دریافت:
احکام آموزشی
- پہلا جلد
- پہلی فصل: تقلید
- دوسری فصل: طہارت
- تیسری فصل: نماز
- چوتھی فصل: روزه
- پانچویں فصل: خمس
- چھٹی فصل: انفال
- سبق 74: انفال
سبق 74: انفال
انفال کے معنی۔ انفال کے منابع1۔ انفال کے معنی
انفال یعنی وہ عمومی اموال کہ جن کا اختیار رسول اکرمﷺ اور ان کے معصوم جانشینوں کے ہاتھ میں ہے اور غیبت کے دور میں یہ ولی امر مسلمین کے اختیار میں ہیں (حکومت اسلامی کے تصرف میں ہیں) اور ضروری ہے کہ انہیں معاشرے کے عمومی مفادات اور سب کے فائدے کیلئے استعمال کیا جائے۔
2۔ انفال کے منابع
1۔ فے (جو لشکر کشی اور جنگ کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائے خواہ زمین ہو یا کچھ اور)
2۔ وہ غیرآباد زمینیں کہ جو احیا اور آباد کئے بغیر قابل استفادہ نہیں ہیں۔
3۔ وہ شہر اور دیہات کہ جن کے باشندے انہیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
4۔ سمندر اور بڑے دریاؤں کے ساحل
5۔ قدرتی جنگلات ، درے اور پہاڑوں کی بلندیاں
6۔ بادشاہوں کے وہ گرانبہا اور منتخب اموال کہ جو جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ لگ جاتےہیں۔
7۔ ممتاز غنیمتیں جیسے اعلیٰ نسل کا گھوڑا اور قیمتی لباس
8۔ وہ جنگی غنیمت کہ جو مسلمانوں کے پیشوا کی اجازت کے بغیر ہونے والی جنگ کے ذریعے ہاتھ آجائے۔
9۔ ان لوگوں کے اموال کہ جو دنیا سے چلے گئے اور ان کا کوئی وارث نہیں ہے۔
10۔ معدنیات
توجہوہ زمین جو اینٹ بنانے والی کمپنی کے نزدیک ان کی مٹی کو فروخت کرنے کے لئے خریدی جاتی ہے تو اس صورت میں جب آباد اور شرعی طور پر فروخت کرنے والے کی مخصوص ملکیت ہو اگرچہ اس کو خریدنے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، خریدار کی مخصوص ملکیت بن جاتی ہے اور انفال کا حصہ نہیں ہے لیکن اگر (ایران کی) قومی اسمبلی سے منظور قانون کے مطابق اور اعلی نگران کونسل کی تائید حاصل ہوتو اس مٹی کو فروخت کرنے سے ملنے والی آمدنی پر ٹیکس دینا لازم ہے اور حکومت کو اس کا مطالبہ کرنے کا حق ہے۔
دریاوں کہ تہہ میں موجود ریت اور مٹی کو شہر کی تعمیرات وغیرہ کے لئے خصوصی طور پر استعمال کرنا بلدیاتی اداروں کے لئے جائز ہے اور بعض افراد کی جانب سے بڑے دریاؤں کے نچلے حصوں پر خصوصی یا عمومی ملکیت کا دعوی قابل قبول نہیں ہے۔
قدرتی چراگاہیں کہ جو آج تک کسی کی ذاتی ملکیت میں نہیں رہیں، انفال اور عمومی اموال میں سے ہیں اور ان کا اختیار ولی فقیہ کے ہاتھوں میں ہے اور کسی بھی حال میں ان کی خرید و فروش صحیح نہیں ہے اسی طرح ماضی میں خانہ بدوشوں کا وہاں آنا جانا ان کی ملکیت کا سبب نہیں بنتا۔
ایسی عمومی اور قدرتی چراگاہوں کا چارا کہ جو کسی کی ذاتی ملکیت نہیں تھا کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اور کسی کو انہیں بیچنے کا حق نہیں ہے لیکن حکومت کی طرف سے جو شخص دیہاتوں کے امور کا ذمہ دار ہے وہ دیہات کے عمومی مصالح کیلئے ان لوگوں سے کچھ رقم لے سکتا ہے کہ جنہیں ان چراگاہوں میں اپنے مویشی چرانے کی اجازت ہے۔
لوگوں کے املاک سے ملحقہ چراگاہوں میں جانور کو چرنے کی اجازت ہونا دوسروں کی ملکیت میں داخل ہونے اور اس کے پانی سے استفادہ جائز ہونے کے لئے کافی نہیں ہے اور مالک کی رضایت کے بغیر یہ کام جائز نہیں ہے۔
چونکہ شرعا وقف کا صحیح ہونا شرعی لحاظ سے پہلے سے ہی مالک ہونے پر موقوف ہے جس طرح کسی چیز کا وراثت میں ملنا بھی اس بات پر موقوف ہے کہ پہلے مورِّث شرعی لحاظ سے اس کا مالک ہو لہذا قدرتی چراگاہیں اور جنگلات کہ جو آج تک کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں اور کسی طرح انہیں احیا اور آباد بھی نہیں کیا گیا کسی کی ذاتی ملکیت شمار نہیں ہوں گی تاکہ ان کا وقف کرنا صحیح ہو یا وہ وراثت میں منتقل ہوں بہرحال جنگل کا جو حصہ شرعی اور قانونی اجازت کے ساتھ کھیتی یا گھر وغیرہ کی صورت میں احیا کر دیا جائے اور شرعی ملکیت بن جائے اگر وہ وقف ہو تو اس میں حق تصرف اس کے شرعی متولی کو ہے اور اگر وقف نہ ہو تو اس میں تصرف کا حق اس کے مالک کا ہے لیکن جنگل اور چراگاہ کا جو حصہ اپنی قدرتی صورت میں باقی ہے وہ انفال اور عمومی اموال میں سے ہے اور قانونی ضوابط کے مطابق اس کا اختیار اسلامی حکومت کے پاس ہے ۔
تمرین
1۔ انفال سے کیا مراد ہے؟
2۔ انفال کے منابع کونسے ہیں؟
3۔ اگر کوئی شخص اینٹ بنانے والی کمپنی کے نزدیک کوئی زمین خریدے تاکہ اس کی مٹی کو بیچنے کے لئے استفادہ کیا جائے تو انفال شمار ہوگی یا نہیں؟ انفال نہ ہونے کی صورت میں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ دس فیصد بلدیہ کو دیا جاتا ہے کیا حکومت کو مٹی کا ٖ ٹیکس مطالبہ کرنے کا حق ہے؟
4۔ کیا بلدیہ کو شہر کی تعمیرات وغیرہ کے لئے دریاؤں کی ریت وغیرہ استعمال کرنے کا حق ہے؟ اگر حق ہے تو چنانچہ بلدیہ کے علاوہ کوئی شخص اس کی ملکیت کا دعوی کرے تا کیا اس کا دعوی قابل قبول ہے؟
5۔ خانہ بدوشوں کی چراگاہوں کی خرید و فروش کب صحیح ہے؟
6۔ جن لوگوں کو اپنے مویشی چرانے کی اجازت ہے کیا وہ مالک کی رضامندی کے بغیر خود کو اور اپنے مویشیوں کو کھیتی کے پانی سے سیراب کرنے کیلئے چراگاہ سے ملحقہ کھیت میں داخل کرسکتے ہیں؟
-
- ساتھویں فصل: جہاد
- آٹھویں فصل: امر بالمعروف اور نہی از منکر
-