ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

نداي رهبري

    • قومی اتحاد اور اسلامی انسجام
    • پیغمبر اسلام(ص)
    • عبادی اور سیاسی حج
    • فلسطين
      • فلسطین پر قبضہ کی تاریخ
      • مسئلہ فلسطین کی اہمیت
        پرنٹ  ;  PDF

        مسئلہ فلسطین کی اہمیت

        البتہ آج بعض لوگ یوں کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین پر کیوں بحث کرتے ہیں؛ یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے! میں عرض کرتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کسی صورت میں ختم نہیں ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ یہ تصور کریں کہ " فلسطین کے اصلی مالک " فلسطینی ہمیشہ اپنی اولاد کے ہمراہ اپنی سرزمین سے باہر رہیں گے ؛ یا جو فلسطینی مقبوضہ سرزمین میں ہیں وہ ہمیشہ دبی ہوئی اقلیت کی صورت میں زندگی بسر کریں گے اور غیر ملکی غاصب وہاں ہمیشہ رہیں گے؛ نہیں ، ایسا نہیں ہے۔ وہ ممالک جو سو سال تک دوسرے ملک کے تصرف میں رہے ہیں انھیں دوبارہ استقلال مل گیا " یہی قزاقستان ، جارجیااور مرکزی ایشیائی ممالک " جنھیں آپ دیکھ رہے ہیں ان میں بعض سویت یونین اور بعض سویت یونین سے پہلے روس کے قبضے میں تھے جب سویت یونین کا وجود ہی نہیں تھا لیکن ان کو استقلال مل گیا اور وہ اپنے عوام کو مل گئے لہذا کوئی وجہ نہیں ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کو نہ ملے، یہ کام ضرور ہوگا اور انشاء اللہ ضرور ہوکر رہےگا فلسطین فلسطینی عوام کو مل کررہے گا لہذا مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس قسم کی فکرکا تصورغلط ہے۔
        آج صہیونیوں اور ان کے حامیوں " امریکہ ان کاسب سے بڑا اور اہم حامی ہے" کا مکر و فریب یہ ہے کہ وہ صلح کے خوبصورت اور حسیں نام سے استفادہ کرتے ہیں: صلح کیجئے؛ یہ کیسی باتیں ہیں ؟ جی ہاں ، صلح ایک اچھی چیز ہے؛ لیکن صلح کہاں اور کس سے؟!کوئی شخص آپ کےگھر میں داخل ہوجائے ، طاقت کے زور پرآپ کا دروازہ توڑدےاور آپ کو مارے پیٹے ،آپ کے بال بچوں کی توہین کرے اور آپ کے گھر کےتین کمروں میں سے ڈھائی کمروں پر وہ اپنا قبضہ کرکے بیٹھ جائے؛ اور پھر یہ کہے کہ کیوں ادھر ادھر اس کی شکایت کرتے ہواور مسلسل لڑائی جھگڑا کرتے ہو؛ آؤ ہم صلح کرلیں ؛ کیا یہ صلح ہوگی؟یہ صلح ہے کہ آپ کو آپ کے گھر سے باہر نکال دیا جائے؛ اوراگر آپ گھر پر قبضہ کرنے والے کے خلاف قیام کریں تو اس وقت دشمن کے حامی آئیں اور صلح کرائیں جبکہ غاصب دشمن آپ کےگھر میں بیٹھا ہواہے ؛ اس نےآپ کے خلاف ہر ظلم کا ارتکاب کیا ہے؛ اب بھی اگر اس کاہاتھ پہنچے تو کمی نہیں چھوڑےگا۔آج بھی اسرائیلی حکومت تقریبا روزانہ جنوبی لبنان پر حملہ کرتی ہے؛ مجاہدوں پر حملہ نہیں؛ بلکہ جنوبی لبنان کے دیہاتوں پر، جنوبی لبنان کے مدرسوں پر؛ ابھی کچھ دن قبل اسرائیل نے جنوبی لبنان کے ایک مدرسے پر حملہ کرکے کچھ بچوں کو قتل کردیا ہے! بچوں نے تو کوئی حملہ نہیں کیا تھا،بچوں نے تو ہاتھوں میں اسلحہ نہیں لےرکھا تھا؛ اسرائیل کی ماہیت میں حملہ اور تشدد کا عنصر ہے؛جب صہیونیوں نے لبنان پر حملہ کیا ، تو ڈیر یاسین اور باقی جگہوں کے لوگوں نے تو ان کےساتھ کچھ نہیں کیا تھا؛ لیکن صہیونیوں نے ان کا بھی قتل عام کیا؛ البتہ عربوں کے کچھ باغیرت جوان ان کے ساتھ اس بات پر لڑ رہے تھے اور یہی کہتے تھےکہ کیوں تم ہمارے گھر میں داخل ہوئے ہواور لوگوں کا قتل کررہے ہو؛وہ لوگ جو صہیونیوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنتے تھے وہ دیہاتی لوگ تھے جنھیں اسرائیل قتل عام کرکے ان کے گھروں سے نکال رہا تھادہاتیوں نے تو کوئی کام نہیں کیا تھا؛ لہذا معلوم ہوا کہ اسرائیلی حکومت کی ماہیت اور طبیعت میں حملہ ، خونخواری اور تشدد موجود ہے۔
        اسرائیلی حکومت کی بنیاد اور داغ بیل تشدد، قساوت اور طاقت کے زور پر ڈالی گئی ہےاور اسی بنیاد پر وہ آگے بڑھ رہی ہے؛اور اس کے بغیر اس کی پیشرفت ممکن نہیں تھی اور آئندہ بھی مکن نہیں ہوگي۔ کہتے ہیں کہ اس حکومت کے ساتھ صلح کریں؟! کیسی صلح؟!اگر وہ اپنے حق پر قناعت کریں " یعنی وہ گھر جو فلسطین کے نام سے ہے وہ فلسطینی عوام کے حوالے کردیں اور اپنے کام میں مشغول ہوجائیں؛ یا فلسطینی حکومت سے اجازت لیں اور کہیں کہ ہم میں سے بعض کو یا سب کو یہاں رہنے کی اجازت دیدیں" تو کسی کو ان کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگي ؛ جنگ یہ ہے کہ انھوں نے طاقت کے زور پر دوسروں کے گھر پرغاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے ؛ انھوں نے گھر والوں کو گھر سے باہر نکال دیا ہےاور اب بھی ان پر ظلم و تشدد کو روا رکھے ہوئےہیں؛ علاقائی ممالک پر ظلم کرتے ہیں اور سب کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں؛ لہذا وہ صلح کو بھی بعد والے حملے کا مقدمہ بنانا چاہتے ہیں! ایسی صلح برقرار ہوجائے تاکہ یہ صلح ان کے آئندہ حملے کے لئے مقدمہ قرار پاسکے۔

        تہران میں نماز جمعہ کے خطبے، 10/10/1378۔
      • مسئلہ فلسطین کا منطقی راہ حل
      • فلسطینی عوام کی استقامت و پائداری قابل تعریف ہے
    • اسلامى انقلاب
700 /