میقات سے متعلق مسائل
مسئلہ ۱۱۲۔ اگر ان مواقيت اور انکے محاذات کا علم نہ ہو تو يہ بينہ شرعي یعنی دو عادل گواہ کی گواہی سے یا اس شہرت سے جو موجب اطمینان ہو، سے ثابت ہوتے ہيں اور یقین حاصل کرنے کے لئےتحقیق اورجستجو کرنا لازم نہیں ہے۔ اور اگر علم، گواہ اورشہرت نہ ہو تو ان مقامات کوجاننے والے شخص کي بات سے حاصل ہونے والا ظن و گمان کافي ہے ۔
مسئلہ ۱۱۳۔ ميقات پر پہنچنے سے پہلے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے مگر يہ کہ ميقات سے پہلے کسي معين جگہ سے احرام باندھنے کي نذر کرلے مثلاً مدينہ يا اپنے شہر سے احرام باندھنے کي نذر کرے تو اس کا احرام صحيح ہے ۔
مسئلہ ۱۱۴۔ اگر جان بوجھ کر يا غفلت يا لا علمي کي وجہ سے بغير احرام کے ميقات سے گزر جائے تو اس پر واجب ہے کہ احرام باندھنے کيلئے ميقات پر واپس آئے۔
مسئلہ ۱۱۵۔ اگر غفلت ، فراموشی يا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے ميقات سے گزر جائے اور وقت کي تنگي يا کسي اور عذر کي وجہ سے ميقات پر واپس نہیں آ سکتا ، ليکن ابھي حرم ميں داخل نہ ہوا ہو تو احتیاط واجب يہ ہے کہ جس قدر ممکن ہو ميقات کي سمت پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر حرم ميں داخل ہو چکا ہو اور اس سے باہر نکلنا ممکن ہو تو اس پر واجب ہے کہ حرم کے باہر آکر احرام باندھے اور اگر وقت کی تنگی یا اس جیسے کسی اور وجہ سے حرم سے باہرنکلنا ممکن نہ ہو تو حرم ميں جس جگہ عذر برطرف ہوجائے وہيں سے احرام باندھے ۔
مسئلہ ۱۱۶۔ اختیاری حالت میں احرام کو ميقات سے مؤخر کرنا جائز نہيں ہے چاہے اس سے آگے دوسرا ميقات ہو یا نہ ہو۔
مسئلہ ۱۱۷۔ جس شخص کو مذکورہ میقات ميں سے کسي ايک سے احرام باندھنے سے منع کرديا جائے تو اس کيلئے دوسرے ميقات سے احرام باندھنا جائز ہے۔
مسئلہ۱۱۸۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کرمیقات سے احرام نہ باندھے اور وقت کی تنگی یا کسی اور عذر کی وجہ سے میقات پر واپس نہ لوٹ سکے اور آگے بھی کوئی میقات نہ ہو اور اس کے نتیجے میں عمرہ کا وقت تنگ ہوجائے تو اس شخص کا عمرہ فوت اور حج باطل ہوجائے گا اور اگر حج اس پر مستقر ہوچکا تھا یا وہ مستطیع تھا تو اس صورت میں اگلے سال حج انجام دینا ہوگا۔
مسئلہ ۱۱۹۔ جدہ میقات شمار نہیں ہوتا ہے اور کسی میقات کے محاذی بھی نہیں ہے لہذا اختيار ي صورت ميں جدہ سےعمرہ تمتع کے لئے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے بلکہ احرام باندھنے کيلئے کسي ميقات کي طرف جانا واجب ہے اور اگر کسی میقات پر نہ جاسکے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نذر کر کے جدہ سے احرام باندھے۔
مسئلہ ۱۲۰۔ اگر کوئی ميقات سے احرام باندھ کر آگے گزر جانے کے بعد متوجہ ہوجائے کہ اس کا احرام صحیح نہيں تھا، تو اگر وہ میقات پر واپس آسکتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ میقات پر آکر وہاں سے مُحرم ہوجائے۔ اور اگر میقات پر واپس آنا مکہ میں آئے بغیر ممکن نہ ہو تو مکہ میں وارد ہونے کے لئے ادنی الحل سے عمرہ مفردہ کی نیت سے احرام باندھے اور عمرہ مفردہ کے اعمال بجالانے کے بعد کسی ایک میقات کی طرف پلٹے اور عمرہ تمتع کے لئے احرام باندھے۔
مسئلہ ۱۲۱۔ عمرہ تمتع کے بعد اور اعمال حج سے پہلے مکلہ مکرمہ سے خارج ہونا اس شخص کے لئے جائز ہے جو مطمئن ہو کہ حج تمتع انجام دینے کے لئے وہ مکہ واپس آسکتا ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ مکہ مکرمہ سے خارج نہ ہو مگر کسی احتیاج اور ضروری کام کے لئے خارج ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں احتیاط کے طور پر اسے پہلے مکہ میں حج کے لئے مُحرم ہونا چاہیے اور اس کے بعد مکہ سے خارج ہو اور اگر مُحرم ہونا اس کے لئے مشقت کا باعث ہو تو جائز ہے اپنے کام کو انجام دینے کے لئے احرام کے بغیر خارج ہو اور جو افراد اس احتیاط پر عمل کرنا چاہیں اور ناچار ہوں کہ ایک یا کئی مرتبہ مکہ میں داخل ہوکر وہاں سے خارج ہوں جیسے کاروانوں کے خدمت گار ، تو وہ مکہ میں داخل ہونے کے لئے پہلے عمرہ مفردہ انجام دیں اور عمرہ تمتع کو اس وقت تک تاخیر میں ڈالیں جب عمرہ تمتع کو حج کے اعمال سے پہلے بجا لاسکیں۔ اس صورت میں عمرہ تمتع کے لئے میقات سے مُحرم ہونا چاہیے او رجب عمرہ تمتع سے فارغ ہوجائیں تو پھر مکہ سے حج کے لئے احرام باندھیں۔
مسئلہ ۱۲۲۔ عمرہ تمتع اور حج کے درميان مکہ سے خارج ہونے کا معيار موجودہ شہر مکہ سے خارج ہونا ہے پس ايسي جگہ جاناکہ جو اس وقت مکہ مکرمہ کا حصہ شمار ہوتي ہے اگر چہ ماضي ميں وہ مکہ سے باہر تھي مکہ سے خارج ہونا شمار نہیں ہوگا۔
مسئلہ ۱۲۳۔ اگر عمرہ تمتع کو انجام دينے کے بعد مکہ سے بغير احرام کے باہر چلا جائے اور اگر اسي مہينے ميں واپس پلٹ آئے کہ جس ميں اس نے عمرہ کو انجام ديا ہے تو اسے شہر مکہ میں داخل ہونے کے لئے نئے سرے سے احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے ليکن اگر عمرہ انجام دئے گئے مہينے کے بعد والے مہینے میں مکہ کی طرف لوٹےمثلاً ذيقعدہ ميں عمرہ بجالاکر باہر چلا جائے پھر ذي الحجہ ميں واپس مکہ پلٹے یا ذی القعدہ میں عمرہ انجام دیا ہو اور ذی الحجہ میں مکہ سے خارج ہوا ہو اور اسی مہینے میں واپس لوٹا ہو تو اس پر واجب ہے کہ مکہ ميں داخل ہونے کيلئے عمرہ کا احرام باندھے اور اسکا عمرہ تمتع جو حج کے ساتھ متصل ہوتا ہے یہی دوسرا عمرہ ہو گا۔اور اگر یہ شخص دوبارہ احرام نہ باندھے اور دوسرا عمرہ بجا نہ لائے تو اس کا حج تمتع صحیح نہیں ہوگا۔
مسئلہ ۱۲۴۔ احتیاط واجب يہ ہے کہ عمرہ تمتع اور حج تمتع کے درميان عمرہ مفردہ کو انجام نہ دے ليکن اگر بجا لائے تو عمرہ تمتع اور حج تمتع کے صحیح ہونے میں کوئی خلل نہیں پڑے گا۔