دریافت:
مناسک حج
- حج کی فضيلت اور اہمیتمقدمهحج کی فضيلت اور اہمیت
شریعت میں حج ، چند خاص اعمال اور مناسک کے ایک مجموعے کا نام ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے جيسا کہ امام محمدباقر علیہ السلام سے روايت ہے :
" بُني الاسلام علي خمس علي الصلوة و الزکاة و الصوم و الحج و الولاية"(1)
ترجمہ: «اسلام پانچ بنيادوں پر استوار ہے:نماز ، زکات ، روزہ ، حج اور ولايت »
حج ، خواہ واجب ہو یا مستحب، اسکی بہت زیادہ فضيلت اور اجر و ثواب ہے اور اسکي فضيلت کے بارے ميں پيغمبر اکرم اور اہل بيت (عليہم السلام) سے کثير روايات وارد ہوئي ہيں، چنانچہ امام صادق سے روايت ہے:
"الحاجّ والمعتمر وَفدُ اللہ ان سألوہُ اعطاہم وان دَعوہُ اجابہم و ان شفعوا شفّعہم و ان سکتوا ابتدأہم و يُعوّضون بالدّرہم ألف ألف درہم "(2)
"حج اور عمرہ انجام دینے والے راہ خدا کے راہی ہيں۔ اگر اللہ سے مانگیں تو انہيں عطا کرتاہے اور اسے پکاريں تو جواب ديتاہے، اگر شفاعت کريں تو قبول کرتاہے اگرچپ رہيں تو از خود اقدام کرتاہے اور ايک درہم کے بدلے (جو انہوں نے حج کرنے پر خرچ کئے ہیں) دس لاکھ درہم پاتے ہيں۔
1۔ کافی، ج۲، ص ۱۸، ح ۱؛ وسائل الشیعه، ج۱، ص ۷، باب ۱، ح ۱۔
2۔ کافی، ج۴، ص ۲۵۵، ح ۱۴۔ - حج ترک کرنے کا حکمحج ترک کرنے کا حکم
مسئلہ ۱۔ حج ضروریات دین میں شمار ہوتا ہے اور اس کا واجب ہونا کتاب و سنت کے بے شمار دلائل سے ثابت ہے۔ جو شخص حج کے شرائط رکھتے ہوئے اور اسک ے واجب ہونے کا علم رکھتے ہوئے اسے ترک کرے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے۔
اللہ تعالي قرآن مجید ميں فرماتا ہے:
{ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ}(1)
ترجمہ: « اللہ کے لیے ان لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا واجب ہے جو اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو کافر ہوجائے تو خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔»
اور امام صادق علیہ السلام سے یوں روايت ہوئی ہے
"من ماتَ ولم یَحُجَّ حَجّۃ الاسلام و لم یَمنعہُ من ذلک حاجۃٌ تجحفُ بہ او مرض لا یطیق فیہ الحج أو سلطان یمنعہ، فلیمت یہودیاً أو نصرانیاً" (2)
ترجمہ: جو شخص انجام دیے بغیر مرجائے، جبکہ اس کے حالات بھی مساعد ہوں یا کوئی سخت بیماری یا ظالم بادشاہ اسے حج سے روکنے کا سبب نہ بنے، تو وہ یہودی یا مسیحی مرے گا۔
1۔سورہ آل عمران، آیت ۹۷۔
2۔تہذیب الاحکام، ج۵، ص ۱۷۔ - حج اور عمرہ کے اقسامحج اور عمرہ کے اقسام
مسئلہ ۲۔ جو انسان حج انجام ديتا ہے يا وہ اسے اپنے لئےانجا م ديتا ہے يا کسي کي نیابت میں بجالاتا ہے، اس حج کو "نيابتي حج " کہتے ہيں اور جو حج اپنے لئے بجا لاتا ہےاس کی دو قسمیں ہیں: واجب اورمستحب۔
مسئلہ ۳۔ واجب حج يا شريعت کے اصولوں کی بنیاد پر واجب ہوتا ہے جسے "حجة الاسلام" کہتے ہيں يا کسي اور وجہ سے ، جیسے نذر يا حج کے باطل ہونے کے سبب واجب ہوتا ہے۔
مسئلہ ۴۔ حجة الاسلام اورنيابتي حج ميں سے ہر ايک کي اپني اپني شرائط اور احکام ہيں کہ جنہيں ہم پہلے باب ميں دو فصلوں کے ضمن ميں ذکر کريں گے۔
مسئلہ ۵۔ حج کی تین اقسام ہیں: ۱۔ تمتع، ۲۔ اِفراد، ۳۔ قِران۔
پہلی قسم (حج تمتع) ان افراد پر واجب ہوتا ہے کہ جنکا وطن مکہ سے ۴۸ میل (تقریبا ۹۰ کیلومیٹر) کے فاصلے پر ہو۔ حج کی دوسری اور تیسری قسم (اِفراد اور قِران) ان لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو مکہ میں رہتے ہیں یا ان کی رہائش کی جگہ مذکورہ فاصلہ سے کم پر واقع ہو۔
حج تمتع مناسک اور اعمال کے اعتبار سے دیگر دو قسموں سے کچھ فرق رکھتا ہے۔
مسئلہ ۶۔ حج تمتع، حج قِران اور اِفراد سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ حج تمتع، عمرہ اور حج پر مشتمل ایک عبادت ہے اور اس میں عمرہ حج پر مقدم ہوتا ہے اور عمرہ و حج کے درمیان فاصلہ زمانی بھی پایا جاتا ہے اور اس فاصلے میں انسان احرام سے خارج ہوتا ہے اور حج کے لئے مُحرِم ہونے تک مُحرِم پر حرام ہونے والی چیزوں سے فائدہ اٹھانا حلال ہوتا ہے ۔ اسی لئے حج تمتع (بہرہ مند ہونا) کا عنوان اس کے لئے مناسب ہے۔اور حج اس کا دوسرا حصہ کہلاتا ہے اور ان دونوں کو ایک ہی سال میں انجام دینا ضروری ہے۔ حج اِفراد اور قِران کے برخلاف کہ جن میں صرف حج انجام دیا جاتا ہے۔ اور ان میں عمرہ ایک مستقل عبادت تصور کی جاتی ہے اور اسے "عمرہ مفردہ" کہا جاتاہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ عمرہ مفردہ ایک سال اور حج اِفراد یا قِران اگلے سال انجام دیا جائے۔
مسئلہ ۷۔ عمرہ تمتع اور عمرہ مفردہ کے کچھ احکام مشترک ہیں کہ دوسری فصل میں ذکر کئے جائیں گے اور ان کے درمیان جو فرق ہے وہ مسئلہ نمبر ۱۶ میں بیان کیا جائے گا۔
مسئلہ ۸۔ عمرہ بھی حج کی طرح کبھی واجب ہے تو کبھی مستحب ۔
مسئلہ ۹۔ دین اسلام میں عمرہ زندگی میں ایک بار ایسے شخص پر واجب ہوتا ہے جو صاحب استطاعت ہو (جیسا کہ حج کے مورد میں بیان کیا جاتا ہے(1))۔ اور اس کا وجوب بھی حج کے وجوب کی طرح فوری ہے۔ اور اس کے وجوب میں حج بجالانے کی استطاعت شرط نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص عمرہ کی استطاعت پیدا کرلے تو اس پر عمرہ واجب ہوجاتا ہے۔ اگرچہ وہ حج کے لئے استطاعت نہ رکھتا ہو۔ اس کے برعکس بھی اسی کے مانند ہے ، یعنی اگر کوئی شخص حج کے لئے استطاعت رکھتا ہو، لیکن عمرہ کے لئے مستطیع نہ ہو تو اسے حج بجالانا چاہیے۔ یہ حکم ان افراد کے لئے ہے کہ جو مکہ میں یا ۴۸ میل سے کم تر فاصلہ پر رہائش پذیر ہوں لیکن جو لوگ مکہ سے دور ہیں اور انکا وظیفہ حج تمتع انجام دینا ہے تو انکے لئے کبھی بھی عمرہ کی استطاعت حج کی استطاعت سے اور حج کی استطاعت عمرہ کی استطاعت سے جدا نہیں ہے کیونکہ حج تمتع دونوں اعمال کا مرکب ہے اور دونوں کو ایک ہی سال میں بجالانا چاہیے۔
مسئلہ ۱۰۔ مکلف کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہو اور اگروہ موسم حج کے علاوہ کسی اور موقع پر مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہو تو واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ کے احرام کے ساتھ داخل ہو۔ اس حکم سے دو گروہ مستثنیٰ ہیں:
1. وہ لوگ جن کا پیشہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکہ میں زیادہ آمد و رفت کریں۔
2. وہ لوگ جو حج یا عمرہ بجالانے کے بعد مکہ سے باہر نکل چکے ہیں اور اسی حج یا عمرہ بجالائے ہوئے مہینے میں دوبارہ مکہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
مسئلہ ۱۱۔ دوبارہ عمرہ بجالانا حج کے دوبارہ بجا لانے کی طرح مستحب ہے۔ اور دو عمرہ کے درمیان کوئی خاص فاصلہ شرط نہیں ہے۔ لیکن احتیاط کی بنا پر ہر ماہ میں اپنے لئے صرف ایک عمرہ بجا لائے۔ اور اگر دوسرے افراد کے لئے دو عمرے بجا لائے یا ایک عمرہ اپنے لئے اور دوسرا عمرہ کسی دوسرے کے لئےبجا لائے تو مذکورہ احتیاط ضروری نہیں ہے۔ اسی لئے اگر دوسرے عمرے کو کسی کی نیابت میں بجا لائے تو نائب کا اس کے بدلے میں اجرت لینا جائز ہے اور یہ منوب عنہ کے عمرہ مفردہ کے لئے کافی ہے چاہے وہ واجب ہی کیوں نہ ہو۔1 . مسئلہ 34 کے بعد - حج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہحج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہ
مسئلہ ۱۲۔ حج تمتع دو عمل کا مرکب ہے: ۱۔ عمرہ تمتع ۲۔ حج تمتع۔ عمرہ تمتع حج پر مقدم ہے اور ان دونوں کے اپنے مخصوص اعمال ہیں کہ جن کی جانب اشارہ کیا جائے گا۔
مسئلہ ۱۳۔ عمرہ تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. کسی بھی ایک میقات پر احرام باندھنا،
2. کعبہ کا طواف،
3. نماز طواف،
4. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
5. تقصیر (تھوڑے سے بال یا ناخن کاٹنا)
مسئلہ ۱۴۔ حج تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. مکہ مکرمہ میں احرام باندھنا،
2. ۹ ذی الحجہ کی ظہر سے غروب شرعی تک عرفات میں وقوف،
3. ۱۰ ذی الحجہ کی رات کو سورج طلوع ہونے تک مشعر الحرام میں وقوف،
4. ۱۰ ذی الحجہ (عید قربان کے دن) کو جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا،
5. قربانی،
6. سرمنڈوانا یا تقصیر کرنا،
7. طواف حج،
8. نماز طواف،
9. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
10. طوافِ نساء،
11. نماز طواف نساء،
12. ۱۱ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ ( رات گزارنا)کرنا،
13. ۱۱ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات پر کنکریاں مارنا
14. ۱۲ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ کرنا،
15. ۱۲ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات کنکریاں مارنا۔ - حج اِفراد اورعمرہ مفردہحج اِفراد اورعمرہ مفردہ
مسئلہ ۱۵۔ حج اِفراد کی کیفیت حج تمتع کی مانند ہے۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج تمتع میں قربانی کرنا واجب ہے اور حج افراد میں مستحب۔
مسئلہ ۱۶۔ عمرہ مفردہ بھی عمرہ تمتع کی مانند ہے سوائےدرج ذیل مواقع کے:
1. عمرہ تمتع میں انسان کو تقصیر کرنا ضروری ہے لیکن عمرہ مفردہ میں یہ اختیار ہے کہ سر منڈانے اور تقصیر میں اختیار ہے البتہ یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہے لیکن خواتین پر واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ اور عمرہ تمتع میں صرف تقصیر کریں۔
2. عمرہ تمتع میں طواف نساء اور نماز طواف نساء واجب نہیں ہے اگرچہ بنابر احتیاط ان دو اعمال کو تقصیر سے پہلے رجا کی قصد سے بجا لائے۔ لیکن عمرہ مفردہ میں طواف نساء اور اس کی نماز واجب ہے۔
3. عمرہ تمتع کو حج کے مہینوں میں سے ایک مہینہ میں یعنی شوال، ذی قعد یا ذی الحجہ میں انجام دیا جانا چاہیے جبکہ عمرہ مفردہ کو سال کے تمام ایام میں سے کسی میں بھی بجالانا صحیح ہے۔
4. عمرہ تمتع کے میقات، پانچ میقاتوں میں سے ایک ہے کہ جس کی تفصیل آیندہ آئے گی۔ جبکہ عمرہ مفردہ کا میقات شہر مکہ کے اندر موجود افراد کے لئے اَدنَی الحِلّ(حرم کے باہر نزدیک ترین مقام) ہے۔ اگرچہ پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات پر بھی احرام باندھنا جائز ہے لیکن جو مکہ سے باہر ہو اور عمرہ مفردہ بجالانا چاہتا ہو تو اسے پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات سے احرام باندھنا چاہیے۔ - حج قِرانحج قِرانمسئلہ ۱۷۔ حج قِران کی کیفیت حج اِفراد کی مانندہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج قِران میں مُحرِم ہونے کے ساتھ ساتھ قربانی کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے، اس لحاظ سےاس پر قربانی واجب ہے۔
اسی طرح حج قِران میں احرام لبیک کہنے سے یا اشعار یا تقلید(1) سے محقق ہوجاتا ہے لیکن حج اِفراد میں فقط لبیک کہنے سے محقق ہوتا ہے۔1۔ان دونوں کے معنی مسئلہ ۱40 میں بیان کئے جائیں گے۔ - حج تمتع کے کلی احکامحج تمتع کے کلی احکام
مسئلہ ۱۸۔ حج تمتع کے صحیح ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی شرط: نیت: یعنی جس وقت سے عمرہ تمتع کا احرام باندھا چاہتا ہے اسی وقت سے حج تمتع انجام دینے کا قصد بھی رکھتا ہو۔ ورنہ اس کا حج صحیح نہیں ہے۔
دوسری شرط: عمرہ اور حج دونوں حج کے مہینوں میں واقع ہوں۔
تیسری شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی سال میں واقع ہوں۔
چوتھی شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی شخص کے لئے اور ایک ہی شخص کے توسط سے انجام دیئے جانا چاہیے لہذا اگر کوئی شخص دو افراد کو اجیر کرے کہ ان میں سے ایک میت کی طرف سے حج تمتع بجالائے اور دوسرا عمرہ تمتع، تو کافی نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۹۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہو وہ خود اپنی مرضی سے اپنے حج تمتع کو حج قِران یا حج اِفراد میں تبدیل نہیں کرسکتا۔
مسئلہ ۲۰۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہے اور اگر اسے یہ احساس ہو کہ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ عمرہ تمتع کو مکمل کر کے حج کو درک نہیں کر سکتا ہے، ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے حج تمتع کو حج اِفراد میں تبدیل کرے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے۔
مسئلہ ۲۱۔ وہ خاتون جو حج تمتع انجام دینا چاہتی ہے لیکن میقات پر پہنچنے پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی اگر وہ احتمال دیتی ہے کہ حج تمتع کے احرام کے لئے وقت کی تنگی سے پہلے پاک ہوجائے گی اور غسل کرنے کے بعد عمرہ تمتع کے اعمال بجالاسکتی ہے اور پھر حج کے احرام سے عرفات کے وقوف کو عرفہ کے دن اول ظہر سے درک کرسکتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ میقات میں عمرہ تمتع کے لئے مُحرِم ہوجائے پھر اگر پاک ہوئی اور عمرہ تمتع کے اعمال کو بجالانے اور عرفات میں اختیاری وقوف درک کرنے کے لئے کافی وقت ہوا تو اسے یہی کام انجام دینا چاہیے اگر اتفاق طور پر پاک نہ ہوئی یا پاک ہونے کے بعد اس کے پاس عمرہ تمتع بجالانے اور عرفات کے وقوف کو درک کرنے کے لئے وقت کافی نہیں ہے تو عمرہ تمتع کے احرام کے ساتھ حج افراد کی طرف عدول کرے گی اور اس کے بعد ایک عمرہ مفردہ کو بجالائے گی اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہے۔
اور اگر اسے اطمینان ہے کہ حج تمتع کے احرام اور وقوف عرفات کو درک کرنے کے وقت تک پاک نہیں ہوسکتی ہے یا اگر پاک ہوجائے تو عمرہ کے اعمال انجام دینے اور وقوف عرفات کو درک کرنے تک کافی وقت نہیں ہوگا تو اس صورت میں وہ میقات پر ہی ما فی الذمہ کے قصد سے یا حج اِفراد کے لئے مُحرِم ہوجائے اور اعمال حج بجالانے کے بعد ایک عمرہ مفردہ بجالائے۔ اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا۔
لیکن اگر میقات پر احرام باندھنے کے کے وقت پاک تھی، پھر راستے میں یا مکہ پہنچنے پر عمرہ کا طواف اور اسکی نماز بجالانے سے پہلے یا طواف کے دوران چوتھے چکر کو تمام کرنے سے پہلے، ماہانہ عادت سے دوچار ہوجائے اور عمرہ کے اعمال انجام دینے، عرفات کے وقوف اختیاری درک کرنے کے وقت تک پاک نہ ہوئی تو اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ یا تو اسی احرام کے ساتھ عمرہ تمتع کو حج افراد میں بدل دے اور حج افراد کو انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجالائے اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا؛ یا عمرہ تمتع کے طواف اور اسکی نماز کو چھوڑ کر، سعی اور تقصیر کو انجام دے او رعمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہوجائے، اس کے بعد حج تمتع کے لئے محرم ہونے، دونوں وقوف کو درک کرنے اور اعمال منی کو انجام دینے کے بعد مکہ آنے پر، حج کے طواف ، اس کی نماز اور سعی بجا لانےسے پہلے یا ان کو انجام دینے کے بعد عمرہ تمتع کے طواف اور اس کی نماز کو قضا کے طور پر بجالائے۔ اس کا یہ عمل بھی حج تمتع کے لئے کافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی اور چیز نہیں رہے گی۔
اور اگر طواف کے دوران، چوتھے چکر کے اختتام پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی تو باقی طواف اور نماز کو چھوڑ کر سعی اور تقصیر کو انجام دے اور احرام سے خارج ہوجائے پھر حج تمتع کے لئے محرم ہوکر دونوں وقوف کو درک کرنے اور منی کے اعمال کو انجام دینے کے بعد واپس مکہ لوٹنے پر طواف، نماز اور سعی کو بجالانے کے بعد یا اس سے پہلے، عمرہ کا طواف(1) اور اس کی نماز بجا لائے، اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئےکافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی چیز نہیں ر ہےگی۔
مسئلہ ۲۲۔ حج کے اعمال اور اس کے احکام تیسری فصل میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔
1۔ اس کی تفصیل جاننے کے لئے مسئلہ نمبر 286 کی طرف رجوع کریں۔ - پہلا حصه حَجة الاسلام اورنيابتي حج
- دوسرا حصه عمرہ کے اعمال
- تیسرا حصہ حج کے اعمال
- پہلي فصل :احرام
- دوسري فصل :عرفات ميں وقوف کرنادوسري فصل :عرفات ميں وقوف کرنا
مسئلہ ۳۸۱۔ حج کے واجبات ميں سے دوسرا واجب عرفات میں وقوف ہے۔عرفات مکہ کے نزدیک ایک مشہور جگہ ہے اس کی حدود وادی عرنہ، ثویہ، اور نمرہ سے ذی مجاز تک ہے ايک مشہور پہاڑ ہے کہ جس کي حد عرنہ ، ثويّہ اور نمرہ سے ليکر ذي المجاز تک؛ اور دو مازم(1) وقوف کی آخری حد ہے اور یہ عرفات کے حدود سے خارج ہيں۔
مسئلہ ۳۸۲۔ عرفات میں وقوف عبادات میں سے ہے اس لئےنیت کے ساتھ ہونا چاہیے جس کے شرائط احرام کی نیت میں بیان ہوگئے۔
مسئلہ ۳۸۳۔ وقوف سے مراد عرفات میں حاضر ہونا ہے چاہے سوار ہو يا پيدل ، کھڑا ہو یا لیٹا ہوا ہو۔
مسئلہ ۳۸۴۔ احوط يہ ہے کہ نوذي الحجہ کے زوال سے اسی دن کے غروب شرعي (نماز مغرب کا وقت) تک عرفات میں ٹھہرے اگرچہ بعيد نہيں ہے کہ وقوف کے آغاز کو زوال کے اول سے اتنا مؤخر کرنا جائز ہو کہ جس ميں نماز ظہر ين کو انکے مقدمات سميت اکٹھا ادا کيا جاسکے۔
مسئلہ ۳۸۵۔ مذکورہ وقوف عرفہ کے دن ظہر سے نماز مغرب کے وقت تک واجب ہے ليکن اس ميں سےجو حصہ حج کا رکن صرف وہ ہے جس پر وقوف کا نام صدق کرے اور يہ ايک يادو منٹ ٹھہرنے پر بھی صدق آتا ہے اسی لیے اگر جان بوجھ کر اس مقدار وقوف کو انجام نہ دے تو اس کا حج باطل ہے ۔
مسئلہ ۳۸۶۔ شرعی غروب سے پہلے عرفات سے کوچ کرنا حرام ہے۔ پس اگر جان بوجھ کر غروب سے پہلے خارج ہوجائےیا عرفات کي حدود سے باہر نکل جائے اور نہ لوٹے تو گناہ گار ہے اور اسے ايک اونٹ کفارہ دينا چاہیے ليکن اس کا حج صحيح ہے اور اگر قربانی ( کفارہ) دینا اس کے لئے ممکن نہ ہو تو اٹھارہ روزے رکھے اور احتیاط يہ ہے کہ قربانی کو عيد والے دن مني ميں ذبح کرے گرچہ کفارے کے جانور کو مني ميں ذبح کرنے کا وجوب نہ ہونا بعيد نہيں ہے اور اگر غروب سے پہلے عرفات ميں پلٹ آئے تو پھر اس پر کوئی کفارہ واجب نہيں ہوتا ہے۔
مسئلہ ۳۸۷۔ اگر بھول کر يا حکم نہ جاننے کی وجہ سے غروب سے پہلے عرفات سے باہر چلا جائے تو اگروقوف کا وقت گزرنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو اس پر واجب ہے کہ لوٹ آئے اور اگر نہ لوٹے تو گناہ گارہے ليکن اس پر کفارہ نہيں ہے لیکن وقت گزرجانے کے بعد متوجہ ہو تو تب بھی اس پر کوئي چیز واجب نہيں ہے۔1 ۔مازم: عرفات اور مشعر الحرام کے درمیان واقع گھاٹی کا نام ہے کہ جو عرفات کی حدود میں تو ہے لیکن اس کا جز نہیں ہے۔
- تيسري فصل :مشعرالحرام ( مزدلفہ) ميں وقوف کرناتيسري فصل :مشعرالحرام ( مزدلفہ) ميں وقوف کرنا
مسئلہ ۳۸۸۔ حج کے واجبات ميں سے تيسرا واجب مشعر الحرام میں وقوف کرنا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ عرفات سے مشعر الحرام کي طرف کوچ کرے اور وہاں پر- جو ایک مشہور اور جگہ ہے-حاضر ہوجائے۔
مسئلہ ۳۸۹۔ مشعر الحرام میں وقوف عبادات میں سے ہے اور اسے نیت کے ساتھ ہونا چاہیے، انہی شرائط کے ساتھ جو احرام کی نیت میں بیان ہوئی ہیں ۔
مسئلہ ۳۹۰۔ واجب وقوف کا وقت عید قربان کے دن طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے اوراحتیاط يہ ہے کہ عرفات سے کوچ کرنے کے بعدمشعر میں داخل ہوتے ہوئے وقوف کی نيت کرے۔
مسئلہ ۳۹۱۔ مشعر ميں طلوع فجر سے ليکر طلوع آفتاب تک ٹھہرنا واجب ہے ليکن رکن اتنی دیر ٹھہرنے کو کہتے ہیں کہ جس پر وقوف صدق آجائے اگر چہ يہ ايک يا دو منٹ کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ اگر اتني مقدار وقوف کرے اور باقي کو جان بوجھ کر ترک کردے تو اس کا حج صحيح ہے لیکن وہ فعل حرام کا مرتکب ہوا ہے اور اگر اپنے اختيار کے ساتھ وقوف کے مصداق کی مقدار بھي توقف نہ کرے تو اس کا حج باطل ہے۔
مسئلہ ۳۹۲۔ عورتوں ، بچوں، بوڑھوں ، کمزور اور صاحبان عذر افراد کیلئے کہ جنہیں بیماری یا بھیڑ میں پھنسنے کا خوف ہو، اور انکی رکھوالی اور نگرانی کرنے والے، جیسے خدمتگار اور نرسیں وغیرہ عید کی رات تھوڑا سا وقوف کرنے کے بعد مني کي طرف کوچ کرسکتے ہیں۔
نوٹ: دونوں وقوف( مشعر اور عرفات) ميں سے ايک يادونوں کو اختيار يا اضطرار کی حالت میں جان بوجھ کر يا بھول کر یا سہواً ۔۔۔، ترک کرنے پر حج کے صحیح ہونے یا باطل ہونے کے حوالے سے بہت ساری حالات ہيں، جنکی تفصیل دوسری کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں۔ - چوتھي فصل :رمی جمرہ (شیطان کو کنکرياں مارنا)چوتھي فصل :رمی جمرہ (شیطان کو کنکرياں مارنا)
مسئلہ ۳۹۳۔ حج کے واجبات ميں سے چوتھا واجب اور مني کے اعمال ميں سے پہلا عمل رمی جمره ہے ۔دس ذي الحجه کو جمرہ عقبہ ( سب سے بڑا) کوکنکرياں مارناچاهیے۔
مسئلہ ۳۹۴۔ کنکرياں مارنے (رمي)میں کچھ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
اول: نيت اسی طرح سے کہ جیسے احرام کي نيت ميں بیان ہوئی۔
دوم: رمي ایسے کنکر سے انجام دی جائے جنہیں کنکرياں کہنا صحیح ہو پس نہ اتنے چھوٹےنہ ہوں کہ جسے ریت کہا جائےاور نہ اتنے بڑے ہوں کہ جسے پتھر کہا جائے۔
سوم : رمي عيدوالے دن، طلوع آفتاب اورغروب آفتاب کے درميان انجام دی جائے البتہ جس کيلئے يہ ممکن ہو۔
چہارم: کنکرياں جمرے کو لگنا ضروری ہے پس اگر کنکر جمرے کو نہ لگے يا اسکے لگنے کا گمان ہو تو يہ کافی نہيں ہے اور اسکے بدلے دوسري کنکري مارنا چاہیے، اور کنکری کا اس پر لگے بغير اس دائرے تک پہنچ جانا جو جمرے کے اردگرد ہے کافي نہيں ہے۔
پنجم: سات کنکرياں ماری جائیں۔
ششم: کنکريوں کو یکے بعد دیگرے مارا جائے پس اگر ايک ہي دفعہ ساری کنکریاں پھینکے تو صرف ايک شمار دفعہ شمار ہوگا چاہے ساری کنکریاں جمرے کو لگیں یا ان میں سے بعض لگیں۔
مسئلہ ۳۹۵۔ حال ہی میں جو جمرہ کی چوڑائی میں مکہ اور مشعر کی طرف سے اضافہ کیا گیا ہے (علی الظاہر قديمي جمرہ اس کے تقریبا وسط میں ہے) اگر قدیمی جمرہ کی جگہ کو پہچان سکے اور اس پر کنکریاں مارسکے تو اسی جگہ پر کنکریاں مارنا چاہیے اور اگر قدیمی جمرہ کی جگہ کو پہچانا یا اس پر کنکریاں مارنا اس کے لئے دشوار ہو تو موجودہ جمرہ یپر کہیں پر بھی کنکریاں مارنا کافی ہے۔
مسئلہ ۳۹۶۔ علی الظاہر جمرات کی اوپر والي منزل(جمرات کے پل) سے رمي کرنا جائز ہے اگرچہ احوط یہ ہے کہ قدیمی جگہ سے رمی کرے۔
مسئلہ ۳۹۷۔ رمی کے لئے اٹھائی جانے والی کنکريوں میں مندرجہ ذیل خصوصیات ہونی چاہیے:
اول : وہ حرم کے حدود میں سے ہوں پس اگر حرم کے باہر سے اٹھالی گئی ہوں تو وہ رمی کے لئے کافی نہیں ہیں۔
دوم: وہ نئي ہوں یعنی اس سے پہلے حتی گذشتہ سالوں میں بھی کسی نے اس سے صحیح رمی انجام نہ دیا ہو۔
سوم: مباح ہوں پس غصبي کنکريوں کا مارنا جائز نہيں ہے اور نہ ان کنکريوں کا جنہيں کسي دوسرے نے جمع کيا ہو اسکي اجازت کے بغير استعمال کرنا بھی صحیح نہیں ہے البتہ رمی میں کنکريوں کا پاک ہونا شرط نہيں ہے۔
مسئلہ ۳۹۸۔ عورتيں اور ناتوان افراد کہ جنہيں عید کی رات مشعر الحرام سے مني کي طرف جانے کي اجازت ہے اگر وہ عید دن کو رمي کرنے سے معذور ہوں تووہ رات کو رمي کرسکتے ہیں۔ بلکہ کلی طور پر تمام عورتیں رات کو رمی کرسکتی ہیں، اس شرط پر کہ اپنے حج یا اپنے حج نیابتی کے لئے رمی کرنا چاہتی ہوں ليکن اگر عورت صرف رمي کيلئے کسي کي طرف سے نائب بني ہو تو رات کے وقت رمي کرنا احتیاط واجب کی بنا پر صحيح نہيں ہے اگرچہ وہ دن ميں رمي کرنے سے عاجز ہی کیوں نہ ہو اسی طرح وہ لوگ کہ جوخواتین کے ہمراہ ہیں تو اگر وہ خود کوئی عذر رکھتے ہیں تو ان کيلئے رات کے وقت عقبہ کو رمي کرسکتے ہیں ورنہ ان پر واجب ہے کے دن کے وقت رمي کریں۔
مسئلہ ۳۹۹۔ ایسی خواتین جن کا شب عید رمی کرنا اختیاری وظیفہ ہے ان کے علاوہ جو شخص عيد والے دن رمي کرنے سے معذور ہیں وہ شب عيد يا عيد کے بعد والي رات ميں رمي کرسکتے ہیں اور اسي طرح جو شخص گيارہويں يا بارہويں ذی الحجہ کے دن رمي کرنے سے معذور ہے وہ بھی اس سے پہلے والی رات يا اسکے بعد والي رات کو رمي کرے گا۔ - پانچويں فصل :قرباني کرناپانچويں فصل :قرباني کرنا
مسئلہ ۴۰۰۔ حج کے واجبات ميں سے پانچواں واجب اورمني کے اعمال ميں سے دوسرا عمل قربانی ہے۔
مسئلہ ۴۰۱۔ حج تمتع کرنے والےکو تینوں جانوروں یعنی اونٹ ، گائے یا گوسفند یابکري میں سے ایک کو قرباني کرنا چاہیے اور قربانی کے جانوروں ميں نر ہو یا مادہ فرق نہیں ہے اور بہتر یہ ہے کہ اونٹ کی قربانی کی جائے اورمذکورہ جانوروں کے علاوہ ديگر حيوانات کی قربانی کرنا کافي نہيں ہيں۔
مسئلہ ۴۰۲۔ قرباني ايک عبادت ہے کہ جس ميں ان تمام شرائط کے ساتھ نيت شر ط ہے کہ جو احرام کي نيت ميں گزر چکي ہيں۔
مسئلہ ۴۰۳۔ قرباني کی کچھ شرائط اور خصوصیات ہيں جو حسب ذیل ہیں۔
اول: عمر ، بنابر احتیاط واجب اونٹ چھٹے سال ميں داخل ہوچکا ہو اور گائے اور بکری تيسرے سال ميں اور گوسفند دوسرے سال ميں داخل ہوئے ہوں اور مذکورہ عمر کی حد بندی، جانور کی کمترین عمر کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے لیکن زیادہ عمر کے بارے میں کوئی حد نہیں ہے اور قربانی کی عمر اس سے زیادہ ہو تو بھی کافی ہے اس شرط پر کہ جانور زیادہ بوڑھا نہ ہو۔
دوم : جانور صحيح و سالم ہو۔
سوم: بہت دبلا اور کمزور نہ ہو۔
چہارم: اسکے اعضا پورے ہوں پس ناقص حیوان کی قربانی کرنا کافي نہيں ہے جيسے آختہ شدہ یا جس جانور کے بيضے نکالے گئے ہوں۔لیکن جس کے بيضے کوٹ ديئے جائيں لیکن خصی کی حد کو نہ پہنچ جائےتو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔ اور اسی طرح دم کٹا ، آندھا ، مفلوج ، کان کٹا اور وہ حیوان جس کا اندر کا سينگ ٹوٹا ہوا ہو یا پیدائشی طور پر ہی معذور ہو تو اس کی قربانی کافی نہیں ہے۔ لہذا ایسے حيوان کی قربانی کافی نہيں ہے کہ جس ميں ايسا عضو نہ ہو جو اس صنف کے جانوروں ميں عام طور پر پایا جاتا ہو، اور ایسے عضو کا نہ ہونا نقص شمار ہوتا ہو۔
لیکن جس جانور کا باہر کا سينگ ٹوٹا ہوا ہوتو وہ کافي ہے ( باہر کا سينگ اندر والے سينگ کے غلاف کے طور پر ہوتا ہے ) اور جس جانور کا کان پھٹا ہوا ہو يا اسکے کان ميں سوراخ ہو تو اس ميں بھی کوئي حرج نہيں ہے۔
مسئلہ ۴۰۴۔ اگر ايک جانور کو صحيح و سالم سمجھتے ہوئے ذبح کرے پھر اس کے مريض يا ناقص ہونے کا انکشاف ہو تو مالی توان کي صورت ميں دوسري قرباني کو ذبح کرنا واجب ہے۔
مسئلہ ۴۰۵۔ احتیاط واجب يہ ہے کہ جمرہ عقبہ کو کنکرياں مارنے کے بعد قربانی کی جائے۔
مسئلہ ۴۰۶۔ احتیاط کی بنا پر قربانی کے ذبح کرنے کو اختیاری حالت میں روز عيد سے زیادہ تاخیر نہ کرے پس اگر جان بوجھ کر ، بھول کر، لاعلمي کي وجہ سے، کسي عذر کي خاطر يا کسی اور سبب کی وجہ سےذبح کو تاخیر میں ڈال دےتو احتیاط واجب کی بنا پر ، ممکن ہوتو اسے ايام تشريق ميں ذبح کرے ورنہ ذي الحجہ کے مہینے کے ديگر دنوں ميں ذبح کرے اور علی الظاہرذبح کو دن ميں انجام دے یا رات میں اس میں کوئی فرق نہيں ہے ۔
مسئلہ ۴۰۷۔ ذبح کرنے کي جگہ مني، ہے پس اگر مني ميں ذبح کرنا ممنوع ہو تو اس وقت ذبح کرنے کيلئے جو جگہ تيار کي گئي ہے اس ميں ذبح کرنا کافي ہے۔
مسئلہ ۴۰۸۔ احتیاط واجب يہ ہے کہ ذبح کرنے والا شیعہ اثنا عشری ہو ہاں اگر نيت خود کرے اور نائب کو صرف رگيں کاٹنے کيلئے وکيل بنائے تو شیعہ اثنا عشری کي شرط کا نہ ہونا بعيد نہيں ہے۔
مسئلہ ۴۰۹۔ قربانی کو خود انجام دے یا اس کی طرف سے وکالت حاصل کر کے کوئی دوسرا انجام دے ليکن اگر کوئي اور شخص بغیر اسکی ہماہنگی اور وکیل بنانے کے اسکی طرف سے ذبح کرے تو يہ محل اشکال ہے اور بنابر احتیاط اسی پر اکتفا نہیں کرسکتا ہے۔
مسئلہ ۴۱۰۔ ذبح کرنے کے آلے ميں شرط ہے کہ وہ لوہے کا ہو اور سٹيل (وہ فولاد جسے ايک ايسے مادہ کے ساتھ ملايا جاتا ہے تاکہ زنگ نہ لگے) لوہے کے حکم ميں ہے۔
ليکن اگر شک ہو کہ يہ آلہ لوہے کا ہے يا نہيں تو جب تک یہ واضح نہ ہو کہ يہ لوہے کا ہے یا نہیں اسکے ساتھ ذبح کرنا کافي نہيں ہے۔
- چھٹي فصل :تقصير يا حلقچھٹي فصل :تقصير يا حلق
مسئلہ ۴۱۱۔ حج کے واجبات ميں سے چھٹا اور مني کے اعمال ميں سے تيسرا عمل تقصیر (بالوں یا ناخنوں کا کاٹنا)یا حلق ( سر مونڈنا) هے۔
مسئلہ ۴۱۲۔ قربانی کرنے کے بعد سر منڈانا يا بالوں يا ناخنوں کي تقصير کرنا واجب ہے۔ عورتوں کيلئے تقصير ہي ضروري ہے اور ان کيلئے حلق کرنا کافي نہيں ہے اور بنابر احتیاط ، عورت تقصير ميں بال بھي کاٹے اورناخن بھي ليکن مرد کو حلق اور تقصير کے درميان اختيار ہے اور اس کيلئے حلق کرنا ضروري نہيں ہے ہاں اگر ان کا پہلا حج ہو تو احتیاط واجب ہے کہ سر منڈوا لیں ۔
مسئلہ ۴۱۳۔ حلق اور تقصير ميں سے ہر ايک عبادات میں سے ہے ان کو قصد قربت اور خالص نیت سے ریا کے بغیر انجام دینا چاہیے۔ اگر ایسی نيت کے بغير حلق يا تقصير کرے کافی نہیں ہے اور وہ چيزيں جن کا حلال ہونا حلق یا تقصیر سے مربوط ہو وہ چیزیں اس پر حلال نہيں ہوں گي ۔
مسئلہ ۴۱۴۔ اگر تقصير يا حلق کيلئے کسي دوسرے سے مدد لے تو اس پر واجب ہے کہ نيت خود کرے۔
مسئلہ ۴۱۵۔ احتیاط واجب کی بنا پر واجب حلق یا تقصیر کو عيد کے دن انجام دینا چاہیے اور اگر اسے روز عيد انجام نہ دے تو اسے گيا رہويں کي رات يا اسکے بعد انجام دینا بھی کافي ہے۔
مسئلہ ۴۱۶۔ جو شخص کسي بھی وجہ سے قرباني کو روز عيد سے مؤخر کردے تو اس پر حلق يا تقصير کومؤخر کرنا ضروری نہيں ہے بلکہ بنابر احتیاط واجب انہيں عيدوالے دن ہي انجام دينا چاہیے لیکن طواف حج اور مکہ کے پانچ اعمال کو ایسی حالت میں (قرباني میں تاخیر کی صورت میں) صحیح ہونا محل اشکال ہے اور ان اعمال کو انجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ قربانی کے ذبح تک انتظار کرے۔
مسئلہ ۴۱۷۔ حلق يا تقصير کو مني ميں انجام دینا چاہیےاور اختياري حالت ميں مني کے علاوہ کسی اور جگہ انجام دنیا جائز نہيں ہے۔
مسئلہ ۴۱۸۔ اگر جان بوجھ کر يا بھول کر يا لاعلمي کي وجہ سے مني سے باہر حلق يا تقصير کرے یا منی سے باہر حلق یا تقصیر کرے اور پھر باقي اعمال انجام دیدے تو اس پر واجب ہے کہ حلق ياتقصير کيلئے مني کي طرف پلٹے اور پھر ان کے بعد والے اعمال کو بھی اعادہ کرے ۔
مسئلہ ۴۱۹۔ اگر عيد والے دن قرباني کرسکتا ہو تو واجب ہے کہ عيد والے دن پہلے جمرہ عقبہ کو رمي کرے پھر قرباني کرے اور اسکے بعد حلق يا تقصير کرے اور اگر جان بوجھ کراعمال کی اس ترتيب کی رعایت نہ کرے تو گناہ گار ہے؛ ليکن علی الظاہر اس پر اسی ترتیب کے ساتھ اعمال کا اعادہ کرنا واجب نہيں ہے اگرچہ ممکن ہو تو اعادہ کرنا احتياط کے موافق ہے۔جس نے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے مذکورہ ترتیب کی رعایت نہ کی ہو اس کا حکم بھی یہی ہے۔
مسئلہ ۴۲۰۔ اگر عيد والے دن مني ميں قرباني نہ کرسکے اور اگر اسي دن اس ذبح خانہ ميں قرباني کرسکتا ہو جو اس وقت مني سے باہر قرباني کيلئے مقرر کياگيا ہے تو بنابر احتیاط اس پر واجب ہے کہ قرباني کو حلق يا تقصير پر مقدم کرے پھر ان ميں سے ايک کو بجالائے اور اگر يہ بھي نہ کرسکتا ہو تو احتیاط واجب يہ ہے کہ عيد والے دن حلق يا تقصير کرنے کے بعد احرام سے خارج ہوجائے ليکن مکہ کے پانچ اعمال کو قرباني کے بعد تک کے لئے مؤخر کردے ورنہ ان اعمال کے صحیح ہونے میں اشکال ہوگا۔
مسئلہ ۴۲۱۔ حلق يا تقصير کے بعد مُحرِم کيلئے- تھا سوائے زوجہ اور خوشبوکے- وہ سب حلال ہوجاتا ہے جو احرام حج کي وجہ سے حرام ہوا ہے۔ - ساتويں فصل :مکہ مکرمہ کے اعمالساتويں فصل :مکہ مکرمہ کے اعمال
مسئلہ ۴۲۲۔ منی میں عید کے دن والے اعمال انجام دینے کے مکہ معظمہ میں پانچ اعمال واجب ہيں طواف حج ( اسے طواف زيارت کہا جاتا ہے ) نماز طواف ، صفا و مروہ کے درميان سعي ، طواف النساءاور نماز طواف النساء۔
مسئلہ ۴۲۳۔ عيد والے دن کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد جائز بلکہ مستحب ہے کہ اسي دن مکہ معظمہ کي طرف لوٹ جائےاور حج کے باقي اعمال ، دو طواف اور انکي نمازيں اور سعي کو انجام دے، اور اسے ايام تشريق کے آخر تک بلکہ ماہ ذي الحجہ کے آخر تک مؤخر کرنا بھي جائز ہے۔
مسئلہ ۴۲۴۔ طواف ، نماز طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعي کی کیفیت ، عمرہ کے طواف، نماز اور سعی کے مانند ہے اور صرف نیت میں فرق ہے اور یہاں پر حج کے لئے نیت کرنی چاہیے۔
مسئلہ ۴۲۵۔ اختياري صورت ميں مذکورہ اعمال کو عرفات اور مشعرکے وقوف اور مني کے اعمال پر مقدم کرنا جائز نہيں ہے۔ لیکن یہ کام تین گروہوں کےلئے جائز ہے:
اول: وہ خواتين جن کو مکہ واپس آنے کے بعد حيض يا نفاس میں مبتلا ہونےکی وجہ سے طواف اور اس کی نماز کو ادا کرنے سے محروم ہوجانے کا ڈر ہو اور پاک ہونے تک انتظار نہیں کرسکتی ہوں ۔
دوم : وہ مرد اورعورتيں جو مکہ پلٹنے کے بعد بھيڑ کي کثرت کي وجہ سے طواف اور نماز طواف سے قاصر ہوں يا وہ لوگ جو مکہ لوٹنے سے ہي قاصر ہيں۔
سوم: وہ بيمار لوگ کہ جو مکہ معظمہ لوٹنے کے بعد بھيڑ کي شدت يا خوف سے طواف کرنے سے عاجز ہوں۔
مسئلہ ۴۲۶۔ اگر مذکورہ تين گروہوں ميں سے کوئي شخص دو طواف ، انکي نماز اور سعي کو مقدم کردے پھر عذر بر طرف ہوجائے تو اس پر واجب نہیں ہے کہ وہ اسے دوبارہ ادا کرے اگرچہ احوط یہ ہے کہ وہ اسے دوبارہ بجا لائے۔
مسئلہ ۴۲۷۔ جو شخص کسي عذر کي وجہ سے مکہ کے اعمال کومقدم کرے (جيسے مذکورہ تين گروہ) تو اس کيلئے خوشبو اور عورتيں حلال نہيں ہوں گي بلکہ ایسے شخص پر تمام محرمات تقصير يا حلق کے بعد ہی حلال ہوں گے۔
مسئلہ ۴۲۸۔ طواف النساءاور اسکي نماز دونوں واجب ہيں ليکن حج کے رکن نہيں ہيں پس اگر انہيں جان بوجھ کر ترک کردے تو حج باطل نہيں ہوگا ليکن اس پر اس کی زوجہ حلال نہيں ہو گي۔
مسئلہ ۴۲۹۔ طواف النساءمردوں کے ساتھ مختص نہيں ہے بلکہ خواتين پر بھي واجب ہے پس اگر کوئی مرد طواف نساءکو ترک کردے تو اس پر عورت اس پر حلال نہيں ہو گي اور اگر عورت اسے ترک کردے تواس پرمرد حلال نہيں ہوگا۔
مسئلہ ۴۳۰۔ اختياري صورت ميں سعي کو طواف حج اور اسکي نماز پر مقدم کرنا جائز نہيں ہے اور اسی طرح سے اختیاری حالت میں طواف النساءکو حج کے طواف اور نماز طواف اور سعي پر مقدم کرنا جائز نہیں ہےاور اگر مذکورہ ترتيب کا خیال نہیں رکھاے تو ان اعمال کو اعادہ کرے۔
مسئلہ ۴۳۱۔ اگر بھول کر یا جان بوجھ کر طواف النساءکو ترک کردے اور اپنے وطن لوٹ آئے تواگر بغير مشقت کے واپس مکہ جا سکتا ہو تو لوٹنا واجب ہے ورگرنہ نائب بنائے اور جب تک وہ خود يا اس کا نائب طواف بجا نہ لائے اس پر زوجہ حلال نہیں ہوگی۔
مسئلہ ۴۳۲۔ احرام حج کے ساتھ وہ سب چيزيں حرام ہو جاتي ہيں جو عمرہ کے احرام کے محرمات ميں گزرچکي ہيں اور پھر ان کا حلال ہونا تدريجا تين مرحلوں ميں انجام پاتا ہے۔
اول: حلق يا تقصير کے بعد ہر چيز حلال ہو جاتي ہے سوائے عورتوں اور خوشبو کے حتي کہ شکار بھي حلال ہوجاتا ہے اگر چہ شکار حرم کے حدود میں ہمیشہ حرام ہے۔
دوم: سعي کے بعد اس پر خوشبو حلال ہوجاتي ہے۔
سوم: طواف النساءاور اسکي نماز کے بعد عورت حلال ہوجاتي ہے۔ - آٹھويں فصل: منيٰ ميں رات گزارناآٹھويں فصل: منيٰ ميں رات گزارنا
مسئلہ ۴۳۳۔ حج کے واجبات ميں سے بارہواں اور مني کے اعمال ميں سے چوتھا عمل، رات گزارنا ہے۔
مسئلہ ۴۳۴۔ واجب ہے کہ گيارہويں اور بارہويں کي رات مني ميں گزارے پس اگر عید کے دن دو طواف ، انکي نمازیں اور سعي کو بجالانے کيلئے منی سے مکہ معظمہ چلا گيا ہو تو اس پر مني ميں رات گزارنے کيلئے لوٹنا واجب ہے۔
مسئلہ ۴۳۵۔ مندرجہ ذيل افراد پر مذکورہ راتوں کومني ميں بسر کرنا واجب نہیں ہے ۔
الف: بيمار اور انکي تيمار داري اور نگرانی کرنے والے، بلکہ ہر صاحب عذر شخص کہ جس کيلئے اس عذر کے ہوتے ہوئے مني ميں رات گزار نا مشکل ہو۔
ب: جس شخص کو مکہ ميں اپنا مال اور زاد راہ گم ہونے ياچوري ہوجانے کا خوف ہو ۔
ج: جو شخص ان دو راتوں کو مکہ ميں فجر تک عبادت ميں مشغول رہے اور عبادت کے علاوہ کوئی کام انجام نہ دیں ضرورت کے سوا جیسے ضرورت کے مطابق کھنا پينا، رفع جاجت اورتجدید وضو کرنا۔
مسئلہ ۴۳۶۔ مني: ميں رات بسر کرنا عبادت ہے اور یہ نیت کے ساتھ ہونا چاہیے ان شرائط کے ساتھ جو قبلا بیان ہوچکی ہیں۔
مسئلہ ۴۳۷۔ منیٰ میں رات گزارنا سورج کےغروب سے آدھي رات تک کافي ہے اور جس شخص نے بغير عذر کے رات کا پہلا آدھا حصہ یا اس میں سے بعض کو مني ميں نہ گزارا ہو اس کيلئے احتیاط واجب يہ ہے کہ رات کا دوسرا نصف وہاں گزارے اگر چہ بعيد نہيں ہے کہ اختياري صورت ميں بھي رات کے دوسرے نصف کا وہاں گزارنا جائز ہو ۔
مسئلہ ۴۳۸۔ جو شخص مکہ مکرمہ ميں عبادت ميں مشغول نہ رہا ہو اورمني ميں رات گزارنے والے واجب کام کو بھي ترک کردے تو وہ ہر رات کے بدلے ايک گوسفند کفارہ دیدےاور بنابر احتیاط ا س حکم میں معذور اور غیر معذور یا نا آگاہی اور فرموشی کی وجہ سے ایسا کرنے میں کوئی فرق نہيں ہے ۔
مسئلہ ۴۳۹۔ جس شخص کيلئے بارہويں کے دن منیٰ سے کوچ کرنا جائز ہو تو اسےزوال کے بعد کوچ کرنا چاہیے اور زوال سے پہلے کوچ کرنا جائز نہيں ہے ۔ - نويں فصل :تينوں جمرات کو کنکرياں مارنانويں فصل :تينوں جمرات کو کنکرياں مارنا
مسئلہ ۴۴۰۔ حج کے واجبات ميں سے تيرہواں اور مني کے اعمال ميں سے پانچواں عمل رمی جمرات ہے اور اس کی کيفيت اور شرائط کے اعتبار سے عيد والے دن جمرہ عقبہ کو کنکرياں مارنے کی شرائط سے کوئی فرق نہیں رکھتے۔
مسئلہ ۴۴۱۔ جو راتيں مني ميں گزارنا واجب ہے ان کو گزارنے کے بعد اگلے دن تينوں جمرات یعنی اولي، وسطي اور عقبہ کو کنکرياں مارنا چاہیے۔
مسئلہ ۴۴۲۔ کنکرياں مارنے کا وقت طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک ہے پس اختياري صورت ميں رات کے وقت کنکرياں نہيں مار سکتا ہے اور چرواہے اور دن کو کنکریاں مارنے میں عذر رکھنے والے افراد مثلا جو اپنے مال، عزت اور جان پر آنچ آنے سے ڈرنے والے اس اصل سے مستثنی ہیں۔ عورتيں ، بوڑھے اور بچے کہ جنہيں بھيڑ کي وجہ سے دن کو کنکریاں مارنا مشکل ہو تو وہ رات کو کنکرياں مار سکتے ہیں۔
مسئلہ ۴۴۳۔ جس شخص کو صرف دن کے وقت کنکرياں مارنے میں مشکل یا عذر ہو لیکن رات میں رمی کرسکتا ہو تو اس کےلئے نائب بنانا جائز نہيں ہے بلکہ اس پر واجب ہے کہ ایک رات پہلے یا اسکی اگلی رات خود کنکرياں مارے، ليکن جس شخص کیلئے رات کے وقت بھي کنکریاں مارنا ممکن نہ ہو جيسے بيمار شخص تو وہ نائب بناسکتا ہے ليکن نائب مقرر کرتے وقت اگر عذر برطرف ہونے سے نا امید نہ ہوں تو احتیاط واجب يہ ہے کہ اگلی رات عذر برطرف ہوجائے تو خودبھی کنکرياں مارے۔
مسئلہ ۴۴۴۔ جو شخص خود کنکرياں مارنے سے معذور ہو اگر وہ کسی کونائب بنائے اور نائب اس کام کو انجام دے دے ليکن کنکرياں مارنے کا وقت گزرنے سے پہلے اگر اس کا عذر برطرف ہوجائے اور نائب بناتے وقت اس شخص کو اپنا عذر برطرف ہونے کی امید نہ تھی يہاں تک کہ نائب اس کا عمل انجام دےچکا ہےتو نائب کا وہی رمی کافي ہے اور اس پر خود اس کا اعادہ کرنا واجب نہيں ليکن اگر وہ عذر کے برطرف ہونے سےنا امید نہيں تھا تو اس کيلئے اگر چہ عذر کے طاري ہونے کے وقت نائب بنانا جائز تھا ليکن عذر برطرف ہوجانےکے بعد احتیاط واجب یہ ہے کہ خود اس کا اعادہ کرے۔
مسئلہ ۴۴۵۔ تين جمرات کو کنکرياں مارنا واجب ہے ليکن يہ حج کے ارکان میں سے نہيں ہے۔
مسئلہ ۴۴۶۔ کنکرياں مارنے ميں ترتيب کی رعایت کرنی چاہیے، اس طرح کہ جمرہ اولی سے شروع کرے پھر در ميان والے کو کنکرياں مارے اور پھرعقبہ کو، اور ہر جمرہ کو سات کنکرياں بیان شدہ شرائط کے ساتھ مارنی چاہیے۔
مسئلہ ۴۴۷۔ اگر تين جمرات کو کنکرياں مارنا بھول جائے اور مني سے باہر چلا جائے تو اگر ايام تشريق ميں ياد آجائے اور اسکے لئے منی واپس آنا ممکن ہو تو مني واپس آئے اور خود کنکرياں مارے ورنہ کسي دوسرے کو نائب بنائے ليکن اگر ايام تشريق کے بعد ياد آئے يا جان بوجھ کر رمی کو ایام تشريق کے بعد تک مؤخر کردے تو احتیاط واجب يہ ہے کہ واپس پلٹے اور خود کنکرياں مارے يا اس کا نائب کنکرياں مارے۔ پھر اگلے سال اسکي قضا کرے یا کسي کو نائب بنائے اور اگر تين جمرات کو کنکرياں مارنا بھول جائے يہاں تک کہ مکہ معظمہ سے خارج ہوجائے تو احتیاط واجب يہ ہے کہ آئندہ سال خود اسکي قضا کرے یا کسي کو اس کام کے لئے نائب بنا ئے۔
مسئلہ ۴۴۸۔ جمرات کو چاروں اطراف سے کنکرياں مارنا جائز ہے اور پہلے اور درميان والے جمرہ کو کنکریاں مارتے وقت قبلہ رخ ہونا اور جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے وقت قبلہ کي طرف پشت کرنا شرط نہیں ہے۔
-
- حج اور عمرہ کے استفتائات
مسئلہ ۳۷۴۔ حج کے واجبات ميں سے پہلا واجب، احرام ہے ۔
حج کا احرام کیفیت، شرائط ، محرمات، احکام اور کفار ات کے لحاظ سے عمرہ کے احرام سے مختلف نہيں ہے، صرف نیت میں فرق ہے۔ پس اعمال حج کو انجام دينے کي نيت کے ساتھ احرام باندھے اور جو کچھ عمرہ کے احرام کي نيت ميں بیان ہوا وہ سب حج کے احرام کي نيت ميں بھي معتبر ہے ۔ احرام نيت سے شروع ہوتی ہے اور جب حج کي نيت کرے اور تلبيہ کہے تو وہ محرم ہوگا۔ لیکن حج کے احرام کی چند خصوصیات ہیں جنہيں آنے والے مسائل میں بیان کرینگے۔
مسئلہ ۳۷۵۔ حج تمتع کے احرام کا ميقات مکہ مکرمہ ہے اور افضل يہ ہے کہ حج تمتع کا احرام مسجدالحرام میں باندھے ۔ مکہ معظمہ کے ہر حصے سے احرام باندھنا صحیح ہے حتي کہ اس شہر کی نئی بستیوں سے بھی محرم ہونا صحیح ہے ليکن احوط يہ ہے کہ شہر کے قديمي علاقوں سےمحرم ہوجائے اور اگر کسی جگہ کے بارے میں شک کرے کہ يہ مکہ کا حصہ ہے يا نہيں تو اس جگہ سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے۔
مسئلہ ۳۷۶۔ ضروری ہے کہ ایسے وقت میں مُحرم ہوجائے کہ عرفات میں اختیاری وقوف کو درک کر سکےاور احرام باندھنے کا بہترین وقت ترويہ کے دن( آٹھ ذي الحجہ) زوال کا وقت ہے ، اور اس سے پہلے بھی احرام باندھنا جائز ہے بالخصوص بوڑھے اور مریض افراد کيلئے جنہیں بھيڑ کي شدت کا خوف ہوجیسا کہ پہلے بیان ہوگیا(1) کہ جو شخص عمرہ بجالانے کے بعد کسي ضرورت کي وجہ سے مکہ سے خارج ہونا چاہے تو ان کے لئے بھی مذکورہ وقت سے پہلے محرم ہونا جائز ہے۔
مسئلہ ۳۷۷۔ جو شخص احرام کو بھول کر منی اور عرفات کي طرف چلاجائے اس پر واجب ہے کہ مکہ معظمہ کي طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر وقت کي تنگي يا کسي اور عذر کي وجہ سے ایسا نہ کرسکتا ہو تو جس جگہ اسے یاد آئے وہیں سے احرام باندھ لے اور اس کا حج صحيح ہے اور جو شخص مسئلہ نہیں جانتا ہو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ ۳۷۸۔ جو شخص احرام کو بھول جائے يہاں تک کہ حج کے اعمال مکمل کرلے تو اس کا حج صحيح ہے ۔ اور جو شخص مسئلہ نہیں جانتا ہو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ اور احتیاط مستحب يہ ہے مسئلہ نہ جاننے بھولنے کی صورت میں اگلے سال حج کا اعادہ کرے۔
مسئلہ ۳۷۹۔ جو شخص مسئلہ جانتے ہوئے جان بوجھ کر احرام کو ترک کردے يہاں تک کہ عرفات اورمشعر میں وقوف کا وقت گزر جائے تو اس کا حج باطل ہے۔
مسئلہ ۳۸۰۔ جن کے لئے عرفات اور مشعر کے وقوف سے پہلے مکہ کے اعمال بجا لانا جائز ہے انہیں ان اعمال کو احرام کی حالت میں بجا لانا ہوگا۔ اور اگر احرام کے بغیر انجام دیں تو انہیں احرام کے ساتھ ان کا اعادہ کرنا ہوگا۔
1. مسئلہ 121