ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی
دریافت:

احکام آموزشی

  • پہلا جلد
    • پہلی فصل: تقلید
    • دوسری فصل: طہارت
    • تیسری فصل: نماز
    • چوتھی فصل: روزه
    • پانچویں فصل: خمس
      • سبق 66: خمس
      • سبق 67: آمدنی کا خمس(1)
      • سبق 68: آمدنی کا خمس (2)
      • سبق 69: آمدنی کا خمس(3)
      • سبق 70: درآمد کا خمس (4)
      • سبق 71: آمدنی کا خمس(5)
      • سبق 72: آمدنی کا خمس (6)
      • سبق 73: معدن کا خمس۔ خزانہ ...
        پرنٹ  ;  PDF
         
        سبق 73: معدن کا خمس۔ خزانہ۔ حلال مال جو حرام کے ساتھ مخلوط ہوجائے۔ خمس کا مصرف۔ خمس کے متفرق مسائل
        1۔ معدن کا خمس
        جو معدنیات کوئی ایک شخص یا چند افراد مل کر نکالتے ہیں ان میں اس شرط کےساتھ خمس واجب ہے کہ ایک شخص نے جو نکالا ہے یا مل کر نکالنے کی صورت میں ہر ایک کا حصہ ان کے نکالنے اور صاف کرنے کے اخراجات کو منہاکرنے کے بعد 15 مثقال[1] سونے کے برابر ہو اور اگر اس کی قیمت اس مقدار سے کم ہوتو خمس نہیں ہے۔

        توجہ
        معدنیات میں خمس کے واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ اسے کوئی شخص یا چند اشخاص باہمی مشارکت کے ساتھ نکالیں اس شرط کے ساتھ کہ ہر ایک کا حصہ نصاب کی حد تک پہنچ جائے اور جو کچھ نکالا گیا ہے وہ ان کی ملکیت ہو جائے اور معدن میں خمس اس وقت واجب ہے جب نکالنے والا اس کا مالک بن جائے پس جو معدنیات حکومت نکالتی ہے چونکہ وہ کسی خاص شخص یا اشخاص کی ملکیت نہیں ہیں بلکہ جہت کی ملکیت ہیں اس لئے ان میں خمس کے وجوب کی شرط موجود نہیں ہے بنابراین حکومت اور ریاست پر خمس کے وجوب کا کوئی معنی نہیں ہے۔
         
        2۔ خزانہ
        جن لوگوں کو اپنی ذاتی زمین میں خزانہ مل جاتا ہے اس کے بارےمیں معیار جمہوری اسلامی ایران کے قوانین ہیں لہذا اگر کسی کو اپنی ذاتی عمارت کی زمین کے نیچے سے چاندی کے ایسے سکے مل جائیں کہ جن کی تاریخ تقریباً سو سال پرانی ہو تو ان کے سلسلے میں جمہوری اسلامی ایران کے قوانین کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
         
        3۔ حرام سے مخلوط ہونے والا حلال مال
        1۔اگر حلال مال حرام کے ساتھ مخلوط ہوجائے مثلا ایک بوری گندم میں سے کچھ مقدار کسی دوسرے شخص کی ہو چنانچہ اس شخص اور اس مقدار کو نہ جانتا ہو تو پورے مال کا خمس دینا چاہئے اور باقی مال اس کے لئے حلال ہوتا ہے۔
        2۔ اگر دوسرے شخص کے مال کی دقیق مقدار معلوم نہ ہو لیکن اجمالی طور پر جانتا ہو کہ پانچویں حصے سے زیادہ مقدار ہے تو احتیاط کی بناپر پانچویں حصے سے جتنی مقدار زیادہ ہونے کا یقین ہے اس کے ساتھ خمس حاکم شرع کودے تاکہ ان موارد میں خرچ کیا جائے جو خمس اور صدقہ دونوں شمار ہوتے ہیں۔
         
        توجہ
        جو شخص ایسے خاندان کے ساتھ رہتا ہے کہ جو خمس اور زکات نہیں دیتا یا ان کے اموال سود کے ساتھ مخلوط ہیں تو جب تک اسے ان اموال کے حرام ہونے کا یقین نہ ہوجائے ان سے استفادہ کرسکتا ہے (درست ہے کہ اگرچہ اسے ان کے اہل خمس و زکات نہ ہونے کا یقین ہے اور یہ کہ ان کے اموال سود کے ساتھ مخلوط ہیں لیکن اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ اسے ان اموال کی حرمت کا بھی یقین ہوجائے کہ جو وہ استعمال کرتا ہے) البتہ اگر ان اموال کی حرمت کا یقین ہو جائے کہ جنہیں یہ استعمال کر رہا ہے تو اس کیلئے ان سے استفادہ کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس خاندان سے جدا ہونا اور ان سے رابطہ منقطع کرنا اس کیلئے حرج کا باعث ہو تو اس صورت میں ان کے حرام کے ساتھ مخلوط اموال کو استعمال کرنے میں اشکال نہیں ہے البتہ اس کے زیراستعمال دوسروں کے مال کا وہ ضامن ہے ۔
         
        غوطہ خوری سے ملنے والے جواہرات
        1۔ اگر انسان سمندر میں ڈبکی لگائے اور موتی اور مرجان وغیرہ نکالے جو پانی میں جاکر نکالتے ہیں چنانچہ نکالنے کے اخراجات کو منہا کرنے کے بعد سونے کے 18 چنے یا اس سے زیادہ قیمت ہوتو اس کا خمس ادا کرنا چاہئے۔
        2۔ گذشتہ مسئلے میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سمندر سے نکالنے والے جواہرات ایک قسم کے ہوں یا مختلف اقسام کے ، ایک دفعہ نکالے یا زیادہ فاصلے کے بغیر کئی دفعہ اور احتیاط واجب کی بناپر بڑے دریا مثلا نیل اور فرات وغیرہ بھی سمندر کے حکم میں ہیں۔
        3۔ اگر پانی میں غوطہ لگائے بغیر کسی آلے کے ذریعے پانی کے اندر سے جواہرات نکالے تو چنانچہ اخراجات کو کم کرنے کے بعد سونے کے 18 سکوں کے برابر ہو تو احتیاط واجب کی بناپر اس کا خمس ادا کرنا چاہئے۔
        4۔ اگر جواہرات خود ہی پانی سے باہر آجائیں اور کوئی شخص اس کو پانی کے اوپر سے یا سمندر کے کنارے سے اٹھائے تو خمس نہیں ہے لیکن اگر یہ کام اس کا پیشہ ہوتو پیشے کی آمدنی شمار ہوگا جس کا حکم آئے گا۔
         
        خمس کا مصرف
        1۔ جس شخص پر خمس ادا کرنا واجب ہو ضروری ہے کہ اس کو ولی امر مسلمین کے حوالے کرے اور اس مسئلے میں سہم امام اور سہم سادات میں کوئی فرق نہیں ہے۔
        2۔ مراجع تقلید کے مقلدین اگر خمس ادا کرنے میں اپنے مرجع تقلید کے فتوی کے مطابق عمل کریں تو بری الذمہ ہوتے ہیں۔
        3۔ اس شخص کو خمس دینا جائز ہے جو خمس جمع کرنے میں ولی امر مسلمین کا وکیل ہے لیکن اگر اس کی وکالت ثابت نہ ہوجائے تو اس کو خمس دینا جائز نہیں ہے اور دینے کی صورت بری الذمہ ہونے پر اطمینان کا باعث نہیں ہے۔
        4۔ خمس (سہم امام ہو یا سہم سادات) کو ہر کام میں مصرف کرنا خمس کے ولی امر مسلمین یا اس کے وکیل کی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔
         
        توجہ
        حتمی طور پر واجب ہونے والا خمس معاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔
        اگر کسی کو اس شخص کی اجازت میں شک ہو جو (ولی امر کی طرف سے خمس میں) اجازت رکھنے کا دعوی کرتا ہے تو احترام کے ساتھ مکتوب اجازت نامہ دکھانے کی درخواست کرسکتا ہےیا رسید طلب کرسکتا ہے جس پر خمس کے ولی امر کا مہر لگا ہو پس چنانچہ وہ خمس کے ولی امر کی طرف سے اجازت کے مطابق عمل کرے تو اس کا عمل تائید کے قابل ہے۔
         
        2۔ ان لوگوں کی شرائط جن کو سہم سادات دیا جاسکتا ہے۔
        ان لوگوں کی شرائط جن کو خمس کے ولی امر یا اس کے مجاز وکیل کی اجازت سے سہم سادات دیا جاسکتا ہے
        1۔ سید ہو
        2۔ شیعہ اثنا عشری ہو
        3۔ فقیر ہو
        4۔ واجب نفقہ نہ ہو
        5۔ گناہ میں خرچ نہ کرے
         
        1۔ سید ہو
        وہ سید سہم سادات استعمال کرسکتا ہے جو باپ کی طرف سے پیغمبراکرمﷺ کے جد جناب ہاشم سے منسوب ہو بنابراین تمام علوی، عقیلی اور عباسی سادات جو ہاشمی ہیں، سادات ہاشمی سے مخصوص مراعات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
         
        2۔ جو شخص باپ کی طرف سے حضرت عباس بن علی بن ابی طالبؑ سے منسوب ہو، علوی سید ہے۔
        3۔ اگرچہ ماں کی طرف سے پیغمبراکرمﷺ سے منسوب افراد بھی آنحضرتﷺ کی اولاد شمار ہوتے ہیں لیکن سید ہونے کے شرعی احکام اور آثار مرتب ہونے کا معیار باپ کی طرف سے منسوب ہونا ہے۔
        4۔ اگر کوئی کہے کہ میں سید ہوں تو اس سےخمس نہیں دیا جاسکتا ہے مگر یہ کہ دو عادل افراد اس کے سید ہونے کی تصدیق کریں یا کسی طریقے سے انسان کو سید ہونے کا یقین یا اطمینان ہوجائے۔
         
        3۔ فقر
        1۔ جو سادات پیشہ اور ملازمت رکھتے ہیں اگر ان کی آمدنی ان کی شان کے مطابق اور مناسب زندگی کے لئے کافی ہوتو فقیر شمار نہیں ہوتے ہیں اور خمس لینے کا حق نہیں ہے۔
        2۔ سادات کے خاندان کا باپ اگر ان کا نفقہ ادا کرنے میں کوتاہی کرے چنانچہ باپ سے اپنا نفقہ نہیں لے سکتے ہیں تو نفقہ کی مقدار کو سہم سادات میں سے ان کو دے سکتے ہیں۔
        3۔ ضرورت مند سادات اگر خوراک اور لباس کے علاوہ ان کی شان کی مناسب دوسری چیز کے بھی محتاج ہوں تو ضرورت کی مقدار کے مطابق سہم سادات میں سے ان کو دینا جائز ہے۔
        4۔ سیدہ عورت کا شوہر تنگدستی کی وجہ سے اس کا نفقہ نہیں دے سکتا ہو اور وہ بھی شرعا فقیر ہوتو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے سہم سادات لے سکتی ہے اور اس کو خود اور بچوں اور اپنے شوہر (اگرچہ سید نہیں ہے) پر خرچ کرسکتی ہے۔
         
        4۔ واجب نفقہ نہ ہو
        جو شخص کسی کا واجب النفقہ ہو، خمس نہیں دیا جاسکتا ہے مثلا انسان اپنے فقیر ماں باپ کو جن کی وہ مدد کرسکتا ہو، خمس نہیں دے سکتا ہے۔
         
        5۔ گناہ میں خرچ نہ کرے
        غیر عادل سید کو خمس دے سکتے ہیں لیکن وہ سید جو خمس کو گناہ میں خرچ کرتا ہے، اس کو خمس نہیں دے سکتے ہیں بلکہ اگر خمس دینا گناہ میں مدد کرنے شمار ہوجائے تو اس کو خمس نہیں دینا چاہئے اگرچہ گناہ میں خرچ نہ کرے۔
         
        خمس کے متفرق مسائل
        1۔ اس شخص کے یہاں کھانا کھانا جائز ہے جو اہل خمس نہیں ہے اور خمس کی ادائیگی اس کے مالک کے ذمے ہے۔
        2۔ اگر خاندان کا سربراہ اپنے اموال کا خمس ادا نہ کرے تو اگرچہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے لیکن ان اموال میں خاندان کے افراد کا تصرف کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
        3۔ جس شخص کے اموال میں خمس واجب ہوا ہو لیکن خمس ادا نہیں کرتا ہو چنانچہ کوئی معاملہ انجام دے تو وہ معاملہ صحیح ہے اور جس چیز کا معاملہ ہوا ہے وہ دوسرے فرد کو مل جاتی ہے البتہ وہ شخص (خمس کا) مقروض ہے اور خمس کو ادا کرنا چاہئے۔
        4۔ ایسے مسلمانوں کے ساتھ میل جول رکھنا جو دینی امور اور خاص طور پر نماز اور خمس کے پابند نہیں ہیں اگر ان کے دینی امور کی پابندی نہ کرنے میں ان کی تائید نہ ہو تو اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ ان کے ساتھ معاشرت کا ترک کرنا ان کے دینی امور کو اہمیت دینے میں مؤثرہو ۔
        5۔ جس شخص نے حج پر جانے کیلئے کچھ رقم وزارت حج کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی ہے لیکن خانہ خدا کی زیارت کا شرف حاصل کرنے سے پہلے دنیا سے چلا جائے تو اس کا ٹوکن موجودہ قیمت کے ساتھ اس کی وراثت شمار ہوگا اور اگر اس کے ذمے حج نہ ہو اور اس نے حج کی وصیت بھی نہ کی ہو تو اسے اس کے نیابتی حج میں خرچ کرنا واجب نہیں ہے اور اس ٹوکن کے مقابلے میں جو رقم ادا کی گئی ہے اگر وہ ایسی رقم ہو کہ جس میں خمس واجب تھا توا س کا اور ٹوکن کی قیمت میں پیدا ہونے والے اختلاف کی مقدار کا خمس ادا کرنا واجب ہے ۔
         
        تمرین
        1۔ معدنیات کے نصاب کی مقدار کیا ہے؟
        2۔ جو شخص ایسے خاندان میں رہتا ہے کہ جو خمس اور زکات نہیں دیتا اور ان کے اموال سود کے ساتھ مخلوط ہیں اس کی ذمہ داری کیا ہے؟
        3۔ سہم امام (ع) اور سہم سادات میں امام (ع) اور سادات سے کیا مراد ہے؟
        4۔ بعض لوگ خود ہی سادات کے پانی اور بجلی کے بل ادا کر دیتے ہیں کیا اسے خمس کے طور پر شمار کرنا جائز ہے؟
        5۔ جو سادات اپنا شغل اور کمائی رکھتے ہیں کیا وہ خمس کے مستحق ہیں؟
        6۔ کیا اس فقیر علوی سید زادی کو سہم سادات دیا جاسکتا ہے کہ جو شادی شدہ ہے اور اس کے بچے ہیں لیکن اس کا شوہر غیر علوی اور فقیر ہے؟ اور کیا وہ اسے اپنے بچوں اور شوہر پر خرچ کرسکتی ہے؟
         

        [1] ۱۲/۶۹گرام سونے کے برابر
    • چھٹی فصل: انفال
    • ساتھویں فصل: جہاد
    • آٹھویں فصل: امر بالمعروف اور نہی از منکر
700 /