُ عَلَیْکُم وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ آپ (مومنین اور فرشتوں) پر اللہ کا درود، رحمت اور برکتیں ہوں۔
تمرین
1۔ سورہ حمد کا ترجمہ کریں۔
2۔ سورہ توحید کا ترجمہ کریں۔
3۔ «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کا ترجمہ کیا ہے؟
4۔ «بِحَوْلِ اللهِ وَ قُوَّتِهِ اَقُومُ وَ اَقْعُدُ» کا ترجمہ کریں۔
5۔ «وَ تَقَبَّلْ شَفاعَتَهُ وَ ارْفَعْ دَرَجَتَهُ» کا معنی بیان کریں۔
6۔ سلام کا ترجمہ کریں۔
- سبق 48: یومیہ نمازیں (14)
سبق 48: یومیہ نمازیں (14)
مبطلات نماز11۔ مبطلات نماز
1۔ ان شرائط میں سے کسی کا مفقود ہونا جن کی نماز میں رعایت کرنا ضروری ہے مثلا جگہ کا غصبی نہ ہونا
2۔ وضو یا غسل یا تیمم کا باطل ہونا۔
3۔ قبلے سے رخ پھیرنا
4۔ بات کرنا
5۔ بدن کے اگلے حصے پر ہاتھوں کو باندھنا (تکتف)
6۔ الحمد کے بعد آمین کہنا
7۔ ہنسنا
8۔ رونا
9۔ نماز کی شکل باقی نہ رہنا مثلا تالی بجانا یا اچھلنا
10۔ کھانا اور پینا
11۔ وہ شک جو نماز کو باطل کرتا ہے (شکیات کے باب میں بیان کیا جائے گا)
12۔ ارکان نماز کوعمدا یا سہوا کم کرنا اور زیادہ کرنا مثلا رکوع کو کم کرنا یا زیادہ کرنا اسی طرح غیر رکن واجبات کو عمدا کم یا زیادہ کرنا
توجہجو چیزیں نماز کو باطل کرتی ہیں، مبطلات نماز کہلاتی ہیں۔
1۔ ان شرائط میں سے کسی کا مفقود ہونا جن کی نماز میں رعایت کرنا ضروری ہے مثلا جگہ کا غصبی نہ ہونا
اگر نماز کے دوران ان شرائط میں سے کوئی مفقود ہوجائے جن کی رعایت ضروری ہے مثلا نماز کے دوران متوجہ ہوجائے کہ نماز کی جگہ غصبی ہے تو نماز باطل ہے۔
2۔ وضو کا باطل ہونا
اگر نماز کے دوران ایسی چیز سے دوچار ہوجائےجس سے وضو یا غسل یا تیمم باطل ہوتا ہے مثلا نیند آئے یا پیشاب وغیرہ نکلے تو نماز باطل ہے۔
3۔ قبلے سے منہ موڑنا
گر عمدا قبلے سے اس حد تک اپنا بدن اور رخ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک پھیرے کہ دائیں اور بائیں طرف آسانی سے دیکھ سکتا ہو تو نماز باطل ہے اور اگر بھول کربھی ایسا کرے تو احتیاط واجب کی بناپر نماز باطل ہے لیکن اگر چہرے کو ایک طرف تھوڑا پھیرے تو نماز باطل نہیں ہے۔
4۔ بات کرنا
اگر نماز کے دوران عمدا بات کرے تو نماز باطل ہے اگرچہ ایک کلمہ ہی کیوں نہ ہو۔
توجہ
اگر ذکر کی نیت سے کوئی کلمہ ادا کرے مثلا کہے: اللہ اکبر اور کہتے وقت آواز کو بلند کرے یا کسی کو کوئی بات سمجھادے تو کوئی اشکال نہیں ہے لیکن کسی کو بات سمجھانے کی نیت سے ذکر پڑھے تو اگرچہ ذکر کی بھی نیت رکھتا ہو تو نماز باطل ہے۔
ضروری ہے کہ انسان نماز کی حالت میں کسی کو سلام نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اسے سلام کرے تو اس کا جواب دینا واجب ہے اور اس طرح جواب دے کہ کلمہ سلام پہلے ہو مثلا کہے: سلام علیکم یا السلام علیکم؛ اور علیکم السلام نہیں کہنا چاہئے۔
اگر کوئی شخص کسی گروہ کو سلام کرے اور کہے: اَلسَّلامُ عَلَیکُم جَمِیعاًاور ان میں سے ایک نماز میں مشغول ہو چنانچہ دوسرا شخص اس کا جواب دے تو نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ جواب نہ دے۔
سلام کے لفظ کے بغیر تحیت کا جواب دینا نماز کی حالت میں جائز نہیں ہے لیکن اگر نماز کی حالت میں نہ ہو چنانچہ ایسا کلام عرف میں تحیت شمار ہوتا ہے تو احتیاط (واجب) ہے کہ اس کا جواب دے۔
سلام کے بارے میں چند نکتےمردوں اور عورتوں کی طرح ممیز بچے لڑکا ہو یا لڑکی کے سلام کا جواب دینا بھی واجب ہے۔
سلام کا جواب فورا دینا واجب ہے اگر کوئی کسی بھی وجہ سے اتنی تاخیر کرے کہ اس سلام کا جواب شمار نہ کیا جائے چنانچہ نماز کی حالت میں ہو تو سلام کا جواب نہیں دینا چاہئے اور اگر نماز کی حالت میں نہ ہو تو بھی جواب دینا واجب نہیں ہے اور اگر تاخیر کی مقدار میں شک کرے تو بھی یہی حکم ہے چنانچہ عمدا جواب دینے میں تاخیر کی ہے تو گناہ کیا ہے۔
نماز پڑھنے والے کو سلام کرتے ہوئے سلام علیکم کے بجائے فقط سلام کہے، اگر عرفا اس کو سلام کہاجاتا ہو تو جواب دینا واجب ہے اور احتیاط کی بناپر اسی طرح جواب دے۔
اگر کوئی شخص ایک وقت میں کئی مرتبہ سلام کرے تو ایک جواب کافی ہے اور کئی افراد ایک وقت میں سلام کریں توسب کے سلام کا قصد کرکے ایک جملے میں سب کو شامل کرے تو ایک جواب کافی ہے مثلا سلام علیکم
5۔ ہاتھ باندھنا
نماز کی حالت میں سینے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہونا (بدن کے اگلے حصے پر ہاتھوں کو باندھنا) چنانچہ اس قصد سے ہو کہ یہ عمل نماز کا جزء ہے تو نماز باطل ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اس قصد کے بغیر بھی اس کام کو انجام نہ دے۔
6۔ الحمد کے بعدآمین کہنا
سورہ حمد کی قرائت کے بعد آمین کہنا جائز نہیں ہے (اور نماز کو باطل کرتا ہے) مگر یہ کہ تقیہ کی حالت میں ہو۔
7۔ ہنسنا
عمدا اور آواز کے ساتھ ہنسنا (قہقہہ لگانا) نماز کو باطل کرتا ہے لیکن سہوا یا بغیر آواز کے ہنسے تو نماز باطل نہیں ہوتی ہے۔
8۔ رونا
دنیاوی کام کے لئے عمدا اور بلند آواز سے رونے سے نماز باطل ہوتی ہے لیکن خدا کے خوف سے یا آخرت کے لئے روئے تو کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ بہترین اعمال میں سے ہے۔
9۔ نماز کی حالت ختم ہونا مثلا تالی بجانا اور اچھلنا
وہ کام جس سے نماز کی حالت ختم ہوجائے ، نماز کو باطل کرتا ہے عمدا ہو یا سہوا مثلا تالی بجانا اور ہوا میں اچھلنا
10۔ کھانا اور پینا
نماز کی حالت میں کھانا اور پینا نماز کو باطل کرتا ہے چاہے کم ہو یا زیادہ ہو لیکن منہ میں باقی رہنے والی غذا کے ذرات کو نگلنا یا ذرا سی قند یا شکر کو چوسنا نماز باطل ہونے کا باعث نہیں ہے۔ اسی طرح اگر سہوا یا فراموشی سے کوئی چیز کھائے یا پیئے تو نماز باطل نہیں ہوتی ہے اس شرط کے ساتھ کہ نماز کی حالت سے خارج نہ ہوجائے۔
توجہاگر نماز پڑھنے والا کسی کو کوئی بات سمجھانے یا سوال کا جواب دینے کے لئےنماز کی حالت میں ہاتھ یا آنکھ کو اس طرح تھوڑی حرکت دے کہ سکون یا نماز کی شکل کے منافی نہ ہو تو نماز باطل نہیں ہوتی ہے۔
مبطلات نماز کے بارے میں چند نکات
نماز کے دوران آنکھوں کو بند کرنے میں شرعا کوئی مانع نہیں ہے (اور نماز کو باطل نہیں کرتا ہے) اگرچہ رکوع کے علاوہ میں مکروہ ہے۔
نماز کے دوران قنوت کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر ملنا مکروہ ہے لیکن نماز کو باطل نہیں کرتا ہے۔
مکلف کے لئے جائز نہیں ہے کہ دوسروں کے ساتھ حسد، کینہ یا دشمنی کا اظہار کرے لیکن یہ امور نماز باطل ہونے کا باعث نہیں ہیں۔
تمرین
1۔ مبطلات نماز کتنے ہیں؟ ذکر کریں۔
2۔ سلام کے لفظ کے بغیر تحیت کا جواب دینے کا کیا حکم ہے؟
3۔ کیا بچے اور بچیوں کے سلام کا جواب دینا واجب ہے؟
4۔ اگر کوئی شخص ایک وقت میں کئی مرتبہ سلام کرے تو کیا ایک جواب دینا سب کے لئے کافی ہے؟
5۔ ہنسنا کب نماز باطل ہونے کا باعث بنتا ہے؟
6۔ نما ز کی حالت میں قنوت کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر ملنے کا کیا حکم ہے؟
- سبق 49: یومیہ نمازیں (15)
سبق 49: یومیہ نمازیں (15)
شکیات نمازشکیات نماز 23 ہیں؛
نماز کو باطل کرنے والے شکوک کی تعداد 8 ہے
6 قسم کے شکوک پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے
9 قسم کے شکوک صحیح ہیں
1۔ نماز کو باطل کرنے والے شکوک
1۔ دو رکعتی واجب نمازوں کی رکعت کے بارے میں شک مثلا نماز صبح اور نماز مسافر لیکن دو رکعتی نماز احتیاط کی رکعت کی تعداد کے بارے میں شک نماز کو باطل نہیں کرتا ہے۔
2۔ تین رکعتی نماز وں کی رکعت کے بارے میں شک (مغرب)
3۔ چار رکعتی نمازوں میں شک جب شک کی ایک طرف ایک رکعت ہو مثلاشک کرے کہ ایک رکعت پڑھی ہے یا تین
4۔ چار رکعتی نمازوں میں دوسرا سجدہ ختم ہونے سے پہلے شک کہ ایک طرف دورکعت ہو اور دوسری طرف دو سے زیادہ مثلا دو سجدے مکمل ہونے سے پہلے دو اور تین میں شک
5۔ دو اور پانچ یا پانچ سے زیادہ میں شک
6۔ تین اور چھ یا چھ سے زیادہ میں شک
7۔ چار اور چھ یا چھ سے زیادہ میں شک
8۔ نماز کی رکعتوں میں اس طرح شک کرے کہ نہیں جانتا ہو کہ کتنی رکعت پڑھی ہے۔
توجہ
اگر نماز کی رکعتوں کی تعداد میں شک کرے مثلا شک کرے کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو پہلے تھوڑی دیر غور کرنا چاہئےاگر کسی طرف یقین یا گمان ہوجائے تو اسی کے مطابق نماز کو جاری رکھے اور نماز صحیح ہے اور اگر کسی طرف یقین یا گمان نہ ہوجائے تو ان احکام کے مطابق عمل کرے جو شک کے بارے میں بیان کئے جائیں گے۔
اگر نماز پڑھنے والے کو ایسا شک ہوجائے جو نماز کو باطل کرتا ہے تو احتیاط کی بناپر نماز کو فورا نہیں توڑ سکتا ہے بلکہ تھوڑی دیر غور وفکر کرے تاکہ اس کا شک مستحکم ہوجائے (یعنی کسی ایک طرف یقین یا گمان پیدا نہ ہو) اس وقت نماز توڑ سکتا ہے۔
2۔ وہ شکوک جن پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے
1۔ موقع گزرنے کے بعد شک مثلا رکوع میں پہنچنے کے بعد حمد اور سورہ کے بارے میں شک
2۔ سلام کے بعد شک
3۔ نماز کا وقت گزرجانے کے بعد شک
4۔ کثیر الشک کا شک یعنی وہ شخص جو زیادہ شک کرتا ہے
5۔ امام اور ماموم کا شک
6۔ مستحب نمازوں میں شک
توجہاگر کوئی شخص کئی سال گزرنے کےبعد شک کرے کہ اس کی نمازیں صحیح ہیں یا نہیں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے (کیونکہ عمل کے بعد شک پر اعتبار نہیں کیا جاتا ہے)
کثیر الشک کو چاہئے کہ اس کام کے انجام دینے پر بنا رکھے جس میں شک کیا ہے مگر یہ نماز باطل ہونے کا باعث بنے۔ اس صورت میں اس کام کے انجام نہ دینے پر بنا رکھنا چاہئے اس مورد میں نماز کی رکعتوں، افعال اور اقوال میں کوئی فرق نہیں ہے (مثلا اگر شک کرے کہ سجدہ یا رکوع انجام دیا ہے یا نہیں تو انجام دینے پر بنا رکھے اگر اس کا موقع نہ گزرا ہو لیکن اگر شک کرے کہ نماز صبح دو رکعت پڑھی ہے یا تین رکعت تو دو رکعت پڑھنے پر بنا رکھنا چاہئے۔)
نافلہ کے اقوال اور افعال میں شک کا حکم فریضہ کے اقوال و افعال میں شک کے حکم کی مانند ہے یعنی اگر اس کا موقع نہیں گزرا ہے تو اس پر اعتبار کرنا چاہئے اور اگر اس کو انجام دینے کا موقع گزر گیا ہے تو اس پر اعتنا نہیں کرنا چاہئے (مثلا حمد یا رکوع کے بارے میں شک کرے چنانچہ اس کا موقع نہیں گزرا ہے تو بجالانا چاہئے اور اگر موقع گزرگیا ہے تو اعتنا نہیں کرنا چاہئے۔)
3۔ صحیح شکوک
چار رکعتی نمازوں کی رکعتوں میں شک کرے تو 9 صورتوں میں صحیح ہے۔
1۔ دوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد دو اور تین میں شک
2۔ دوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد دو اور چار میں شک
3۔ دوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد دو اور تین اور چار میں شک
4۔ دوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد چار اور پانچ میں شک
5۔ نماز کے کسی بھی مقام پر تین اور چار میں شک
6۔ قیام کی حالت میں چار اور پانچ میں شک
7۔ قیام کی حالت میں تین اور پانچ میں شک
8۔ قیام کی حالت میں تین اور چار اور پانچ میں شک
9۔ قیام کی حالت میں پانچ اور چھ میں شک
شکیات نماز کے بارے میں دو نکتے
نماز احتیاط کی رکعت کی تعداد(جو نماز کی رکعتوں میں شک کی وجہ سے بجالاتے ہیں) نماز میں ہونے والی احتمالی کمی کی تعداد کے مطابق ہوتی ہے بنابراین دو اور چار میں شک کی صورت میں دو رکعت نماز احتیاط واجب ہے اور تین اور چار میں شک کی صورت میں ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر یا دو رکعت بیٹھ کر واجب ہے۔
اگر نماز کے اذکار میں سے کوئی ایک کلمہ یا قرآنی آیات یا قنوت کی دعائیں سہوا غلط پڑھے تو سجدہ سہو واجب نہیں ہے۔
تمرین
1۔ نماز کو باطل کرنے والے شکوک کونسے ہیں؟ بیان کریں۔
2۔ کن شکوک کی پروا نہیں کرنا چاہئے؟
3۔ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ کثیر الشک کو اپنے شک کی پروا نہیں کرنا چاہئے چنانچہ نماز میں کوئی شک پیش آئے تو کیا حکم ہے؟
4۔ نماز نافلہ میں رکعت کے علاوہ کسی اور چیز میں شک مثلا ایک یا دو سجدے انجام دینے میں شک ہوجائے تو پرو اکرنا چاہئے یا نہیں؟
5۔ صحیح شکوک کون کونسے ہیں؟
6۔ نماز احتیاط کی رکعتوں کی تعداد معلوم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
- سبق 50: یومیہ نمازیں (16)
سبق 50: یومیہ نمازیں (16)
نماز جمعہ13۔ نماز جمعہ
1۔ نماز جمعہ کا حکم
1۔ جمعہ کے دن نماز جمعہ نماز ظہر کے بجائے پڑھی جاتی ہے اور عصر حاضر(زمانہ غیبت امام عجل اللہ فرجہ الشریف) میں واجب تخییری ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ آج کے دور میں ایران میں اسلامی عادل حکومت قائم ہے لہذا حد الامکان نماز جمعہ کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔
توجہواجب تخییری کا مطلب یہ ہے کہ مکلف جمعہ کے دن ظہر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے نماز جمعہ یا نماز ظہر پڑھنے میں اختیار ہے۔
اگرچہ عصر حاضر میں نماز جمعہ واجب تخییری ہے اور اس میں حاضر ہونا واجب نہیں ہے لیکن اس میں شرکت کے فوائد اور آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب نہیں ہے کہ مومنین صرف نامعقول عذر کی بناپر اس نماز میں شرکت کی برکات سے خود محروم رکھیں۔
عورتوں کے لئے نماز جمعہ میں شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور جماعت کا ثواب ملے گا۔
نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اس میں شرکت نہ کرنا شرعا ناپسند ہے۔
جس شخص نے نماز جمعہ میں شرکت نہیں کی ہو، نماز ظہر اور عصر کو اول وقت میں پڑھ سکتا ہے اور واجب نہیں کہ نماز جمعہ ختم ہونے تک صبر کرے۔
جس جگہ نماز جمعہ قائم ہورہی ہے اس کے نزدیک کسی جگہ نماز ظہر قائم کرنے میں ذاتا کوئی اشکال نہیں ہے اور مکلف کے لئے نماز جمعہ میں شرکت سے بری الذمہ کا باعث ہے کیوں کہ عصر حاضر میں نماز جمعہ واجب تخییری ہے لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ نماز جمعہ قائم ہونے والی جگہ کے نزدیک نماز ظہر قائم کرنا، ممکن ہے مؤمنین کی صفوں میں تفرقے کا باعث بنے بلکہ لوگوں کی نظر میں امام جمعہ کی توہین اور بے احترامی اور نماز جمعہ سے بے رغبتی شمار ہوجائے لہذا مناسب ہے کہ مؤمنین ایسا اقدام نہ کریں بلکہ مفسدہ اور حرام کا باعث بنے تو اس کو قائم کرنے سے اجتناب کرنا واجب ہے۔
2۔ نماز جمعہ نماز ظہر سے کفایت کرتی ہے (یعنی جمعہ کے دن نماز جمعہ نماز ظہر کی جانشین ہوتی ہے)
توجہاگرچہ نماز جمعہ نماز ظہر سے کفایت کرتی ہے لیکن نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر کو احتیاط کے طور پر پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے حتی کہ اگر امام جمعہ نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر نہ پڑھے اور اگر ماموم نماز ظہر پڑھنے میں احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے نماز عصر کو جماعت کے ساتھ پڑھے تو احتیاط کامل یہ ہے کہ اس شخص کی اقتدا کرے جس نے نماز جمعہ کے بعد احتیاطا نماز ظہر پڑھی ہو۔
یورپی اور غیر یورپی ممالک میں اسلامی تنظیموں کے طلباء کی جانب سے قائم ہونے والی نماز جمعہ میں شرکت کرنا جہاں زیادہ شرکاء اسی طرح امام جمعہ کا تعلق اہل سنت سے ہوتا ہے، مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کے تحفظ کے لئے کوئی اشکال نہیں ہے اور اس صورت میں نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھنا واجب نہیں ہے۔
مسافر ماموم کے لئے نماز جمعہ صحیح اور نماز ظہر سے کفایت کرتی ہے۔
جنگ میں زخمی ہونے والے جو رگ کاٹنے کی وجہ سے پیشاب روکنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں، کے لئے نماز جمعہ میں شرکت جائز ہے لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ان پر واجب ہے کہ وضو کرنے کے فورا بعد نماز شروع کریں بنابراین نماز جمعہ کے خطبوں سے پہلے کیا ہوا وضو اس صورت میں نماز جمعہ کے لئے کافی ہے جب وضو کے بعد کوئی حدث سرزد نہ ہوا ہو۔
2۔ نماز جمعہ کی شرائط
1۔ جماعت کے ساتھ پڑھے
2۔ کم از کم پانچ نفر شرکت کریں امام کے علاوہ چار ماموم
3۔ نماز جماعت میں معتبر تمام شرائط کی رعایت کرے مثلا صفوں کا اتصال
4۔ دو نماز جمعہ کے درمیان حداقل ایک فرسخ فاصلہ ہو[1]
1۔ جماعت کے ساتھ پڑھے
نماز جمعہ صحیح ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ قائم کی جائے ۔ نماز جمعہ کو فرادی پڑھنا صحیح نہیں ہے اگرچہ ان لوگوں کے نزدیک پڑھے جو جماعت کے ساتھ پڑھ رہے ہیں
2۔ نماز جماعت میں معتبر تمام شرائط کی رعایت کرنا مثلا صفوں کا اتصال۔ جن شرائط کی نماز جماعت کے دوران رعایت کرنا ضروری ہے نماز جمعہ میں بھی معتبر ہیں مثلا صفوں کا اتصال
توجہامام جمعہ عادل ہونا چاہئے بنابراین جو شخص عادل نہ ہو یا اس کی عدالت میں شک ہو اس کی اقتداصحیح نہیں اور اس کی نماز جمعہ بھی صحیح نہیں ہے لیکن وحدت کی حفاظت کی خاطر نماز جمعہ میں شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور ہر صورت میں (نماز جمعہ میں شرکت کرے یا نہ کرے) کسی کو حق نہیں کہ دوسروں کو نماز جمعہ میں شرکت نہ کرنے تشویق اور ترغیب دے۔
اگرنماز کے بعد امام جمعہ کی عدالت میں شک ہو یا عدالت نہ ہونے پر یقین ہو جائے تو جو نماز پڑھی ہے صحیح ہے اور دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔
جمعہ کی امامت کے لئے امام جمعہ کو منصوب کرنا اگر اس کی عدالت پر اطمینان اور وثوق کا باعث ہوتو اس کی اقتدا صحیح ہونے کے لئے کافی ہے۔
3۔ دونماز جمعہ کے درمیان حداقل ایک فرسخ فاصلہ ہو
دو نماز جمعہ کے درمیان ایک فرسخ سے کم فاصلہ نہ ہو پس اگر ایک فرسخ سے کم فاصلے میں دو نماز جمعہ پڑھی جائیں تو پہلی نماز صحیح اور دوسری باطل ہے اگر دونوں ایک ساتھ قائم ہوجائیں تو دونوں باطل ہیں۔
3۔ نماز جمعہ کا وقت
نماز جمعہ کا وقت ابتدائے زوال آفتاب (اول ظہر) سے شروع ہوتا ہے اور احتیاط (واجب) یہ ہے کہ اس کو نماز ظہر کے عرفی وقت کے اوائل سے زیادہ تاخیر نہ کرے۔
4۔ نماز جمعہ کی کیفیت
1۔ نماز جمعہ نماز صبح کی طرح دو رکعت ہے لیکن دو خطبے ہیں جو نماز سے پہلے امام جمعہ کے ذریعے دئیے جاتے ہیں۔
2۔ احتیاط کی بناپر نماز جمعہ میں قرائت کو بلند آواز میں کہنا چاہئے اور مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ جمعہ اور دوسری رکعت میں سورہ منافقون پڑھے اسی طرح دو قنوت ایک پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے اور دوسری رکعت دوم میں رکوع کے بعد مستحب ہے۔
توجہاحتیاط کی بناپر نمازیوں کو چاہئے کہ امام کے خطبوں کو سنیں اور خاموش رہیں اور باتیں کرنے سے پرہیز کریں۔
اگر کوئی شخص نماز جمعہ کے خطبوں کے لئے نہ پہنچ سکے اور نماز میں شرکت کرے تو اس کی نماز صحیح ہے حتی اگر آخری رکعت کے رکوع کا ایک لحظہ پائے ۔
نماز جمعہ کے خطبوں کو ظہر سے پہلے پڑھ سکتے ہیں۔
نماز جمعہ کے بارے میں چند نکتےہروہ کام جو مؤمنین کے درمیان اختلاف اور صفوں میں انتشار کا باعث بنے جائز نہیں ہے اگرچہ نماز جمعہ کیوں نہ ہو جو کہ اسلامی شعائر اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا مظہر ہے۔
جمعہ کے دن نماز عصر میں امام جمعہ کے علاوہ کسی اور کی اقتدا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
نماز جمعہ میں کسی اور واجب نماز کو پڑھنے کے لئے امام جمعہ کی اقتدا کرنا صحیح ہونے کے لحاظ سے محل اشکال ہے۔
تمرین
1۔ نماز جمعہ میں واجب تخییری کا کیا مطلب ہے؟
2۔ کیا نماز جمعہ قائم ہونے والی جگہ کے نزدیک نماز ظہر کی جماعت قائم کرنا جائز ہے؟
3۔ امام جمعہ کی عدالت میں شک یا عدالت نہ ہونے پر یقین ہوجائے تو اس کے پیچھے پڑھی گئی نمازوں کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے؟
4۔ کسی کو امام جمعہ بنانا اس کی عدالت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے؟
5۔ اگر کوئی نماز جمعہ کے خطبوں میں نہ پہنچ سکے بلکہ فقط نماز کے دوران حاضر ہوجائے اور نماز جمعہ میں اقتدا کرے تو کیا اس کی نماز صحیح اور کافی ہے ؟
6۔ کیا ظہر شرعی سے پہلے نماز جمعہ کے خطبے دینا صحیح ہے؟
- سبق 51: یومیہ نمازیں (17)
سبق 51: یومیہ نمازیں (17)
نماز مسافر ((1))14۔ نماز مسافر
1۔ سفر میں قصر کا واجب ہونا
سفر میں چار رکعتی نماز کو ان شرائط کے ساتھ جو بیان کئے جائیں گے، قصر (دو رکعت) پڑھنا چاہئے
توجہقصر کا وجوب صرف چار رکعتی نمازوں سے مخصوص ہے جو نماز ظہر، عصر اور عشا ہیں اور نماز صبح اور مغرب قصر نہیں ہوتی ہیں۔
2۔ نماز مسافر کی شرائط
مسافر کو چاہئے کہ آٹھ شرائط کے ساتھ چار رکعتی نمازوں کو دو رکعت پڑھے۔
1۔ پہلی شرط
اس کا سفر مسافت شرعی کےبرابر ہو یعنی جانا یا واپس آنا یا دونوں کو ملاکر آٹھ فرسخ بن جائیں اس شرط کے ساتھ کہ جانا چار فرسخ سے کم نہ ہو۔
2۔ دوسری شرط
شروع سے آٹھ فرسخ طے کرنے کا قصد رکھتا ہو بنابراین اگر شروع میں آٹھ فرسخ تک طے کرنے کا قصد نہیں رکھتا تھا اور منزل تک پہنچنے کے بعد ایسی جگہ جانے کا ارادہ کرے جس کافاصلہ پہلی جگہ سے شرعی مسافت سے کم ہو لیکن منزل سے وہاں تک شرعی مسافت کے برابر ہوتو نماز کو پورا پڑھنا چاہئے۔
3۔ تیسری شرط
راستے میں مسافت شرعی طے کرنے کے قصد سے پھرنہ جائے بنابراین اگر راستے میں چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے قصد سے پھرجائے یا تردد کا شکار ہوجائے تو اس کے بعد سفر کا حکم اس پر جاری نہیں ہوگا اگرچہ حدترخص سے گزرنے کے بعد اور نیت سے پھرجانے سے پہلے نماز کو قصر کرکے پڑھا ہو بنابراحتیاط واجب وقت کے اندر پورا کرکے دوبارہ پڑھے اور وقت کے بعد (ہوتو پورا کرکے) قضا کرے۔
4۔ سفر کے شروع میں یا سفر کے دوران مسافت شرعی تک پہنچنے سے اپنے وطن سے عبور کرنے یا کسی جگہ دس دن یا اس سے زیادہ رہنے کا قصد نہ کرے
5۔ پانچویں شرط
شرعی لحاظ سے سفر اس کے لئے جائز ہو بنابراین اگر سفر معصیت اور حرام ہو چاہے خود سفر حرام ہو مثلا جنگ سے بھاگنا یا سفر کا ہدف حرام ہو مثلا رہزنی کے لئے سفر کرنا، تو سفر کا حکم نہیں رکھتا ہے اور نماز پوری ہوگی۔
6۔ چھٹی شرط
مسافر خانہ بدوش نہ ہو مثلا بعض صحرانشین جن کے لئے کوئی مستقل جگہ نہیں ہوتی ہے بلکہ بیابانوں میں گھومتے ہیں اور جہاں پانی اور چارہ و چراگاہ مل جائے ٹھہر جاتے ہیں۔
7۔ ساتویں شرط
مسافرت کو اپنا مشغلہ قرار نہ دیا ہو مثلا سامان اٹھانے والا، ڈرائیور اور ملاح وغیرہ۔ جس شخص کا مشغلہ سفر کے اندر ہو وہ بھی اسی حکم میں ہے۔
8۔ آٹھویں شرط
حد ترخص تک پہنچ جائے ۔ حدترخص سے مراد وہ جگہ ہے جہاں متعارف اور لاوڈسپیکر کے بغیر شہر کی اذان سنائی نہ دے۔
1۔ شرعی مسافت (آٹھ فرسخ)
1۔ جس شخص کے جانے کی مسافت چار فرسخ سے کم اور واپس آنے کا راستہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ ہو تو اس کی نماز پوری ہوگی بنابراین دوسرے علاقوں سے آنے والے ملازمین چنانچہ ان کے وطن اور ملازمت کی جگہ کے درمیان اگرچہ رفت و آمد دونوں کو ملاکر بھی شرعی مسافت کے برابر نہ ہو تو مسافر کا حکم نہیں رکھتے ہیں۔
2۔ اگر کوئی شخص کسی خاص جگہ کی نیت سے اپنے شہر سے خارج ہوجائے اور وہاں سیر کرے تو اس جگہ پہنچ کر گھومنا اس کی سفری مسافت کا حصہ شمار نہیں ہوگا۔
3۔ آٹھ فرسخ کی مسافت کو شہر کے آخر سے شمار کرنا چاہئےاور شہر کا آخری حصہ تعیین کرنا عرف پر موقوف ہے اگر عرف کی نظر میں کارخانے اور شہر کے اطراف میں واقع بستیاں شہر کا جز نہ ہوں تو مسافت کو شہر کے آخری مکانات سے شمار کیا جائے گا۔
4۔ اگر کسی شخص کی منزل شہر نہیں بلکہ شہر کے اردگرد مخصوص جگہ ہو اس طرح کہ عرفا شہر میں پہنچنا منزل تک پہنچنا شمار نہ ہوجائے بلکہ شہر میں داخل ہوکر گزرنا منزل کی طرف راستہ شمار ہوتا ہو مثلا یونیورسٹی یا چھاونی یا ہسپتال جو شہر کے اردگرد واقع ہیں تو اس صورت میں شہر کا ابتدائی حصہ انتہائے مسافت نہیں بلکہ وہ مخصوص جگہ انتہائے مسافت شمار ہوگی۔
2۔ مسافت کا قصد ہو
1۔ اگر کوئی مسافر تین فرسخ تک جانے کا ارادہ کرے لیکن ابتدا میں یہ بات ذہن میں ہے کہ راستے میں کسی معین کام کو انجام دینے کے لئے ذیلی راستے سے ایک فرسخ تک سفر کرے اور اس کے بعد دوبارہ اصلی راستے میں داخل ہوجائے اور اپنے سفر کو جاری رکھے تو مسافر کا حکم رکھتا ہے اور اصلی راستے سے خارج ہونے اور واپس آنے کے لئے جس مقدار کو طے کیا ہے وہ شرعی مسافت کی تکمیل کے لئے کافی ہے۔
2۔ اگر کوئی شخص اپنے محل سکونت سے دوسری جگہ سفر کرے جہاں کا فاصلہ شرعی مسافت سے کم ہو اور ہفتے کے دوران کئی مرتبہ اس جگہ سے دوسری جگہوں کی طرف سفر کرے اس طرح کہ مجموعی مسافت آٹھ فرسخ سے زیادہ ہوجائے چنانچہ اگر سفر کے آغاز سے شرعی مسافت طے کرنے کا قصد نہیں رکھتا تھا اور اس کی پہلی منزل اور دوسری جگہوں کے درمیان بھی شرعی مسافت کے برابر فاصلہ نہ ہوتو مسافر کا حکم نہیں رکھتا ہے۔
3۔ گناہ کا سفر
1۔ نماز قصر ہونے کے لئے سفر کے جائز ہونے کی شرط فقط اس کی ابتدا سے مخصوص نہیں ہے بلکہ پورے سفر کے دوران یہ شرط موجود ہونا چاہئے بنابراین اگر سفر کے دوران کسی شخص کا قصد گناہ میں تبدیل ہوجائے تو سفر حرام ہوگا اور نماز پوری ہوگی اگرچہ مسافت شرعی طے کی ہو۔
2۔ اگر کوئی شخص مباح سفر شروع کرے اور راستے میں (آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے) اپنے وظیفے کے مطابق نماز کو قصر کرکے پڑھے اس کے بعد اس کا قصد حرام میں بدل جائے تو جو نماز قصر کرکے پڑھی ہے، وقت باقی ہو تو دوبارہ پوری پڑھے اور وقت ختم ہواہو تو قضا کرے۔[1]
3۔ اگر سفر اور اس کا ہدف گناہ نہ ہولیکن سفر کے ضمن میں حرام کام انجام دے (مثلا غیبت کرے یا شراب پی لے) تو سفر معصیت کا حکم نہیں رکھتا ہے اور نماز قصر ہے البتہ اگر پورے سفر کے دوران (کچھ گھنٹوں کے علاوہ) حرام کام انجام پائے اس طرح کہ سفر کا اللہ کی معصیت میں گزرنا کہاجائے تو اس صورت میں احتیاط یہ ہے کہ نماز کو جمع کرے(یعنی پوری بھی پڑھے اور قصر بھی کرے)
4۔ اگر سفر کے آغاز میں جانتا ہو کہ نماز کے بعض واجبات ترک ہوجائیں گے تو احتیاط (واجب) یہ ہے کہ سفر نہ کرے مگر یہ کہ سفر کو ترک کرنا اس کے لئے مشقت یا ضرر کا باعث ہو بہرحال ہر صورت میں نماز کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔
7۔ پیشے کا سفر
سفر میں نماز قصر ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ سفر اس کا پیشہ نہ ہو بنابراین اگر سفر پیشہ ہو خواہ پیشے کی بنیاد ہی سفر پر ہو مثلا ڈرائیور اور پائلٹ خواہ پیشے کا مقدمہ ہو مثلا ڈاکٹر یا معلم جو اپنے پیشے کے لئے سفر کرتے ہیں، تو اس سفر میں نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
توجہ
گذشتہ مسئلے میں کوئی فرق نہیں ہے کہ پیشہ مال و دولت کسب کرنے کے لئے ہو یا نہ ہو۔
نماز پوری ہونے اور روزہ صحیح ہونے کے لئے لازم ہے کہ عرفا سفر اس کا پیشہ شمار کیا جائے خواہ کئی مرتبہ سفر کرنے سے ہوجائے یا ایک طویل سفر سے مثلا کوئی اپنے پیشے کے سلسلے میں سمندر میں ایک لمبا سفر طے کرے۔
کسی سفر کو عرفا پیشے کا سفر کہنے کے لئے تین چیزیں ہونا چاہئے
الف۔ پیشے کا سفر انجام دینے کا قصدکرے
ب۔ پیشے کا سفر شروع کرے
ج۔ پیشے کے سفر کو جاری رکھنے کا قصدکرے
جن موارد میں کسی سفر کے بارے میں پیشہ یا ہنر کہنا مشکوک ہو نماز قصر اور روزہ باطل ہے۔
۔ اگر حصول علم کے لئے سفر کرنا پیشے کا حصہ ہو مثلا کسی ملازم کے لئے ادارے کی طرف سے ٹریننگ کا پروگرام منعقد کیا جائے اور اس میں شرکت کے لئے سفر پر مجبور ہو تو یہ سفر پیشے کا سفر ہوگا۔
وہ طالب علم جو حصول علم کے لئے سفر کرتا ہے تاکہ اس کےذریعے مستقبل میں کوئی پیشہ اختیار کرے تو احتیاط واجب کی بناپر حصول علم کے سفر میں نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے اور روزہ بھی رکھے اور بعد میں اس کی قضابھی کرے۔
اگر حصول علم کے میدان میں وارد ہوتے ہی کسی گروہ کا لیبل لگ جائے جس گروہ کا عنوان کوئی ہنر ہو مثلا دینی طالب علم کو شروع میں ہی مولانا کہا جاتا ہے یا کمیشن میں منتخب ہونے والے کچھ مہینے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد سند حاصل کرتے ہیں اور افسر کا لقب مل جاتا ہے اس طرح کا حصول علم پیشے کا حصہ شمار ہوگا اور تعلیم کے سلسلے میں سفر کے دوران نماز پوری ہوگی اور روزہ رکھے۔
اگر کسی کا پیشہ یہ ہو کہ سال میں فقط ایک دفعہ طویل سفر کرتا ہو مثلا قافلہ حج کا سالار ہو چنانچہ ہرسال اسی کام میں مشغول رہنے کا قصد ہوتو اس کی نماز حتی کہ پہلے سفر میں بھی پوری ہوگی۔
گذشتہ مسئلے میں اگر جاری رکھنے کا قصد نہیں رکھتا ہوتو پیشے کے سفر کا حکم نہیں رکھتا ہے۔
جو شخص سال کے کسی موسم میں پیشے کا سفر اختیار کرتا ہو چنانچہ ہر سال اس کو اختیار کرنا چاہتا ہو یا ایک دفعہ لیکن لمبی مدت کے لئے مثلا کم از کم تین مہینے مسلسل اسی میں مشغول رہنا چاہتا ہو اور فقط ان دنوں میں چھٹی کرنا چاہتا ہو جن میں عام طور پر چھٹی کرتے ہیں مثلا تعطیلات اور عزاداری کے ایام تو اس کا سفر پیشے کا سفر ہے اور ابتدائی سفر میں بھی اس کی نماز قصر ہے لیکن اگر اس کی مدت طویل نہ ہو مثلا ایک مہینہ کام کرنا چاہتا ہو تو عرفا اس کو پیشے کا سفر کہنا واضح نہیں ہے اور شک کی صورت میں نماز قصر ہے۔
جس شخص کا پیشہ شہر سے باہر مسافت شرعی سے کم چکر لگانا ہو مثلا ٹیکسی ڈرائیور چنانچہ اتفاقی طور پر اسی پیشے کے سلسلے میں مسافت شرعی تک سفر کرے تو پیشے کا سفر شمار نہیں ہوگا اور اس کی نماز قصر ہوگی مگر یہ کہ طویل مدت کے لئے شرعی مسافت سے زیادہ مقدار میں اس پیشے کو جاری رکھنا چاہتا ہو اس صورت پہلے سفر سے ہی پیشے کا سفر شمار ہوگا اور اس کی نماز پوری ہوگی۔
جس شخص کا پیشہ سفر ہو اور نماز کو پوری پڑھتا ہو اور سفر میں روزہ رکھتا ہو چنانچہ وطن یا غیر وطن میں قصد کے ساتھ یا بغیر قصد کے دس دن ٹھہرے تو دس دن کے بعد پہلے سفر میں اس کی نماز قصر ہوگی۔
جس شخص کا پیشہ سفر ہو دس دن کسی جگہ (وطن یا غیر وطن میں) قیام کرے چنانچہ پیشے کے علاوہ کوئی اور سفر کرے مثلا زیارت کےلئے جائے اور اس کے بعد دس دن قیام کئے بغیر پیشے کا سفر اختیار کرے تو احتیاط واجب کی بناپر اس میں نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
اگر عرف کی نظر میں جانے اور آنے کا سفر ایک شمار ہوجائے مثلا معلم اپنے وطن سے تدریس کے لئے کسی شہر کا سفر کرے اور دوپہر یا اگلے دن واپس آئے یا ڈرائیور جس کی ایک منزل ہے اور مثلا کسی شہر میں سامان لے جاکر واپس آنا چاہتا ہے تو اس صورت میں رفت و آمد پہلا سفر شمار ہوگا اور اگر عرف کی نظر میں ایک سفر شمار نہ ہوجائے مثلا کوئی ڈرائیور مسافر یا سامان پہنچانے کے لئے کسی منزل کی طرف حرکت کرے اور وہاں سے دوسری جگہ مسافر یا سامان لے جائے یا شروع سے ہی اس کا یہی قصد ہواور اس کے بعد وطن واپس آئے تو اس صورت میں پہلی منزل پر پہنچنے کے بعد پہلا سفر تمام ہوگا۔
پیشے کا سفر جس میں نماز اور روزہ قصر نہیں ہوتا ہے، اس سفر میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سفر کا راستہ، نوعیت یا وسیلہ پہلے والا ہی ہو یا تبدیل کرے۔
جس شخص کا پیشہ سفر نہ ہو چنانچہ کئی سفر کرے تو اس کی نماز قصر ہوگی خواہ شروع سے متعدد سفر کا قصد رکھتا ہو یا بعد میں اتفاقی سفر پیش آئے۔
جس شخص کا پیشہ سفر ہو اگر پیشے کے علاوہ کوئی سفر کرے تو اس کی نماز قصر ہے مثلا ایک شہر سے دوسرے شہر تک مسافر لے جانا پیشہ ہو اگر حج یا زیارت کے سفر پر جائے تو نماز قصر کرکے پڑھےلیکن پیشے کے سفر کے دوران ذاتی کام انجام دے مثلا زیارت کرے چاہے اصلی مقصد ذاتی کام اور اس کے ضمن میں مسافر بھی لے جائے یا اس کے برعکس یا دونوں کاموں کا مساوی قصد رکھتا ہو تو اس کی نماز پوری ہوگی۔
جو شخص پیشے کی خاطر سفر کرے اور اس کے ضمن میں کچھ خاص کام مثلا رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات بھی کرتا ہے اور بعض اوقات ایک یا چند راتوں کے لئے وہاں ٹھہربھی جاتا ہے تو اس مدت میں پیشے کے سفر کا حکم تبدیل نہیں ہوگا اور اس کی نما ز پوری ہوگی۔
جس شخص کا پیشہ سفر ہے چنانچہ پیشے کے سفر کے فورا بعد واپس آئے تو واپسی میں اس کی نماز پوری ہوگی لیکن اگر کئی روز (دس دن سے کم) پیشے کے علاوہ سفر مثلا زیارت یا تفریح کرتے رہے اور اس کے بعد واپس آئے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ واپسی کے دوران قصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
جس شخص کا پیشہ سفر ہو اگر پیشے کے علاوہ سفر کرے اگرچہ پیشے کی جگہ جائے پھر بھی اس کی نماز قصر ہوگی۔
گذشتہ مسئلے میں چنانچہ پیشے کے علاوہ کسی اور سلسلے میں اپنے پیشے کی جگہ جائے اور مصمم ارادہ کرے کہ پیشے کی خاطر وہاں قیام کرے پس قیام کرتا ہے تاکہ کام پر جائے تو احتیا ط کرتے ہوئے قصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے اگرچہ پوری پڑھنے کا حکم بعید نہیں ہے لیکن اس کے بعد یعنی کام کی جگہ اور واپسی کے دوران اس کی نماز پوری ہوگی۔
جس شخص کا پیشہ سفر ہو اگر پیشے کے علاوہ کوئی سفر کرے تو اس کی نماز قصر ہوگی لیکن چنانچہ منزل پر پہنچ کر ملازمت کی جگہ کی طرف اور پیشے کے قصد سے سفر کرے تو اس جگہ (قصد کے ساتھ یا قصد کے بغیر) دس دن قیام نہ کیا ہو تو ملازمت کی جگہ سفر کرتے ہوئے اس کی نماز پوری ہوگی۔
جس شخص کا پیشہ ڈرائیونگ ہو اور اس پیشے کو شروع کرنے کے بعد گاڑی خراب ہوجائے اور اس کی مرمت اور ضروری چیزیں خریدنے کے لئے شرعی مسافت تک سفر کرے تو یہ سفر پیشے کا سفر ہے اور نماز پوری پڑھے۔
گذشتہ مسئلے میں اگر پیشہ شروع کرنے سے پہلے گاڑی خراب ہوجائے اور مرمت یا ضروری سامان خریدنے کے لئے شرعی مسافت تک سفر کرے تو اس کی نماز قصر ہوگی۔
جس شخص کا پیشہ سفر ہو اگر پیشے کے سلسلے میں آخری سفر کرے یا سفر کے دوران پیشہ جاری رکھنے سے پھرجائے تو چنانچہ پیشے کا دارومدار سفر پر ہی ہو مثلا ڈرائیونگ تو آخری سفر سے واپسی کے دوران کوئی مسافر ساتھ نہ لائے تو واپسی کا سفر پیشے کا سفر شمار نہیں ہوگا اور اس کی نماز قصر ہوگی خواہ اپنی گاڑی میں واپس آئے یا دوسرے کی گاڑی میں آئے اور اگر سفر اس کے پیشے کا مقدمہ ہوتو آخری سفر سے واپسی کے دوران احتیاط واجب کی بناپر نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
تبلیغ و ہدایت یا امر بالمعروف و نہی عن المنکر اگر عرفا کسی شخص کا پیشہ اور کام شمار ہوجائے تو ان کاموں کے لئے سفر کے دوران اس مسافر کے حکم میں ہے جو اپنے پیشے اور کام کے لئے سفر کرتا ہے اور اگر کسی وقت تبلیغ اور ہدایت کے علاوہ کسی اور کام کے لئے سفر کرے تو اس سفر میں دوسرے مسافروں کی طرح اس کی نماز قصر ہوگی۔
8۔ حد ترخص
1۔ حد ترخص کو تشخیص دینے کا معیار یہ ہے کہ شہر کے آخری گھر سے اس قدر دور ہوجائے کہ لاوڈسپیکر کے بغیر شہر سے دی جانے والی متعارف اذان نہ سنے خواہ شہر کی دیوار یں دیکھے یا نہ دیکھے۔
2۔ حد ترخص کا معیار اس اذان کا سنائی دینا ہے جو معمولا بلند جگہ مثلا قدیمی مساجد کے میناروں سے اور شہر کے آخری حصے میں دی جاتی ہے۔
3۔ اگر شہر سے باہر اذان کی آواز سنے اور تشخیص دے کہ اذان ہی ہے لیکن جملوں کو تشخیص نہ دے سکے تو احتیاط واجب کی بناپر نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے مگر اس صورت میں جب اپنا سفر اس قدر جاری رکھے کہ اذان کی آواز بالکل نہ سنے۔
4۔ جو مسافر وطن سے خارج ہوتا ہے اور مسافت شرعی طے کرنے کا قصد رکھتا ہے اس کی نماز اس وقت قصر ہوگی جب حد ترخص تک پہنچے اسی طرح واپسی کے دوران جب اس حد تک پہنچ جائے توضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ حد ترخص اور شہر میں داخل ہونےکے درمیانی فاصلے میں نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
5۔ احتیاط واجب کی بناپر مسافر کو چاہئے کہ حدترخص اور جس جگہ جانے کا قصد کیا ہے ان دونوں کے درمیان نماز میں جمع کرے (یعنی پوری بھی پڑھے اور قصر بھی) اور یا اس جگہ سے جاتے ہوئے حدترخص تک پہنچنے تک صبر کرے اور آتے ہوئے محل سکونت تک پہنچنے تک صبر کرے اسی طرح کوئی شخص تردد کی حالت کی میں کسی جگہ تیس دن قیام کرے تو اس جگہ سے جاتے ہوئے احتیاط کی بناپر قصر اور پوری دونوں انجام دے یا حدترخص تک پہنچنے تک صبر کرے۔
تمرین
1۔ نماز مسافر کی آٹھ شرائط کون کونسی ہیں؟ بیان کریں۔
2۔ حرام سفر سے کیا مراد ہے؟
3۔ آٹھ فرسخ کی مسافت شمار کرتے ہوئے شہر کے آخری حصے سے کیا مراد ہے؟
4۔ اس شخص سے کیا مراد ہے جس کا پیشہ سفر ہے؟ مثال کی روشنی میں بیان کریں۔
5۔ پہلے سفر سے مراد وطن سے نکلنےسے لے کر واپس آنے تک ہے یا منزل پر پہنچنے کے بعد پہلا سفر ختم ہوتا ہے؟
6۔ اگر حدترخص کی دو علامتوں (شہر کی اذان کا سنائی نہ دینا اور شہر کی دیواروں کا دکھائی نہ دینا) میں سے کوئی ایک ثابت ہوجائے تو کافی ہےیا نہیں؟
- سبق 52: یومیہ نمازیں (18)
سبق 52: یومیہ نمازیں (18)
نماز مسافر ((2))3۔ وہ چیزیں جو سفر کو ختم کردیتی ہیں
1۔ وطن سے گزرنا
2۔ کسی جگہ دس دن قیام کا قصد کرنا یا اس کا علم ہونا
3۔ کسی جگہ تردد کی حالت میں یا دس دن قیام یا قصد کئے بغیر تیس دن قیام کرنا
توجہ
جن چیزوں کی وجہ سے سفر ختم ہوجاتا ہے ان کو قواطع سفر کہتے ہیں
اگر کوئی مسافر وطن سے خارج ہونے کے بعد ایسے راستے سے عبور کرے کہ اپنے وطن کی اذان کی آواز سنائی دے تو جب تک اپنے وطن سے عبور نہ کیا ہو اس کی شرعی مسافت کے لئے کوئی حرج نہیں ہے اور اس کا سفر ختم نہیں ہوگاالبتہ جب تک وطن کی حدود اور حد ترخص کے درمیان ہے اس پر مسافر کا حکم جاری نہیں ہوگا۔
4۔ وطن کی اقسام
1۔ وطن کی دو قسمیں ہیں؛
اصلی وطن : وہ جگہ جہاں اس شخص نے اپنی زندگی کے شروع سے زیادہ حصہ (بچپن اور نوجوانی) گزارا ہو اور نشو و نما پایا ہو۔
اختیاری وطن: اختیاری وطن وہ جگہ ہے جو پہلے انسان کا وطن نہیں تھا بلکہ بعد میں وطن اور سکونت کی جگہ کے طور پر انتخاب کیا ہو خواہ اصلی وطن کو چھوڑا ہو یا نہ ہو۔
اگر کوئی شخص کسی جگہ تقریبا دس سال رہنے کا قصد کرے تو بعید نہیں ہے کہ عرف کی نظر میں اختیاری وطن کہلانے کے لئے کافی ہو۔
2۔ جس جگہ کو انسان ایک یا دو سال زندگی گزارنے کے لئے انتخاب کرتا ہے عرفا وطن نہیں ہے لیکن اس کو مسافر بھی نہیں کہا جائے گا بنابراین دس دن قیام کا قصد نہ کرے تو بھی اس کی نماز پوری ہوگی۔
3۔ کسی شہر میں صرف پید اہونا باعث نہیں بنتا ہے کہ وہ اس کا اصلی وطن بن جائے بلکہ لازم ہے کہ زندگی کے شروع سے زیادہ عرصہ (بچپن اور نوجوانی) اس شہر میں رہے اور نشو ونما پایا ہو مثلا کوئی شخص کسی جگہ پیدا ہوجائے اور پیدائش کے بعد اس جگہ نشو و نما نہ پائے تو اس کا اصلی وطن شمار نہیں ہوگا بلکہ اس کا اصلی وطن وہ جگہ ہے جہاں پیدائش کے بعد قیام کیا ہو اور زندگی کے آغاز سے زیادہ عرصہ نشو و نما پایا ہو۔
4۔ کسی جگہ کے اختیاری وطن کے لئے تین شرائط لازم ہیں؛
الف۔ ہمیشہ کے لئے یا طویل مدت (اگرچہ سال میں کچھ مہینوں کے لئے ہی کیوں نہ ہو) یا مدت تعیین کئے بغیر زندگی کرنے کا یقینی ارادہ کرے۔
ب۔ کسی مخصوص اور معین شہر اور آبادی کو وطن بنانے کا قصد رکھتا ہو بنابراین کسی ملک کو وطن قرار نہیں دے سکتے ہیں۔
ج۔ وطن بنانے کے لوازمات کی فراہمی کا کام انجام دے جو معمولا کسی جگہ کو وطن بناتے ہوئے انجام دیتے ہیں (مثلا گھر تیار کرنا اور کاروبار یا کام کو شروع کرنا) اس صورت میں اگرچہ کچھ مدت نہ رہے پھر بھی وطن کہلائے گا چنانچہ وطن بنانے کے لوازمات فراہم نہ کرے تو ایک مدت (مثلا ایک یا دو مہینے) تک رہنا چاہئے تاکہ وطن کہا جائے۔
5۔ جدید وطن میں گھر وغیرہ کا مالک ہونا شرط نہیں ہے۔
6۔ انسان کے لئے دو اصلی وطن ہونا ممکن ہے بنابراین جو قبائل ہمیشہ یا کئی سال تک صحراسے شہر یا شہر سے صحرا میں منتقل ہوتے رہتے ہیں تاکہ سال کے چند ایام ایک جگہ اور چند ایام دوسری جگہ گزاریں اور دونوں جگہوں کو ہمیشہ یا کئی سال زندگی گزارنے کے لئے انتخاب کیا ہے، دونوں ان کے لئے اصلی وطن ہیں اور دونوں جگہوں میں ان پر وطن کا حکم جاری ہوگا اور اگر ان دونوں جگہوں کا درمیانی فاصلہ شرعی مسافت کی مقدار میں ہوتو ایک سے دوسری سفر کے دوران دوسرے مسافروں کے حکم میں ہیں۔
7۔ ایک ہی وقت میں دو یا تین وطن ہونا اشکال نہیں ہے اس طرح کہ ہر ایک میں گھر ہو جہاں سال میں کئی مہینے رہتا ہو لیکن ایک ہی وقت میں تین سے زیادہ وطن ہونا محل اشکال ہے۔
2۔ وطن کو ترک کرنا
1۔ وطن میں واپس نہ آنے کے مصمم ارادے کے ساتھ وہاں سے خارج ہونے اور اسی طرح واپسی ممکن نہ ہونے پر علم یا اطمینان ہوتو وطن کو ترک کرنا ثابت ہوتا ہے۔
2۔اگر کوئی طویل مدت مثلا چالیس یا پچاس سال وطن سے باہر زندگی گزارے اور اس مدت کے دوران وطن واپس آنے کا سوچا بھی نہیں تو اس صورت میں بعید نہیں کہ طویل مدت تک وطن کو ترک کرنا اس کو چھوڑنے کے حکم میں ہو اور دس دن قیام کا قصد نہ کرنے کی صورت میں اس کی نماز قصر ہوجائے۔
3۔ جب تک انسان اپنے وطن کو ترک نہ کرے وہاں اس کے لئے وطن کا حکم ہوگا اور اس کی نماز پوری ہوگی لیکن وطن کو ترک کرنے کے بعد وہاں وطن کا حکم جاری نہیں ہوگا مگر یہ کہ دوبارہ ہمیشہ یا طویل مدت (اگرچہ سال میں کچھ مہینوں کے لئے کیوں نہ ہو) یا مدت کو تعیین کئے بغیر وہاں زندگی کرنے کا مصمم ارادہ کرےاس شرط کے ساتھ کہ وہاں زندگی کرنے کے لوازامات فراہم کرے یا کچھ مدت قیام کرے۔
3۔ عورت اور فرزند کا وطن اور ترک وطن میں تابع ہونا
1۔ صرف زوجیت باعث نہیں بنتی ہے کہ جبری تابع بن جائے ۔عورت کے لئے ممکن ہے وطن کو انتخاب کرنے اور اس کو ترک کرنے میں اپنے شوہر کی تابع نہ ہو بنابراین کسی جگہ کا شوہر کا وطن ہونا باعث نہیں بنتا کہ بیوی کا بھی وطن بن جائے اور وہاں اس پر وطن کے احکام جاری ہوں۔
2۔ عورت کا فقط شادی کرنا اور کسی دوسرے شہر میں شوہر کے گھر جانا اپنے شہر کو ترک کرنے کا باعث نہیں ہے بنابراین جس عورت نے دوسرے شہر کے کسی مرد سے شادی کی ہو جب اپنے باپ کے گھر میں جائے تو جب تک اصلی وطن کو ترک نہ کیا ہو وہاں اس کی نماز پوری ہوگی۔
3۔ اگر عورت وطن کو انتخاب کرنے اور ترک کرنے میں اپنے شوہر کی تابع ہوتو شوہر کا قصد کافی ہے اور شوہراس کے ساتھ جس شہر کو ہمیشہ زندگی کرنے کے لئے وطن بنانے کے قصد سے جائے اس کا بھی وطن شمار ہوگا اسی طرح اگر شوہر ان کے مشترکہ وطن کو ترک کرے یا اس کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلاجائے تو اس کا بھی ترک وطن شمار ہوگا۔
4۔ اگر بچے زندگی گزارنے اور فیصلہ سازی میں مستقل اور آزاد نہ ہوں یعنی طبیعتا باپ کے تابع ہوں تو سابق وطن کو ترک کرنے اور جدید وطن کو انتخاب کرنے میں جہاں زندگی گزارنے کے لئے گئے ہیں، باپ کے تابع ہیں بنابراین اگر کوئی باپ کی پیروی میں اپنے وطن سے ہجرت کرکے دوسرے شہر جائے اور باپ واپس نہ آنے کا قصد رکھتا ہو تو وہ شہر اب اس کے لئے وطن کے حکم میں نہیں ہے بلکہ باپ کا جدید وطن اس کا بھی وطن ہوگا۔
5۔ اگر بچے فیصلہ سازی اور زندگی گزارنے میں آزاد ہوں تو وطن کے احکام میں ماں باپ کے تابع نہیں ہیں۔
تمرین
1۔ قواطع سفر (سفر ختم کرنے والی چیزیں) کون کونسی ہیں؟
2۔اصلی اور اختیاری وطن (وطن دوم) میں کیا فرق ہے؟
3۔ اختیاری وطن کی شرائط بیان کریں۔
4۔ کیا ایک سے زیادہ وطن ہونا ممکن ہے: مثال کی روشنی میں بیان کریں۔
5۔ وطن کو ترک کرنے کا کیا مطلب ہے؟
6۔ اگر کوئی مرد دوسرے شہر سے تعلق رکھنے والی عورت سے شادی کرے تو عورت اپنے باپ کے گھر جانے کی صورت میں اس کی نماز قصر ہوگی یا پوری؟
- سبق 53: یومیہ نمازیں (19)
سبق 53: یومیہ نمازیں (19)
نماز مسافر ((3))5۔ دس دن قیام کا قصد
1۔ اگر مسافر کسی جگہ کم از کم دس دن[1] مسلسل رہنے کا قصد کرے یا جانتا ہو کہ مجبورا اس جگہ اتنی مدت رہنا پڑے گا تو نماز کو پوری پڑھنا چاہئے (فقہی اصطلاح میں اس کو ((قصد اقامت)) کہتے ہیں) لیکن اگر دس دن سے کم قیام کا قصد کرے تو دوسرے مسافروں کے حکم میں ہے بنابراین فوج میں خدمات انجام دینے والے سپاہی اگر کسی جگہ (مثلا چھاونی یا سرحدی علاقے وغیرہ میں) دس دن یا اس سے زیادہ قیام کا قصد کریں یا جانتے ہوں کہ (اگرچہ مجبوری میں کیوں نہ ہو) دس دن یا اس سے زیادہ اس جگہ رہیں گے تو واجب ہے کہ اپنی نماز پوری پڑھیں۔
توجہاگر کوئی شخص جانتا ہو کہ کہ کسی جگہ دس قیام نہیں کرے گا تو دس دن قصد کرنے کا کوئی معنی اور اثر نہیں ہوگا اور اس جگہ نماز کو قصر پڑھنا چاہئے مثلا اگر کوئی حضرت امام رضاؑ کی زیارت کے لئے سفر کرے اور جانتا ہو کہ وہاں دس دن سے کم قیام کرے گا اس کے باوجود نماز پوری پڑھنے کے لئے دس دن قیام کا قصد کرے تو اس کی نماز قصر ہوگی۔
2۔ قصد اقامت کسی ایک جگہ (شہر یا دیہات وغیرہ میں) ہونا چاہئے اور دو جگہوں میں قصد اقامت نہیں کرسکتے ہیں بنابراین اگر کوئی شخص دو جگہوں میں تبلیغ کرتا ہو اور عرف کی نظر میں دو جگہ شمار ہوجائے تو ان میں سے کسی ایک میں قصد اقامت کرے ۔ اگر دونوں میں قصد اقامت کرے اس طرح کہ چند دن ایک جگہ اور چند دن دوسری جگہ رہنے کا قصد کرے کہ مجموعی طور پر دس دن ہوجائیں تو اقامت شمار نہیں ہوگا اور دونوں جگہوں میں نماز کو قصر پڑھنا چاہئے۔
توجہاگر کسی شہر کے محلے ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں کہ عرفا مستقل محلے شمار ہوجائیں چنانچہ کوئی مسافر اس شہر کے کسی محلے میں اقامت کا قصد کرے تو شہر کے دوسرے محلوں میں جانا اگرچہ قصد اقامت والے محلے سے شرعی مسافت کے برابر فاصلہ ہو پھر بھی قصد اقامت اور اس کے حکم کے لئے کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا۔
3۔ اگر قصد اقامت کے وقت مصمم ارادہ تھا کہ دس دنوں کے دوران محل اقامت سے خارج ہوجائے اور چار فرسخ سے کم مسافت تک جائے[2] چنانچہ اتنی مقدار میں خارج ہونے کا قصد رکھتا ہو جو عرفا کسی جگہ دس دن رہنے سے منافات نہ رکھتا ہو مثلا اس مدت میں دو تین دفعہ اور ہر مرتبہ حداکثر آدھا دن خارج ہونا چاہتا ہو تو اس کے قصد اقامت میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا اور اس کی نماز پوری ہوگی۔
4۔ اگر مسافر قصد اقامت کرتے ہوئے ارادہ رکھتا ہو کہ دس دنوں کے دوران (اگر ایک مرتبہ چند منٹ کے لئے) چار فرسخ یا اس سے زیادہ جائے تو اقامت ثابت نہیں ہوگی اور نماز کو قصر پڑھنا چاہئے۔
5۔ اگر مسافر کسی جگہ اقامت کا قصد کرے اور ایک چار رکعتی نماز (ظہر، عصر یا عشا) پڑھنے سے پہلے اقامت سے منحرف یا تردد کا شکار ہوجائے تو اقامت ثابت نہیں ہوگی اور جب تک وہاں ہےنماز کو قصر پڑھے لیکن قصد اقامت کے بعد حداقل ایک چار رکعتی نماز پڑھے تو اقامت ثابت ہوگی اور اس کے بعد اقامت سے انحراف یا تردد کا کوئی اثر نہیں ہوگا بنابراین جب تک وہاں ہے اور جدید سفر شروع نہ کیا ہو نماز پوری پڑھنا چاہئے (اگرچہ اقامت ثابت ہونے کے بعد صرف ایک دن قیام کرے)
6۔ اقامت ثابت ہونے کے بعد چار فرسخ سے کم مقدار کے لئے خارج ہونا (اگرچہ ایک دن یا اس سے زیادہ کے لئے کیوں نہ ہو) کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے اور قصد اقامت میں کوئی خلل ایجاد نہیں کرتا ہے، خواہ ابتدائی دس دنوں کے اندر ہو خواہ اس کے بعد۔ چنانچہ دوبارہ محل اقامت میں واپس آنے کا قصد رکھتا ہو (اس عنوان سے کہ محل اقامت ہے) تو رفت و آمد کے راستے اور منزل مقصود اور محل اقامت میں اس کی نماز پوری ہوگی لیکن اگر چار شرعی فرسخ کے برابر خارج ہوجائے تو دوسرے مسافروں کے حکم میں ہے بنابراین اگر کسی شہر میں قصد اقامت کے بعد دوسرے شہر میں جائے جس کا اقامت والے شہر سے فاصلہ چار شرعی فرسخ کے برابر ہوتو سابق قصد اقامت ختم ہوگا اور محل اقامت میں واپسی کے بعد دوبارہ قصد کرنا چاہئے۔
7۔ عورت اور بچے کے بارے میں وطن کے حوالے سے جو احکام بیان کئے گئے ہیں، قصد اقامت کے حوالے سے بھی جاری ہوں گے۔
6۔ کسی جگہ تردد کی حالت میں اور دس دن قیام کے قصد کے بغیر تیس دن قیام کرے
1۔ اگر مسافر آٹھ فرسخ طے کرنے کے بعد کسی جگہ ٹھہر جائے اور نہیں جانتا ہو کہ کتنے دن ٹھہرے گا (دس دن یا اس سے کم) تو جب تک اس حالت میں ہے نماز قصر پڑھنا چاہئے لیکن تیس دن گزرنے کے بعد نماز پوری پڑھنا چاہئے اگرچہ اسی روز واپس آنا چاہے۔
2۔ اگر کوئی مسافر کسی جگہ دس دن سے کم قیام کا ارادہ کرے چنانچہ اس مدت کے بعد جانے کے ارادے سے منحرف ہوجائے اور دوبارہ دس دن سے کم مثلا ایک ہفتہ رہنے کا ارادہ کرے اسی ترتیب سے اس کا قیام ایک مہینے تک طول پکڑے تو اس صورت میں گذشتہ مسئلے کی طرح اکتیسویں دن سے اس کی نماز پوری ہوگی۔
7۔ بڑے شہر
مسافر کے احکام، وطن بنانے اور دس دن قیام کے قصد میں بڑے شہروں اور معمولی شہروں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور کسی بڑے شہر میں وطن بنانے کے قصد سے وہاں رہنے کے لوازمات کی فراہمی یا ایک مدت تک وہاں رہنے سے اس پورے شہر پر وطن کا حکم جاری ہوگا اسی طرح اگر ایسے شہر میں دس دن قیام کا قصد کرے تو نماز پوری ہونے کا حکم اس شہر کے تمام محلوں میں جاری ہوگا خواہ کسی خاص محلے کو وطن بنانے یا قیام کرنے کا قصد کیا ہو یا نہ کیا ہو۔
8۔ نماز مسافر کے احکام
1۔ اگر کوئی مسافر جانتا ہوں کہ شرائط کی موجودگی میں نماز قصر ہوتی ہے اسی طرح جانتا ہو کہ اس کے سفر میں وہ شرائط موجود ہیں چنانچہ نماز پوری پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ،خواہ وقت کے اندر ہو یا بعد اس کو قصر کی صورت میں دوبارہ پڑھنا چاہئے۔
2۔ اگر کوئی فراموش کرے کہ مسافر کو نماز قصر کرکے پڑھنا چاہئے یا سفر میں ہونے کو ہی بھول جائے اور نماز پوری پڑھے تو چنانچہ وقت کے اندر یاد آئے تو نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر دوبارہ نہ پڑھے تو اس کی قضا واجب ہے لیکن اگر وقت کے بعد یاد آئے تو اس نماز کی قضا نہیں ہے۔
3۔ اگر مسافر نہیں جانتا ہو کہ سفر میں نماز قصر ہوتی ہے اور اپنے وظیفے کے برعکس نماز پوری پڑھے اگر جاہل قاصر[3] ہے تو حکم کو جاننے کے بعد نماز دوبارہ پڑھنا یا قضا لازم نہیں ہے اور اگر جاہل مقصر[4] ہے تو حکم کو سیکھنے میں کوتاہی کی وجہ سے گناہ کیا ہے اور حکم کو جاننے کے بعد وقت کے اندر نماز کو دوبارہ پڑھے اور وقت کے بعد ہو تو قضا کرے۔
4۔ اگر سفر کے دوران نماز کے حکم سے واقف ہو لیکن حکم کی خصوصیات سے جاہل ہونے کی وجہ سے نماز پوری پڑھے تو اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر وقت کے اندر متوجہ ہوجائے تو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت کے بعد متوجہ ہوجائے تو اس کی قضا کرے مثلا جانتا ہو کہ سفر میں نماز قصر ہوتی ہے لیکن یہ نہیں جانتا ہو کہ قصد اقامت کے بعد ایک چار رکعتی نماز پڑھنے سے پہلے اپنے قصد سے منحرف ہونے کی صورت میں نماز قصر ہوتی ہے اور (اس خصوصیت سے جاہل ہونے کی وجہ سے) نماز پوری پڑھے۔
5۔ جس مسافر کا وظیفہ نماز پوری پڑھنا ہو چنانچہ اپنے وظیفے کے برعکس نماز قصر پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے اور اس حکم میں علم، عمدا، فراموشی اور حکم یا موضوع سے جاہل ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے مگر اس مورد میں جو اگلے مسئلے میں بیان کیا جائے گا۔
6۔ اگر مسافر کسی جگہ دس دن قیام کرنا چاہے چنانچہ حکم سے جاہل ہونے کی وجہ سے نماز قصر پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن موضوع سے جاہل ہونے یا فراموشی کی وجہ سے قصر پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے اور اپنی نماز کو دوبارہ پڑھے۔
تمرین
1۔ اس سپاہی کی نماز کا کیا حکم جو کسی جگہ اختیار کے بغیر دس دن سے زیادہ قیام کرتا ہے؟
2۔ اگر کوئی حضرت امام رضاؑ کی زیارت کے لئے سفر کرے اور دس دن سے کم قیام کا علم ہونے کے باوجود نما ز پوری پڑھنے کے لئے قصد اقامت کرے تو کیا حکم ہے؟
3۔ کیا اقامت کا قصد کرنے کے دوران محل اقامت سے چار فرسخ سے کم کسی جگہ خارج ہونے کی نیت کرسکتے ہیں یا نہیں؟
4۔ کتنی چیزوں سے اقامت ثابت ہوتی ہے؟ وضاحت کریں۔
5۔ اگر کوئی کسی جگہ سفر کرے اور نہیں جانتا ہو کہ کتنے دن وہاں قیام کرے گا تو کس طرح نماز پڑھے گا؟
6۔ مسافر کے احکام میں چھوٹے اور بڑے شہروں کے درمیان کوئی فرق ہے یا نہیں؟
[1] دن کی تعیین کا معیار عرف ہے جوکہ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک ہے
[2] یعنی شرعی مسافت سے کم مقدار تک خارج ہونا اور دس دن قصد اقامت دونوں ساتھ ہوں۔
[3] یعنی وہ شخص جو حکم کو نہیں جانتا ہو اور اپنی جہالت کی طرف متوجہ نہ ہو
[4] یعنی وہ شخص جو اپنی جہالت کی طرف متوجہ ہو اور اس کو برطرف کرنا ممکن ہونے کے باوجود برطرف نہیں کرتا ہو
- سبق 54: یومیہ نمازیں (20)
سبق 54: یومیہ نمازیں (20)
(قضا نماز) نماز اجارہ۔ ماں باپ کی قضا نماز15۔ قضا نماز
1۔اگر کوئی واجب نماز کو اس کے وقت میں بجا نہ لائے تو اس کی قضا بجالانا چاہئے اگرچہ پورے وقت کے دوران نیند میں رہا ہو یا بیماری یا مست ہونے کی وجہ سے نماز نہ پڑھی ہو لیکن اگر کوئی پورے وقت کے دوران بے اختیار بے ہوش رہا ہو تو اس پر قضا واجب نہیں ہے۔ اسی طرح کافر مسلمان ہوجائے اور عورت نماز کے پورے وقت میں حیض یا نفاس کی حالت میں رہی ہو (تو نماز کی قضا واجب نہیں) لیکن مرتد یعنی وہ مسلمان جو اسلام سے پھرگیا ہو اگر دوبارہ اسلام قبول کرے تو ارتداد کے زمانے کی نماز کی قضا کرنا چاہئے۔
2۔ اگر وقت کے بعد معلوم ہوجائے کہ جو نمازپڑھی تھی، باطل تھی تو اس کی قضا کرنا چاہئے مثلا حکم شرعی سے جاہل ہونے کی وجہ سے غسل کو اس طرح انجام دیا ہو کہ شرعا باطل ہوجائے تو اس حالت میں حدث اکبر کے ساتھ جتنی نمازیں پڑھی ہیں سب کی قضا اس پر واجب ہے۔
3۔ ان نمازوں کی قضا واجب ہے جن کو ترک کرنے یا باطل ہونے کا یقین ہو پس اگر بعض نمازوں کو ترک کرنے یا باطل ہونے کا شک یا گمان ہوتو ان کی قضا واجب نہیں ہے۔
4۔ قضا نماز میں ترتیب واجب نہیں ہے صرف اس صورت میں (واجب ہے) جب ایک ہی دن کی نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشا ہو ۔ اسی طرح نماز کی ترتیب کو یقینی بنانے کے لئے تکرار کرنا لازم نہیں ہے بنابراین اگر کوئی ایک سال کی قضا نماز پڑھنا چاہے تو اس ترتیب کے ساتھ پڑھ سکتا ہے مثلا پہلے بیس مرتبہ نماز صبح، اس کے بعد نماز ظہر اور عصر میں سے ہر ایک کو ترتیب کے ساتھ بیس مرتبہ اس کے بعد نماز مغرب و عشا کو ترتیب کے ساتھ بیس مرتبہ پڑھے اسی طرح ایک سال پورا ہونے تک اس سلسلے کو جاری رکھے اسی طرح کسی نماز سے شروع کرے اور یومیہ پانچ نمازوں کی ترتیب کے مطابق باقی نمازوں کو بھی اسی سلسلے میں پڑھے۔
5۔ اگر کئی نمازیں قضا ہوئی ہوں اور تعداد معلوم نہ ہو مثلا معلوم نہ ہو کہ دو نمازیں قضا ہوئی ہیں یا تین تو کم تعداد کے مطابق پڑھنا کافی ہے (یعنی جتنی مقدار کے قضا ہونے کا یقین ہے)
6۔ اگر کوئی شخص تین مرتبہ غسل جنابت انجام دے مثلا مہینے کی بیسویں، پچیسویں اور ستائیسویں تاریخ کو غسل کرے اور بعد میں یقین ہوجائے کہ ان میں سے کوئی ایک غسل باطل ہوا ہے تو احتیاط واجب کی بناپر نمازوں کی اس طرح قضا بجالائے کہ بری الذمہ ہونے پر یقین ہوجائے۔
7۔ نوافل اور مستحب نمازیں قضا نمازوں کی متبادل نہیں ہوسکتی ہیں اور اگر کسی کے ذمے قضا نماز ہے تو اس کو قضا نماز کی نیت کے ساتھ بجالانا واجب ہے۔
8۔ جو لوگ موجودہ حالت میں قضا ہونے والی تمام نمازوں کی قضا بجالانے پر قادر نہ ہوں ان پر واجب ہے کہ اپنی توانائی کے مطابق قضا بجالائیں اور جتنی ان کی قدرت سے باہر ہیں ان کے بارے میں وصیت کریں۔
9۔ اگر کسی کے ذمے قضا نماز ہوتو ادا نماز پڑھ سکتا ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر صرف ایک قضا نماز ہے تو پہلے قضا بجالائے مخصوصا اگر قضا نماز اسی دن سے تعلق رکھتی ہو۔
2۔ نماز اجارہ
1۔ زندہ شخص کی قضا نماز کو دوسرا شخص بجا نہیں لاسکتا ہے اگر وہ قضا بجالانے سے عاجز ہو لیکن اس کے مرنے کے بعد کوئی مانع نہیں ہے اور مکلف شخص جب تک زندہ ہے اپنی واجب نمازوں کوجس طرح بھی ممکن ہو خود بجالائےاور نائب کی نماز اس کے لئے کافی نہیں ہےخواہ اجرت کےساتھ ہو یا اجرت کے بغیر۔
2۔ اجارے کی نماز میں میت کی خصوصیات کو ذکر کرنا لازم نہیں ہے اور فقط ایک دن کی نماز ظہر و عصر اور ایک دن کی نماز مغرب و عشا کے درمیان ترتیب کی رعایت شرط ہے۔ اگر عقد اجارہ میں اجیر کے لئے کسی خاص کیفیت کی شرط نہیں رکھی گئی ہو (مثلا مسجد میں یا کسی مخصوص وقت میں پڑھنے کی شرط نہ رکھی گئی ہو) تو اجیر پر فقط لازم ہے کہ نماز کو اس کے واجبات کے ساتھ بجالائے۔
3۔ ماں باپ کی قضا نماز
1۔ بڑے بیٹے پر باپ کی قضا نمازیں اور احتیاط واجب کی بناپر ماں کی قضا نمازیں ان کے مرنے کے بعد واجب ہیں۔
2۔ اگر ماں باپ نے بالکل نماز نہ پڑھی ہو تو احتیاط واجب کی بناپر اس صورت میں بھی بڑے بیٹے پر نمازوں کی قضا واجب ہے۔
3۔ بڑے بیٹے سے مراد وہ سب سے بڑا بیٹا ہے جو ماں باپ کے مرنے کے بعد بقید حیات ہو بنابراین اگر بڑا بیٹا (بالغ ہو یا نابالغ) ماں باپ سے پہلے مرجائے تو ماں باپ کی نمازوں کی قضا اس بڑے بیٹے پر واجب ہے جو ان کی وفات کے وقت زندہ ہو۔
4۔ ماں باپ کی نمازوں کی قضا واجب ہونے کا معیار یہ ہے کہ بیٹا دوسرے بیٹوں سے بڑا ہو بنابراین اگر میت کی اولاد میں بیٹی سب سے بڑی ہواور اس کے بعد دوسرا فرزند بیٹا ہو تو ماں باپ کی نمازوں کی قضا بیٹے پر واجب ہے جو دوسرا فرزند ہے۔
5۔ اگر کوئی دوسرا شخص ماں باپ کی نمازوں کی قضا بجالائے تو بڑے بیٹے سے ساقط ہے۔
6۔ بڑے بیٹے پر اتنی مقدار نمازوں کی قضا بجالانا واجب ہے جتنی مقدار پر یقین ہو اور اگر نہیں جانتا ہو کہ ماں باپ سے نماز قضا ہوئی ہے یا نہیں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے اور تحقیق و جستجو بھی لازم نہیں ہے۔
7۔ بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ ماں باپ کی قضا نمازوں کو جس طرح ممکن ہو بجالائے اور اس کو بجالانے سے عاجز ہو تو اس کے ذمے کچھ نہیں ہے۔
8۔ اگر کسی کے ذمے اپنی قضا نماز ہو اور ماں باپ کی نمازوں کی قضا بھی اس پر واجب ہو تو ان کو بجالانے میں اختیار ہے یعنی جس کو پہلے انجام دے صحیح ہے۔
9۔ اگر ماں باپ کی وفات کے بعد بڑا بیٹا مرجائے تو دوسروں پر کچھ واجب نہیں ہے بنابراین ماں باپ کی نمازوں کی قضا بڑے بیٹے کے بیٹے یا بھائی پر واجب نہیں ہے۔
تمرین
1۔ کافر کچھ مدت کے بعد اسلام لائے تو جو نمازیں نہیں پڑھی ہیں ان کی قضا واجب ہے یا نہیں؟
2۔ کسی کے ذمے قضا نماز ہو اور مستحب نماز پڑھنا چاہے تو کیا قضا نماز شمار ہوجائے گی؟
3۔ کیا اجارے کی نماز میں میت کی خصوصیات کو ذکر کرنا شرط ہے؟
4۔ اگر باپ نے بالکل نماز نہیں پڑھی ہو تو بڑے بیٹے پر تمام نمازوں کی قضا واجب ہے؟
5۔ بڑے بیٹے سے کیا مراد ہے؟
6۔ اگر بڑے بیٹے کے ذمے اپنی قضا نماز ہو اور ماں باپ کی نماز بھی اضافہ ہوجائے تو کس کو مقدم کیا جائے گا؟
- سبق 55: نماز آیات۔ عید فطر اور عید قربان کی نماز
سبق 55: نماز آیات۔ عید فطر اور عید قربان کی نماز
1۔ نماز آیات
1۔ نماز آیات واجب ہونے کے شرعی اسباب
نماز آیات چار صورتوں میں واجب ہوتی ہے
1۔ سورج گرہن اگرچہ کم مقدار میں کیوں نہ ہو
2۔ چاند گرہن اگرچہ کم مقدار میں کیوں نہ ہو
3۔ زلزلہ
4۔ ہر غیر معمولی آسمانی حادثہ جو لوگوں کی اکثریت کے خوف کا باعث بنے مثلا سیاہ اور سرخ آندھی اور آسمانی بجلی
توجہسورج گرہن، چاند گرہن اور زلزلہ کے علاوہ میں وہ حادثہ لوگوں کی اکثریت کے لئے خوف اور وحشت کا باعث ہونا چاہئے ۔ اگر حادثہ خوف ایجاد نہ کرے یا بعض لوگ ڈر اور وحشت کا شکار ہوجائیں تو نماز آیات واجب ہونے کا باعث نہیں ہے۔
نماز آیات ان لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو حادثہ واقع ہونے والے شہر میں رہتے ہیں۔
اگر مرکز زلزلہ پیمائی کی جانب سے اعلان کیا جائے کہ زلزلے کے چھوٹے جھٹکے وقوع پذیر ہوں گے جو صرف زلزلہ پیمائی کے آلات کے ذریعے محسوس کئے جاسکتے ہیں چنانچہ اس جگہ رہنے والے لوگ بالکل محسوس نہ کریں تو نماز آیات واجب نہیں ہے۔
ہر شدید یا ہلکی نوعیت کے زلزلے کے لئے یہاں تک کہ پس زلزلہ (آفٹر شاک) اگر مستقل زلزلہ شمار کیا جائے تو الگ الگ نماز آیات ہے۔
نماز آیات کا وقت
1۔ سورج گرہن اور چاند گرہن میں نماز آیات اس وقت واجب ہوتی ہے جب سورج یا چاند کو گرہن لگنا شروع ہوجائےاور احتیاط واجب کی بناپر نماز آیات پڑھنے میں اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ گرہن سے باہر آنا شروع ہوجائے۔
2۔ اگر مکلف نماز آیات پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے کہ سورج یا چاند گرہن سے نکلنا شروع کریں تو ضروری ہے کہ نماز کو ادا یا قضا کی نیت کے بغیر (مافی الذمہ کی نیت سے) قصد قربت کے ساتھ بجالائے لیکن اگر گرہن مکمل ختم ہونے تک تاخیر کرے تو ضروری ہے کہ نماز کو قضا کی نیت سے بجالائے۔
3۔ جب زلزلہ ، گرج چمک وغیرہ ( جس کا وقت مختصر ہوتا ہے) رونما ہوجائے تو احتیاط کی بناپر ہر مکلف کو چاہئے کہ فورا نماز آیات پڑھے اور اگر تاخیر کرے تو مرنے تک اس نماز کو ادا اور قضا کی نیت کے بغیر( مافی الذمہ کی نیت سے) بجالائے۔
4۔ اگر کوئی شخص سورج گرہن یا چاند گرہن کے دوران بالکل متوجہ نہ ہوجائے اور ختم ہونے کے بعد علم ہوجائے تو چنانچہ پورے سورج یا پورے چاند کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نماز آیات قضا بجالائے لیکن اگر صرف کچھ حصے کو گرہن لگا تھاتو اس پر قضا واجب نہیں ہے۔
5۔ جو شخص سورج گرہن اور چاند گرہن کے بارے میں وقت کے اندر مطلع ہواتھا لیکن نماز آیات (اگرچہ فراموشی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو) نہ پڑھی ہو تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجالائے اگر چہ پورے چاند یا سورج کو گرہن نہ لگا ہو۔
6۔ اگرکوئی شخص (چاند گرہن اور سورج گرہن کے علاوہ) دوسرے حوادث کے بارے میں وقت کے اندر مطلع ہوجائے اور نماز آیات کو اگرچہ فراموشی کے نتیجے میں ہی کیوں نہ ہو، نہ پڑھے تو ضروری ہے کہ نماز آیات پڑھے اور اگر وقت کے اندر مطلع نہ ہوجائے اور حادثے کے بعد علم ہوجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز آیات کو پڑھے۔
نماز آیات کی کیفیت
نماز آیات دو رکعت ہیں ۔ ہر رکعت میں پانچ رکوع اور دو سجدے ہیں اور کئی طریقوں سے بجالاسکتے ہیں؛
1۔ پہلا طریقہ: نیت اور تکبیر ہ الاحرام کہنے کے بعد الحمد اور سورہ پڑھے اس کے بعد رکوع کرے پھر سر اٹھا کر دوبارہ الحمد اور سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے پھر رکوع سے سر اٹھائے اور الحمد اور سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے اور اسی طرح جاری رکھے کہ ایک رکعت میں پانچ مرتبہ رکوع پورا ہوجائے کہ ہر رکوع سے پہلے الحمد اور سورہ پڑھا جائے اور اس کے بعد سجدے میں جائے اور دو سجدے بجالانے کے بعددوسری رکعت کے لئے قیام کرے اور دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجالائے اور دو سجدے بجالائے اور تشہد اور سلام پڑھے۔
2۔ دوسرا طریقہ: نیت اور تکبیرہ الاحرام کے بعد الحمد اور سورہ کا ایک حصہ(ایک آیت یا اس سے کم یا زیادہ) پڑھے اور رکوع میں جائے (احتیاط واجب کی بناپر بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحیمِ کو سورے کا حصہ شمار کرکے اس کے ساتھ رکوع بجانہیں لایا جاسکتا ہے) اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد الحمد پڑھے بغیر سورے کا دوسرا حصہ پڑھے اور دوسرے رکوع میں جائے ۔ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اسی سورے کا تیسرا حصہ قرائت کرے اور اسی طرح پانچویں رکوع تک جاری رکھے کہ ہر رکوع سے پہلے جس سورے کا ایک حصہ پڑھا ہے، آخری رکوع سے پہلے وہ سورہ ختم ہوجائے اس کے بعد پانچویں رکوع کو بجالائے اور سجدے میں جائے ۔ دونوں سجدوں کے بعد دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوجائے اور الحمد اور کسی سورے کا ایک حصہ قرائت کرے اور رکوع میں جائے اور اسی طرح پہلی رکعت کی طرح انجام دے اور تشہد اور سلام پڑھے۔
3۔ تیسراطریقہ: ایک رکعت کو گذشتہ طریقوں میں سے کسی ایک کے مطابق اور دوسری رکعت کو دوسرے طریقے کے مطابق بجالائے۔
4۔ چوتھا طریقہ: جس سورے کا ایک حصہ پہلے رکوع سے پہلےقیام میں پڑھا ہے اس کو دوسرے، تیسرے یا چوتھے رکوع سے پہلے پورا کرے اس صورت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد سورہ الحمد کو دوبارہ پڑھنا اور کسی سورے کو یا اس کا ایک حصہ قرائت کرنا واجب ہے اور اس صورت میں پانچویں رکوع سے پہلے اس سورے کو پورا کرنا واجب ہے۔
توجہجو موارد یومیہ نماز میں واجب یا مستحب ہیں نماز آیات میں بھی یہی حکم رکھتے ہیں لیکن نماز آیات میں اذان اوراقامہ کے بجائے ثواب پانے کی امید سے تین مرتبہ "اَلصَّلاة" کہتے ہیں۔
2۔ عید فطر اور عید قربان کی نماز
1۔ نماز عید فطر و نماز عید قربان عصر حاضر (غیبت کبری کے زمانے ) میں واجب نہیں بلکہ مستحب ہیں۔
2۔ عید فطر و عید قربان کی نماز دو رکعت ہے۔ پہلی رکعت میں الحمد اور سورہ کے بعد ضروری ہے پانچ تکبیریں کہے اور ہر تکبیر کے بعد ایک قنوت پڑھے اور پانچویں قنوت کے بعد ایک تکبیر کہے اور رکوع میں جائے اور دو سجدوں کے بعد کھڑا ہوجائے اور دوسری رکعت میں چار تکبیریں کہے اور ہر تکبیر کے بعد قنوت پڑھے اور پانچویں تکبیرکے بعد رکوع میں جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے بجالائے اور تشہد و سلام پڑھے۔
3۔ عید کی نماز کی قنوت کو مختصر یا طویل پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور نماز باطل ہونے کا باعث نہیں لیکن ان کی تعداد کو کم یا زیادہ کرنا جائز نہیں ہے۔
4۔ نماز عید میں اقامہ نہیں ہے اور اگر امام جماعت نماز عید کے لئے اقامہ پڑھے تو اس کی اور مامومین کی نماز کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔
5۔ ولی فقیہ کے جن نمائندوں کے پاس عید کی نماز قائم کرنے کی اجازت ہے اور اسی طرح اس کی طرف سے مقرر ائمہ جمعہ کے لئے جائز ہے کہ عصر حاضر (امام زمان ؑ کی غیبت کے زمانے ) میں جماعت کی صورت میں نماز عید قائم کریں لیکن احوط (وجوبی) یہ ہے کہ ان کے علاوہ دوسرے لوگ نماز عیدکو فرادی پڑھیں اور اس کو ورود کے قصد کے بغیر رجا کے قصد سے جماعت کے ساتھ پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے البتہ اگر مصلحت کا تقاضا یہ ہو کہ شہر میں ایک نماز عید قائم ہوجائے تو بہتر ہے کہ ولی فقیہ کی جانب سے تعیینات امام جمعہ کے علاوہ کوئی اور یہ کام نہ کرے۔
5۔ نماز عید کی قضا نہیں ہے۔
6۔ دوسرے مامومین کے لئے نماز عید میں جماعت کو دوبارہ پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
تمرین
1۔ کن موارد میں نماز آیات واجب ہے؟ وضاحت کریں۔
2۔ کسی جگہ زلزلہ کے بعد مختصر مدت میں درجنوں مرتبہ آفٹر شاکس محسوس کریں تو اس صورت میں نماز آیات کا کیا حکم ہے؟
3۔ نماز آیات بجالانے کا طریقہ کیا ہے؟
4۔ غیبت کبری کے زمانے میں نماز عید فطر و عید قربان کا کیا حکم ہے؟
5۔ موجودہ دور میں ائمہ جماعت کے ذریعے عید فطر و عید قربان کی نماز قائم کی جاسکتی ہے؟
6۔ کیا نماز عید فطر کی قضا ہے؟
- سبق 56: نماز جماعت (1)
سبق 56: نماز جماعت (1)
نماز جماعت کی شرعی حیثیت اور اہمیت
1۔ نماز جماعت کی شرعی حیثیت اور اہمیت
1۔ نماز جماعت اہم ترین اور بزرگ ترین اسلامی شعائر میں سے ہے اور حداقل دو نفر (امام اور ماموم) کے ذریعے قائم ہوسکتی ہے۔
2۔ اگر امام جماعت امامت کے قصد کے بغیر نماز میں مشغول ہوجائے تو اس کی نماز اور دوسروں کا اس کی اقتدا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے دوسرے الفاظ میں جماعت وجود میں آنے کے لئے یہی کافی ہے کہ ماموم اقتدا کی نیت کرے اور امام کا امامت کی نیت کرنا ضروری ہے اگرچہ امام کو نماز جماعت کی فضیلت اس صورت میں حاصل ہوتی ہے جب امامت اور جماعت کی نیت کرے۔
3۔ احتیاط کے طور پر پڑھنے والی نماز قضا کی نیت سے امامت صحیح نہیں ہے مگر اس صورت میں جب ماموم بھی اپنی نماز کو احتیاط کے طور پر دوبارہ پڑھے اور اس کے احتیاط اور امام کے احتیاط کی جہت ایک ہو بنابراین کوئی شخص ایک نماز کو مختلف جگہوں میں امام جماعت کے طور پر قائم کرے تو ان نمازوں کو قضائے احتیاطی کی نیت کے ساتھ بجا نہیں لاسکتا ہے۔
4۔ اقتدا صحیح ہونے کے لئے امام جماعت کی رضایت شرط نہیں ہے بنابراین اس شخص کی اقتدا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے جو اس کام پر راضی نہیں ہے۔
5۔ جب تک ماموم اپنی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھ رہا ہے اس کی اقتدا کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر کسی کا ماموم ہونا معلوم نہ ہو اور اس کی اقتدا کرے چنانچہ رکوع اور سجدوں میں فرادی نماز پڑھنے والے کے وظیفے پر عمل کیا ہو اس طرح کہ کسی رکن کو عمدا یا سہوا کم یا زیادہ نہیں کیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔
6۔ یومیہ نمازوں میں نماز جماعت کی امامت کو ایک بار تکرار کرنا جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ دوسری جماعت کے مامومین پہلی جماعت کے مامومین سے مختلف ہوں بنابراین ایک امام جماعت دو مسجدوں میں نماز جماعت قائم کرکے دوبارہ نماز پڑھ سکتا ہے۔
7۔ یومیہ نمازوں میں سے ہر نماز کو ہر نماز کے ساتھ اقتدا میں بجالاسکتے ہیں مثلا کوئی نماز عشا پڑھنا چاہے تو اس شخص کی اقتدا کرسکتا ہے جو نماز مغرب پڑھ رہا ہے۔
8۔ عورتوں کا نماز جماعت میں شرکت کرناکوئی اشکال نہیں رکھتاہے اور جماعت کا ثواب ملے گا۔
9۔ اگر کوئی آخری تشہد میں نماز جماعت میں شریک ہوجائے چنانچہ نماز جماعت کا ثواب حاصل کرنا چاہے تو نیت کرکے تکبیرہ الاحرام کہے اور اس کے بعد بیٹھ جائے اور تشہد کو امام کے ساتھ پڑھے لیکن سلام نہ پڑھے اور امام کا سلام ختم ہونے تک تھوڑا صبر کرے اس کے بعد کھڑا ہوجائے اور نماز کو جاری رکھے یعنی الحمد اور سورہ پڑھے اور اس کو پہلی رکعت شمار کرے (یہ طریقہ نماز جماعت کے آخری تشہد کے ساتھ مختص اور نماز جماعت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے ہے اورتین رکعتی اور چار رکعتی نمازوں کی دوسری رکعت کے تشہد میں اس طریقے پر عمل نہیں کرسکتے ہیں۔)
10۔ تقلید میں اختلاف اقتدا صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے بنابراین جو شخص نماز مسافر میں کسی مجتہد کی تقلید کرتا ہو اس امام جماعت کی اقتدا کرسکتا ہے جو اس مسئلے میں دوسرے مجتہد کی تقلید کرتا ہے لیکن اس نماز میں اقتدا کرنا جس میں ماموم کے مرجع تقلید کے مطابق قصر اور امام جماعت کے مرجع تقلید کے مطابق پوری پڑھنے یا اس کے برعکس حکم ہوتو صحیح نہیں ہے۔
توجہ
جو لوگ نماز جماعت برپا ہونے کے دوران فرادی نماز پڑھتے ہیں چنانچہ یہ عمل جماعت کی تضعیف اور امام جماعت کی توہین اور بے احترامی شمار ہوجائے جس کی عدالت پر لوگوں کو اعتماد ہے تو جائز نہیں ہے۔
کسی معقول غرض سے مثلا تہمت کو ختم کرنے کے لئے نماز جماعت میں ظاہری طورپر شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔لیکن جن نمازوں میں قرائت کو بلند آواز میں پڑھنا چاہئے مثلا امام جماعت کی اقتدا کو دکھانے کے لئے نماز مغرب و عشا میں حمد اور سورہ کو آہستہ پڑھنا صحیح اور کافی نہیں ہے۔
مستحب اعمال مثلا نماز مستحب، دعائے توسل اور باقی طویل دعائیں جو حکومتی اداروں میں نماز جماعت کے دوران یا بعد میں انجام دیتے ہیں اور زیادہ وقت لیتے ہیں چنانچہ دفتری وقت ضائع ہونے اور واجب کاموں میں تاخیر کا باعث بنے تو اشکال ہے۔
واجبات کو انجام دینے اسی طرح جماعت قائم کرنے کے لئے اجرت لینے میں کوئی مانع نہیں ہے۔
نماز جماعت میں سلام کے بعد قرآنی آیہ صلوات (سورہ احزاب آیت 56 ) کی قرائت، پیغمبر اکرمﷺ اور ان کی آل ؑ پر درود بھیجنا کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے بلکہ مطلوب اور ثواب کا باعث ہے اسی طرح اسلامی اور انقلابی شعائر اور نعروں کو پابندی کے ساتھ لگانا جن سے اسلامی انقلاب کے اہداف اور وظائف کی یاددہانی ہوتی ہے، بھی مطلوب ہے۔
بہتر ہے کہ اول وقت میں نماز اور جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے دفتری کاموں کا ٹائم ٹیبل اس طرح بنایا جائے کہ اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اس الہی فریضے کو جماعت کے ساتھ اور مختصر ترین وقت میں ادا کرسکیں۔
تمرین
1۔ نماز جماعت حد اقل کتنے افراد کے ذریعے قائم ہوتی ہے؟
2۔ کیا امام جماعت کے لئے دو مسجدوں میں نماز جماعت قائم کرنا اور نماز کو دوبارہ پڑھنا جائز ہے؟
3۔ اگر کوئی نماز عشا پڑھنا چاہتا ہو تو نماز مغرب پڑھنے والے کی اقتدا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
4۔ بعض لوگ نماز جماعت قائم ہونے کے دوران فرادی نماز پڑھتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟
5۔ کیا امام جماعت نماز کے لئے اجرت لے سکتا ہے؟
- سبق 57: نماز جماعت (2)
سبق 57: نماز جماعت (2)
نماز کے متفرق مسائل
2۔ نماز جماعت کی شرائط
1۔ حائل نہ ہو
2۔ امام کے قیام کی جگہ ماموم کی جگہ سے زیادہ بلند نہ ہو
3۔ امام اور ماموم کے درمیان فاصلہ نہ ہو
4۔ ماموم امام سے آگے کھڑا نہ ہو
1۔ پردہ حائل نہ ہو
1۔ اگر نماز جماعت کی ایک صف ان افراد سے ہی تشکیل پائی ہو جن کی نماز قصر ہے اور بعد والی صفوں میں موجود افراد کی نماز پوری ہو چنانچہ اگلی صف کے افراد دو رکعت نماز پڑھنے کے فورا بعد اگلی دو رکعت پڑھنے کے لئے اقتدا کریں تو جماعت کو جاری رکھنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔
2۔ اگر جماعت میں ایک بچہ اتصال کا ذریعہ بن جائے چنانچہ اس کی نماز صحیح ہونا معلوم ہو تو اقتدا کرسکتے ہیں اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں۔
3۔ نماز جماعت میں اگر عورتیں مردوں کے لئے جماعت میں اتصال کا ذریعہ بن جائیں مثلا حضرت امام علی رضاؑ کے حرم کے بڑے صحن میں یا نماز جمعہ بھی بعض اوقات ایسا اتفاق ہوتا ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے لیکن احتیاط واجب کی بناپر عورتوں اور مردوں کے درمیان حداقل ایک بالشت فاصلہ ہونا چاہئے مگر یہ کہ ان کے درمیان کوئی پردہ وغیرہ موجود ہو۔
توجہاگر عورتیں مردوں کے پیچھے کھڑی ہوجائیں تو فاصلہ نہ ہو تو بھی پردہ اور حائل کی ضرورت نہیں ہے لیکن مردوں کے ساتھ کھڑی ہوجائیں تو مناسب ہے کہ ان کے درمیان کوئی پردہ ہو تاکہ نماز میں مرد اور عورت برابر میں کھڑے ہونے کی کراہت برطرف ہوجائے اور یہ سوچ کہ نماز میں مردوں اور ایک عورتوں کے درمیان پردہ ہونا عورتوں کی شان کے خلاف اور تحقیر کا باعث ہے، ایک بے بنیاد وہم اور خیال ہے۔
2۔ امام کے کھڑے ہونے کی جگہ ماموم سے زیادہ بلند نہ ہو
اگر امام کی جگہ ماموم کی جگہ سے شرع میں مجاز حد سے زیادہ بلند ہو (ایک بالشت یا اس سے زیادہ) تو نماز جماعت باطل ہونے کا باعث ہے۔
3۔ امام اور ماموم کے درمیان فاصلہ نہ ہو
1۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ ماموم کے سجدے کی جگہ اور امام کے کھڑا ہونے کی جگہ کا فاصلہ اسی طرح اگلی صف کے کھڑا ہونے کی جگہ پچھلی صف کے سجدے کی جگہ کا فاصلہ ایک لمبے قدم (تقریبا ایک میٹر) سے زیادہ نہ ہو۔
2۔ اگر ماموم آگے کی طرف سے امام سے متصل نہ ہو اور فقط دائیں یا بائیں طرف سے امام سے متصل ہوتو اس کی نماز صحیح ہے۔
3۔ اگر نماز کی حالت میں ماموم اور امام کے درمیان یا ایک ماموم اور دوسرے جس کے ذریعے وہ امام سے متصل ہورہا ہے ، ایک لمبے قدم سے زیادہ فاصلہ آئے تو جماعت کے ساتھ اتصال ختم اور نماز فرادی ہوجاتی ہے۔
4۔ اگر ماموم صف اول کے آخر میں کھڑا ہو چنانچہ امام جماعت نماز شروع کرنے کے بعد اتصال کا واسطہ بننے والے مامومین نماز کے لئے آمادہ اور تکبیر کہنے کے نزدیک ہوں تو جماعت کی نیت سے نماز میں داخل ہوسکتا ہے۔
22۔ نماز جماعت کے احکام
1۔ نماز ظہر اور عصر میں احتیاط واجب کی بناپر ماموم کے لئے حمد او ر سوہ کی قرائت جائز نہیں ہے حتی کہ اگر ذہن کو مرکوز کرنا چاہتا ہے تو اس کے بجائے ذکر پڑھنا مستحب ہے۔
2۔ اگر نماز صبح اور نماز مغرب و عشا کی پہلی اور دوسری رکعت میں ماموم امام جماعت کی حمد اور سورہ کو سنے اگرچہ کلمات کو تشخیص نہ دے سکے تو حمد اور سورہ کو نہیں پڑھنا چاہئے اور اس صورت میں بھی جب امام کی حمد اور سورہ کے بعض کلمات کو سنے تو احتیاط واجب کی بناپر اس کو نہیں پڑھنا چاہئے لیکن اگر امام کی آواز کو نہ سنے تو مستحب ہے کہ حمد اور سورہ کو آہستہ پڑھے اور چنانچہ سہوا بلند آواز میں پڑھے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
3۔ اگر امام جماعت نماز عشا کی تیسری یا چوتھی رکعت میں ہو اور ماموم دوسری رکعت میں تو ماموم پر واجب ہے کہ حمد اور سورہ کو آہستہ پڑھے۔
4۔ اگر کوئی شخص نماز جماعت کی دوسری رکعت میں پہنچ جائے اور مسئلے سے جاہل ہونے کی وجہ سے بعد والی رکعت میں تشہد اور قنوت نہ پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن احتیاط کی بناپر تشہد کی قضا اس پر واجب ہے اور دو سجدہ سہو بھی بجالانا واجب ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے فراموش شدہ تشہد کی قضا کرے۔
5۔ اگر کوئی نماز جماعت کی تیسری رکعت میں پہنچ جائے اور اس خیال سے کہ امام پہلی رکعت میں ہے، کچھ نہ پڑھے چنانچہ رکوع سے پہلے متوجہ ہوجائے تو حمد اور سورہ پڑھے اور اگر وقت نہ ہوتو فقط حمد کو پڑھے اور خود کو امام کے ساتھ رکوع میں پہنچائے لیکن اگر رکوع میں داخل ہونے کے بعد متوجہ ہوجائے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر کچھ واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ قرائت کو سہوا ترک کرنے کی وجہ سے دو سجدہ سہو بجالائے۔
6۔ اگر امام جماعت تکبیرہ الاحرام کے بعد سہوا رکوع میں جائے چنانچہ ماموم نماز جماعت میں داخل ہونے کے بعد اور رکوع میں جانے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو واجب ہے کہ فرادی کی نیت کرے اور حمد اور سورہ کی قرائت کرے۔
7۔ اگر کوئی تیسری یا چوتھی رکعت میں اما م کی اقتدا کرے تو حمد اور سورہ کو پڑھنا چاہئے اور اگر سورہ کے لئے وقت نہ ہوتو صرف حمد کو پڑھنا چاہئے اور خود کو امام کے ساتھ رکوع میں پہنچائے۔
8۔ اگر ماموم کو معلوم ہو کہ سورہ پڑھنے کی صورت میں امام کے ساتھ رکوع میں نہیں پہنچ سکے گا تو سورہ نہیں پڑھنا چاہئے اور چنانچہ سورہ پڑھے اور امام کے ساتھ رکوع میں نہ پہنچے تو اس کی نماز فرادی ہوجائے گی۔
9۔ اگر نماز کے دوران امام جماعت کسی لفظ کو ادا کرنے کے بعد اس کی ادائیگی کی کیفیت میں شک کرے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد علم ہوجائے کہ اس کلمے کے تلفظ میں غلطی کی ہے تو اس کی اور مامومین کی نماز صحیح ہے۔
10۔ ماموم کو چاہئے کہ نماز کے افعال کو امام کے ساتھ یا امام سے کچھ دیر بعد انجام دے اور اگر عمدا امام جماعت سے آگے جائے یا کچھ دیر بعد انجام دے (کہ امام کی متابعت نہ کہا جائے) تو اس کی نماز فرادی ہوجائے گی۔
11۔ اگر سہوا امام جماعت سے پہلے رکوع میں جائے تو رکوع سے سر کو اٹھانا چاہئے اور دوبارہ امام کے ساتھ رکوع میں جانا چاہئے اور امام جماعت کے ساتھ نماز کو تمام کرے اور اس کی نماز صحیح ہے اور اگر رکوع سے نہ پلٹے تو اس کی نماز فرادی صورت میں صحیح ہے۔
12۔ وحدت اسلامی کی رعایت کے لئے اہل سنت کی اقتدا جائز ہے اور اگر وحدت کی حفاظت ان امور کو انجام دینے کی متقاضی ہو جو وہ لوگ انجام دیتے ہیں تو نماز صحیح اور کافی ہے حتی اگر قالین وغیرہ پر سجدہ کرے لیکن نماز میں تکتف (ہاتھ باندھ کرنماز پڑھنا) جائز نہیں ہے مگر یہ کہ ضرورت اس کا تقاضا کرے۔
13۔ بہتر ہے کہ امام صف کے درمیان میں کھڑا ہوجائے اور اہل علم اور صاحبان کمال و تقوی پہلی صف میں کھڑے ہوجائیں۔
23۔ امام جماعت کی شرائط
1۔ احتیاط کی بناپر بالغ ہو
2۔ عاقل ہو
3۔ عادل ہو
4۔ حلال زادہ ہو
5۔ شیعہ اثناعشری ہو
6۔ نماز کو صحیح پڑھے
7۔ مرد ہو (البتہ اس صورت میں جب ماموم مرد ہو)
3۔ عادل ہو[1]
1۔ اگر امام جماعت کوئی بات کرے یا ایسا مذاق کرے تو عالم دین کی شان کے لئے مناسب نہ ہو تو شرع کے مخالف نہ ہونے کی صورت میں عدالت کو کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا۔
2۔ فقط امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنا چونکہ مکلف کے نزدیک کسی قابل قبول عذر کی وجہ سے ہونا ممکن ہے لہذا اس کی عدالت کے لئے مضر نہیں ہے اور اس کی اقتدا میں مانع نہیں ہے۔
3۔ اگر کوئی شخص امام جماعت کی عدالت پر اعتقاد کرکے جماعت میں شریک ہوجائے اسی حالت میں وہ معتقد ہے کہ اس نے کچھ مواقع پر اس پر ظلم کیا ہے تو جب تک امام جماعت کا عمل جس کو وہ ظلم سمجھتا ہے، اس(امام جماعت ) کے علم اور اختیارسے اور شرعی جواز کے بغیر ہونا ثابت نہ ہو اس کے فاسق ہونے کا حکم نہیں لگاسکتا ہے۔
توجہامام جماعت کی اقتدا میں اس کو واقعا شناخت کرنا شرط نہیں ہے بلکہ ماموم کے نزدیک کسی بھی طریقے سے امام کی عدالت ثابت ہوجائے تو اس کی اقتدا جائز اور نماز جماعت صحیح ہے۔
6۔ نماز کو صحیح طریقے سے پڑھنا
1۔ اگر مکلف کی قرائت صحیح نہ ہو اور سیکھنے پر قدرت بھی نہ رکھتا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن دوسرے اس کی اقتدا نہیں کرسکتے ہیں۔
2۔ اگر ماموم کی نظر میں امام جماعت کی قرائت صحیح نہ ہو اس کے نتیجے میں ا س کی نماز کو صحیح نہ سمجھے تو اس کی اقتدا نہیں کرسکتا ہے اور اقتدا کرنے کی صورت میں اس کی نماز صحیح نہیں ہے اور اس کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
7۔ مرد ہو
نماز جماعت میں عورت کی امامت صرف عورتوں کے لئے جائز ہے۔
امام جماعت کی شرائط کے بارے میں چند نکتے
کسی عالم دین تک رسائی ہوتو عام انسان کی اقتدا سے اجتناب کیا جائے۔
اگر امام جماعت قیام کی حالت میں طبیعی طور پر سکون اور آرام کے ساتھ حمد اور سورہ کی قرائت اور نماز کے اذکار اور افعال کو انجام دے سکتا ہو اور رکوع اور سجدہ کرنے پرقادر ہو اور صحیح طرح وضو کرسکتا ہو توامامت جماعت کی دوسری شرائط ثابت ہونے کے بعد نماز میں دوسروں کا اس کی اقتدا کرنا صحیح ہے اور اگر ہاتھ یا پاؤں مکمل کٹے ہوئے ہوں یا فالج کا شکار ہوتو امامت میں اشکال ہے لیکن پاؤں کا انگوٹھا کٹ گیا ہوتو امامت صحیح ہے۔
کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والا بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز والے کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھ سکتا ہے لیکن بیٹھ کر نماز پڑھنے والا بیٹھ کر نماز پڑھنے والی کی اقتدا کرسکتا ہے۔
اس شخص کی اقتدا جائز ہے جو کسی عذر کی وجہ سے تیمم یا وضوئے جبیرہ یا نجس بدن یا لباس کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔
اگر کوئی غسل کرنے سے شرعا معذور ہوتو غسل کے بدلے تیمم کے ساتھ امام جماعت بن سکتا ہے اور اس کی اقتدا میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
ان مامومین کی نماز صحیح ہونے کے حکم میں ہے اور تکرار اور قضا ان پر واجب نہیں ہے جنہوں نے ماضی میں حکم شرعی سے جاہل ہونے کی وجہ سے ایسے شخص کی اقتدا کی ہے جس کی اقتدا صحیح نہیں تھی مثلا ایسا شخص جس کا دایاں ہاتھ نہ ہو۔
24۔ نماز کے متفرق مسائل
1۔ مستحب ہے کہ بچے جب اچھے اور برے میں تمیز کی عمر کو پہنچیں تو ان کا ولی ان کو شرعی احکام اور عبادات سکھائے۔
2۔ شراب پینے والے کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ شراب پینا نماز کی قبولیت میں مانع ہے[2] ا س کا مطلب یہ نہیں کہ نماز ادا کرنے کا وجوب ساقط ہوجائے اور قضا واجب ہوجائے یا ادا اور قضا دونوں واجب ہوجائیں۔
3۔ سلام اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد مصافحہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ مجموعی طور پر مؤمنین کا ایک دوسرے مصافحہ کرنا مستحب ہے۔
4۔ اگر انسان دیکھے کہ کوئی اپنی نماز کے بعض افعال کو غلطی سے انجام دے رہا ہے چنانچہ ان اجزا اور شرائط کے بارے میں جاہل ہو جن میں جہالت کی وجہ سے خلل واقع ہونا نماز کے صحیح ہونے میں ضرر کاباعث نہ ہو تو اس کو آگاہ کرنا واجب نہیں ہے لیکن ان اجزا و شرائط میں سے ہو جن میں جہالت کی وجہ سے خلل واقع ہونا نماز باطل ہونے اور تکرار لازم ہونے کا باعث ہو مثلا وضو، غسل، وقت، رکوع اور سجدے تو اس صورت میں صحیح حکم کو اس کو بیان کرنا چاہئے۔
تمرین
1۔ اگر عورتیں نماز جماعت کے لئے مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں تو پردہ اور حائل کی ضرورت ہے یا نہیں؟
2۔ نماز ظہر و عصر کی جماعت میں ذہن کو مرکوز رکھنے کے لئے ماموم کے لئے حمد اور سورہ کی قرائت جائز ہے یا نہیں؟
3۔ اگر امام جماعت تکبیرہ الاحرام کے بعد سہوا رکوع میں جائے تو ماموم کا کیا وظیفہ ہے؟
4۔ اگر امام جماعت کوئی بات کرے یا مذاق کرے جو عالم دین کی شان کے مطابق نہ ہو تو کیا اس سے اس کی عدالت ختم ہوجاتی ہے؟
5۔ قرائت صحیح ہونے میں فرادی اور امام و ماموم کی نماز کے درمیان کوئی فرق ہے یا ہر حالت میں ایک مسئلہ شمار ہوتا ہے؟
6۔ کیا عورت دوسری عورتوں کی امامت کرسکتی ہے؟
[1] عادل اور عدالت کے معنی کے بارے میں مرجع تقلید کی شرائط کی طرف رجوع کریں۔
[2] نماز کی قبولیت میں مانع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نماز کا کوئی ثواب نہیں ملے گا لیکن اگر صحیح طرح نماز پڑھی جائے تو تارک نماز شمار نہیں ہوگا اور نماز ترک کرنے کی وجہ سے اس پر عذاب نہیں ہوگا اگرچہ اس کو کوئی ثواب اور اجر بھی نہیں ملے گا
-
- چوتھی فصل: روزه
- پانچویں فصل: خمس
- چھٹی فصل: انفال
- ساتھویں فصل: جہاد
- آٹھویں فصل: امر بالمعروف اور نہی از منکر
-