دریافت:
احکام آموزشی
- پہلا جلد
- پہلی فصل: تقلید
- دوسری فصل: طہارت
- تیسری فصل: نماز
- چوتھی فصل: روزه
- سبق 58: روزہ (1)
سبق 58: روزہ (1)
روزہ کے معنی۔ روزے کی اقسام۔ واجب روزے۔ روزہ واجب ہونے کی شرائط۔ روزہ صحیح ہونے کی شرائط1۔ روزہ کے معنی
دین مقدس اسلام میں روزہ یہ ہے کہ انسان اللہ کا حکم بجالانے کی نیت سے طلوع فجر سے مغرب تک کھانے پینے اور ان چیزوں سے جن کی تفصیل بعد آئے گی پرہیز کرے۔
توجہروزے کے وقت کے بارے معیار صبح صادق ہے نہ کاذب اور اس کو ثابت کرنا مکلف کی اپنی تشخیص پر مبنی ہے۔
طلوع فجر (روزہ رکھنے کے لئے پرہیز کرنا واجب ہونے کاوقت) میں چاندنی رات اور دوسری راتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
روزے کے دوران پرہیز میں احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے لازم ہے کہ ذرائع ابلاغ سے اذان صبح شروع کے ساتھ روزے کے لئے امساک کرے۔
اگر روزے دار کو اطمینان ہوجائے کہ اذان وقت داخل ہونے کے ساتھ شروع ہوئی ہے تو اذان شروع ہوتے ہی افطار کرنا جائز ہے اور اذان ختم ہونے تک صبر کرنا لازم نہیں ہے۔
2۔ روزے کی اقسام
ایک لحاظ سے روزے کی چار قسمیں ہیں
1۔ واجب روزے مثلا ماہ مبارک رمضان کے روزے
2۔ مستحب روزے مثلا ماہ رجب اور شعبان کے روزے
3۔ مکروہ روزے مثلا عرفہ کے دن کا روزہ اس صورت میں جب کمزوری کی وجہ سے عرفہ کے اعمال میں مانع بن جائے
4۔ حرام روزے مثلا عید فطر (یکم شوال) عید قربان (دہم ذی الحجہ) کے روزے
3۔ واجب روزے
1۔ ماہ مبارک رمضان کے روزے
2۔ قضا روزہ
3۔ کفارے کا روزہ
4۔ ایام اعتکاف میں تیسرے دن کا روزہ
5۔ حج تمتع [1]میں قربانی کے بدلے روزہ
6۔ وہ مستحب روزہ جو نذر، عہد اور قسم کی وجہ سے واجب ہوا ہو[2]
7۔ باپ اور احتیاط واجب کی بناپر ماں کے قضا روزے جو بڑے بیٹے پر واجب ہیں
روزہ واجب ہونے اور صحیح ہونے کی شرائطروزہ واجب ہونے کی شرائط
1۔ اسلام
2۔ ایمان
3۔ عقل
4۔ بے ہوش نہ ہو
5۔ مسافر نہ ہو
6۔ حیض اور نفاس کی حالت میں نہ ہو
7۔ مضرنہ ہو
8۔ روزہ حرج کا باعث نہ ہو
توجہروزہ صحیح ہونے کے لئے جتنی شرائط بیان کی گئی ہیں وہ روزہ واجب ہونے کے لئے بھی شرط ہیں سوائے اسلام اور ایمان کے ۔ روزہ واجب ہونے کی ایک شرط بلوغ ہے بنابراین نابالغ بچے پر روزہ واجب نہیں ہے اگر مستحب روزے کی نیت کی ہو اور دن کے دوران بالغ ہوجائے البتہ اذان صبح سے پہلے بالغ ہوجائے تو روزہ رکھنا چاہئے۔
روزہ ان افراد پر واجب ہے جن میں مندرجہ بالا شرائط موجود ہوں بنابراین نابالغ بچہ، دیوانہ، بے ہوش ، وہ شخص جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ہو، نفساء اور حائضہ عورت، مسافر، وہ شخص جس کے لئے روزہ مضر یا حرج (زیادہ مشقت) ہو، ان پر واجب نہیں ہے (آئندہ اسباق میں مزید وضاحت کی جائے گی)
انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ افطار نہیں کرسکتا ہے لیکن اگر اس کی کمزوری اتنی زیادہ ہو کہ معمولا برداشت سے باہر ہو تو روزہ افطار کرسکتا ہے اسی طرح اگر جانتا ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر ہے یا ضرر کا خوف ہو۔ بنابراین وہ لڑکیاں جو بلوغ کی عمر کو پہنچی ہوں (مشہور کے نظریے کے مطابق قمری نو سال مکمل ہوجائے) تو ان پر روزہ رکھنا واجب ہے اور صرف دشواری اور جسمانی کمزوری وغیرہ کی وجہ سے اس کو ترک کرنا جائز نہیں البتہ اگر ان کے لئے ضرر ہو یا اس کو برداشت کرنا زیادہ مشقت کا باعث ہو تو افطار کرسکتی ہیں۔
اگر کوئی جانتا ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر ہے یا ضرر کا خوف ہو تو روزہ کو ترک کرنا چاہئے اور اگر روزہ رکھے تو صحیح نہیں ہے بلکہ بعض صورتوں میں حرام ہے چاہے یہ یقین اور خوف ذاتی تجربے سے حاصل ہوجائے یا امین ڈاکٹر کے کہنے سے یا کسی دوسرے عقلانی ذریعےسے حاصل ہوجائے اور اگر روزہ رکھے تو صحیح نہیں ہے مگر یہ قصد قربت کے ساتھ رکھے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ مضر نہیں تھا۔
بیماری کی ایجاد میں روزے کی تاثیر یا بیماری میں شدت اور روزے کی طاقت نہ رکھنےیا روزے کے مضر ہونے کی تشخیص مکلف کی اپنی ذمہ داری ہے بنابراین اگر ڈاکٹر کہے کہ روزہ مضر ہے لیکن اس کا کہنا اطمینان کا باعث یا ضرر سے خوف کا سبب نہ بنے یا مکلف کو ذاتی تجربے کی بنیاد پر معلوم ہو کہ ضرر نہیں ہے تو روزہ رکھنا چاہئے اور اسی طرح اگر ڈاکٹر کہے کہ روزہ مضر نہیں ہے لیکن روزہ دار جانتا ہے کہ روزہ مضر ہے یا ضرر کا معقول خوف ہو تو روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور اس پر روزہ حرام ہے۔
اگر کسی کا عقیدہ یہ تھا کہ روزہ اس کے لئے مضر نہیں ہے اور روزہ رکھے اور بعد میں پتہ چلے کہ اس کے لئے روزہ مضر تھا تو اس کی قضابجالانا چاہئے۔
ضرر ہونے کی وجہ سے مریضوں کو روزہ رکھنے سے منع کرنے والے ڈاکٹروں کی بات اس صورت میں معتبر ہے جب قابل اطمینان ہو یا ضرر کے خوف کا باعث بنے اس صورت کے علاوہ کوئی اعتبار نہیں ہے۔
جس شخص پر ماہ رمضان کے روزے کی قضا واجب ہو مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا ہے حتی اگر جب واجب روزے کی نیت کا وقت ختم ہوجائے (یعنی ظہر کے بعد) توبھی مستحب روزے کی نیت کرے تو صحیح نہیں ہے اور چنانچہ بھول جائے اور مستحب روزہ رکھے تو چنانچہ دن میں (ظہر سے پہلے ہو یا بعد میں) یاد آئے تو اس کا مستحب روزہ باطل ہوگا ۔ پس اگر ظہر سے پہلے ہوتو ماہ رمضان کے روزے کی قضا کی نیت کرسکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اگر ظہر کے بعد ہو تو قضا روزے کی نیت بھی صحیح نہیں ہے۔
اگر کسی کے ذمے ماہ رمضان کے روزے کی قضا ہو چنانچہ مستحب نیت سے روزہ رکھے تو اس کے ذمے واجب روزے کی قضا شمار نہیں ہوگا۔
اگر کوئی شخص نہیں جانتا ہو کہ اس کے ذمے قضا روزہ ہے یا نہیں چنانچہ قضا یا مستحب روزے سے بالاتر شرعی وظیفے کی نیت سے روزہ رکھے اور حقیقت میں اس کے ذمے قضا روزہ ہو تو قضا روزہ شمار ہوگا۔
تمرین
1۔ روزے سے کیا مراد ہے؟
2۔ واجب روزوں کے نام بتائیں۔
3۔ اگر ڈاکٹر کسی شخص کو روزہ رکھنے سے منع کرے تو کیا اسکی بات پرعمل کرنا واجب ہے؟
4۔روزہ واجب ہونے کی شرائط بیان کریں۔
5۔ تازہ بالغ ہونے والی لڑکیوں کے لئے روزہ رکھنا مشکل ہوتو کیا حکم ہے؟
6۔ روزہ صحیح ہونے کی شرائط کیا ہیں؟
7۔ اگر کوئی شخص قضا روزے کے بارے میں علم نہیں رکھتا ہو اور مستحب روزہ رکھے اور بعد میں علم ہوجائے کہ اس کے ذمے قضا روزہ ہے تو وہ روزہ قضا شمار ہوگا ؟
- سبق 59: روزہ (2)
سبق 59: روزہ (2)
روزے کی نیت6۔ روزے کی نیت
1۔ نیت کے معنی اور لازم ہونا
دیگر عبادتوں کی طرح روزہ بھی نیت کے ساتھ ہونا چاہئے یعنی اللہ تعالی کی فرمان برداری کے لئے کھانے ،پینے اورروزہ کو باطل کرنے والی باقی چیزوں سے اجتناب کرے۔ البتہ یہی عزم رکھتا ہو تو بھی کافی ہے اورزبان پر لانے کی ضرورت نہیں ہے.
2۔ نیت کا وقت
مستحب روزہ ہو
رات کی ابتدا سے لے کر مغرب کے وقت تک نیت کرنے کا وقت باقی ہو
واجب روزہ ہو
معین واجب روزہ ہو مثلا ماہ رمضان کا روزہ تو طلوع فجر تک نیت صحیح ہے
زوال سے پہلے تک نیت کرنا چنانچہ عمدا ہوتو صحیح نہیں ہے
اگر فراموشی یا بے خبری کی وجہ سے ہوتورمضان کے علاوہ صحیح ہے اور رمضان میں احتیاط واجب کی بناپر روزے کی نیت کرے اور روزہ رکھے اور بعد میں اس دن کے روزے کی قضا بھی کرے۔
زوال کے بعد نیت صحیح نہیں ہے
غیر معین واجب ہو مثلا ماہ رمضان کے روزے کی قضا
زوال سے پہلے نیت صحیح ہے
زوال کے بعد صحیح نہیں ہے
1۔ چونکہ روزے کا آغاز اول صبح سے ہوتا ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کی نیت کرنے میں بھی اس سے تاخیر نہ کرے اور بہتر ہے کہ طلوع فجر سے پہلے روزے کی نیت کرے۔
2۔ اگرکوئی شخص رات کے ابتدائی حصے میں اگلےدن کے روزے کی نیت کرے ؛اس کے بعد سوجائے اور اذان صبح کے بعد تک بیدار نہ ہوجائے یا کسی کام میں مشغول ہوجائے اورصبح کا وقت ہونے سے غافل ہوجائے اور صبح ہونے کے بعد متوجہ ہوجائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
3۔ اگر کوئی شخص رمضان میں طلوع فجر تک عمدا روزے کی نیت نہ کرے اگرچہ دن میں روزے کی نیت کرے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہے البتہ ضروری ہے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والی چیزوں سے اجتناب کرے اور ماہ رمضان کے بعد اس دن کے روزے کی قضا بجالائے۔
4۔ اگر کوئی شخص رمضان میں بھول کر یا خبر نہ ہونے کی وجہ سے روزے کی نیت نہ کرے اور دن میں متوجہ ہوجائے چنانچہ روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دیا ہو تو روزے کی نیت نہیں کرسکتا ہے خواہ ظہر سے پہلے متوجہ ہوجائے یا بعد میں، لیکن اگر روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہیں دیا ہو تو چنانچہ ظہر کے بعد متوجہ ہوجائے تو روزے کی نیت صحیح نہیں ہے اور دونوں صورتوں میں مغرب تک روزے کو باطل کرنے والی چیزوں سے پرہیز کرنا ضروری ہے اور اگر ظہر سے پہلے متوجہ ہوجائے تو احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہے کہ روزے کی نیت کرے اور بعد میں اس دن کے روزے کی قضا بھی بجالائے۔
5۔ اگر انسان پر ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور مخصوص روزہ واجب ہو مثلا نذر کی ہو کہ کسی مخصوص دن روزہ رکھے گا چنانچہ عمد ا طلوع فجر تک نیت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر بھول جاے اور ظہر سے پہلے یاد آئے توروزے کی نیت کرسکتا ہے۔
6۔ اگر غیر مخصوص واجب روزہ مثلا کفارے کا روزہ یا قضا روزے کے لئے (عمدا یا سہوا) ظہر سے پہلے تک نیت نہ کرے چنانچہ اس وقت تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہیں دیا ہو تو روزے کی نیت کرسکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہے لیکن ظہر کے بعد روزے کی نیت کرنا صحیح نہیں ہے۔
7۔ انسان جب چاہے مستحب روزے کی نیت کرسکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہے البتہ یہ شرط ہے کہ اس وقت تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام سرزد نہ ہوا ہو۔
8۔ اگر مریض ماہ رمضان میں دن کو ٹھیک ہوجائےتو روزے کی نیت کرنا اور اس دن کا روزہ رکھنا واجب نہیں ہے لیکن اگر ظہر سے پہلے ہو اور روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام اس سے سرزد نہ ہوا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ روزے کی نیت کرے اور روزہ رکھے اور ماہ رمضان کے بعد اس دن کی قضا بھی بجالائے۔
3۔ یوم الشک کی نیت
جس دن کے بارے میں انسان کو شک ہو کہ شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پہلا دن (یوم الشک) اس دن روزہ رکھنا واجب نہیں ہے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو رمضان کے روزے کی نیت نہیں کرسکتا ہے بلکہ شعبان کے آخری مستحب روزے یا قضا روزےوغیرہ کی نیت کرسکتا ہے اور اگر بعد میں معلوم ہوجائے کہ رمضان تھا تو رمضان کا روزہ شمار ہوگا اور اس دن کی قضا لازم نہیں اور اگر دن کو پتہ چلے کہ ماہ رمضان ہے تو اسی وقت رمضان کے روزے کی نیت کرے۔
4۔ نیت میں استمرار
1۔ روزے میں واجب ہے کہ نیت برقرار رہے۔
2۔ وہ چیز جو نیت کے استمرار کو ختم کرتی ہے
1۔ روزہ ختم کرنے کی نیت (یعنی دن کو روزہ رکھنے کی نیت سے اس طرح پھرجائے کہ روزہ کو جاری رکھنے کا قصد نہ رکھے) تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور دوبارہ روزے کو جاری رکھنے کی نیت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے (البتہ اذان مغرب تک روزے کو باطل کرنے والے کاموں سے پرہیز کرنا چاہئے)
2۔ روزے کو جاری رکھنے میں تردد کرنا
3۔ روزے کو باطل کرنے کی نیت کرنا (یعنی ایسا کام کرنے کا مصمم ارادہ کرے جو روزے کو باطل کرتا ہے اور ابھی تک انجام نہ دیا ہو)
آخری دو صورتوں میں احتیاط واجب یہ ہے کہ روزے کو پورا کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی کرے
توجہ
مندرجہ بالا احکام معین واجب روزے مثلا ماہ رمضان اور معین نذر وغیرہ کے ہیں لیکن مستحب روزے اور غیر معین واجب روزے جن کا وجوب کسی دن سے مخصوص نہیں ہے؛ ان میں روزہ ختم کرنے کا مصمم ارادہ کرے لیکن روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام سرزد نہ ہوجائے اور بعد میں دوبارہ ظہر سے پہلے (اور مستحب میں مغرب سے پہلے) نیت کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
تمرین
1۔ اگر کوئی رات کےابتدا میں اگلے دن کے روزے کی نیت کرے اور اس کے بعد سوجائے اور اذان صبح تک بیدار نہ ہوجائے تو کیا روزہ صحیح ہے؟
2۔ مستحب روزے کی نیت کب تک کرسکتے ہیں؟
3۔ یوم الشک کا حکم بیان کریں۔
4۔ روزہ باطل کرنے کی نیت اور قاطع کی نیت میں کیا فرق ہے؟
5۔ اگر کوئی ماہ رمضان میں روزہ باطل کرنے کا مصمم ارادہ کرے لیکن روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے سے پہلے اپنے ارادے سے منصرف ہوجائے تو اس کے روزے کا کیا حکم ہے؟
- سبق 60: روزہ (3)
سبق 60: روزہ (3)
مبطلات روزہ ((1))7 ۔ مبطلات روزہ
1۔ کھانا پینا
2۔ جماع کرنا
3۔ اسمتناء ( اپنے ہاتھوں سے منی خارج کرنا)
4۔ خدا، پیغمبرپر اور ائمہ علیہم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا(احتیاط واجب کی بناپر)
5۔ غلیظ غبار حلق تک پہنچانا(احتیاط واجب کی بناپر)
6۔ پورے سر کو پانی میں ڈبونا(احتیاط واجب کی بناپر)
7۔ اذان صبح تک جنابت، حیض اور نفاس کی حالت میں باقی رہنا
8۔ روان اور مائع چیزوں کے ذریعے امالہ کرنا (حقنہ لینا)
9۔ عمدا قے کرنا
توجہروزے کو باطل کرنے والے کاموں کو مفطرات روزہ کہتے ہیں۔
1۔ کھانا اور پینا
1۔ اگر روزے دار عمدا اور آگاہانہ کوئی چیز کھائے یا پیئے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتاہے خواہ وہ چیز ایسی ہو جسے عموما کھایا پیا جاتا ہو یا ایسی ہو جسے کھایا پیا نہ جاتا ہو مثلا کاغذ اور کپڑا وغیرہ ، خواہ زیادہ ہو یا کم ہو مثلا پانی کے چھوٹے قطرے یا روٹی کا چھوٹا ٹکڑا۔
2۔ اگر روزے دار دانتوں کے ریخوں میں پھنسی ہوئی غذا عمدا نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے لیکن اگر ریخوں میں غذا ہونے کا علم نہ ہو یا نگلنا عمدا اور توجہ کے ساتھ نہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔
3۔ اگر روزے دار سہوا کوئی چیز کھا یا پی لے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا ہے خواہ واجب روزہ ہو یامستحب۔
4۔ منہ کا پانی نگلنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔
5۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزےدار طاقتی انجکشن اور رگوں میں ڈالے جانے والے انجکشن اور مختلف انواع کے ڈرپ سے پرہیز کرے لیکن عضلات میں ڈالے جانے والا انجکشن جو طاقتی نہ ہو مثلا اینٹی بایوٹیک یا درد کو ختم کرنے والا یا بے حس کرنے والا انجکشن اور نیز زخموں اور جراحت پر ڈالنے والی دوائیاں استعمال کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
6۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزے دار نشے کے مواد سے جو ناک یا زبان کے نیچے جذب ہوتے ہیں، پرہیز کرے۔
7۔ اگر کوئی شخص غذا کھانے کے دوران متوجہ ہوجائے کہ صبح ہوئی ہے تو ضروری ہے کہ لقمے کو منہ سے باہر نکالے اور اگر عمدا نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہوگا (عمدا روزے کو باطل کرنے والے کا حکم بعد میں بیان کیا جائے گا)
8۔ سر اور سینے کا بلغم جب تک منہ کے اندر والے حصے تک نہ پہنچےاسے نگلنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے لیکن اگر منہ میں آجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اسے نہ نگلے۔
9۔ اگر بیماری کا علاج کرنے کے لئے ضروری ہو تو دوائی وغیرہ کھانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن روزہ باطل ہوگا اور اس کی قضا بجالانا ضروری ہے۔
10۔ بچے کے لئے غذا کو چبانا اور غذا کو چکھنا وغیرہ جس سے عموما غذا حلق تک نہیں پہنچتی ہے ، روزے کو باطل نہیں کرتا ہے خواہ وہ اتفاقا اور بے اختیار حلق تک پہنچ جائے لیکن اگر انسان شروع سے جانتا ہو کہ حلق تک پہنچ جائے گی تو نیچے چلی جانے کی صورت میں روزہ باطل ہوجاتا ہے۔
11۔ مسوڑوں اور دانتوں سے نکلنے والا خون جب تک حلق میں نہ جائے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے اور چنانچہ اگر منہ کے پانی میں مل کر ختم ہوجائے تو پاک کے حکم میں ہے اور اسے نگلنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور روزے کو باطل نہیں کرتا ہے اسی طرح اگر آب دہان کے ساتھ خون ہونے کے بارے میں شک ہوجائے تو اس کو نگلنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور روزے کے صحیح ہونے میں کوئی ضرر نہیں پہنچاتا ہے۔
توجہمنہ سے خون نکلنے سے ہی روزہ باطل نہیں ہوتا ہے لیکن اس کو حلق میں پہنچنے سے روکنا واجب ہے۔
2۔ جماع (جنسی آمیزش)
1۔ جنسی ملاپ روزے کو باطل کرتا ہے اگرچہ منی نہ نکلے۔
2۔ اگر روزے سے ہونا فراموش کرے اور جماع کرے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا ہے لیکن جب بھی یاد آئے فورا خود کو جماع کی حالت سے خارج کرنا چاہئے ورنہ روزہ باطل ہوگا۔
3۔ استمنا (جنسی خودارضائی)
1۔ اگر روزہ دار عمدا ایسا کام کرے جس سے منی نکلے تو اس کا روزہ باطل ہوتا ہے۔
2۔ دن میں محتلم ہونا (نیند میں منی خارج ہونا) روزے کو باطل نہیں کرتا ہے اور اگر روزہ دار جانتا ہو کہ دن کو سوجائے تو محتلم ہوگا تو سونے سے اجتناب کرنا لازم نہیں ہے۔
3۔ اگر روزہ دار منی خارج ہونے کے دوران نیند سے بیدار ہوجائے تو اس کو روکنا واجب نہیں ہے۔
4۔ خدا، پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا
1۔ خدا، پیغمبروں اور معصومین علیہم السلام سے جھوٹی بات منسوب کرنا احتیاط واجب کی بناپر روزہ باطل ہونے کا باعث ہے اگرچہ بعد میں توبہ کرے اور کہے کہ جھوٹی نسبت دی ہے۔
2۔ کتابوں میں آنے والی روایات کو نقل کرنا جن کے بارے میں انسان کو جھوٹ ہونے کا علم نہ ہو کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان کو کتاب کی طرف نسبت دیتے ہوئے نقل کرے (مثلا کہے کہ فلاں کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ پیغمبرﷺ نے فرمایا:۔۔۔)
5۔ غلیظ غبار حلق تک پہنچانا
1۔ احتیاط واجب کی بناپر روزے دارکو چاہئے کہ غلیظ غبار مثلا مٹی والی زمین پر جھاڑو دینے سے اٹھنے والا غبار حلق تک نہ پہنچائے لیکن حلق تک پہنچے بغیر غبار کا صرف منہ اور ناک کے اندر جانا روزے کو باطل نہیں کرتا ہے اسی طرح سیگریٹ وغیرہ کا دھواں بھی احتیاط واجب کی بناپر روزے کو باطل کرتا ہے۔
2۔ سانس کی بیماری کی دوائی کے طور پراسپرے استعمال کرناکوئی اشکال نہیں رکھتا ہے اور روزہ باطل ہونے کا باعث نہیں ہے۔
تمرین
1۔ مبطلات روزہ کون کون سے ہیں؟
2۔ روزے کی حالت میں انجکشن اور ڈرپ لگانے کا کیا حکم ہے؟
3۔روزے کی حالت میں بلڈ پریشر کی دوائی کھانا جائز ہے یا نہیں اور روزے کو نقصان پہنچاتا ہے یا نہیں؟
4۔ دن کو احتلام ہونے سے روزہ باطل ہوتا ہے یا نہیں؟
5۔ روزے کی حالت میں کتابوں سے روایات کو نقل کرنا جن کے جھوٹ ہونے کا انسان کو علم نہیں ، کیا حکم رکھتا ہے؟
6۔ روزے کی حالت میں سیگریٹ وغیرہ استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟
- سبق 61: روزہ (4)
سبق 61: روزہ (4)
مبطلات روزہ ((2))6 سر کو پانی میں ڈبونا
1۔ اگر روزے دار عمدا پورے سر کو پانی میں ڈبوئے تو احتیاط واجب کی بناپر روزہ باطل ہوجاتا ہے اور ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا بجالائے۔
2۔ گذشتہ مسئلے میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سر کو پانی میں ڈبونے کے دوران بدن بھی پانی میں ہو یا بدن پانی سے باہر ہو اورصرف سر کو ڈبوئے۔
3۔ اگرکوئی شخص آدھے سر کو پانی میں ڈبوئے اور باہر نکالنے کے بعد باقی آدھا حصے کو پانی میں ڈبوئے تو روزہ باطل نہیں ہوگا۔
4۔ اگر کوئی شخص عمدا پورا سر پانی میں ڈبوئے لیکن تھوڑے بال پانی سے باہر رہیں تو احتیاط واجب کی بناپر روزہ باطل ہوتا ہے۔
5۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ پورا سر پانی میں ڈوبا ہے یا نہیں تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
6۔ اگر روزے دار بے اختیار پانی میں گرجائے اور پورا سر پانی میں ڈوب جائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا لیکن ضروری ہے کہ فورا سر کو پانی سے باہر نکالے اسی طرح اگر کوئی شخص روزے کو فراموش کرے اور سر پانی میں ڈبودےتو روزہ باطل نہیں ہوگا لیکن جب بھی یاد آئے ضروری ہے کہ فورا سر کو پانی سے باہر نکالے۔
7۔ جو شخص مخصوص لباس (مثلا غوطہ خوروں کا لباس) پہن کر بدن تر ہوئے بغیر پانی میں ڈبکی لگائے چنانچہ لباس اس کے سر سے چسپان ہو تو روزے کا صحیح ہونا محل اشکال ہے اور احتیاط واجب کی بناپر اس کی قضا ضروری ہے۔
8۔ سر پر پانی ڈالنا یا حمام میں فوارے کے نیچے کھڑا ہونا روزے کو باطل نہیں کرتا ہے۔
7۔ اذان صبح تک جنابت، حیض اور نفاس کی حالت میں باقی رہنا
1۔ اگر کوئی ماہ رمضان کی رات میں جنب ہوجائے تو ضروری ہے کہ اذان صبح سے پہلے غسل کرے اور اگر عمدا اس وقت تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہوتا ہے یہ حکم ماہ رمضان کے قضا روزے کے بارے میں بھی جاری ہوگا البتہ ماہ رمضان میں مغرب تک روزے کو باطل کرنے والے کاموں سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
توجہ
اگر ماہ رمضان کی رات میں جنب ہوجائے اور بغیر عمد کے صبح تک غسل نہ کرے مثلا نیند کی حالت میں جنب ہوجائے اور اذان کے بعد تک سوتا رہے تو اس کا روزہ صحیح ہے لیکن قضا روزے میں اگر طلوع فجر تک سہوا غسل نہ کرے تو احتیاط کی بناپر اس کا روزہ باطل ہے۔
2۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور جنابت کی حالت میں صبح کرے تو اس دن کا روزہ صحیح ہے لیکن اگر یہ فراموشی کئی روز طول پکڑے تو فراموشی کے ایام کے روزوں کی قضا کرنا ضروری ہے البتہ نمازیں ہرصورت میں باطل ہیں۔
3۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ جنابت پر باقی رہنے سے روزہ باطل ہوتا ہے یا نہیں اور جنابت کی حالت میں روزہ رکھے تو احتیاط واجب کی بناپر اس کا روزہ باطل ہے۔ [1] اور ضروری ہے کہ قضا بھی بجالائے لیکن اگر یقین ہو کہ جنابت پر باقی رہنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے اور اس بناپر روزہ رکھے تو اس کا روزہ صحیح ہے اگرچہ روزے کی قضا کرنے میں احتیاط کی رعایت کرنا اچھا ہے۔
4۔ اگر کوئی ماہ رمضان میں نجس پانی سے غسل کرے اور کئی دنوں کے بعد متوجہ ہوجائے کہ پانی نجس تھا تو اس کے روزے صحیح ہونے کے حکم میں ہیں۔
5۔ اگر کسی شخص کا وظیفہ ماہ رمضان کی رات میں غسل کرنا ہو چنانچہ وقت تنگ ہونے یا پانی مضر ہونے یا کسی اور وجہ سے غسل نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے تیمم کرے۔
توجہ
جس شخص کا وظیفہ تیمم کرنا ہو اس کے لئے جائز ہے کہ ماہ رمضان کی رات میں خود جنب کرے اس شرط کے ساتھ جنب ہونے کے بعد تیمم کے لئے کافی وقت ہو۔
اگر کوئی اذان صبح سے پہلے غسل جنابت یا اس کے بدلے تیمم کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے اگرچہ اذان صبح کے بعد اس سے بے اختیار منی خارج ہوجائے۔
6۔ اگر کوئی اذان صبح سے پہلے سوجائے اور نیند میں احتلام ہوجائے اور اذان کے بیدار ہوجائے یا اذان کے بعد سوجائے اور نیند میں جنب ہوجائے تو جنابت کی وجہ سے روزے کو ضرر نہیں پہنچتا ہے البتہ نماز کے لئے غسل کرنا واجب ہے اور غسل کرنے میں نماز کے وقت تک تاخیر کرسکتا ہے
توجہ
اگر روزہ دار ماہ رمضان یا دوسرے ایام میں دن کو نیند میں جنب ہوجائے تو بیدار ہونے کے بعد فورا غسل کرنا واجب نہیں ہے۔
7۔ اگر کوئی شخص بیداری میں جنب ہوجائے یا نیند میں جنب ہونے کے بعد بیدار ہوجائے اور جانتا ہو کہ دوبارہ سوجائے تو صبح کی اذان تک غسل کے لئے بیدار نہیں ہوسکے گا تو غسل کرنے سے پہلے سونا جائز نہیں ہے اور اگر سوجائے اور اذان سے پہلے غسل نہ کرے تو روزہ باطل ہے لیکن اگر یہ احتمال دیتا ہو کہ صبح کی اذان سے پہلے غسل کرنےکے لئے بیدار ہوجائے گا اور غسل کرنے کا مصمم ارادہ بھی رکھتا ہو لیکن بیدار نہ ہوسکے تو اسکا روزہ صحیح ہےلیکن اگر بیدار ہونے کے بعد دوبارہ سوجائے اور صبح تک بیدار نہ ہوسکے تو اس دن کی قضا رکھنا ضروری ہے.
توجہ
اگر ماہ رمضان کو رات کو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے اور احتلام کی طرف متوجہ نہ ہوجائے اور دوبارہ سوجائے اور اذان صبح کے بعد بیدار ہوجائے اور متوجہ ہوجائے کہ اذن صبح سے پہلے احتلام ہوا تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے اسی طرح اگر فجر سے پہلے شک کرے کہ احتلام ہوا ہے یا نہیں اور احتلام کا کوئی اثر نظر نہ آئے اور اس کے بارے میں کچھ انکشاف نہ ہوجائے اور اپنے شک کی پروا کئے بغیر سوجائے چنانچہ اذان صبح کے بعد بیدار ہوجائے اور متوجہ ہوجائے کہ طلوع فجر سے پہلے احتلام ہوا تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
8۔ عورت اگر ماہواری کی عادت سے پاک ہوجائے اور غسل واجب ہوجائے اور اسی طرح نفاس (ولادت کی خون ریزی) سے پاک ہونے والی عورت پر بھی غسل واجب ہے چنانچہ اگر ماہ رمضان میں اذان صبح تک غسل میں تاخیر کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔
9۔ اگر روزہ دار عورت دن میں حیض یا نفاس سے پاک ہوجائے تو اس کا روزہ باطل ہےا گرچہ مغرب کے نزدیک کیوں نہ ہو
توجہ
اگر عورت کومعین نذر کے روزے کی حالت میں حیض آئے تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور پاک ہونے کے بعد اس کی قضا واجب ہے۔
8۔ مائع چیز کے ذریعے انیما لینا
1۔ مائع چیز سے امالہ (حقنہ) لینا اگرچہ مجبوری یا علاج کی غرض سے لیا جائے، روزے کو باطل کرتا ہے۔
2۔ منجمد چیز سے انیما لینے میں کوئی اشکال نہیں اور روزے کو باطل نہیں کرتا ہے۔
9۔ عمدا قے کرنا
1۔ اگر روزے دار عمدا قے کرے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے اگرچہ بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کام پر مجبور ہو لیکن اگر سہوا یا بے اختیار قے کرے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
2۔ اگرکوئی شخص ڈکار لے اور اس کے منہ میں کوئی چیز آجائے تو ضروری ہے کہ باہر نکالے لیکن اگر بے اختیار نگل لے تو روزہ صحیح ہے۔
مبطلات روزہ کے بارے میں چند نکتے
اگر کوئی شخص عمدا اور اختیار کے ساتھ روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہوتا ہے لیکن اگر عمدا نہ ہو مثلا پاوں پھسلنے سے پانی میں ڈوب جائے یا فراموشی سے کھانا کھائے یا زبردستی کوئی چیز اس کے حلق میں ڈالی جائے تو روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔
توجہ
اگر روزہ دار کو مبطلات روزہ انجام دینے پر کوئی مجبور کرے (یعنی مجبور کرے کہ روزہ دار خود افطار کرے مثلا کہے کہ اگر کھانا نہ کھائے تو جانی یا مالی ضرر پہنچائے گا اور وہ اس ضرر سے بچنے کے لئے کھانا کھائے) تو اس کا روزہ باطل ہوتا ہے۔
اگر روزے دار سہوا کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو اور اسکے بعد یہ سمجھتے ہوئے کہ روزہ باطل ہوا ہے اسی کام کو عمدا دوبارہ انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہوگا۔
اگر روزہ دار کو شک ہوجائے کہ روزہ باطل کرنے والا کوئی اکام انجام دیا ہے یا نہیں مثلا شک کرے کہ منہ میں داخل ہونے والا غلیظ غبار حلق تک پہنچا ہے یا نہیں یا منہ میں پانی ڈالنے کے بعد باہر نکالا ہے یا نہیں تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
تمرین
1۔ اگر کوئی مخصوص لباس (مثلا غوطہ خوری کا لباس) پہن کر بدن تر ہوئے بغیر پانی میں ڈبکی لگائے تو اس کے روزے کا کیا حکم ہے؟
2۔ شاور کے نیچے بیٹھنے یا برتن وغیرہ کے ذریعے سر پر پانی ڈالنے سے روزہ باطل ہوتا ہے یا نہیں ؟
3۔ کیا جنب شخص کے لئے طلوع آفتا ب کے بعد غسل جنابت کرکے قضا یا مستحب روزہ رکھنا جائز ہے؟
4۔ اگر ماہ رمضان یا دوسرے روزوں کی رات میں طلوع فجر تک غسل جنابت کرنا بھول جائے اور دن میں یاد آئے تو کیا حکم ہے؟
5۔ اگر مکلف ماہ رمضان کی رات کو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے اور دیکھے کہ احتلام ہوا ہے چنانچہ اذان صبح سے پہلے غسل کے لئے بیدار ہونے کی امید سے سوجائے اور اذان تک نیند میں رہے تو اس کے روزے کا کیا حکم ہے؟
6۔ اگر ڈکار لینے کے دوران روزہ دار کے منہ میں کوئی چیز آئے تو اس کا کیا وظیفہ ہے؟
[1] جن صورتوں میں احتیاط واجب کی بناپر روزہ باطل ہے مکلف کے لئے ضروری ہے کہ روزہ رکھے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔
- سبق 62: روزہ (5)
سبق 62: روزہ (5)
ماہ رمضان میں عمدا روزہ افطار کرنے کا کفارہ8۔ ماہ رمضان میں عمدا روزہ افطار کرنے کا کفارہ
1۔ کفارہ واجب ہونا اور اس کے موارد
1۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں عمدا اور اختیار سے اور بغیر کسی شرعی عذر کے روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے تو روزہ باطل ہونے کے علاوہ قضا بھی ہے اور کفارہ بھی ا واجب ہوجاتا ہے خواہ افطار کرنے کے دوران کفارہ واجب ہونے کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔
توجہ
اگرکوئی شخص حکم شرعی سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ایسا کام کرے جس سے روزہ باطل ہوتا ہو مثلا نہیں جانتا ہو کہ سر کو پانی میں ڈبونے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے چنانچہ سر کو پانی میں ڈبوئے تو روزہ باطل ہوگا اور ان کی قضا بجالانا ضروری ہے لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ کوئی کام حرام ہے لیکن نہیں جانتا ہو کہ اس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے چنانچہ انجام دے تو قضا کے علاوہ احتیاط واجب کی بناپر کفارہ بھی دینا ضروری ہے۔
اگر کسی وجہ سے روزہ باطل کرنا روزے دار کے لئے جائز یا واجب ہوجائے مثلا روزے کو باطل کرنے والے کسی کام پر مجبور کیا جائے یا پانی میں غرق ہونے والے کو نجات دینے کے لئے پانی میں کودے تو اس صورت میں اس پر کفارہ واجب نہیں ہے لیکن اس دن کی قضا بجالانا چاہئے۔
2۔ اگر روزے دار کے حلق سے کوئی چیز منہ میں آجائے تو اس کو نہیں نگلنا چاہئے اور اگر عمدا نگل لے تو قضا اور کفارہ واجب ہیں۔
3۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں کہے کہ مغرب ہوگئی ہے اور انسان کو اس پر اعتماد نہ ہو اور افطار کرے اس کے بعد متوجہ ہوجائے کہ مغرب نہیں ہوئی تھی تو قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔
4۔ جماع میں دونوں افراد کا روزہ باطل ہوتا ہے اور دونوں پر قضا اور کفارہ واجب ہیں۔
2۔ کفارے کی مقدار اور کیفیت
1۔ دین اسلام میں مارہ رمضان میں عمدا روزہ افطار کرنے کا کفارہ تین چیزوں میں سے ایک ہے؛
1۔ ایک غلام آزادکرے
2۔ دو مہینے (ساٹھ دن) روزہ رکھے
3۔ ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے
توجہ
چونکہ آج کے دور میں ظاہرا کوئی غلام موجود نہیں ہے جس کو آزاد کیا جائے پس مکلف کو باقی دونوں کاموں میں سے ایک کو انجام دینا چاہئے۔
اگر کوئی حرام طریقے سے جماع کرکے یا حرام چیز کھاکر یا پی کر ماہ رمضان میں اپنا روزہ باطل کرے تو تین کفاروں میں سے ایک کافی ہے اگرچہ احتیاط مستحب ہے کہ تینوں کفارے (ایک غلام کو آزاد کرنا[1]، ساٹھ دن روزے رکھنا اور ساٹھ فقیروں کو کھاناکھلانا) دے۔
اگر کوئی شخص کفارہ عمدی کے طور پر واجب تین چیزوں میں سے کوئی بھی انجام دینے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے جتنے فقیروں کو کھانا دے سکتا ہے، کھانا کھلائے اور احتیاط یہ ہے کہ استغفار بھی کرے اور اگر کھانا کھلانے پر بالکل قدرت نہیں رکھتا ہو تو استغفار کرنا کافی ہے یعنی دل اور زبان سے کہے : اَستَغفِرُ اللهَ ( اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں)
اگر روزہ رکھنے اور کھاناکھلانے پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے کسی شخص کا وظیفہ استغفار کرنا ہو چنانچہ بعد میں روزہ رکھنے یا فقیروں کو کھانا کھلانے پر قادر ہوجائے تو اس کام کو انجام دینا لازم نہیں اگرچہ احتیاط مستحب کے موافق ہے۔
2۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کا کفارہ دو مہینے روزے رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ ایک پورا مہینہ اور اگلے مہینے کے کم از کم ایک دن تک مسلسل روزے رکھے اور اگر دوسرے مہینے کے باقی ایام میں پے درپے روزہ نہ رکھے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
3۔ اگر کوئی شخص ساٹھ دن روزے رکھنا چاہے اور اس دوران کسی عذر کی وجہ سے مثلا بیماری یا حیض کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو عذر برطرف ہونے کے بعد باقی روزے رکھ سکتا ہے اور لازم نہیں ہے کہ دوبارہ شروع سے رکھے۔
4۔ ساٹھ فقیروں کو دو طریقوں سے کھانا کھلاسکتے ہیں؛
1۔ تیار شدہ کھانا پیٹ بھر کر کھلائیں
2۔ ہر ایک کو 750 گرام (ایک مد) گندم، آٹا، روٹی، چاول یا دوسری غذائی اجناس دیں۔
5۔ اگر کوئی شخص کفارے کے طور پر ساٹھ فقیروں کو(اس تفصیل کے مطابق جو گذشتہ مسئلے میں گزرگئی) کھانا کھلانا چاہے چنانچہ ساٹھ فقیر دسترس میں ہوں تو دو یا زیادہ افراد کا حصہ ایک فرد کو نہیں دے سکتا ہے بلکہ لازم ہے کہ ساٹھ فقیروں میں سے ہر ایک کو اپنے حصے کے برابر کھانا دے البتہ فقیر کے خاندانی افراد کا حصہ اس کے حوالے کرسکتا ہے تاکہ وہ ان پر خرچ کرے۔
توجہ
فقیر میں بچہ اور بزرگ یا مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
3۔ کفارے کے احکام
1۔ اگر روزے دار ایک دن میں ایک دفعہ سے زیادہ مبطلات روزہ کو انجام دے توصرف ایک کفارہ واجب ہے البتہ اگرجماع یا استمنا کے ذریعے روزے کو باطل کرے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ جماع یا استمنا کی تعداد کے مطابق کفارہ دے۔
2۔ جس شخص نے اپنا روزہ عمدا باطل کیا ہو اگر روزہ باطل کرنے کے بعد سفر کرے تو کفارہ ساقط نہیں ہوگا بنابراین اگر جنابت کی حالت میں نیند سے بیدار ہوجائے اور جنابت کے بارے میں علم ہوجائے اور فجر سے پہلے غسل یا تیمم کے لئے اقدام نہ کرے اور روزے سے فرار کرنے کے لئے طلوع فجر کے بعد سفر کرنے کا مصمم ارادہ کرے اور اس کام کو انجام بھی دے تو رات کو سفر کا قصد اور مصمم ارادہ کرنا اور دن میں سفر کرنا کفارہ ساقط ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔
3۔ اگر کسی پر کفارہ واجب ہوجائے تو اس کو فورا دینا لازم نہیں ہے لیکن اتنی تاخیر نہیں کرنا چاہئے کہ واجب ادا کرنے میں کوتاہی شمار ہو جائے۔
4۔ اگر واجب کفارے کو ادا کرنے میں کئی سال گزرجائیں اور ادا نہ کرے تو اس پر کچھ اضافہ نہیں ہوتا ہے۔
5۔ روزے کے کفارے میں قضا اور کفارے کے درمیان ترتیب واجب نہیں ہے۔
تمرین
1۔ اگر کوئی مسئلے کا حکم نہ جاننے کی وجہ سے حرام کام انجام دے لیکن اس کے ذریعے روزہ باطل ہونے کو نہیں جانتا ہو تو کیا ان روزوں کی قضا کافی ہے؟
2۔ اگر مرد اپنی بیوی سے ماہ رمضان میں جماع کرے اور بیوی بھی اس پر راضی ہوتو کیا حکم ہے؟
3۔ ماہ رمضان میں عمدا افطار کرنے کے کفارے کی مقدار بیان کریں۔
4۔ اگر کوئی حرام طریقے سے جنسی آمیزش کرے یا استمناء یا حرام چیز کھانے یا پینے کے ذریعے روزے کو باطل کرے تو کیا حکم ہے؟
5۔ اگر روزہ دار ایک دن میں ایک مرتبہ سے زیادہ روزے کو باطل کرے تو کیا وظیفہ ہے؟
6۔ اگر کئی سال گزرنے تک واجب کفارہ ادا نہ کرے تو اس پر کچھ اضافہ ہوگا یا نہیں؟
- سبق 63: روزہ (6)
سبق 63: روزہ (6)
ماہ رمضان کا قضا روزہ افطار کرنے کا کفارہ۔ تاخیر کا کفارہ۔ فدیہ9۔ ماہ رمضان کا قضا روزہ افطار کرنے کا کفارہ
1۔کفارہ واجب ہونا اور اس کے موارد
اگر کوئی ماہ رمضان کے روزے کی قضا رکھے تو ظہر کے بعد روزے کو باطل کرنا جائز نہیں ہے اور اگر عمدا ایسا کام کرے تو کفارہ دینا چاہئے
توجہ
اگر کوئی ماہ رمضان کے روزے کی قضا بجالائے تو ظہر سے پہلے اس شرط کے ساتھ افطار کرسکتا ہے کہ روزے کی قضا کے لئے وقت تنگ نہ ہو پس اگر وقت تنگ ہو مثلا پانچ روزوں کی قضا اس کے ذمے ہو اور ماہ رمضان کے لئے بھی پانچ دن سے زیادہ باقی نہ ہو تو احتیاط یہ ہے کہ ظہر سے پہلے بھی روزے کو افطار نہ کرے۔
اگر کوئی ماہ رمضان کے روزوں کی قضا بجالانے کے لئے اجیر بن جائے اور زوال کے بعد افطار کرے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
2۔ کفارے کی مقدار
ماہ رمضان کے قضا روزے کو افطار کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس فقیروں کو کھانا دے اور اگر نہ دے سکے تو تین دن روزہ رکھے۔
3۔ تاخیر کا کفارہ
1۔ کفارے کا وجوب اور اس کا مورد
1۔ اگر کوئی کسی عذر کی وجہ سے ماہ رمضان میں روزہ نہ رکھے اور آئندہ رمضان تک سستی کی وجہ سے اور کسی عذر کے بغیر اس کی قضا بجانہ لائے تو اس کے بعد قضا بجالانا چاہئے اور ہر روزے کے لئے تاخیر کا کفارہ ادا کرے لیکن اگر روزے میں مانع بننے والے کسی عذر(مثلا سفر) کے برقرار رہنے کی وجہ سے آئندہ سال کے ماہ رمضان تک قضا میں تاخیر کرے تو رہ جانے والے روزوں کی قضا بجالانا کافی ہے اور کفارہ دینا واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ قضا بجالائے اور کفارہ بھی دے البتہ بیماری کے بارے میں ایک خصوصی وضاحت ہے جو بعد میں بیان کی جائے گی۔
2۔ اگر عمدا ماہ رمضان کا روزہ نہ رکھے اور کسی عذر کے بغیر آئندہ رمضان تک اس کی قضا بھی بجا نہ لائے تو قضا اور عمدا افطار کرنے کا کفارہ دینے کے ساتھ ساتھ ہر روز کے لئے تاخیر کا ایک کفارہ( جو گذشتہ مسئلے میں بیان کیا گیاہے) بھی فقیر کو دے۔
توجہروزے کی قضا میں آئندہ ماہ رمضان تک تاخیر کی صورت میں کفارہ واجب ہونے کے بارے میں جاہل ہونے کی وجہ سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا ہے بنابراین اگر کوئی شخص نہیں جانتا تھا کہ روزے کی قضا بجالانا واجب ہے اس وجہ سے آئندہ رمضان تک اپنے روزوں کی قضا بجالانے میں تاخیر کرے تو ہر دن کے لئے تاخیر کا کفارہ دینا چاہئے۔
ماہ رمضان کے روزوں کی قضا میں تاخیر کا کفارہ ایک مرتبہ واجب ہے (اگرچہ کئی سال تاخیر ہوجائے) اور متعدد سال گزرنے سے کفارہ میں اضافہ نہیں ہوتا ہے بنابراین اگر ماہ رمضان کے روزوں کی قضا میں کئی سال تاخیر کرے تو قضا بجالانا چاہئے اور ہر دن کے لئے تاخیر کا ایک کفارہ دیناچاہئے۔
2۔ کفارے کی مقدار
تاخیر کا کفارہ یہ ہے کہ فقیر کو ایک مد کھانا دے۔
توجہاگر ہر دن کے لئے ایک مد کھانا دینا چاہے تو ایک فقیر کو کئی دنوں کا کفارہ دے سکتا ہے۔
11۔ فدیہ( مد)
1۔ فدیہ کے موارد
1۔ بوڑھا اور بوڑھی جن کے لئے روزہ رکھنا باعث مشقت ہے۔
2۔ جو شخص استسقا کی بیماری میں مبتلا ہو یعنی زیادہ پیاس لگنے کی وجہ سے اس کے لئے روزہ رکھنے میں مشقت ہوتی ہے۔
3۔ حاملہ عورت جس کا وضع حمل نزدیک ہے اور ڈرتی ہےکہ روزہ اس کے حمل کے لئے نقصان دہ ہے۔
4۔ دودھ دینے والی عورت جس کا دودھ کم ہے اور ڈرتی ہے کہ روزہ اس بچے کے لئے نقصان دہ ہے جس کو وہ دودھ دیتی ہے۔
5۔ بیمار شخص جس کے لئے روزہ نقصان دہ ہو اور اس کی بیماری آئندہ سال کے رمضان تک برقرار رہے۔
1۔ بڑھاپے کی وجہ سے مرد یا عورت کے لئے روزہ رکھنا مشقت کا باعث ہوتو ان پر روزہ واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد کھانا (مثلا گندم، جو یا چاول) فقیر کو فدیہ دے اور اگر روزہ رکھنے کی بالکل طاقت نہیں رکھتے ہوں تو احتیاط کی بناپر فدیہ دینا ضروری ہے اور دونوں صورتوں میں چنانچہ رمضان کے بعد روزہ رکھ سکیں تو احتیاط مستحب کی بناپر روزوں کی قضا کریں۔
2۔ اگر کوئی شخص ایسی بیماری میں مبتلا ہو کہ پیاس زیادہ لگتی ہو جس کو تحمل نہیں کرسکتا ہو یا پیاس کو تحمل کرنا اس کے لئے مشقت ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے البتہ دوسری صورت میں(جب مشقت ہو) ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد کھانا فقیر کو دے اور احتیاط واجب کی بناپر پہلی صورت میں بھی یہی فدیہ دے اور چنانچہ ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھ سکے تو احتیاط مستحب کی بناپر روزوں کی قضا بجالائے۔
3۔ اگر حاملہ عورت کے وضع حمل کا وقت قریب ہو چنانچہ روزہ رکھنا بچے کے لئے یا خود اس کے لئے مضر ہونے کا خوف ہوتو روزہ واجب نہیں ہے اور پہلی صورت میں (جب بچے کے لئے مضرہو) ہر دن کے لئے ایک مد کھانا یعنی گندم یا جو وغیرہ (فدیہ کے نام سے) فقیر کو دینا ضروری ہے اور ماہ رمضان کے بعد اس کی قضا بھی بجالائے اور دوسری صورت میں جب خود اس کے لئے مضر ہوتو تو ضروری ہے کہ جو روزے نہیں رکھے ہیں ان کی قضا کرے اور احتیاط کی بناپر فدیہ بھی دے۔ جس عورت کا وضع حمل قریب نہ ہواس کے لئے مذکورہ احکام احتیاط واجب پر مبنی ہیں۔
4۔ اگر بچے کو دودھ پلانے والی عورت (بچے کی ماں ہو یا دائی ، اجرت کے ساتھ دودھ پلائے یا اجرت کے بغیر) دودھ خشک ہونے یا کم ہونے کے خوف سے روزہ رکھنے کو بچے کے لئے مضر سمجھتی ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے فدیہ دے اور بعد میں روزوں کی قضا بھی بجالائے لیکن روزہ خود اس کے لئے مضر ہوتو احتیاط کی بناپر فدیہ واجب ہے۔
5۔ گذشتہ دونوں مسئلوں میں اگر آئندہ ماہ رمضان تک روزہ نہ رکھے چنانچہ کوتاہی کی ہو تو قضا کے علاوہ تاخیر کا کفارہ بھی واجب ہے لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے قضا بجانہ لائے تو تاخیر کا کفارہ نہیں ہے اور چنانچہ عذر بچے کے لئے ضرر کی صورت میں ہوتو جب بھی ممکن ہو روزوں کی قضا بجالانا ضروری ہے اور اگر عذر خود عورت کے لئے ضرر کی صورت میں ہوتو قضا ساقط ہوگی اور ہر دن کے لئے ایک فدیہ دینا ضروری ہے۔
6۔ مریض اگر بیماری کی وجہ سے ماہ رمضان کے روزے نہ رکھے اور اس کی بیماری آئندہ سال کے رمضان تک برقرار رہے تو جو روزے نہیں رکھے ہیں ان کی قضا واجب نہیں ہے بلکہ ہر دن کے لئے فقط فدیہ دینا چاہئے۔
توجہعورت کا فدیہ یا کفارہ اس کے شوہر پر نہیں بلکہ خود پر واجب ہے اگرچہ حمل یا دودھ دینے کی وجہ سے روزہ نہ رکھا ہو اسی طرح اولاد کا کفارہ یا فدیہ باپ کے ذمے نہیں ہے البتہ شوہر یا باپ بیوی یا اولاد کا وکیل بن کر ان کا فدیہ یا کفارہ ادا کرسکتے ہیں۔
2۔ فدیہ کی مقدار
فدیہ کی مقدار تاخیر کےکفارے کی مقدار کے برابر ہے یعنی فقیر کو ایک مد کھانا دینا چاہئے۔
کفارے کے بارے میں ایک نکتہ
اگر کسی معین دن میں روزہ رکھنے کی نذر کرے چنانچہ اس دن عمدا روزہ نہ رکھے یا اپنا روزہ باطل کرے تو کفارہ دینا چاہئے۔
توجہنذر کا کفارہ یہ ہے کہ دس فقیروں کو کھانا کھلائے یا کپڑے پہنائے اور اگر اس کی توانائی نہیں رکھتا ہو تو تین دن روزہ رکھے۔
تمرین
1۔ ماہ رمضان کا روزہ افطار کرنے کے کفارے کی مقدار اور اور مورد بیان کریں۔
2۔ تاخیر کے کفارے کی مقدار اور مورد بیان کریں۔
3۔ اگر کوئی اس بات سے جاہل ہو کہ رمضان کے روزوں کی قضا آئندہ سال رمضان تک رکھنا واجب ہے چنانچہ اپنے روزوں کی قضا کو آئندہ رمضان تک تاخیر کرے تو تاخیر کا کفارہ واجب ہے یا نہیں؟
4۔ فدیہ کے موارد کون کونسے ہیں؟
5۔ اگر عورت بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے سے معذور ہو اور آئندہ رمضان تک قضا رکھنے کی بھی قدرت نہ رکھتی ہو تو اس صورت میں کفارہ اس عورت پر واجب ہے یا اس کے شوہر پر؟
6۔ اگر عورت مسلسل دو سال ماہ رمضان میں حاملہ ہونے کی وجہ سے ان دنوں میں روزہ نہ رکھ سکی لیکن آج روزہ رکھنے کی طاقت رکھتی ہو تو کیا حکم ہے؟
- سبق 64: روزہ (7)
سبق 64: روزہ (7)
وہ موارد جن میں قضا واجب ہے لیکن کفارہ واجب نہیں۔ قضا روزے کے احکام۔ ماں باپ کے قضا روزوں کے احکام۔ مسافر کے روزوں کے احکام
12۔ وہ موارد جن میں قضا واجب ہے لیکن کفارہ واجب نہیں
1۔ اگر کوئی ماہ رمضان میں روزے کی نیت نہ کرے لیکن روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے تو اس دن کے روزے کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ واجب نہیں ہے۔
2۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور کئی دن روزہ رکھے تو ان دنوں کی اس پر صرف قضا واجب ہے۔
3۔ اگر ماہ رمضان کی سحری کے دوران صبح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں تحقیق کئے بغیر ایسا کام انجام دے جو روزے کو باطل کرتا ہے اور بعد میں علم ہوجائے کہ صبح ہوگئی تھی تو ضروری ہے کہ اس دن کی قضا بجالائے لیکن اگر تحقیق اور صبح نہ ہونے پر علم ہونے کے بعد انجام دیا ہو اور بعد میں پتا چلے کہ صبح ہوگئی تھی تو اس دن کی قضا واجب نہیں ہے۔
4۔ اگرکسی شخص کو ماہ رمضان کے دن میں فضا تاریک ہونے کی وجہ سے یقین ہوجائے کہ مغرب ہوگئی ہے یا وہ لوگ جن کی بات شرعی طورپر حجت ہے کہیں کہ مغرب ہوگئی ہے اور افطار کرے اس کے بعد پتا چلے کہ مغرب نہیں ہوئی تھی تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا بجالائے۔
5۔ اگر کوئی شخص مطلع ابرآلود ہونے کی وجہ سے گمان کرے کہ مغرب ہوگئی ہے اور افطار کرےاور بعد میں علم ہوجائے کہ مغرب نہیں ہوئی تھی تو اس دن کی قضا واجب نہیں ہے۔
6۔ ماہ رمضان کی سحری میں جب تک طلوع فجر کا یقین نہ ہوجائے روزے کو باطل کرنے والے کاموں کو انجام دے سکتے ہیں لیکن اگر بعد میں معلوم ہوجائے کہ اس وقت صبح ہوگئی تھی تو اس کا حکم مسئلہ ((3)) میں بیان کیا گیا ہے۔
7۔ ماہ رمضان کے دن میں جب تک مغرب ہونے کا یقین نہ ہوجائے افطار نہیں کرسکتے ہیں اور اگر مغرب کا یقین ہونے کی وجہ سے افطار کرے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ مغرب نہیں ہوئی تھی تو اس کا حکم مسئلہ ((4 اور 5)) میں بیان کیا گیا ہے۔
8۔ اگر روزے دار وضو کرنے کے دوران (جب منہ میں تھوڑا پانی گھمانا اور کلی کرنا مستحب ہے) اس اطمینان کے ساتھ کہ پانی حلق تک نہیں پہنچے گا، کلی کرے اور بے اختیار پانی حلق میں چلا جائے تو چنانچہ واجب نماز کے وضو کے لئے یہ کام انجام دیا ہو تو روزہ صحیح ہے لیکن اگر غیر واجب نماز کے وضو کے لئے یا وضو کے علاوہ کسی اور کام مثلا ٹھنڈک پہنچانے کے لئے پانی ڈالا ہو اور بے اختیار پانی حلق میں چلا جائے تو احتیاط کی بناپر اس دن کی قضا بجالانا ضروری ہے۔
13۔ قضا روزے کے احکام
1۔ اگر کوئی شخص ایک دن یا کئی دن بے ہوش یا کومے میں رہے تو جتنے روزے چھوٹ گئے ہیں ان کی قضا رکھنا لازم نہیں ہے۔
2۔ اگر مست ہونے کی وجہ سے کسی کا روزہ چھوٹ جائے تو گویا اس نے مستی کے نتیجے میں روزے کی نیت نہیں کی اگرچہ پورا دن مبطلات سے پرہیز کرے پھر بھی اس کا روزہ صحیح نہیں ہے اور اس کی قضا واجب ہے۔
3۔ اگر کوئی شخص نیت کرے اس کے بعد مست ہوجائے اور پورا دن یا دن کا کچھ حصہ مستی کی حالت میں گزارے تو احتیاط واجب کی بناپر اس دن کے روزے کی قضا کرنا ضروری ہے مخصوصا شدید مستی میں جو عقل زائل ہونے کا باعث ہے۔
توجہگذشتہ دونوں مسئلوں میں کوئی فرق نہیں ہے کہ مست کرنے والی چیز کو استعمال کرنا اس کے لئے حرام ہو یا بیماری یا اس کے موضوع[1] سے بے خبر ہونے کی وجہ سے حلال ہو۔
4۔ جن دنوں میں عورت نے حیض یا وضع حمل کی وجہ سے روزہ نہیں رکھا ہے ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے بعد قضا کرے۔
5۔ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے ماہ رمضان کے کچھ روزے نہ رکھے اور ان کی تعداد معلوم نہ ہو چنانچہ عذر کے آغاز کے بارے میں نہ جانتا ہو مثلا ماہ رمضان کی پچیسویں تاریخ کو سفر کیا تھا کہ چھے روزے چھوٹ گئے تھے یا چھبیسویں تاریخ کو سفر کیا تھا کہ پانچ روزے چھوٹ گئے تھے تو کم دنوں کی قضا کرسکتا ہے لیکن اگر عذر شروع ہونے کا وقت جانتا ہو مثلا مہینے کی پانچویں تاریخ کو سفر کیا تھا لیکن دسویں کی رات کو واپس آیاتھا کہ پانچ روزے چھوٹ گئے یا گیارہویں کی رات کو واپس آیاتھا کہ چھے روزے چھوٹ گئے تھے تو اس صورت میں احتیاط (واجب) یہ ہے کہ زیادہ دنوں کی قضا کرے۔
6۔ اگر کسی شخص پر چند سالوں کے رمضان کے روزوں کی قضا واجب ہوتو جس سال کے روزوں کی قضا پہلے کرنا چاہے صحیح ہے لیکن آخری رمضان کی قضا کا وقت تنگ ہو مثلا آخری رمضان کے پانچ روزوں کی قضا واجب ہو اور آئندہ رمضان شروع ہونے میں پانچ ہی دن باقی ہوں تو اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ آخری رمضان کے روزوں کی قضا کرے۔
7۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کے روزوں کی قضا بجالائے چنانچہ قضا کا وقت تنگ نہ ہو تو ظہر سے پہلے روزے کو توڑ سکتا ہے اور اگر وقت تنگ ہو یعنی آئندہ رمضان شروع ہونے میں قضا روزوں کی تعداد کے برابر ہی دن باقی ہوں تو احتیاط یہ ہے کہ ظہر سے پہلے بھی روزے کو نہ توڑے۔
8۔ اگر کوئی بیماری کی وجہ سے ماہ رمضان میں روزے نہ رکھے اور دوسرے سال کے رمضان تک اس کی بیماری طول پکڑے تو روزوں کی قضا واجب نہیں ہے لیکن اگر دوسرے عذر (مثلا سفر) کی وجہ سے روزہ نہ رکھے اور اس کا عذر آئندہ رمضان تک برقرار رہے تو ماہ رمضان کے بعد ان روزوں کی قضا بجالانا واجب ہے اسی طرح اگر بیماری کی وجہ سےروزہ ترک کیا ہو اور بیماری دور ہونے کے بعد کوئی اور عذر مثلا سفر پیش آئے یا ماہ رمضان میں بیماری کے علاوہ کوئی اور عذر پیش آیا اور رمضان کے بعد دور ہوا لیکن بیماری کی وجہ سے آئندہ ماہ رمضان تک روزہ نہ رکھ سکا۔
قضاروزے کے بارے میں ایک نکتہ
اگر کوئی شخص فقط جسمانی کمزوری اور طاقت نہ ہونے کی وجہ سے ماہ رمضان کے روزے اور آئندہ رمضان تک اس کی قضا رکھنے پر بھی قادر نہ ہو تو قضا ساقط نہیں ہوگی اور جب بھی قادر ہوجائے ضروری ہے کہ قضا بجالائےبنابراین جو لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچی ہو لیکن جسمانی کمزوری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتی ہو اور آئندہ ماہ رمضان تک بھی اس کی قضا بجانہ لاسکے تو واجب ہے کہ چھوٹ جانے والے روزوں کی قضا کرے اسی طرح اگر کسی شخص نے چند سال روزہ نہ رکھا ہو اور توبہ کرکے ان کو ازالہ کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہو تو واجب ہے کہ چھوٹ جانے والے تمام روزوں کی قضا کرے اور چنانچہ قضا نہ کرسکے تو روزوں کی قضا ساقط نہیں ہوگی بلکہ اس کے ذمے باقی رہے گی۔
14۔ ماں باپ کے قضا روزوں کے احکام
1۔ اگر باپ نےاور نیز احتیاط واجب کی بناپر ماں نےسفر کے علاوہ کسی اور عذر کی وجہ سے اپنے روزے نہ رکھے ہوں اور قضا کرنے پر قادر ہوتے ہوئے قضا بھی نہ کی ہو تو بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ ان کی وفات کے بعد خود یا کسی کو اجیر بناکر ان روزوں کی قضا بجالائے لیکن سفر کی وجہ سے جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضا واجب ہے اگرچہ والدین قضا بجالانے کی فرصت نہیں رکھتے تھے یا ممکن نہیں تھا۔
2۔ والدین نے جو روزے عمدا نہیں رکھے ہیں احتیاط واجب کی بناپر بڑے بیٹے کو چاہئے کہ( خود یا کسی کو اجیر بناکر) قضا بجالائے۔
3۔ ماں باپ کے روزے اور نماز کی قضا میں نماز اور روزے کے درمیان کوئی ترجیح نہیں ہے اور جس کو چاہے مقدم کرسکتے ہیں۔
15۔ مسافر کے روزے کے احکام
1۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں سفر کرے چنانچہ اس کی نماز قصر ہوجائے تو روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور اگر وہ سفر میں چار رکعتی نماز پڑھتا ہو (مثلا وہ مسافر جس نے کسی جگہ دس دن قیام کا قصد کیا ہو یا سفر اس کا پیشہ ہو) تو روزہ رکھنا واجب ہے۔
2۔ اگر کوئی شخص ظہر کے بعد سفر کرے تو ضروری ہے کہ روزے کو برقرار رکھے لیکن اگر ظہر سے پہلے سفر کرے چنانچہ رات سےہی سفر کا قصد رکھتا ہو تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر دن میں سفر کا قصد کیا ہو تو احتیاط واجب کی بناپر روزہ رکھنا ضروری ہے اور ماہ رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے۔
3۔ اگر مسافر ظہر سے پہلے وطن میں داخل ہوجائے یا ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں دس دن قیام کا قصد رکھتا ہوچنانچہ روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہوتو روزہ رکھنا چاہئے اور اگر انجام دیا ہوتو بعد میں قضا بجالانا چاہئے لیکن اگر ظہر کے بعد داخل ہوجائے تو روزہ نہیں رکھ سکتا ہے۔
4۔ ماہ رمضان میں سفر کرنا اگرچہ روزے سے بچنے کے لئے ہی کیوں نہ ہوجائز ہے البتہ بہتر ہے کہ سفر نہ کرے مگر اس صورت میں جب کسی ضروری یا نیک کام کے لئے سفر کرے۔
مسافر کے روزے اور اعتکاف کے بارے میں ایک نکتہ
اگر مسافر اعتکاف کا مصمم ارادہ رکھتا ہو چنانچہ دس دن قیام کا قصد کرے یا سفر کے دوران روزہ رکھنے کی نذر کی ہو تو سفر کے دوران اعتکاف میں بیٹھنا جائز ہے لیکن اگر قصد اقامت یا سفر میں روزے کی نذر نہ کی ہو تو سفر کے دوران اس کا روزہ صحیح نہیں ہے اور روزہ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے اعتکاف بھی صحیح نہیں ہے۔
تمرین
1۔ اگر روزہ دار منہ میں پانی گھمائے اور بے اختیار حلق میں چلاجائے تو کیا اس کا روزہ باطل ہے؟
2۔ اگر کسی پر کئی سال کے رمضان کے قضا روزے ہوں تو ان روزوں کو کس طرح قضا بجالانا چاہئے؟
3۔ نو سالہ لڑکی پر روزہ واجب ہوجائے لیکن دشواری کی وجہ سے روزے کو افطار کرے تو کیا قضا واجب ہے؟
4۔ ماں باپ کے قضا روزوں کا کیا حکم ہے؟ توضیح دیں۔
5۔ اگر کوئی زوال سے پہلے محل اقامت میں پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہو لیکن راستے میں کوئی حادثہ پیش آنے کی وجہ سے معین وقت میں منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے تو کیا اس کے روزے میں کوئی اشکال ہے؟
6۔ ماہ رمضان میں روزے سے فرار اور افطار کے قصد سے عمدا سفر کرنا جائز ہے یا نہیں؟
- سبق65: روزہ (8)
سبق65: روزہ (8)
مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہونے کے طریقے۔ روزے کے متفرق مسائل16۔ مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہونے کے طریقے
1۔ مکلف خود چاند دیکھے
2۔ دو عادل افراد گواہی دیں اس صورت میں جب لوگوں کی بڑی تعداد رؤیت سے انکار نہ کرے اور ان دو عادل افراد کی غلطی کا قوی گمان نہ ہو۔
3۔ ایسی شہرت جو علم یا اطمینان کا باعث ہو
4۔ گذشتہ مہینے کے تیس دن گرزجائیں
5۔ حاکم شرع حکم دے
1۔ عصر کے وقت چاند نظر آنے سے قمری مہینے کی رؤیت ہلال ثابت ہوتی ہے اور رؤیت ہلال کے بعد والی رات چاند رات ہوگی۔
توجہ
رؤیت ہلال کے لئے طبیعی آنکھ اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دیکھنے میں کوئی فرق نہیں ہےمعیار یہ ہے کہ رؤیت کا عنوان آنا چاہئے پس آنکھ سے دیکھنے اور عینک و ٹیلی سکوپ سے دیکھنے کا حکم ایک ہی ہے لیکن کمپیوٹر کے ذریعے تصویر لینے سے ہونے والی رؤیت کو چونکہ رؤیت کہنا معلوم نہیں ہے لہذا پہلی تاریخ ثابت ہونا محل اشکال ہے۔
استہلال (چاند دیکھنا) فی ذاتہ شرعا واجب نہیں ہے۔
چاند کا صرف چھوٹا ہونا یا بڑا ہونا، اوپر ہونا یا نیچے ہونا اور باریک ہونا یا پھیلاہوا ہونا وغیرہ پہلی رات یا دوسری رات ہونے پرشرعی دلیل نہیں ہے لیکن اگر مکلف کو اس سےکسی چیز پر علم ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس حوالے سے اپنے علم کے مطابق عمل کرے۔
کیلنڈر اور نجومیوں کے علمی اعداد و شمار کے ذریعے پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی ہے مگر اس صورت میں جب ان کے کہنےسے یقین حاصل ہوجائے۔
2۔ اگر کسی شہر میں پہلی تاریخ ثابت ہوجائے تو دوسرے شہروں کے لئے جن کا افق اس شہر کے ساتھ برابر ہو کافی ہے
توجہ
افق متحد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مقامات جوچاند نظر آنے کے احتمال ہونے اور احتمال نہ ہونے میں یکساں ہوں۔
3۔ حاکم کے نزدیک صرف چاند کا ثابت ہونا جب تک رؤیت کا حکم جاری نہ کرے، دوسروں کے لئے اس کی پیروی کرنے کے سلسلے میں کافی نہیں ہے مگر اس صورت میں جب چاند نظر آنے کا اطمینان حاصل ہوجائے۔
توجہ
اگر کوئی شخص چاند دیکھے اور جانتا ہو کہ اس کے شہر کے حاکم شرع کے لئے کسی سبب سے رؤیت ممکن نہیں ہے تو رؤیت کے بارے میں حاکم کو اطلاع دینا واجب نہیں ہے مگر یہ اس کو ترک کرنے میں کوئی مفسدہ ہو۔
اگر حاکم حکم جاری کرے کہ کل پہلی تاریخ ہے اور اس حکم میں پورا ملک شامل ہو تو اس ملک کے تمام شہروں کے لئے اس کا حکم شرعا معتبر ہے۔
کسی حکومت کے ذریعے رؤیت ہلال کے اعلان کے اتباع میں اس حکومت کا اسلامی ہونا شرط نہیں ہے بلکہ اس موقع پر معیار اس علاقے میں رؤیت پر اطمینان حاصل ہونا ہے جو علاقہ مکلف کے لئے کافی ہو۔
اگر کسی شہر میں چاند نظر نہ آئے لیکن ریڈیو اور ٹی وی پر چاند نظر آنے کی خبر دی جائے چنانچہ یہ خبر چاند نظر آنے کے بارے میں اطمینان کا باعث ہو تو کافی ہے اور تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں۔
4۔ اگر ماہ شوال کی پہلی تاریخ ثابت نہ ہوجائے یہاں تک کہ قریبی شہروں میں بھی جن کا افق برابر ہو یا دو عادل افراد کی گواہی یا حاکم کے حکم سے پہلی تاریخ ثابت نہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس دن روزہ رکھے۔
5۔ اگر ماہ رمضان کی پہلی تاریخ ثابت نہ ہوجائے تو روزہ رکھنا واجب نہیں ہے لیکن اگر بعد میں ثابت ہوجائے کہ جس دن روزہ نہیں رکھا تھا، پہلی تاریخ تھی تو اس دن کے روزے کی قضا کرنا ضروری ہے۔
6۔ جس دن کے بارے میں انسان کو شک ہوکہ ماہ رمضان کی آخری تاریخ ہے یا شوال کی پہلی تاریخ تو ضروری ہے کہ روزہ رکھے لیکن دن میں ثابت ہوجائے کہ پہلی شوال ہے تو ضروری ہے کہ افطار کرے اگرچہ مغرب نزدیک ہو۔
17۔ روزے کے متفرق مسائل
1۔ عوام کو سنانے کے لئے مسجد کے لاؤڈسپیکر سے ماہ رمضان کی سحری کے مخصوص پروگرام نشر کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر مسجد کے ہمسایوں کو اذیت کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔
2۔ ماہ رمضان کی مخصوص دعائیں جو شروع سے آخر تک کے ایام کی دعا کی صورت میں منقول ہیں، چنانچہ ثواب اور مطلوبیت کے قصد سے قرائت کرے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
3۔ اگر کوئی شخص مستحب روزہ رکھے تو اس کو اختتام تک پہنچانا واجب نہیں اور جب چاہے اپنا روزہ افطار کرسکتا ہے بلکہ اگر کوئی مومن کھانے کی دعوت دے تو شرعی لحاظ سے اچھا ہے کہ اس کی دعوت کو قبول کرکے افطار کرے۔
4۔ اگر روزہ دار غروب کے وقت کسی جگہ افطار کرے اور اس کے بعد ایسی جگہ سفر کرے جہاں ابھی تک سورج غروب نہ ہوا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے اور اس جگہ غروب آفتاب سے پہلے مفطرات کو کھانا جائز ہے اس فرض کے ساتھ کہ اپنی سرزمین پر غروب کے وقت افطار کرلیا ہے۔
5۔ اگر کوئی شخص اپنے وطن میں رمضان کی پہلی تاریخ سے لے کر ستائیسویں تاریخ تک روزہ رکھے اور اٹھائیسویں تاریخ کی صبح ایسی جگہ سفر کرے جو اس کے شہر سے افق میں برابر ہے اور انتیسویں تاریخ کو وہاں پہنچ جائے اور متوجہ ہوجائے کہ وہاں عید ہوگئی ہے چنانچہ اس جگہ انتیسویں تاریخ کو عید کا اعلان شرعی اور صحیح طریقے ہوا ہے تو اس روز کی قضا اس پر واجب نہیں ہے البتہ اس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ مہینے کی ابتدا میں ایک دن کا روزہ چھوٹ گیا ہے لہذا جس روزے کے چھوٹ جانے کا یقین ہو اس کی قضا بجالانا واجب ہے۔
تمرین
1۔ پہلی تاریخ ثابت ہونے کے طریقے بیان کریں۔
2۔ افق متحد ہونے سے کیا مراد ہے؟
3۔ کیا حاکم کے نزدیک رؤیت کا ثابت ہونا ہی کافی ہے کہ دوسرے حاکم کا اتباع کریں؟
4۔ اگر انسان شک کرے کہ رمضان کی آخری تاریخ ہے یا شوال کی پہلی تو اس کا کیا وظیفہ ہے؟
5۔ جو دعائیں رمضان کے دنوں سے مخصوص نقل ہوئی ہیں، ان کے صحیح ہونے کے بارے میں شک ہوجائے تو ان کو پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
6۔ اگر روزہ دار کسی سرزمین میں غروب آفتا ب کے وقت افطار کرے اور اس کے بعد ایسی جگہ سفر کرے جہاں ابھی تک سورج غروب نہ ہوا ہو تو اس دن کے روزے کا کیا حکم ہے؟
-
- پانچویں فصل: خمس
- چھٹی فصل: انفال
- ساتھویں فصل: جہاد
- آٹھویں فصل: امر بالمعروف اور نہی از منکر
-