دریافت:
نماز اور روزه کی احکام
- نماز
- روزہ
- روزہ واجب ہونے اور صحیح ہونے کی شرائط
روزہ واجب ہونے اور صحیح ہونے کی شرائط
مسئلہ786۔ روزہ واجب ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ بالغ ہو؛ 2۔ عاقل ہو؛ 3۔ قدرت رکھتا ہو؛ 4۔ بے ہوش نہ ہو؛ 5۔ مسافر نہ ہو؛ 6۔ عورت حیض اور نفاس کی حالت میں نہ ہو؛ 7۔ روزہ نقصان دہ نہ ہو؛ 8۔ روزہ رکھنا حرج اور مشقت کا باعث نہ ہو۔
مسئلہ787۔ روزہ ان لوگوں پر واجب ہے جن میں مندرجہ بالا شرائط موجود ہوں ۔ بنابرایں نابالغ بچہ، دیوانہ، بے ہوش، وہ شخص جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ، مسافر، وہ عورت جو حیض اور نفاس کی حالت میں ہو اور اس شخص پر جس کے لئے روزہ مضر یا حرج (زیادہ مشقت) کا باعث ہو روزہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ788۔ اگر بچہ اذان صبح سے پہلے بالغ ہوجائے تو ضروری ہے کہ روزہ رکھے لیکن اگر اذان کے بعد بالغ ہو تو اس دن کا روزہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ789۔ وہ بچی جو حال ہی میں بالغ ہوئی ہو[1] واجب ہے کہ روزہ رکھے اور صرف دشواری اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے روزے کو ترک کرنا جائز نہیں ہے مگر اس صورت میں کہ جب روزہ اس کے لئے مضر ہو یا اس کو تحمل کرنا زیادہ مشقت کا باعث ہو (تو واجب نہیں ہے)۔
مسئلہ790۔ حیض یا نفاس کی حالت میں عورت کا روزہ صحیح نہیں ہے یہاں تک کہ حیض یا وضع حمل مغرب سے کچھ ہی لمحے پہلے ہوا ہو ۔ اسی طرح اگر طلوع فجر کے کچھ ہی لمحے بعد پاک ہوجائے( توبھی روزہ صحیح نہیں ہے)۔
مسئلہ791۔ اگر کوئی جانتا ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر ہے یا مضر ہونے کا معقول احتمال دے (یعنی ضرر کا خوف ہو) تو روزہ واجب نہیں ہے بلکہ بعض صورتوں میں حرام ہے خواہ یہ یقین اور خوف ذاتی تجربے پر مبنی ہو یا قابل اعتماد اور امین ڈاکٹر کے کہنے سے حاصل ہوا ہو یا دیگر معقول طریقوں سے حاصل ہوا ہو اور اگر روزہ رکھے تو صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ قصد قربت سے رکھا ہو اور بعد میں علم ہوجائے کہ مضر نہیں تھا۔
مسئلہ792۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر نہیں ہے چنانچہ روزہ رکھے اور مغرب کے بعد علم ہوجائے کہ روزہ مضر تھا تو اس کا روزہ باطل ہے اور ضروری ہے اس کی قضا بجالائے۔
مسئلہ793۔ بیماری پیدا ہونے یا اس کی شدت میں اضافے میں روزے کی تاثیر اور روزے پر قدرت نہ رکھنے یا روزہ مضر ہونے کی تشخیص مکلف کی ذمہ داری ہے۔ لہذا اگر ڈاکٹر کہے کہ روزہ مضر ہے لیکن اس کے کہنے پر اطمینا ن یا ضرر کا خوف حاصل نہ ہویا مکلف کا ذاتی تجربہ ہو کہ روزہ مضر نہیں ہے تو روزہ رکھنا ضروری ہے ۔ اسی طرح اگر ڈاکٹر کہے کہ روزہ مضر نہیں ہے لیکن مکلف جانتا ہو کہ اس کے لئے روزہ مضر ہے یا معقول ضرر کا خوف ہو تو روزہ حرام ہے اور نہیں رکھنا چاہئے۔
مسئلہ794۔ اگر بیمار شخص ماہ رمضان کے دن میں ٹھیک ہوجائے تو اس دن نیت کرکے روزہ رکھنا واجب نہیں، لیکن اگر ظہر سے پہلے ٹھیک ہوجائے اور روزے کو باطل کرنے والا کوئی انجام نہ دیا ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نیت کرکے روزہ رکھے اور ماہ رمضا ن کے بعد ضروری ہے اس کی قضا بجالائے۔
مسئلہ795۔ مستحب روزہ صحیح ہونے کے لئے لازم ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی قضا اور احتیاط واجب کی بناپر کوئی دوسرا واجب روزہ اس کے ذمے نہ ہو۔
مسئلہ796۔ اگر کسی شخص پر روزے کی قضا واجب ہو اور نہ جانتا ہو کہ قضا روزہ واجب ہونے کی صورت میں مستحب روزہ صحیح نہیں ہے چنانچہ مستحب کی نیت سے روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ باطل ہے اور قضا روزہ بھی شمار نہیں ہوگا۔
مسئلہ797۔ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ اس کے ذمے قضا روزہ ہے یا نہیں چنانچہ اپنے اوپر عائد وظیفے یا مافی الذمہ (بشمول قضا اور مستحب ) کی نیت سے روزہ رکھ لے اور اگر اس کے ذمے قضا روزہ ہو تو قضا روزہ شمار ہوگا۔
مسئلہ798۔ اگر کسی شخص پر ماہ رمضان کے روزے کی قضا واجب ہو چنانچہ بھول جائے اور مستحب روزہ رکھ لے اور دن میں یاد آجائے تو مستحب روزہ باطل ہے، البتہ اگر ظہر سے پہلے یاد آئے تو ماہ رمضان کے قضا روزے کی نیت کرسکتا ہے تاہم اگر ظہر کے بعد یاد آئے تو قضا روزے کی نیت کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔
[1] ۔ لڑکیوں میں بلوغت کی عمر نظر مشہور کی بنا پر قمری 9 سال کا مکمل ہونا ہے ( جو شمسی اور عیسوی اعتبار سے 8 سال، 8 مہینے اور23 دن کے برابر ہے)۔
- واجبات روزہ
- وہ چیزیں جو روزے دار کے لئے مکروہ ہیں
وہ چیزیں جو روزے دار کے لئے مکروہ ہیں
مسئلہ877۔ روزے کے بعض مکروہات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ ہر ایسا کام کرنا جو کمزوری کا باعث ہو (مثلاً خون دینا اور حمام جانا)
2۔ خوشبودار پودوں کو سونگھنا(عطر لگانا مکروہ نہیں ہے)
3۔ پہنے ہوئے لباس کو تر کرنا
4۔ تر لکڑی سے مسواک کرنا
5۔ دانٹ نکلوانا اور ہر وہ کام کرنا جس کی وجہ سے منہ سے خون نکلے۔
6۔ غذا وغیرہ چکھنا
7۔ ناک میں دوا ڈالنا جبکہ حلق تک نہ پہنچے
8۔ آنکھ میں دواڈالنا اور سرمہ لگانا جبکہ اس کی بو یا ذائقہ حلق تک پہنچ جائے۔
9۔ عورت کا پانی میں بیٹھنا
10۔ شریک حیات کو چھونا اور مذاق کرنا اور ہر وہ کام کرناجو شہوت ابھارنے کا باعث ہو۔
11۔ زیادہ کلی کرناروزے دار کے لئے مکروہ ہے۔
- وہ صورتیں جن میں قضا اور کفارہ عمدی دونوںواجب ہیں
وہ صورتیں جن میں قضا اور کفارہ عمدی دونوںواجب ہیں
مسئلہ878۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں عمداً و اختیار سے اور بغیر کسی شرعی عذر کے روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام[1] انجام دے تو روزہ باطل ہونے کے علاوہ قضا بھی ہے اور کفارہ عمدی بھی انسان پر واجب ہوجاتا ہے خواہ اس پر کفارہ ہونے کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔
مسئلہ879۔ اگرکوئی شخص حکم شرعی سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ایسا کام کرلے کہ جس سے روزہ باطل ہوتا ہو مثلاً نہیں جانتا ہو کہ دوا کھانے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے چنانچہ ماہ رمضان کے دن میں دوا کھالے تو روزہ باطل ہوگا اور ان کی قضا بجالانا ضروری ہے لیکن کفارہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ880۔ اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ کوئی کام حرام ہے لیکن نہیں جانتا ہو کہ اس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے چنانچہ وہ کام انجام دے دے تو قضا کے علاوہ احتیاط واجب کی بناپر کفارہ بھی دینا ضروری ہے۔
مسئلہ881۔ اگر روزہ دار کے حلق سے کوئی چیز منہ میں آجائے تو اس کو نہیں نگلنا چاہئے اور اگر عمداً نگل لے تو قضا اور کفارہ واجب ہیں۔
مسئلہ882۔ اگر کوئی شخص نذر کرے کہ کسی مخصوص دن میں روزہ رکھے گا چنانچہ اس دن عمداً روزہ نہ رکھے یا اپنا روزہ باطل کرلے تو ضروری ہے کہ کفارہ[2] دے۔
مسئلہ883۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں کہے کہ مغرب ہوگئی ہے اور انسان کو اس پر اعتماد نہ ہو اور افطار کرلے۔ اس کے بعد متوجہ ہوجائے کہ مغرب نہیں ہوئی تھی تو قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔
مسئلہ884۔ جس شخص نے اپنا روزہ عمداً باطل کیا ہو اگر اس دن سفر کرے تو کفارہ ساقط نہیں ہوگا۔
مسئلہ885۔ جماع میں دونوں افراد کا روزہ باطل ہے اور دونوں پر قضا اور کفارہ واجب ہیں۔
- عمداً افطار کرنے کا کفارہ
عمداً افطار کرنے کا کفارہ
مسئلہ886۔ دین مقدس اسلام میں جان بوجھ کر (عمداً)ماہ رمضان مبارک کا روزہ افطار کرنے کا کفارہ مندرجہ ذیل تین چیزوں میں سے ایک ہے:
1۔ ایک غلام آزاد کرنا؛
2۔ دو مہینے روزہ رکھنا؛
3۔ ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا۔
چونکہ موجودہ زمانے میں کوئی غلام نہیں ہوتا جس کو آزاد کیاجائے بنابرایں مکلف کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے دو کاموں میں سے ایک کو انجام دے۔
مسئلہ887۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کے کفارہ میں دو مہینے روزے رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ ایک پورا مہینہ اور اگلے مہینے کے کم از کم ایک دن تک مسلسل روزے رکھے اور اگر دوسرے مہینے کے باقی ایام میں پے درپے روزہ نہ رکھے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ888۔ اگر کسی شخص پر پے درپے روزے رکھنا واجب ہو اور اس دوران کسی عذر کے بغیر کسی دن روزہ نہ رکھے یا ایسے وقت روزہ رکھنا شروع کرے جس کے درمیان کسی دن روزہ رکھنا حرام ہو مثلاً عید قربان یا ایسا دن آئے جس میں روزہ رکھنا واجب ہو مثلاً ایسا دن آئے جس میں روزہ رکھنے کی نذر کی ہو تو جن دنوں میں روزہ رکھا ہے وہ شمار نہیں ہوں گے اور ضروری ہے دوبارہ شروع سے روزہ رکھے۔
مسئلہ889۔ اگر کوئی شخص ساٹھ دن روزے رکھنا چاہے اور اس دوران کسی عذر کی وجہ سے مثلاً بیماری یا حیض کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو عذر برطرف ہونے کے بعد باقی روزے رکھ سکتا ہے اور لازم نہیں ہے کہ دوبارہ شروع سے رکھے۔
مسئلہ890۔ ساٹھ فقیروں کو دو طریقوں سے کھانا کھلا سکتے ہیں:
1۔ تیار شدہ کھانا پیٹ بھر کر کھلائیں
2۔ ہر ایک کو 750 گرام (ایک مد) گندم، آٹا، روٹی، چاول یا دوسری غذائی اجناس دیں۔
مسئلہ891۔ فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس اپنے اور اپنے گھر والوں کے سال بھر کا خرچہ نہ ہو اور اس کو حاصل نہیں کرسکتا ہو۔
مسئلہ892۔ اگر کوئی شخص کفارہ عمدی کے طور پر واجب تین چیزوں میں سے کوئی بھی کام انجام دینے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے جتنے فقیروں کو کھانا دے سکتا ہو کھانا کھلائے اور احتیاط یہ ہے کہ استغفار بھی کرے اور اگر کھانا کھلانے پر بالکل بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو استغفار کرنا کافی ہے یعنی دل اور زبان سے کہے : اَستَغفِرُ اللهَ (اے اللہ تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں)
مسئلہ893۔ اگر روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے کسی شخص کا فریضہ استغفار کرنا ہو چنانچہ بعد میں روزہ رکھنے یا فقیروں کو کھانا کھلانے پر قادر ہوجائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ یہ کام انجام دے۔
مسئلہ894۔ اگر کوئی شخص کفارہ عمدی کے طور پر ساٹھ فقیروں کو(اس تفصیل کے مطابق جو گذشتہ مسئلے میں گزرگئی) کھانا کھلانا چاہے چنانچہ ساٹھ فقیر دسترس میں ہوں تو دو افراد کا حصہ ایک فرد کو نہیں دے سکتا بلکہ لازمی ہے کہ ساٹھ فقیروں میں سے ہر ایک کو اس کے حصے کے برابر کھانا دے۔ البتہ فقیر کے گھر والوں کا حصہ اس کے حوالے کرسکتا ہے تا کہ وہ ان پر خرچ کرے اور فقیر میں بچہ اور بزرگ یا مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
مسئلہ895۔ اگر روزہ دار ایک دن میں ایک دفعہ سے زیادہ مبطلات روزہ کو انجام دے توصرف ایک کفارہ واجب ہے۔ البتہ اگرجماع یا استمناء کے ذریعے روزہ باطل کرے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ جماع یا استمنا کی تعداد کے مطابق کفارہ دے۔
مسئلہ896۔ اگر کوئی شخص حرام طریقے سے جماع کر کے یا حرام چیز کھا کر یا پی کر ماہ رمضان میں اپنا روزہ باطل کرلے تو تین کفاروں میں سے ایک کافی ہے، اگرچہ احتیاط مستحب ہے کہ تینوں کفارے (ایک غلام کو آزاد کرنا، ساٹھ دن روزے رکھنا اور ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا) دے۔
مسئلہ897۔ اگر کسی شخص پر کفارہ واجب ہو تواس کو فوراً دینا لازمی نہیں ہے لیکن اتنی تاخیر نہیں کرنی چاہئے کہ واجب کی ادائیگی میں تاخیر شمار ہو۔
مسئلہ898۔ اگر کسی شخص پر کفارہ واجب ہو اور وہ کئی سال تک نہ دے تو کفارے میں کوئی اضافہ نہیں ہوگی۔
مسئلہ899۔ روزے کی قضا اور کفارہ کی ادائیگی میں کوئی ترتیب نہیں ہے اور جس کو چاہے پہلے بجالاسکتا ہے۔
- وہ صورتیں جن میں روزے کی صرف قضا واجب ہے
وہ صورتیں جن میں روزے کی صرف قضا واجب ہے
مسئلہ900۔ اگر کوئی ماہ رمضان میں روزے کی نیت نہ کرے یا ریا کرے یا روزہ نہ رکھنے کا قصد کرے لیکن روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے تو اس دن کے روزے کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ901۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی رات میں جنب ہوجائے اور اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ843 میں بیان کی گئی ہے اذان صبح تک دوسری نیند سے بیدار نہ ہو تو اس پر صرف قضا واجب ہے، البتہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والے کاموں سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ902۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور کئی دن روزہ رکھے تو ان دنوں کی اس پر صرف قضا واجب ہے۔
مسئلہ903۔ ماہ رمضان میں سحری کے دوران جب تک طلوع فجر کا یقین نہ ہوجائے روزے کو باطل کرنے والے کام انجام دے سکتا ہے۔
مسئلہ904۔ اگر ماہ رمضان کی سحری کے دوران صبح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں تحقیق کئے بغیر ایسا کام انجام دے جو روزے کو باطل کرتا ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی تو ضروری ہے کہ اس دن کی قضا بجالائے لیکن اگر تحقیق اور صبح نہ ہونے پر علم ہونے کے بعد یہ کام انجام دیا ہو اور بعد میں پتہ چلے کہ صبح ہوگئی تھی تو اس دن کی قضا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ905۔ ماہ رمضان کے دن میں انسان کو جب تک مغرب ہونے کا یقین نہ ہوجائے افطار نہیں کرسکتا۔
مسئلہ906۔ اگرکسی شخص کو ماہ رمضان کے دن میں فضا تاریک ہونے کی وجہ سے یقین ہوجائے کہ مغرب ہوگئی ہے یا وہ لوگ جن کی بات شرعی طورپر حجت ہے کہیں کہ مغرب ہوگئی ہے اور افطار کرلے، پھر اس کے بعد پتہ چلے کہ مغرب نہیں ہوئی تھی تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا بجالائے۔
مسئلہ907۔ اگر کوئی شخص مطلع ابرآلود ہونے کی وجہ سے گمان کرے کہ مغرب ہوگئی ہے اور افطار کرلے اور بعد میں معلوم ہو کہ مغرب نہیں ہوئی تھی تو اس دن کی قضا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ908۔ اگر کسی وجہ سے روزے کو توڑنا جائز یا واجب ہوجائے مثلاً کوئی اس کو روزہ باطل کرنے والا کوئی کام کرنے پر مجبور کرے یا ڈوبنے والے کو بچانے کے لئے پانی میں کود پڑے تو اس صورت میں کفارہ واجب نہیں ہے لیکن اس دن کے روزے کی قضا کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ909۔ اگر روزہ دار وضو کے دوران ( کہ جب منہ میں تھوڑا پانی گھمانا اور کلی کرنا مستحب ہے) اس اطمینان کے ساتھ کہ پانی حلق تک نہیں پہنچے گا، کلی کرے اور بے اختیار پانی حلق میں چلا جائے تو چنانچہ واجب نماز کے وضو کے لئے یہ کام انجام دیا ہو تو روزہ صحیح ہے لیکن اگر غیر واجب نماز کے وضو کے لئے یا وضو کے علاوہ کسی اور کام مثلاً ٹھنڈک پہنچانے کے لئے پانی ڈالا ہو اور بے اختیار پانی حلق میں چلا جائے تو احتیاط کی بنا پر اس دن کی قضا بجالانا ضروری ہے۔
مسئلہ910۔ اگر روزہ دار کو علم ہو کہ کلی کرنے سے بے اختیار یا بھولے سے پانی حلق میں چلاجائے گا تو ضروری ہے کہ کلی نہ کرے۔
- قضا روزے کے احکام
قضا روزے کے احکام
مسئلہ911۔ اگر کوئی شخص ایک دن یا کئی دن بے ہوش یا کومے میں رہے تو جتنے روزے چھوٹ گئے ہیں ان کی قضا رکھنا لازمی نہیں ہے۔
مسئلہ912۔ اگر مست ہونے کی وجہ سے کسی کا روزہ چھوٹ جائے تو گویا اس نے روزے کی نیت نہیں کی اگرچہ پورا دن مبطلات سے پرہیز کی ہو پھر بھی اس کا روزہ صحیح نہیں ہے اور اس کی قضا واجب ہے۔
مسئلہ913۔ اگر کوئی شخص نیت کرے اور اس کے بعد مست ہوجائے اور پورا دن یا دن کا کچھ حصہ مستی کی حالت میں گزارے تو احتیاط واجب کی بناپر اس دن کے روزے کی قضا کرنا ضروری ہے مخصوصاً شدید مستی میں جو عقل زائل ہونے کا باعث ہے۔
مسئلہ914۔ گذشتہ دونوں مسئلوں میں کوئی فرق نہیں ہے کہ مست کرنے والی چیز کھانا اس کے لئے حرام ہو یا بیماری کی وجہ سے ہو یا اس حرام کے موضوع[1] سے بے خبر ہو۔
مسئلہ915۔ جن دنوں میں عورت نے حیض یا وضع حمل کی وجہ سے روزہ نہیں رکھا ہو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے بعد ان کی قضا کرے۔
مسئلہ916۔ اگر کوئی شخص بیماری،حیض یا نفاس کی وجہ سے ماہ رمضان کے روزے نہ رکھے اور ماہ رمضان ختم ہونے سے پہلے فوت ہوجائے تو جو روزے نہیں رکھے ہیں، اس کی نیابت میں ان کی قضا رکھنا لازمی نہیں ہے۔
مسئلہ917۔ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے ماہ رمضان کے کچھ روزے نہ رکھے اور ان کی تعداد معلوم نہ ہو چنانچہ عذر کے آغاز کے بارے میں نہ جانتا ہو مثلاً ماہ رمضان کی پچیسویں تاریخ کو سفر کیا تھا تا کہ چھوٹ جانے والے روزوں کی تعداد چھے ہو یا چھبیسویں تاریخ کو سفر کیا تھا تا کہ تعداد پانچ ہو تو کم دنوں کی قضا کرسکتا ہے تاہم اگر عذر شروع ہونے کا وقت جانتا ہو مثلاً مہینے کی پانچویں تاریخ کو سفر کیا تھا لیکن دسویں کی رات کو واپس آیا تھا تا کہ چھوٹ جانے والے روزوں کی تعداد پانچ ہو یا گیارہویں کی رات کو واپس آیا تھا تا کہ چھے روزے چھوٹ گئے ہوں تو اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ زیادہ دنوں کی قضا کرے۔
مسئلہ918۔ اگر کسی شخص پر چند سالوں کے روزوں کی قضا واجب ہو تو جس سال کے روزوں کی قضا پہلے کرنا چاہے صحیح ہے تاہم اگر آخری رمضان کی قضا کا وقت تنگ ہو مثلاً آخری رمضان کے پانچ روزوں کی قضا واجب ہو اور آئندہ رمضان شروع ہونے میں پانچ ہی دن باقی ہوں تو اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ آخری رمضان کے روزوں کی قضا کرے۔
مسئلہ919۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کے روزوں کی قضا بجالائے چنانچہ قضا کا وقت تنگ نہ ہو تو ظہر سے پہلے روزے کو توڑ سکتا ہے اور اگر وقت تنگ ہو یعنی آئندہ رمضان شروع ہونے میں قضا روزوں کی تعداد کے برابر ہی دن باقی ہوں تو احتیاط یہ ہے کہ ظہر سے پہلے بھی روزے کو نہ توڑے۔
مسئلہ920۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کے روزے کی قضا رکھے اور ظہر کے بعد عمداً روزے کو توڑدے تو ضروری ہے کہ دس فقیروں کو کھانا کھلائے اور اگر یہ نہیں کرسکتا ہو تو تین دن روزہ رکھے۔
مسئلہ921۔ اگر کسی شخص پر چند سالوں کے روزے کی قضا واجب ہو اور نیت میں معین نہ کرے کہ کس سال کا روزہ ہے تو پہلے سال کی قضا شمار ہوگی۔
مسئلہ922۔ اگر کسی نے کوئی عذر (مثلاً بیماری اور سفر) کی وجہ سے روزہ نہ رکھا ہو چنانچہ آئندہ رمضان سے پہلے عذر برطرف ہوجائے تو ضروری ہے کہ قضا کرے۔
مسئلہ923۔ اگر کسی نے بیماری کی وجہ سے ماہ رمضان کا روزہ نہ رکھا ہو چنانچہ آئندہ رمضان تک اس کی بیماری طول پکڑ لے تو روزوں کی قضا ساقط ہے اور ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد کھانا فقیر کو دے۔
مسئلہ924۔ اگر کوئی شخص بیماری کی وجہ سے ماہ رمضان کے روزے نہ رکھے اور ماہ رمضان کے بعد اس کی بیماری برطرف ہوجائے لیکن فوراً کوئی اور عذر پیش آجائے اور آئندہ رمضان تک قضا بجا نہ لاسکے تو ضروری ہے کہ بعد کے سالوں میں ان روزوں کی قضا کرے۔ اسی طرح اگر ماہ رمضان میں بیماری کے علاوہ کوئی اور عذر پیش آئے اور رمضان کے بعد برطرف ہوجائے لیکن آئندہ رمضان تک بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو ضروری ہے کہ ان روزوں کی قضا بجالائے۔
مسئلہ925۔ اگر کوئی شخص سفر کی وجہ سے ماہ رمضان کے روزے نہ رکھ سکے چنانچہ آئندہ رمضان تک سفر کی حالت میں رہے تو گذشتہ رمضان کی قضا ساقط نہیں ہوگی اور ضروری ہے کہ بعد میں اسے بجالائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تاخیر کا کفارہ بھی دے۔
مسئلہ926۔ اگر کوئی شخص جسمانی کمزوری کی وجہ سے ماہ رمضان کے روزے اور آئندہ رمضان تک اس کی قضا رکھنے پر بھی قادر نہ ہو تو قضا ساقط نہیں ہوگی اور جب بھی قادر ہوجائے ضروری ہے کہ قضا بجالائے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے چند سال روزہ نہ رکھا ہو اور توبہ کرکے ان کو ازالہ کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہو تو واجب ہے کہ چھوٹ جانے والے تمام روزوں کی قضا کرے اور چنانچہ قضا نہ کرسکے تو روزوں کی قضا ساقط نہیں ہوگی بلکہ اس کے ذمے باقی رہے گی۔
- روزے کی قضا میں تاخیر کا کفارہ
روزے کی قضا میں تاخیر کا کفارہ[1]
مسئلہ927۔ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے ماہ رمضان میں روزے نہ رکھے اور رمضان کے بعد عذر برطرف ہوجائے، اس کے باوجود آئندہ رمضان پہنچنے تک روزے کی قضا نہ کرے تو ضروری ہے کہ روزوں کی قضا کے ساتھ ساتھ ہر دن کے لئے ایک مد کھانا فقیر کو دے۔
مسئلہ928۔ اگر کوئی شخص عمداً ماہ رمضان میں روزہ نہ رکھے اور آئندہ رمضان تک بغیر کسی عذر کے قضا بھی بجا نہ لائے تو ضروری ہے کہ قضا اور عمداً افطار کرنے کا کفارہ دینے کے ساتھ ساتھ ہر دن کے لئے ایک کفارہ تاخیر (چنانچہ گذشتہ مسئلے میں بیان کیا گیا) فقیر کو دے۔
مسئلہ929۔ کفارہ تاخیر ایک مد کھانا ہے یعنی 750 گرام گندم، آٹا، روٹی، چاول یا دیگر غذائی اجناس جو فقیر کو دینا ضروری ہے۔
مسئلہ930۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کے روزوں کی قضا بجالانے میں کئی سال کی تاخیر کرے تو روزوں کی قضا کے ساتھ ساتھ وہی ایک مد کھانا فقیر کو دینا ہوگا اور اضافی سالوں کی تاخیر کے لئے اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔
مسئلہ931۔ جس شخص کے لئے ہر دن کے عوض ایک مد کھانا فقیر کو دینا ضروری ہووہ چند دنوں کا کفارہ ایک ہی فقیر کو دے سکتا ہے۔
مسئلہ932۔ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ آئندہ رمضان سے پہلے روزوں کی قضا بجالانا واجب ہے تو تاخیر کا کفارہ ساقط نہیں ہوگا۔
[1] ۔ یعنی وہ کفارہ جو ماہ رمضان کے روزے کی قضا بجالانے میں آئندہ سال کے ماہ رمضان کے پہنچنے تک تاخیر کرنے کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔
- والدین کے قضا روزوں کے احکام
والدین کے قضا روزوں کے احکام
مسئلہ933۔ اگر باپ نےاور نیز احتیاط واجب کی بنا پر ماں نے سفر کے علاوہ کسی اور عذر کی وجہ سے اپنے روزے نہ رکھے ہوں اور قضا کرنے پر قادر ہوتے ہوئے قضا نہ کی ہو تو بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ ان کی وفات کے بعد خود یا کسی کو اجیر بنا کر ان روزوں کی قضا بجالائے لیکن سفر کی وجہ سے جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضا بڑے بیٹے پر واجب ہے اگرچہ والدین قضا بجالانے کی فرصت نہیں رکھتے تھے یا ممکن نہیں تھا۔
مسئلہ934۔ والدین نے جو روزے عمداً نہیں رکھے ہیں احتیاط واجب کی بناپر بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔
- مسافر کے روزے کے احکام
- وہ لوگ جن پر روزہ واجب نہیں ہے
وہ لوگ جن پر روزہ واجب نہیں ہے
مسئلہ953۔ اگر حاملہ عورت کے وضع حمل کا وقت قریب ہو چنانچہ روزہ رکھنا بچے کے لئے یا خود اس کے لئے مضر ہونے کا خوف ہو تو روزہ واجب نہیں ہے اور پہلی صورت میں (جب بچے کے لئے مضرہو) ہر دن کے لئے ایک مد کھانا یعنی گندم یا جو وغیرہ (فدیہ کے طور پر) فقیر کو دینا ضروری ہے اور ماہ رمضان کے بعد اس کی قضا بھی بجالائے اور دوسری صورت میں جب خود اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ جو روزے نہیں رکھے ہیں ان کی قضا کرے اور احتیاط کی بنا پر فدیہ بھی دے۔ جس عورت کا وضع حمل قریب نہ ہو اس کے لئے مذکورہ احکام احتیاط واجب پر مبنی ہیں۔
مسئلہ954۔ اگر بچے کو دودھ پلانے والی عورت (بچے کی ماں ہو یا دایہ، اجرت کے ساتھ دودھ پلائے یا اجرت کے بغیر) دودھ خشک ہونے یا کم ہونے کے خوف سے روزہ رکھنے کو بچے کے لئے مضر سمجھتی ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے فدیہ دے اور بعد میں روزوں کی قضا بھی بجالائے لیکن روزہ خود اس کے لئے مضر ہو تو احتیاط کی بنا پر فدیہ واجب ہے۔
مسئلہ955۔ گذشتہ دونوں مسئلوں میں اگر آئندہ ماہ رمضان تک روزہ نہ رکھے چنانچہ کوتاہی کی ہو تو قضا کے علاوہ تاخیر کا کفارہ بھی واجب ہے تاہم اگر کسی عذر کی وجہ سے قضا بجا نہ لائے تو تاخیر کا کفارہ نہیں ہے اور اگر عذر بچے کے لئے ضرر کی صورت میں ہو تو جب بھی ممکن ہو روزوں کی قضا بجالانا ضروری ہے اور اگر عذر خود عورت کے لئے ضرر کی صورت میں ہو تو قضا ساقط ہوگی اور ہر دن کے لئے ایک فدیہ دینا ضروری ہے۔
مسئلہ956۔ عورت کا فدیہ یا کفارہ اس کے شوہر پر نہیں بلکہ خود پر واجب ہے اگرچہ حمل یا دودھ دینے کی وجہ سے روزہ نہ رکھا ہو۔ اسی طرح اولاد کا کفارہ یا فدیہ باپ کے ذمے نہیں ہے البتہ شوہر یا باپ بیوی یا اولاد کا وکیل بن کر ان کا فدیہ یا کفارہ ادا کرسکتے ہیں۔
مسئلہ957۔ بڑھاپے کی وجہ سے مرد یا عورت کے لئے روزہ رکھنا مشقت کا باعث ہو تو ان پر روزہ واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد کھانا (مثلاً گندم، جو یا چاول) فقیر کو فدیہ دیں اور اگر روزہ رکھنے کی بالکل طاقت نہیں رکھتے ہوں تو احتیاط کی بنا پر فدیہ دینا ضروری ہے اور دونوں صورتوں میں چنانچہ رمضان کے بعد روزہ رکھ سکیں تو احتیاط مستحب کی بناپر روزوں کی قضا کریں۔
مسئلہ958۔ اگر کوئی شخص ایسی بیماری میں مبتلا ہو کہ جس میں پیاس زیادہ لگتی ہو اور جس کو تحمل نہیں کرسکتا ہو یا پیاس کو تحمل کرنا اس کے لئے مشقت رکھتا ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے۔ البتہ دوسری صورت میں(جب مشقت ہو) ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد کھانا فقیر کو دے اور احتیاط واجب کی بناپر پہلی صورت میں بھی یہی فدیہ دے اور چنانچہ ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھ سکے تو احتیاط مستحب کی بناپر روزوں کی قضا بجالائے۔
مسئلہ959۔ فدیہ کی مقدار تاخیر کے کفارے کی مقدار کے برابر ہے یعنی 750 گرام گندم، آٹا، روٹی، چاول یا دیگر غذائی اجناس فقیر کو دینا ضروری ہے۔
- پہلی تاریخ ثابت ہونے کے طریقے
پہلی تاریخ ثابت ہونے کے طریقے
مسئلہ960۔ پانچ طریقوں سے پہلی تاریخ ثابت ہوتی ہے:
1۔ مکلف خود چاند دیکھے؛
2۔ دو عادل افراد گواہی دیں، اس صورت میں کہ جب لوگوں کی بڑی تعداد رؤیت سے انکار نہ کرے اور ان دو عادل افراد میں غلطی کا گمان تقویت نہ پکڑے؛
3۔ ایسی شہرت جو علم یا اطمینان کا باعث ہو؛
4۔ گذشتہ مہینے کے تیس دن گذر جائیں؛
5۔ حاکم شرع حکم دے۔
مسئلہ961۔ عصر کے وقت چاند نظر آنے سے قمری مہینے کی رؤیت ہلال ثابت ہوتی ہے اور رؤیت ہلال کے بعد والی رات چاند رات ہوگی۔
مسئلہ962۔ رؤیت ہلال کے لئے طبیعی (غیر مسلح)آنکھ اور جدید ٹیکنالوجی (مسلح آنکھ) کے ذریعے دیکھنے میں کوئی فرق نہیں ہے، لہذا جس طرح طبیعی آنکھ سے چاند نظر آئے تو پہلی تاریخ کا حکم آتا ہے اسی طرح عینک، دوربین اور ٹیلی سکوپ کے ذریعے چاند دکھائی دے تو بھی پہلی تاریخ ثابت ہوگی لیکن کمپیوٹر کے ذریعے تصویر لینے سے چونکہ رؤیت کہلانا معلوم نہیں ہے لہذا پہلی تاریخ ثابت ہونا محل اشکال ہے۔
مسئلہ963۔ چاند کا صرف چھوٹا ہونا یا بڑا ہونا، اوپر ہونا یا نیچے ہونا اور باریک ہونا یا پھیلاہوا ہونا وغیرہ شرعی لحاظ سے پہلی رات یا دوسری رات ہونے پر دلیل نہیں ہے لیکن اگر مکلف کو اس سے علم ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس حوالے سے اپنے علم کے مطابق عمل کرے۔
مسئلہ964۔ کیلنڈر اور نجومیوں کے علمی اعداد و شمار کے ذریعے پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی مگر اس صورت میں کہ جب ان کے کہنے سے یقین حاصل ہوجائے۔
مسئلہ965۔ اگر کسی شہر میں پہلی تاریخ ثابت ہوجائے تو دوسرے شہروں کے لئے جن کا افق اس شہر کے ساتھ برابر ہو کافی ہے۔ افق متحد ہونے سے مراد وہ مقامات ہیں جو چاند کی رویت کے احتمال اور اس کی رویت کے عدم احتمال میں یکساں ہوں۔
مسئلہ966۔ حاکم کے نزدیک صرف چاند کا ثابت ہونا جب تک کہ وہ رؤیت کا حکم جاری نہ کردے، دوسروں کے لئے اس کی پیروی کرنے کے سلسلے میں کافی نہیں ہے مگر اس صورت میں کہ جب چاند نظر آنے کا اطمینان حاصل ہوجائے۔
مسئلہ967۔ اگر حاکم حکم کرے کہ کل پہلی تاریخ ہے اور یہ حکم پورے ملک کو شامل ہوتا ہو تو اس ملک کے تمام شہروں کے لئے اس کا حکم شرعی طور پر معتبر ہے۔
مسئلہ968۔ اگر کسی غیر مسلم اور ظالم و فاجر حکومت کی جانب سے رؤیت ہلال کا اعلان ہو اور مکلف کو اس سے پہلی تاریخ کا یقین یا اطمینان ہوجائے تو کافی ہے۔
مسئلہ969۔ اگر کسی شہر میں چاند نظر نہ آئے لیکن ریڈیو اور ٹی وی پر چاند نظر آنے کی خبر دی جائے چنانچہ یہ خبر چاند نظر آنے کے بارے میں یقین یا اطمینان کا باعث ہو تو کافی ہے اور تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں۔
مسئلہ970۔ اگر ماہ رمضان کی پہلی تاریخ ثابت نہ ہو تو روزہ رکھنا واجب نہیں ہے لیکن اگر بعد میں ثابت ہوجائے کہ پہلی تاریخ تھی تو اس دن کے روزے کی قضا کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ971۔ اگر ماہ شوال کی پہلی تاریخ ثابت نہ ہو یہاں تک کہ قریبی شہروں میں بھی چاند نظر نہ آئے کہ جن کا افق برابر ہو یا دو عادل افراد کی گواہی یا حاکم کے حکم سے پہلی تاریخ ثابت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس دن روزہ رکھے۔
مسئلہ972۔ جس دن کے بارے میں انسان کو شک ہوکہ ماہ رمضان کی آخری تاریخ ہے یا شوال کی پہلی تاریخ تو ضروری ہے کہ روزہ رکھے لیکن اگر دن میں ثابت ہوجائے کہ پہلی شوال ہے تو ضروری ہے کہ افطار کرے اگرچہ مغرب نزدیک ہو۔
- روزے کی قسمیں
روزے کی قسمیں
مسئلہ973۔ روزے کی چار قسمیں ہیں؛ واجب، حرام، مستحب اور مکروہ۔
مسئلہ974۔ واجب روزے مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ ماہ مبارک رمضان کا روزہ؛
2۔ قضا روزہ؛
3۔ کفارے کا روزہ؛
4۔ اعتکاف کے تیسرے دن کا روزہ؛
5۔ حج تمتع میں قربانی کے بدلے کا روزہ؛[1]
6۔ وہ مستحب روزہ جو نذر، عہد اور قسم کی وجہ سے واجب ہوا ہو؛[2]
7۔ باپ اور احتیاط واجب کی بناپر ماں کے روزوں کی قضا بڑے بیٹے پر واجب ہے۔
مسئلہ975۔ بعض حرام روزے مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ عید فطر کا روزہ؛
2۔ عید قربان کا روزہ؛
3۔ ماہ رمضان کی نیت سے روزہ رکھنا جبکہ معلوم نہ ہو شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان کی پہلی تاریخ؛
4۔ بیوی کا مستحب روزہ جب شوہر کی حق تلفی ہو؛
5۔ اس شخص کا روزہ جس کے لئے روزہ مضر ہو؛
6۔ مسافر کا روزہ، مگر ان صورتوں میں جن کو استثنی کیا گیا ہے۔
مسئلہ976۔ جن دنوں میں روزہ رکھنا حرام یا مکروہ ہے ان کے علاوہ پورے سال کے دنوں میں روزہ مستحب ہے لیکن بعض دنوں میں مستحب موکد ہے، منجملہ:
1۔ ہر مہینے کی پہلی اور آخری جمعرات اور ہر مہینے کے دوسرے عشرے کا پہلا بدھ؛
2۔ ہر مہینے کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ (ایام البیض)؛
3۔ ماہ رجب اور ماہ شعبان (پورا مہینہ یا بعض دن حتی ایک دن)؛
4۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (17 ربیع الاول)؛
5۔ عید مبعث (27 رجب)؛
6۔ عید غدیر (18 ذی الحجہ)؛
7۔ یوم دحوالارض (25 ذی القعدہ)؛
مسئلہ977۔ مکروہ روزے مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ میزبان کی اجازت کے بغیر یا منع کرنے کے باوجود مہمان کا روزہ رکھنا؛
2۔ عرفہ کے دن روزہ رکھنا جبکہ کمزوری کے باعث عرفہ کے اعمال میں رکاوٹ بن جائے۔
[1]۔ اگر حاجی حج میں قربانی کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو اور قرض بھی نہ لے سکے تو ضروری ہے کہ اس کے بدلے میں دس دن روزہ رکھے کہ جن میں سے تین روزے حج کے سفر کے دوران اور بقیہ سات دن اپنے وطن میں ہوں۔
[2] ۔ حقیقت میں جو چیز واجب ہوئی ہے وہ نذر اور بقیہ امور پر عمل کرنا ہے، ایسا نہیں کہ مستحب روزہ واجب روزے میں تبدیل ہوگیا ہو۔ - خاتمہ: روزے اور ماہ رمضان مبارک کے آداب
خاتمہ: روزے اور ماہ رمضان مبارک کے آداب
مسئلہ978۔ اگر کوئی شخص مستحب روزہ رکھے تو اس کو اختتام تک پہنچانا واجب نہیں اور جب چاہے اپنا روزہ افطار کرسکتا ہے بلکہ اگر کوئی مومن کھانے کی دعوت دے تو شرعی لحاظ سے اچھا ہے کہ دعوت کو قبول کرکے افطار کرے۔
مسئلہ979۔ مستحب ہے کہ روزہ دار افطار سے پہلے نماز مغرب پڑھے لیکن اگر کوئی انتظار کررہا ہو یا خود اس قدر بھوکا ہو کہ نماز کو حضور قلب کے ساتھ ادا نہ کرسکے تو بہتر ہے کہ پہلے افطار کرے لیکن ممکن ہو تو نماز کو وقت فضیلت میں پڑھے۔
مسئلہ980۔ ماہ رمضان مبارک کے احترام اور آداب کی رعایت کرتے ہوئے مستحب ہے کہ مندرجہ ذیل افراد مبطلات روزہ سے پرہیز کریں، اگرچہ روزے سے نہ بھی ہوں:
1۔ اگر مسافر سفر میں روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور ظہر سے پہلے وطن میں یا ایسی جگہ پہنچے جہاں دس دن قیام کا قصد رکھتا ہو۔
2۔ اگر مسافر ظہر کے بعد وطن میں یا ایسی جگہ پہنچے جہاں دس دن قیام کا قصد رکھتا ہو۔
3۔ اگر بیمار مبطلات روزہ میں سے کسی کو انجام دے اور ظہر سے پہلے ٹھیک ہوجائے۔
4۔ اگر بیمار ظہر کے بعد ٹھیک ہوجائے۔
5۔ اگر عورت دن میں حیض یا نفاس سے پاک ہوجائے۔
6۔ اگر کافر ماہ رمضان کے دوران دن میں مسلمان ہوجائے۔
7۔ اگر بچہ ماہ رمضان کے دوران دن میں بالغ ہوجائے۔
- اعتکاف
-