ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظّم انقلاب اسلامی :

سیاسی میدان میں غفلت برتنے کا نتیجہ کبھی کبھی خیانت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے

رہبر معظّم انقلاب اسلامی نے آج صبح ، تہران یونیورسٹی اور اس کی مختلف فیکلٹیوں کے سینکڑوں اساتذہ ، علمی کمیٹیوں کے اراکین اور دیگر عھدیداروں کے ایک اجتماع سے اپنے خطاب میں علم و دانش کو ایران کی ترقی و اقتدار کی اصلی بنیاد اور تکیہ گاہ قراردیا اور اس بات پر زور دیا : کہ ہمیں اس علمی سفر (جس کاآغاز ہو چکا ہے ) کو پوری توانائی اور سرعت کے ساتھ جاری رکھنا چاہئیے ۔

 

 

تہران یونیورسٹی کے بعض اساتذہ ، عھدیداروں اور علمی کمیٹیوں کے اراکین کی رہبر معظّم انقلاب اسلامی سے ملاقات (۰۲ / ۰۲ / ۲۰۱۰)

رہبر معظّم انقلاب اسلامی نے آج صبح ، تہران یونیورسٹی اور اس کی مختلف فیکلٹیوں کے سینکڑوں اساتذہ ، علمی کمیٹیوں کے اراکین اور دیگر عھدیداروں کے ایک اجتماع سے اپنے خطاب میں علم و دانش کو ایران کی ترقی و اقتدار کی اصلی بنیاد اور تکیہ گاہ قراردیا اور اس بات پر زور دیا : کہ ہمیں اس علمی سفر (جس کاآغاز ہو چکا ہے ) کو پوری توانائی اور سرعت کے ساتھ جاری رکھنا چاہئیے ۔

موصوف نے ایرانی قوم اور یونیورسٹی سے وابستہ افراد کو عشرہ فجر کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا :  اسلام اور قرآنی تعلیمات کی رو سے اسلامی جمہوریہ ایران پر عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنے اور ملک کی تعمیر و ترقّی کے علاوہ ، عالم انسانیت کے سلسلے میں بھی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے جس کی ادائیگی ، ایک حقیقی اقتدار کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالم انسانیت کے تئیں اسلامی جمہوریہ ایران کی ذمّہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے  جارحیت اور کشور گشائی کے تصوّر کو بھی ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے فرمایا: وہ اقتدار جو انسانی معاشرے کی مشکلات کے حل میں مؤثر اور معاون ثابت ہوتا ہے وہ ، فوجی ساز و سامان اور پیداواری صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی کے حصول سے معرکہ وجود میں نہیں آتا بلکہ ایسا اقتدار " علم و ایمان " کی بنیاد وں  پر استوار ہو تا ہے ۔

حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے گزشتہ تین عشروں میں ملک کی اہم علمی اور سائینسی کامیابیوں کو " آزادی اور آزادانہ فکر " کا نتیجہ قرار دیا اور اس بات کی طر ف توجّہ دلائی : کہ اگر طاغوتی حکومت باقی رہتی تو خواہ کتنا ہی عرصہ گزر جاتا مگر یہ کامیابیاں نصیب نہ ہوتیں ۔ چونکہ دوسروں سے وابستہ ، اغیار کی سیاسی پالیسیوں کے زیر تسلّط ،  آمراور مطلق العنان حکومتوں میں سائینس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقّی ممکن نہیں ہوتی ہے ۔

رہبر معظّم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا : گزشتہ تین عشروں کی سائینسی کامیابیاں ، رضایت بخش نہیں ہیں اور ہم آج بھی ترقّی یافتہ ممالک کے سائینسی قافلے سے بہت پیچھے ہیں ، اس فاصلے کو کم کرنے کے لئیے ، ہمارے دانشوروں ، سائینسدانوں ، ممتاز شخصیات اور طلباء کی انتھک محنت اور کوشش  درکار ہے ۔

رہبر معظّم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی کے ماحول خاص طور پر تہران یونیورسٹی سے اپنی گہری دلچسپی اور دیرینہ رابطے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ، ملک کی تعمیر و ترقّی کی رفتار میں تیزی لانے میں اس یونیورسٹی کے کردار کو  مثالی اور انتہائی اہم قرار دیا اور فرمایا : پچاس سالہ منصوبہ بندی کے ذریعہ ، وطن عزیز کو علمی اعتبار سے دنیا کا صف اول کا ملک بنایا جا سکتا ہے اور ملک کو اغیار کی علمی اجارہ داری سے آزاد کرنے کے علاوہ انسانی علوم کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔

حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے ،  ایرانی قوم  اور عالم انسانیت کی سعادت و خوشبختی، عالم انسانیت کی تاریخی اور دیرینہ آرزو یعنی عدل و انصاف کے قیام کو اسلام اور اسلامی جمہوریہ ایران کا سب سے بڑا مقصد قرار دیا اور فرمایا : علم و دانش کو پاکیزہ ، شرافت مندی اور معنوی نظر سے دیکھا جانا چاہئیے لیکن آج کی دنیا میں ، علم و دانش ، ناانصافی اور تسلّط پسند طاقتوں کی خدمت کے لئیے استعمال ہو رہا ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جدید، مسلح اور نا قابل اعتراض نا انصافی کو عصر حاضر کی ایک حقیقت قرار دیا اور اس اصطلاح کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: وسیع اور جدید ٹکنالوجی جیسے مواصلاتی ذرائع پر استوار پروپیگنڈہ اور بلا وقفہ سازشیں جو اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہو رہی ہیں، جدید اور مسلح نا انصافی کے نمونے ہیں جو آج کی دنیا میں سائنس و ٹکنالوجی کے سہارے انجام دی جا رہی ہے اور اس نا انصافی پر اعتراض کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کو حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

رہبر معظم  انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کی دوسری اہم ترجیح کے طور پر ثقافت کی جانب اشارہ کیا اور علم و دانش کی بے پناہ اہمیت پر روشنی ڈالنے کے بعد اس موضوع پر گفتگو فرمائی۔
رہبر معظّم انقلاب اسلامی نے طلبا کی ثقافتی تربیت کو انتہائی ظریف اور بے حد توجہ طلب مسئلہ قرار دیا اور اس کے لئے نصابی کتب کی تدوین، اساتذہ کے انتخاب اور طلبا سے متعلق دیگر امور کی صحیح منصوبہ بندی کو لازمی قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: ثقافت کی اہمیت کا ادراک اور اس پر صحیح انداز میں عمل آوری، فرمان، حکمنامے، پرچار اور بینروں کے ذریعے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اندرونی جوش و جذبے اور نوجوان نسل کی تقدیر اور ملک کے مستقبل سے گہری انسیت کی ضرورت ہے۔

رہبر معظّم انقلاب اسلامی نے علم و دانش کے سلسلے میں صحیح اور منطقی نقطہ نظر کی ترویج کو یونیورسٹیوں کے اہم ثقافتی فرائض کا جز قرار دیا اور اسے علم و تحقیق اور تعلیم و تعلم کے میدان میں طلبا اور اساتذہ کی بلا وقفہ مساعی اور جوش و خروش کا موجب قرار دیا اور فرمایا: با استعداد نوجوان طالب علم کو ظریف ثقافتی اقدامات کے ذریعے علم و دانش اور تحقیق و مطالعے کا خوگر، صابر، اجتماعی منصوبوں کے لئے مناسب، محنتی و فرض شناس، با انصاف، جذبات پر عقل کو ترجیح دینے والا اور دیندار نوجوان بنایا جا سکتا ہے اور اس طرح ضروری قومی صفات کو عام کیا جا سکتا ہے۔
آپ نے یونیورسٹی کے حلقے کو دین اور دینی معارف سے دور رکھنے کو استبدادی شاہی دور کا بہت بڑا گناہ قرار دیا اور فرمایا: نوجوان طلباء کے قلب و روح میں دینی معرفتوں کی جایگزینی
 معاشرے اور ملک کی خوشبختی و بصیرت کی ضمانت ہے اور ان امور کے ذمہ دار یونیورسٹی کے انتظامی عہدہ دار اور حکام ہیں۔
تہران یونیورسٹی کے اساتذہ اور انتظامی عہدہ داروں کے اجتماع سے اپنے خطاب میں رہبر معظّم انقلاب اسلامی نے "سیاست اور یونیورسٹی" کے موضوع پر بھی بصیرت افروز گفتگو فرمائی۔ آپ نے یونیورسٹیوں میں سیاسی شعور اور جوش و جذبے کی ضرورت پر اپنے یقین کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر یونیورسٹی پوری طرح سیاست سے الگ ہو جائے تو جوش و جذبے سے عاری اور فکر و طرز عمل کو متاثر کرنے والے خطرناک جراثیم کی نشو نما کا مقام بن جائے گی تاہم یونیورسٹیوں میں سیاست کی ضرورت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علمی مراکز سیاسی حلقوں اور عناصر کی رہائش گاہ بن جائیں۔
رہبر معظّم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کو سیاسی حلقوں کے ہاتھوں غلط طریقے سے استعمال ہونے سے بچانے کے لئے متعلقہ حکام کی موثر کارکردگی اور انتظامی اقدامات کو ضروری قرار دیا اور فرمایا: اس انتہائی اہم امر سے غفلت ،یونیورسٹیوں اور علمی مراکز کی سیاسی فضا کے دشمنوں کا تختہ مشق بن جانے پر منتج ہوگی۔
رہبر معظّم انقلاب اسلامی نے شیطان اور شیطان صفت عناصر کے مکر و حیلے سے ایک لمحے کے لئے بھی غفلت نہ برتنے پر قرآن کی خصوصی اور مکرر تاکید کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میری نظر حسن ظن پر مبنی ہے اور اسی بنا پر میرا ماننا ہے کہ گزشتہ مہینوں میں پیش آنے والے بعض تلخ واقعات بعض افراد کی بڑی غفلتوں کے نتیجے مین رونما ہوئے ہیں اور یہ خیال رہنا چاہئے کہ سیاست کے میدان میں غفلت اور غیر عمدی اقدامات بھی کبھی کبھی خیانت والے نتائج کا سبب بنتے ہیں۔
رہبر معظّم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران یونیورسٹی کے چانسلر اور اساتذہ کی جانب سے آپ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دئے جانے کی تجویز پر اظہار تشکر کیا اور فرمایا: یونیورسٹی والوں کا یہ اظہار محبت اور یہ موضوع، حقیر کے لئے باعث فخر ہے لیکن میں اس (اعزازی ڈگری) کو قبول کرنے سے معذور ہوں، اگر اللہ تعالی کی عنایت رہی تو طالب علمانہ عہد و میثاق کا پابند اور اس پر عمل پیرا رہوں گا۔
رہبر معظّم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل وزیر تعلیم ڈاکٹر دانشجو نے اسلامی انقلاب کی اکتیس سالہ عمر کے مختلف مراحل میں طلبا اور یونیورسٹی کے حلقوں کی موثر اور فعال موجودگی اور شراکت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب تک کی منصوبہ بندی کے مطابق ملک بھر کی یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد انقلاب کے مزید اہداف اور مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی علمی و تحقیقاتی سرگرمیوں کو مزید سرعت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔
اس کے بعد تہران یونیورسٹی کے چانسلر نے اس یونیورسٹی کے قیام کی پچہترویں سالگرہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تہران یونیورسٹی، تینتالیس فیکلٹیوں کے ساتھ پانچ سو چورانوے علمی موضوعات کے سلسلے میں سرگرم عمل ہے اور اس کی علمی سرگرمیوں کی وسعت اور کیفیت اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر فرہاد رہبر نے کہا کہ انقلاب سے قبل تہران یونیورسٹی کی چوالیس سالہ کارکردگی کے دوران یونیورسٹی کے کل دو لاکھ طلبہ میں محض چودہ فیصدی نے کسب علم کیا جبکہ چھیاسی فیصدی طلبہ وہ ہیں جنہوں نے انقلاب آنے کے بعد اس یونیورسٹی سے کسب علم کیا۔
تہران یونیورسٹی کے چانسلر نے کہا کہ دنیا کے معتبر جرائد میں شائع ہونے والے اس یونیورسٹی کے اساتذہ کے کل بارہ ہزار نو سو ساٹھ مقالوں میں سے محض ایک سو چھتیس مقالے انقلاب سے قبل کے دور سے متعلق ہیں جبکہ بقیہ تحقیقی مقالے انقلاب کے بعد کے دور سے متعلق ہیں اور اس وقت تہران یونیورسٹی عالمی درجہ بندی میں ایک سو سترہ زینے اوپر پہنچ کر دنیا کی بہترین پانچ سو یونیورسٹیوں میں شامل ہو گئي ہے۔
ڈاکٹر فرہاد رہبر نے مختلف ممالک میں یونیورسٹی کے شعبے کی سرگرمیوں کے عمل پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے گزشتہ تین عشروں کے دوران مختلف علمی و سائنسی شعبوں میں ملک کے ارتقاء کے معیاروں کو بیان کیا اور بتایا کہ دنیا میں نئی ایجادات میں گزشتہ پندرہ برسوں میں ایران کی شراکت میں پچہتر گنا کا اضافہ ہوا ہے اور اب یہ شراکت ایک فیصدی سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تہران یونیورسٹی کے چانسلر نے ایٹمی سائنسداں پروفیسر علی محمدی شہید کے قتل کے واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سائنسی و تعلیمی عمل میں رخنہ اندازی کی دشمنوں کی کوششیں طلبا اور یونیورسٹی سے وابستہ افراد کی بیداری و بصیرت کے نتیجے میں ناکام رہیں گی۔

شعبہ کمسٹری سے وابستہ ، ڈاکٹر صبوری نے عالمی سطح پر علم کی تولید اور اسے ملکی ضرورتوں کے مطابق بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا : دنیا کے اہم علمی مراکز و محافل میں ہمارے دانشوروں اور طلباء کی فعّال و سرگرم شرکت ، ہماری علمی خود اعتمادی کا مظہر ہے ، اس سلسلے کو مزید استحکام بخشنا چاہئیے ۔

ڈاکٹر صبوری نے علوم انسانی میں فعّال اور سرگرم شرکت کے لئیے ، ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے قیام کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا : یونیورسٹی کی تحقیقات کو صحیح سمت و سو دینے کے لئیے منصوبہ بندی ، ایران اور بیرون ملک بسنے والے ایرانی سائنسدانوں، اور دانشورں کو احترام کی نگاہ سے دیکھنا ، علمی فضا پر کنٹرول حاصل کرنا ،یونیورسٹی کے ماحول کو سیاست سے دور رکھنا ، دانشوروں کا جذبہ عشق و ایثار ، زیادہ بجٹ اور وسائل ، ملک کی علمی  ترقّی کے اصلی اور بنیادی عوامل ہیں ۔

 اس ملاقات میں ، ڈاکٹر سعید عامل نے یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے درمیان تعاون اور میل جول پر زور دیتے ہوئے کہا : کہ مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کے درمیان تعاون اور گروہی کام کا جذبہ ، علمی ترقّی و پیشرفت میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ موصوف نے مواصلاتی ٹیکنالوجی کے میدان میں روز افزوں ترقّی اور پیشرفت اور اس کے تنوع اور نفوذ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا : ملک کی مجازی فضا یعنی اینٹر نیٹ کے لئیے بھی جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تا کہ ایک سالم ، سستی اور آسان زندگی کے لئیے اس سے استفادہ کیا جاسکے ۔

           اس ملاقات میں ڈاکٹر محمد حسین امید نے گزشتہ عشرے کے دوران ، مختلف موضوعات کو ڈاکٹریٹ اور اس سے نیچے کی ڈگری کے سبجیکٹوں میں شامل کیے جانے اور ان کی تعداد اور کیفیت میں  نمایاں اضافے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : شعبہ زراعت ، ملک کی ہمہ گیر ترقّی کا محور قرار پا سکتا ہے لیکن فی الحال اس کے لئیے پالیسی اور لائحہ عمل تیار نہیں ہوا ہے ۔

یونیورسٹی کے اس استاد نے مزید کہا : تہران یونیورسٹی اپنی بہترین صلاحیتوں کی بنا پر اس سلسلے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کو تیار ہے ۔

ماہرنفسیات ڈاکٹر غلام علی افروز نے اس ملاقات میں مجازی فضا اور سافٹ وئیر یلغار کے مضمرات کو آج کے معاشرے کی ایک ناقابل تردید حقیقت قرار دیا اور کہا : ملک کے حکام کو محض اجرائی کام انجام دینے کے بجائے ، تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ ، دانشوروں ، ممتاز شخصیات سے تبادلہ خیال کرنا چاہئیے تا کہ جوانوں کی مدبرانہ ، مدیریت کو ممکن بنایا جاسکے ۔

700 /