ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

صوبہ کرمانشاہ کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ وطلباء سے خطاب:

رہبر معظم انقلاب اسلامی : اسلامی جمہوریہ ایران ، دشمن کی ہر سازش اورتخریب کاری کا دنداں شکن اور منہ توڑ جواب دےگا

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کرمانشاہ کے دورے کے پانچویں دن صوبہ  کرمانشاہ کے اساتذہ ، طلباء اور یونیورسٹیوں کے اہلکاروں کے ایک عظیم الشان اور پرجوش و خروش اجتماع سے خطاب میں  اسلامی نظام کے اصولوں اور اہداف کی دائمی طراوت اور ذاتی شباب ، نظام کی انجینئرنگ میں لچک و انعطاف، تعمیر و ترقی میں بر وقت تبدیلی اور ان اہداف و اصولوں کی پالیسیوں کے محقق ہونے کو اسلامی نظام کی اہم ظرفیتوں میں شمار کیا اور اسلامی جمہوریہ ایران پر دہشت گردی کے حالیہ امریکی بے بنیاد اور جھوٹے الزامات اور اس شوم نقشہ کے پیچھے امریکی مقاصد کی طرف اشارہ کیا اور ایرانی عوام کے دشمنوں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران تخریب کاری پر مبنی ہر قسم کی سازش  کا دنداں شکن اور منہ توڑ جواب دےگا جس سے دشمنوں کو پشیمانی اور شرمندگي کا سامنا کرنا پڑےگا۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صوبہ کرمانشاہ کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے بہت ہی  دلنشیں ، با معنی اور شانداراجتماع میں اپنی موجودگی  پر بہت زيادہ خوشی و مسرت کا اظہار کیا اور اس اجتماع میں جوانوں  کی شاداب و پرطراوت موجودگی کو حکام کے لئےدوچنداں جذبہ اور نشاط کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: ملک کے ماضی، حال اور مستقبل میں جوانوں کا نقش بہت ہی ممتاز اور نمایاں رہا ہے لہذا پڑھے لکھے جوان طلباء سے ملاقات اس لحاظ سے بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس دور کو تلاش و کوشش ،مجاہدت ، استقامت اور پائداری کا دور قراردیا اور اسلامی بیداری ، مصر و تیونس اور علاقہ کے دیگر ممالک میں اسلامی بیداری اور ان ممالک میں کے نظاموں کے بارے میں مختلف نظریات اور آشکارا و پنہاں کشمکش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اس حساس دور میں علاقہ میں جدید اور نئے نظاموں کی تشکیل کی روشنی میں اسلامی جمہوریی نظام کے کلی حالات بہت ہی مفید و مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں اور علاقہ کے حال و مستقبل کے بارے میں  اہم نقش ایفا کرسکتے ہیں لہذا اس صورت حال کے پیش نظر اسلامی نظام کے کلی ڈھانچے پر نظر ثانی کی اہمیت دوچنداں ہوگئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس نظر ثانی کو حقیقت کے پیش نظر اور نظام کی آگاہانہ حرکت کے لئے بھی بہت ضروری اور مفید قراردیتے ہوئے فرمایا: ایسی تحریکیں جن کی حقائق پر توجہ نہیں ہوتی اور جن کی مستقل بعید پر عمیق و گہری نظر نہیں ہوتی ، ایسی تحریکیں اکثر گمراہی اور اشتباہ کا شکار ہوجاتی ہیں لہذا اس زاوایہ نگاہ سےبھی طے شدہ راستے اور موجودہ صورتحال پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کچھ بنیادی سوالوں کے ذریعہ صو بہ کرمانشاہ کے اساتذہ اور طلباء کے سامنے اس بحث کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئےفرمایا: اسلامی نظام کی پیری و جوانی کا مسئلہ کس قدر تجزيہ و تحلیل کے قابل ہے؟ کیا اسلامی نظام کسی دن پیر ،بوڑھا اور فرسودہ ہوجائے گا ؟ کیا اسلامی نظام کی فرسودگي کو روکنے کے لئے کوئي راہ حل موجود ہے؟ اور اگر ایسی صورتحال پیش آجائے تو کیااس کا کوئی علاج موجود ہے؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بیان شدہ سوالات کے بارے میں یونیورسٹی کے اساتذہ، مفکرین، دانشوروں ، حوزات علمیہ ، مشاورتی اورمنصوبہ ساز اداروں کو اس بارے میں غور و فکر کی دعوت دی اور نظام اسلامی کی تشکیل ،حرکت اور استمرار کے مراحل کے منطقی حلقوں اور کڑیوں کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بحث کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب اسلامی یعنی ایسی تحریک جس نے فاسد ، فاسق و فاجر اور ظالم و جابر حکومت کا تختہ الٹ کر اسلامی نظام کی تشکیل کے لئے راستہ ہموار کیا، اسلامی نظام یعنی وہ تشخص  اوروہ ڈھانچہ جو عوام نے ملک کے لئے منتخب کیا، اسلامی حکومت کی تشکیل کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو چلانے کے لئےتمام مدیریتی اداروں کی تاسیس و تشکیل ، اسلامی معاشرے کی تشکیل، اور پھر امت اسلامی کی تشکیل ،یہ سب موارد ایک کڑی کےمختلف حلقے ہیں جو ماضی، حال اور مستقبل کا راستہ مشخص کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کڑی کے تین حلقوں کی طرف اشارہ کیا اور چوتھے مرحلے یعنی اسلامی معاشرے کی تشکیل کو درمیانہ ہدف قراردینے کے ساتھ اسے بہت ہی اہم و اعلی ہدف قراردیا اور اپنے خطاب میں اس سلسلے میں اہم نکات پیش کئے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاسلامی معاشرے کی عمدہ اور عظیم تعریف کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں  اسلام کے عظیم اصول اور اعلی اہداف محقق اور پورے ہوں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی اسلامی معاشرے کی عینی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: عدل و انصاف اور آزادی سے بہرہ مندی، ملک کے انتظامی امور میں عوام کا فعال و مؤثر کردار، اپنی تقدیر کا فیصلہ، قومی عزت و شرف سے بہرہ مندی ،عام فلاح و بہبود، فقر ، غربت اور ناداری کا خاتمہ، تمام علمی ،سیاسی ، معاشی ، سماجی اور ثقافتی شعبوں میں پیشرفت ،پیہم حرکت اور دائمی پیشرفت اسلامی معاشرے کی بارز خصوصیات میں شامل ہیں اور ایرانی قوم اور اسلامی نظام ان کو عملی جامہ پہنانے کی سمت گامزن ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: البتہ اسلامی معاشرے کا نہائی ہدف اللہ  تعالی کی معرفت، بندگي اور معنویت کے کمال تک پہنچنا ہے اور ایسا معاشرہ خود ہی اسلامی امت کی تشکیل کی راہیں ہموار کرسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاسلامی معاشرے کی خصوصیات و مفاہیم اور مغربی معاشرے کے مفاہیم کے درمیان فرق کو واضح کیا اور الفاظ کےمشترکہ مفاہیم کو اخذ کرنے سے دور رہنے پر تاکید کی اور ان مفاہیم کی روشن و واضح حد بندی  کی وضاحت بھی فرمائی  اور اس سلسلے میں کچھ مثالیں ذکر کرتے ہوئے فرمایا: آزادی،عدالت، انسان کی عزت و تکریم اور اسلامی معاشرے کی دوسری خصوصیات صرف اسلامی معانی میں قابل توجہ ہیں اور ان کے مغربی ممالک میں پائے جانے والے مفاہیم میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی معاشرے کے مفاہیم سے مغربی مفاہیم اخذ کرنے کو دور و نزدیک کےسالوں کی عمدہ مشکلات قراردیتے ہوئے فرمایا: ان مفاہیم کی کسی بھی زاویہ نگاہ سے قدر و قیمت سمجھنے کے لئے مغرب کے منحرف اورگمراہ نقطہ نظر کی پیروی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان الفاظ کے حقیقی معنی کے ادراک کے لئے اسلام اور قرآن مجیدسے استفادہ اور اسلامی تعلیمات کا سہارا لینا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں  فرمایا: البتہ مغربی حکام ان الفاظ کے مغربی معانی پر بھی عمل نہیں کرتے ہیں جیسا کہ انھوں نے افغانستان، عراق ، لیبیا اور دیگر ممالک میں اس بات کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے کیونکہ مغربی طاقتیں صرف جمہوریت، ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ، دہشت گردی سے مقابلہ کا شور مچاتی ہیں عمل نہیں کرتی ہیں ان کےدیگر شیطانی اہداف بھی ہوتے ہیں جیسے دنیا کے اہم اقتصادی اور  فوجی اہمیت کے مقامات پر قبضہ کرنا، قوموں کے قدرتی وسائل اور ذخائر پر تسلط جمانا، صہیونی حکومت کی حمایت کرنا، اور سامراجی زنجیر کو مضبوط و مستحکم  بنانا  سامراجی طاقتوں کے شوم اہداف میں شامل ہے۔ لہذا ہم انہی حقائق کی روشنی میں یقین کے ساتھ مغربی ممالک کی جمہوریت و ڈیموکریسی کو جھوٹ اور فریب کا پلندہ سمجھتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی معاشرے کی خصوصیات اور اس کے اصولوں کی تشریح کی اور اس کے لئے اللہ تعالی نے جو ہدف مختص کیا ہے اس کی وضاحت کرنے کے بعد یہ سوال پیش کیا کہ کیا ان خصوصیات و شرائط کا حامل معاشرہ بوڑھا اورپیر ہوجائے گا؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انصاف پسندی، حریت پسندی اور کمال کی تلاش جیسے اصولوں کے فطری ہونے اور اس سلسلے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: یہ اصول فطری اور الہی اصول ہیں،اور اسی وجہ سے یہ ذاتی طور پر پرانے اور کہنہ نہیں ہوسکتے اور یہ ہمیشہ شاداب اور تر و تازہ ہی رہتے ہیں لہذا جو معاشرہ ان زندہ اہداف کی جانب حرکت کرےگا وہ کبھی بھی کہنہ اور فرسودہ نہیں ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اصولوں اور اصولوں کے قوانین و دائرہ کار میں فرق و تفکیک  اور اس حقیقت کی تشریح فرمائی کہ حالات و شرائط کی دگرگونی کے پیش نظر ممکن ہے کہ ان نظاموں کےقوانین و پالیسیوں  میں تبدیلی لائی جائے  جو اسلامی معاشرے کی ایجاد کے لئے بنائے گئے ہیں اور اگر وہ کہنہ اور فرسودہ ہوجائیں اور اپنی افادیت کو کھو دیں تو اس صورت میں انھیں جدیدقالب میں ڈالنے اور ان میں تبدیلی لانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس نکتہ یعنی اصولوں تک پہنچنے کے لئے قوانین میں تغییر و تحول کی مزید وضاحت فرمائی ، اور اس  سلسلے میں چند مثالیں منجملہ بنیادی آئین کی دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بنیادی آئین میں  مختلف اقتصادی و معاشی شعبوں میں فعالیت کی تقسیم بندی کا مقصد ملک کے اقتصادی و معاشی شعبوں میں فروغ دینا ہے اور جب یہ ہدف ماضی کے قوانین کی روشنی میں محقق نہیں ہوا تو دفعہ 44 کی پالیسیوں کو مرتب کیا گيا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام (رہ) کے حکم کے مطابق قوہ مجریہ سے وزارت عظمی کا منصب حذف کرنے کو اصولوں تک پہنچنے کے لئے قوانین میں تبدیلی کا ایک اور نمونہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا: موجودہ شرائط میں ملک کا سیاسی نظام صدارتی ہے اور صدر کو عوام براہ راست منتخب کرتے ہیں اور یہ طریقہ کار عمدہ اور مؤثر ہے لیکن اگر مستقبل بعید میں یہ محسوس ہو کہ  پارلیمانی نظام صدر کے انتخاب کے لئے بہتر اور موزوں نظام ہے تو موجودہ آئین و قوانین کی تبدیلی میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آئین و قوانین میں تجدید نظر کے سلسلے میں نظام کی ظرفیت و انعطاف پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: البتہ ائين و قوانین میں ہر قسم کی تبدیلی و تجدید نظر اسلامی اصولوں کی روشنی میں اور اسلامی تعلیمات پر مبنی ہونی چاہیے اور بنیادی آئین میں بھی اس سلسلے میں اہم تدابیر کو مد نظر رکھا گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حصہ میں اپنی بحث کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام میں ثبات بھی ہے اور تغییر وتبدیلی بھی ۔ انحراف و تذبذب کے بغیر اصولوں کے تحقق کے راستے میں مستمر حرکت میں ثبات، اور اصولوں تک پہنچنے کے قواعد و ضوابط میں اور شکل و صورت میں تغییر و تحول۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: نظام کی نئی ساخت اصولوں میں تجدید نظر کرنے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ پالیسیوں ، نظام اور تدابیر میں تغییر و تبدیلی کے معنی میں ہے اور اس مسئلہ سے رجعت پسندی کو بھی روکا جاسکتا ہے ، اسلامی نظام ،اسلام کے جوان و شاداب اصولوں پر تکیہ کرتے ہوئے ہمیشہ جوان ، شاداب اور آگے کی سمت رواں دواں رہےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک اور حصہ میں اسلامی نظام میں ولایت فقیہ اور رہبری کے حقیقی مفہوم کی تشریح کی اور حضرت امام (رہ) کے نقطہ نگاہ سے ولایت فقیہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) کی نگاہ میں ولایت فقیہ یعنی زندہ و بالندہ اور جامع مدیریت البتہ امام خود اس مدیریت کا کامل اور جامع نمونہ تھے۔

700 /