ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

نداي رهبري

    • قومی اتحاد اور اسلامی انسجام
    • پیغمبر اسلام(ص)
    • عبادی اور سیاسی حج
    • فلسطين
      • فلسطین پر قبضہ کی تاریخ
        پرنٹ  ;  PDF

        فلسطین کی اصلی داستان کیا ہے؟


        اصلی داستاں یہ ہے کہ دنیا میں یہودیوں کا ایک با اثر گروہ یہودیوں کے لئے ایک مستقل ملک کی داغ بیل اور بنیادڈالنے کی فکر میں تھا ۔ان کی اس فکر سے برطانیہ نے اپنی مشکل حل کرنے کے لئے استفادہ کیا ۔البتہ یہودی پہلے یوگنڈا جانے اور اس کو اپنا ملک بنانےکی فکر میں تھے۔کچھ عرصہ لیبیا کے شہر طرابلس جانے کی فکر میں رہے طرابلس اس دور میں اٹلی کے قبضہ میں تھا اٹلی کی حکومت سے گفتگو کی لیکن اٹلی والوں نے یہودیوں کو منفی جواب دیا۔آخر کار برطانیہ والوں کے ساتھ یہودی مل گئے۔اس دور میں مشرق وسطی میں برطانیہ کے اہم استعماری مقاصد تھے اس نے کہا ٹھیک ہے یہودی اس علاقہ میں آئیں ؛ اور ابتداء میں ایک اقلیت کے عنوان سے وارد ہوں پھر آہستہ آہستہ اپنی تعداد میں اضافہ کریں۔اورمشرق وسطی میں فلسطین کے حساس علاقہ پر اپنا قبضہ جما کرحکومت قائم کرلیں اور برطانیہ کے اتحاد کا حصہ بن جائیں اوراس علاقہ میں عالم اسلام خصوصا عرب ممالک کو متحد نہ ہونے دیں ۔وہ دشمن جس کی باہر سے اس قدر حمایت کی جاتی ہے، وہ مختلف طریقوں اور جاسوسی ہتھکنڈوں کے ذریعہ اختلاف پیدا کرسکتا ہے ؛ اور آخر اس نےیہی کام کیا: ایک ملک کے قریب ہوجاتا ہے دوسرے پر حملہ کرتا ہے ایک کے ساتھ سختی سے پیش آتا ہے دوسرے کے ساتھ نرمی کرتا ہے،اسرائیل کو پہلے برطانیہ اور بعض دوسرے مغربی ممالک کی مدد حاصل رہی ۔ پھر اسرائیل آہستہ آہستہ برطانیہ سے الگ ہوگیا اور امریکہ کے ساتھ مل گیا ؛ امریکہ نے بھی آج تک اسرائیل کواپنے پروں کے سائے میں رکھا ہوا ہے۔یہودیوں نے اس طرح اپنے ملک کو وجود بخشا کہ دوسری جگہوں سے آکر فلسطینیوں کے ملک پر قبضہ کرلیا ۔ انھوں نے اس طرح قبضہ کیا کہ پہلے جنگ نہیں کی بلکہ مکر وفریب اور حیلہ کا راستہ اختیار کیا؛ بڑے بڑے فلسطینیوں کی بڑی بڑی اور سرسبز و شاداب زرعی زمینوں کو دگنی قیمت دیکرخریدا جن پر مسلمان کسان کام کرتے تھے ان زمینوں کے مالک یورپ اور امریکہ میں رہتے تھے۔انھوں نے بھی خدا خدا کرکے زمینوں کو یہودیوں کے حوالے کردیا۔ زمینوں کی فروخت میں بڑے بڑے دلال شامل تھے جن میں سید ضیاء بھی تھا جس کے بارے میں معروف ہے کہ وہ رضا خان کے ساتھ 1299 ھ ش کے کودتا میں شریک تھا ۔یہاں سے فلسطین جاتا اور وہاں دلالی کرتا تھا فلسطینی مسلمانوں سے یہودیوں کے لئے زمینیں خریدتا تھا! انھوں نے زمینیں خریدیں ؛ زمینیں جب ان کی ملکیت بن گئیں، تو انھوں نے پھر بڑی بے دردی ، بے رحمی اور سنگدلی کے ساتھ کسانوں سے وہ زمینیں خالی کرانا شروع کردیں ۔ بعض جگہ فلسطینیوں کو مارتے تھے قتل کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ مکر و فریب اور جھوٹ کے ذریعہ عالمی رائے عامہ کو اپنی طرف مبذول کرتے تھے۔

        یہودیوں کے فلسطین پر قبضہ کے تین مرحلے ہیں ؛ پہلا مرحلہ عربوں کے ساتھ قساوت اور سنگدلی پر مبنی ہے ۔ زمینوں کے اصلی مالکوں کے ساتھ ان کی رفتاربہت سخت اور شدید تھی ان کے ساتھ کبھی بھی رحم کو روا نہیں رکھتے تھے۔

        دوسرا مرحلہ عالمی رائے عامہ کے ساتھ جھوٹ اور مکر وفریب پر مبنی ہے عالمی رائے عامہ کو فریب دینا ان کی عجیب و غریب باتوں میں شامل ہے انھوں نے صہیونی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ فلسطین آنے سے قبل و بعد اس قدر جھوٹ بولاکہ ان کےجھوٹ کی بنیاد پر بعض یہودی سرمایہ داروں کو پکڑ لیا ! اور بہت سے لوگوں نے ان کے جھوٹ پر یقین کرلیا ؛یہاں تک کہ فرانس کے رائٹر وسماجی فلسفی "جان پل سیٹر" کو بھی انھوں نے فریب دیدیا ۔ اسی جان پل سیٹرنےایک کتاب لکھی تھی جس کا میں نے 30 سال پہلے مطالعہ کیاتھا اس نے لکھا تھا " بغیر سرزمین کے لوگ اور بغیر لوگوں کے سرزمین " یعنی یہودی وہ لوگ ہیں جن کے پاس سرزمین نہیں تھی وہ فلسطین آئے جہاں سرزمین تھی لیکن لوگ نہیں تھے! یعنی کیا فلسطین میں لوگ نہیں تھے؟ ایک قوم وہاں آباد تھی کام کاج میں مشغول تھی ؛ بہت سے شواہد موجود ہیں ایک غیر ملکی رائٹر لکھتا ہے کہ فلسطین کی تمام سرزمین پر زراعت ہوتی تھی یہ سرزمین تا حد نظر سرسبز و شاداب تھی بغیر لوگوں کے سرزمین کا مطلب کیا؟! دنیا میں یہودیوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ فلسطین ایک خراب ، ویران اور بدبخت جگہ تھی ؛ ہم نے آکر اس کو آباد کیا!رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے اتنا بڑا جھوٹ !

        وہ ہمیشہ اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتے تھے؛ اب بھی ایسا ہی کرتے ہیں! امریکی جرائد مانند "ٹائم " اور " نیوزویک " کا کبھی مطالعہ کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ اگر ایک یہودی خاندان کسی معمولی حادثہ کا شکار ہوجائے تو اس کا بڑا فوٹو ،ہلاک ہونے والے کی عمر اس کے بچوں کی مظلومیت کو بہت بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں ؛ لیکن یہی جرائد مقبوضہ فلسطین میں اسرائيل کی طرف سے فلسطینی جوانوں ، عورتوں ، بچوں پر ہونے والے سینکڑوں اور ہزاروں مظالم ،قساوت اور سنگدلی کے واقعات کی طرف معمولی سا اشارہ بھی نہیں کرتے ہیں!

        تیسرا مرحلہ سازش اور کھوکھلے مذاکرات پر مبنی ہے اور ان کے قول کے مطابق "لابی" ہے، اس حکومت کے ساتھ ، اس شخصیت کے ساتھ ، اس سیاستمدار کے ساتھ ، اس روشن خیال کے ساتھ ، اس رائٹر کے ساتھ ، اس شاعر کے ساتھ بیٹھو گفتگو کرو! ان کے ملک کا کام اب تک مکر وفریب کے ذریعہ ان تین مرحلوں پر چل رہا ہے۔

        اس دور میں بیرونی طاقتیں بھی ان کے ساتھ تھیں؛ جن میں سرفہرست برطانیہ تھا ۔ اقوام متحدہ اور اس سے پہلے جامعہ ملل" جو جنگ کے بعد صلح کے معاملات کے لئے تشکیل دیا گیا تھا " بھی ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ؛ اور اسی سال 1948ء میں جامعہ ملل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں فلسطین کو بغیر کسی دلیل اور علت کے تقسیم کردیا؛ اس قرارداد میں 57 فیصد اراضی کو یہودیوں کی ملکیت قراردیدیا؛ جبکہ اس سے قبل صرف 5 فیصد فلسطین کی اراضی یہودیوں سے متعلق تھی؛ انھوں نے حکومت تشکیل دی اور اس کے بعد مختلف مسائل رونما ہوئے جن میں فلسطینی دیہاتوں پر حملہ ، شہروں پر حملہ ، فلسطینیوں کے گھروں اور بےگناہ لوگوں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ؛ البتہ عرب حکومتوں نے بھی اس سلسلے میں کافی کوتاہیاں کی ہیں۔ کئی جنگیں ہوئیں اور 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی مدد سے مصر ، اردن اور شام کی کچھ سرزمینوں پر بھی قبضہ کرلیا۔اور 1973ء کی جنگ میں بھی اسرائیلیوں نے مغربی طاقتوں کی مدد سے جنگ کا نتیجہ اپنے حق میں کرلیا اور عربوں کی مزيد سرزمین پر اپنا قبضہ جمالیا ۔

        تہران میں نماز جمعہ کے خطبے، 10/10/1378۔

      • مسئلہ فلسطین کی اہمیت
      • مسئلہ فلسطین کا منطقی راہ حل
      • فلسطینی عوام کی استقامت و پائداری قابل تعریف ہے
    • اسلامى انقلاب
700 /