رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج سہ پہر کو تاجیکستان ، افغانستان اوراسلامی جمہوریہ ایران کے صدور سے ملاقات میں تینوں ممالک کے درمیان کثیر اور فراواں مشترکہ شرائط کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران، تاجیکستان اور افغانستان قرابتدار ممالک ہیں اور تینوں ممالک کے باہمی مفادات کا تعلق بہت ہی قریبی تعاون اور باہمی معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے پر منحصر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: افغانستان اور تاجیکستان کی تعمیر ، ترقی اور خوشحالی ایران کے فائدے میں ہے اور ایران کی سلامتی بھی علاقائی ممالک کے لئے مفید اور مؤثر ثابت ہوگي۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت اور ترقی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران سائنس و ٹیکنالوجی کےمختلف شعبوں میں اپنے تجربات افغانستان اور تاجیکستان کو فراہم کرنے کے لئے بالکل آمادہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آپسی تعلقات اور تعاون میں باہمی مشترکات پر توجہ مبذول کرنے پر تاکید کرتے ہوئےفرمایا: دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران ، تاجیکستان اور افغانستان جیسے ممالک نہیں ہیں جن کے اندر زبان کے لحاظ سے، ثقافت کے لحاظ سے، دین کے لحاظ، پڑوسی ہونے کے اعتبار سےاور تاریخی لحاظ سےاتنے زیادہ اشتراکات پائے جاتے ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے متعدد شعبوں میں باہمی تعاون کی اہمیت اور اسے مزید مضبوط و مستحکم بنانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تہران اجلاس میں آج ہونے والے معاہدوں کو جلد از جلد اور سرعت کے ساتھ عملی جامہ پہنانا چاہیے تاکہ اس کے اثرات اور نتائج اگلے اجلاس تک آشکار و نمایاں ہوجائیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےتاکید کرتے ہوئے فرمایا: تینوں ممالک کے باہمی تعلقات اورمعاہدوں کے کچھ مخالفین بھی ہیں جو تینوں ممالک کے باہمی روابط اور تعاون میں خلل ایجاد کرنے کی تلاش و کوشش کررہے ہیں لیکن ان مخالفین کا ہوشیاری اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے افغانستان میں موجود غیر ملکی فوجیوں کی وجہ سے افغانستان کے عوام پر ہونے والے مظالم ومصائب پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: غیر ملکی طاقتوں نے افغانستان میں جمہوریت اور امن و سلامتی برقرار کرنے کے لئے فوجی یلغار کی ، لیکن اب وہ عام افغانی شہریوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا رہی ہیں اور افغانستان میں ان کی موجودگی کا نتیجہ افغانی عوام کے لئے شر، فساد اور رنج و غم کے سوا کچھ نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے افغانستان پر حملے اور ایران پر دباؤ کے سلسلے میں عالمی طاقتوں کے استدلال کو مکر وفریب اورجھوٹ پر مبنی قراردیتے ہوئے فرمایا: سامراجی طاقتیں علاقہ میں اپنے نامحدود مفادات کے پیچھے ہیں لیکن علاقہ کے موجودہ شرائط اور اسی طرح سامراجی طاقتوں کی توانائی میں ماضی کی نسبت بہت زيادہ فرق پیدا ہوگیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: موجودہ امریکہ اور بیس سال پہلے والے امریکہ میں بہت زيادہ فرق پڑ گيا ہےکیونکہ مختلف مسائل منجملہ اسلامی بیداری نے ان طاقتوں کی توانائی کو بالکل محدود کردیا ہے۔
اس ملاقات میں تاجیکستان کے صدر امام علی رحمان نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کا شکریہ ادا کیا اور تہران میں منعقد ہونے والے آج کے اجلاس کوتاریخی قراردیتے ہوئے کہا: جناب عالی نے تینوں ممالک میں قرابتداری کی تعبیر کا بجا اور مناست استعمال کیا ہے اور امید ہے کہ تہران اجلاس میں ہونے والے معاہدوں کو عملی جامہ پہنانےکے ساتھ باہمی تعاون کو زیادہ سے زیادہ فروغ ملےگا۔
اس ملاقات میں افغانستان کے صدر حامد کرزائی نے بھی رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہم تہران اجلاس سے راضی اور خوشحال ہیں اور امید ہے کہ باہمی معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کے ساتھ تینوں ممالک کے باہمی روابط مزید مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔