ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی
دریافت:

احکام آموزشی

  • پہلا جلد
    • پہلی فصل: تقلید
    • دوسری فصل: طہارت
    • تیسری فصل: نماز
    • چوتھی فصل: روزه
    • پانچویں فصل: خمس
      • سبق 66: خمس
      • سبق 67: آمدنی کا خمس(1)
      • سبق 68: آمدنی کا خمس (2)
      • سبق 69: آمدنی کا خمس(3)
      • سبق 70: درآمد کا خمس (4)
        پرنٹ  ;  PDF
         
        سبق 70: درآمد کا خمس (4)
        9۔ وہ موارد جن پر مؤونہ کا عنوان صدق نہیں کرتا ہے
        1۔ وہ چیزیں جو استعمال سے ختم ہوجاتی ہیں اور جو استعمال سے ختم نہیں ہوتیں
        وہ چیزیں جو استعمال کرنے سے ختم ہوجاتی ہیں جیسے چینی، چاول اور گھی وغیرہ اور زندگی کی روزمرہ کی ضروریات میں استعمال ہوتی ہیں اگر سال کی آمدنی سے سال کے دوران استعمال کرنے کیلئے خریدی ہوں اور انہیں استعمال بھی کرلے تو وہ مؤونہ شمار ہوں گی اور ان میں خمس نہیں ہے اور جتنی مقدار سال کے آخر تک استعمال نہ ہو وہ مؤونہ نہیں ہے اور اس کا خمس دینا ضروری ہے البتہ وہ چیزیں کہ جو استعمال کرنے سے ختم نہیں ہوتی ہیں مثلا رہائشی گھر، گھریلو وسائل، ذاتی گاڑی اور عورتوں کے زیورات وغیرہ کہ جو استعمال سے باقی رہتے ہیں اور انہیں ضروریات زندگی کے طور پر آمدنی سے خرید کر استعمال کیا جاتا ہو تو یہ مؤونہ ہیں اور ان میں خمس نہیں ہے۔

        توجہ
        جو چیزیں استعمال کرنے سے ختم نہیں ہوتیں اور باقی رہتی ہیں ان میں خمس کے واجب نہ ہونے کا معیار ان پر انسان کی عرفی حیثیت کے مطابق ضرورت کا صدق کرنا ہے اگرچہ پورا سال ان سے استفادہ نہ کرےپس اگر اتفاقاً قالین اور برتن سارا سال استعمال نہ ہوں لیکن مہمانوں کی خاطر ان کی ضرورت ہو تو ان میں خمس نہیں ہے لیکن استعمال کرنے سے ختم ہونے والی اشیاء میں معیار استعمال ہے لہذا ان میں سے جو کچھ سال کے دوران استعمال سے بچ جائے اس کا خمس دینا ضروری ہے۔
        وسائل الشیعہ جیسی کتابیں جو کئی جلدوں پر مشتمل ہیں اگر پوری کتاب کی ضرورت ہو یا جس جلد کی ضرورت ہے اس کا خریدنا پوری کتاب کے خریدنے پر موقوف ہو تو اس میں خمس نہیں ہے ورنہ جن جلدوں کی اس وقت ضرورت نہیں ہے ان کا خمس دینا ضروری ہے اور کتاب کی ہر جلد سے فقط ایک صفحہ پڑھ لینا خمس کے ساقط ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔
        ضرورت کا رہائشی گھر مؤونہ ہے لہذا تین منزلہ گھر کہ جس کی ایک منزل میں مالک خود اور دوسری دو منزلوں میں اس کے بیٹے رہتے ہیں اس میں خمس نہیں ہے۔
        وہ گاڑی کہ جسے دوران سال کی آمدنی سے اپنے ذاتی استعمال اور زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے خریدا ہے اور انسان کی عرفی حیثیت کے مطابق اس کی ضروریات کا حصہ ہو تو یہ مؤونہ ہے اور اس میں خمس نہیں ہے ہاں اگر اسے کام کیلئے خریدا ہو مثلا ٹیکسی، وانٹ، منی بس اور بس تو وجوب خمس کے لحاظ سے اس کا حکم کام کے آلات والا حکم ہے۔
        وہ دوائیں کہ جنہیں دوران سال کی آمدنی سے خریدا جاتا ہے اور خراب ہوئے بغیر خمس کے سال کے آخر تک باقی رہتی ہیں اگر انہیں ضرورت کے وقت استعمال کیلئے خریدا ہو اور ان کی ضرورت پیش بھی آسکتی ہو تو وہ مؤونہ ہیں اور ان میں خمس نہیں ہے۔
         
        2۔ ضرورت کی وہ چیزیں کہ جنہیں انسان بتدریج مہیا کرتا ہے
        گھریلو لوازمات، جہیز اور رہائش کیلئے گھر وغیرہ جیسی ضرورت کی چیزیں کہ جنہیں انسان ضرورت کے موقع پر ایک ہی مرتبہ نہیں خرید سکتا بلکہ کئی سالوں کی آمدنی سے انہیں بتدریج مہیا کرتا ہے اور وقتِ ضرورت کیلئے محفوظ کرلیتا ہے تو ان میں سے انسان ہر سال جتنا اپنی عرفی حیثیت کے مطابق مہیا کرتا ہے وہ مؤونہ ہے اور اس میں خمس نہیں ہے۔

        توجہ
        اگر کسی علاقے میں رسم یہ ہو کہ سامان اور گھریلو وسائل لڑکے والے تیار کرتے ہوں چنانچہ وہ اسے وقت کےساتھ ساتھ اور بتدریج تیار کریں اور اس پر سال گزر جائے تو اگر مستقبل کیلئے ضروریات زندگی کی تیاری عرف میں مؤونہ کا حصہ شمار ہو تو اس میں خمس نہیں ہے۔
        اگر کسی شخص کے پاس رہائش کیلئے گھر نہیں ہے لیکن اس کے پاس ایک پلاٹ ہے کہ جس پر خمس کا سال گزرگیا ہو چنانچہ اگر اس نے وہ پلاٹ اپنی ضرورت کا گھر بنانے کیلئے دوران سال کی آمدنی سے خریدا ہو تو یہ اس کے موجودہ مخارج میں سے شمار ہوگا اور اس کا خمس واجب نہیں ہے حتی کہ اس کو فروخت کرے اور دوسرا گھر بنانے میں خرچ کرےلیکن اگر اسے سال کی آمدنی سے اس ارادے سے خریدا ہو کہ اسے بیچ کر اس کا پیسہ گھر کی تعمیر کیلئے خرچ کرے یا اس پیسے کواس مقصد کے لئے بچت کرے تواحتیاط کی بناپر اس کا خمس دینا واجب ہے۔
        گھر بنانے کیلئے جس زمین کی ضرورت ہے اس میں خمس کے واجب نہ ہونے کے اعتبار سے فرق نہیں ہے کہ وہ ایک پلاٹ ہو یا چند پلاٹ اور ایک گھر ہو یا چند گھر بلکہ اس کا معیار اس پر انسان کی عرفی حیثیت اور مقام کے مطابق ضرورت کا صدق کرنا اور اسی طرح اس میں بتدریج گھر کی تعمیر کیلئے اس کی مالی حیثیت ہے۔
        اگر کسی کے پاس رہائش کیلئے اپنا گھر نہ ہو اور دوران سال کی آمدنی سے زمین خریدے تاکہ اس میں اپنے لئے گھر بناسکے چنانچہ اس کی تعمیر شروع کرے لیکن اس کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے خمس کی تاریخ آجائے تو جو کچھ بلڈنگ کے میٹیریل میں خرچ کرچکا ہے اس میں خمس نہیں ہے۔
        اگر کوئی شخص اپنی حیثیت کے مطابق کوئی گھر بنائے تو مؤونہ شمار ہوگا اگرچہ کچھ وجوہات کی بناپر اس میں سکونت اختیار نہ کرسکے یا کچھ مدت کے بعد اس میں سکونت اختیار کرنے سے منحرف ہوجائے۔
         
        3۔ قرض کی ادائیگی
        1۔ سال کی آمدنی سے جو کچھ بچ جائے اگرچہ کم ہو پھر بھی اس کا خمس ادا کرنا چاہئے اگرچہ قرض یا مؤونہ کی قسط کی بابت کیوں نہ ہو لیکن اگر اپنا قرض اسی سال کے منافع سے یا سال گزرنے کے مختصر مدت بعد ادا کرے جو مقدار عرفا سال کے مخارج میں شمار ہوجائے اس میں خمس نہیں ہے۔
        2۔ اگر منافع ملنے سے پہلے زندگی کے مخارج کے لئے قرض حاصل کرے یا جس پیسے سے خمس تعلق نہیں رکھتا ہے مثلا ارث سے پیسے لے تو احتیاط واجب کی بناپر ان مخارج کو منافع سے کم نہیں کرسکتا ہے اور اس کا خمس ادا کرنا چاہئے۔
        3۔ خمس تعلق نہ رکھنے والے مال سے منافع حاصل کرنے کے بعد اس کو زندگی کے مخارج میں استعمال کرے تو اس رقم کو سال کے منافع سے کسر کرسکتا ہے۔
        4۔ قرض کی بابت سال کی آمدنی کو خرچ کرنا اگرچہ قرض مؤونہ نہ ہو پھر بھی جائز ہے لیکن اگر سال کے اختتام تک ادا نہ کرے تو جس سال قرض لیا گیا ہے اس سال کی آمدنی سے استثنا نہیں ہوگا اور آمدنی سے جو مقدار بچ جائے اس کا خمس دینا چاہئے مگر یہ کہ وہ قرض مؤونہ کے عنوان سے اور موجودہ منافع سے حاصل کیا گیا ہو خواہ قرض طلب کرنے کے طریقے سے ہو یا فی الذمہ خریدنے کے طریقے سے ہو یا کسی اور طریقے سے۔
         
        4۔ کرائے وغیرہ کی ایڈوانس رقم
        1۔ کرایہ دار مالک مکان کو جو پیسہ ایڈوانس دیتا ہے اگر کرایہ دار کی آمدنی میں سے ہو تو سال گزرنے کے بعد اس میں خمس ہے اور جب بھی کرایہ دار اس پیسے کو مالک سے وصول کرے اس کا خمس ادا کرنا چاہئے مگریہ کہ گھر کے کرایے کے لئے اس پیسے کی ضرورت ہو اس صورت میں ضرورت پوری ہونے تک خمس کی ادائیگی میں تاخیر کرسکتا ہے۔
        2۔ حج یا عمرہ سے مشرف ہونے کے لئے جو رقم بینک میں جمع کی جاتی ہے تاکہ باری آنے پر جمع شدہ رقم اور منافع کو دریافت کرے اور حج اور عمرے کی سعادت حاصل کرے چنانچہ اگر خمس والے اسی سال میں حج پر چلے جائیں کہ جس سال پیسے جمع کرائے تھے تو اس میں خمس نہیں ہے لیکن اگر ان کے حج کی باری خمس والے سال کے بعد آئے تو چنانچہ اصل پیسہ سال کی آمدنی سے ہو تو اس میں خمس واجب ہوگا رہا اس کا منافع تو اگر اسے سفر حج پر جانے والے سال سے پہلے وصول کرنا ممکن نہ ہو تو یہ وصولی والے سال کی آمدنی شمار ہوگا لذا اگر اسی سال خرچ ہوجائے تو اس میں خمس نہیں ہے۔
         
        تمرین
        1۔ کیا مؤونہ میں خمس کے واجب نہ ہونے کا معیار دوران سال میں اس کا استعمال کرنا ہے یا یہ کہ سال کے دوران اس کی ضرورت ہونا ہی کافی ہے اگرچہ اس کے استعمال کا موقع نہ آئے؟
        2۔ وہ دوائیں جو دوران سال کی آمدنی سے خریدی جاتی ہیں اگر خراب ہوئے بغیر خمس والے سال کےآخر تک پڑی رہیں تو کیا ان میں خمس واجب ہوگا؟
        3۔ ایک شخص کے پاس رہائش کیلئے اپنا گھر نہیں ہے اس لئے وہ زمین خریدتا ہے تاکہ اس میں اپنے لئے گھر بنا سکے لیکن چونکہ اس کے پاس گھر کی تعمیر کیلئے کافی مقدار میں پیسہ نہیں تھا اس لئے اس پر سال گزر گیا اور اس نے اسے بیچا بھی نہیں تو کیا اس میں خمس واجب ہے؟
        4۔ جن ملازمین کے سالانہ مخارج سے بعض اوقات کچھ مال بچ جاتا ہے اس چیز کے پیش نظر کہ ان کے ذمے قرض ہوتا ہے کہ جسے فوری اور قسطوں کی صورت میں ادا کرنا ہوتا ہے کیا ان پر خمس واجب ہے؟
        5۔ رائج طریقے کے مطابق گھر کرائے پر لینے کیلئے کچھ پیسہ ایڈوانس دینا پڑتا ہے اگر یہ پیسہ کمائی کی آمدنی میں سے ہو اور کئی سال تک مالک کے پاس رہے تو کیا وصولی کے فوراً بعد اس کا خمس دینا واجب ہے ؟ اور اگر اس پیسے کے ساتھ کسی دوسری جگہ گھر کرائے پر لینا چاہتا ہو تو حکم کیا ہے؟
        6۔ حج کی خاطر نام لکھوانے کیلئے جو پیسہ دیا جاتا ہے اور اس پر کئی سال گزر جاتے ہیں کیا اس میں خمس ہوتا ہے؟
         
         
      • سبق 71: آمدنی کا خمس(5)
      • سبق 72: آمدنی کا خمس (6)
      • سبق 73: معدن کا خمس۔ خزانہ ...
    • چھٹی فصل: انفال
    • ساتھویں فصل: جہاد
    • آٹھویں فصل: امر بالمعروف اور نہی از منکر
700 /