دریافت:
نداي رهبري
- قومی اتحاد اور اسلامی انسجام
- پیغمبر اسلام(ص)
- عبادی اور سیاسی حج
- پیغام حج 2009رہبر معظم کا حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب
اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام اپنے عظیم
پیغام میں تمام مسلمانوں اور حجاج کرام کو حج کے گرانقدر اور غنیمت موقع پر
اہم اور اصلی ذمہ داریوں کو پہچاننے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: آج امت
اسلامی کی سب سے اہم اور بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ آپس میں محبت و الفت اور
اخوت و برادری کے رشتوں کو مضبوط و مستحکم بنائیں ، مختلف روپ دھارنے والے
استعماری عفریت کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کریں اور قول و عمل کے
ذریعہ مشرکین سے برائت کا اظہار کریں ۔پیغام کا متن حسب
ذیل ہے:بسم اللہ الرحمن
الرحیمحج کا موسم عالم
آفاق میں توحید کی ضوفشانی ،تابندگي ، نورانیت اور معنویت کی فصل بہار ہے؛
حج کا آئین ایسا صاف و شفاف چشمہ ہے جو حاجی کو غفلت اور گناہ کی آلودگیوں
سےدور اور اسے پاک و پاکیزہ بناتا ہے خدا داد فطرت کی نورانیت کو اس کی روح
وجاں میں دوبارہ جلوہ گرکرتا ہے۔ میقات حج میں فخر و مباہات کے لباس کو
اتارنا اور سب کا ایک ہی رنگ میں لباس احرام زیب تن کرنا ، امت اسلامی کی
یکجہتی و یکرنگی کا مظہر اورپوری دنیا میں مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کا
شاندار نمونہ ہے حج کا نعرہ ایک طرف: "فالھکم الہ واحد فلہ اسلموا
وبشرالمخبتین" ، اور دوسری طرف ؛ "والمسجد الحرام الذی جعلنہ للناس سوآء
العاکف فیہ والباد" کا آئینہ اور اسی طرح کعبہ کلمہ توحید کی نمائندگی کے
علاوہ توحید کلمہ اور اسلامی برادری و برابری کا بھی مظہر ہے۔دنیا کے گوشہ گوشہ
سے جو مسلمان خانہ کعبہ کے طواف اور حرم پیغمبر اکرم (ص)کی زیارت کے ذوق و
شوق سےجمع ہوئے ہیں انھیں امت اسلامی کو درپیش
دردناک مسائل اور عظيم چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اس موقع سے بھر پور
فائدہ اٹھانا اور باہمی اتحاد و یکجہتی کو مزید مضبوط و مستحکم بنانا
چاہیے۔ آج اسلام دشمن عناصر کا ہاتھ امت اسلامی میں
تفرقہ و اختلاف پیدا کرنے کے لئے پہلےسے کہیں زيادہ آشکار اورمتحرک ہےجبکہ
آج امت اسلامی کو اتحاد و یکجہتی اور ہمدردی و
ہمدلی کی پہلے سے کہیں زيادہ ضرورت ہے۔ آج اسلامی سرزمین پر خونخوار دشمن
المناک حادثات کو جنم دے رہے ہیں؛ فلسطین صہیونیوں کے خونخوار پنجوں میں
مزید درد و غم میں مبتلا ہے؛ بیت المقدس کو زبردست خطرات کا سامنا ہے؛ غزہ
کے مظلوم عوام بے رحمانہ قتل عام کے بعد بھی اسی طرح دردناک اورسخت و دشوار
شرائط میں زندگی بسر کررہےہیں؛افغانستان میں غاصب و تسلط پسند طاقتیں
ہرروز نئے مظالم کے پہاڑ توڑرہی ہیں؛ عراق میں بد امنی نے لوگوں سے آرام
وسکون کو سلب کرلیا ہے؛ یمن میں برادرکشی نے امت اسلامیہ کے دل پر ایک نیا
داغ لگا دیا ہے۔دنیا بھرکے
مسلمانوں کو غور و فکر کرنا چاہیےکہ حالیہ برسوں میں عراق ، افغانستان اور
پاکستان میں رونما ہونے والی دہشت گردی ، بےگناہ لوگوں کا قتل عام، بم
دھماکوں، جنگوں اور فتنوں کا جوبازار گرم ہے ان کی تکمیل کی سازشیں
اورمنصوبے کہاں تیار ہورہے ہیں؟ علاقہ میں امریکہ
کی ظالم فوج کے تسلط اورداخلے سے قبل علاقہ کی مسلمان قومیں کیوں اس درد و
رنج و مصیبت میں مبتلا نہ تھیں؟ تسلط پسند طاقتیں
ایک طرف فلسطین ، لبنان اور دیگر علاقوں میں عوامی
مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گرد قراردیتی ہیں اور دوسری طرف علاقائی قوموں کے
درمیان قومی اور مذہبی منافرت پھیلانے والےدہشت گردوں کی حمایت اور
راہنمائی کرتی ہیں ۔ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کی قومیں برطانیہ ، فرانس
اور دیگر مغربی ممالک کے استعماری پنجوں میں کئی برسوں تک ذلت و حقارت میں
جکڑی رہیں۔ انھوں نےان کے قدرتی وسائل کو تباہ و برباد کیا ، ان کے جذبہ
آزادی کو بے رحمی کے ساتھ کچلا اور عرصہ دراز تک علاقائی قومیں غیر ملکی
حملہ آوروں کی حرص و طمع کا شکار رہیں ، جب اسلامی بیداری اور عوامی
مزاحمتی تحریکوں کا آغاز ہوا اور جذبہ شوق شہادت، جہاد فی سبیل اللہ اور
الی اللہ جیسے بے مثال عوامل نے بین الاقوامی ستمگروں پر قافیہ حیات تنگ
کیا تو استعماری طاقتوں نے مکارانہ پالیسیوں کو تبدیل کرکے اپنی گذشتہ
پالیسیوں کی جگہ نئی استعماری پالیسیوں کو اختیار کیا اور
اسلام کو شکست دینے کے لئے مختلف روپ دھارنے والا استعماری بھوت آج اپنی
تمام توانائیوں کو لیکر میدان میں اتر آیا ہے، فوجی طاقت ، آہنی مٹھی ،
آشکارا وغاصبانہ قبضہ، شیطانی تبلیغات کا سلسلہ ،تمام ذرائع ابلاغ کے ذریعہ
جھوٹے پروپیگنڈوں اور افواہوں کا منظم سلسلہ، طے شدہ منصوبہ کے تحت دہشت
گردانہ قتل اورٹارگٹ کلنگ سے لیکر منشیات، بد اخلاقی کی تبلیغ و ترویج ،
جوانوں کے عزم و حوصلہ پر کاری ضرب اورمزاحمتی مراکز پر مکمل سیاسی حملہ ، مسلمان بھائیوں کے درمیان قومی اور مذہبی منافرت اور
تعصب کو ہوا دینا دشمن کی سازشوں کا اہم حصہ ہے۔اگر امت اسلامی
اور مسلمانوں کے درمیان محبت ، حسن ظن ، ہمدردی اور ہمدلی پیدا ہوجائےاور
تعصب و منافرت کی فضاختم ہوجائے تو دشمنوں کی سازشوں کا بہت بڑا حصہ
خودبخود ختم اورغیر مؤثر ہوجائے گا ، امت اسلامی پرکنٹرول اور تسلط کا ان
کا شوم منصوبہ نقش بر آب اور شکست سے دوچار ہوجائے گا۔اس عظیم مقصد کو
عملی جامہ پہنانےکے لئے حج ایک عظیم موقع ہے۔مسلمان باہمی
تعاون اور قرآن و سنت کے مشترکہ اصولوں پر عمل و اعتماد کرتے ہوئے طاقت اور
قدرت حاصل کریں اورمختلف روپ دھارنے والے اس شیطانی عفریت کے مد مقابل
کھڑے ہوجائیں ، اس کو اپنے ایمانی جذبے اور پختہ عزم کے ذریعہ مغلوب
بنائیں۔ حضرت امام خمینی (رہ) کے دروس کی پیروی میں اسلامی جمہوریہ ایران کامیاب مزاحمت کا اعلی اور شاندار نمونہ ہے۔ دشمنوں کو
اسلامی جمہوریہ ایران میں زبردست شکست ہوئی ۔ تیس برسوں تک سازش ،دشمنی، 8
سالہ مسلط کردہ جنگ ، کودتا، اقتصادی پابندیاں ، ایرانی اثاثہ کا منجمد
کرنا، نفسیاتی و تبلیغاتی جنگ، جدید علوم و ٹیکنالوجی میں ایران کی پیشرفت و
ترقی کو روکنے کی کوشش ، پرامن ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں گمراہ کن
پروپیگنڈے ، حتی حالیہ انتخابات میں آشکارا اور واضح مداخلت اورتمام دیگر میدانوں میں دشمن کی تمام کوششیں شکست و ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ قرآن مجیدکی یہ آیۃ: انّ
کیدالشیطان کان ضعیفا" ایرانیوں کے سامنے دوبارہ مجسم ہوگئی۔ اور دنیا کے
ہر گوشہ میں عزم و ایمان پر مبنی مزاحمت نے لوگوں کو مغرورو مستکبر دشمن کے
سامنے پھرصف آرا کیا، مؤمنوں کو فتح وکامیابی اور ستمگروں کو ذلت و رسوائی
نصیب ہوئی ، لبنان میں 33 روزہ نمایاں کامیابی، غزہ میں حالیہ تین برسوں
میں کامیاب اور سرافراز جہاد اس حقیقت کا زندہ ثبوت ہے۔اس الہی وعدہ گاہ
میں حاضر ہونے والےتمام نیک و سعادتمند حاجیوں بالخصوص اسلامی ممالک کے
خطباء ، علماء اور حرمین شریفین کے خطباء جمعہ سے
میری استدعا ہے کہ وہ مسئلہ کا درست ادراک کریں اور آج اپنی ذمہ داری کو
اچھی طرح اور فوری طور پر پہچان لیں ، اپنی پوری
قدرت وتوانائی کے ساتھ دشمنوں کی سازشوں سے اپنے سامعین ومخاطبین
کو آگاہ کریں اور عوام کو محبت و الفت اور اتحاد کا درس دیں اور مسلمانوں کے درمیان بدگمانی
اور سوءظن پیدا کرنے والی ہربات سے پرہیز کریں ، جو بھی نعرہ وفریاد و فغاں
ہے اس کو امت مسلمہ کے دشمنوں ، امریکہ اور صہیونزم کے خلاف زوردار آواز
میںبلند کریں اور اپنے قول و عمل کے ذریعہ مشرکین سے برائت کا اظہارکریں۔اللہ تعالی کی
بارگاہ سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے رحمت و نصرت اور مدد طلب کرتا ہوں۔والسلام علیکم
سید علی حسینی
خامنہ ای
سوم ذی الحجہ
الحرام 1430
- حج خالص توحید کا مرکز و محور
حج خالص توحید کا مرکز و محور
تمام بھائیوں اور بہنوں کے لئے سزاوار ہے کہ وہ اس عظيم و گرانقدر سرمایہ پر اپنی توجہ مبذول کریں اور اس فرصت سے بھر پور فائدہ اٹھائیں، اس معنوی مقام پر مادی زندگي کے بارے میں اپنے دلوں کو مشغول نہ کریں کیونکہ یہ تو ہمارا دائمی مشغلہ ہے۔اس مقام پر خدا کی یاد اس کی بارگاہ میں توبہ و استغفار ، تضرع و زاری ، پاک و پاکیزہ کردار، سچائی اور نیک فکرپر اپنا عزم بالجزم کریں اور خداوند متعال سے اس سلسلے میں مدد و نصرت طلب کریں اور اپنے دل کو توحید اور معنویب کی خالص فضا میں پرواز کا موقع فراہم کریں، خدا کی راہ و صراط مستقیم پر پائدار رہنے کے لئے توشہ فراہم کریں ۔
یہاں حقیقی اور خالص توحید کا مرکز و محور ہے ۔ یہ وہی مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم (ع)نے اپنے نفس پر غلبہ پیدا کرتے ہوئے توحید کا سبق دیا اور پروردگارکا حکم بجالانےاور اپنے پارہ جگر کو اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے منی میں حاضر کیا اور اپنے اس عمل کو عالمی تاریخ کے تمام موحدوں کے لئے یادگار بنادیا ،یہ وہی مقام ہے جہاں سرور کونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طاقت و دولت کے نشے میں مخمور متکبروں کے سامنے توحید کا پرچم بلند کیا ۔اور خداوند متعال پر ایمان کے ساتھ طاغوتی طاقتوں سےبیزاری کو مسلمانوں کی نجات و رستگاری و فلاح و بہبود کی شرط قراردیا : فمن یکفر بالطاغوت و یؤمن باللہ فقداستمسک بالعروۃ الوثقی۔۔۔
حج ان عظیم دروس کو یاد کرنے اور سمجھنے کا مقام ہے ۔ مشرکوں ، بتوں اور بت گروں سے بیزرای و نفرت ، مؤمنین کے حج کی روح رواں ہے مؤمنین کی طرف سے اپنے دل کو خدا کے سپرد کرنے کی تلاش وکوشش اور شیطان سے برائت و بیزاری، اس پر رمی کرنا اور اس کے مد مقابل محاذ قائم کرنا حج کے ہر مقام پرنمایاں ہے ۔ اور مسلمانوں کےدرمیان باہمی اتحاد و انسجام ویکجہتی اور حقیقی اخوت و برادری اور ایمانی طاقت کے جلوے اورقومی و قبائلی اور قدرتی واعتباری تفاوتوں کےختم ہونےکے آثار حج کے ہر مقام پر نظر آتے ہیں ۔
یہ وہ دروس ہیں جو دنیا کے ہر خطے کے رہنے والے مسلمانوں کو یاد کرنا چاہیے اور ان دروس کی بنیاد پر اپنی زندگي اور اپنےمستقبل کے پروگراموں کو استوار کرنا چاہیے۔حجاج بیت اللہ الحرام کے نام پیغام ، 18/12/2007
- حج میں شیطان کے خلاف مشترکہ رد عمل
حج میں شیطان کے خلاف مشترکہ رد عمل
مؤمنین کے درمیان مہر و عطوفت امت اسلامی کی موجودہ حالت کو بہتر بنانے کی دوسری علامت ہے ۔ امت اسلامی کے بعض حصوں میں اختلافات اور تفرقہ ایک خطرناک بیماری ہے ۔ اور اس بیماری کاپوری طاقت کے ساتھ علاج ضروری ہے۔ اسلام دشمن عناصر طویل مدت سے اس سلسلے میں اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب وہ امت اسلامی کی بیداری سے سخت خوف و ہراس میں مبتلا ہیں ۔ لہذا اس نے امت اسلامی کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی کوششیں بھی مزید تیز تر کردی ہیں۔قومی ہمدردی رکھنے والے افراد کا یہی کہنا ہے کہ تفاوتوں کو تضاد میں اور مختلف النوع ہونے کو آپسی دشمنی ،جھگڑے اور لڑائی میں نہیں بدلنا چاہیے ۔
ایرانی عوام نے اس سال کو اسلامی اتحاد و یکجہتی کا سال قراردیا ہے یہ نام درحقیقت دشمنوں کے شوم پروپیگنڈوں نیز ان کی طرف سے امت اسلامی کے درمیان اختلافات ڈالنے کی سازشوں کے پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ دشمن کی یہ سازشیں فلسطین ، لبنان ، عراق ، پاکستان اور افغانستان میں کار گر ثابت ہوئی ہیں جہاں ایک مسلمان ملک کے لوگ اپنے ہی بھائیوں کے خلاف صف آرا ہوگئے اورانھوں نے ایک دوسرے کا خون بہانے پر کمر ہمت باندھ لی ،ان تمام تلخ اور دردناک حوادث میں دشمن کی سازشیں آشکار تھیں اور تیز نگاہوں نے ان سازشوں کے پیچھے دشمن کا ہاتہ دیکھ لیا ۔
حکم خدا " رحماء بینھم " کا مطلب یہ ہے کہ آپسی دشمنی اور لڑائیوں کا سلسلہ ختم ہو ۔ آپ ان مبارک ایام میں ، دنیا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ سب ایک ہی گھر کے ارد گرد طواف کررہے ہیں ، ایک ہی کعبہ کی طرف نماز ادا کررہے ہیں ، شیطان کی علامتوں پرمل کر پتھر پھینک رہے ہیں،قربانی کرنے کی منزل میں ایک جیسا عمل انجام دے رہے ہیں ، عرفات و مزدلفہ میں ایکدوسرے کے ساتھ ملکرخدا کی بارگاہ میں تضرع وزاری کررہے ہیں ، اسلامی مذاہب اصلی ترین فرائض و احکام اور عقائد میں ایک دوسرے کے اس قدر نزدیک ہیں اس عظیم اتحاد کے بعد معمولی تعصبات اور قبل از وقت فیصلوں کی بنا پر کیوں مسلمانوں کے درمیان فتنہ و فساد اور جھگڑے کی آگ پھیلائی جائے ؟!۔ جبکہ دشمن بھی اس آگ پر مزید تیل چھڑکنے کا کام کرتا ہے ۔ آج وہ لوگ جو بے عقلی ، نادانی اور جہالت کی بنا پر مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے پر کفر و شرک کا الزام عائد کرتے ہیں ،اور انکا خون بہانا جائز سمجھتے ہیں وہ لوگ خواہ نخواہ ، سامراجی طاقتوں اور کفر و شرک کی خدمت کررہے ہیں بہت سے لوگ جنھوں نے پیغمبر اسلاماور آئمہ طاہرین کی عزت و تکریم کو کفر وشرک قراردیا اور وہ خود کافروں اور ستمگاروں کے حامی اور مددگار بن گئے ۔جبکہ پیغمبر اسلام (ص) اور اہلبیت اطہار ، اور اولیاء خدا کی عزت و تکریم حقیقی دینداری ہے ۔حجاج بیت اللہ الحرام کے نام پیغام ، 18/12/2007
- پیغام حج 2008
- پیغام حج 2007
- پیغام حج 2006
-
- فلسطين
- اسلامى انقلاب