رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج مجمع تشخیص مصلحت نظام کے سربراہ اور اراکین سے ملاقات میں مجمع کی تشکیل اور بنیادی آئین میں اس کو مد نظر رکھنا امام خمینی(رہ) کا یادگار کارنامہ اور بہترین حکمت عملی قراردیتے ہوئے فرمایا: مجمع تشخیص مصلحت نظام ایک اہم ، عظیم اور فیصلہ کن ادارہ ہے جو اہم مقام کا حامل ہے جس میں مختلف رجحانات رکھنے والی زبدہ اور عظیم شخصیتیں موجود ہیں، اس کی ذمہ داری مشورت اور اسلامی اقدار اور اسلامی نظام کے دائرے میں رہ کرتشخیص مصلحت اور تینوں قوا اور حکومتی اداروں کو زیادہ سے زیادہ سرگرم اور فعال بنانا ہے۔
رہبر معظم نے مجمع تشخیص مصلحت نظام کے اراکین بالخصوص مجمع کے سربراہ آقای ہاشمی رفسنجانی کی زحمات اور کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا: ترقی اور پیشرفت و تحرک کا معنی یہ ہے کہ پہلے دور سے نیا دور برتر ہو اور نئے دور میں امور کی تصحیح و تکمیل اور جدید تخلیقات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی خصوصیات منجملہ معاشرے کی ترقی وپیشرفت ، اور باقی ماندہ خامیوں کو دور کرنے اور عوام کے دینی اعتقادات پر خاص توجہ مبذول کرنےکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایسے معاشرے میں مجمع تشخیص مصلحت نظام جیسے ادارے کو ملک کے مسائل و قوانین پر دقیق نظر رکھتے ہوئے مصلحت کو اس طرح تشخیص دینا چاہیے تاکہ بنیادی اصول و اقدار پر کوئي خدشہ وارد نہ ہو اور نہ ہی معاشرے کی پیشرفت اور سریع حرکت کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو۔
رہبر معظم نے تشخیص مصلحت اور اہم و مہم کے صحیح ادراک و فہم کو مجمع کی بہت سنگين ذمہ داری اور اس کے عظیم مقام کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: اسی بنیاد پر مجمع تشخیص مصلحت نظام کی ترکیب مختلف رجحانات رکھنے والے عناصر اور تینوں قوا کے سربراہوں پر مشتمل ہے جو اسلامی نظام کے پابند ہیں اور جس نے مجمع کو اسلامی نظام کے اتحاد و انسجام کا مظہر بنا دیا ہے۔
رہبر معظم نے اندرونی انسجام کو اسلامی نظام کی قوت کا مظہر قراردیا اور مجمع تشخیص مصلحت نظام کے اراکین کے قول و عمل میں انسجام کے ظہور پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب کے دوران تجربہ کار اور آزمودہ افراد اور تازہ نفس اور بنیادی اصولوں کے پابند افراد کی ہمراہی سے مجمع میں ایک اچھی اور جامع ترکیب وجود میں آگئی ہے۔
رہبر معظم نے مجمع میں مصلحتوں کو رجحانات پر مقدم رکھنے، مجمع کے اراکین کا فعال اوربر وقت عمل ،موجودہ مسائل و شرائط کے پیش نظرپالیسیوں میں بعض ترجیحات پر تجدید نظر کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: مجمع تشخیص مصلحت نظام کو حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیوں کی ممتاز شخصیات سے گہرا رابطہ رکھنا چاہیے اور مختلف مسائل و امور میں ان کے نظریات و آراء سے استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم نے فرمایا: مجمع تشخيص مصلحت نظام کو منظور شدہ پالیسیوں اور نتائج کے مستندات کے تدوین کےاہم نکتہ پر بھی توجہ مبذول کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں اس سے ایک مرجع اور مستند حقوق کے طور پر استفادہ کیا جاسکے۔
رہبر معظم نے منصوبہ بندی و پروگرام سازی کے لئے پالیسیوں کو مبنا و محور قراردینے پر اداروں کی سنجیدہ توجہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ملک اچھے شرائط میں مختلف علمی ، ثقافتی و سماجی سمتوں کی طرف سرعت کے ساتھ رواں دواں ہے اور عالمی سطح پر ایرانی عوام کے مؤثر کردار کے علائم بھی واضخ طور پر مشہود ہیں۔ لہذا ایسے شرائط میں خدا وند متعال پر توکل رکھتے ہوئے تمام اداروں کو اپنی تلاش و کوشش اورجد وجہد میں سرعت کو دو چنداں کرنا چاہیے۔
اس ملاقات کے آغاز میں مجمع تشخیص مصلحت نظام کے سربراہ آقای ہاشمی رفسنجانی نے مجمع کی نئی ترکیب و اراکین کے انتخاب پر رہبر معظم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مجمع میں ماہر اور انقلاب اسلامی کے پابند افراد کی موجودگی اور سیاسی رجحانات سے دوری کی وجہ سے اس اہم ادارہ پرمناسب فضا قائم ہوگئی ہے۔
ہاشمی نے کہا: مجمع کے کمیشن مختلف موضوعات پر ماہرانہ بحث و تبادلہ خیال کے ذریعہ مجمع تشخيص مصلحت نظام کے مفید فیصلوں کے لئے بہترین راہیں ہموار کرتے ہیں اور اس طرح ملک کے مسائل کو سمجھنے کے لئے نسبی مصلحت حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
مجمع تشخيص مصلحت نظام نے مجمع کے ساتھ حکومت اور پارلیمنٹ کے اچھے تعاون پر ان کا شکریہ اداکیا۔