ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کی موجودگی میں مؤثر و اسٹراٹیجک افکار کا تیسرا اجلاس:

رہبر معظم انقلاب اسلامی کی موجودگی میں عورت اور خاندان کے موضوع پر مبنی مؤثراور اسٹراٹیجک افکار کا تیسرا اجلاس

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں  سیکڑوں دانشوروں، ممتاز ماہرین، حوزہ و یونیورسٹی کے اساتذہ، محققین  و علمی آثار کے مؤلفین نے آج رات ( بدھ) اسلامی جمہوریہ ایران کی اسٹراٹیجک افکار کے تیسرے اجلاس میں عورت اور خاندان کے موضوع کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں باہمی جائزہ اور تبادلہ خيال کیا۔

اسٹراٹیجک افکار کے اجلاس کا مقصد ملک کو درپیش مسائل اور اہم و اسٹراٹیجک موضوعات کے متعلق باہمی علمی ، مؤثر آراء و نظریات اور افکار کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا ہے اسٹراٹیجک افکار کے گذشتہ دو اجلاس "اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونے"  اور "عدل و انصاف " کے موضوع کے بارے میں منعقد ہوئےہیں۔

یہ اجلاس 4 گھنٹے تک جاری رہا، اس اجلاس کے دفتر میں 188 تحقیقی مقالات  موصول ہوئے جن  افراد کے تحقیقی مقالات ممتاز اور برتر منتخب ہوئے انھوں نے اس اجلاس میں اپنے خیالات اور نظریات کو پیش کیا۔

 سب سے پہلے تربیت معلم یونیورسٹی کی استاد محترمہ ڈاکٹر نوائی نژاد نے اپنا مقالہ پیش کیا جو خاندان میں مطلوب نمونے اور خطرات کے موضوع پر مبنی تھا جس میں حالیہ چند عشروں میں خاندان میں مثبت اور منفی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گيا ہے۔

یونیورسٹی کی اس استاد نے شادی کے نمونے میں تبدیلی، تحصیلات میں پیشرفت اور عورتوں  کے لئے روزگار کی فراہمی کی وجہ سے بعض جوڑوں کے طرز زندگی میں تبدیلی، شادی کے مقدس ہونے کے بارے میں بعض افراد کی نگاہ میں تبدیلی، زیادہ اولاد رکھنےکے رجحان میں کمی، بعض مردوں میں نفسیاتی اور فیزیکی تشدد اور سیٹلائٹ تبلیغات کو عورت اور خاندان کے موضوع کے سلسلے میں اہم خطرات قراردیا۔

محترمہ ڈآکٹر نوائی نژاد نے خاندان کے مطلوب نمونے کے معیاروں کو بیان کرتے ہوئے محبت و صمیمیت ، لچک  اور خاندان کی سلامت و فکری رشد میں گفتگو اور تعامل پر تاکید کرتے ہوئےکہا کہ معاشرے کی شناخت کے سلسلے میں مطالعات، عینی و ذاتی مشاہدات اور مغربی مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دین و معنویت کا انفرادی ، اجتماعی اور خاندانی نفسیاتی سلامت کے ساتھ گہرا اور قریبی رابطہ موجود ہے اور موجودہ معاشرے میں اس  رابطہ کو مزید مضبوط اور قوی بنانا چاہیے۔

اصفہان یونیورسٹی کے لکچررڈاکٹر بانکی پور فرد نے بھی اپنے خطاب میں مغربی سماج اور اسلامی ایرانی پیشرفت کے نمونے میں خاندان کے تفاوت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اسلامی معاشرے میں خاندان،  سماج کی اصلی اور مرکزی کڑی شمار ہوتی ہے جبکہ مغربی نمونے میں ایسا کچھ نہیں ہے۔

ڈاکٹر بانکی پور فرد نے حالیہ برسوں میں شادی اور طلاق کے اعداد و شمار کی طرف اشارہ کیا اور شادی کی عمر میں اضافہ کے علل و اسباب کا جائزہ لیا انھوں نے توسعہ کے پانچ سالہ منصوبوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: اقتصادی مشکلات، شہر نشینی  میں توسعہ  اور فردی رفاہ پر اساسی توجہ، شادی کرنے میں اصلی رکاوٹیں اور موانع ہیں لیکن ان میں اکثر مشکلات سماجی اور ثقافتی ہیں جن کے بارے میں غور و خوض کرنا چاہیے۔

اس محقق نے اپنی چند تجاویز کے ساتھ اپنا بیان ختم کیا: خاندان کے بارے میں نظام کی پالیسیوں کے ساتھ توسعہ منصوبوں کا منطبق ہونا، شادی آسان بنانے کے سلسلے میں بہترقوانین کو وضع اور انھیں نافذ کرنا، خاندانی تحریک کے لئے قومی عزم  اور خاندانی ارکان کو زندگی کی مہارتوں کی تعلیم و تربیت دینا ، ان کی اہم تجاویز تھیں۔

700 /