سبق 66: خمس خمس کے معنی۔ خمس کا واجب ہونا۔ خمس کے سات منابع۔ خمس ادا نہ کرنے کے بعض برے اثرات
1۔ خمس کے معنی
خمس لغت میں پانچویں حصے کوکہتے ہیں۔ اصطلاح میں خمس دین اسلام کے اہم مالی واجبات میں سے ہے اور وہ مال ہے جو ہر فرد جس میں شرائط موجود ہوں، مخصوص ضوابط کے مطابق پانچواں حصہ ادا کرتا ہے۔
توجہ
اسلامی جمہوری حکومت نے قوانین کے مطابق ٹیکس کا جو نظام بنایا ہے اگرچہ اس کو ادا کرنا اس قانون کے اندر شامل ہونے والوں پر واجب ہے اور ہر سال کی ادائیگی اسی سال کی محصول شمار ہوتی ہے لیکن خمس (مال امام و مال سادات ) شمار نہیں ہوتا ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ اپنے سال کے اخراجات سے زائد درآمد پر مستقل خمس ادا کریں۔
2۔ خمس واجب ہونا
خمس کا وجوب اسلام کی ضروریات میں سے ہے۔
توجہ
خمس ادا کرنے کی توانائی نہ رکھنا یا دشوار ہونا باعث نہیں بنتا ہے کہ بری الذمہ ہوجائے بنابراین جن افراد پر خمس واجب ہوا ہو اور ابھی تک ادا نہیں کیا ہو اور اس کی توانائی نہ رکھتے ہوں یا دشوار ہوتو واجب ہے کہ جب بھی خمس ادا کرنے کی توانائی حاصل ہوجائے خمس ادا کریں۔ یہ افراد اپنے ذمے واجب الادا رقم کے بارے میں خمس کے ولی امر یا اس کے وکیل کے ساتھ معاملہ کرکے اور اپنی استطاعت کے مطابق مخصوص مقدار اور وقت میں تدریجا ادا کرسکتے ہیں۔
خمس کو اس کے سال سے دوسرے میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی سال کے آغاز میں خمس ادا نہ کرے اور خمس کا سال گزرنے کے بعد خود پر خرچ کرے یا سرمائے میں تبدیل کرے تو خمس اس کے ذمے باقی رہے گا اور پیسے کی قیمت گرنے کے لحاظ سے اس کو ادا کرنا چاہئے اور پیسے کی قیمت گرجائے تو گراوٹ کی مقدار کو ادا کرنا چاہئے اور اگر اس کی مقدار معلوم نہ ہوتو حاکم شرع کے ساتھ صلح کرنا چاہئے۔
اگر غیر بالغ شخص کے مال پر خمس لگے (مثلا معدن ہو یا حلال مال حرام سے مخلوط ہوجائے) تو اس کے شرعی ولی پر اس کو ادا کرنا واجب ہے مگر اس کے اموال میں تجارت سے حاصل ہونے والا فائدہ یا کسب سے ہونے والی منفعت جس کو ادا کرنا ولی پر واجب نہیں ہے بلکہ احتیاط (واجب) کی بناپر ملنے والا فائدہ باقی رہے تو بالغ ہونے کے بعد بچے پر اس کا خمس ادا کرنا واجب ہے۔
فقط حقیقی شخصیات (فرد یا افراد) پر خمس واجب ہے اور حقوقی اشخاص مثلا حکومتیں، ادارے اور بینک وغیرہ پر واجب نہیں ہے بنابراین اگر کوئی ادارہ فائدہ حاصل کرے تو لازم نہیں ہے کہ سال کے اخراجات نکالنے کے بعد منافع کا خمس نکالے البتہ ان حقوقی اشخاص کے اموال حقیقی اشخاص کی ملکیت میں ہوں تو اس منفعت کا خمس ادا کرنا چاہئے۔
3۔ سات چیزوں پر خمس واجب ہے
1۔ درآمد (تجارت اور کسب کی منفعت)
2۔ معدن
3۔ گنج
4۔ حرام سے مخلوط ہونے والا حلال مال
5۔ سمندر میں غوطہ لگاکر حاصل ہونے والے جواہرات
6۔ جنگی غنیمت
7۔ وہ زمین جو کافر ذمی مسلمان سے خریدتا ہے
4۔ خمس ادا نہ کرنے کے بعض برے اثرات
1۔ کسی عذر کے بغیر خمس ادا نہ کرنا حرام ہے۔
2۔ اگر میت وصیت کرے کہ اس کے مال میں سے کچھ مقدار خمس کی حیثیت سے ادا کیا جائے یا ورثاء جانتے ہوں کہ میت خمس کی مقروض ہے تو جب تک میت کی وصیت پر عمل نہ کریں یا اس کے ذمے خمس کو اس کے ترکے سے ادا نہ کریں اس میں تصرف نہیں کرسکتے ہیں مگریہ کہ خمس ادا کرنے اور کسی سستی کے بغیر اس کی وصیت پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں۔
تمرین
1۔ اسلامی جمہوری حکومت کو قوانین اور ضوابط کے مطابق ٹیکس ادا کرنا خمس کے بدلے کافی ہے یانہیں؟
2۔ بعض لوگوں پر خمس واجب ہونے کے بعد ادا نہیں کرتے ہیں اور موجودہ وقت میں بھی اس کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں یا دشوار ہے تو اس حوالے سے ان کا کیا حکم ہے؟
3۔ خمس کے منابع کو بیان کریں۔
4۔ اگر کوئی شخص کئی سال تک اپنی سالانہ درآمد کو حساب نہ کرے تاکہ اس کے اموال اور سرمائے میں اضافہ ہوجائے اور اس کے بعد گذشتہ سرمائے کے علاوہ کا خمس ادا کرے تو اس میں کوئی اشکال ہے یا نہیں؟
سبق 67: آمدنی کا خمس(1) آمدنی کے معنی۔ آمدنی کی اقسام۔ درآمد صدق نہ کرنے کے بعض نمونے
توجہ
شرائط کے حامل ہر شخص پر واجب ہے کہ اخراجات نکالنے کے بعد اپنی آمدنی کا خمس ادا کرے۔
1۔ آمدنی کے معنی
اس موقع پر آمدنی سے مراد وہ مال اور دولت ہے جو اقتصادی فعالیتوں کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اور کمائی کا عنوان اس میں دخالت رکھتا ہے۔
2۔ درآمد کی اقسام
1۔ کھیتی باڑی سے حاصل ہونے والی درآمد
2۔ تاجر کو تجارت اور کاروبار کے ذریعے حاصل ہونے والی درآمد
3۔ اپنی ملکیت کی کوئی چیز کرائے پر دینے سے حاصل ہونے والی آمدنی مثلا گھر، گاڑی اور دھات کی مشین اور جوراب بنانے والی مشین سے حاصل ہونے والی آمدنی
4۔ اپنی ذات کو خدمات کے لئے پیش کرنے کی وجہ سے حاصل ہونے والی آمدنی مثلا استاد کو تدریس اور انجینیر کو اپنی مہارت اور خدمات کے عوض ملنے والی تنخواہ اسی طرح ہر شخص کو اپنی انسانی توانائی کو دوسرے کے اختیار میں دینے کے عوض ملنے والی مزدوری اور تنخواہ ۔
3۔ وہ موارد جن پر آمدنی کا عنوان نہیں لگتا ہے
1۔ میراث
1۔ وراثت اور اس کو بیچنے کی قیمت میں خمس نہیں ہے اگرچہ اس کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہو البتہ اگر اسے سرمایہ کی نیت سے (فروخت کے لئے ) رکھے تو اس صورت میں احتیاط واجب کی بناپر فروخت کرنے کے بعد اضافی مقدار کو افراط زر کی مقدار کو نکالنے کے بعد سالانہ آمدنی میں شمار کیا جائے گا اور چنانچہ خمس کے سال کے آخر تک باقی رہے تو اس کا خمس دینا چاہئے۔
2۔ چھوٹے بچوں کو ملنے والی وراثت میں خمس نہیں ہے لیکن وراثت سے حاصل ہونے والی منفعت کی جو مقدار ان کے شرعی اعتبار سے بالغ ہونے تک ان کی ملکیت میں باقی رہے بنابر احتیاط ان میں سے ہر ایک پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد اس کا خمس ادا کرے۔
2۔ عورت کامہر
مہر پر خمس واجب نہیں ہے اور خمس کے واجب نہ ہونے میں فرق نہیں ہے کہ مہر مدت دار ہو یا فوری اور یا رقم کی صورت میں ہو یا سامان کی صورت میں۔
3۔ ہبہ اور تحفہ
1۔ انسان کو جو مال یا ملکیت ہدیہ کی صورت میں حاصل ہوجائے اس میں خمس واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر سال کے اخراجات سے بچ جائیں تو ان کا خمس ادا کیا جائے۔
2۔ ہبہ او رہدیہ کا عنوان دینے والے کے قصد اور ارادے کے تابع ہے لہذا انسان کو اس کے باپ، بھائی یا کسی اور رشتہ دار کی طرف سے جو اخراجات ملتےہیں وہ اس صورت میں ہدیہ اور ہبہ شمار ہوں گے جب دینے والا ان کا ارادہ کرے۔
3۔ زندگی کے وہ وسائل جو انسان کو اس کے ماں باپ یا دوسرے لوگوں کی طرف سے بطور ہدیہ ملتے ہیں ، ان میں خمس نہیں ہے اگرچہ اس کو ان وسائل کی ضرورت نہ ہو یا اس کی عرفی حیثیت کے مطابق نہ ہوں البتہ اگر ایسی چیزیں ہدیہ کے طور پر دینا ماں باپ کی حیثیت سے بڑھ کر ہو تو یہ ان کی مؤونہ شمار نہیں ہوگی اور اس کا خمس دینا ضروری ہے۔
4۔ باپ اگر اپنی بیٹی کو اس کی شادی کے جہیز کے عنوان سے گھر دے چنانچہ بیٹی کو گھر ہبہ کرنا عرف میں باپ کی حیثیت کےمطابق ہو اور خمس والے سال کے دوران میں دے تو اس کا خمس واجب نہیں ہے۔
5۔ شہید فاؤنڈیشن کی جانب سے شہدا کے خانوادوں کو جو چیز ہدیہ دی جاتی ہے اس میں خمس نہیں ہے لیکن اس سے ملنے ہونے والا منافع اگر سالانہ اخراجات سے بچ جائے تو اس پر خمس واجب ہے اسی طرح شہید فاؤنڈیشن کی طرف سے شہدا کے بچوں کو جو کچھ بطور ہدیہ دیا جاتا ہے اس میں بھی خمس نہیں ہے لیکن اس سے حاصل ہونے والے منافع کی مقدار ان کے شرعی بلوغ کو پہنچنے تک ان کی ملکیت میں باقی رہے تو بنابر احتیاط ان میں سے ہر ایک پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد اس کا خمس ادا کرے۔
6۔ صرف ظاہری طور پر دیئے گئے ہدیے میں خمس ہے اس بنا پر خمس کی تاریخ آنے سے پہلے میاں بیوی جو اپنی سالانہ بچت ایک دوسرے کو ہدیہ دیتے ہیں تاکہ ان کے اموال پر خمس نہ لگے تو جو کچھ انہوں نے ایک دوسرے کو دیا ہے اس کا خمس ادا کرنا ضروری ہے ( اس کام کی وجہ سے ان سے واجب خمس ساقط نہیں ہوگا)
7۔ ہدیہ اور ہبہ کو بیچنے سے جو قیمت وصول ہوتی ہے اس میں خمس نہیں ہے اگرچہ اس کی قیمت میں اضافہ ہوا ہو البتہ اگر اسے سرمایہ کی نیت سے (فروخت کے لئے ) رکھے تو اس صورت میں احتیاط واجب کی بناپر فروخت کرنے کے بعد اضافی مقدار کو افراط زر کی مقدار کو نکالنے کے بعد سالانہ آمدنی میں شمار کیا جائے گا اور چنانچہ خمس کے سال کے آخر تک باقی رہے تو اس کا خمس دینا چاہئے۔
8۔ ملازمین کی عیدی (وہ رقم اور اجناس کہ جو حکومت عید کے دنوں میں اپنے ملازمین کو عیدی کے طور پر دیتی ہے) میں خمس نہیں ہے اگرچہ سال کے آخر تک باقی رہے۔
9۔ اگر اجناس کو کم قیمت پر ملازمین کو دیا جائے اور جتنی قیمت کا فرق آیا ہے وہ حکومت اداکرے چنانچہ ان اجناس کی کچھ مقدار خمس کے سال کے آخر تک خرچ نہ ہوجائے تو اس صورت میں باقی ماندہ اشیاء حکومت کی طرف سے ملنے والی سبسڈی کے برابر ہو تو خمس نہیں ہے لیکن اگر حکومت کے ہبے سے زیادہ ہوتو اضافی مقدار میں موجودہ قیمت کے مطابق خمس ہوگا۔
4۔ انعام
وہ انعامات کہ جو بینکوں اور قرض الحسنہ کے اداروں وغیرہ کی طرف سے انسان کو دیئے جاتے ہیں ان میں خمس نہیں ہے۔
5۔ وقف
موقوفہ اشیاء اور مکان میں خمس نہیں ہے خواہ وقف عام ہو خواہ وقف خاص[1] ۔ اسی طرح اس کے منفعت اور نماء[2] میں بھی خمس نہیں ہےا لبتہ وقف خاص کا نماء کسب سے حاصل ہوجائے تو خمس ہے۔
6۔ شرعی حقوق
شرعی حقوق (جیسے خمس اور زکات) کہ جو مراجع کرام کی طرف سے حوزات علمیہ میں علوم دینی کی تحصیل میں مشغول طلاب کو بطور ہدیہ دیئے جاتے ہیں ان میں خمس نہیں ہے۔
7۔ آمدنی کے اخراجات
انسان تجارتی اور غیر تجارتی کاموں سے نفع حاصل کرنے کیلئے اپنی سالانہ آمدنی سے جو کچھ خرچ کرتا ہے جیسے ذخیرہ کرنے، حمل و نقل، وزن کرنے اور دلالی وغیرہ کے اخراجات اسے اس سال کی آمدنی سے نکالا جائے گا اور اس میں خمس نہیں ہے۔
8۔ مخمس مال
جس مال کا خمس دیا ہو اس میں دوبارہ خمس واجب نہیں ہوتا لہذا اگر اسے اگلے سال میں خرچ نہ کیا جائے اور وہ باقی رہے تو اس میں دوبارہ خمس واجب نہیں ہوگا۔
9۔ انشورنس
1۔ بیمہ کرنے والےشخص کو جو پیسہ زندگی یا کسی عضو کی نقصان کی بابت ادا کیا جاتا ہے، سال کی آمدنی شمار ہوگا چنانچہ سال کے اخراجات سے زیادہ ہو تو اس کا خمس دینا چاہئے لیکن جو پیسہ وفات کے بعد میت کے پسماندگان کو دیا جاتا ہے چونکہ ان پر ایک طرح کا احسان شمار ہوتا ہے لہذا آمدنی شمار نہیں ہوگا اور خمس نہیں ہے۔
2۔ علاج وغیرہ کی بابت جو پیسے دئے جاتے ہیں اور بعد میں انشورنس کمپنی اس کو واپس ادا کرتی ہے، جدید آمدنی نہیں بلکہ ریفنڈ شمار ہوگا کہ اگر خمس کے سال تک زندگی کے اخراجات میں خرچ نہ کیا جائے خمس تعلق پیدا کرے گا لیکن خمس کا سال گزرنے کے بعد ریفنڈ کیا جائے تو فورا اس کا خمس ادا کرنا چاہئے۔
3۔ انشورنس کمپنیاں بیمہ کرنے والے کو نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے جو پیسے ادا کرتی ہیں مثلا گاڑی کی باڈی، آتش سوزی اور زرعی محصولات آمدنی کا حصہ ہے اور چنانچہ خمس کے سال تک زندگی کے مخارج میں خرچ نہ ہوجائے تو اس کا خمس ادا کرنا واجب ہے۔
4۔ملازم (مذکورہ رقم کو حاصل کرنے والےشخص کے علاوہ) اور مالک اور انشورنس کے ادارے کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق بیروزگاری وغیرہ کے بیمہ کی بابت جو پیسہ ادا کیا جاتا ہے، دریافت کرنے والے کے لئے ہدیہ ہے اور خمس نہیں ہے لیکن اگر یہ کام پیسہ حاصل کرنے والے شخص اور انشورنس کمپنی کے درمیان معاہدے کی بنیاد پر ہو یا مالک کی جانب سے پیسے حاصل کرنے والے اور اس کے درمیان ہونے والی شرط کی بنیاد پر ادائیگی ہوجائے تو خمس تعلق رکھے گا۔
5۔ ڈرائیونگ کے دوران پیش آنے والے حادثات کی بابت نقصان ہونے والے کو نقصان پہنچانے والے فردیا انشورنس کمپنی کی طرف سے جو پیسہ ادا کیا جاتا ہے، آمدنی نہیں لذا خمس واجب نہیں ہے۔
10۔ حصول علم کے لئے ملنے والی امداد
تعلیمی اخراجات کے سلسلے میں وزارت تعلیم کی طرف سے طالب علموں کو جو امداد دی جاتی ہے اس میں خمس نہیں ہے ،ہاں جو طالب علم اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کر تے ہیں اور طالب علمی کے زمانے سے ہی تنخواہ لیتے ہیں ان کی تنخواہ میں خمس ہوگا۔
11۔ قرض
جو مال قرض لیا جاتا ہے اس میں خمس نہیں ہے سوائے اس مقدار کے کہ جس کی قسطیں خمس کی تاریخ آنے تک اس نے اپنی کمائی کے منافع سے ادا کی ہیں اور وہ مال موجود ہو یا سرمایے میں بدل گیا ہوبنابراین اگر انسان کچھ رقم بطور قرض لے اور اسے اس سال سے پہلے تک ادا نہ کرسکے تو اس کا خمس دینا ضروری نہیں ہے لیکن اگر اس سال کی آمدنی سے اس کی قسطیں ادا کرے اور خمس کی تاریخ آنے پر خود وہ (عین) مال جو اس نے بطور قرض لیا ہے اس کے پاس موجود ہو تو اداکردہ اقساط کے مطابق اس کا خمس ادا کرنا واجب ہے۔
تمرین
1۔ آمدنی کے خمس میں آمدنی سے کیا مراد ہے؟
2۔ میراث کے خمس کا حکم بیان کریں۔
3۔ ہبہ اور عیدی میں خمس ہے یا نہیں؟
4۔ میاں بیوی خمس سے بچنے کے لئے خمس کا سال آنے سے پہلے سال کے منافع کو ایک دوسرے کو ہدیہ دیں تو اس عمل کے نتیجے میں خمس ساقط ہوگا یا نہیں؟
5۔ بینکوں اور قرض الحسنہ کے اداروں کی جانب سے ملنے والے انعامات میں خمس ہے یا نہیں؟
6۔ انشورنس کمپنیاں بیمہ کرنے والوں کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لئے جو پیسے ادا کرتی ہیں، اس میں خمس ہے یا نہیں؟
[1] اگر کسی مکان یا چیز سے مخصوص افراد کو استفادہ کرنے کا حق ہو مثلا اپنی اولاد یا خاندان والوں کے لے مخصوص کرکے وقف کیا جائے تو اس کو وقف خاص اور اگر عمومی طور پر لوگوں کے لئے ہو تو اس کو وقف عام کہتے ہیں۔
[2] نماء کے رشد اور افزائش کی دو قسمیں ہیں؛ متصل نماء مثلا بھیڑ کا موٹا ہونا اور نماء منفصل مثلا بھیڑ کے بچے ہونا
سبق 68: آمدنی کا خمس (2) موونہ (اخراجات) کے معنی۔ موونہ(اخراجات) کی حدود۔ وہ موونہ(اخراجات) جو ضرورت سے خارج ہو۔ موونہ (اخراجات) کی فروخت سے ملنے والی رقم
توجہ
چنانچہ بیان کیا گیا کہ آمدنی کے خمس میں موونہ کو استثنا کیا جاتا ہے اور خمس نہیں ہے
4۔ مؤونہ(اخراجات) کے معنی
اس مرحلے میں مؤونہ سے مراد سال بھر کے اخراجات ہیں ( نہ آمدنی پر آنے والے اخراجات) جو کچھ انسان اپنی اور اپنے زیر کفالت خاندان کی زندگی کے امور کو چلانے کیلئے خرچ کرتا ہے ، مؤونہ کہلاتا ہےجیسے کھانے پینے، لباس، رہائش، گھریلو سامان، رفت و آمد کے ذرائع، کتابیں، معمول کے مطابق سفر، صدقہ خیرات، انعام، نذر و نیاز، کفارہ اور مہمان وغیرہ کے اخراجات ۔
5۔ مؤونہ (اخراجات) کی حدود
1۔ ضرورت
2۔ سال بھر کے اخراجات
3۔ ایک سال
4۔ حیثیت کے مطابق ہونا
5۔ بالفعل خرچ کر دینا
1۔ ضرورت
ہر قسم کے اخراجات کو مؤونہ نہیں کہا جاتا بلکہ اس میں صرف وہ اخراجات شامل ہیں کہ جو امور زندگی کو چلانے کیلئے ضروری ہیں لہذا جن اشیا اور سامان کی ضرورت نہیں ہے ان پر ہونے والے اخراجات کو مؤونہ شمار نہیں کیا جاسکتا اسی قسم سے ہے وہ رقم کہ جسے حرام وسائل کے خریدنے پر خرچ کیا جاتا ہے جیسے سونے کی مردانہ انگوٹھی ، آلات لہو و لعب اور جوئے وغیرہ کے آلات۔
2۔ سال بھر کے اخراجات
مؤونہ سےمراد انسان کے روزانہ یا ماہانہ اخراجات نہیں ہیں بلکہ سال بھر کے اخراجات ہیں لہذا اس آمدنی کے خمس کا حساب کیا جائے گا کہ جو انسان کی زندگی کی سال بھر کی ضروریات سے بچ جائے۔
3۔ ایک سال
مؤونہ وہ مخارج ہیں کہ جو سال کے دوران پچھلے یا آئندہ سال کے نہیں بلکہ اسی سال کی آمدنی سے نکال کر خرچ کئے جاتے ہیں بنابراین اگر ایک سال آمدنی حاصل نہ ہو تو اس سال کے اخراجات کو پچھلے یا آئندہ سال کی آمدنی سے نہیں نکال سکتا۔
4۔ حیثیت کے مطابق ہونا
مو ؤنہ سے مراد معمول کے وہ اخراجات ہیں جو انسان اپنی حیثیت کےمطابق کرتا ہے لہذا ایک طرف سے مؤونہ ضروری وسائل اور ابتدائی ضروریات میں محدود نہیں ہے تو دوسری طرف سے ان مخارج کو بھی شامل نہیں ہے کہ جو فضول خرچی، حیثیت سے بڑھ کر اور اسراف شمار کیا جاتا ہے جیسے شادی اور وفات کے مواقع پر اور دعوتوں وغیرہ میں ہونے والے پُر تکلف اخراجات اور بعض اقسام کے جہیز وغیرہ۔
5۔ بالفعل خرچ کر دینا
مؤونہ سے مراد وہ مخارج ہیں کہ جنہیں انسان کم و بیش خود پر اور اپنے خاندان میں زیرکفالت افرادپر خرچ کر دیتا ہے اور جو کچھ خرچ نہیں کیا اسے شامل نہیں ہے اگرچہ وہ اس طرح ہو کہ اگر اسے خرچ کر دیتا تو اس کی عرفی اور معاشرتی حیثیت سے زیادہ نہیں تھا لہذا اگر کوئی شخص کنجوسی کرتے ہوئے اپنے اور اپنے گھر والوں کی حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے تو جسے وہ خرچ کرسکتا تھا اور نہیں کیا اسے مؤونہ میں سےشمار کرنا جائز نہیں ہے ۔
توجہ
شوہر اپنی بیوی کیلئے جو سونا خریدتا ہے اگر اس (شوہر) کی حیثیت کے مطابق اور متعارف مقدارمیں ہو تو وہ مؤونہ میں شمار ہوگا اور اس میں خمس نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص سال کی آمدنی سے بچوں کے مستقبل کے لئے مثلا گھر مہیا کرنے کا اقدام کرے تو چنانچہ مخارج سے مہیا کیا جانے والا گھر اس کی عرفی حیثیت کے مطابق ہوتو خمس نہیں ہے۔
اگر انسان زیادہ قیمت کے ساتھ کوئی جائیداد خریدے اور پھر اسے ٹھیک کرنے اور اس کی تعمیر پر بڑی رقم خرچ کرے اور اس کے بعد اسے اپنے نابالغ بچے کو ہبہ کرکے باقاعدہ طور پر اس کے نام کر دے چنانچہ اس نے جو کچھ اس کی خریداری اور تعمیر نو پر خرچ کیا ہے اگر اس کے سال کی آمدنی میں سے ہو اور بچے کو ہبہ کرنا بھی اسی سال اور اس کی عرفی حیثیت کے مطابق ہو تو اس میں خمس نہیں ہے ورنہ اس کا خمس دینا واجب ہے۔
وہ پیسہ جو انسان خیراتی کاموں میں خرچ کرتا ہے جیسے مدارس اور سیلاب وغیرہ سے مثاتر ہونے والوں کی مدد کرنا وہ اس سال کے مخارج میں سے شمار ہوگا کہ جس سال اسے خرچ کیا ہے اور اس میں خمس نہیں ہے۔
6۔ وہ مؤونہ کہ جس کی ضرورت نہیں رہی
وہ مؤونہ کہ جس کی ضرورت نہیں رہی جیسے وہ گھر جسے انسان نے اپنی رہائش کیلئے بنایا یا خریدا تھا اور پھر سرکاری گھر مل جانےکی وجہ سے اس کی ضرورت نہ رہے
1۔ سال کی آمدنی سے یا اس آمدنی سے کہ جس میں خمس نہیں ہے یا اس کا خمس ادا کرچکا ہے سے تیار کیا ہو تو اس میں خمس نہیں ہے۔
2۔ اس آمدنی سے تیار کیا ہو کہ جس کے ساتھ خمس کا تعلق ہوچکا تھا اور ادا نہیں کیا گیا تو اسے تیار کرنے کیلئے جو پیسہ خرچ کیا ہے کرنسی کی قیمت میں آنے والی کمی کو حساب کرتے ہوئے اس کا خمس دینا واجب ہے۔
7۔ مؤونہ کی فروخت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم اور اس کی قیمت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے حاصل ہونے والا منافع
جو کچھ ہم نے مؤونہ کی عدم ضرورت کے بارے میں کہا ہے وہ مؤونہ کی قیمت کے بارے میں بھی جاری ہے لہذا گھر، گاڑی اور انسان کی اپنی اور اس کےگھر والوں کی ضرورت کے وسائل کہ جنہیں اس نے دوران سال کی آمدنی یا خمس ادا کردہ مال یا جس میں خمس نہیں تھا (مثلا وراثت اور ہبہ) سے خریدا ہو اور ضرورت کی خاطر یا بہتر چیز خریدنے کیلئے یا کسی اوروجہ سے انہیں فروخت کر دے تو ان کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم اوراس کی قیمت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ملنے والے منافع میں خمس نہیں ہے البتہ اگر ان وسائل کو اس آمدنی سے خریدا ہو جس میں خمس واجب تھا اور ادا نہیں کیا گیا تو ان کے خریدنے میں جو رقم خرچ کی ہے کرنسی کی قدر میں آنے والی گراوٹ کو حساب کرتے ہوئےاس کا خمس دینا واجب ہے اگرچہ ان وسائل کو فروخت نہ بھی کرے۔
توجہ
جو شخص اپنی گاڑی فروخت کر دے
اگر اس کی گاڑی مؤونہ کا جز ہو (یعنی اس کے اپنے استفادے اور ضروریات زندگی پوری کرنے کیلئے اور عرف میں اس کی حیثیت کے مطابق ہو) تو اس کی فروخت کی قیمت کا وہی حکم ہے جو مؤونہ کی فروخت کی رقم کا ہوتا ہے کہ جسے پہلے بیان کرچکے ہیں۔
اور اگر کام کے لئے ہو تو خمس کے پہلے سال کی ابتدا میں جو قیمت تھی اس میں خمس واجب ہے اور قیمت میں ہونے والا اضافہ ا فراط زر کی مقدار کو کسر کرنے کے بعد فروخت کرنے والے سال کی آمدنی میں شمار ہوگا۔
تمرین
1۔ مؤونہ سے کیا مراد ہے؟
2۔ مؤونہ کی حدود بیان کریں۔
3۔ شوہر بیوی کے لئے جو سونا خریدتا ہے اس میں خمس ہے یا نہیں؟
4۔ ضرورت سے خارج ہونے والے مؤونہ کا کیا حکم ہے؟
5۔ اگر کوئی شخص اپنا گھر بیچ کر اس کی قیمت کو منافع حاصل کرنے کیلئے بینک میں رکھ دے اور پھر اس کے خمس کی تاریخ آجائے تو اس کا حکم کیا ہے؟ اور اگر اس کی رقم کو گھر خریدنے کیلئے سنبھال کررکھے تو کیا حکم ہے؟
6۔ اگر گاڑی، موٹرسائیکل اور قالین جیسے گھریلو وسائل اور ضرورت کی چیزوں کو جن کا خمس نہیں دیا گیا ہو، بیچ دے تو کیا بیچنے کے بعد فوراً ان کا خمس ادا کرنا واجب ہے؟
سبق 69: آمدنی کا خمس(3) چند نمونے جن کو مؤونہ نہیں کہا جاتا
8۔ مؤونہ صدق نہ کرنے کے چند نمونے
1۔ سرمایہ
1۔ تجارت اور ملازمت (تنخواہ وغیرہ) سے حاصل ہونے والے سرمائے میں خمس ہے پس اگر کوئی شخص سرمائے کے عنوان سے اپنا مال بطور مضاربہ کسی کو دیتا ہے تو اس کا خمس دینا واجب ہے اسی طرح سرمائے کے ساتھ تجارت کرنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے منافع میں سے جتنا زندگی کے مخارج میں خرچ ہو جائے اس میں خمس نہیں ہے لیکن سال کے اخراجات سے جو بچ جائے اس میں خمس واجب ہے۔
توجہ
اگر کوئی شخص کئی منزل گھر بنائے یا مہیا کرے تاکہ اس کے کچھ طبقوں کو کرائے پر دے اور کرائے سے حاصل ہونے والی رقم سے زندگی کے اخراجات پورے کرے تو اضافی طبقوں کا خمس ادا کرنا چاہئے۔
شراکت میں
1۔ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے حصے کا خمس ادا کرے اس بنا پر اگر کچھ لوگ پرائیویٹ اسکول بناتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک پر واجب ہے کہ وہ جو کچھ کمپنی کے سرمائے کے طور پر دیتا ہے اس کا خمس ادا کرے اسی طرح واجب ہے کہ جب مشترکہ سرمائے کا منافع موصول ہو تو اس کے حصے سے جتنی مقدار مؤونہ سے بچ جائے خمس والے سال کے اختتام پر اس کا خمس ادا کرے۔
2۔ کمپنی کے سرمائے اور اس کے منافع سے خمس ادا کرنا ہر ممبر کی کمپنی کے مجموعی سرمائے میں سے اپنے حصے کی نسبت اپنی ذمہ داری ہے۔
3۔ ہر شراکت دار کی طرف سے کمپنی کے سرمائے میں اپنے حصے کے مطابق خمس ادا کرنے کے بعد مجموعی سرمائے میں دوبارہ خمس نہیں ہے۔
قرض الحسنہ دینے والے اداروں کا حکم
1۔ اگرہر حصے دار نے ادارے کی تشکیل کے وقت جو پیسہ دیا ہے اس کے علاوہ اسے ادارے کی نقدی کو بڑھانے کیلئے ہر ماہ کچھ رقم دینا پڑتی ہے چنانچہ ہر حصے دار نے خمس والا سال ختم ہونے کے بعد ادارے میں اپنا حصہ اپنی کمائی کے منافع یا اپنی تنخواہ سے دیا ہو تو اس کا خمس دینا واجب ہے لیکن اگر اسے سال کے دوران میں دیا ہو تو چنانچہ خمس والے سال کے اختتام پر اس کیلئے اس کا لینا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ سال کے اختتام پر اس کا خمس ادا کرے ورنہ جب اسے وصول کرے گا اس وقت اس کا خمس ادا کرے گا۔
2۔ اگر اس کا سرمایہ مشترکہ صورت میں افراد کا ذاتی مال ہو تو اس سے حاصل ہونے والا منافع ہر ممبر کے حصے کے تناسب سے اس کا ذاتی مال ہوگا اور سال کے اخراجات سے جو بچ جائے اس کا خمس دینا واجب ہے لیکن اگر ادارے کا سرمایہ کسی فرد یا افراد کا ذاتی مال نہ ہو مثلا وقف عام وغیرہ ہو تو اس سے حاصل ہونے والے منافع میں خمس نہیں ہے۔
2۔ تجارت کی جگہ اور اس کے آلات و ابزار مثلا تجارت اور زراعت کا مکان اور مسافر یا مال کے حمل و نقل کے وسائل سرمائے کا حصہ ہیں اورخمس کے پہلے سال کے اختتام پر اس کا خمس دینا ضروری ہے اور اگرکوئی اس کا خمس ادا نہ کرسکتا ہو تو خمس کے ولی امریا اس کے وکیل کے ساتھ دست گردانی کرکے اسے قسطوں میں ادا کرسکتا ہے۔
3۔ پگڑی سرمائے کا حصہ ہے اس لئے اس میں بھی خمس ہے اور چنانچہ سال کے دوران ملنے والے منافع سے مہیا کیا گیاہو تو خمس تعلق پید اکرے گا اور پہلے سال کے دوران اس کی قیمت کے مطابق خمس ادا کرنا چاہئے۔
2۔ سرمائے میں اضافہ
1۔ اگر قیمت میں اضافے کی وجہ افراط زر ہو یعنی کرنسی کی قیمت کم ہوئی ہو اور اجناس کو زیادہ قیمت میں فروخت کیا جائے تو قیمت میں ہونے والی یہ افزائش قیمت میں اضافہ شمار نہیں ہوگی اور خمس نہیں ہے۔
2۔ جس مال تجارت کا خمس ادا کیا گیا ہے اگر اس کی قیمت بڑھ جائے اور فروخت کا امکان موجود ہو تو خمس کا سال آنے پر افراط زر کی مقدار کو کسر کرنے کے بعد بڑھنے والی قیمت کا خمس ادا کرناچاہئے لیکن سال کے اختتام تک کوئی خریدار نہ ملے تو اس وقت اس کی اضافہ ہونے والی قیمت میں خمس دینا واجب نہیں ہے اور قیمت میں ہونے والا اضافہ اس سال کی آمدنی کا حصہ ہوگا جس میں فروخت کرنے کا امکان ہے۔
3۔ اگر بیچنے کی نیت سے مخمس مال کے ساتھ کوئی سامان خریدے اور کچھ مدت کے بعد اسے بیچ دے تو خریدنے والی قیمت اور افراط زر سے اضافی مقدار کمائی کا منافع شمارہوگا اور سال کے اخراجات سے جو بچ جائے گا اس کا خمس دینا واجب ہے۔
4۔ اگر کوئی شخص سال کے دوران ہونے والی آمدنی سے زمین یا سونے کا سکہ فروخت کرنے کی نیت کے بغیر خریدے تو سال کے اختتام پر اس کی قیمت کے مطابق خمس ادا کرنا چاہئے اور جب تک اس کی قدر میں آنے والا اضافہ فروخت نہ کیا جائے خمس نہیں ہےاور فروخت کرنے کے بعد افراط زر کی مقدار کو کسر کرنے کے بعد قیمت میں ہونے والا اضافہ فروخت ہونے والے سال کی آمدنی کا حصہ ہوگا۔
4۔ بچت
1۔ جس آمدنی کو بچت کیا جاتا ہے، خمس کے سال کے اختتام پر خمس واجب ہے البتہ اگر کسی شخص کے خمس کا سال پہنچ جائے اور وہ اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کےلئے وسائل کی طرف محتاج ہو چنانچہ خمس کی ادائیگی میں اس قدر تاخیر کی جائے کہ عرفا اس میں مال خر چ کرنا سال کے اخراجات کی ادائیگی شمار ہوجائے تو جائز ہے کہ خمس ادا کرنے سے پہلے اس وسیلے کو خریدے اور باقی ماندہ کا خمس ادا کرے۔
2۔ کمائی کے جتنے منافع کی بچت کی جاتی ہے اس میں ایک مرتبہ خمس واجب ہوتا ہے اور اسے قرض الحسنہ کی صورت میں بینک میں رکھنے سے اس کا خمس ساقط نہیں ہوگا۔
5۔ قرضے
1۔ اگر مال کو ادھار پر فروخت کرنے کے منافع کی بابت کسی شخص کے قرضے ہوں اور خمس کے سال کے اختتام پر وصول کرسکتا ہو تو سال کے اختتام پر اس کا خمس ادا کرنا واجب ہے اور اس صورت کے علاوہ میں اس سال کی آمدنی کا حصہ شمار ہوگا جس سال اس قرضے کو وصول کرے۔
2۔گذشتہ مسئلے میں اگر قرضے کا کچھ حصہ سال کے منافع کی بابت تھا جو جنس میں تبدیل ہوا اور اس کے بعد ادھار فروخت کیا گیا ہو تو وصول کرنے کے فورا اس مقدار کا خمس ادا کرنا چاہئے۔
3۔ وہ تنخواہ جس کی ادائیگی تاخیر کا شکار ہو اور اورٹائم کی اجرت چنانچہ خمس کے سال کے اختتام تک قابل وصول نہ ہوتو اس سال کی آمدنی کا حصہ ہوگا جس سال اس کو وصول کیا جائے پس اگر وصول کرنے والے سال کے اخراجات میں خرچ کیا جائے تو خمس نہیں ہے لیکن خمس کے سال کے اختتام پر قابل وصول ہوتو اس کا خمس ادا کرنا واجب ہے اگرچہ ابھی تک وصول نہیں کیا گیا ہو۔
4۔ پنشن اور وہ پیسہ جو چھٹی کے حق سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ سے ادا کیا جاتا ہے چنانچہ خمس کے سال کے اختتام تک باقی رہے تو اس کا خمس ادا کرنا واجب ہے۔
5۔ اگر سال کے ہونے والی آمدنی سے کسی کوقرض دے چنانچہ خمس کے سال کے اختتام تک اس قرضے کو واپس لینا ممکن ہو تو سال کے اختتام پر اس کا خمس ادا کرنا چاہئے لیکن سال کے آخر تک اپنا قرض واپس نہ لے سکے تو جب بھی وصول کرے فورا اس کا خمس ادا کرنا چاہئے۔
6۔ سونے کے سکے
سونے کے سکے اگر کمائی کا منافع شمار ہوں تو وجوب خمس کے لحاظ سے ان کا حکم بھی دوسری آمدنی والا ہوگا۔
7۔ کفن
اگر انسان کفن خریدے اور کئی سال پڑا رہے تو خمس کے پہلے سال کے اختتام پر اس کی قیمت کا خمس ادا کرنا چاہئے اور کرنسی کی قدر میں آنے والی کمی کی نسبت حاکم شرع سے معاملہ کرے۔
تمرین
1۔ اگر کسی شخص کے شرکاء خمس کے سال کا حساب نہ رکھتے ہوں تو اس کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
2۔ کیا قرض الحسنہ کے سرمائے میں خمس ہوتا ہے؟ اوراس کے منافع کا کیا حکم ہے؟
3۔ کیا کام کیلئے استعمال ہونے والے آلات میں خمس واجب ہوتا ہے ؟
4۔ گھر یا گھریلو ضروریات کی خریداری کیلئے جو رقم بتدریج بچت کی جاتی ہے کیا اس میں خمس ہوتا ہے؟
5۔ اگر کسی ملازم کو اس کے خمس والے سال کی تنخواہ اس سال کے اختتام کے بعد ملے تو کیا اس کا خمس دینا واجب ہے؟
6۔ اگر کوئی شخص خمس والے سال سے پہلے اپنی کچھ آمدنی کسی کو بطور قرض دے اورخمس والے سال کے اختتام کے چند ماہ بعد اسے وصول کرے تو اس رقم کا حکم کیا ہے؟
1۔ وہ چیزیں جو استعمال سے ختم ہوجاتی ہیں اور جو استعمال سے ختم نہیں ہوتیں
وہ چیزیں جو استعمال کرنے سے ختم ہوجاتی ہیں جیسے چینی، چاول اور گھی وغیرہ اور زندگی کی روزمرہ کی ضروریات میں استعمال ہوتی ہیں اگر سال کی آمدنی سے سال کے دوران استعمال کرنے کیلئے خریدی ہوں اور انہیں استعمال بھی کرلے تو وہ مؤونہ شمار ہوں گی اور ان میں خمس نہیں ہے اور جتنی مقدار سال کے آخر تک استعمال نہ ہو وہ مؤونہ نہیں ہے اور اس کا خمس دینا ضروری ہے البتہ وہ چیزیں کہ جو استعمال کرنے سے ختم نہیں ہوتی ہیں مثلا رہائشی گھر، گھریلو وسائل، ذاتی گاڑی اور عورتوں کے زیورات وغیرہ کہ جو استعمال سے باقی رہتے ہیں اور انہیں ضروریات زندگی کے طور پر آمدنی سے خرید کر استعمال کیا جاتا ہو تو یہ مؤونہ ہیں اور ان میں خمس نہیں ہے۔
توجہ
جو چیزیں استعمال کرنے سے ختم نہیں ہوتیں اور باقی رہتی ہیں ان میں خمس کے واجب نہ ہونے کا معیار ان پر انسان کی عرفی حیثیت کے مطابق ضرورت کا صدق کرنا ہے اگرچہ پورا سال ان سے استفادہ نہ کرےپس اگر اتفاقاً قالین اور برتن سارا سال استعمال نہ ہوں لیکن مہمانوں کی خاطر ان کی ضرورت ہو تو ان میں خمس نہیں ہے لیکن استعمال کرنے سے ختم ہونے والی اشیاء میں معیار استعمال ہے لہذا ان میں سے جو کچھ سال کے دوران استعمال سے بچ جائے اس کا خمس دینا ضروری ہے۔
وسائل الشیعہ جیسی کتابیں جو کئی جلدوں پر مشتمل ہیں اگر پوری کتاب کی ضرورت ہو یا جس جلد کی ضرورت ہے اس کا خریدنا پوری کتاب کے خریدنے پر موقوف ہو تو اس میں خمس نہیں ہے ورنہ جن جلدوں کی اس وقت ضرورت نہیں ہے ان کا خمس دینا ضروری ہے اور کتاب کی ہر جلد سے فقط ایک صفحہ پڑھ لینا خمس کے ساقط ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔
ضرورت کا رہائشی گھر مؤونہ ہے لہذا تین منزلہ گھر کہ جس کی ایک منزل میں مالک خود اور دوسری دو منزلوں میں اس کے بیٹے رہتے ہیں اس میں خمس نہیں ہے۔
وہ گاڑی کہ جسے دوران سال کی آمدنی سے اپنے ذاتی استعمال اور زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے خریدا ہے اور انسان کی عرفی حیثیت کے مطابق اس کی ضروریات کا حصہ ہو تو یہ مؤونہ ہے اور اس میں خمس نہیں ہے ہاں اگر اسے کام کیلئے خریدا ہو مثلا ٹیکسی، وانٹ، منی بس اور بس تو وجوب خمس کے لحاظ سے اس کا حکم کام کے آلات والا حکم ہے۔
وہ دوائیں کہ جنہیں دوران سال کی آمدنی سے خریدا جاتا ہے اور خراب ہوئے بغیر خمس کے سال کے آخر تک باقی رہتی ہیں اگر انہیں ضرورت کے وقت استعمال کیلئے خریدا ہو اور ان کی ضرورت پیش بھی آسکتی ہو تو وہ مؤونہ ہیں اور ان میں خمس نہیں ہے۔
2۔ ضرورت کی وہ چیزیں کہ جنہیں انسان بتدریج مہیا کرتا ہے
گھریلو لوازمات، جہیز اور رہائش کیلئے گھر وغیرہ جیسی ضرورت کی چیزیں کہ جنہیں انسان ضرورت کے موقع پر ایک ہی مرتبہ نہیں خرید سکتا بلکہ کئی سالوں کی آمدنی سے انہیں بتدریج مہیا کرتا ہے اور وقتِ ضرورت کیلئے محفوظ کرلیتا ہے تو ان میں سے انسان ہر سال جتنا اپنی عرفی حیثیت کے مطابق مہیا کرتا ہے وہ مؤونہ ہے اور اس میں خمس نہیں ہے۔
توجہ
اگر کسی علاقے میں رسم یہ ہو کہ سامان اور گھریلو وسائل لڑکے والے تیار کرتے ہوں چنانچہ وہ اسے وقت کےساتھ ساتھ اور بتدریج تیار کریں اور اس پر سال گزر جائے تو اگر مستقبل کیلئے ضروریات زندگی کی تیاری عرف میں مؤونہ کا حصہ شمار ہو تو اس میں خمس نہیں ہے۔
اگر کسی شخص کے پاس رہائش کیلئے گھر نہیں ہے لیکن اس کے پاس ایک پلاٹ ہے کہ جس پر خمس کا سال گزرگیا ہو چنانچہ اگر اس نے وہ پلاٹ اپنی ضرورت کا گھر بنانے کیلئے دوران سال کی آمدنی سے خریدا ہو تو یہ اس کے موجودہ مخارج میں سے شمار ہوگا اور اس کا خمس واجب نہیں ہے حتی کہ اس کو فروخت کرے اور دوسرا گھر بنانے میں خرچ کرےلیکن اگر اسے سال کی آمدنی سے اس ارادے سے خریدا ہو کہ اسے بیچ کر اس کا پیسہ گھر کی تعمیر کیلئے خرچ کرے یا اس پیسے کواس مقصد کے لئے بچت کرے تواحتیاط کی بناپر اس کا خمس دینا واجب ہے۔
گھر بنانے کیلئے جس زمین کی ضرورت ہے اس میں خمس کے واجب نہ ہونے کے اعتبار سے فرق نہیں ہے کہ وہ ایک پلاٹ ہو یا چند پلاٹ اور ایک گھر ہو یا چند گھر بلکہ اس کا معیار اس پر انسان کی عرفی حیثیت اور مقام کے مطابق ضرورت کا صدق کرنا اور اسی طرح اس میں بتدریج گھر کی تعمیر کیلئے اس کی مالی حیثیت ہے۔
اگر کسی کے پاس رہائش کیلئے اپنا گھر نہ ہو اور دوران سال کی آمدنی سے زمین خریدے تاکہ اس میں اپنے لئے گھر بناسکے چنانچہ اس کی تعمیر شروع کرے لیکن اس کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے خمس کی تاریخ آجائے تو جو کچھ بلڈنگ کے میٹیریل میں خرچ کرچکا ہے اس میں خمس نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص اپنی حیثیت کے مطابق کوئی گھر بنائے تو مؤونہ شمار ہوگا اگرچہ کچھ وجوہات کی بناپر اس میں سکونت اختیار نہ کرسکے یا کچھ مدت کے بعد اس میں سکونت اختیار کرنے سے منحرف ہوجائے۔
3۔ قرض کی ادائیگی
1۔ سال کی آمدنی سے جو کچھ بچ جائے اگرچہ کم ہو پھر بھی اس کا خمس ادا کرنا چاہئے اگرچہ قرض یا مؤونہ کی قسط کی بابت کیوں نہ ہو لیکن اگر اپنا قرض اسی سال کے منافع سے یا سال گزرنے کے مختصر مدت بعد ادا کرے جو مقدار عرفا سال کے مخارج میں شمار ہوجائے اس میں خمس نہیں ہے۔
2۔ اگر منافع ملنے سے پہلے زندگی کے مخارج کے لئے قرض حاصل کرے یا جس پیسے سے خمس تعلق نہیں رکھتا ہے مثلا ارث سے پیسے لے تو احتیاط واجب کی بناپر ان مخارج کو منافع سے کم نہیں کرسکتا ہے اور اس کا خمس ادا کرنا چاہئے۔
3۔ خمس تعلق نہ رکھنے والے مال سے منافع حاصل کرنے کے بعد اس کو زندگی کے مخارج میں استعمال کرے تو اس رقم کو سال کے منافع سے کسر کرسکتا ہے۔
4۔ قرض کی بابت سال کی آمدنی کو خرچ کرنا اگرچہ قرض مؤونہ نہ ہو پھر بھی جائز ہے لیکن اگر سال کے اختتام تک ادا نہ کرے تو جس سال قرض لیا گیا ہے اس سال کی آمدنی سے استثنا نہیں ہوگا اور آمدنی سے جو مقدار بچ جائے اس کا خمس دینا چاہئے مگر یہ کہ وہ قرض مؤونہ کے عنوان سے اور موجودہ منافع سے حاصل کیا گیا ہو خواہ قرض طلب کرنے کے طریقے سے ہو یا فی الذمہ خریدنے کے طریقے سے ہو یا کسی اور طریقے سے۔
4۔ کرائے وغیرہ کی ایڈوانس رقم
1۔ کرایہ دار مالک مکان کو جو پیسہ ایڈوانس دیتا ہے اگر کرایہ دار کی آمدنی میں سے ہو تو سال گزرنے کے بعد اس میں خمس ہے اور جب بھی کرایہ دار اس پیسے کو مالک سے وصول کرے اس کا خمس ادا کرنا چاہئے مگریہ کہ گھر کے کرایے کے لئے اس پیسے کی ضرورت ہو اس صورت میں ضرورت پوری ہونے تک خمس کی ادائیگی میں تاخیر کرسکتا ہے۔
2۔ حج یا عمرہ سے مشرف ہونے کے لئے جو رقم بینک میں جمع کی جاتی ہے تاکہ باری آنے پر جمع شدہ رقم اور منافع کو دریافت کرے اور حج اور عمرے کی سعادت حاصل کرے چنانچہ اگر خمس والے اسی سال میں حج پر چلے جائیں کہ جس سال پیسے جمع کرائے تھے تو اس میں خمس نہیں ہے لیکن اگر ان کے حج کی باری خمس والے سال کے بعد آئے تو چنانچہ اصل پیسہ سال کی آمدنی سے ہو تو اس میں خمس واجب ہوگا رہا اس کا منافع تو اگر اسے سفر حج پر جانے والے سال سے پہلے وصول کرنا ممکن نہ ہو تو یہ وصولی والے سال کی آمدنی شمار ہوگا لذا اگر اسی سال خرچ ہوجائے تو اس میں خمس نہیں ہے۔
تمرین
1۔ کیا مؤونہ میں خمس کے واجب نہ ہونے کا معیار دوران سال میں اس کا استعمال کرنا ہے یا یہ کہ سال کے دوران اس کی ضرورت ہونا ہی کافی ہے اگرچہ اس کے استعمال کا موقع نہ آئے؟
2۔ وہ دوائیں جو دوران سال کی آمدنی سے خریدی جاتی ہیں اگر خراب ہوئے بغیر خمس والے سال کےآخر تک پڑی رہیں تو کیا ان میں خمس واجب ہوگا؟
3۔ ایک شخص کے پاس رہائش کیلئے اپنا گھر نہیں ہے اس لئے وہ زمین خریدتا ہے تاکہ اس میں اپنے لئے گھر بنا سکے لیکن چونکہ اس کے پاس گھر کی تعمیر کیلئے کافی مقدار میں پیسہ نہیں تھا اس لئے اس پر سال گزر گیا اور اس نے اسے بیچا بھی نہیں تو کیا اس میں خمس واجب ہے؟
4۔ جن ملازمین کے سالانہ مخارج سے بعض اوقات کچھ مال بچ جاتا ہے اس چیز کے پیش نظر کہ ان کے ذمے قرض ہوتا ہے کہ جسے فوری اور قسطوں کی صورت میں ادا کرنا ہوتا ہے کیا ان پر خمس واجب ہے؟
5۔ رائج طریقے کے مطابق گھر کرائے پر لینے کیلئے کچھ پیسہ ایڈوانس دینا پڑتا ہے اگر یہ پیسہ کمائی کی آمدنی میں سے ہو اور کئی سال تک مالک کے پاس رہے تو کیا وصولی کے فوراً بعد اس کا خمس دینا واجب ہے ؟ اور اگر اس پیسے کے ساتھ کسی دوسری جگہ گھر کرائے پر لینا چاہتا ہو تو حکم کیا ہے؟
6۔ حج کی خاطر نام لکھوانے کیلئے جو پیسہ دیا جاتا ہے اور اس پر کئی سال گزر جاتے ہیں کیا اس میں خمس ہوتا ہے؟
سبق 71: آمدنی کا خمس(5) آمدنی کا خمس حساب کرنے اور ادا کرنے کا طریقہ ((1))
10۔ آمدنی کا خمس حساب کرنے اور ادائیگی کا طریقہ
1۔ خمس کے واجب ہونے کا وقت
آمدنی کے خمس کے وجوب کا وقت وہ ہے جب آمدنی ہاتھ میں آتی ہے لیکن خمس کی ادائیگی کے سلسلے میں ایک سال کی مہلت دی گئی ہے لہذا مالک کو سال کے اختتام سے پہلے اپنا خمس ادا کرنے کی اجازت ہے۔
2۔ خمس کے سال کو آگے لانا جائز ہے اس طرح کہ اس وقت تک ملنے والی درآمد کا خمس ادا کرے اور اس کے بعد خمس کا سال اسی وقت سے شروع ہوگا البتہ خمس کے سال میں تاخیر جائز نہیں ہے۔
توجہ
اگر کوئی شخص فروخت کی نیت کے بغیر پلاٹ یا سونے کا سکہ سال کی آمدنی سے خریدے تو سال کے اختتام پر اس کی قیمت کے مطابق خمس ادا کرنا چاہئے اس کی قیمت میں ہونے والے اضافے میں جب تک اس کو فروخت نہ کیا جائے خمس نہیں ہے اور فروخت کرنے کے بعداضافہ ہونے والی قیمت کو افراط کی مقدار کو کسر کرنے کے بعد فروخت کرنے والے سال کی آمدنی شمار کیا جائے گا اوراگر فروخت کرنے کی نیت سے خریدا ہو تو خمس کے پہلے سال کے اختتام پر ہی اس کی قیمت سے خمس تعلق پیدا کرے گا اور بعد والے سالوں میں چنانچہ اس کی قیمت بڑھ جائے اور فروخت کا امکان ہوتو افراط زر کی مقدار کو کسر کرنے کے بعد بڑھنے والی قیمت کا خمس ادا کرے اگرچہ فروخت نہ کیا گیا ہو۔
2۔ آمدنی پر آنے والے اخراجات کی کٹوتی
سال کی آمدنی میں سے جو کچھ منافع حاصل کرنے کیلئے اور اقتصادی فعالیت کے دوران خرچ کیا جاتا ہے مثلا حمل و نقل، خسارے کی تلافی، دوکان کا کرایہ، دلال اور مزدوروں کی اجرت اور ٹیکس وغیرہ کے سلسلے میں ہونے والے اخراجات وہ اسی سال کی آمدنی سے مستثنیٰ ہو گا اور اس میں خمس نہیں ہے۔
3۔ آمدنی کے خمس کا مؤونہ (سالانہ اخراجات) سے تعلق نہ رکھنا
آمدنی والا خمس مؤونہ میں واجب نہیں ہوتا یعنی آمدنی میں سے جو کچھ دوران سال زندگی کی ضروریات پر خرچ ہوتا ہے اس میں خمس نہیں ہے اور صرف سال کے آخر میں جو کچھ بچ جائے اس میں خمس ہوتا ہے اور ضروری ہے کہ اس کا حساب کیا جائے۔
4۔ ہر سال کی مؤونہ کی اسی سال کی آمدنی سےکٹوتی
ہر سال کی مؤونہ اگلے یا پچھلے سال سے نہیں نکالی جائے گی بلکہ اسی سال کی آمدنی سے ہی نکالی جائے گی لہذا اگر اسے ایک سال کوئی آمدنی نہ ہو تو اس سال کی مؤونہ اس سے پچھلے یا بعد والے سال کی آمدنی سے نہیں نکال سکتا۔
5۔ آمدنی میں سے اخراجات کا نکالنا کسی دوسرے مال کے نہ ہونے سے مشروط نہیں ہے
اگر خمس نکالا ہوا مال اس مال سے مخلوط ہوجائے جس کا خمس نہ نکالا گیا ہو مثلا دونوں کا حساب مشترک ہو اور مالک نے خمس نکالے ہوئے مال کی نیت کے بغیر یا اس حساب کو ذہن میں لائے بغیر مال نکالے اور مؤونہ میں خرچ کرے اور خمس نکالے ہوئے مال کے برابر یا اس سے کم باقی بچ جائے تو باقی بچنے والی مقدار میں خمس نہیں ہے۔
6۔ خمس والے سال کا حساب رکھنا
جو شخص اپنی ذاتی آمدن رکھتا ہو کم یا زیادہ خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اس کیلئے خمس کا سال رکھنا اور اپنی سالانہ آمدنی کا حساب کرنا ضروری ہے تاکہ اگر سال کے اختتام پر آمدنی میں سے کچھ بچ جائے تو اس کا خمس ادا کرسکے البتہ خمس کا سال رکھنا اور سالانہ آمدنی کا حساب کرنا کوئی مستقل اور الگ واجب نہیں ہے بلکہ یہ خمس کی مقدار جاننے کا ایک طریقہ ہے اور اس وقت واجب ہوتا ہے جب انسان جانتا ہو کہ ا س پر خمس واجب ہے لیکن اس کی مقدار کو نہ جانتا ہو لیکن اگر کمائی کے منافع میں سے کچھ نہ بچے اور سب کچھ زندگی کے مخارج پر خرچ ہوجائے تو اس پر خمس واجب ہی نہیں ہے تاکہ اس کا حساب کرے۔
توجہ
میاں بیوی جو اپنی تنخواہوں کو مشترکہ طور پر گھر کے مخارج میں خرچ کرتے ہیں ان میں سے ہر ایک پر واجب ہے کہ وہ اپنی آمدنی کے لحاظ سے خمس کا الگ سال رکھتا ہو اور ان میں سے ہر ایک سال کے آخر میں اپنی سالانہ آمدنی اور تنخواہ میں سے باقیماندہ کا خمس ادا کرے اسی طرح وہ خانہ دار خاتون کہ جس کے شوہر کا خمس والا سال ہے اور اس کے مطابق وہ اپنے اموال کا خمس ادا کرتا ہے اور اس کو بھی بعض اوقات کوئی آمدنی ہوجاتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ جس وقت سال کی پہلی آمدنی وصول کرے اسی وقت کو اپنے خمس والے سال کی ابتدا قرار دے اور اپنی کمائی کے منافع میں سے جو کچھ اپنے ذاتی مخارج جیسے زیارت کیلئے جانا اور ہدیہ دینا وغیرہ میں خرچ کردے اس میں خمس نہیں ہے اور اس میں سے جو کچھ سال کے آخر تک بچ جائے اس کا خمس دینا واجب ہے۔ اور جائز ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے کی اجازت کے ساتھ اس کے خمس کا حساب کرکے ادا کرے۔
انسان کو خمس کے مسائل سے آشنائی ہوتو یہ کرسکتا ہے کہ اپنے مال کے خمس کا خود حساب کرکے جو کچھ اس پر واجب ہے وہ ولی امر خمس یا اس کے وکیل کو دے دے۔
7۔ خمس والے سال کی ابتدا کی تعیین
خمس والے سال کی ابتدا کیلئے مکلف کی جانب سے اسے معین کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی (دوسرے لفظوں میں خمس والے سال کی ابتدا مکلف کے معین کرنے سے معین نہیں ہوتی) بلکہ یہ ایک واقعی اور حقیقی امر ہے کہ جو سالانہ آمدنی کے حصول کی کیفیت کی بنیاد پر خودبخود معین ہوجاتا ہے ا س بنا پر ملازمین اور اجرت پر کام کرنے والے افراد کے خمس والے سال کی ابتدا اس دن سے ہوگی جب ان کیلئے اپنے کام اور ملازمت کی پہلی کمائی کو وصول کرنا ممکن ہوگا اور تاجروں اور دوکانداروں کے خمس والے سال کا آغاز خرید و فروش شروع کرنے کی تاریخ سے ہوگا اور کسانوں کے خمس والے سال کا آغاز کھیتی باڑی کا پہلا محصول اٹھانے کی تاریخ سے ہوگا۔
توجہ
جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا ہے ملازمین اور اجرت پر کام کرنے والے افراد وغیرہ جس دن اپنی پہلی تنخواہ یا اجرت وصول کریں گے یا ان کیلئے اس کا وصول کرنا ممکن ہوگا اس دن سے ان کے خمس والے سال کا آغاز ہوگا نہ کہ کام شروع کرنے والے دن سے۔
8۔ خمس والے سال کے انتخاب میں آزادی
خمس والا سال قمری بھی قرار دے سکتے ہیں اور شمسی بھی اور اس کے انتخاب میں مکلف آزاد ہے۔
تمرین
1۔ کیا خمس والے سال کو مقدم اور مؤخر کرنا جائز ہے؟
2۔ ایک شخص کے پاس اپنی جائیداد (گھر یا زمین) ہے کہ جس میں خمس واجب ہے کیا وہ اس کا خمس اپنی سالانہ آمدن سے ادا کرسکتا ہے؟ اور کیا اس پر سالانہ آمدن کا خمس دینا بھی واجب ہے؟
3۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو خمس والے سال کے اختتام پر ایک لاکھ روپے کی بچت ہوئی اور اس نے اس کا خمس ادا کر دیا اگر اگلے سال میں اس کی مقدار ڈیڑھ لاکھ ہوجائے تو کیا نئے سال میں پچاس ہزار کا خمس دینا ہوگا یا نہیں بلکہ دوبارہ اسے ڈیڑھ لاکھ کا خمس دینا پڑے گا؟
4۔ کیا ان غیر شادی شدہ جوانوں پر خمس والے سال کی تعیین واجب ہے کہ جو اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں؟
5۔ کیا انسان اپنے مال کے خمس کا خود حساب کرکے اسے ولی امر خمس یا ا س کے وکیل کو دے سکتا ہے؟
6۔ خمس ادا کرنے کیلئے سال کی ابتدا کی تعیین کیسے ہوگی؟
سبق 72: آمدنی کا خمس (6) آمدنی کا خمس حساب کرنے اور ادا کرنے کا طریقہ ((2))
9۔ سرمائے کے خمس کے حساب اور ادائیگی کا طریقہ
سرمائے کے خمس کا حساب کرنے کیلئے پہلے جو کچھ سامان اور نقد پیسہ ہے خمس والے سال کے اختتام پر اس کا حساب کرکے اس کی قیمت لگوائے اور اس کا خمس ادا کر دے پھر اگلے سال تمام نقدی اور سامان کا اصل سرمائے کے مقابلے میں جائزہ لے اگر افراط زر کے علاوہ سرمائے سے زائد ہوتو زائد مقدار منافع شمارہوگی اور اس میں خمس ہوگا اوراگر ابتدائی سرمائے سے کچھ زائد نہ ہو تو خمس واجب نہیں ہے مثال کے طور پر اگر کسی شخص کا سرمایہ ۹۸ بھیڑ یں اور کچھ نقد پیسہ ہو کہ جن کا وہ خمس ادا کرچکا ہو چنانچہ اگر خمس والے سال کے اختتام پر ا س کے پاس موجود بھیڑ بکریوں اور نقد رقم کی مجموعی قیمت ۹۸ بھیڑ وں اور مخمس نقد رقم کی مجموعی قیمت سے زیادہ ہو کہ جن کا یہ خمس ادا کرچکا ہے توافراط زر کو کسر کرنے کے بعد زائد مقدار میں خمس ہوگا۔
توجہ
سرمائے کے خمس کا حساب کرنے کیلئے واجب ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو اگرچہ اندازے سے ہی کیوں نہ ہو، سامان اور اجناس (نقد رقم کے علاوہ سرمایہ) کی قیمت کا تعین کرے اور مشکل ہونے کی وجہ سے اس کام کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔
اگر کسی شخص کے کمائی کے چند ذرائع ہوں مثلا گھر کرایے کا گھر، تجارت اور زراعت کے ذریعے کماتا ہو چنانچہ ہر کمائی کے ذریعے کے منافع اور اخراجات جدا ہوں تو خمس کے سال کے اختتام پر اسی ذریعہ آمدنی کا خمس حساب کرکے ادا کرنا چاہئے اور اگر ان میں سے کسی ایک میں نقصان ہوجائے تو دوسرے سے اس کی تلافی نہیں کرسکتا ہے اور اگر تمام ذرائع کا حساب مشترکہ ہو تو سال کے اختتام پر ایک دفعہ سب کاحساب کرنا چاہئے اور اگر کچھ بچ جائے تو خمس ادا کرے۔
اگر سال کے آغاز میں سرمائے کا کچھ حصہ ختم ہوجائے اور باقی ماندہ میں منافع حاصل ہوجائے جو سال کے اخراجات سے زیادہ ہو تو کم ہونے والے سرمائے کی مقدار کو اس میں سے لے سکتا ہے۔
اگر سرمائے کے علاوہ کوئی اور چیز ضائع ہوجائے تو منافع سے اس کی تلافی نہیں کرسکتا ہے لیکن اگر اسی سال کے دوران اس چیز کی ضرورت پیش تو سال کے دوران کمائی کے منافع سے اس کو مہیا کرسکتا ہے۔
10۔ آمدنی کے خمس کے حساب کی صحت میں شک
اگر کسی شخص کو گزشتہ سالوں میں اپنی آمدنی کے خمس کے حساب کے صحیح ہونے میں شک ہو تو اس کی پروا نہ کرے اور نئے سرے سے خمس ادا کرنا واجب نہیں ہے ہاں اگر آمدن کے بارے میں شک ہو کہ یہ گزشتہ سالوں کی آمدن ہے کہ جس کا خمس دے چکا ہے یا اس سال کی کہ جس کا خمس نہیں دیا تو اس پر واجب ہے کہ احتیاطاً اس کا خمس ادا کرے مگر جب اس کیلئے ثابت ہوجائے کہ پہلے اس کا خمس ادا کرچکا ہے۔
11۔ خمس کی ادائیگی میں شک
اگر شک ہو کہ کسی چیز کا خمس دیا ہے یا نہیں چنانچہ اگر مشکوک ایسی چیز ہو کہ جس میں خمس واجب ہے تو اس کی ادائیگی کا یقین حاصل کرنا واجب ہے۔
12۔ مصالحت
جن موارد میں انسان نہیں جانتا کہ اس کی آمدنی میں خمس واجب ہے یا نہیں مثال کے طور پر اسے یقین ہے کہ اس نے اپنا رہائشی گھر اپنی کمائی کی آمدن سے خریدا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ آیا اس نے سال کے دوران میں ہی اس آمدنی کوگھر خریدنے کیلئے خرچ کر دیا تھا یا سال ختم ہونے کے بعد اور خمس ادا کرنے سے پہلے خرچ کیا تھا تو احتیاط واجب کی بناپر ولی امر خمس یا اس کے وکیل کے ساتھ مصالحت کرے۔
توجہ
یقینی خمس میں مصالحت نہیں ہوسکتی (مصالحت مشکوک موارد میں ہوتی ہے)
13۔ دست گردانی
اگر انسان پر خمس واجب ہو لیکن اسے ادا کرنے کی توان نہ رکھتا ہو تو اس کے ذمے جو خمس ہے اس کے سلسلے میں ولی امر خمس یا اس کے وکیل کے ساتھ دست گردانی کرسکتاہے تاکہ بعد میں اسے وقت اور مقدار کے لحاط سے اپنی استطاعت کے مطابق بتدریج ادا کرسکے۔
توجہ
اگر کوئی شخص ایسے مال کے خمس کے طور پر کہ جس میں خمس واجب نہیں تھا کچھ رقم ادا کر دے تو اگر وہ رقم اپنے شرعی مصارف میں خرچ ہوجائے تو یہ اس مال کے خمس کی بابت حساب نہیں ہوگی کہ جس کا یہ مقروض ہے البتہ اگر خود وہ رقم موجود ہو تو اس کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
تمرین
1۔ سرمائے کے خمس کے حساب اور ادائیگی کا طریقہ بیان کیجئے۔
2۔ اگر ایسا مال کہ جس میں خمس نہیں ہوتا مثلا انعام وغیرہ سرمائے کے ساتھ مخلوط ہوجائے تو کیا سال کے اختتام پر اسے سرمائے سے مستثنیٰ کرکے باقی اموال کا خمس ادا کرنا جائز ہے؟
3۔ اگر انسان کو اپنے سابقہ اموال کے خمس کے حساب کی صحت کے بارے میں شک ہو تو اس کا فریضہ کیا ہے؟
4۔ مصالحت کے موارد کون سے ہیں؟
5۔ کن موارد میں دست گردانی کی جاتی ہے؟
6۔ اگر انسان ایسےمال کے خمس کے طور پر کچھ رقم ادا کرے کہ جس میں خمس واجب نہیں تھا تو کیا اس رقم کو اس مال کے خمس کے طور پر شمار کرسکتا ہے کہ جس کا اس وقت مقروض ہے؟
سبق 73: معدن کا خمس۔ خزانہ۔ حلال مال جو حرام کے ساتھ مخلوط ہوجائے۔ خمس کا مصرف۔ خمس کے متفرق مسائل
1۔ معدن کا خمس
جو معدنیات کوئی ایک شخص یا چند افراد مل کر نکالتے ہیں ان میں اس شرط کےساتھ خمس واجب ہے کہ ایک شخص نے جو نکالا ہے یا مل کر نکالنے کی صورت میں ہر ایک کا حصہ ان کے نکالنے اور صاف کرنے کے اخراجات کو منہاکرنے کے بعد 15 مثقال[1] سونے کے برابر ہو اور اگر اس کی قیمت اس مقدار سے کم ہوتو خمس نہیں ہے۔
توجہ
معدنیات میں خمس کے واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ اسے کوئی شخص یا چند اشخاص باہمی مشارکت کے ساتھ نکالیں اس شرط کے ساتھ کہ ہر ایک کا حصہ نصاب کی حد تک پہنچ جائے اور جو کچھ نکالا گیا ہے وہ ان کی ملکیت ہو جائے اور معدن میں خمس اس وقت واجب ہے جب نکالنے والا اس کا مالک بن جائے پس جو معدنیات حکومت نکالتی ہے چونکہ وہ کسی خاص شخص یا اشخاص کی ملکیت نہیں ہیں بلکہ جہت کی ملکیت ہیں اس لئے ان میں خمس کے وجوب کی شرط موجود نہیں ہے بنابراین حکومت اور ریاست پر خمس کے وجوب کا کوئی معنی نہیں ہے۔
2۔ خزانہ
جن لوگوں کو اپنی ذاتی زمین میں خزانہ مل جاتا ہے اس کے بارےمیں معیار جمہوری اسلامی ایران کے قوانین ہیں لہذا اگر کسی کو اپنی ذاتی عمارت کی زمین کے نیچے سے چاندی کے ایسے سکے مل جائیں کہ جن کی تاریخ تقریباً سو سال پرانی ہو تو ان کے سلسلے میں جمہوری اسلامی ایران کے قوانین کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
3۔ حرام سے مخلوط ہونے والا حلال مال
1۔اگر حلال مال حرام کے ساتھ مخلوط ہوجائے مثلا ایک بوری گندم میں سے کچھ مقدار کسی دوسرے شخص کی ہو چنانچہ اس شخص اور اس مقدار کو نہ جانتا ہو تو پورے مال کا خمس دینا چاہئے اور باقی مال اس کے لئے حلال ہوتا ہے۔
2۔ اگر دوسرے شخص کے مال کی دقیق مقدار معلوم نہ ہو لیکن اجمالی طور پر جانتا ہو کہ پانچویں حصے سے زیادہ مقدار ہے تو احتیاط کی بناپر پانچویں حصے سے جتنی مقدار زیادہ ہونے کا یقین ہے اس کے ساتھ خمس حاکم شرع کودے تاکہ ان موارد میں خرچ کیا جائے جو خمس اور صدقہ دونوں شمار ہوتے ہیں۔
توجہ
جو شخص ایسے خاندان کے ساتھ رہتا ہے کہ جو خمس اور زکات نہیں دیتا یا ان کے اموال سود کے ساتھ مخلوط ہیں تو جب تک اسے ان اموال کے حرام ہونے کا یقین نہ ہوجائے ان سے استفادہ کرسکتا ہے (درست ہے کہ اگرچہ اسے ان کے اہل خمس و زکات نہ ہونے کا یقین ہے اور یہ کہ ان کے اموال سود کے ساتھ مخلوط ہیں لیکن اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ اسے ان اموال کی حرمت کا بھی یقین ہوجائے کہ جو وہ استعمال کرتا ہے) البتہ اگر ان اموال کی حرمت کا یقین ہو جائے کہ جنہیں یہ استعمال کر رہا ہے تو اس کیلئے ان سے استفادہ کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس خاندان سے جدا ہونا اور ان سے رابطہ منقطع کرنا اس کیلئے حرج کا باعث ہو تو اس صورت میں ان کے حرام کے ساتھ مخلوط اموال کو استعمال کرنے میں اشکال نہیں ہے البتہ اس کے زیراستعمال دوسروں کے مال کا وہ ضامن ہے ۔
غوطہ خوری سے ملنے والے جواہرات
1۔ اگر انسان سمندر میں ڈبکی لگائے اور موتی اور مرجان وغیرہ نکالے جو پانی میں جاکر نکالتے ہیں چنانچہ نکالنے کے اخراجات کو منہا کرنے کے بعد سونے کے 18 چنے یا اس سے زیادہ قیمت ہوتو اس کا خمس ادا کرنا چاہئے۔
2۔ گذشتہ مسئلے میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سمندر سے نکالنے والے جواہرات ایک قسم کے ہوں یا مختلف اقسام کے ، ایک دفعہ نکالے یا زیادہ فاصلے کے بغیر کئی دفعہ اور احتیاط واجب کی بناپر بڑے دریا مثلا نیل اور فرات وغیرہ بھی سمندر کے حکم میں ہیں۔
3۔ اگر پانی میں غوطہ لگائے بغیر کسی آلے کے ذریعے پانی کے اندر سے جواہرات نکالے تو چنانچہ اخراجات کو کم کرنے کے بعد سونے کے 18 سکوں کے برابر ہو تو احتیاط واجب کی بناپر اس کا خمس ادا کرنا چاہئے۔
4۔ اگر جواہرات خود ہی پانی سے باہر آجائیں اور کوئی شخص اس کو پانی کے اوپر سے یا سمندر کے کنارے سے اٹھائے تو خمس نہیں ہے لیکن اگر یہ کام اس کا پیشہ ہوتو پیشے کی آمدنی شمار ہوگا جس کا حکم آئے گا۔
خمس کا مصرف
1۔ جس شخص پر خمس ادا کرنا واجب ہو ضروری ہے کہ اس کو ولی امر مسلمین کے حوالے کرے اور اس مسئلے میں سہم امام اور سہم سادات میں کوئی فرق نہیں ہے۔
2۔ مراجع تقلید کے مقلدین اگر خمس ادا کرنے میں اپنے مرجع تقلید کے فتوی کے مطابق عمل کریں تو بری الذمہ ہوتے ہیں۔
3۔ اس شخص کو خمس دینا جائز ہے جو خمس جمع کرنے میں ولی امر مسلمین کا وکیل ہے لیکن اگر اس کی وکالت ثابت نہ ہوجائے تو اس کو خمس دینا جائز نہیں ہے اور دینے کی صورت بری الذمہ ہونے پر اطمینان کا باعث نہیں ہے۔
4۔ خمس (سہم امام ہو یا سہم سادات) کو ہر کام میں مصرف کرنا خمس کے ولی امر مسلمین یا اس کے وکیل کی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔
توجہ
حتمی طور پر واجب ہونے والا خمس معاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اگر کسی کو اس شخص کی اجازت میں شک ہو جو (ولی امر کی طرف سے خمس میں) اجازت رکھنے کا دعوی کرتا ہے تو احترام کے ساتھ مکتوب اجازت نامہ دکھانے کی درخواست کرسکتا ہےیا رسید طلب کرسکتا ہے جس پر خمس کے ولی امر کا مہر لگا ہو پس چنانچہ وہ خمس کے ولی امر کی طرف سے اجازت کے مطابق عمل کرے تو اس کا عمل تائید کے قابل ہے۔
2۔ ان لوگوں کی شرائط جن کو سہم سادات دیا جاسکتا ہے۔
ان لوگوں کی شرائط جن کو خمس کے ولی امر یا اس کے مجاز وکیل کی اجازت سے سہم سادات دیا جاسکتا ہے
1۔ سید ہو
2۔ شیعہ اثنا عشری ہو
3۔ فقیر ہو
4۔ واجب نفقہ نہ ہو
5۔ گناہ میں خرچ نہ کرے
1۔ سید ہو
وہ سید سہم سادات استعمال کرسکتا ہے جو باپ کی طرف سے پیغمبراکرمﷺ کے جد جناب ہاشم سے منسوب ہو بنابراین تمام علوی، عقیلی اور عباسی سادات جو ہاشمی ہیں، سادات ہاشمی سے مخصوص مراعات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
2۔ جو شخص باپ کی طرف سے حضرت عباس بن علی بن ابی طالبؑ سے منسوب ہو، علوی سید ہے۔
3۔ اگرچہ ماں کی طرف سے پیغمبراکرمﷺ سے منسوب افراد بھی آنحضرتﷺ کی اولاد شمار ہوتے ہیں لیکن سید ہونے کے شرعی احکام اور آثار مرتب ہونے کا معیار باپ کی طرف سے منسوب ہونا ہے۔
4۔ اگر کوئی کہے کہ میں سید ہوں تو اس سےخمس نہیں دیا جاسکتا ہے مگر یہ کہ دو عادل افراد اس کے سید ہونے کی تصدیق کریں یا کسی طریقے سے انسان کو سید ہونے کا یقین یا اطمینان ہوجائے۔
3۔ فقر
1۔ جو سادات پیشہ اور ملازمت رکھتے ہیں اگر ان کی آمدنی ان کی شان کے مطابق اور مناسب زندگی کے لئے کافی ہوتو فقیر شمار نہیں ہوتے ہیں اور خمس لینے کا حق نہیں ہے۔
2۔ سادات کے خاندان کا باپ اگر ان کا نفقہ ادا کرنے میں کوتاہی کرے چنانچہ باپ سے اپنا نفقہ نہیں لے سکتے ہیں تو نفقہ کی مقدار کو سہم سادات میں سے ان کو دے سکتے ہیں۔
3۔ ضرورت مند سادات اگر خوراک اور لباس کے علاوہ ان کی شان کی مناسب دوسری چیز کے بھی محتاج ہوں تو ضرورت کی مقدار کے مطابق سہم سادات میں سے ان کو دینا جائز ہے۔
4۔ سیدہ عورت کا شوہر تنگدستی کی وجہ سے اس کا نفقہ نہیں دے سکتا ہو اور وہ بھی شرعا فقیر ہوتو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے سہم سادات لے سکتی ہے اور اس کو خود اور بچوں اور اپنے شوہر (اگرچہ سید نہیں ہے) پر خرچ کرسکتی ہے۔
4۔ واجب نفقہ نہ ہو
جو شخص کسی کا واجب النفقہ ہو، خمس نہیں دیا جاسکتا ہے مثلا انسان اپنے فقیر ماں باپ کو جن کی وہ مدد کرسکتا ہو، خمس نہیں دے سکتا ہے۔
5۔ گناہ میں خرچ نہ کرے
غیر عادل سید کو خمس دے سکتے ہیں لیکن وہ سید جو خمس کو گناہ میں خرچ کرتا ہے، اس کو خمس نہیں دے سکتے ہیں بلکہ اگر خمس دینا گناہ میں مدد کرنے شمار ہوجائے تو اس کو خمس نہیں دینا چاہئے اگرچہ گناہ میں خرچ نہ کرے۔
خمس کے متفرق مسائل
1۔ اس شخص کے یہاں کھانا کھانا جائز ہے جو اہل خمس نہیں ہے اور خمس کی ادائیگی اس کے مالک کے ذمے ہے۔
2۔ اگر خاندان کا سربراہ اپنے اموال کا خمس ادا نہ کرے تو اگرچہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے لیکن ان اموال میں خاندان کے افراد کا تصرف کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
3۔ جس شخص کے اموال میں خمس واجب ہوا ہو لیکن خمس ادا نہیں کرتا ہو چنانچہ کوئی معاملہ انجام دے تو وہ معاملہ صحیح ہے اور جس چیز کا معاملہ ہوا ہے وہ دوسرے فرد کو مل جاتی ہے البتہ وہ شخص (خمس کا) مقروض ہے اور خمس کو ادا کرنا چاہئے۔
4۔ ایسے مسلمانوں کے ساتھ میل جول رکھنا جو دینی امور اور خاص طور پر نماز اور خمس کے پابند نہیں ہیں اگر ان کے دینی امور کی پابندی نہ کرنے میں ان کی تائید نہ ہو تو اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ ان کے ساتھ معاشرت کا ترک کرنا ان کے دینی امور کو اہمیت دینے میں مؤثرہو ۔
5۔ جس شخص نے حج پر جانے کیلئے کچھ رقم وزارت حج کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی ہے لیکن خانہ خدا کی زیارت کا شرف حاصل کرنے سے پہلے دنیا سے چلا جائے تو اس کا ٹوکن موجودہ قیمت کے ساتھ اس کی وراثت شمار ہوگا اور اگر اس کے ذمے حج نہ ہو اور اس نے حج کی وصیت بھی نہ کی ہو تو اسے اس کے نیابتی حج میں خرچ کرنا واجب نہیں ہے اور اس ٹوکن کے مقابلے میں جو رقم ادا کی گئی ہے اگر وہ ایسی رقم ہو کہ جس میں خمس واجب تھا توا س کا اور ٹوکن کی قیمت میں پیدا ہونے والے اختلاف کی مقدار کا خمس ادا کرنا واجب ہے ۔
تمرین
1۔ معدنیات کے نصاب کی مقدار کیا ہے؟
2۔ جو شخص ایسے خاندان میں رہتا ہے کہ جو خمس اور زکات نہیں دیتا اور ان کے اموال سود کے ساتھ مخلوط ہیں اس کی ذمہ داری کیا ہے؟
3۔ سہم امام (ع) اور سہم سادات میں امام (ع) اور سادات سے کیا مراد ہے؟
4۔ بعض لوگ خود ہی سادات کے پانی اور بجلی کے بل ادا کر دیتے ہیں کیا اسے خمس کے طور پر شمار کرنا جائز ہے؟
5۔ جو سادات اپنا شغل اور کمائی رکھتے ہیں کیا وہ خمس کے مستحق ہیں؟
6۔ کیا اس فقیر علوی سید زادی کو سہم سادات دیا جاسکتا ہے کہ جو شادی شدہ ہے اور اس کے بچے ہیں لیکن اس کا شوہر غیر علوی اور فقیر ہے؟ اور کیا وہ اسے اپنے بچوں اور شوہر پر خرچ کرسکتی ہے؟