دریافت:
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
- امر بالمعروف اور نہى عن المنکر کے واجب ہونے کے شرائط
س1: ایسی جگہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کا کیا حکم ہے جہاں واجب کو ترک کرنے والے یاحرام کو انجام دینے والے کی اہانت ہوتی ہو اور لوگوں کے سامنے اس کی حیثیت گھٹتی ہو؟
ج: اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرائط و آداب کی رعایت کی جائے اور ان کے حدود سے تجاوز نہ کیا جائے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س2: اسلامی حکومت کے سائے میں، لوگوں پر واجب ہے کہ وہ صرف زبان سے امر بالمعروف اور نہی از منکر کا فریضہ انجام دیں اور اس کے دوسرے مراحل کی ذمہ داری اسلامی حکومت کے عہدیداروں پر ہے، تو کیا یہ نظریہ فتویٰ ہے یا حکومت کی جانب سے حکم ہے ؟
ج: یہ فقہی فتویٰ ہے۔
س3: اگر برائی کا روکنا اس بات پر موقوف ہو کہ برائی اور اسکے انجام دینے والے کے درمیان رکاوٹ پیدا کردی جائے اور رکاوٹ پیدا کرنا بھی اسے مارنے، قید میں ڈالنے ، اس پر سختی کرنے یا اسکے اموال میں تصرف کرنے۔ اگرچہ اسے تلف کرنے سے ہی ہو۔ پر موقوف ہو تو کیا حاکم کی اجازت کے بغیر نہی از منکر کیا جاسکتا ہے؟
ج: اسکی مختلف صورتیں اور موارد ہیں، کلی طور پر جہاں امر بالمعروف اور نہی از منکر برائی انجام دینے والے کی جان و مال میں تصرف پر موقوف نہ ہوں تو وہاں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ تمام مکلفین پر واجب ہے، لیکن جہاں صرف زبانی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کام نہ چلے بلکہ اس سے بڑھ کر کسی اقدام کی ضرورت پڑے تو اگر یہ ایسے ملک میں ہو جہاں اسلامی نظام اور حکومت موجود ہو جو اس اسلامی فریضہ کو اہمیت دیتی ہو تو یہ کام حاکم کی اجازت اور وہاں اس امر کے مخصوص عہدیداروں، پولیس اور اس کی صلاحیت رکھنے والی عدالتوں کے اذن پر موقوف ہوگا۔
س4: بعض ڈرائیور حرام موسیقی اور گانے کی کیسٹیں چلاتے ہیں اور وہ نصیحت کے باوجود ٹیپ ریکارڈر بند نہیں کرتے، آپ بیان فرمائیں کہ ایسے افراد سے کیا سلوک کیا جائے اور کیا زور و طاقت کے ذریعہ سے ایسے افراد کو روکنا جائز ہے یا نہیں؟
ج: جب نہی عن المنکر کے شرائط موجود ہوں تو برائی سے روکنے کے لئے زبانی نہی سے زیادہ آپ پر کوئی چیز واجب نہیں ہے اور اگر آپ کی بات کا اثر نہ ہو توآپ پر واجب ہے کہ حرام موسیقی اور گانے کو سننے سے اجتناب کریں اور اگرغیر ارادی طور پر موسیقی اور حرام غنا کی آواز آپ کے کان تک پہنچتی ہو تو آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
س5: جو شخص دوسرے کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا چاہتاہے تو کیا اس کیلئے واجب ہے کہ وہ اس پر قدرت رکھتا ہو؟ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکب واجب ہوتا ہے؟
ج: امر و نہی کرنے والے پر واجب ہے کہ وہ اچھائی (معروف) اور برائی (منکر) کو پہچانتاہو اور یہ بھی جانتا ہو کہ انجام دینے والا کسی شرعی عذر کے بغیر جان بوجھ کر اس کو انجام دے رہا ہے۔ ایسی صورت میں اس وقت اس پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے جب اسے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے اس شخص پر اثر کرنے کا احتمال ہو اور وہ خود اس سلسلہ میں ضرر سے محفوظ ہو اور اس مورد میں متوقع ضررکا اور جس چیز کا امر کر رہا ہے یا جس چیز سے منع کر رہا ہے ا س کی اہمیت کا آپس میں موازنہ کرے، ورنہ اس پر واجب نہیں ہے۔
س6: اگر کوئی رشتہ دار گناہ کرتا ہو اور اس کی پروا نہ کرتا ہو تو اس کے سلسلے میں ہماری شرعی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: اگر احتمال ہو کہ وقتی طور پر صلۂ رحمی ترک کرنے سے وہ گناہ سے کنارہ کش ہو جائے گاتو اس پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ضمن میں ایسا کرنا واجب ہے، ورنہ قطع رحمی کرنا جائز نہیں ہے۔
س 7: کیا اس خوف کی بنا پر کہ اسے ملازمت سے ہٹا دیا جائے گاامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر اگر وہ دیکھے کہ کسی تعلیمی مرکز کا کوئی عہدیدارکہ جس کا یونیورسٹی کے جوان طلبہ کے ساتھ رابطہ ہے خلاف شرع اعمال کا مرتکب ہوتاہے یا اس جگہ معصیت کے ارتکاب کا ماحول فراہم کرتا ہے اور اسے یہ خوف ہو کہ اگر نہی از منکرکرے تو اس صورت میں اسے ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔
ج: کلی طور پر اگر اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں اقدام کرنے سے اپنے آپ پر قابل توجہ ضرر کا خوف ہو تو وہاں اس پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں ہے۔
س 8: اگر یونیورسٹی کے بعض حلقوں میں نیکیاں متروک اور برائیاں معمول ہوں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے شرائط موجود ہوں، لیکن امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا غیر شادی شدہ ہو تو کیا اس وجہ سے اس سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ساقط ہو گا یا نہیں؟
ج: جب امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا موضوع موجود ہواور ان کے شرائط پائے جائیں تو ان کا انجام دینا سب انسانوں کی شرعی، انسانی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ اس میں انسان کے شادی شدہ یا کنوارے ہونے جیسے حالات کا کوئی دخل نہیں ہے اور صرف اس بناپر کہ وہ غیر شادی شدہ ہے اس ذمہ داری سے عہدہ بر آ نہیں ہو سکتا۔
س9: ایسا شخص جو معاشرے میں خاص مقام رکھتا ہے اور اگر چاہے تو اپنے پر اعتراض کرنے والوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اگر اسکے ارتکاب گناہ اور جھوٹ بولنے کے شواہد موجود ہوں تو کیا ہم اس کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے صرف نظر کر سکتے ہیں؟ یا ضرر کے خوف کے باوجود بھی ہمارے اوپر واجب ہے کہ اس کو اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں؟
ج: اگرخوف ضرر کی وجہ عقلائی ہو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا واجب نہیں ہے، بلکہ آپ سے یہ ذمہ داری ساقط ہے، لیکن کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ واجب کو ترک کرنے والے اور برائی کے ارتکاب کرنے والے ایمانی بھائی کے صرف مقام و مرتبے کو دیکھ کر یا اسکی طرف سے محض معمولی ضرر کے احتمال کی وجہ سے اسے امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے سے منصرف ہوجائے۔
س 10: بعض موقعوں پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہوئے یہ اتفاق پیش آتا ہے کہ برائی سے منع کرنے کی صورت میں گناہگار شخص اسلامی احکام و واجبات کی معرفت نہ رکھنے کی وجہ سے اسلام سے بدظن ہوجاتا ہے دوسری طرف اگر ہم اسے یوں ہی چھوڑ دیں تو وہ دوسروں کے لئے ارتکاب معاصی کا ماحول مہیا کرتا ہے، تو ایسی صورت میں ہمارا کیا فریضہ ہے؟
ج: امربالمعروف اور نہی عن المنکر اپنے شرائط کے ساتھ احکام اسلام کے تحفظ اور معاشرہ کی سلامتی کے لئے ایک عام شرعی ذمہ داری ہے اور صرف اس خیال سے کہ اس عمل سے خود وہ شخص یا بعض دیگر لوگ اسلام سے بدظن ہو سکتے ہیں، اس جیسی اہم ذمہ داری کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔
س 11: اگر مفاسد کو روکنے کے لئے حکومت اسلامی کی طرف سے مامور اشخاص اپنے فرائض کو انجام دینے میں کوتاہی کریں تو کیا اس وقت عام لوگ خودمفاسد کے سد باب کے لئے قیام کر سکتے ہیں؟
ج: وہ امور جو عدلیہ اور سکیورٹی فورسز کی ذمہ داریوں میں آتے ہیں ان میں دیگر لوگوں کے لئے مداخلت کرنا جائز نہیں ہے، لیکن عام لوگ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرائط و حدود کے اندر رہ کر اسے انجام دے سکتے ہیں۔
س 12: کیا امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں عام لوگوں پر واجب ہے کہ صرف زبان سے ہی امر و نہی کریں؟ اور اگر ان کے لئے واجب ہے کہ وہ صرف زبان سے ہی امر و نہی کرنے پر اکتفاء کریں تو یہ توضیح المسائل اور خاص کر تحریر الوسیلہ میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے تضاد رکھتا ہے اور اگر لوگوں کے لئے جائز ہے کہ ضرورت کے وقت دیگر اقدامات بھی کر سکتے ہوں تو کیا وہ ضرورت کے وقت ان تمام تدریجی مراتب کو اختیار کر سکتے ہیں جو تحریر الوسیلہ میں مذکور ہیں؟
ج: اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اسلامی حکومت کے دور میں، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل میں سے زبانی امر و نہی کے بعد والے مراتب کو انتظامیہ اور عدلیہ کے سپرد کیا جا سکتا ہے خصوصاً ان مواقع پر جہاں برائی کو روکنے کے لئے طاقت کے استعمال کی ضرورت ہو، مثلاً جہاں برائی انجام دینے والے کے اموال میں تصرف کرنا ہو یا اس شخص پر تعزیر جاری کرنی ہو یا اسے قید کرنا ہو و غیرہ تو یہاں پر مکلفین پر واجب ہے کہ وہ صرف زبانی امر و نہی پر اکتفا کریں اور طاقت کے استعمال کی ضرورت پڑنے پر اس امر کو انتظامیہ اور عدلیہ کے نوٹس میں لائیں اور یہ چیز امام خمینی کے فتاوی کے منافی نہیں ہے، لیکن جس وقت یا جس جگہ پر اسلامی حکومت کا تسلط اور حکمرانی نہیں ہے وہاں پر سب انسانوں پر واجب ہے کہ شرائط کے موجود ہونے کی صورت میں وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے تمام مراتب کو ترتیب کے ساتھ انجام دیں یہاں تک کہ مقصد حاصل ہو جائے۔
س 13: بعض ڈرائیور حرام موسیقی اور گانے کی کیسٹیں چلاتے ہیں اور وہ نصیحت کے باوجود ٹیپ ریکارڈر بند نہیں کرتے، آپ بیان فرمائیں کہ ایسے افراد سے کیا سلوک کیا جائے اور کیا زور و طاقت کے ذریعہ سے ایسے افراد کو روکنا جائز ہے یا نہیں؟
ج: جب نہی عن المنکر کے شرائط موجود ہوں تو برائی سے روکنے کے لئے زبانی نہی سے زیادہ آپ پر کوئی چیز واجب نہیں ہے اور اگر آپ کی بات کا اثر نہ ہو توآپ پر واجب ہے کہ حرام موسیقی اور گانے کو سننے سے اجتناب کریں اور اگرغیر ارادی طور پر آواز آپ کے کان تک پہنچتی ہو تو آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
س 14: میں ایک ہسپتال میں نرسنگ کے مقدس پیشے سے وابستہ ہوں اور کبھی کبھار بعض مریضوں کو حرام اور رکیک موسیقی کے کیسٹ سنتے ہوئے دیکھتی ہوں چنانچہ انہیں اس سے باز رہنے کی نصیحت کرتی ہوں اور جب دوبارہ نصیحت کرنے کا بھی اثر نہیں ہوتا تو ٹیپ ریکارڈر سے کیسٹ نکال کر اسے محو کر کے واپس کر دیتی ہوں۔ امید ہے مجھے مطلع فرمائیں کہ کیا یہ طریقہ جائز ہے یا نہیں؟
ج: حرام استعمال کو روکنے کی غرض سے کیسٹ سے باطل چیز کو محوکرنا جائز ہے۔ لیکن یہ فعل کیسٹ کے مالک یا حاکم شرع کی اجازت پر موقوف ہے۔
س 15: بعض گھروں سے موسیقی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ جن کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جائز ہیں یا نہیں اور بعض اوقات ان کی آواز اتنی اونچی ہوتی ہے کہ جس سے مؤمنین کو اذیت ہوتی ہے اس سلسلہ میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
ج: لوگوں کے گھروں کے اندر مداخلت کرنا جائز نہیں ہے اورامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا، موضوع کی تشخیص اور شرائط کے موجود ہونے پر موقوف ہے۔
س16: ان عورتوں کو امر و نہی کرنے کا کیا حکم ہے جن کا حجاب ناقص ہوتا ہے؟ اور اگر ان کو زبان سے امر و نہی کرتے وقت اپنی شہوت کے ابھرنے کا خوف ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: نہی عن المنکرکرنا، اجنبی عورت کو شهوت کے ساتھ دیکھنے پر موقوف نہیں ہے اور حرام سے اجتناب کرنا ہر شخص پر واجب ہے اور خاص کر نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے وقت۔
- امربالمعروف اور نہى عن المنکر کا طريقہ
س 17: بیٹے کا ماں باپ کے سلسلہ میں یا زوجہ کا شوہر کے بارے میں کیا حکم ہے جب وہ اپنے اموال کا خمس ادا نہ کرتے ہوں؟ اور کیا بیٹا والدین کے اور زوجہ شوہر کے اس مال میں تصرف کر سکتے ہیں جس کا خمس نہ دیا گیاہو اور وہ حرام سے مخلوط ہو،اور یہ چیز بھی مد نظر ہے کہ ایسے مال سے استفادہ نہ کرنے کے سلسلہ میں روایات میں بہت تاکید وارد ہوئی ہے، کیونکہ حرام مال سے روح آلودہ ہو جاتی ہے؟
ج: جب بیٹا والدین کو اور زوجہ اپنے شوہر کو نیکی ترک کرتے ہوئے اور برائی کو انجام دیتے ہوئے دیکھیں تو انہیں امر بالمعروف اور نہی از منکر کریں بشرطیکہ ان کے شرائط فراہم ہوں، البتہ ان کے اموال میں تصرف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س 18: جو والدین دینی فرائض پر مکمل اعتقاد نہ رکھنے کی بنا پر انہیں اہمیت نہ دیتے ہوں ان کے ساتھ بیٹے کو کیا سلوک روا رکھنا چاہیے؟
ج: بیٹے پر واجب ہے کہ والدین کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے نرم لہجہ میں ان کو نیکی کی تلقین کرے اور برائی سے منع کرے۔
س 19: میرا بھائی شرعی اور اخلاقی امور کی رعایت نہیں کرتا اور آج تک اس پر کسی نصیحت نے اثر نہیں کیا ہے، جب میں اس کو اس حالت میں دیکھوں تو میرا کیا فریضہ ہے؟
ج: جب وہ شریعت کے خلاف کوئی کام کرے تو واجب ہے کہ آپ اس سے نارضگی کا اظہار کریں اور جس برادرا نہ روش کو آپ مفید اور بہتر سمجھتے ہوں اس کے ذریعہ اس کو منع کرنا واجب ہے، لیکن اس سے قطع رحمی کرنا جائز نہیں ہے۔
س 20: ان لوگوں سے کیسے تعلقات ہونے چاہییں کہ جو ماضی میں شراب خوری جیسے حرام افعال کے مرتکب ہوئے تھے؟
ج: معیار لوگوں کی موجودہ حالت ہے اگر انہوں نے ان چیزوں سے توبہ کر لی ہے جنکاوہ ارتکاب کرتے تھے تو ان کے ساتھ معاشرت کا حکم دیگر مؤمنین کی طرح ہے لیکن جو شخص فی الحال حرام کام کا مرتکب ہوتا ہے اسے نہی عن المنکر کے ذریعہ اس کام سے روکنا واجب ہے اور اگر وہ قطع تعلقی اور اسکے ساتھ ترک معاشرت کے علاوہ کسی طرح حرام کام سے باز نہ آئے تو اس وقت نہی از منکر کے عنوان سے اس کا بائیکاٹ اور اس سے قطع تعلقی کرناواجب ہے۔
س 21: اخلاق اسلامی کے خلاف مغربی ثقافت کی پے در پے یلغار اور غیر اسلامی عادتوں کی ترویج کے پیش نظر ۔جیسے بعض لوگ گلے میں سونے کی صلیب پہنتے ہیں، یا بعض عورتیں شوخ رنگ کے مانتو (زنانہ کوٹ)پہنتی ہیں یا بعض مرد اور عورتیں بعض زیورات یا سیاہ چشمے اور ایسی خاص گھڑیاں پہنتے ہیں جو لوگوں کی توجہ کو جذب کرتی ہیں اور جن کو عرف عام میں برا سمجھا جاتاہے اور بعض لوگ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے بعد بھی اس پر مصر رہتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کوئی ایسا طرز عمل بیان فرمائیں گے جو ایسے لوگوں کے لئے بروئے کار لایا جا سکے؟
ج: سونا پہننا یا اسے گردن میں آویزاں کرنا مردوں پر ہر صورت میں حرام ہے اور ایسے کپڑے پہننا بھی جائز نہیں ہے جو عرف عام میں سلائی ،رنگ یا کسی اور اعتبار سے یلغار کرنے والی غیر مسلم تہذیب کی ترویج اور اسکی تقلید شمار ہو اور اسی طرح ان زیورات کا استعمال بھی جائز نہیں ہے کہ جن کا استعمال دشمنان اسلام و مسلمین کی حملہ آور ثقافت کی تقلید شمار کیا جائے اور ان چیزوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دوسروں پر واجب ہے کہ وہ زبان کے ذریعہ نہی عن المنکر کریں۔
س 22: ہم بعض اوقات یونیورسٹی کے طالب علموں یا ملازموں کو برا کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں یہاں تک کہ وہ مکرر ہدایت و نصیحت کے بعد بھی اس سے باز نہیں آتے بلکہ اس کے بر عکس وہ اپنی برائی کو جاری رکھنے پر مصر رہتے ہیں کہ جویونیورسٹی کے ماحول کے خراب ہونے کا سبب بنتا ہے۔ ان اشخاص کو بعض مؤثر دفتری سزاؤں کوبروئے کار لاکر۔ جیسے ان کی فائل میں ثبت کرنا ۔روکنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: یونیورسٹی کے داخلی نظام کی رعایت کرتے ہوئے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ عزیز جوانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسئلہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو سنجیدگی سے لیں اور اس کے شرائط اور شرعی احکام کو صحیح طریقہ سے سیکھیں۔ اس کو فروغ دیں اور لوگوں کو نیکیوں کی طرف ترغیب دلانے اور برائیوں سے بچانے کے لئے اخلاقی اور مؤثر طریقوں کو بروئے کار لائیں، لیکن اس سے ذاتی اہداف حاصل کرنے سے بچیں۔ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ نیکیوں کے فروغ اور برائیوں کے سد باب کابہترین طریقہ یہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو ان کاموں کی توفیق دے جن میں اسکی رضا و خوشنودی ہے ۔
س 23: کیا برائی انجام دینے والے کو اس کے فعل پر تنبیہ کرنے کی غرض سے سلام کا جواب نہ دینا جائز ہے؟
ج: سلام کا جواب دینا واجب ہے لیکن اگر عرف میں اس عمل پر نہی اور برائی سے باز رکھنا صدق کرے تو نہی عن المنکر کے قصد سے سلام کا جواب نہ دینا جائز ہے۔
س 24: اگرکسی ادارے کے منتظمین کے نزدیک یقینی طور پر یہ بات ثابت ہو جائے کہ ان کے ادارے کے بعض ملازمین نماز کے سلسلے میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں یا فریضہ صلاة کو ترک کرتے ہیں اور ان کو وعظ و نصیحت کرنے کا بھی کوئی اثر نہ ہو تو ایسے افراد کے بارے میں ان کا کیا فریضہ ہے؟
ج: انہیں مسلسل امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کی تاثیر سے غافل نہیں رہنا چاہیے البتہ شرائط کا خیال رکھتے ہوئے اور جب امر بالمعروف کے اثر کی امید نہ ہو تو اگر قوانین و ضوابط کے مطابق انہیں ان کی ملازمت کی مراعات سے محروم کرنا ممکن ہو تو ان کے حق میں یہ قانون نافذ کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ یہ محرومیت انکے فریضہ الٰہی کی ادائیگی میں سستی اور کوتاہی کا نتیجہ ہے ۔
- امر بالمعروف اورنہى عن المنکرکے متفرقہ مسائل
س 25: میری بہن نے کچھ عرصہ سے ایک شخص سے شادی کی ہے جو بے نماز ہے۔ چونکہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے لہذا میں اس سے گفتگو کرنے اور معاشرت پر مجبور ہوں بلکہ بعض اوقات اس کے کہنے پر بعض کاموں میں اس کی مدد بھی کرتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا شریعت کی رو سے میرے لئے اس سے گفتگو ، معاشرت اور اس کی مدد کرنا جائز ہے؟ اور اس کے بارے میں میری کیا ذمہ داری ہے؟
ج: اس سلسلہ میں آپ پر کچھ واجب نہیں ہے سوائے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے وہ بھی ان کے شرائط کے ہوتے ہوئے اور اگر آپ کی اس کے ساتھ معاشرت اور اس کی مدد اسے ترک نمازکی مزید ترغیب نہ دلائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 26: اگر ظالموں اور حکام جور کے پاس علمائے اعلام کی آمد و رفت سے ان کے ظلم میں کمی واقع ہوتی ہو تو کیا ان کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟
ج: اگر ایسے حالات میں عالم پر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کا ظالم سے رابطہ اسے ظلم سے باز رکھنے کا سبب بنے گا اور اسے منکر سے نہی کرنے میں مؤثر ہوگا یا کوئی ایسا اہم مسئلہ ہو کہ جس کیلئے ظالم کے ہاں دوڑ دھوپ کرنا ضروری ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س 27: میں نے چند سال قبل شادی کی ہے اور میں دینی امور اور شرعی مسائل کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہوں اور امام خمینی کا مقلد ہوں، مگر میری زوجہ دینی مسائل کو اہمیت نہیں دیتی، بعض اوقات ہماری باہمی بحث و نزاع کے بعد وہ ایک مرتبہ نماز پڑھ لیتی ہے لیکن اس کے بعد پھر ترک کردیتی ہے اور یہ چیز مجھے بہت چکھ پہنچا رہی ہے ایسی صورت میں میرا کیا فریضہ ہے؟
ج: آپ پر ہر ممکنہ طریقے سے اس کی اصلاح کے اسباب فراہم کرنا واجب ہے اور ایسی تندخوئی سے پرہیز ضروری ہے جس سے بدخلقی اور آپس میں عدم ہم آہنگی کی بو آتی ہو، لیکن باورکیجئے کہ دینی محفلوں میں شرکت کرنا اور دیندار گھرانوں کے یہاں آنا جانا اس کی اصلاح کے لئے نہایت مؤثر ہے۔
س 28: اگر ایک مسلمان شخص، قرائن کی رو سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس کی زوجہ باوجود اس کے کہ چند بچوں کی ماں ہے پوشیدہ طور پر ایسے افعال کا ارتکاب کرتی ہے جو عفت کے خلاف ہیں، لیکن اس موضوع کو ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں ہے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ بچے اسی کے زیرتربیت ہیں شرعاً اس عورت کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیئے اور وہ شخص یا اشخاص کہ جو ایسے قبیح عمل اور احکام خدا کے برخلاف افعال کے مرتکب ہوتے ہیں، اگر پہچان لئے جائیں تو ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے؟ واضح رہے کہ ان کے خلاف ایسی دلیلیں نہیں ہیں جنہیں شرعی عدالت میں پیش کیا جا سکے؟
ج: سوء ظن اور ظنی قرائن و شواہد سے اجتناب کرنا واجب ہے اور اگر حرام فعل کا ارتکاب ثابت ہو جائے تو اسے وعظ و نصیحت اور نہی عن المنکر کے ذریعہ روکنا واجب ہے اور اگر نہی عن المنکر کا کوئی اثر نہ ہو تو دلائل کے موجود ہونے کی صورت میں عدالت(شرعی عدالت مراد ہے) سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
س 29: کیا لڑکی کے لئے جائز ہے کہ وہ جوان لڑکے کو نصیحت اور راہنمائی کرے اور شرعی مسائل کا خیال رکھتے ہوئے درس و غیرہ میں اس کی مدد کرے؟
ج: مفروضہ صورت میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن شیطانی وسوسوں اور فریب سے انتہائی پرہیز ضروری ہے اور اس سلسلہ میں شریعت کے احکام۔ جیسے اجنبی کے ساتھ تنہائی میں نہ ہونا۔ کی رعایت کرنا واجب ہے۔
س 30: مختلف اداروں اور دفاتر کے ان ما تحت ملازمین کی ذمہ داری کیا ہے جو کبھی کبھی اپنے کام کی جگہ پر اپنے افسران بالا کو اداری اور شرعی قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں؟ اوراگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ اگر وہ نہی عن المنکر کرے گا تو اسے افسران بالا کی طرف سے نقصان پہنچے گا تو کیا اس شخص کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی؟
ج: اگر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرائط موجود ہوں تو انہیں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرناضروری ہے ورنہ اس سلسلہ میں ان کے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اسی طرح اگر انہیں قابل توجہ ضرر کا خوف ہو تو بھی ان کی ذمہ داری ساقط ہے۔ یہ اس جگہ کا حکم ہے جہاں اسلامی حکومت کا نظام نافذ نہ ہو، لیکن جہاں ایسی اسلامی حکومت ہے جو اس الہی فریضہ کو اہمیت دیتی ہے تو اس وقت امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے عاجز شخص پر واجب ہے کہ اس سلسلہ میں حکومت نے جو مخصوص ادارے قائم کئے ہیں ان کو اطلاع دے اور فاسد و مفسد جڑوں کی بیخ کنی تک چارہ جوئی جاری رکھے۔
س31: اگر کسی ادارے کے بیت المال میں مسلسل غبن ہورہا ہو اور ایک شخص خود کو اس لائق سمجھتا ہو کہ اگر اس ادارے کی ذمہ داری اس کے سپرد کر دی جائے تو اس کی اصلاح کر سکے گا، لیکن یہ ذمہ داری اسے اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک وہ اسے لینے کے لئے بعض مخصوص افراد کو رشوت نہ دے تو کیا بیت المال کو غبن سے بچانے کے لئے رشوت دینا جائز ہے؟ در حقیقت یہ بڑی بدعنوانی کو چھوٹی بدعنوانی کے ذریعہ ختم کرنا ہے۔
ج: جو اشخاص اس بات سے باخبر ہیں کہ شریعت کی مخالفت ہو رہی ہے ان پر واجب ہے کہ وہ نہی عن المنکر کے شرائط و ضوابط کا لحاظ کرتے ہوئے نہی عن المنکر کریں اور رشوت دینایا کوئی اور غیر قانونی طریقہ اختیار کرنااگر چہ مفاسد کو روکنے کیلئے ہی ہو جائز نہیں ہے۔ ہاں ! اگر یہ چیزیں اس ملک میں فرض کی جائیں جہاں اسلامی حکومت قائم ہو تو وہاں پر کسی کے صرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے عاجز ہونے کی بنا پرلوگوں کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ان پر واجب ہے کہ متعلقہ محکموں کو اسکی اطلاع دیں اور اس سلسلہ میں چارہ جوئی کرتے رہیں۔
س 32: کیا منکرات، تناسبی امور میں سے ہیں تا کہ یونیورسٹیوں کے موجودہ ماحول کاان سے فاسد ترماحول سے موازنہ کیا جا سکے اور اس طرح بعض برائیوں کے بارے میں نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا جائے اور ان سے نہ روکا جائے، اس لئے کہ ان کودیگر منکرات کی نسبت حرام اور منکر قرار نہیں دیا جاتا۔
ج: منکرات کے درمیان اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ سب منکر ہیں البتہ ممکن ہے بعض برے افعال کی حرمت دیگر برے افعال کی حرمت سے زیادہ ہو بہرحال جس شخص کیلئے نہی از منکر کے شرائط کا وجود ثابت ہو جائے اس کی یہ شرعی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے اسے ترک کرنا جائز نہیں ہے اور اس سلسلہ میں برے افعال کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور نہ ہی یونیورسٹی کے ماحول اور کسی دوسرے ماحول میں فرق ہے۔
س 33: الکحل والے ایسے مشروبات۔ "جوان غیر ملکی ماہرین کے پاس پائے جاتے ہیں جو اسلامی ممالک کے بعض اداروں میں ملازمت کرتے ہیں اور وہ ان مشروبات کو اپنے گھروں میں یا ان جگہوں پر پیتے ہیں جو ان کی سکونت کے لئے مخصوص ہیں"۔ کا کیا حکم ہے؟ اور اسی طرح ان کے سؤر کا گوشت تیار کرنے اور اسے کھانے کا کیا حکم ہے؟ نیز ان کا عفت اورانسانی اقدار کے خلاف اعمال کے ارتکاب کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور کارخانوں کے ذمہ داروں اور ان کے ساتھ رابطہ رکھنے والوں کا کیا حکم ہے؟ اور اگر متعلقہ ادارے اور کارخانوں کے عہدیدار اطلاع کے بعد بھی اس بارے میں کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ کریں تو ہمیں کیا موقف اختیار کرنا چاہیے؟
ج: ذمہ دار حکام پر واجب ہے کہ ان لوگوں کو کھلے عام شراب خوری اور حرام گوشت کھانے جیسے امور سے منع کریں اور جو امور عفت عامہ کے منافی ہیں انہیں ایسے امور کے انجام دینے کی بالکل اجازت نہیں دینی چاہیے۔ بہر حال متعلقہ حکام کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مناسب چارہ جوئی کریں۔
س 34: بعض برادران امر بالمعروف اور نہی از منکر اوروعظ و نصیحت کرنے کیلئے ایسے مقامات پر جاتے ہیں جہاں ممکن ہے بے پردہ عورتیں ہوں تو چونکہ وہ امر بالمعروف کرنے کیلئے وہاں گئے ہیں کیا ان کیلئے بے پردہ عورتوں کی طرف دیکھناجائز ہے؟
ج: پہلی نگاہ اگر بغیر ارادے کے ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن جان بوجھ کر چہرے اور کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کے علاوہ باقی جسم پر نظر کرنا جائز نہیں ہے، اگر چہ مقصد امر بالمعروف ہی کیوں نہ ہو۔
س 35: ان مؤمن جوانوں کا کیا فریضہ ہے جومخلوط نظام تعلیم والی بعض یونیورسٹیوں میں برے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں؟
ج: ان پر واجب ہے کہ خود کو برائیوں میں ملوث ہونے سے بچاتے ہوئے اگر شرائط موجود ہوں اور وہ قدرت رکھتے ہوں تو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیں۔
- جہاد
س36: امام معصوم کی غیبت کے زمانہ میں ابتدائی جہاد کا حکم کیا ہے؟ اور کیا با اختیار جامع الشرائط فقیہ (ولی فقیہ)کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کا حکم دے؟
ج: بعید نہیں ہے کہ جب مصلحت کا تقاضا ہو تو ولی فقیہ کیلئے جہاد ابتدائی کا حکم دینا جائز ہو بلکہ یہی اقویٰ ہے۔
س37: جب اسلام خطرے میں ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر اسلام کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے؟
ج: اسلام اور مسلمانوں کا دفاع واجب ہے اور یہ والدین کی اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود سزاوار ہے کہ جہاں تک ممکن ہو والدین کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
س38: کیاان اہل کتاب پر جو اسلامی ملکوں میں زندگی بسر کررہے ہیں، کافر ذمی کا حکم جاری ہوگا؟
ج: جب تک وہ اس اسلامی حکومت کے قوانین و احکام کے پابند ہیں کہ جس کی نگرانی میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں، اور امان کے خلاف کوئی کام بھی نہیں کرتے تو ان کا وہی حکم ہے جو معاہَد کا ہے۔
س39: کیا کوئی مسلمان کسی کافر کو خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب سے، مردوں میں سے ہو یا عورتوں میں سے اور چاہے اسلامی ممالک میں ہو یا غیر اسلامی ممالک میں، اپنی ملکیت بنا سکتا ہے؟
ج: یہ کام جائز نہیں ہے، اور جب کفار اسلامی سرزمین پر حملہ کریں اور ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوجائیں تو اسراء کی تقدیر کا فیصلہ حاکم اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور عام مسلمانوں کو ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔
س40: اگر فرض کریں کہ حقیقی اسلام محمدی کی حفاظت ایک محترم النفس شخص کے قتل پر موقوف ہے تو کیا یہ عمل ہمارے لئے جائز ہے؟
ج: نفس محترم کا خون ناحق بہانا شرعی لحاظ سے حرام اور حقیقی اسلام محمدی کے احکام کے خلاف ہے، لہذا یہ بے معنی بات ہے کہ اسلام محمدی کا تحفظ ایک بے گناہ شخص کے قتل پر موقوف ہو، لیکن اگر اس سے مراد یہ ہو کہ انسان جہادفی سبیل اللہ اور اسلام محمدی سے دفاع کیلئے ان حالات میں قیام کرے کہ جن میں اسے اپنے قتل کا بھی احتمال ہو تو اسکی مختلف صورتیں ہیں، لہذا اگر انسان کی اپنی تشخیص یہ ہو کہ مرکز اسلام خطرے میں ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اسلام کا دفاع کرنے کیلئے قیام کرے، اگرچہ اس میں اسے قتل ہوجانے کا خوف ہی کیوں نہ ہو۔