ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی:

قوانین منظور کرنے میں اسلامی اصولوں اور انقلابی معیاروں کو مدنظر رکھنا چاہیے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پارلیمنٹ کے سربراہ ، پارلیمنٹ کی سربراہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کے نمائندوں سے ملاقات میں قوانین کو اور معاشرے کی اصلی ضرورت اوراسلامی اصولوں اور معیاروں کے مطابق وضع کرنے پر تاکیدکرتے ہوئے فرمایا: قوانین منظور کرنے میں ان کے تربیتی اور ثقافتی اثرات پر سنجیدہ طورتوجہ رکھنی چاہیے۔

رہبر معظم نے مجلس شورای اسلامی کو ملک کی فکری قوہ قراردیتے ہوئے فرمایا: یہ قوہ، قانونی لباس کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر یہ قانون پورے ملک میں جاری و ساری ہوتا ہے لہذا ان قوانین کے منظور کرنے میں ایک طرف اسلامی اقدار اور انقلابی اصولوں پر توجہ رکھنی چاہیے اور دوسری طرف عوام کو درپیش فوری اور طویل المدت مسائل کو برطرف کرنے پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم نے فرمایا: اگر ملک کے قوانین میں ان دو خصوصیات کو مد نظر رکھاجائے تو یہ قوانین صحیح اور درست ہونے کے علاوہ مؤثر بھی ثابت ہوں گے۔

رہبر معظم نے اس موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اگر قوانین ، انقلاب اسلامی کے اصولوں سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو ان کی حقیقت واہمیت ختم ہوجائے گی اور اگر عوام کی ضرورتوں کے مطابق نہ ہوں تو ان کی مقبولیت نہیں رہےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی اصولوں کو ہمیشہ مدنظر رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: امام خمینی(رہ) ایک بزرگ ،آگاہ اور دانا انسان تھے اور ان کی فرمائشات کا مجموعہ اور ان کا وصیتنامہ انقلاب کے اصول اور اساس ہیں اور قوانین کی منظوری اور تمام اقدامات میں ہمیشہ اس بنیاد پر استوار ہونا چاہیے۔

رہبر معظم نے فرمایا: قوانین منظور کرنے کے موقع پر دینی قدروں، تربیتی امور اور قانونمندی پر بھی خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم نے پارلیمنٹ کے نمائندوں کو مخالف کی بات سننے اور اپنے اندر برداشت و تحمل کےجذبہ کو فروغ دینے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ میں اظہارات کو علمی ، استدلالی ، اخلاقی اور صحیح و سالم بنیاد پر استوار ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ میں ذاتی اور حزبی زورآزمائی اور ہٹ دھرمی سے پرہیز کرنا چاہیے ۔

رہبر معظم نے ملکی نظام چلانے کے لئے پارلیمنٹ اور حکومت کی ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ کو حکومت کے ساتھ تعاون کی روح کو فروغ دینا چاہیے کیونکہ حکومت میدان میں ہے اور ملک کے سنگين اجرائی مسائل اس کے دوش پر عائد ہیں۔

رہبر معظم نے اجرائی امور کےبہت سخت اور دشوار ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: اس سخت اوردشوار منزل میں حکومت کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کے بجائے اس کی مدد کرنی چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت کی غلطیوں پر چشم پوشی کی جائے بلکہ اس کے ساتھ دوستانہ اور مہر ومحبت کے ساتھ کام کیا جائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کےبعض گذشتہ ادوار میں بحرانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام بحرانوں کو نہ پسند کرتے ہیں اور نہ ہی اچھا سمجھتےہیں کیونکہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ عوام کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ حکام باہمی تعاون اور مدد کے ذریعہ ملک کو درپیش مشکلات کا حل تلاش کریں۔

رہبر معظم نے قوانین وضع کرنے میں پورےملک کی مصلحت کو مد نظر رکھنے پر دوبارہ تاکید کرتے ہوئے فرمایا: محترم نمائندوں کو ملک کی مصلحت کے اندر ہی علاقائی مصلحت کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

رہبر معظم نے اپنی تقریر میں ملک میں قانون پر عمل کرنے کی ثقافت کو فروغ دینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: میں نےحالیہ صدارتی انتخابات سے متعلق مسائل کے بارے میں قانون کے مطابق عمل کرنے کی تاکید کی اور تاکید کرتا ہوں اور یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی نظام و ایرانی عوام کسی قیمت پردباؤ کو قبول نہیں کریں گے۔

رہبر معظم نے ڈکٹیٹری کو قانون پر عمل اور تسلیم کے مدمقابل نقطہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر قانون کو تسلیم اور اس پر عمل نہ کیا جائے تو پھر ڈکٹیٹری کی روح کو فروغ ملےگا۔

رہبر معظم نے فرمایا: قانون کو ملک کے تمام امور میں فصل الخطاب ہونا چاہیے تاکہ عوامی زندگی اور معاشرے کا نظام صحیح سمت رواں دواں رہے۔

رہبر معظم نے لاقانونیت کو عوامی مفادات اور مصلحتوں کو پامال کرنے کا سبب قراردیتے ہوئے فرمایا: قانون کی عدم مراعات ، کاموں کو گرہ لگانے کا موجب بنےگی لہذا سب کو قانون کا احترام کرنا چاہیے۔

رہبر معظم نے فرمایا: قانون پر عمل کرنے کی ثقافت کا رواج ممتاز شخصیات سے معاشرے تک پہنچنا چاہیے کیونکہ اگری بڑی شخصیات قانون پر عمل نہیں کریں گی تو پھر عوام سے قانون پر عمل کرنے کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔

رہبر معظم نے ملک کےحالیہ مسائل کے بارے میں پارلیمنٹ کے مؤقف اور نمائندوں کے خط کی قدر کرتے ہوئے فرمایا: ایسے شرائط میں جبکہ دشمن موقع اور ضعف تلاش کرنے کی کوشش میں ہے پارلیمنٹ کے اعلان میں اتحاد و یکجہتی اور ایک آواز، بہت ہی اچھا اور اہم کام ہے ۔

رہبر معظم نے آٹھویں پارلیمنٹ کی معرفت اور مہارت کی تعریف وتجلیل کی اور نمائندوں کو اجرائی امور میں اخلاقی مواعظ اور معنوی مواقع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ماہ رجب کے فیوض و برکات اور پھر شعبان اور رمضان المبارک کے مہینوں کے قیمتی لمحات سے ، غفلتوں کو دور کرنے ،ایمان کو قوت پہنچانے ، نیک عمل کرنے اور قرب خدا تک پہنچنے کے سلسلے میں بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔

اس ملاقات کے آغاز میں پارلیمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر لاریجانی نے قوانین کے اجراء و نفاذ پر پارلیمنٹ کی نگرانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آٹھویں پارلیمنٹ، نظام کی کلی پالیسیوں ، بلند مدت اہداف بالخصوص دفعہ 44 کی پالیسیوں کے دائرے میں کام کررہی ہے۔

لاریجانی نے تجارت ، اسلامی مجازات، سبسیڈی کو بامقصد بنانے ، ماحولیاتی سلامتی اورکاروباری قوانین کی منظوری یا پارلیمنٹ میں ان کی منظوری کے اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آٹھویں پارلیمنٹ میں اقتصادی اورمعاشی مسائل کے علاوہ امتحانی، زراعتی ، صنعتی اور خشکسالی جیسے مسائل پربھی خاص توجہ دی گئی ہے۔

پارلیمنٹ کے اسپیکر نے بین الاقوامی اور علاقائی حوادث پر خاص توجہ کو آٹھویں پارلیمنٹ کی ایک اہم خصوصیت قراردیتے ہوئے کہا: فلسطین کانفرنس کا انعقاد، ایٹمی مسائل میں منہ زور طاقتوں کے مد مقابل استقامت ، عراق اور ملک کے حالیہ مسائل کے متعلق مؤقف ،علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پارلیمنٹ کے بعض اہم اقدامات ہیں۔

پارلیمنٹ کے اسپیکر نے صدارتی انتخابات کے بعد ملک کو درپیش سمائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: پارلیمنٹ کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ حالیہ مسائل کا حل قانون کے ذریعہ ممکن ہے اور پارلیمنٹ کے نمائندے غیر قانونی رفتار کا مقابلہ کریں گے۔

لاریجانی نے کہا : کسی کو بھی قانون سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ملک کے حالیہ مسائل بھی صرف شورائے نگہبان کی نظر کے مطابق ہی حل ہونگے اور تمام افراد کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قانون پر عمل ہر دور میں لازمی اور ضروری ہے۔

700 /