مسلمانوں میں آپسی دوری دشمن کو اختلاف ڈالنے کا موقع فراہم کرتی ہے
مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دوری دشمنوں کو انکی صفوں میں
اختلاف و تفرقہ ڈالنے کاموقع فراہم کرتی
ہے امت اسلامیہ مختلف قوموں ، نسلوں اور مذاہب کے ماننے والوں سے تشکیل پائی ہے
اور زمین کے حساس اور اہم علاقوں اور الگ الگ جغرافیائی خطّوں میں اس کا آباد ہونا
اس کے تنوع اوراس کےعظیم پیکر کے لئے ایک مضبوط نقطہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس وسیع و
عریض دنیا میں امت اسلامیہ کی مشترکہ ثقافت ، میراث اور تاریخ کو مزید فعال و
کارآمد بنایاجاسکتا ہے اور طرح طرح کی انسانی و فطری قابلیتوں و صلاحیتوں کو
مسلمانوں کے لئے بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔مغربی سامراج نے اسلامی ملکوں میں داخل
ہوتے ہی اسی نکتہ کو مد نظر رکھا اور اس نے تفرقہ انگیز عوامل کو مسلسل اشتعال
دلانے کی کوشش شروع کردی ۔
سامراجی
سیاستدانوں کو بخوبی یہ معلوم تھا کہ اگر عالم اسلام متحد ہوگیا تو اس پرسیاسی اور
اقتصادی تسلّط جمانے کا راستہ مسدود ہوجائے گالہذاانہوں نے مسلمانوں کے درمیان
اختلافات کو ہوا دینے کی ہمہ گیر اور طویل المیعاد کوشش شروع کردی اوراس خبیثانہ
سیاست کی آڑ میں انہوں نے لوگوں کی غفلت اور سیاسی و ثقافتی حکمرانوں کی کمزوریوں
سے فائدہ اٹھایا اور اسلامی ملکوں پر اپنا تسلّط جمانا شروع کردیا۔
گذشتہ صدی
میں اسلامی ممالک میں حریت پسندانہ تحریکوں کی سرکوبی اور ان ملکوں پر تسلّط جمانے
میں سامراجی طاقتوں کی پیشقدمی اور ان میں استبدادی حکومتوں کا قیام یا انکی تقویت اور ان کے قدرتی ذخائر کی لوٹ کھسوٹ و
انسانی وسائل کی
نابودی و تباہی اور اسکے نتیجے میں مسلمان قوموں کو علم و ٹیکنالوجی کے قافلے سے
پیچھے کردینا یہ سب کے سب سامراجی منصوبے مسلمانوں کےاختلاف و عدم اتحاد کی وجہ سے ممکن ہوئے ہیں جو کبھی کبھی دشمنی ،
جنگ و جدال اور برادر کشی پر بھی منتج ہوئے ہیں ۔ اسلامی بیداری کے آغاز سے مغربی
سامراج کو سنگین خطرے کا سامنا ہوا ۔ جس کا نقطۂ عروج ایران میں اسلامی جمہوری
نظام کا قیام ہے۔
مشرق و
مغرب کے سیاسی مکاتب کی شکست اور سامراجی طاقتوں کی اُن اقدار کے غلط ثابت ہونے
اور ان کی دھجیاں بکھر جانے سے جنہیں وہ انسانیت کی فلاح و کامیابی کا واحد ذریعہ سمجھتی
تھیں مسلمان قوموں کے درمیان اسلامی خود آگہی کی بنیاد مضبوط ہوئی اور اس چراغ
الٰہی کو خاموش کرنے اور اس نور کو چھپانے میں استکباری طاقتوں کی پے در پے
ناکامیوں نے مسلمان قوموں کے دلوں میں امید کے پودے کو مضبوط و بارآور بنادیا ہے ۔
آج کے
فلسطین کو دیکھئے جہاں آج " صیہونی قبضے سے آزادی " کے جامع اصول پر کاربند حکومت بر سر
اقتدار آئي ہے اور پھر ماضي میں فلسطینی قوم کی غربت ، تنہائي اور ناتوانی سے اس
کا موازنہ کیجئے ، لبنان پر نگاہ ڈالئے جہاں کے دلیر و فداکار مسلمانوں نے اسرائیل
کی مسلّح فوج کو شکست دی جسے امریکہ و مغرب اور منافقوں کی پوری مدد حاصل تھی اور
پھر اس کا اُس لبنان سے موازنہ کیجئے کہ صیہونی جب چاہتے تھے اور جہاں تک چاہتے
تھے کسی مزاحمت کے بغیر آگے تک چلے جاتے تھے ۔
عراق پر
نگاہ ڈالئے کہ جس کی غیرت مند قوم نے مغرور امریکہ کی ناک رگڑ دی اور اس کی فوج
اور ان سیاستدانوں کو جو کبر و نخوت کے عالم میں عراق پر اپنی مالکیت کا دم بھرتے
تھے سیاسی ، فوجی اور اقتصادی دلدل میں پھنسا دیا اور پھر اس کا اس عراق سے موازنہ
کیجئے جس کے خونخوار حاکم نے امریکہ کی پشتپناہی سے لوگوں کا جینا حرام کررکھا
تھا، افغانستان پر نگاہ ڈالئے کہ امریکہ اور مغرب کے تمام وعدے جہاں فریب اورجھوٹ
ثابت ہوئےاور جہاں مغربی اتحادیوں کی غیر معمولی اور بے تحاشا لشکرکشی نے اس ملک
کی تباہی و ویرانی اورلوگوں کوغربت زدہ بنانے ان کا قتل عام کرنے اور منشیات کے
مافیا گروہوں کو روز بروز مضبوط بنانے کے سواء اور کچھ نہیں کیاہے اور سرانجام
اسلامی ملکوں میں جوان معاشرے اور پروان چڑھتی ہوئی نسل پر نگاہ ڈالئے جس میں
اسلامی اقدار کا رجحان بڑھ رہا ہے اور امریکہ و مغرب سے نفرت میں روزبروز اضافہ
ہورہا ہے ۔
ان تمام
واقعات پر نگاہ ڈالنے سے مغربی استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکہ کی بد
بختی اور شکست خوردہ پالیسیوں کی حقیقی تصویر کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ
تمام واقعات اس بات کی بشارت دے رہے ہیں کہ امت اسلامیہ متحد ہورہی ہے ۔
24/12/2006