دریافت:
احکام آموزشی
- پہلا جلد
- پہلی فصل: تقلید
- سبق1: تقلید (1)
سبق1: تقلید (1)
مقدمہ: احکام کی شناخت کے طریقے
تقلید کے بغیر اعمال
1۔ مقدمہ
مکلف کو چاہئے کہ روزمرہ شرعی احکام کی انجام دہی جن مسائل کو جاننے سے وابستہ ہیں، ان کو یاد کرے مثلا نماز، روزہ اور طہارت اور بعض معاملات کے اصلی مسائل اور اگر ان کو نہ سیکھنے کی وجہ سے کوئی واجب ترک ہوجائے یا حرام کا ارتکاب کرے تو گناہ گار ہوگا۔
توجہ
مکلف اس شخص کو کہاجاتا ہے جس میں تکلیف کی شرائط موجود ہوں
تکلیف کی شرائط
1۔ بلوغ
2۔ عقل
3۔ قدرت
بلوغ کی علامت ان میں سے ایک ہے؛
1۔ پیٹ کے نیچے اور شرمگاہ کے اوپر سخت بالوں کا اگنا
2۔ احتلام (منی کا نکلنا)
3۔ لڑکوں کے لئے 15 قمری سال اور لڑکیوں کے لئے 9 قمری سال پورا ہونا
کسی شخص میں جب تک بلوغ کی علامتوں میں سے کوئی ایک علامت ثابت نہ ہو شرعی لحاظ سے اس کے بالغ ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا اور شرعی احکام کی نسبت وہ مکلف نہیں ہے۔
چنانچہ ہم نے کہا کہ بلوغ کی عمر کا معیار قمری سال ہے اور اس صورت میں جب شمسی سال کے مطابق تاریخ پیدائش معلوم ہو تو قمری اور شمسی سال کے درمیان اختلاف کو حساب کرکے قمری سال کے مطابق (عمر کا) اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ (ہر قمری سال شمسی سال سے 10 دن 21 گھنٹے اور 17 سیکنڈ کم ہوتا ہے)
2۔ احکام کی شناخت کے طریقے
دین کے احکام کی شناخت اور ان پر عمل کرنے کے لئے مکلف کے پاس تین راستے ہیں؛
1۔ اجتہاد
2۔ احتیاط
3۔ تقلید1۔ اجتہاد
اجتہاد شرعی احکام اور الہی قوانین کو فقہاء اسلام کے نزدیک مقرر اور ثابت شدہ معتبر منابع اور مدارک سے استنباط کرنے کو کہتے ہیں۔
2۔ احتیاط
احتیاط اس طرح عمل کرنے کو کہتے ہیں جس سے اپنے شرعی وظیفے کو انجام دینے پر مطمئن ہوجائے مثلا بعض مجتہدین کسی کام کو حرام قرار دیں اور بعض حرام قرار نہ دیں تو اس کو انجام نہ دے اور جس کام کو بعض واجب سمجھتے ہیں اور بعض واجب نہیں سمجھتے ہیں اس کو انجام دے۔
3۔ تقلید
تقلید، دین کے احکام میں جامع الشرائط مجتہد کی طرف رجوع کرنے کو کہتے ہیں دوسرے الفاظ میں مجتہد کے فتوی اور تشخیص کے مطابق شرعی اعمال کو بجالانے کو تقلید کہتے ہیں۔
توجہ
تقلید پر ادلہ لفظی (قرآن اور سنت سے دلیل) ہونے کے علاوہ عقل بھی حکم کرتی ہے کہ دین کے احکام سے ناواقف شخص کو جامع الشرائط مجتہد کی طرف رجوع کرنا چاہئے
مکلف اگر دین کے احکام میں مجتہد نہیں ہے تو اس کو کسی مجتہد کی تقلید کرنا چاہئے یا احتیاط کے مطابق عمل کرنا چاہئے
چونکہ احتیاط پر عمل کرنے کے لئے احتیاط کے موارد اور طریقے کی شناخت کے ساتھ ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی ضرورت ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ مکلف دین کے احکام میں جامع الشرائط مجتہد کی تقلید کرے
تقلید اس شخص پر واجب ہے جس میں تین شرائط موجود ہوں؛
1۔ مکلف ہو
2۔ مجتہد نہ ہو
3۔ محتاط (احتیاط پر عمل کرنے والا) نہ ہو
4۔ تقلید کے بغیر اعمال
جو لوگ تقلید نہیں کرتے ہیں یا صحیح طریقے سے تقلید نہیں کرتے ہیں ان کے اعمال اس صورت میں صحیح ہیں جب
1۔ احتیاط کے ساتھ موافق ہوں
2۔ یا اس مجتہد کی رائے کے مطابق ہوں جس کی تقلید کرنا گذشتہ زمانے میں ان کا وظیفہ تھا
3۔ یا اس مجتہد کی رائے کے مطابق ہوں جس کی تقلید کرنا آج ان کا وظیفہ ہو
تمرین
1۔ کیا وہ شخص جو اپنی ضرورت کے دینی احکام کو سیکھنے میں کوتاہی کرتا ہے؛ گناہ گار ہے؟
2۔ بلوغ کی علامات کیا ہیں؟
3۔ احکام کی شناخت کے طریقے بیان کریں
4۔ احتیاط پر عمل کرنا بہتر ہے یا تقلید؟ کیوں؟
5۔ تقلید کے بغیر اعمال کا کیا حکم ہے؟
- سبق2: تقلید (2)
سبق2: تقلید (2)
مرجع تقلید کی شرائط
5۔ مرجع تقلید کی شرائط
توجہ
اس مجتہد کی تقلید کرنا چاہئے جس میں درج ذیل شرائط موجود ہوں
1۔ بالغ ہو
2۔ عاقل ہو
3۔ شیعہ اثناعشری ہو
4۔ حلال زادہ ہو
5۔ احتیاط واجب کی بناپر زندہ ہو
6۔ عادل ہو
7۔ احتیاط واجب کی بناپر اعلم ہو
عادل ہو
1۔ عدالت ایک نفسانی حالت ہے جس کے باعث انسان ہمیشہ تقوی اختیار کرتا ہے اور واجبات کو ترک کرنے یا حرام کو انجام دینے سے مانع بن جاتی ہے۔
2۔ عادل وہ ہے جس کی پرہیزگاری اتنی زیادہ ہو کہ کبھی بھی عمدا گناہ (واجب کو ترک کرنا یا حرام کو انجام دینا) میں مرتکب نہیں ہوتا ہو۔
3۔ عدالت (کسی بھی طریقے سے) یقین یا اطمینان یا دو عادل افراد کی گواہی سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح حسن ظاہری[1] بھی عدالت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اگرچہ اطمینان کا باعث نہ بنے۔
احتیاط واجب کی بناپر اعلم ہو
1۔ اعلم وہ ہے جو دوسرے مراجع کی نسبت احکام الہی کی شناخت میں زیادہ توانا ہو اور دلائل سے احکام شرعی کو اس طرح بہتر استنباط کرسکتا ہو کہ اہل فن کے نزدیک اس کے اور دوسروں کے درمیان فرق واضح ہو اسی طرح اپنے زمانے کے حالات کے بارے میں زیادہ آگاہ ہو اس طرح کہ احکام کے موضوعات کی تشخیص اور فقہی رائے کے اظہار میں موثر ہو۔
2۔ اعلم کی تقلید واجب ہونے کی دلیل عقلاء کی روش اور حکم عقل ہے۔
3۔ احتیاط واجب کی بناپر اعلم کی تقلید ان مسائل میں واجب ہے جن میں اعلم کا فتوی غیر اعلم سے اختلاف رکھتا ہو۔
4۔ اس صورت میں جب دو یا چند مجتہد علمی لحاظ سے مساوی ہوں یا معلوم نہ ہو کہ کون دوسروں سے اعلم ہے تو مکلف جس کی چاہے تقلید کرسکتا ہے لیکن اگر احتمال دے کہ ان میں سے کوئی ایک اعلم ہے تو احتیاط واجب کی بناپر اس کی تقلید کرنا چاہئے۔
مرجع تقلید کی شرائط کے بارے میں چند نکتے
اگر مکلف کو کسی مجتہد میں شرائط موجود ہونے کے بارے میں شک ہوجائے تو تحقیق کرنا چاہئے البتہ کسی مجتہد کو پہلے شرائط کے حامل سمجھتا تھا اور تقلید کرتا تھا اس کے بعد کسی شرط کے زائل ہونے کے بارے میں شک کرے تو جب تک اس کے برخلاف معلوم نہ ہو اس کی تقلید پر باقی رہ سکتا ہے۔
جامع الشرائط مجتہد کی تقلید صحیح ہونے کے لئے اس کے پاس مرجعیت یا توضیح المسائل ہونا شرط نہیں ہے لہذا گر مکلف کے لئے ثابت ہوجائے کہ کوئی مجتہد جس کے پاس مرجعیت کا عہدہ نہیں ہے اور توضیح المسائل بھی نہیں ہے (لیکن) جامع الشرائط ہے تو اس کی تقلید کرسکتا ہے۔
علمی قابلیت کے اعتبار سے مجتہد کی دو قسمیں ہیں؛
1۔ وہ مجتہد جو فقہ کے تمام ابواب میں فتوی اور رائے دینے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کو مجتہد مطلق کہتے ہیں۔
2۔ وہ مجتہد جو فقہ کے بعض ابواب مثلا نماز اور روزہ میں فتوی اور رائے دینے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کو مجتہد متجزی کہتے ہیں۔
مجتہد متجزی کا فتوی اپنے لئے حجت ہے اور دوسرے بھی جس باب میں اس کو عبور اور مہارت حاصل ہے اس کی تقلید کرسکتے ہیں اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ مجتہد مطلق کی تقلید کریں۔
ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے تازہ بالغ ہونے والے بچوں کی ہدایت اور رہنمائی کریں جن پر مرجع تقلید انتخاب کرنا ضروری ہوچکا ہے اور تقلید کا مسئلہ سمجھنا دشوار ہونے کی بنا پر تقلید کے بارے میں اپنی شرعی ذمہ داریوں کو تشخیص نہیں دے سکتے ہیں۔
تمرین
1۔ مرجع تقلید کی شرائط کیا ہیں؟
2۔ عدالت کیا ہے اور عادل کون ہے؟
3۔ کیا مجتہد متجزی کا فتوی اپنے اور دوسروں کے لئے حجت ہے؟
4۔ اعلم کی کیوں تقلید کرنا چاہئے؟
5۔ جس مجتہد کی توضیح المسائل نہ ہو اس کی تقلید کرسکتے ہیں؟ کیوں؟
[1] حسن طاہر یعنی جو لوگ اس شخص کے ساتھ رہتے ہیں، وہ اس کے کردار اور رفتار کو شرع کے مطابق سمجھیں اور اس سے کوئی گناہ نہ دیکھیں
- سبق3: تقلید (3)
سبق3: تقلید (3)
جامع الشرائط مجتہد کی شناخت کے طریقے۔ مجتہد کا فتوی حاصل کرنے کے طریقے۔ عدول کے احکام۔ تقلید کے مختلف مسائل
7۔ جامع الشرائط مجتہد کی شناخت کے طریقے
دو طریقوں سے جامع الشرائط مجتہد کی شناخت ہوسکتی ہے؛
1۔ علم یا اطمینان حاصل ہونا، لوگوں کے درمیان عمومی شہرت سے حاصل ہوجائے یا ذاتی تجربے کی بنیاد پر (اس صورت میں کہ مکلف اہل خبرہ اور فقیہ شناس ہو) یا کسی بھی دوسرے طریقے سے
2۔ اہل خبرہ میں سے دو عادل افراد کی گواہی اور شہادت کے ذریعے اگرچہ اطمینان کا باعث نہ ہو
توجہ
اگر کسی مجتہد کی صلاحیت اور جامع الشرائط ہونے پر شرعی بینہ (دو عادل اور اہل خبرہ کی گواہی) قائم ہوجائے تو جب تک اس کے خلاف دوسرا شرعی بینہ موجود نہ ہو، شرعی لحاظ سے وہ بینہ حجت ہے اور اس کے مطابق عمل کرسکتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی بینہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں تحقیق کرنا لازم نہیں ہے۔
8۔ مجتہد کا فتوی حاصل کرنے کے طریقے
شرعی مسائل کے بارے میں مجتہد کی رائے اور دستور کو کئی طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے؛
1۔ خود مجتہد سے سنیں
2۔ ایک عادل یا موثق شخص خود مجتہد یا اس کے قابل اطمینان رسالے سے بیان کرے
3۔ مجتہد کے قابل اطمینان رسالے کی طرف رجوع کریں
توجہ
اگر کوئی کسی دوسرےشخص کو مجتہد کا فتوی بیان کرے چنانچہ اس مجتہد کا فتوی تبدیل ہوجائے تو اس کو بتانا لازم نہیں ہے[1] لیکن اگر مجتہد کا فتوی نقل کرنے میں غلطی کا شکار ہوجائے تو امکان ہونے کی صورت میں اس غلطی کا ازالہ کرنا چاہئے
غیر اعلم کی تقلید
درج ذیل صورتوں میں غیر اعلم کی تقلید (احتیاط واجب کی بناپر الاعلم فالاعلم کی ترتیب کی رعایت کرتے ہوئے)[2] جائز ہے؛4
1۔ جن مسائل میں مجتہد اعلم نے احتیاط واجب اور مجتہد غیر اعلم نے صریح فتوی دیا ہو
2۔ جن مسائل میں غیر اعلم کا فتوی اعلم کے فتوی کا مخالف نہ ہو
3۔ جن مسائل میں اعلم کا فتوی احتیاط کے مخالف اور غیر اعلم کا فتوی احتیاط کے موافق ہو
4۔ جن مسائل کے بارے میں مجتہد اعلم کا فتوی موجود نہ ہو یا تحقیق کے باوجود اس کی رائے کا حصول ممکن نہ ہو اور غیر اعلم مجتہد نے اس مسئلے کا حکم بیان کیا ہو۔
تقلید میں تبعیض
1۔ اگر کوئی مجتہد فقہ کے کسی باب مثلا عبادات میں اعلم ہو اور دوسرا مجتہد کسی دوسرے باب مثلا معاملات میں اعلم ہو تو احتیاط واجب کی بناپر مکلف کو چاہئے کہ ہر باب میں شرعی احکام کے لئے اس مجتہد کی تقلید کرے جو اعلم ہو اوراس باب میں زیادہ مہارت رکھتا ہو۔ اس کو اصطلاح میں تقلید میں تبعیض کہتے ہیں۔
2۔ اگر دو مجتہد تمام شرعی احکام میں یکساں مہارت اور قابلیت رکھتے ہوں تو ان کی تقلید میں تبعیض کوئی اشکال نہیں رکھتی ہے لیکن اگر مکلف کسی مسئلے میں ان میں سے کسی ایک کی تقلید کرے تو احتیاط واجب کی بناپر اس مسئلے میں دوسرے کی طرف عدول نہیں کرسکتا ہے۔
ایک مجتہد سے دوسرے کی طرف عدول
1۔ اس صورت میں جب دوسرا مجتہد پہلے مجتہد سے زیادہ اعلم ہو تو فتوی میں اختلاف کی صورت میں احتیاط کی بناپر دوسرے مجتہد کی طرف عدول کرنا واجب ہے۔
2۔ مجتہد اعلم کے فتوی پر عمل کرنا دشوار ہونا اس سے دوسرے مجتہد کی طرف عدول جائز ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے۔
مردہ مجتہد کی تقلید
1۔ جب بھی مرجع تقلید دنیا سے انتقال کرے تو اس کے مقلدین اب بھی اس کی تقلید کرسکتے ہیں یعنی اس کے فتوی اور رسالے پر عمل کرسکتے ہیں اس کو اصطلاح میں مردہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہنا کہتے ہیں۔
2۔ مردہ مجتہد، اعلم ہونے کی صورت میں بھی اس کی تقلید پر باقی رہنا واجب نہیں لیکن مناسب ہے کہ مردہ اعلم کی تقلید پر باقی رہنے میں احتیاط کو ترک نہ کیا جائے۔
3۔ مردہ مجتہد کی ابتدا میں تقلید کرنا یا اس کی تقلید پر باقی رہنا اور اس کے حدود (کی تشخیص) زندہ مجتہد کی تقلید کے مطابق ہونا چاہئے
4۔ جو لوگ جامع الشرائط مجتہد کی حیات میں نابالغ ہوں اور صحیح طریقے سے اس کی تقلید کی ہوں اس مجتہد کے انتقال کے بعد بھی اس کی تقلید پر باقی رہ سکتے ہیں۔
5۔ کوئی شخص کسی مجتہد کی تقلید کرتا تھا اس کے انتقال کے بعد بعض مسائل میں دوسرے مجتہد کی تقلید کی ہو اور وہ مجتہد بھی انتقال کرگیا ہو تو جن مسائل میں پہلے والے مجتہد سے عدول نہیں کیا ہے اب بھی گذشتہ کی طرح باقی رہ سکتا ہے جس طرح جن مسائل میں عدول کیا ہے دوسرے مجتہد کے فتوی پر باقی رہ سکتا ہے ا یا زندہ مجتہد کی طرف عدول کرسکتا ہے لیکن اگر تیسرا مجتہد (مردہ کی تقلید پر) باقی رہنے کو واجب قرار دے تو پہلے مجہتد پر باقی رہنا چاہئے۔
6۔ اگر مکلف اپنے مرجع تقلید کے انتقال کے بعد بعض یا تمام مسائل میں زندہ مجتہد کی تقلید کرے تو احتیاط واجب کی بناپر جن مسائل میں زندہ مجتہد کی تقلید کی ہے، دوبارہ مردہ مجتہد کی تقلید نہیں کرسکتا ہے۔
10۔ تقلید کے مختلف مسائل
1۔ حکم شرعی سے جاہل شخص کی دو قسمیں ہیں؛
الف۔ جاہل قاصر: جو شخص اپنی جہالت کی طرف متوجہ نہ ہو یا متوجہ ہو لیکن اس کو برطرف کرنے کا کوئی راہ حل نہیں رکھتا ہو
ب۔ جاہل مقصر: جو اپنی جہالت کی طرف متوجہ ہو اور اس کو برطرف کرنے کا طریقہ بھی جانتا ہو لیکن جہالت کے خاتمے اور احکام کو سیکھنے میں کوتاہی کرتا ہو
2۔ فتوی وہ (شرعی حکم) ہے جس کو مجتہد نے قطع اور یقین کے ساتھ بیان کیا ہو اور مکلف پر اس پر عمل کرنا ضروری ہو
3۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ مجتہد نے کسی مسئلے میں صریح فتوی نہ دیا ہو بلکہ احتیاط کے طور پر کسی فعل کو انجام دینےیا ترک کرنے کا حکم دیا ہو۔ اس مسئلے میں مکلف اپنے مرجع کے اسی احتیاط کے مطابق عمل کرسکتا ہے یا اس کے بعد والے اعلم کی طرف بھی رجوع کرسکتا ہے۔
4۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ مجتہد نے فتوی سے پہلے یا بعد میں احتیاط کا حکم دیا ہو[3] اور مکلف فتوی یا احتیاط مستحب کے مطابق عمل کرسکتا ہے اور اس مسئلے میں دوسرے مجتہد کے فتوی کے مطابق عمل نہیں کرسکتا ہے۔
تمرین
1۔ مجتہد کا فتوی حاصل کرنے طریقوں کو ذکر کریں
2۔ تقلید میں تبعیض کے کیا معنی ہیں اور اس کا کیا حکم ہے؟
3۔ کن صورتوں میں غیراعلم کی طرف عدول کرنا جائز ہے؟ وضاحت کریں۔
4۔ کس صورت میں عدول واجب ہے؟
5۔ جاہل کی کون کونسی اقسام ہیں؟
6۔ تقلید کی اقسام کی وضاحت کریں۔
- سبق 4: ولایت فقیہ اور رہبری
سبق 4: ولایت فقیہ اور رہبری
ولایت فقیہ اور رہبری۔ ولایت فقیہ کے معنی۔ ولایت فقیہ کی ضرورت۔ ولایت فقیہ کا دائرہ اختیار۔ مرجع تقلید اور ولی فقیہ کے درمیان نظریاتی اختلاف
1۔ ولایت فقیہ کا معنی
ولایت فقیہ یعنی عادل اور دین شناس فقیہ کی حکومت
توجہ
ہر دور اور زمانے میں اسلامی معاشرے کی قیادت اور ملت اسلامی کے اجتماعی امور کو کنٹرول کرنے میں ولایت فقیہ شیعہ اثناعشری مذہب کے ارکان میں شمار ہوتی ہے جس کا ریشہ امامت ہے۔ (اجوبہ الاستفتائات، ص61)
حضرت امام زمان علیہ السلام کی غیبت کے زمانے میں ولایت فقیہ پر عقیدہ نہ رکھنا اجتہاد کی بنیاد پر ہو یا تقلید کی بنیاد پر، ارتداد اور دین سے خارج ہونے کا باعث نہیں ہے۔ اور اگر کوئی استدلال اور دلیل کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچا ہو کہ اس پر عقیدہ رکھنا واجب نہیں تو معذور ہے لیکن اختلافات کی ترویج اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ بھیلانا اس کے لئے جائز نہیں ہے۔
2۔ ولایت فقیہ کی ضرورت
چونکہ اسلام آخری آسمانی دین ہے اور قیامت تک برقرار رہے گا اور یہ دین حکومت اور معاشرتی امور کو کنٹرول کرنے والا دین ہے لہذا اسلامی معاشرے کے تمام طبقے ولی امر اور رہبر و حاکم کے محتاج ہیں تاکہ امت کو اسلام و مسلمین کے دشمنوں سے بچایا جاسکے اور اسلامی معاشرے کے نظام کی پاسداری کرتے ہوئے اس میں عدالت برقرار کرنے کے ساتھ ساتھ طاقتور کو کمزور پر ظلم و زیادتی کرنے سے روکا جاسکے اور اجتماعی، سیاسی اور ثقافتی پیشرفت و ترقی کے وسائل کو مہیا کیا جاسکے۔
توجہولایت فقیہ ایک شرعی اور تعبدی حکم ہے جس کی عقل بھی تائید کرتی ہے۔
3۔ ولایت فقیہ کا دائرہ اختیار
1۔ ولی فقیہ کے ولائی احکام
تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ ولی فقیہ کے ولائی احکام اور حکومتی دستورات کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے امر و نہی کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ اس حکم میں فقہاء عظام بھی شامل ہیں چہ جائیکہ ان کے مقلدین۔
2۔ ولی فقیہ کے انتظامی احکام
ولی امر مسلمین کی طرف سے صادر ہونے والے انتظامی احکام اور تعیینات یا معزول کرنا اگر ایسے احکام ہنگامی اور وقتی طور پر صادر نہ ہوئے ہیں تو برقرار و نافذ ہوں گے مگر یہ کہ جدید ولی امر اس کو ختم کرنے میں مصلحت سمجھے اور ختم کردے۔
3۔ حدود کا اجراء
حدود (مثلا زنا اور چوری کے حد) کا اجراء غیبت کے دور میں بھی واجب ہے اور اس کی ولایت فقیہ امر مسلمین کے ساتھ مخصوص ہے۔
4۔ ولی فقیہ کے اختیارات کا امت کے دیگر افراد پر مقدم ہونا
اسلام اور مسلمانوں کے عمومی مصالح سے متعلق ولی فقیہ کے فیصلے اور اختیارات اگر عوام کے اختیار اور ارادے سے متصادم ہوں تو لوگوں کے اختیارات اور فیصلوں پر ولی فقیہ کے اختیارات اور فیصلے مقدم اور حاکم ہیں۔
5۔ گروہی سرگرمیوں کا کنٹرول
گروہی شکل میں ہونے والی سرگرمیاں اور فعالیتیں ولی امر مسلمین کے حکم کے تحت اور اس کی نگرانی میں ہونی چاہئے اور اسلام و مسلمین کی خدمت اور تعلیمات الہی کے نشر و اشاعت کے لئے ہونا چاہئے اسی طرح اسلامی معاشرے کی فکری ترقی اور مشکلات کے حل، مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اخوت اور بھائی چارگی پھیلانے جیسے کاموں میں استعمال ہونا چاہئے۔
4۔ ولی فقیہ اور دوسرے مرجع تقلید کے درمیان نظریاتی اختلاف
جن موارد میں ولی فقیہ اور مرجع تقلید کے درمیان اختلاف ہے اگر یہ اختلاف مملکت کے انتظامی امور اور مسلمانوں کے عمومی مسائل سے مربوط ہو مثلا کفار و مستکبرین کے خلاف جنگ اور اسلام و مسلمین کا دفاع تو ولی امر مسلمین کے حکم کی اطاعت کرنا ضروری ہے اور اگر خالص ذاتی مسائل ہوں تو ہر مکلف کو اپنے مرجع تقلید کے فتوی پرعمل کرنا چاہئے۔
تمرین
1۔ ولایت فقیہ کے کیا معنی ہیں اور کیوں ضروری ہے؟
2۔ ولی فقیہ کے انتظامی احکام کی نسبت مسلمانوں کا شرعی وظیفہ کیا ہے؟ بیان کریں۔
3۔ متوفی رہبر کی جانب سے صادر ہونے والے انتظامی احکام زندہ رہبر کی اجازت کے بغیر جاری و نافذ ہوں گے؟
4۔ کیا غیبت کے زمانے میں مجتہد جامع الشرائط کو حدود جاری کرنے پر ولایت حاصل ہے؟
5۔ جن موارد میں ولی فقیہ اور مرجع تقلید کے درمیان اختلاف ہو، مکلف کا کیا وظیفہ ہے؟
-
- دوسری فصل: طہارت
- تیسری فصل: نماز
- چوتھی فصل: روزه
- پانچویں فصل: خمس
- چھٹی فصل: انفال
- ساتھویں فصل: جہاد
- آٹھویں فصل: امر بالمعروف اور نہی از منکر
-