دریافت:
نماز اور روزه کی احکام
- نماز
- واجب نمازیں
واجب نمازیں
مسئلہ1۔ واجب نمازیں درج ذیل ہیں؛
1۔ یومیہ نمازیں
2۔ نماز طواف جو خانہ کعبہ کے واجب طواف کے بعد ادا کی جاتی ہے۔
3۔ نماز آیات جو سورج گرہن، چاند گرہن، زلزلہ وغیرہ کے وقت ادا کی جاتی ہے۔
4۔ نماز میت جو دنیا سے رخصت ہونے والے مسلمان کے جنازے پر پڑھی جاتی ہے۔
5۔ باپ کی قضا نماز اور احتیاط واجب کی بناپر ماں کی قضا نماز جو بڑے بیٹے پر واجب ہے۔
6۔ وہ نماز جو عہد، نذر، قسم یا اجارہ کی وجہ سے واجب ہوتی ہے۔[1]
[1] درحقیقت (ان مواقع پر) مستحب نماز واجب میں نہیں بدلتی بلکہ نذر، عہد، قسم اور اجارہ پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔
- یومیہ نمازیں
یومیہ نمازیں
مسئلہ 2۔ یومیہ نمازیں شریعت اسلام کے انتہائی اہم واجبات میں سے بلکہ دین کا ستون ہیں اور ا نہیں کسی بھی حالت میں ترک نہیں کرنا چاہئے۔
مسئلہ 3۔ یومیہ واجب نمازیں 17 رکعت ہیں جوکہ درج ذیل ہیں؛
نماز صبح (دو رکعت)
نماز ظہر (چار رکعت)
نماز عصر (چار رکعت)
نماز مغرب (تین رکعت)
نماز عشاء (چار رکعت)
- نماز صبح کا وقت
نماز صبح کا وقت
مسئلہ 4۔ نماز صبح کا وقت طلوع فجر (صبح صادق)[1] سے طلوع آفتاب تک ہے۔
مسئلہ5۔ طلوع فجر (نماز صبح کا ابتدائی وقت) ثابت ہونے میں چاندنی رات اور دوسری راتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اگرچہ بہتر ہے کہ چاندنی راتوں میں صبح کی سفیدی کے رات کی چاندنی پر غالب آنے تک انتظار کیا جائے اور اس کے بعد نماز پڑھی جائے۔
[1] صبح صادق صبح کاذب کے مقابلے میں ہے۔ صبح کاذب اس سفیدی کو کہتے ہیں جو صبح صادق سے پہلے آسمان میں نمودار ہوتی ہے اور افق پر پھیلنے کے بجائے عمودی شکل میں اوپر کی طرف اٹھتی ہے۔ صبح صادق اس وقت ہوتی ہے جب سفیدی افق کی سطح کے ساتھ متصل اور کم روشنی کے ساتھ افق پر پھیل جائےاور وقت گزرنے کے ساتھ اس کی روشنی میں اضافہ ہوجائے۔ چونکہ صبح صادق باریک ہوتی ہے لہذا اس کو مشاہدہ کرنے کے لئے مشرق کا افق پوری طرح کھلا اور مکمل تاریک ہونا چاہئے جو شہروں کے اندر نہایت مشکل ہے۔ چونکہ طلوع فجر کو واضح اور دقیق تشخیص دینا سخت ہے لہذا احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے اذان شروع ہونے کے دس منٹ بعد صبح کی نماز ادا کی جائے۔
- نماز ظہر و عصر کا وقت
نماز ظہر و عصر کا وقت
مسئلہ6۔ نماز ظہر کا وقت ظہر کی ابتدا (زوال آفتاب)[1] سے اس وقت تک ہے جب غروب آفتاب سے پہلے فقط نماز عصر پڑھنے کا وقت باقی ہو۔
مسئلہ7۔ نماز عصر کا وقت نماز ظہر کا مخصوص وقت گزرنے کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے۔
مسئلہ8۔ نماز ظہر اور عصر میں سے ہر ایک کے لئے مخصوص اور مشترک وقت ہے۔ نماز ظہر کا مخصوص وقت ابتدائے ظہر سے لے کر اتنا وقت گزرنے تک ہے کہ جس میں نماز ظہر پڑھ سکیں اور نماز عصر کا مخصوص وقت غروب آفتاب سے پہلے اتنا وقت ہے کہ جس میں فقط نماز عصر پڑھ سکیں۔ ان دونوں کا درمیانی وقت نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت ہے۔
مسئلہ9۔ اگر مکلف نماز ظہر کو نماز عصر کے مخصوص وقت تک نہ پڑھے تو نماز ظہر قضا ہوجائے گی اوراسے نماز عصر پڑھنا ہوگی۔
[1] طلوع آفتاب کے ساتھ مشرق سے مغرب کی طرف لمبا سایہ نمودار ہوتا ہے جو سورج اوپر چڑھنے کے ساتھ ساتھ چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔ جب سورج آسمان کے وسط میں پہنچ جائے اور زمین پر عمودی شکل میں دھوپ پڑے تو سایہ ختم ہوجاتا ہے۔ اگر کسی طرف مائل ہوکر سورج کی روشنی پڑے تو شمال یا جنوب کی طرف تھوڑا سایہ باقی رہتا ہے۔ اگر سایہ پوری طرح ختم ہو جائے تو سورج کے مغرب کی جانب مائل ہونے کے بعد مشرق کی طرف وہ سایہ دوبارہ پیدا ہوتا ہے یا اگر تھوڑا سایہ باقی رہا ہے تو مشرق کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ یہ نماز ظہر کا وقت ہے۔ اسی طرح طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا نصف فاصلہ ، ظہر شرعی ہے۔
- نماز مغرب و عشاء کا وقت
نماز مغرب و عشاء کا وقت
مسئلہ10۔ نماز مغرب کا وقت آسمان میں (غروب آفتاب کے بعد مشرق کی طرف سے پیدا ہونے والی) سرخی ختم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے جب آدھی رات ہونے میں اتنا وقت باقی ہو جس میں فقط نماز عشاء پڑھ سکیں۔
مسئلہ11۔ نماز عشاء کا وقت نماز مغرب کا مخصوص وقت گزرنے کے بعد سے آدھی رات تک ہے۔
مسئلہ12۔ (نماز مغرب و عشاء کے لئے) آدھی رات غروب آفتاب اور طلوع صبح صادق کا درمیانی نصف فاصلہ ہے۔
مسئلہ 13۔ نماز مغرب و عشاء کےلئے مخصوص اور مشترک وقت ہے۔ نماز مغرب کا مخصوص وقت مغرب کی ابتدا سے اس وقت تک ہے جس میں تین رکعت نماز پڑھ سکیں۔ نماز عشاء کا مخصوص وقت آدھی رات ہونے سے پہلے اتنا وقت ہو جس میں فقط نماز عشاء پڑھ سکیں۔ ان دونوں کا درمیانی وقت دونوں نمازوں کا مشترکہ وقت ہے۔
مسئلہ14۔ اگر مکلف نماز عشاء کے مخصوص وقت تک نماز مغرب نہ پڑھے تو اس وقت پہلے نماز عشاء پڑھے اور اس کے بعد نماز مغرب
پڑھے۔
مسئلہ15۔ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے یا معصیت کرتے ہوئے مغرب اور عشاء کی نماز کو آدھی رات تک نہ پڑھے تو احتیاط واجب کی بنا پر اذان صبح تک ادا یا قضا کی نیت کے بغیر (مافی الذمہ کی نیت سے) بجالائے۔
- احکام اوقات نماز
احکام اوقات نماز
مسئلہ 16۔ مستحب ہے کہ انسان نماز کو اول وقت میں پڑھے۔ اس کے بارے میں اسلامی دستورات میں تاکید کے ساتھ سفارش کی گئی ہے اور اگر اول وقت میں نہ پڑھ سکے تو اول وقت سے جتنا نزدیک پڑھ سکے بہتر ہے مگر یہ کہ تاخیر سے پڑھنا کسی لحاظ سے بہتر ہو مثلا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا چاہے۔
مسئلہ 17۔ یومیہ نمازوں کا وقت معلوم کرنے کے لئے( حتی کہ قطب کے قریبی علاقوں میں بھی) اپنے علاقے کے افق کی رعایت کرے۔
مسئلہ 18۔ نماز پڑھنے کے لئے مکلف کو چاہئے کہ وقت داخل ہونے پر یقین یا اطمینان حاصل کرے یا دو عادل مرد وقت داخل ہونے کی خبر دیں یا وقت شناس اور موثق موذن اذان دے۔
مسئلہ 19۔ اگر نماز کا وقت داخل ہونے کا یقین ہوجائے اور نماز میں مشغول ہوجائے اور نماز کے دوران وقت داخل ہونے کے بارے میں شک کرے تو نماز باطل ہے۔ لیکن اگر نماز کے دوران وقت داخل ہونے پر یقین کرے اور شک کرے جو کچھ نماز میں پڑھا ہے ، وقت کے اندر پڑھا ہے یا نہیں؟ تو نماز صحیح ہے۔
مسئلہ20۔ اگر مکلف کو ذرائع ابلاغ وغیرہ (جہاں سے شرعی اوقات کا اعلان کیا جاتا ہے) کے ذریعے وقت داخل ہونے پر اطمینان ہوجائے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ 21۔ جب موذن اذان دینا شروع کرے اور مکلف کو وقت داخل ہونے پر اطمینان ہوجائے تو اذان ختم ہونے تک انتظار کرنا لازمی نہیں بلکہ چاہے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔[1]
مسئلہ22۔ اگر نماز کے وقت قرض خواہ اپنے قرضے کا مطالبہ کرے، اگر انسان ادا کرسکتا ہے تو پہلے قرضہ ادا کرے اور بعد میں نماز پڑھے۔ اسی طرح اگر کوئی اور فوری واجب کام پیش آجائے۔ البتہ اس صورت میں کہ جب نماز کا وقت تنگ ہو تو پہلے نماز بجا لائے۔
مسئلہ23۔ اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہو کہ نماز کے بعض مستحبات کی وجہ سے کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے توان مستحبات کو انجام نہیں دینا چاہئے مثلاً قنوت پڑھنے سے نماز کا کچھ حصہ وقت گزرنے کے بعد پڑھنا پڑے تو قنوت کو نہیں پڑھنا چاہئے۔
مسئلہ 24۔ اگر فقط ایک رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو نماز کو ادا کی نیت سے پڑھے لیکن جان بوجھ کر نمازمیں اس وقت تک تاخیر نہ کرے۔
مسئلہ 25۔ اگر غروب آفتاب تک پانچ رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو نماز ظہر اور عصر دونوں کو پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہوتو ضروری ہے کہ فقط نماز عصر ادا کرے اور نماز ظہر کو قضا پڑھے۔ اگر آدھی رات تک پانچ رکعت پڑھنے کا وقت ہو تو نماز مغرب اور عشاء (دونوں) ادا کرے اور اگر اس سے کم وقت ہوتو فقط عشاء ادا کرے اور اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھے اور احتیاط واجب کی بناپر ادا اور قضا کی نیت کے بجائے مافی الذمہ کی نیت سےبجا لائے۔
مسئلہ 26۔ جو شخص سفر میں ہو اگر غروب آفتاب تک تین رکعت پڑھنے کا وقت ہو تو نماز ظہرا ور عصر (دونوں) اد اکرے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو فقط عصر کی نماز ادا کرے اور نماز ظہر کو قضا پڑھے۔ اگر آدھی رات تک چار رکعت نماز پڑھنے کا وقت ہو تو مغرب اور عشاء ادا کرے اور اگر اس سےکم وقت ہو تو پہلے عشاء کی نماز ادا کرے اور اس کے بعد احتیاط واجب کی بناپر مغرب کی نماز کو ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر مافی الذمہ کے قصد سے پڑھے۔ چنانچہ نماز عشاء پڑھنے کے بعد معلوم ہوجائے کہ آدھی رات ہونے سے پہلے ایک رکعت یا اس سے زیادہ پڑھنے کا وقت ہے تو فورا ادا کی نیت کے ساتھ نماز مغرب پڑھے۔
[1] البتہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ نماز صبح میں احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے اذان شروع ہونے کے تقریباً دس منٹ بعد نماز فجر پڑھی جائے۔
- نمازوں کی ترتیب
نمازوں کی ترتیب
مسئلہ 27۔ نماز عصر کو نماز ظہر کے بعد اور نماز عشاء کو نماز مغرب کے بعد پڑھا جائے اور اگر جان بوجھ کر اس ترتیب کے برعکس پڑھی جائے تو نماز باطل ہے۔
مسئلہ28۔ اگر کوئی شخص غلطی سے یا غفلت کی وجہ سے نماز عصر کو نماز ظہر سے پہلے یا نماز عشاء کو نماز مغرب سے پہلے پڑھے اور نماز ختم ہونے کے بعد اس طرف متوجہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔
مسئلہ 29۔ اگر اس خیال سے کہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے، عصر کی نیت سے نماز میں مشغول ہوجائے اور نماز کے دوران یاد آئے کہ نماز ظہر نہیں پڑھی ہے چنانچہ نماز ظہر اور نماز عصر کے مشترک وقت میں ہو تو فوراً نیت کو ظہر کی نماز میں تبدیل کرے اور نماز پوری کرے اور اس کے بعد نماز عصر بجالائے۔ اگر نماز ظہر کے مخصوص وقت میں ہو تو احتیاط واجب کی بناپر نیت کو ظہر کی نماز میں تبدیل کر کے نماز پوری کرے لیکن بعد میں دونوں نمازیں (ظہر و عصر) ترتیب کے ساتھ بجالائے۔
مسئلہ30۔ اگر اس خیال سے کہ نماز مغرب پڑھ چکا ہے، نماز عشاء میں مشغول ہوجائے اور نماز کے دوران غلطی کی طرف متوجہ ہوجائے چنانچہ نماز مغرب و عشاء کے مشترک وقت میں ہو اور چوتھی رکعت کے رکوع میں نہ پہنچا ہو تو نیت کو نماز مغرب میں تبدیل کرے اور نماز پوری کرے اور اس کے بعد نماز عشاء پڑھے۔ تاہم اگر چوتھی رکعت کے رکوع میں جا چکا ہو تو احتیاط کی بناپر نماز پوری کرے اس کے بعد مغرب اور عشاء کی نماز کو ترتیب کے ساتھ بجالائے۔ اسی طرح اگر مغرب کے مخصوص وقت میں ہو اور چوتھی رکعت کے رکوع میں داخل نہ ہوا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نیت کو نماز مغرب میں تبدیل کرکے نماز پوری کرے اور اس کے بعد دونوں نمازوںکو ترتیب کے ساتھ بجالائے۔
مسئلہ 31۔ اگر ظہر کی نیت سے نماز میں مشغول ہوجائے اور نماز کے دوران یاد آئے کہ پہلے ہی نماز ظہر پڑھ چکا ہے تو نیت کو نماز عصر میں تبدیل نہیں کرسکتا بلکہ ضروری ہے کہ اس نماز کو توڑے اور عصر کی نماز پڑھے۔ اور یہی حکم ہوگا اگر نماز مغرب پڑھنے میں مشغول ہوجائے اور نماز کے دوران یاد آئے کہ پہلے ہی مغرب پڑھ چکا ہے ۔
- مستحب نمازیں
مستحب نمازیں
مسئلہ32۔ مستحب (نافلہ) نمازیں بہت زیادہ ہیں۔ نافلہ نمازوں میں سے یومیہ نمازوں کے نوافل مخصوصا نماز شب کی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
مسئلہ33۔ یومیہ نمازوں کی نوافل وہ مستحب نمازیں ہیں جو شب و روز میں پڑھی جاتی ہیں۔ ان نوافل کا پڑھنا بہت اہم ہے اوران کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے۔ ان نوافل میں سے نافلہ شب (نماز تہجد) جو کہ آدھی رات کے بعد پڑھی جاتی ہے،مستحب نمازوں کے مابین خصوصی اور منفرد طور پر اہمیت کی حامل ہے۔یہ نماز بے تحاشا معنوی خصوصیات رکھتی ہے اور بہتر ہے کہ مسلمان نماز شب کی ادائیگی کے سلسلے میں خاص توجہ اور اہتمام سے کام لیں۔
مسئلہ34۔ یومیہ نمازوں کی نافلہ نمازیں درج ذیل ہیں:
1۔ ظہر کے نوافل ، آٹھ رکعت ( دو رکعت پر مشتمل چار نمازیں) نماز ظہر سے پہلے؛
2۔ عصر کے نوافل ، آٹھ رکعت ( دو رکعت پر مشتمل چار نمازیں) نماز عصر سے پہلے؛
3۔ مغرب کے نوافل، چار رکعت (دو رکعت پر مشتمل دو نمازیں) نماز مغرب کے بعد؛
4۔ عشاء کے نوافل، دو رکعت (بیٹھ کر) نماز عشاء کے بعد[1]؛
5۔ صبح کے نوافل، دو رکعت نماز صبح سے پہلے؛
6۔ نافلہ شب، گیارہ رکعت، آدھی رات سے اذان صبح تک (بہتر ہے کہ رات کے آخری تہائی حصے میں پڑھی جائے اور نماز صبح سے جس قدر نزدیک ہو، زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔)
مسئلہ35۔ جمعہ کے دن ظہر اور عصر کے نوافل بیس رکعت ہیں یعنی ظہر اور عصر کے نوافل میں چار رکعت بڑھ جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تمام بیس رکعت زوال آفتاب سے پہلے پڑھے ، تاہم اگر زوال کے بعد غروب تک بھی بجا لائی جائے تو اشکال نہیں رکھتا۔
مسئلہ36۔ اگر ظہر اور عصر کے نوافل ان کے وقت [2]کے اندر لیکن نماز ظہر اور عصر کی دائیگی کے بعد پڑھے جائیں تو احتیاط واجب کی بناپر ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر (مافی الذمہ کے قصد سے) پڑھے جائیں۔
مسئلہ37۔ نماز شب کا طریقہ یہ ہے کہ پہلےنماز شب کی نیت سے صبح کی نماز کی طرح دو دو رکعت پر مشتمل چار نمازیں پڑھے ۔ اس کے بعد نماز شفع کی نیت سے دو رکعت اور اس کے بعد نماز وتر کی نیت سے ایک رکعت پڑھے جس کے قنوت میں دعا کی کتابوں میں ذکر کی گئی ترتیب کے مطابق مومنین کے لئے استغفار ، مومنین کے لئے دعا اور خدا سے حاجات طلب کرنا مستحب ہے۔
مسئلہ38۔ مسافر یا ایسے جوان افراد جن کے لئے نماز شب پڑھنا سخت ہے یا جو افراد بڑھاپے یا بیماری جیسے عذر رکھتے ہوں نماز شب کو آدھی رات سے پہلے پڑھ سکتے ہیں۔
مسئلہ39۔ نافلہ نمازوں میں سورہ پڑھنا واجب نہیں بلکہ ہر رکعت میں سورہ حمد پڑھنا کافی ہے اگرچہ مستحب ہے کہ سورہ بھی پڑھی جائے۔
مسئلہ 40۔ نماز وتر(کہ جو ایک رکعت پر مشتمل ہے) کےعلاوہ نافلہ نمازوں کی دو رکعت ہیں اور ان کو بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں، اگرچہ کھڑے ہوکر پڑھنا بہتر ہے۔ بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں مستحب ہے کہ دو رکعت کو ایک رکعت کے برابر شمار کیا جائےسوائے نماز وتیرہ (نافلہ عشاء) کے جو احتیاط کی بنابر بیٹھ کر ہی پڑھی جائے۔
[1] اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ بیٹھ کر پڑھی جانے والی عشاء کی دو رکعت نافلہ ایک رکعت شمار ہوتی ہے، یومیہ نوافل کی رکعتوں کی تعداد چونتیس (یومیہ نمازوں سے دوگنی) ہے۔
[2] ظہر کی نافلہ کا وقت ابتدائے ظہر سے لے کر اس وقت تک ہے کہ جب ظہر کے بعد بننے والا شاخص کا سایہ اس کے 7/2 برابر ہوجائے مثلاً اگر شاخص کی لمبائی سات بالشت ہو تو شرعی ظہر کے بعد بننے والا سایہ جب دو بالشت تک پہنچ جائے تو نافلہ ظہر کا آخری وقت ہے۔ نافلہ عصر کا وقت اس وقت تک رہتا ہے کہ جب شرعی ظہر کے بعد بننے والا شاخص کا سایہ اس کے 7/4 برابر ہوجائے۔
- قبلہ
قبلہ
مسئلہ 41۔ مکلف کو چاہئے کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے اس اعتبار سے کعبہ کو قبلہ کہتے ہیں۔ البتہ جو افراد اس سے دور ہیں اوران کے لئے حقیقی طور پر روبرو ہونا ممکن نہیں ہے، اتنا ہی کافی ہے کہ کہا جائے کہ قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہے ہیں۔
مسئلہ42۔ مستحب نمازوں کو چلتے ہوئے یا سواری کی حالت میں پڑھ سکتے ہیں اور اس صورت میں قبلے کی رعایت لازمی نہیں ہے۔
مسئلہ 43۔ ضروری ہے کہ نماز احتیاط،بھولا ہوا سجدہ اور تشہد قبلے کی طرف رخ کرکے بجالایا جائے اور سجدہ سہو میں بھی احتیاط مستحب یہ ہے کہ قبلے کی طرف رخ کیا جائے۔
مسئلہ44۔ نمازپڑھنے والے کو قبلے کی سمت کے بارے میں یقین یا اطمینان ہونا چاہئے، خواہ صحیح اور معتبر قبلہ نما کے ذریعے یا سورج [1]اور ستاروں کی روشنی(جبکہ ان سے استفادہ کرنے سے واقفیت رکھتا ہو) کے ذریعے ہو یا دیگر ذرائع سے ہو۔ اگر اطمینان پیدا نہ کرسکے تو جس طرف زیادہ گمان ہو اسی سمت نماز پڑھے جیسے کہ محراب مسجد سے حاصل ہونے والا گمان ۔
مسئلہ45۔ اگر قبلے کی سمت معلوم کرنے کے لئے کوئی راہ نہ ہو اور کسی سمت گمان بھی نہ ہو تو احتیاط واجب کی بناپر چاروں طرف رخ کرکے نماز پڑھے اور اگر چار نمازیں پڑھنے کا وقت نہ ہو تو جتنا وقت ہے اس کے مطابق نماز تکرار کرے۔
مسئلہ46۔ اگر تحقیق کے باوجود قبلے کی سمت معلوم کرنے میں غلطی ہوجائے چنانچہ قبلےسے انحراف اگر قبلے کی دائیں سمت یا بائیں سمت (تقریبا 90 درجہ )سے کمتر ہو تو نماز صحیح ہے۔ اگر نماز کے دوران اس غلطی کا احساس ہوجائے تو باقی نماز کو قبلے کی طرف رخ کرکے پڑھے اس صورت میں کوئی فرق نہیں کہ نماز کا وقت وسیع ہو یا نہ ہو۔
مسئلہ 47۔ جس کو قبلے کی سمت کے بارے میں یقین نہ ہو قبلے کی طرف رخ کرکے انجام پانے والے باقی کاموں مثلا ًحیوانات کو ذبح کرنا وغیرہ میں بھی اپنے گمان پر عمل کرے۔ اگر کسی بھی طرف گمان نہ جائے اور تمام اطراف برابر ہوں تو جس طرف بھی رخ کرکے انجام دے صحیح ہے۔
[1] ۔ کہاجاتا ہے کہ شمسی کیلنڈر کے تیسرے مہینے کی سات تاریخ(۲۸ مئی) اور چوتھے مہینے کی پچییس تاریخ(۱۶ جولائی) کو مکہ کے افق پر ظہر کے وقت سورج عمودی حالت میں کعبہ کے اوپر چمکتا ہے چنانچہ سیدھی لکڑی کی مانند کوئی مقیاس یا شاخص ہموار زمین میں سیدھا گاڑ دیا جائے تو ظہر کے وقت مکہ کے افق پر شاخص کا سایہ جس سمت کی نشاندہی کرے، قبلہ اس کی مخالف سمت میں ہوگا یعنی قبلہ سائے کی سیدھ میں شاخص کے اسی سمت ہوگا جہاں سایہ نہیں ہے۔ چنانچہ یہ طریقہ قبلے کی سمت کے بارے میں اطمینان کا باعث بنے تو اس کے مطابق عمل کرنا جائز ہے۔
- نماز میں بدن کا ڈھانپنا
- نماز پڑھنے والے کی جگہ کی شرائط
- احکام مسجد
احکام مسجد
مسئلہ114۔ مسجد کا فرش ، دیواراوراندرونی و بیرونی چھت کو نجس کرنا حرام ہے۔ اگر نجس ہوجائے تو اس کو فوراپاک کرنا واجب ہے۔
مسئلہ115- مسجد کو پاک کرنا واجب کفائی [1]ہے اور اس شخص سے مخصوص نہیں جس نے مسجد کو نجس کیا ہو یا نجس ہونے کا سبب بنا ہو بلکہ ان تمام لوگوں پر واجب ہے جو مسجد کو پاک کرسکتے ہیں۔
مسئلہ116۔ ائمہ علیہم السلام کے حرم کو نجس کرنا حرام ہے۔ اگر نجس ہوجائے اور اس کا نجاست کی حالت میں رہنا بے حرمتی شمار کیا جائے تو پاک کرنا واجب ہے اور اگر بے حرمتی شمار نہ کیا جائے تو پاک کرنا نیک عمل ہے۔
مسئلہ117۔ سونے سے مسجد کی زینت کرنا اگر اسراف شمار کیا جائے تو حرام ہے۔ اس صورت کے علاوہ مکروہ ہے۔
مسئلہ118۔ مسجد کے مقام اور منزلت کی رعایت کرنا واجب ہے اور ان کاموں سے پرہیز کیا جائے جو مسجد کے مقام اور شان کے خلاف ہوں۔
مسئلہ119۔ تعلیمی دروس اور اس جیسے دیگر کام کرنا اگر مسجد کی شان کے خلاف نہ ہوں اور نماز جماعت اور نمازیوں کے لئے زحمت ایجاد نہ کریں تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ120۔ پوری مسجد یا اس کا ایک حصہ توڑنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی مصلحت ہو کہ جس کو اہمیت نہ دینا اور نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو۔
مسئلہ121۔ وہ مسجد جس کو غصب یا توڑدیا گیا ہو اور اس کی جگہ دوسری عمارت بنائی گئی ہو یا متروک ہونے کی وجہ سے مسجد کے آثار مٹ گئے ہوں اور دوبارہ تعمیر کی امید بھی نہ ہو تومعلوم نہیں کہ اس کو نجس کرنا حرام ہو اگرچہ احتیاط مستحب ہے کہ اس کو نجس نہ کریں۔
مسئلہ122۔ اگر مسجدشہر کے تعمیراتی منصوبےکی زد میں آکر روڈ میں شامل ہوجائے اور مجبوری میں مسجد کا ایک حصہ گرادیا جائے اور دوبارہ پہلی حالت کی طرف پلٹنے کا کوئی احتمال نہ ہو تواس پر مسجد کے شرعی احکام لاگو نہیں ہوں گے۔
مسئلہ123۔ مسجد کی شبستان کے کونے میں لائبریری یا میوزیم وغیرہ بنانا اگر اس شبستان کے وقف کی کیفیت سے تضاد رکھتا ہو یا مسجد کی عمارت میں تبدیلی کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے۔
مسئلہ124۔ اگر مسجد کے لئے کسی متحرک اور غیر ثابت جگہ مثلاً گاڑی کو مسجد کے طور پروقف کیا جائے تو احتیاط واجب کی بناپر شرعی مسجد کہلائے گی اوراس پر مسجد کے احکام جاری ہوں گے۔
مسئلہ125۔ مسجد کو صاف اور آباد کرنا مستحب ہے۔ مسجد میں جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ خوشبو لگائے، پاک و صاف کپڑے پہنے، پاؤں یا جوتے پر نجاست یا کچرا لگنے سے احتیاط کرے، سب سے پہلے مسجد میں داخل ہو، آخر میں مسجد سے نکلے، مسجد میں داخل اور خارج ہوتے وقت زبان سے ذکر اور دل میں خشوع پیدا کرے اور مسجد میں داخل ہونے کے بعد تحیت مسجد کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھے، البتہ اگر دوسری واجب یا مستحب نماز پڑھے تو کافی ہے۔
مسئلہ126۔ مسجد میں سونا مکروہ ہے۔
مسئلہ127۔ عزاخانہ اور امام بارگاہ مسجد کا حکم نہیں رکھتے۔
[1] ۔ واجب کفائی، واجب عینی کے مقابلے میں ہے اور اس واجب کو کہا جاتا ہے کہ شروع میں سب پر واجب ہوتا ہے لیکن اس کے کچھ افراد کی جانب سے انجام دئیے جانے کے بعد اس کا واجب ہونا بقیہ افراد سے اٹھ جاتا ہے۔ اگر مکلفین میں سے کوئی ایک بھی اسے انجام نہ دے تو سب گناہگار ہوں گے جیسے کہ مسجد کو پاک کرنا، میت کو غسل دینا اور اس کی تدفین۔ واجب عینی ایسا واجب کہ جسے انجام دینا تمام مکلفین کے لئے ضروری ہے جیسے کہ یومیہ نمازیں اور خمس و زکات وغیرہ۔
- اذان و اقامہ
اذان و اقامہ
مسئلہ128۔ یومیہ واجب نمازوں سے پہلے اذان اور اقامت کہنا مستحب ہے اور نماز فجراور نماز مغرب مخصوصا ًنماز جماعت میں مستحب ہونے کی تاکید کی گئی ہے لیکن دوسری واجب نمازوں مثلا ًنماز آیات میں اذان و اقامہ نہیں ہیں۔
مسئلہ129۔ اذان اٹھارہ جملوں پر مشتمل ہے جو ذیل کی ترتیب سے ہیں:
«اَللهُ اَکْبَرُ» چار مرتبہ
«اَشْهَد اَنْ لا اِلهَ اِلاَّ اللهُ» دو مرتبہ،
«اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً (صلّی الله علیه و آله )رَسُولُ اللهِ» دو مرتبہ،
«حَیَّ عَلَی الصَّلاهِ» دو مرتبہ،
«حَیَّ عَلَی الفَلاحِ» دو مرتبہ،
«حَیَّ عَلی خَیْرِ العَمَلِ» دو مرتبہ،
«اَللهُ اَکْبَرُ» دو مرتبہ،
«لا اِلهَ اِلاَّ اللهُ» دو مرتبہ.
اقامت بھی اذان کی طرح ہے اس فرق کے ساتھ کہ اقامت کے شروع میں الله اکبر دو مرتبہ کہا جائے گا اور «حیّ علی خیر العمل» کے بعد دو مرتبہ «قد قامت الصلوة» کہا جاتا ہے و آخر میں «لااله الا الله» ایک مرتبہ کہاجاتا ہے۔
مسئلہ130۔ «اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیّاً وَلیُّ اللهِ» کہنا تشیع کے شعار کی حیثیت سے اہم اور بہتر ہے لیکن اذان اور اقامت کا جزء نہیں ہے اور قربت مطلقہ کی نیت سے کہا جائے۔
مسئلہ131۔ اذان نماز کا وقت داخل ہونے کا اعلان کرنے کے لئے دی جاتی ہے اور سننے والوں پر اس کو دہرانا موکد مستحبات میں سے ہے۔
مسئلہ132۔ مساجد اور دیگر مکانات سے نماز کا وقت داخل ہونے کا اعلان کرنے کے لئے معمول کے مطابق اسپیکر پر اذان دینا اشکال نہیں رکھتا لیکن قرآن اور دعا وغیرہ پڑھنااگر پڑوسیوں کے لئے اذیت کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے۔
مسئلہ133۔ اگر نماز جماعت کے لئے اذان اور اقامت کہی جاچکی ہو اور کوئی اس نماز جماعت میں شریک ہونا چاہے تو اپنی نماز کے لئے اذان و اقامہ نہ کہے۔
مسئلہ134۔ اذان دیتے وقت مستحب ہے کہ کھڑے ہوکر قبلے کی طرف رخ کرے، وضو یا غسل کے ساتھ ہو، ہاتھوں کو کانوں کے برابر رکھے، بلند آواز کے ساتھ کہے اور آواز کو کھینچے، اذان کے جملوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ ڈالے اور درمیان میں بات نہ کرے۔
مسئلہ135۔ مستحب ہے کہ اقامت کہتے ہوئے انسان کا بدن سکون کی حالت میں ہو، اذان سے آہستہ کہے اور جملوں کو نہ ملائے لیکن اذان کے جملوں کے برابر فاصلہ نہ ڈالے۔
مسئلہ136۔ مستحب ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جائے یا سجدہ کرے یا تسبیح پڑھے یا تھوڑی دیر چپ رہے یا کوئی بات کرے یا دو رکعت نماز پڑھے۔
- واجبات نماز
- قنوت
قنوت
مسئلہ305۔ مستحب ہے کہ تمام واجب اور مستحب نمازوں کی دوسری رکعت میں الحمد اور سورے کے بعد اور رکوع سے پہلے ہاتھوں کو بلند کرے اور دعا پڑھے۔ اس عمل کو قنوت کہتے ہیں۔
مسئلہ306۔ نماز جمعہ میں ہر رکعت میں ایک قنوت ہے جو پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے اور دوسری رکعت میں رکوع کے بعد ہے۔
مسئلہ307۔ عید فطر اور عید قربان کی نماز میں پہلی رکعت میں پانچ اور دوسری رکعت میں چار قنوت ہیں۔
مسئلہ308۔ قنوت میں کوئی بھی ذکر، دعا یا قرآن کی آیت پڑھ سکتا ہے حتی کہ ایک صلوات یا سُبْحَانَ اللهِ یا بِسْمِ اللهِ یا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ پر بھی اکتفا کرسکتا ہے لیکن بہترہے قرآن میں موجود دعائیں پڑھے مثلا رَبَّنا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَ فِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنَا عَذابَ النَّار یا معصومین علیہم السلام سے منقول دعائیں اور اذکار پڑھے مثلا لا اِلَهَ اِلاّ اللهُ الحَلِیمُ الکَرِیمُ، لا اِلهَ اِلاّ اللهُ العَلِیُّ العَظِیمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَ رَبِّ الْاَرَضِینَ السَّبْعِ وَ مَا فِیهِنَّ وَ مَا بَیْنَهُنَّ وَ رَبِّ الْعَرْشِ العَظِیمِ وَ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ العَالَمینَ.
مسئلہ309۔ قنوت میں ہر زبان میں دعا کرنا، استغفار اور حاجت طلب کرنا جائز ہے۔
مسئلہ310۔ قنوت کو بلند آواز سے پڑھنا مستحب ہے لیکن نماز جماعت میں اگر امام جماعت ماموم کی آواز سن رہا ہو تو مستحب نہیں ہے۔
- تعقیبات نماز
تعقیبات نماز
مسئلہ311۔ نماز پڑھنے کے بعد مستحب ہے کہ دعا، ذکر یا قرآن پڑھے اس عمل کو تعقیبات نماز کہتے ہیں اور بہتر ہے کہ اسی حالت میں جب قبلہ رخ اور وضو یاغسل یا تیمم کے ساتھ ہو اس عمل کو انجام دے۔
مسئلہ312۔ تعقیبات نماز کو عربی میں پڑھنا لازم نہیں ہے لیکن بہتر ہے کہ معصومین علیہم السلام سے منقول دعائیں اور اذکار پڑھے۔ ان میں سے بہترین ذکر تسبیح حضرت زہرا علیہا السلام کے نام سے معروف ہے جس میں 34 مرتبہ اللهُ اَکْبَرُ، 33مرتبہ الْحَمْدُ لِلهِ اور 33 مرتبہ سُبْحَانَ اللهِ ہے۔ دعاؤں کی کتابوں میں معصومین علیہم السلام سے بہترین اور خوبصورت مضامین کے ساتھ دعائیں نقل ہوئی ہیں۔
مسئلہ313۔ مستحب ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد سجدہ شکر بجالائے یعنی نماز کی توفیق ملنے اور دوسری نعمتوں کے شکر کی نیت سے پیشانی کو زمین پر رکھے اور بہتر ہے کہ تین مرتبہ یا اس سے زیادہ کہے: شکرا لله ۔
- نماز کا ترجمہ
نماز کا ترجمہ
مسئلہ314۔ نماز پڑھنے والے کے لئے مناسب ہے کہ نماز کے اذکار و الفاظ کو ان کے معانی پر توجہ دیتے ہوئے اور خشوع و حضور قلب کے ساتھ زبان پر جاری کرے تاکہ نماز کے ذریعے روح کی پاکیزگی اور دل کو خدا سے نزدیک کرنے کے لئے استفادہ کرسکے۔
مسئلہ315۔ سورہ حمد کا ترجمہ :
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ، اللہ کے نام سے جس کی بے انتہا رحمت اور فیض دنیا میں سب انسانوں کے لئے عام ہے اور اس کی ابدی رحمت اور بخشش مومنین سے مخصوص ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمینَ تعریف اور ستائش اس خدا کی ذات سے مخصوص ہے جو تمام موجودات کا پالنے والا ہے۔
اَلرَّحْمنِ الرَّحیمِ وہ رحمان ہے (جس کی بخشش اور فضل دنیا میں تمام انسانوں کے لئے ہے) اور رحیم ہے (جس کی ابدی بخشش اور فضل مومنین سے مخصوص ہے)۔
مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ روز جزا (قیامت) کا اختیار اس کے ہاتھ میں ہے۔
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعینُ ہم فقط تیری بندگی کرتے ہیں اور فقط تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔
اِهْدِنَا الصَّراطَ المُسْتَقِیمَ ہمیں راہ راست کی طرف ہدایت فرما
صِراطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ان لوگوں کے راستے کی جانب جنہیں تو نے نعمت عطا کی ہے (ان کے دلوں میں اپنی معرفت کا نور روشن کیا ہے)
غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَ لَاالضَّالِّینَ جو تیرے غضب کا شکار نہ ہوئے اور گمراہی سے دوچار نہ ہوئے ( یعنی تو نے جو بڑی نعمت انہیں عطا کی اس کے بعدانہوں نے ناشکری اور گناہ نہیں کیا کہ تیرے غضب اور ان کی گمراہی کا باعث بنے)
مسئلہ316۔ سورہ توحید کا ترجمہ:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ: قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ آپ کہہ دیں کہ خدا یکتا ہے.
اَللهُ الصَّمَدُ خدا بے نیاز ہے اور تمام موجودات کو خدا کی ضرورت ہے۔
لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُولَدْ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
وَ لَمْ یَکُنْ لَهُ کُفُواً اَحَدٌ کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے۔
مسئلہ317۔ رکوع اور سجدوں کے اذکار اور بعض مستحب اذکار کا ترجمہ:
سُبْحَانِ اللهِ خدا پاک اور منزہ ہے۔
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظیمِ وَ بِحَمْدِه میرا عظیم پروردگار پاک و منزہ ہے اور میں اس کی ستائش میں مشغول ہوں۔
سُبْحانَ رَبِّیَ الْاَعْلی وَ بِحَمْدِهِ میرا پروردگار پاک و منزہ اور سب سے بالاتر ہے اور میں اس کی ستائش میں مشغول ہوں۔
سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ خدا کی عنایت اس پر ہو جو اس کی ستائش کرتا ہے۔
اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّی وَ اَتُوبُ اِلَیْهِ میں اس خدا سے مغفرت چاہتا ہوں جو میرا پروردگار ہے اور میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
بِحَوْلِ اللهِ وَ قُوَّتِهِ اَقُومُ وَ اَقْعُدُ میں خدا کی قوت اور ارادے سے اٹھتا اور بیٹھتا ہوں۔
مسئلہ318۔ قنوت کے اذکار کا ترجمہ:
رَبَّنا آتِنا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَ فِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً اے پروردگار! ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں نیکی عطا کر۔
وَ قِنَا عَذَابَ النَّار اور ہمیں آگ کے عذاب سے دور رکھ۔
لا اِلَهَ اِلاَّ اللهُ الحَلِیمُ الکَرِیمُ اس حلیم و کریم خدا کےعلاوہ کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں ہے۔
لا اِلَهَ اِلاَّ اللهُ العَلِیُّ العَظیمُ اس بلند مرتبہ اور بزرگ خدا کے علاوہ کوئی بھی معبود نہیں ہے۔
سُبْحانَ اللهِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ پاک و منزہ ہے وہ خدا جو سات آسمانوں کا پروردگار ہے۔
وَرَبِّ الاَرَضیْنَ السَّبْعِ اور سات زمینوں کا پروردگار ہے۔
وَمَا فِیْهِنَّ وَ مَا بَیْنَهُنَّ اور ہر اس چیز کا پروردگار ہے جو ان میں اور دونوں کے درمیان ہے۔
وَ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظیمِ اور عرش عظیم کا پروردگار ہے۔
وَ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ اور حمد و ثناء اس خدا کے لئے مخصوص ہے جو تمام موجودات کا پالنے والا ہے۔
مسئلہ319۔ تسبیحات اربعہ کا ترجمہ:
سُبْحانَ اللهِ خدا پاک و منزہ ہے۔
وَالحَمْدُ لِلهِ حمد و ثناء خدا کے لئے مخصوص ہے۔
وَ لاَ اِلهَ اِلاَّ اللهُ اور اللہ کے علاوہ کوئی پرستش کے لائق نہیں۔
وَ اللهُ اَکْبَرُ اور اللہ سب سے بزرگ ہے۔
مسئلہ320۔ تشہد اور سلام کا ترجمہ:
اَلْحَمْدُ لِلهِ حمد و ثناء اللہ کے لئے مخصوص ہے۔
اَشْهَدُ اَنْ لاَ اِلهَ اِلاَّ اللهُ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی پرستش کے لائق نہیں ہے۔
وَحْدَهُ لاَ شَریکَ لَهُ جو یکتا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔
وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ اے خدا رحمت بھیج محمد اور آل محمد پر۔
وَ تَقَبَّلْ شَفاعَتَهُ وَ ارْفَعْ دَرَجَتَهُ اور اس کی شفاعت کو قبول کر اور اس کا درجہ بلند فرما۔
اَلسَّلامُ عَلَیْکَ اَیُّهَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ اے نبی آپ پر اللہ کا درود، رحمت اور برکتیں نازل ہوں۔
اَلسَّلامُ عَلَیْنَا وَ عَلی عِبادِ اللهِ الصَّالِحینَ ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر درود ہو۔
اَلسَّلامُ عَلَیْکُم وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ آپ (مومنین اور فرشتوں) پر اللہ کا درود، رحمت اور برکتیں ہوں۔
- مبطلات نماز (وہ چیزیں جو نماز کو باطل کرتی ہیں)
مبطلات نماز (وہ چیزیں جو نماز کو باطل کرتی ہیں)
مسئلہ321۔ مبطلات نماز درج ذیل ہیں:
1۔ ان شرائط میں سے کسی کا مفقود ہونا جن کی نماز میں رعایت کرنا ضروری ہے۔
2۔ وضو یا غسل کا باطل ہونا۔
3۔ قبلے سے رخ پھیرنا
4۔ بات کرنا
5۔ ہنسنا
6۔ رونا
7۔ نماز کی شکل باقی نہ رہنا
8۔ کھانا اور پینا
9۔ وہ شک جو نماز کو باطل کرتا ہے[1]
10۔ ارکان نماز کو کم کرنا اور بڑھانا
11۔ الحمد کے بعد آمین کہنا
12۔ پیٹ پر ہاتھوں کو باندھنا (تکتف)مسئلہ322۔ اگر نماز کے دوران ان شرائط میں سے کوئی مفقود ہوجائے جن کی رعایت ضروری ہے مثلاً نماز کے دوران متوجہ ہوجائے کہ نماز کی جگہ غصبی ہے تو نماز باطل ہے۔
مسئلہ323۔ اگر نماز کے دوران ایسی چیز سے دوچار ہوجائےجس سے وضو یا غسل یا تیمم باطل ہوتا ہے مثلاً نیند آئے یا پیشاب وغیرہ نکلے تو نماز باطل ہے۔
مسئلہ324۔ اگر جان بوجھ کر قبلے سے اس حد تک اپنا بدن یا رخ پھیرے کہ دائیں اور بائیں طرف آسانی سے دیکھ سکتا ہو تو نماز باطل ہے اور اگر بھول کربھی ایسا کرے تو احتیاط واجب کی بناپر نماز باطل ہے لیکن اگر چہرے کو ایک طرف تھوڑا پھیرے تو نماز باطل نہیں ہے۔
مسئلہ325۔ اگر نماز کے دوران جان بوجھ کر بات کرے تو چاہے ایک کلمہ ہی کیوں نہ ہو، نماز باطل ہے۔
مسئلہ326۔ کھانسنے، چھینکنے اور گلہ صاف کرنے سے نکلنے والی آواز سے اگر کوئی حرف بن جائے تو بھی نماز باطل نہیں ہوتی ہے۔
مسئلہ327۔ اگر ذکر کی نیت سے کوئی کلمہ ادا کرے مثلاً کہے: اللہ اکبر اور کہتے وقت آواز کو بلند کرے تا کہ کسی کو کوئی بات سمجھائے تو کوئی اشکال نہیں ہے لیکن کسی کو بات سمجھانے کی نیت سے ذکر پڑھے تو اگرچہ ذکر کی بھی نیت رکھتا ہو تو نماز باطل ہے۔
مسئلہ328۔ ضروری ہے کہ انسان نماز کی حالت میں کسی کو سلام نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اسے سلام کرے تو اس کا جواب دینا واجب ہے اور اس طرح جواب دے کہ کلمہ سلام پہلے ہو مثلاً کہے: سلام علیکم یا السلام علیکم؛ اور علیکم السلام نہ کہے۔
مسئلہ329۔ اگر کوئی شخص کسی گروہ کو سلام کرے اور کہے: اَلسَّلامُ عَلَیکُم جَمِیعاًاور ان میں سے ایک نماز میں مشغول ہو چنانچہ دوسرا شخص اس کا جواب دے تو نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ جواب نہ دے۔
مسئلہ330۔ بالغ شخص کی طرح اس بچے کے سلام کا جواب دینا بھی واجب ہے جو اچھے برے میں تمییز کرسکتا ہو۔
مسئلہ331۔ سلام کا جواب فوراً دینا واجب ہے اگر کوئی کسی بھی وجہ سے اتنی تاخیر کرے کہ اس سلام کا جواب شمار نہ کیا جائے چنانچہ نماز کی حالت میں ہو تو سلام کا جواب نہیں دینا چاہئے اور اگر نماز کی حالت میں نہ ہو تو بھی جواب دینا واجب نہیں ہے اور اگر تاخیر کی مقدار میں شک کرے تو بھی یہی حکم ہے ، تاہم جان بوجھ کر جواب دینے میں تاخیر کی ہے تو گناہ کیا ہے۔
مسئلہ332۔ نماز پڑھنے والے کو سلام کرتے ہوئے سلام علیکم کے بجائے فقط سلام کہے تو اگر عرفی طور پر اسے تحیت و سلام کہاجاتا ہو تو جواب دینا واجب ہے اور احتیاط کی بناپر اسی طرح جواب دے جو بیان ہوچکا ہے۔
مسئلہ333۔ جان بوجھ کر اور آواز کے ساتھ ہنسنا (قہقہہ لگانا) نماز کو باطل کرتا ہے لیکن بھول کر یا بغیر آواز کے ہنسنے سے نماز باطل نہیں ہوتی ۔
مسئلہ334۔ ایسا نمازی جو اپنی ہنسی نہ روک سکے، اگر اندرونی ہنسی کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہوجائے یا بدن میں لرزش پیدا ہوجائے تو جب تک نماز کی شکل ختم نہیں ہوتی اس کی نماز صحیح ہے۔
مسئلہ335۔ دنیاوی کام کے لئے جان بوجھ کر اور بلند آواز میں رونے سے نماز باطل ہوتی جاتی ہے لیکن خدا کے خوف سے یا آخرت کے لئے ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ بہترین اعمال میں سے ہے۔
مسئلہ336۔ ان کاموں کو انجام دینا جن سے نماز کی شکل تبدیل ہوجاتی ہے مثلاً تالی بجانا اور ہوا میں اچھلنا،جان بوجھ کر ہو یا بھولے سے، نماز کوباطل کردیتاہے۔
مسئلہ337۔ اگر نماز پڑھنے والا کسی کو کوئی بات سمجھانے یا سوال کا جواب دینے کے لئےنماز کی حالت میں ہاتھ یا آنکھ کو اس طرح تھوڑی حرکت دے کہ سکون یا نماز کی شکل کے منافی نہ ہو تو نماز باطل نہیں ہوتی ۔
مسئلہ338۔ نماز میں آنکھوں کو بند کرنے میں کوئی اشکال نہیں اور نماز باطل نہیں ہوتی ، اگرچہ رکوع کے علاوہ مکروہ ہے۔
مسئلہ339۔ قنوت کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر ملنا مکروہ ہے لیکن نماز باطل نہیں ہوتی ۔
مسئلہ340۔ نماز کی حالت میں کھانا اور پینا نماز کو باطل کرتا ہے چاہے کم ہو یا زیادہ لیکن منہ کے اطراف میں باقی بچ جانے والی غذا کے ذرات کو نگلنا یا ذرا سی قند یا شکر کو چوسنا نماز باطل ہونے کا باعث نہیں ہے۔ اسی طرح اگر سہوا ًیا فراموشی سے کوئی چیز کھائے یا پیئے تو نماز باطل نہیں ہوتی ہےبشرطیکہ نماز کی شکل سے خارج نہ ہو۔
مسئلہ341۔ اگر نماز پڑھنے والا عمدا ًیا سہوا ًکسی رکن کو کم کرے یا بڑھائے یا غیر رکنی واجبات میں سے کسی کو عمدا ًکم کرے یا بڑھائے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔
مسئلہ342۔ سورہ حمد پڑھنے کے بعد آمین کہنا جائز نہیں اور نماز باطل ہونے کا سبب ہے لیکن اگر تقیہ کی خاطر ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے۔ اسی طرح سینے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہونا اگر اس نیت سے ہو کہ یہ عمل نماز کا جزءہے تو نماز باطل کردیتا ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اس نیت کے بغیر بھی اس عمل کو انجام نہ دے۔
مسئلہ343۔ بغیر کسی عذر کے واجب نماز کو توڑنا جائز نہیں ہے۔
مسئلہ344۔ اگر نماز توڑے بغیر جان یا ایسے مال کی حفاظت کرنا ممکن نہ ہو کہ جسے بچانا واجب ہے تو ضروری ہے کہ نماز کو توڑدے اور مجموعی طور ان تمام جانی و مالی خطرات سے بچنے کے لئے نماز توڑنا جائز ہے جو نماز پڑھنے والے کے لئے قابل توجہ اور اہم ہوں۔
- شكيّات نماز
- سجدہ سہو
- بھولے ہوئے سجدے اور تشہد کی قضا
بھولے ہوئے سجدے اور تشہد کی قضا
مسئلہ399۔ اگر کوئی شخص نماز کا ایسا واجب فعل بھول کر انجام نہ دے جو رکن نہ ہو تو نماز باطل نہیں ہے اور اس کی قضا بھی لازم نہیں البتہ سجدہ اور احتیاط واجب کی بناپر تشہد میں ضروری ہے کہ نماز کے بعد ان دونوں کی قضا بجالائے۔
مسئلہ400۔ اگر ایک سجدہ بھول جائے اور اگلی رکعت کے رکوع میں یا اس کے بعد یاد آئے تو ضروری ہے کہ نماز کے بعد اس کی قضا بجالائے۔
مسئلہ401۔ اگر تشہد پڑھنا بھول جائے اور اگلی رکعت کے رکوع میں یا اس کے بعد متوجہ ہوجائے تو نماز باطل نہیں ہے لیکن احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہے کہ نماز کے بعد اس کی قضا بجالائے۔
مسئلہ402۔ بھولے ہوئے سجدے اور تشہد کی قضا میں ضروری ہے کہ نماز کی تمام شرائط کی رعایت کرے مثلاً بدن اور لباس کا پاک ہونا اور رو بقبلہ ہونا وغیرہ
مسئلہ403۔ نماز کے سلام کے بعد تشہد کی قضا بجالانے والے شخص کے لئے ضروری نہیں ہے کہ تشہد کی قضا بجالانے کے بعد سلام بھی کہے اور سجدے کی قضا بجالانے والے کے لئے بھی لازم نہیں ہے کہ سجدے کی قضا بجالانے کے بعد تشہد اور سلام پڑھے۔
مسئلہ404۔ اگر نماز کے سلام اور سجدے یا تشہد کی قضا بجالانے کے درمیان کوئی ایسا کام انجام دے جو نماز کو باطل کرتا ہو مثلا قبلے سے رخ موڑلے تو ضروری ہے کہ سجدے اور تشہد کی قضا بجالائے اور نماز صحیح ہے۔
مسئلہ405۔ جس شخص پر سجدے یا تشہد کی قضا واجب ہو اگر اس پر کسی اور کام کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوجائے تو نماز کے بعد ضروری ہے کہ پہلے سجدے یا تشہد کی قضا کرے اس کے بعد سجدہ سہو کو بجالائے۔
- مسافر کی نماز
- پہلی شرط: مسافت شرعی
- دوسری شرط: مسافت شرعی تک جانے کا قصد ہو
- تیسری شرط: شرعی مسافت کا قصد برقرار رہے
تیسری شرط: شرعی مسافت کا قصد برقرار رہے
مسئلہ443۔ نماز قصر ہونے کی تیسری شرط یہ ہے کہ شرعی مسافت تک جانے کا قصد برقرار رہے لہذا اگر سفر کے دوران یہ شرط مفقود ہوجائے تو اگرچہ باقی شرائط موجود ہوں تو بھی نماز پوری ہوگی مثلاً کوئی شخص آٹھ فرسخ تک جانے کا قصد کرے اور دو یا تین فرسخ طے کرنے کے بعد سفر کو جاری رکھنے کے قصد سے پھرجائے یا تردید کا شکار ہوجائے لیکن اگر راستہ گم ہوجائے اور اور قصد کئے بغیر آٹھ فرسخ پر واقع جگہ تک جائے تو نماز پوری پڑھے۔
مسئلہ444۔ اگرکوئی شخص سفر کے آغاز میں ایسی جگہ جانے کا قصد رکھتا ہو جو آٹھ فرسخ کے فاصلے پر واقع ہو لیکن چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے دوسری جگہ جانے کا ارادہ کرے جہاں کا فاصلہ سفر کے آغاز سے آٹھ فرسخ ہوتا ہو تو نماز قصر ہے۔
مسئلہ445۔ اگر کوئی شخص یک طرفہ (یعنی جانے کا سفر) آٹھ فرسخ طے کرنے کا قصد رکھتا ہو چنانچہ چار فرسخ تک پہنچنے کے بعد اپنے قصد سے منحرف ہوجائے اور اسی راستے سے واپس آنے کا ارادہ کرے (یعنی یک طرفہ مسافت کو مجموعی مسافت میں تبدیل کرے) تو اس کی نماز قصر ہے۔
مسئلہ446۔ جو شخص آٹھ فرسخ یا زیادہ طے کرنے کا قصد رکھتا ہو اگر چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے ارادے سے منحرف یا تردید کا شکار ہوجائے تو اس کی نماز پوری ہوگی اور چنانچہ دوبارہ سفر جاری رکھنے کا ارادہ کرے تو کئی صورتیں ہیں:
1۔ منحرف ہوتے وقت یا تردید کے دوران کسی جگہ توقف کیا ہو تو اس صورت میں نماز قصر ہے چاہے فقط باقی راستہ مسافت شرعی کے برابر ہو یا نہ ہو حتی کہ دوبارہ قصد کرنے اور آگے حرکت کرنے سے پہلے اس جگہ نماز پڑھنا چاہے تو قصر پڑھے۔
2۔ تردید یا سفر کو جاری رکھنے سے منحرف ہونے کے دوران کچھ مسافت طے کرے اور دوبارہ سفر کا قصد کرنے کے بعدکا باقی راستہ (یک طرفہ یا مجموعی طور پر) شرعی مسافت کے برابر ہوتو اس صورت میں تردید کی حالت میں جتنا فاصلہ طے کیا ہے اس میں نماز پوری ہوگی لیکن دوبارہ قصد کرنے کے بعد نماز قصر ہوگی۔
3۔ تردید کی حالت میں یا سفر کو جاری رکھنے کے قصد سے منحرف ہوتے وقت کچھ مسافت طے کی ہو اور باقی راستہ مسافت شرعی سے کم ہو تو نماز پوری ہوگی۔ البتہ اگر ارادہ بدلنے یا تردید سے پہلے کی مسافت اور سفر جاری رکھنے کا دوبارہ قصد کرنے کے بعد کی مسافت مجموعی طور پر شرعی مسافت کے برابر ہو تو اس صورت میں احتیاط واجب کی بناپر نماز کو قصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
مسئلہ447۔ جو شخص مسافت شرعی کا قصد کرکے سفر شروع کرے اور حدترخص سے گزرجانے کے بعد اپنی نماز قصر پڑھی ہو چنانچہ اگر چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے ارادے سے پھر جائے یا دس دن قیام کا ارادہ کرے تو جو نمازیں قصر کرکے پڑھی ہیں، احتیاط واجب کی بناپر وقت کے اندر دوبارہ پوری پڑھے اور وقت کے بعد قضا کرے۔
- چوتھی شرط: وطن یا ایسی جگہ سے نہ گزرے جہاں دس دن قیام کا ارادہ ہو-
چوتھی شرط: وطن یا ایسی جگہ سے نہ گزرے جہاں دس دن قیام کا ارادہ ہو-
مسئلہ448۔ نماز قصر ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ سفر کے آغاز میں یا سفر کے دوران راستے میں (آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے) کسی جگہ دس دن قیام یا اپنے وطن سے گزرنے کا ارادہ نہ کرے۔
مسئلہ449۔ اگرکوئی شخص سفر کے آغاز یا درمیان میں آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے کسی جگہ دس دن قیام یا اپنے وطن سے گزرنے کا ارادہ کرے تو سفر کے آغاز سے اس کی نماز پوری ہوگی۔ اسی طرح اگر وطن یا جس جگہ قیام کررہا ہے اسے چھوڑنے کے بعد باقی راستہ اگرچہ آنے اور جانے دونوں ملاکر آٹھ فرسخ نہ ہوتو نماز پوری ہوگی۔
مسئلہ450۔ گذشتہ مسئلے میں اگر کوئی شخص راستے میں دس دن قیام یا وطن سے گزرنے کے بارے میں متزلزل ہوجائے تو شرعی مسافت کا قصد نہیں بنے گا اور اس کی نماز پوری ہوگی۔
- پانچویں شرط: سفر جائز ہو
- چھٹی شرط: ٹھہرنے کی جگہ ہو
چھٹی شرط: ٹھہرنے کی جگہ ہو
مسئلہ472۔نماز قصر ہونے کے شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کے لئے سفر کے علاوہ ایک مستقل جگہ اور رہائش گاہ ہوبنابرایں اگر کسی مسافر کے پاس مستقل سکونت کے لئے سرے سے جگہ اور مکان نہ ہو (یعنی خانہ بدوش ہو)[1] تو اس کی نماز پوری ہوگی۔
مسئلہ473۔ خانہ بدوش قبائل اور وہ لوگ جو سال میں کچھ عرصہ کسی جگہ قیام کرکے سال کے دوسرے ایام میں صحراوں میں جاتے ہیں اور جنگلوں اور بیابانوں میں بستے ہیں ان پر خانہ بدوش کا حکم لاگو نہیں ہو گا بلکہ یہ لوگ دو وطن رکھتے ہیں اگر دونوں جگہوں کا فاصلہ مسافت شرعی کے برابر ہو تو ان دونوں جگہوں کے درمیان ان کی نماز قصر ہوگی۔
مسئلہ474۔ اگر خانہ بدوش دوسرے سفر پر جانا چاہے مثلاً حج یا کسی کی عیادت کے لئے کسی شہر میں جانا چاہے تو چنانچہ دوسرے سفر کی طرح اس سفر میں بھی اس کا خاندان اور گھربار ساتھ ہو اس طرح کہ اس دوران بھی اسے خانہ بدوش کہا جائے تو اس کی نماز پوری ہوگی لیکن اگر خاندان اور گھربار کو کسی شہر میں چھوڑدے اور خود جائے اس طرح کہ اسے خانہ بدوش نہ کہا جائے تو بعید نہیں ہے کہ اس کی نماز قصر ہو۔
مسئلہ475۔ اگر کوئی شخص سال کا ایک حصہ کسی مستقل جگہ رہتا ہو لیکن دوسرے ایام میں کوئی مستقل ٹھکانہ نہ ہو اور خانہ بدوش ہو تو ضروری ہے کہ مستقل جگہ قیام کے دوران نماز کو پوری پڑھے اور جب باہر جائے اور کوئی مستقل ٹھکانہ نہ ہو (مثلاً بعض قبائل) تو احتیاط واجب کی بناپر نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
مسئلہ476۔ اگر خانہ بدوش قبیلے کا کوئی فرد گھاس اور پانی کی تلاش میں قبیلے سے جدا ہوجائے تو اگرچہ آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ طے کرے تو بھی اس کی نماز پوری ہوگی۔
[1] ۔ ’’خانہ بدوش‘‘ کی تعبیر ایسے انسان کے لئے کنایہ ہے جس کا گھربار اس کے ہمراہ ہو اور کسی قسم کی مخصوص قیام گاہ، رہائش کا مقام اور ٹہرنے کی مستقل جگہ نہ ہو کہ جب کبھی وہاں سے نکلے تو پلٹ کر واپس وہاں آئے۔
- ساتویں شرط: سفر اس کا پیشہ نہ ہو
ساتویں شرط: سفر اس کا پیشہ نہ ہو
مسئلہ477۔ سفر میں نماز قصر ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ سفر اس کا پیشہ نہ ہو ، بنابرایں اگر کسی شخص کا پیشہ سفر ہو چاہے اس کے پیشے کا وجود سفر سےہو (یعنی سفر اس کی درآمد کا ذریعہ ہو) مثلاً ڈرائیور اور پائلٹ یا سفر اس کے پیشے کا مقدمہ(ضروری تمہید) ہو مثلاً ڈاکٹر یا معلم جو اپنے پیشے کے لئے سفر کرتے ہیں، اس سفر میں نماز پوری ہوگی اور روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ478۔ اگر کسی شخص کا پیشہ سفر نہ ہو اگرچہ متعدد مرتبہ سفر کرے تو بھی اس کی نماز قصر ہوگی ، چاہے شروع میں ہی کئی دفعہ سفر کرنے کا قصد رکھتا ہو مثلاً کوئی چالیس جمعہ تک تہران سے مسجد جمکران زیارت جانے کا قصد کرے یا کسی قصد کے بغیر اتفاقا ًمتعدد سفر پیش آجائیں مثلاً بیمارکو علاج کے لئے مسلسل کسی شہر کی طرف سفر کرنا پڑے۔
مسئلہ479۔ پیشے والا سفر بننے کے لئے تین شرائط ہونی چاہئے:
1۔ جو سفر انسان کا پیشہ ہے اسی سفر کا قصد ہو؛
2۔ جو سفر اس کا پیشہ ہے اس کو شروع کرے؛
3۔ اسی پیشے والے سفر کو جاری رکھنے کا قصد ہو۔
مسئلہ480۔ سفر پیشہ ہونے کا معیار عرف ہے اگر کسی مورد میں سفر کوعرفاً پیشہ کہنے میں شک ہو نماز قصر اور روزہ باطل ہے۔
مسئلہ481۔ سفر کا پیشہ ہونا اس چیز سے وابستہ نہیں ہے کہ مال کمایا جائے اور کھانے پینے کا بندوبست کیا جائے لہذا جو معلم مفت تعلیم دینے کے لئے سفر کرتا ہو اس کے لئے بھی وہ سفر پیشہ شمار ہوگا اور اس کی نماز پوری ہوگی۔
مسئلہ482۔ مندرجہ بالا شرائط پوری ہونے کے بعد پہلے سفر سے ہی اس پر حکم جاری ہوگا اور نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ483۔ اگر حصول علم کے لئے سفر کرنا پیشے کا حصہ ہو مثلاً کسی ملازم کے لئے ٹریننگ پروگرام منعقد کیا جائے اور اس میں شرکت کے لئے سفر پر جائے تو اس کی نماز پوری ہوگی۔
مسئلہ484۔ وہ طالب علم جو حصول علم کے لئے سفر کرتا ہے تاکہ اس کےذریعے مستقبل میں کوئی پیشہ اختیار کرے تو احتیاط واجب کی بناپر حصول علم کے سفر میں نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے اور روزہ بھی رکھے اور بعد میں اس کی قضابھی کرے۔
مسئلہ485۔ اگر حصول علم کا آغاز کسی گروہ میں شامل ہونے کے ساتھ ہو اور اس گروہ کا عنوان کسی پیشے کی حیثیت رکھتا ہو مثلاً دینی طالب علم کو تعلیم کے آغاز میں ہی مولانا کہا جاتا ہے یا کیڈٹ کالج کے طالب علم جو کچھ مہینے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد کندھوں پر لگایا جانے ولا اعزازی نشان حاصل کرتے ہیں اور افسر کہلاتے ہیں۔ اس طرح کی تعلیم پیشے کا حصہ شمار ہوگی اور تعلیم کے سلسلے میں سفر کے دوران نماز پوری ہوگی اور روزہ رکھنا ہوں گے۔
مسئلہ486۔ اگر کوئی مکلف اپنے پیشے کے لئے فقط ایک دفعہ طویل سفر کرے مثلاً طویل سمندری سفر کرے تو بعید نہیں کہ عرف اس سفر کو پیشے کا حصہ شمار کرے بنابراین نماز پوری ہوگی اگرچہ اس سفر کو جاری رکھنے کا قصد نہ ہو یعنی ایک طویل سفر بذات خود سفر جاری رکھنے کے قصد کا نعم البدل ہوگا۔
مسئلہ487۔ اگر کسی کا پیشہ یہ ہو کہ سال میں فقط ایک دفعہ طویل سفر کرتا ہو مثلاً قافلہ حج کا سالار ہو چنانچہ سارا سال اسی کام میں مشغول رہنے کا قصد ہو تو اس کی نماز حتی کہ پہلے سفر میں بھی پوری ہوگی لیکن اگر جاری رکھنے کا ارادہ نہ ہوتو نماز قصر ہوگی۔
مسئلہ488۔ جو شخص سال کے کچھ حصے میں پیشے کے سلسلے میں سفر کرتا ہے اور اس کا قصد یہ ہے کہ ہر سال اس پیشے کو جاری رکھے مثلاً گرمیوں میں ایک یا دو مہینے ڈرائیونگ کرتا ہے تو اس کا سفر پیشے کا سفر ہوگا اور پہلے سفر سے ہی نماز پوری ہوگی۔
مسئلہ489۔ جو شخص سال کے فقط ایک حصے میں کسی کام میں مشغول رہنا چاہتا ہے اور بعد کےسالوں میں اس کو جاری رکھنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اس کی مشغولیت کا عرصہ کم از کم مسلسل تین مہینے ہونے کی صورت میں (یعنی فقط تعطیلات کے دوران چھٹی کرے مثلاً ہفتہ وار تعطیل اور عزاداری) تو اس کی نماز حتی کہ پہلے سفر میں بھی پوری ہوگی لیکن اگر اس کی مدت طویل نہ ہو مثلاً ایک مہینہ اس کام کو انجام دینا چاہے عرفا پیشے کا سفر کا کہلانا واضح نہیں ہے اور شک ہونے کی صورت میں نماز قصر ہوگی۔
مسئلہ490۔ جس شخص کا پیشہ شہر سے باہر مسافت شرعی سے کم چکر لگانا ہو مثلاً ٹیکسی ڈرائیور چنانچہ اتفاقی طور پر اسی پیشے کے سلسلے میں مسافت شرعی تک سفر کرے تو پیشے کا سفر شمار نہیں ہوگا اور اس کی نماز قصر ہوگی۔
مسئلہ491۔ جس شخص کا پیشہ سفر ہو (چاہے سفر ہی پیشہ ہو یا پیشے کے لئے مقدمہ ہو) اگر پیشے کے علاوہ کسی سفر پر جائے اگرچہ ڈیوٹی کی جگہ جائے تو بھی اس کی نماز قصر ہوگی۔
مسئلہ492۔ گذشتہ مسئلے میں اگر اپنے پیشے کے علاوہ کسی اور کام کے لئے ملازمت کی جگہ سفر کرے لیکن ڈیوٹی کی وجہ سے اس جگہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو جب تک ڈیوٹی پر جانے کے لئے وہاں ٹھہرے اور اس کے بعد اور واپسی کے دوران نماز پوری ہوگی اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ جب تک ڈیوٹی انجام دینے کے لئے ٹھہرے نماز کو پوری بھی پڑھے اور قصر کرکے بھی پڑھے۔
مسئلہ493۔جس شخص کا پیشہ سفر ہو اگر وطن یا غیر وطن میں قصد کے ساتھ یا بغیر قصد کے دس دن ٹھہرے تو دس دن کے بعد پہلے سفر میں اس کی نماز قصر ہوگی۔
مسئلہ494۔ جس شخص کا پیشہ سفر ہو اگر دس دن وطن یا غیر وطن میں قیام کرے اور اس کے بعد پیشے کے علاوہ کوئی اور سفر کرے مثلاً زیارت کےلئے جائے تو احتیاط واجب کی بناپر زیارتی سفر کے بعد پیشے کے لئے سفر میں نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
مسئلہ495۔ جس شخص کا پیشہ سفر ہو اگرشک کرے کہ کسی جگہ دس دن قیام کیا ہے یا اس سے کم چنانچہ شک کی وجہ سے اس جگہ پہنچنے کے دن کے بارے میں تریدد کا شکار ہو تو پیشے کے سلسلے میں ابتدائی سفر میں نماز پوری پڑھے اور اگر اس جگہ سے خارج ہونے کے دن میں تردید کی وجہ سے شک ہوجائے تو اس کا وظیفہ قصر کرکے پڑھنا ہے۔
مسئلہ496۔ جس شخص کا پیشہ سفر ہو اگر اس سفر کے دوران ایک منزل ہو جہاں پہنچنے سے پہلے راستے میں کسی جگہ دس دن قیام کرے تو آگے منزل کی طرف سفر اور وطن کی طرف واپسی کا سفر دونوں کو ملاکر پہلا سفر شمار ہوگا اور ضروری ہے کہ نماز کو قصر کرکے پڑھے۔
مسئلہ497۔ گذشتہ مسئلے میں اگر کئی منازل ہوں تو پہلا سفر (دس دن قیام کے بعد) پہلی منزل تک پہنچنے کے بعد پورا ہوگا اور جب دوسری منزل کی طرف سفر شروع کرے تو دوسرا سفر ہے اور نماز پوری ہوگی۔
مسئلہ498۔ پیشے کے سلسلے میں جس سفر کے دوران نماز پوری اور روزہ صحیح ہے اس میں کو ئی فرق نہیں کہ راستہ، پیشے کی نوعیت یا سفر کا وسیلہ تبدیل کرے یا پہلے والا باقی ہو۔
مسئلہ499۔ جس شخص کا پیشہ ڈرائیونگ ہو اور اس پیشے کو شروع کرنے کے بعد گاڑی خراب ہوجائے اور اس کی مرمت اور ضروری چیزیں خریدنے کے لئے شرعی مسافت تک سفر کرے تو یہ سفر پیشے کا سفر ہے اور نماز پوری پڑھے۔
مسئلہ500۔ گذشتہ مسئلے میں اگر پیشہ شروع کرنے سے پہلے گاڑی خراب ہوجائے اور مرمت یا ضروری سامان خریدنے کے لئے شرعی مسافت تک سفر کرے تو اس کی نماز قصر ہوگی۔
مسئلہ501۔ جس شخص کا پیشہ سفر ہو اگر پیشے کے علاوہ کوئی سفر کرے تو اس کی نماز قصر ہے مثلاً ایک شہر سے دوسرے شہر تک مسافر لے جانا پیشہ ہو اگر حج یا زیارت کے سفر پر جائے تو نماز قصر کرکے پڑھےلیکن پیشے کے سفر کے دوران ذاتی کام انجام دے مثلاً زیارت کرے چاہے اصلی مقصد ذاتی کام اور اس کے ضمن میں مسافر بھی لے جائے یا اس کے برعکس یا دونوں کام برابرقصد رکھتا ہو تو اس کی نماز پوری ہوگی۔
مسئلہ502۔ جس شخص کا پیشہ سفر ہو اگر پیشے کے علاوہ کوئی سفر کرے اور منزل پر پہنچ کر ملازمت کی جگہ پیشے کا سفر کرے تو اس جگہ (قصد کے ساتھ یا قصد کے بغیر) دس دن قیام نہ کیا ہو تو ملازمت کی جگہ سفر کرتے ہوئے اس کی نماز پوری ہوگی۔
مسئلہ503۔ جس شخص کا پیشہ سفر ہو اس سفر سے واپسی کے دوران اس کی نماز پوری ہوگی لیکن اگر پیشے کے علاوہ کسی اور کام سے کئی دن (دس دن سے کم) مثلاً زیارت یا تفریح کے لئے رک جائے اور اس کے بعد واپس آئے تو احتیاط واجب کی بناپر واپسی کے دوران نماز قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
مسئلہ504۔ جس شخص کا پیشہ سفر ہو اگر پیشے کے سلسلے میں آخری سفر کرے یا سفر کے دوران پیشہ جاری رکھنے سے پھرجائے تو چنانچہ پیشے کا دارومدار سفر پر ہی ہو مثلاً ڈرائیونگ تو آخری سفر سے واپسی کے دوران کوئی مسافر ساتھ نہ لائے تو واپسی کا سفر پیشے کا سفر شمار نہیں ہوگا اور اس کی نماز قصر ہوگی چاہے اپنی گاڑی میں واپس آئے یا دوسرے کی گاڑی میں آئے اور اگر سفر اس کے پیشے کا مقدمہ ہوتو آخری سفر سے واپسی کے دوران احتیاط واجب کی بناپر نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
- آٹھویں شرط: حد ترخص تک پہنچے
آٹھویں شرط: حد ترخص تک پہنچے
مسئلہ505۔ جو مسافر وطن سے خارج ہوتا ہے اور مسافت شرعی طے کرنے کا قصد رکھتا ہے اس کی نماز اس وقت قصر ہوگی جب ایک معین حد تک پہنچے اسی طرح واپسی کے دوران جب اس حد تک پہنچ جائے توضروری ہے کہ نماز کو پوری پڑھے۔ اس حد کو حد ترخص کہتے ہیں اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ حد ترخص اور شہر میں داخل ہونےکے درمیانی فاصلے میں نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
مسئلہ506۔ حد ترخص کو تشخیص دینے کا معیار یہ ہے کہ شہر کے آخری گھر سے اس قدر دور ہوجائے کہ لاوڈسپیکر کے بغیر شہر سے دی جانے والی اذان نہ سنے چاہے شہر کی دیوار یں دیکھے یا نہ دیکھے۔
مسئلہ507۔ اگر شہر سے باہر اذان کی آواز سنے اور تشخیص دے کہ اذان ہی ہے لیکن جملوں کو تشخیص نہ دے سکے تو احتیاط واجب کی بناپر نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے مگر اس صورت میں جب اپنا سفر اس قدر جاری رکھے کہ اذان کی آواز بالکل نہ سنے۔
مسئلہ508۔ حد ترخص کا معیار اس اذان کا سنائی دینا ہے جو معمولا بلند جگہ مثلاً قدیمی مساجد کے میناروں سے اور شہر کے آخری حصے میں دی جاتی ہے۔
مسئلہ509۔ اذان کی آواز کے بلند ہونے کا معیار درمیانےدرجے کی عام آواز ہے اور آواز سنائی دینے کا معیار سننے کی درمیانے درجے کی عام قوت سماعت ہے اور ماحول کی کیفیت کا معیار معمول کا ماحول ہے یعنی تندوتیز ہوا اور گردوغبار نہ ہو۔
مسئلہ510۔ اگر کوئی مسافر وطن سے اس قدر دور ہوجائے کہ اذان نہ سنے لیکن دعا اور قرائت قرآن کی آواز سنائی دے تو احتیاط یہ ہے کہ اگر اس جگہ نماز پڑھے تو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے یا اس قدر دور ہوجائے کہ کوئی آواز سنائی نہ دے۔
مسئلہ511۔ اگر مسافر ایسی جگہ جائے جہاں دس دن قیام کا ارادہ ہو تو اس جگہ کی حدترخص تک پہنچنے سے پہلے اس کی نماز قصر ہوگی اور اس جگہ کی حد ترخص اور اس جگہ کے درمیانی فاصلے میں احتیاط واجب کی بناپر نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
مسئلہ512۔ اگر جس جگہ دس دن قیام کیا ہے اس جگہ سے مسافت شرعی تک جانے کے قصد سے خارج ہوجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس جگہ اور حد ترخص کے درمیانی فاصلے میں نماز کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے یا نماز پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے کہ حدترخص سے نکل جائے اور قصر کرکے پڑھے۔
مسئلہ513۔ جو شخص تیس دن تک تردد میں کسی جگہ قیام کرے اور اکتیسویں دن سے نماز پوری کرکے پڑھتا ہو اگر مسافت شرعی طے کرنے کے قصد سے اس جگہ سے خارج ہوجائے تو احتیاط واجب کی بناپر حدترخص سے پہلے نماز کوقصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے یا نماز پڑھنے میں تاخیر کرے اور قصر کرکے پڑھے۔
مسئلہ514۔ ان تین صورتوں کے علاوہ اگر کسی مسافر کا وظیفہ نماز کو پوری پڑھنا تھا لیکن قصر میں تبدیل ہوجائے تو نماز کو قصر کرکے پڑھنے کے لئے حدترخص سے گزرنا معیار نہیں ہےمثلاً کوئی حرام سفر کرے اور بعد میں سفر جائز بن جائے یا قصد کے بغیر آٹھ فرسخ طے کرے اور واپس آنا چاہے۔
مسئلہ515۔ جو شخص وطن سے شرعی مسافت طے کرنے کے قصد سے سفر کرے اگر شک کرے کہ حدترخص تک پہنچا ہے یا نہیں تو یوں سمجھے کہ حد ترخص تک نہیں پہنچا ہے اور نماز کو پوری کرکے پڑھے اور اگر یہی شک سفر سے واپسی کے دوران ہوجائے تو نماز کو قصر کرکے پڑھے البتہ جانے اور واپس آنے دونوں میں ایک جگہ شک کرے کہ حدترخص گزرگیا ہے یا نہیں اور وہاں نماز پڑھنا چاہے تو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے اور اگر جاتے وقت نماز کو صرف پوری پڑھا ہے تو ضروری ہے کہ قصر کرکے بھی پڑھے۔
مسئلہ516۔ جو شخص وطن سے سفر کرتا ہے چنانچہ حدترخص تک پہنچنے سے پہلے اس خیال سے کہ حدترخص تک پہنچا ہے نمازکو قصر کرکے پڑھے اس کے بعد غلطی کی طرف متوجہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے ۔ اگر واپسی کے دوران ایسا ہوجائے اور نماز پوری پڑھی ہے تو بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ517۔ جو شخص وطن سے سفر کرتا ہے اگر حدترخص عبور کرنے کے بعد اس خیال سے کہ حدترخص نہیں پہنچا ہے نماز پوری پڑھے اور بعد میں متوجہ ہوجائے کہ کہ ایسا نہیں تھا تو ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے ۔ اگر واپسی کے دوران ایسا ہوجائے اور نماز قصر کرکے پڑھے تو بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ518۔ اگر وطن سے خارج اور حدترخص کو عبور کرنے کے بعد دوبارہ حد ترخص کے اندر واپس آئے تو حدترخص میں داخل ہونے کے بعد نماز کو پوری پڑھے اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ واپسی اختیاری ہو یا غیر اختیاری یا راستہ ٹیڑھا ہونے کی وجہ سے ہو۔
مسئلہ519۔ گذشتہ مسئلے میں اگر حدترخص میں داخل ہونا راستے کی وجہ سے ہو مثلاً راستہ ٹیڑھا ہو تو لازم نہیں کہ باقی راستہ مسافت شرعی کے برابر ہو بلکہ سفر کے آغاز سے لے کر حد ترخص کے اندر دوبارہ داخل ہونے اور واپس جانے کا پورا سفر شرعی مسافت میں حساب ہوگا۔
مسئلہ520۔ گذشتہ مسئلے میں حدترخص میں داخل ہونا راستے کی وجہ سے نہ ہو بلکہ کسی اور کام کی وجہ سے اختیاری یا غیر اختیاری صورت میں حدترخص میں داخل ہوجائے مثلاً حدترخص کے اندر اپنا بیگ بھول جائے اور اس کو لینے کے لئے دوبارہ واپس آئے اور بیگ اٹھانے کے بعد دوبارہ پہلا سفر جاری رکھے تو اس صورت میں مسافت شرعی سفر کے آغاز سے ہی حساب ہوگا لیکن جو اضافی راستہ حدترخص کے باہر سے بیگ اٹھانے کے لئے واپس آنے اور جانے کے لئے طے کیا ہے وہ مسافت شرعی میں حساب نہیں ہوگا۔
مسئلہ521۔ اگر کوئی شخص وطن سے مسافت طے کرنے کے قصد سے حدترخص سے خارج ہوجائے اور نماز کو قصر کرکے پڑھے اور دوبارہ حدترخص میں داخل ہوجائے اور اس کے بعد دوبارہ سفر جاری رکھے تو جو نماز پڑھی ہے وہ کافی ہے اور اس کو دوبارہ پڑھنا لازمی نہیں ہے۔
مسئلہ522۔ اگر کوئی شخص اس جگہ سے جہاں دس دن قیام کا قصد کیا ہے مسافت شرعی طے کرنے کے قصد سے خارج ہوجائے اور حدترخص سے گزرنے کے بعد کسی وجہ سے دوبارہ حد ترخص یا اس جگہ واپس آجائے اور دس دن قیام کا قصد نہ رکھتا ہو تو اس کی نماز قصر ہوگی۔
مسئلہ523۔ اگر کوئی شخص کم از کم آٹھ فرسخ ہونے تک شہر کے باہر چکر لگانے کا قصد کرے چنانچہ حدترخص کے اندر ہی چکر لگائے تو اس کی نماز پوری ہوگی اور اگر حدترخص کے باہر چکر لگائے تو نماز قصر ہوگی اگرچہ راستہ ٹیڑھا ہونے کی وجہ سے بعض مواقع پر حدترخص کے اندر داخل ہوجائے اور حد ترخص کے باہر طے کیا ہوا راستہ آٹھ فرسخ سے کم ہو البتہ اگر حدترخص کے اندر نماز پڑھنا چاہے تو نماز پوری ہوگی۔
مسئلہ524۔ گذشتہ مسئلے میں اگر حدترخص میں داخل ہونا راستے کی خاطر نہ ہو بلکہ اپنے اختیار سے حدترخص میں داخل ہوا ہو تو اس صورت میں اگر حدترخص میں دوبارہ داخل ہونے اور خارج ہونے کے علاوہ باقی راستہ آٹھ فرسخ نہ ہوتو نماز پوری ہوگی اور مسافت کے برابر ہوتو نماز قصر ہوگی البتہ حدترخص کے اندر نماز پوری ہوگی۔
- وہ صورتیں جن میں سفر منقطع ہوجاتا ہے
- سفر کےدوران نافلہ نمازوں کے احکام
سفر کےدوران نافلہ نمازوں کے احکام
مسئلہ596۔ جس سفر میں نماز قصر ہوتی ہے ، ظہر اور عصر کی نافلہ نمازیں پڑھنا (اگرچہ رجاء کے قصد سے ہی کیوں نہ ہو) جائز نہیں ہے۔
مسئلہ597۔ عشاء کی نافلہ نماز (وتیرہ) کو سفر میں رجاء کے قصد اور ثواب کی امید سے پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ598۔ جو نافلہ نمازیں مسافر سے ساقط ہیں اس شخص کے لئے جائز اور مستحب ہیں جو دس دن قیام کا ارادہ رکھتا ہو۔ اسی طرح مستحب روزے بھی اس شخص کے لئے مستحب ہیں۔
مسئلہ599۔ اگر کوئی شخص ایسی جگہ جہاں نماز کو قصر اور پوری کرکے پڑھنے میں اختیار ہو پوری نماز پڑھنا چاہے تو یومیہ نافلہ نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ600۔ نماز شب اور نماز صبح و مغرب کی نافلہ نماز مسافر سے ساقط نہیں ہے۔
مسئلہ601۔ یومیہ نافلہ نمازوں کے علاوہ باقی نوافل مثلاً نماز جعفر طیار (جو ایک انتہائی اہم اور فضیلت والی نماز ہے) اور نماز امام زمان علیہ السلام یا مخصوص ایام مثلاً روز جمعہ کی نمازیں مسافر سے ساقط نہیں ہیں۔
- جہاں وظیفہ نماز کو قصر کرکے پڑھنا ہے وہاں پوری نماز پڑھنا
جہاں وظیفہ نماز کو قصر کرکے پڑھنا ہے وہاں پوری نماز پڑھنا
مسئلہ602۔ جو مسافر جانتا ہو کہ سفر میں کچھ شرائط کے ساتھ نماز قصر ہوتی ہے اور اس کے سفر میں وہ تمام شرائط ہیں، اگر اپنی نماز پوری پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے اور اس کے لئے ضروری ہے نماز کو دوبارہ قصر کرکے پڑھے،چاہے وقت کے اندر ہو یا وقت کے بعد۔
مسئلہ603۔ جو مسافر نہ جانتا ہو کہ سفر میں نماز قصر ہوتی ہے اور اپنے وظیفے کے برعکس نماز کو پوری پڑھتا ہو چنانچہ جاہل قاصر ہو [1]تو حکم کو جاننے کے بعد نماز کو دوبارہ یا قضا کرنا لازمی نہیں ہے۔
مسئلہ604۔ گذشتہ مسئلے میں اگر جاہل مقصر ہو[2] تو سیکھنے میں کوتاہی کی وجہ سے گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور حکم کو جاننے کے بعد وقت کے اندر نماز کو دوبارہ اور وقت کے بعد قضا کرے۔
مسئلہ605۔ اگر کوئی شخص سفر میں نماز کے حکم کو جانتا ہو لیکن حکم کی خصوصیات سے لاعلمی کی بناء پر نماز کو پوری پڑھے تو اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر وقت کے اندر متوجہ ہوجائے تو نماز کو دوبارہ پڑھے اور وقت کے بعد متوجہ ہو تو قضا کرے مثلاً کوئی شخص جانتا ہو کہ سفر میں نماز قصر ہوتی ہے لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ دس دن قیام کا قصد کرنے اور ایک چار رکعتی نماز پڑھنے سے پہلے اگر اپنے قصد سے پھرجائے تو نماز قصر ہوجاتی ہے اور نماز پوری پڑھ لے۔
مسئلہ606۔ اگر مسافر کو سفر میں نماز کے حکم کا علم ہو لیکن موضوع (اپنے مخصوص مسئلے) کے بارے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے نماز کو پوری پڑھ لے تو ضروری ہے کہ دوبارہ پڑھے مثلاً جانتا ہو کہ مسافر کا وظیفہ نماز کو قصر کرکے پڑھنا ہے تاہم آٹھ فرسخ تک سفر کا قصدرکھتا ہو لیکن سات فرسخ ہونے کے خیال سے نماز کو پوری پڑھ لے حالانکہ اس کا اصلی وظیفہ نماز کو قصر کرکے پڑھنا تھا۔
مسئلہ607۔ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ مسافر کی نماز قصر ہوتی ہے یا سفر میں ہونے کو بھول جائے اور نماز کو پوری پڑھے چنانچہ وقت کے اندر یاد آئے تو نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر دوبارہ نہ پڑھے تو اس کی قضا واجب ہے لیکن اگر وقت کے بعد متوجہ ہو تو نماز کی قضا نہیں ہوگی۔
مسئلہ608۔ جو مسافر نہیں جانتا کہ مسافر کا وظیفہ نمازکو قصر کرکے پڑھنا ہے اگر اس کی نماز قضا ہوجائے اور وقت کے بعد متوجہ ہو تو ضروری ہے کہ اپنی قضا نماز کو قصر کرکے پڑھے۔
مسئلہ609۔ گذشتہ مسئلے میں اگر قضا ہونے والی نماز کو پوری کرکے قضا کرے اور اس کے بعد حکم کی طرف متوجہ ہوتو جاہل قاصر ہونے کی صورت میں نماز کو دوبارہ پڑھنا لازمی نہیں ہے۔
مسئلہ610۔ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ مسافر کا وظیفہ نماز کو قصر کرکے پڑھنا ہے یا سفر میں ہونے کو بھول جائے اور پوری پڑھنے کے قصد سے نماز شروع کردے اور تیسری رکعت کے قیام سے پہلے یاد آجائے تو ضروری ہے کہ نماز کو دو رکعت کرکے ختم کرے اور اس کی نماز صحیح ہے اور اگر تیسری رکعت کے قیام کے بعد اور رکوع سے پہلے یاد آئے تو ضروری ہے بیٹھ جائے اور سلام پڑھے۔
مسئلہ611۔ گذشتہ مسئلے میں اگر تیسری رکعت کے رکوع میں جانے کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز باطل ہے چاہے وقت وسیع ہو یا اس قدر تنگ کہ ایک رکعت بھی پڑھنے کا وقت نہ ہو تو نماز کو دوبارہ یا وقت کے بعد قضا کرے۔
- پوری نماز پڑھنے کے مقام پر نماز کو قصر کرکے پڑھنے کا حکم
پوری نماز پڑھنے کے مقام پر نماز کو قصر کرکے پڑھنے کا حکم
مسئلہ612۔ جس مسافر کا وظیفہ پوری نماز پڑھنا ہو چنانچہ اپنے وظیفے کے برعکس قصر کرکے پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے اور کوئی فرق نہیں کہ حکم اور موضوع کے بارے میں علم ہو یا نہ ہو، جان بوجھ کر کرے یا بھولے سے ، البتہ ایک صورت ہے جو بعد کے مسئلے میں بیان کی جائے گی۔
مسئلہ613۔ جو مسافر دس دن کسی جگہ قیام کرنا چاہے اگر حکم سے لاعلمی کی بناء پر نماز کو قصر کرکے پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر موضوع سےلاعلمی یا بھولنے کی بناء پر قصر کرکے پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے اور ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔
مسئلہ614۔ جس شخص کا وظیفہ نماز کو پوری پڑھنا ہو مثلاً وہ مسافر جو دس دن قیام کا قصد کرے چنانچہ اگر بھولے سے یا حکم یا موضوع سے لاعلمی کی وجہ سے نماز کو قصر کی نیت سے شروع کردے اور اس سلام کے کہنے سے پہلے متوجہ ہوجائے کہ جس کو کہنے کے بعد نماز سے خارج ہوجاتے ہیں، تو نماز کو پوری پڑھ کرختم کرے اور صحیح ہے۔
- متفرق مسائل
متفرق مسائل
مسئلہ615۔ جو شخص اول وقت میں اپنے وطن میں یا ایسی جگہ موجود ہوجہاں دس دن قیام کا قصد کیا ہواور نماز پڑھے بغیر سفر کیا ہو چنانچہ اگر سفر میں نماز پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ قصر کرکے پڑھے۔
مسئلہ616۔ جو شخص اول وقت میں سفر میں ہو اور نماز نہ پڑھی ہو اور اس کے بعد وطن میں یا ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں دس دن قیام کا قصد رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو پوری پڑھے۔
مسئلہ617۔ جو شخص اول وقت میں سفر میں ہو اور نماز نہ پڑھی ہو چنانچہ وطن میں یا ایسی جگہ پہنچنے کے بعد اس کی نماز قضا ہوجائے کہ جہاں دس دن قیام کا قصد رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ اس کو چار رکعتی قضا بجالائے۔
مسئلہ618۔ جو شخص اول وقت میں اپنے وطن میں یا ایسی جگہ ہو جہاں دس دن قیام کا قصد رکھتا ہو اور اس کے بعد سفر اختیار کرے چنانچہ سفر میں نماز قضا ہوجائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کرکے قضا کرے۔
مسئلہ619۔ مسافر چار مقامات پر( یعنی شہر مکہ، مدینہ، مسجد کوفہ اور حرم حضرت امام حسین علیہ السلام میں ) چار رکعتی نمازوں کو قصرکرکے اور پوری پڑھنے میں اختیار رکھتا ہے اور اگر پوری پڑھے تو افضل ہے لیکن قصر کرکے پڑھنا احتیاط مستحب ہے۔
مسئلہ620۔ اختیار کا حکم آج کے پورے شہر مکہ و مدینہ میں جاری ہے اور مسجد الحرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مخصوص نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں مسجدوں پر اکتفا کیا جائے۔
مسئلہ621۔ کوفہ میں نمازقصر کرکے یا پوری پڑھنے کا اختیار مسجد کوفہ سے مخصوص ہے اور احتیاط واجب کی بناپر شہر کوفہ میں اختیار کا حکم جاری نہیں ہوگا۔
مسئلہ622۔ حرم حضرت امام حسین علیہ السلام میں اختیار کا حکم گنبد کے نیچے اور اس جگہ سے مخصوص ہے جو قبر مطہر کا نزدیک کہلائے اور احتیاط کی بناپر صحن اور ملحقہ ہال اس میں شامل نہیں ہیں۔
مسئلہ623۔ مذکورہ چار مقامات پر اختیار کا حکم ہمیشہ کے لئے جاری ہے اور مسافر چار رکعتی نمازوں میں سے ہر ایک کو چاہے تو پوری پڑھ سکتا ہے اور چاہے تو قصر کرکے بھی پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ624۔ جن مقامات پر نماز کو پوری پڑھنے اور قصر کرکے پڑھنے میں اختیار ہے اگر مکلف سے (عمداً یا سہواً) نماز قضا ہوجائے اور ان مقامات کے علاوہ کسی اور جگہ اس کی قضا کرنا چاہے تو اقوی یہ ہے کہ قصر کرکے قضا کرے اور چنانچہ ان مقامات پر ہی قضا کرنا چاہے تو احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہے کہ قصر پڑھے۔
مسئلہ625۔ مذکورہ چار مقامات پر اختیار کے حکم میں روزہ شامل نہیں ہے بنابرایں مسافر ان مقامات پر رمضان المبارک کا روزہ نہیں رکھ سکتا ہے ۔
-
- قضا نماز
قضا نماز
مسئلہ626۔ اگر کسی نے یومیہ واجب نماز جان بوجھ کر یا بھولے سے یا لاعلمی کی بنا پر اس کے معین وقت میں نہ پڑھی ہویا وقت گزرنے کے بعد متوجہ ہوا ہو کہ نماز باطل ہوئی تھی تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجالائے ۔
مسئلہ627۔ اگر کوئی شخص یومیہ نماز کے علاوہ کوئی اور واجب نماز مثلاً نمازآیات کو اس کے معین وقت میں نہ پڑھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجالائے۔
مسئلہ628۔ نماز کی قضا اس صورت میں واجب ہے کہ جب مکلف کو اس کے قضا ہونے یا باطل ہونے کا یقین ہو لیکن اگر قضا ہونے یا باطل ہونے کا شک یا گمان ہوتو اس کی قضا بجالانا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ629۔ اگر مکلف نماز کے پورے وقت میں بے ہوش رہے تو اس کی قضا واجب نہیں ہے البتہ اگر اس کے اپنے اختیار سے بے ہوشی طاری ہوئی ہو تو اس صورت میں احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہےکہ نماز کی قضا بجالائے۔
مسئلہ630۔ اگر کوئی غیر مسلم اسلام لائے تو مسلمان ہونے سے پہلے جو نمازیں نہیں پڑھی ہیں ان کی قضا لازم نہیں ہے لیکن مرتد یعنی وہ مسلمان جس نے اسلام کو چھوڑدیا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ توبہ کرنے کے بعد ارتداد کے زمانے میں قضا ہونے والی نمازوں کی قضا بجالائے۔
مسئلہ631۔ جن نمازوں کے پورے وقت میں عورت حیض یا نفاس کی حالت میں رہی ہو ، ان کی قضا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ632۔ جس شخص پر قضا نماز واجب ہو اس کو فوراً پڑھنا واجب نہیں ہے البتہ اس کو پڑھنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔
مسئلہ633۔ اگر کوئی شخص حکم شرعی یا موضوع سے لا علمی کی بنا پر نماز کو طہارت کے بغیر پڑھے مثلاً کسی کو مجنب ہونے کا علم نہ ہو اور غسل کے بغیر یا باطل غسل یا باطل وضو کے ساتھ نماز پڑھی ہو تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کی قضا بجالائے۔
مسئلہ634۔ واجب نماز کی قضا اسی ترتیب سے بجالانا چاہئے جس طرح قضا ہوئی ہے۔ بنابرایں اگر مکلف کا وظیفہ چار رکعتی نمازپڑھنا ہو اور وہ قضا ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا کو بھی چار رکعتی بجالائے (اگرچہ سفر کے دوران قضا بجالائے) اور سفر کے دوران( جب اس کا وظیفہ قصر پڑھنا ہو) چار رکعتی نمازیں قضا ہوجائیں تو ضروری ہے کہ قصر کرکے قضا بجالائے اگرچہ قضا بجالاتے وقت سفر میں نہ ہو۔
مسئلہ635۔ واجب نماز کی قضا کو دن اور رات میں جب چاہے پڑھ سکتا ہے اور لازمی نہیں کہ نماز صبح کی قضا کو نماز صبح کے وقت اور نماز ظہر کی قضا کو نماز ظہر کے وقت بجالائے۔
مسئلہ636۔ نماز قضا ہونے کا معیار آخری وقت ہے ۔ بنابرایں اگرآخری وقت میں جب نماز قضا ہوئی ہو مسافر ہو تو اس نماز کی قضا کو قصرکرکے بجالائے اگرچہ اول وقت میں اپنے وطن میں تھا اور اگرآخری وقت میں سفر میں نہ ہوتو قضا کو پوری پڑھے اگرچہ اول وقت میں سفرمیں تھا۔
مسئلہ637۔ نماز کی قضا بجالاتے ہوئے ترتیب کی رعایت واجب نہیں ہے مگر یہ کہ ایک دن کی نماز ظہر اور عصر اور ایک دن کی نماز مغرب و عشاء ہو(تو رعایت واجب ہے)
مسئلہ638۔ اگر کسی شخص کو قضا ہونے والی نمازوں کی تعداد کے بارے میں علم نہ ہو تو جتنی مقدار کے قضا ہونے پر یقین ہے اس پر اکتفا کرسکتا ہے۔
مسئلہ639۔ جس شخص پر قضا نماز واجب ہو وہ ادا نماز پڑھ سکتا ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر صرف ایک قضا نماز ہو تو پہلے قضا نماز کو پڑھے مخصوصا اگر اسی دن کی قضا نماز ہو۔
مسئلہ640۔ جس شخص پر قضا نماز واجب ہو، نافلہ اور مستحب نماز پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ641۔ یومیہ نوافل کی قضا بجالانا مستحب ہے۔
- نماز کے لئے اجیر بنانا
نماز کے لئے اجیر بنانا
مسئلہ642۔ اگر میت کی عبادتیں مثلاً نماز یا روزہ قضا ہوئی ہوں تو میت کی طرف سے ان کو بجالانے کے لئے کسی کو اجیر بنانا جائز ہے۔ اسی طرح کوئی ان عبادتوں کو تبرعاً (بغیر اجرت کے) بھی انجام دے سکتا ہے اور اس طرح میت کا ذمہ ادا ہوجاتا ہے۔
مسئلہ643۔ جو نماز اجرت لے کر میت کی طرف سے پڑھی جاتی ہے، نماز استیجاری کہلاتی ہے۔
مسئلہ644۔ اگر میت نے اپنی قضا نمازوں کے لئے اجیر بنانے کی وصیت کی ہو توضروری ہے کہ اس کے مال کے تیسرے حصے کے برابروصیت پر عمل کیا جائے اور تیسرے حصے سے زیادہ میں ورثاء کی اجازت لازم ہے۔
مسئلہ645۔ اگر کوئی شخص میت کی نماز پڑھنے کے لئے اجیر بناہو تو نماز پڑھتے وقت میت کو خصوصیات کے ساتھ معین کرنا لازم نہیں ہے بلکہ اجمالی طور پر اس کو معین کرے تو کافی ہے مثلاً اگر کوئی شخص دو افراد کی نماز پڑھنے کے لئے اجیر بناہو چنانچہ پہلی میت کی طرف سے نماز کی نیت کرے تو کافی ہے۔
مسئلہ 646۔ اگر اجارے کی نماز کے لئے مخصوص شرط نہ رکھی جائے (مثلاً جماعت کے ساتھ یا مسجد میں پڑھنا) تو اجیر پرصرف لازم ہے کہ نماز کو اس کے واجبات کے ساتھ بجالائے۔
مسئلہ647۔ میت کی نمازیں پڑھنے کے لئے ہم جنس ہونا شرط نہیں ہے یعنی مرد عورت کی قضا نمازیں پڑھ سکتا ہے اور عورت مرد کی قضا نماز پڑھ سکتی ہے، اجیر بن کر یا بغیر اجرت کے پڑھے۔
مسئلہ648۔ نماز کو بلند آواز کے ساتھ یا آہستہ پڑھنے میں ضروری ہے کہ اجیر اپنے وظیفے کے مطابق عمل کرےبنابرایں اگر کوئی مرد عورت کی قضا نمازوں کے لئے اجیر بنے تو ضروری ہے کہ نماز صبح ، مغرب اور عشاء میں الحمد اور سورہ کو بلند آواز سے پڑھے۔
مسئلہ649۔ جو شخص میت کی قضا نماز کے لئے اجیر بنے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل شرائط رکھتا ہو؛
1۔ اجتہاد یا صحیح تقلید کے ساتھ نماز کے مسائل کو جانتا ہو۔
2۔ نماز کو صحیح طریقے سے پڑھنے کے بارے میں قابل اطمینان ہو۔
3۔ کوئی عذر نہ رکھتا ہو مثلاً جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو میت کی نمازوں کے لئے اجیر نہیں بن سکتا ہے۔
- والدین کی قضا نماز
والدین کی قضا نماز
مسئلہ650۔ بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ باپ سے قضا ہونے والی نمازوں اور احتیاط واجب کی بناپر ماں سے قضا ہونے والی نمازوں کی قضا بجالائے۔
مسئلہ651۔ اگر باپ یا ماں نے بالکل نماز نہیں پڑھی ہو تو احتیاط واجب کی بناپر بڑے بیٹے پر نمازوں کی قضا واجب ہے۔
مسئلہ652۔ بڑے بیٹے سے مراد وہ سب سے بڑا بیٹا ہے جو ماں باپ کے مرتے وقت زندہ ہو ، خواہ بالغ ہو یا نہ ہو۔
مسئلہ653۔ اگر میت کی سب سے بڑی اولاد بیٹی ہو اور اس کے بعد دوسری اولاد بیٹا ہو تو ماں باپ کی قضا نمازیں بڑے بیٹے پر جو دوسری اولاد ہے، واجب ہوگی ۔
مسئلہ654۔ اگر (بڑے بیٹے کے علاوہ) کوئی شخص ماں باپ کی نمازوں کی قضا بجالائے تو بڑے بیٹے سے قضا ساقط ہوجائے گی۔
مسئلہ655۔ بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ ماں باپ سے جتنی نمازیں قضا ہونے کا یقین ہے، قضا بجالائے اور اگر نہیں جانتا ہو کہ ان کی نماز قضا ہوئی ہے یا نہیں تو کچھ بھی واجب نہیں ہے اور اس کے بارے میں تحقیق و جستجو کرنا لازم نہیں ہے۔
مسئلہ656۔ بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ جس قدر ممکن ہو ماں باپ کی نمازوں کی قضا بجالائے اور اگر اس سے عاجز ہو تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ657۔ اگر کسی شخص پر اپنی قضا نمازوں کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی قضا نمازیں بھی واجب ہوں تو کسی ایک کے پہلے پڑھنے میں اسے اختیار حاصل ہے اور جس نماز کو بھی پہلے پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ658۔ اگر ماں باپ کے مرنے کے بعد بڑا بیٹا مرجائے تو دوسرے بچوں پر ماں باپ کی قضا نماز واجب نہیں ہے۔
- نماز آیات
- نماز عید فطر و عید قربان
نماز عید فطر و عید قربان
مسئلہ680۔ عید فطر اور عید قربان کی نماز یں معصوم علیہ السلام کے زمانہ حضور میں واجب ہیں اور ضروری ہے کہ جماعت کے ساتھ پڑھی جائیں اور آج کے زمانے میں (زمانہ غیبت کبری میں) مستحب ہیں۔
مسئلہ681۔ نماز عید فطر و عید قربان کا وقت عید کے دن اول طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے۔
مسئلہ682۔ عید قربان کی نماز سورج چڑھ آنے کے بعد پڑھنا مستحب ہے اور عید فطر میں مستحب ہے کہ سورج چڑھ آنے کے بعدپہلے افطار کرے اور زکات فطرہ ادا کرے اس کے بعد عید کی نماز پڑھے۔
مسئلہ683۔ عید فطر و عید قربان کی نماز دو رکعت ہے۔ پہلی رکعت میں الحمد اور سورہ کے بعد ضروری ہے پانچ تکبیریں کہے اور ہر تکبیر کے بعد ایک قنوت پڑھے اور پانچویں قنوت کے بعد ایک تکبیر کہے اور رکوع میں جائے اور دو سجدوں کے بعد کھڑا ہوجائے اور دوسری رکعت میں الحمد اور سورہ کے بعد چار تکبیریں کہے اور ہر تکبیر کے بعد قنوت پڑھے اور پانچویں تکبیرکے بعد رکوع میں جائے اور نماز کو جاری رکھ کر ختم کرے۔
مسئلہ684۔ عید فطر اور عید قربان کی نماز میں قرائت کو بلند آواز سے پڑھنا مستحب ہے۔
مسئلہ685۔ عید کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہیں ہے لیکن بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ شمس اور دوسری رکعت میں سورہ غاشیہ یا پہلی رکعت میں سورہ اعلی اور دوسری رکعت میں سورہ شمس پڑھا جائے۔
مسئلہ686۔ عید فطر اور عید قربان کی نماز میں جو دعا اور ذکر بھی پڑھاجائے تو کافی ہے لیکن بہتر ہے کہ ثواب پانے کی نیت سے یہ دعا پڑھی جائے: اَللّهُمَّ اَهلَ الکِبریاءِ وَ العَظَمَةِ وَ اَهلَ الجوُدِ وَ الجَبَروُتِ وَ اَهلَ العَفوِ وَ الرَّحمَةِ وَ اَهلَ التَّقوی وَ المَغفِرَةِ اَساَلُکَ بِحَقِّ هذَا الیَومِ الَّذی جَعَلتَهُ لِلمُسلِمینَ عیداً وَ لِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ ذُخراً وَ شَرَفاً وَ کَرامَةً وَ مَزیداً اَن تُصَلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اَن تُدخِلَنی فی کُلِّ خَیرٍ اَدخَلتَ فیهِ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّدٍ و اَن تُخرِجَنی مِن کُلِّ سوُءٍ اَخرَجتَ مِنهُ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَواتُکَ عَلَیهِ وَ عَلَیهِم اَللّهُمَّ اِنّی اَساَلُکَ خَیرَ ما سَاَلَکَ بِهِ عِبادُکَ الصّالِحونَ وَ اَعوذُ بِکَ مِمَّا استَعاذَ مِنهُ عِبادُکَ المُخلَصونَ
مسئلہ687۔ نماز عید میں مختصر یا طویل قنوت پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ان کی تعداد کو کم کرنا یا اضافہ کرنا جائز نہیں ہے۔
مسئلہ688۔ اگر نماز پڑھنے والے کو نماز عید کی تکبیروں یا قنوت میں شک ہوجائے چنانچہ اس کا مقام نہ گزرا ہو تو یوں سمجھے کہ کم بجالایا ہے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ پڑھ چکا تھا تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ689۔ اگر کوئی شخص قرائت، تکبیر یا قنوت کو فراموش کردے تو نماز صحیح ہے لیکن رکوع یا دو سجدے یا تکبیرہ الاحرام کو فراموش کردے تو نماز باطل ہے۔
مسئلہ690۔ نماز عید فطر اور عید قربان کی قضا نہیں ہے۔
- نماز جماعت
- نماز جمعہ
-
- روزہ