سبق 76: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معنی۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حدود۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط
1۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معنی
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لوگوں کو نیک کام پر آمادہ کرنے اور برے کام سے روکنے کو کہتے ہیں۔
2۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا واجب ہونا
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کے اہم اور بڑے فرائض اور واجبات میں شمار ہوتے ہیں۔ جو لوگ اس بڑے الہی فریضے کو ترک کرتے ہیں یا نظرانداز کرتے ہیں، گناہ گار ہوں گے اور سخت عذاب ان کا منتظر ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ صرف فقہائے اسلام کے نزدیک اتفاقا واجب ہے بلکہ اس کاوجوب دین اسلام کی ضروریات کا حصہ ہے۔
توجہ
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ان کی شرائط کی رعایت کرتے ہوئے اسلامی احکام کے تحفظ اور اسلامی معاشرے کو سالم رکھنے کیلئے ایک عمومی شرعی فریضہ ہے اور صرف یہ توہم کہ اس کام کی وجہ سے منکر کو انجام دینے والا یا بعض لوگ اسلام کے بارے میں بدبینی کا شکار ہوجائیں گے، باعث نہیں بنتا کہ اس انتہائی اہم فریضے کو ترک کیا جائے۔
جو لوگ بیت المال کے بارے میں مالی بدعنوانی جیسی قانونی خلاف ورزیوں سے مطلع ہوتے ہیں ان کا فریضہ ہے کہ شرائط اور ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے نہی عن المنکر کریں اور کسی بھی کام کیلئے اگرچہ بدعنوانی اور فساد کو روکنے کی غرض سے ہو رشوت اور غیر قانونی راستوں کو استعمال کرناجائز نہیں ہے ہاں اگر امر بالمروف اور نہی عن المنکر کے شرائط نہ ہوں تو ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے مثال کے طور پر اگر انہیں خوف ہو کہ اس فریضے کو انجام دینے کی صورت میں افسران بالا کی طرف سے انہیں نقصان پہنچایا جائےگا تو ان کی ذمہ داری ساقط ہے البتہ یہ حکم ان موارد میں ہے کہ جہاں اسلامی حکومت نہ ہو لیکن جب ایسی اسلامی حکومت موجود ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو اہمیت دیتی ہے تو جو شخص اس فریضے پر قادر نہیں ہے اس پر واجب ہے کہ اس کے سلسلے میں ان متعلقہ اداروں کو اطلاع دے کہ جن کو حکومت کی طرف سے اس کام پر مامور کیا گیا ہے اور فاسد اور بدعنوان عناصر کہ جو مفسد اور بد عنوانی پھیلانے والے بھی ہیں کی بیخ کنی تک اپنی کوشش جاری رکھیں۔
منکر ہونے کے لحاظ سے منکرات کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہوسکتا ہے کہ بعض منکرات کی حرمت دوسرے بعض کے مقابلے میں شدید تر ہو بہرحال جس شخص کیلئے نہی عن المنکر کی شرائط کا ہونا ثابت ہو اس کیلئے یہ ایک شرعی فریضہ ہے اور اس کوترک کرنا جائز نہیں ہے اور اس حکم میں منکرات اور یونیورسٹی اور غیر یونیورسٹی کے ماحول کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
متعلقہ افسران پر واجب ہے کہ وہ اسلامی ممالک کے بعض اداروں میں کام کرنے والے غیرملکی ماہرین کو شراب خوری اور حرام گوشت کھانے جیسے کاموں کو علی الاعلان انجام دینے سے اجتناب کرنے کا حکم دیں اور انہیں عمومی عفت کے منافی کاموں کی تو کسی صورت میں اجازت نہ دی جائے بہرحال ضروری ہے کہ ذمہ دار افسران اس سلسلے میں مناسب تدابیر اختیار کریں۔
مومن جوانوں پر واجب ہے کہ یونیورسٹیوں کے مخلوط ماحول میں بعض اوقات نظر آنے والی برائیوں میں مبتلا ہونے سے دور رہنے کے ساتھ ساتھ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ممکن اور اس کی شرائط میسر ہوں اس فریضے کو انجام دینے کیلئے آگے بڑھیں۔
جن عورتوں کا کامل حجاب نہیں ہوتا ان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا انہیں ریبہ کے ساتھ دیکھنے پر موقوف نہیں ہے اس لئے انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا واجب ہے ہاں ہر مکلف پر واجب ہے کہ وہ حرام سے اجتناب کرے خاص طور پر نہی عن المنکر کافریضہ انجام دیتے وقت۔
3۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حدود
امر بالمعروف اور نہی از منکر کی حدود لوگوں کی کسی خاص صنف یا طبقے تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس فریضے میں تمام اصناف و طبقات شامل ہیں جو شرائط کے حامل ہوں حتی کہ بیوی اور اولاد پر واجب ہے کہ اگر وہ شوہر یا ماں باپ کو کوئی حرام انجام دیتے ہوئے اور معروف کو ترک کرتے ہوئے دیکھیں تو شرائط موجود ہونے کی صورت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں۔
توجہ
اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط اور موضوع موجود ہوں تو یہ تمام مکلفین کی شرعی ذمہ داری اور اجتماعی اور معاشرتی فریضہ ہے اور مکلف کے مختلف حالات مثلا شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اور صرف غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری ساقط نہیں ہوگی۔
4۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط
1۔ معروف اور منکر کا علم ہو
2۔ تاثیر کا احتمال ہو
3۔ گناہ پر اصرار کرے
4۔ مفسدہ نہ ہو
1۔ معروف اور منکر کا علم ہو
امر بالمعروف اور نہی از منکر کی پہلی شرط معروف اور منکر کا جاننا ہے یعنی امر اور نہی کرنے والا معروف اور منکر کی شناخت رکھتا ہو ورنہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس کا وظیفہ نہیں ہے بلکہ یہ کام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ممکن ہے جہالت اور نادانی کی وجہ سے معروف سے نہی اور منکر کی طرف دعوت دے پس ایسے شخص کو نہی از منکر کرنا کہ جس کے کام کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ وہ حرام ہے یا نہیں مثلاً جو موسیقی وہ سن رہا ہے آیا وہ حلال موسیقی ہے یا حرام، واجب بلکہ جائز نہیں ہے۔
2۔ تاثیر کا احتمال ہو
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دوسری شرط تاثیر کا احتمال ہے یعنی ضروری ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے کو اپنے امر اور نہی کے اثر کرنے اور نتیجہ خیز ہونے کا احتمال ہو اگرچہ مستقبل میں ہی کیوں نہ ہو۔
توجہ
اگر افسران کیلئے یقینی طور پر ثابت ہوجائے کہ ادارے کے بعض ملازمین نماز پڑھنے میں کوتاہی کرتے ہیں یا بالکل نماز نہیں پڑھتے اور ان پر نصیحت اور راہنمائی کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا تو ان پر واجب ہے کہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو تسلسل کے ساتھ انجام دینے کی تأثیر سے غفلت نہ کریں اور امر بالمعروف کی تاثیر سے نا امید ہونے کی صورت میں اگر قانونی ضوابط کے مطابق انہیں ملازمت کی مراعات سے محروم کرنا مجاز ہو تو ان کے بارے میں اس کا اجرا کیا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ انہیں اس الٰہی فریضے کی انجام دہی میں سستی اور کوتاہی کرنے کی وجہ سے ان مراعات سے محروم کیا گیا ہے۔
3۔ گناہ پر اصرار
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تیسری شرط گناہ پر اصرار ہے یعنی ضروری ہے کہ گناہگار شخص گناہ کو جاری رکھنے پر اصرار اور ڈٹائی کا مظاہرہ کرتا ہو اور اگر معلوم ہو کہ یہ شخص امر و نہی کے بغیر خود ہی اپنی غلطی سے دستبردار ہوجائے گا یعنی معروف کو انجام دے گا اور منکر کو چھوڑ دے گا تو اسے امر اورنہی کرنا واجب نہیں ہے۔
4۔ مفسدہ نہ ہو
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی چوتھی شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی مفسدہ نہ ہو یعنی ضروری ہے کہ امر و نہی میں کوئی مفسدہ اور خرابی نہ ہو لہذا اگر امر و نہی ان کے انجام دینے والے یا کسی دوسرے مسلمان کے لئے ضرر مثلا جانی، مالی یا عزت کو نقصان پہنچنے جیسے مفسدے کا باعث ہو تو امر و نہی واجب نہیں ہے البتہ مکلف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اہمیت کو بھی ملحوظ خاطر رکھے یعنی ضروری ہے کہ وہ معروف ومنکر کے تمام موارد میں امر و نہی کو انجام دینے اور انہیں ترک کرنے کے مفسدے کے درمیان موازنہ کرے اور جو زیادہ اہم ہو اس پر عمل کرے۔
توجہ
اگر معاشرے میں نفوذ اور حیثیت رکھنے والے شخص کو امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے سے اس کی طرف سے قابل توجہ نقصان پہنچنے کا خوف ہو تو اسے امر و نہی کرنا واجب نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس کے خوف کی وجہ عقلائی ہو لیکن مناسب نہیں ہے کہ انسان واجب کو ترک کرنے یا حرام کا ارتکاب کرنے والے کے صرف مقام کو دیکھتے ہوئے یا ا س کی طرف سے معمولی نقصان کے احتمال کے پیش نظر اپنے مومن بھائی کو تذکر دینے اور نصیحت کرنے سے اجتناب کرے۔ بہرحال کم اور زیادہ اہمیت کا خیال رکھنا لازم ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط سے متعلق چند نکات
امر بالمعروف اور نہی از منکر اس صورت میں واجب ہے جب چاروں شرائط موجود ہوں لہذا اگر ان میں سے ایک شرط بھی کم ہو مثال کے طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا مفسدے کا باعث ہو تو امر و نہی واجب نہیں ہے اگرچہ باقی شرائط موجود ہوں۔
امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے میں شرط نہیں ہے کہ امر ونہی کرنے والا شخص جس کا امر کر رہا ہے اس پر عمل کرتا ہو اور جس سے نہی کر رہا ہے اس سے اجتناب کرتا ہو یعنی گناہگار شخص پر بھی امر و نہی کرنا واجب ہے اور وہ اس عذر کی وجہ سے کہ خود گناہ کرتا ہے، اپنے آپ کو اس عظیم فریضے سے بری الذمہ نہیں کرسکتا (اوریہ بات کہ اسلامی منابع میں جو بعض افراد کی سخت مذمت کی گئی ہے کہ وہ خود عمل نہیں کرتے اور دوسروں کو عمل کرنے کا حکم دیتے ہیں یا یہ کہ خود گناہ کرتے ہیں اوردوسروں کو گناہوں سے روکتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے خود اپنے فریضے پر عمل کیوں نہیں کیا اس لئے نہیں کہ انہوں نے امر ونہی کیوں کیا ہے)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں یہ شرط نہیں ہے کہ امر و نہی واجب کو ترک کرنے والے اور حرام کو انجام دینے والے کے بے آبرو ہونے یا احترام میں کمی آنے کا باعث نہ ہو اس بنا پر اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں اس کی شرائط اور آداب کا خیال رکھا جائے اور اس کی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے اور اس کے باوجود یہ خلاف ورزی کرنے والے کے بے آبرو ہونے یا اس کے احترام میں کمی آنے کا باعث ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
تمرین
1۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معنی اور حکم کیا ہے؟
2۔ اگر کسی ادارے کے ملازمین ادارے میں افسران بالا کی طرف سے اداری اور شرعی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کریں تو ان کا فریضہ کیا ہے؟
3۔ اگر یونیورسٹی میں معروف کو ترک کیا جا رہا ہو اور معصیت رائج ہو رہی ہو اورامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط بھی موجود ہوں لیکن نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والاشخص غیر شادی شدہ ہو تو کیا غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس سے امر بالمعروف اور نہی از منکر کا فریضہ ساقط ہوجائے گا؟
4۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط بیان کریں۔
5۔ جس شخص کے کام کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں ہے کہ حرام ہے یا حلال ، اسے نہی عن المنکر کرنے کا کیا حکم ہے؟
6۔ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا واجب کو ترک کرنے والے یا حرام کا ارتکاب کرنے والے کی آبروریزی یا اس کے احترام میں کمی کا باعث تو حکم کیا ہے؟
سبق 77: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (2) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل اور مراتب۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متفرق مسائل
5۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل اور مراتب
1۔ قلبی امر اور نہی
2۔ زبانی امر اور نہی
3۔ عملی امر اور نہی
توجہ
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل اور مراتب کی رعایت کرنا واجب ہے یعنی جب تک نچلے مرحلے سے مقصد حاصل ہوتا ہے بالاتر مرحلے میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔
1۔ قلبی امر اور نہی
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پہلا مرحلہ قلبی امر اور نہی یا دل سے امر اور نہی ہے۔ قلبی امر اور نہی سے مراد دل سے نفرت کا اظہار کرنا ہے یعنی مکلف کو چاہئے کہ منکر کو انجام دینے اور معروف کو ترک کرنے کے بعد بارے میں اپنی اندرونی نفرت اور ناپسندیدگی کو آشکار کرے اور اس طریقے سے معروف کو ترک کرنے والے یا منکر کو انجام دینے والے فرد کو معروف بجالانے اور منکر کو ترک کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
2۔ قلبی امر اور نہی (رضایت اور نفرت کے اظہار) کے کئی درجے ہیں جب تک نچلے درجے اور آسان راہ سے امر اور نہی کرنا اور ہدف تک رسائی ممکن ہوتو بالاتر مراحل میں نہیں جانا چاہئے۔ یہ مراحل اور درجات شدید اور ضعیف ہونے اور انواع کے مطابق زیادہ ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں؛ تبسم، مسکراہٹ اور خندہ پیشانی سے پیش آنا، آنکھیں بند کرنا، حیرت کا اظہار کرنا، چہرے پر ہاتھ مارنا، ہاتھ یا سر سے اشارہ کرنا، سلام نہ کرنا، منہ پھیرلینا، بات چیت بند کرنا اور ناراض ہوکر تعلقات ختم کرنا۔
2۔ زبانی امر اور نہی
1۔ امر بالمعروف عن المنکر کا دوسرا مرحلہ زبانی امر اور نہی کرنا ہے۔ زبانی امر اور نہی سے مراد یہ ہے کہ مکلف کو چاہئے کہ بات چیت کے ذریعے منکر سے اجتناب اور معروف کو انجام دینے کا تقاضا کرے۔
2۔ زبانی امر اور نہی کے کئی درجات ہیں کہ جب تک نچلے مرحلے اور نرم لہجے میں بات کرکے ہدف حاصل ہونے کا امکان ہے بالاتر مرحلے کا اقدام نہیں کرنا چاہئے۔ یہ مراحل شدید اور ضعیف اور مختلف انواع کے لحاظ سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں؛ نصیحت کرنا، تذکر دینا، ہدایت کرنا، فوائد اور نقصانات کو گننا، بحث اور مناظرہ کرنا، دلیل کے ساتھ بات کرنا، سخت اور تند لہجے میں بات کرنا اور دہمکی آمیز گفتگو کرنا۔
3۔ عملی امر اور نہی
1۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تیسرا مرحلہ ہاتھ کے ساتھ امر اور نہی کرنا ہے (طاقت کے استعمال سے کنایہ ہے) عملی امر اور نہی سے مراد یہ ہے کہ مکلف کو زور و زبردستی اور طاقت استعمال کرکے منکر کو انجام دینے اور معروف کو ترک کرنے سے روکنا چاہئے۔
2۔ عملی امر اور نہی کے کئی مراحل اور درجات ہیں کہ جب تک نچلے درجے اور آسان طریقے سے نتیجہ مل سکتا ہے، شدید تر مرحلے میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ درجات شدید اور ضعیف ہونے اور انواع کے لحاظ سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں؛ مانع بن کر راستہ روکنا، گناہ کے وسائل سے محروم کرنا، پیچھے دھکیلنا، مضبوطی سے ہاتھ پکڑنا، نظربند کرنا، سخت گیری کرنا، مارنا پیٹنا، درد میں مبتلا کرنا، رخمی کرنا، عضو کو توڑدینا، ناکارہ بنانا، معذور کرنا، قتل کرنا۔
توجہ
اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اسلامی حکومت کے دور میں زبانی امر ونہی کے بعد والے مراحل کو پولیس اور عدالتوں کے سپرد کیا جاسکتا ہے خاص طور پر جب گناہ کو روکنے کے لئے فعل حرام کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اس کے مال میں تصرف کرنے، اسے سزا دینے اور محبوس کرنے جیسے کاموں کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو ان حالات میں ایسی اسلامی حکومت اور اقتدار کی وجہ سے مکلفین پر واجب ہے کہ و ہ ( قلبی اور) زبانی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر اکتفا کریں اور جب طاقت کے استعمال کی ضرورت ہو تو مسئلے کو پولیس اور عدلیہ کے حوالے کر دیں لیکن جس جگہ اور جس وقت اسلامی حکومت نہیں ہے وہاں مکلفین پر واجب ہے کہ شرائط کے ہوتے ہوئے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل کی ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے مقصد کے حصول تک تمام مراحل کو انجام دیں۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ اسلامی نظام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں لوگوں کی ذمہ داری قلبی اور زبانی امر ونہی پر اکتفا کرنا ہے اور دیگر مراحل متعلقہ عہدیداروں کے ذمے ہیں یہ فقہی فتوا ہے (حکومت کی طرف سے حکم نہیں ہے)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل کے بارے میں چند نکات
شرعاً مسلمان کے سلام کا جواب دینا واجب ہے لیکن اگر نہی عن المنکر کے ارادے سے فعل حرام کا ارتکاب کرنے والے کے سلام کا جواب نہ دینا عرف کے مطابق نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو یہ کام جائز ہے۔
جو لوگ حکومت کی طرف سے مفاسد اور منکرات کو روکنے پر مأمور ہیں اگر وہ اپنے فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو دیگر لوگوں کیلئے ان امور میں مداخلت کرنا جائز نہیں ہے کہ جو پولیس اور عدلیہ کے فرائض میں آتے ہیں لیکن حدود اورشرائط کا خیال رکھتے ہوئے لوگوں کی جانب سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
اگر ڈرائیور گاڑی میں حرام موسیقی اور گانے کے کیسٹ چلائے تو نہی از منکر کی شرائط کی شرائط موجود ہونے کی صورت میں اسے نہی عن المنکر کرنا ضروری ہے البتہ زبانی نہی عن المنکر سے زیادہ کچھ واجب نہیں ہے اور اگر اسے منع کرنے کا کوئی اثر نہ ہو تو واجب ہے کہ حرام موسیقی اور گانے کو سننے سے اجنتاب کرے اور اگر غیر ارادی طور پر حرام موسیقی اور گانے کی آواز کانوں میں پڑ جائے تو اس پر کچھ نہیں ہے۔
ہسپتال میں نرسنگ کا مقدس فریضہ انجام دینے والی خاتون اگر دیکھے کہ ہسپتال میں بعض مریض رکیک اور حرام موسیقی سنتے ہیں اور ان پر نصیحت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا چنانچہ اگر وہ اس حرام کو روکنے کیلئے کیسٹ کے باطل مواد کو مٹانا چاہے تو اس کیلئے یہ جائز ہے لیکن اس کام کیلئے مالک یا حاکم شرع سے اجازت لینا ضروری ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نیت سے لوگوں کے گھروں کے اندر مداخلت کرنا جائز نہیں ہے بنابراین اگر بعض گھروں سے موسیقی کی بلند آواز مؤمنین کے لئے اذیت کا باعث ہو تو ان کے گھر کے اندرمداخلت نہیں کرنا چاہئے۔ (بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط اور مراحل کی رعایت کرتے ہوئے قلبی اور زبانی نہی عن المنکر کرے اور اثر نہ ہو تو پولیس کو اطلاع دے)
اگر انسان کا کوئی رشتہ دار گناہ کا ارتکاب کرے اوراس کے سلسلے میں لاپرواہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کے غیر شرعی کاموں سے نفرت کا اظہار کرے اور ہر برادرانہ طریقے سے جو مفید اور موثر ہو، اسے نصیحت کرے لیکن قطع رحمی کرنا جائز نہیں ہے ہاں اگر احتمال ہو کہ وقتی طور پر اس کے ساتھ معاشرت ترک کرنے سے وہ گناہوں کے ارتکاب سے باز آئے گا تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان سے یہ کام واجب ہے۔
توجہ
ہر مکلف پر واجب ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط، مراتب اور واجب ہونے اور نہ ہونے کے مواردکو یاد کرےتاکہ امر و نہی کرتے وقت کہیں خود منکر اور خلاف ورزی میں مبتلا نہ ہوجائے ۔
6۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متفرق مسائل
1۔ جو لوگ ماضی میں شراب نوشی جیسے حرام کاموں میں مرتکب ہوتے تھے، ان کا معیار ان کی آج کی حالت ہے اگر جو کچھ پہلے انجام دیتے تھے اس سے توبہ کی ہے تو ان کے ساتھ رہنا دوسرے مؤمنین کے ساتھ رہنے کی طرح ہے لیکن جو آج بھی حرام حرام میں مرتکب ہوتا ہے اس کو نہی عن المنکر کرتے ہوئے اس کام سے روکنا چاہئے اور اگر اس سے دوری اختیار کئے بغیر حرام کام سے اجتناب نہ کرے تو نہی عن المنکر کے عنوان سے اس سے تعلقات منقطع کرنا اور میل جول ختم کرنا واجب ہے۔
2۔ سونا پہننا اور اس کو گلے میں ڈالنا مرد کے لئے بہ طور مطلق حرام ہے اور ایسے کپڑے پہننا جن کی سلائی یا رنگ وغیرہ عرف کی نظر میں غیرمسلموں کی جانب سے حملہ آور ثقافت کی تقلید اور ترویج شمار ہوجائیں تو جائز نہیں ہے اسی طرح ان زیورات کا استعمال جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی ثقافتی یلغار کی پیروی شمار کیا جائے تو جائز نہیں ہے اور دوسروں پر واجب ہے کہ اجنبیوں کی ثقافتی تقلید کے ان نمونوں کے مقابلے میں زبانی نہی عن المنکر کریں۔
3۔ جو شخص بے نمازی سے معاشرت پر مجبور ہو اور بعض اوقات کچھ کاموں میں اس کی مددکرتا ہو، اس کا وظیفہ ہے کہ شرائط موجود ہوں تومسلسل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے اور اس کے علاوہ اس کا کوئی اور وظیفہ نہیں ہے اور اگر اس کی مدد کرنا اور اس کے ساتھ رہنا نماز ترک کرنے کی زیادہ حوصلہ افزائی کا سبب نہ بنے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
4۔ جس عورت کا شوہر دینی مسائل کوزیادہ اہمیت نہیں دیتا ہے مثلاً نماز نہیں پڑھتا ہے تو اس کا فریضہ ہے کہ ہر ممکنہ طریقے سے اس کی اصلاح کیلئے کوشش کرے اوربد اخلاقی اور ناسازگاری پر مشتمل ہر قسم کے سخت رویے سے پرہیز کرے اور مطمئن رہے کہ دینی مجالس میں شرکت اور دیندار گھرانوں کے یہاں آنا جانا اس کی اصلاح کے سلسلے میں زیادہ موثر ہے۔
5۔ اگر کوئی مسلمان مرد قرائن کے ذریعے مطلع ہوجائے کہ اس کی بیوی خفیہ طور پر غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہوتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ بدگمانی اور گمان کا فائدہ دینے والے قرائن و شواہد سے پرہیز کرے اور اگر ایسے فعل کا ارتکاب ثابت ہوجائے کہ جو شرعاً حرام ہے تو واجب ہے کہ نصیحت اور نہی عن المنکر کے ذریعے اسے روکے اور اگر نہی عن المنکر کا اثر نہ ہو تو (حرام کام کو ) ثابت کرنے والے دلائل اس کے پاس موجود ہوں تو عدالت کی طرف رجوع کرسکتا ہے۔
6۔ اگر علمائے کرام کیلئے ثابت ہوجائے کہ ظالم حکمرانوں کے ساتھ میل جول رکھنا انہیں ظلم سے باز رکھنے کا سبب بنتا ہے اور انہیں نہی عن المنکر کرنے میں مؤثر ہے یا ایسا اہم مسئلہ درپیش ہو جس کی پیروی کے سلسلے میں ظالم کے یہاں جانا ضروری ہو تو اس میں اشکال نہیں ہے۔
تمرین
1۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل اور مراتب کو بیان کریں۔
2۔ کیا فعل حرام کے مرتکب ہونے والے کے سلام کا جواب نہ دینا جائز ہے؟
3۔ اگر حکومت کی طرف سے منکرات کو روکنے پر مأمور افراد اپنے فریضے کو انجام دینے میں کوتاہی کریں تو کیا عوام خود یہ کام کرسکتے ہیں؟
4۔ اگر کوئی رشتہ دار گناہ کا ارتکاب کرے اور اس کے سلسلے میں لا پروائی کا مظاہرہ کرے تو اس سے تعلقات برقرار رکھنے کے حوالے سے ہمارا کیا وظیفہ ہے؟
5۔ جو لوگ ماضی میں شراب خوری جیسے حرام کاموں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں ،ان کے ساتھ رابطہ کیسا ہونا چاہیے؟
6۔ اگر شوہر نماز اور دیگر دینی مسائل کو اہمیت نہ دیتا ہو تو اس کے بارے میں بیوی کا فریضہ کیا ہے؟