رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح صدر اور ان کی کابینہ کے اراکین سے ملاقات میں عوامی خدمت میں نشاط و جد وجہد، امام (رہ) اور انقلاب کے کلام و نعروں کو نمایاں کرنا اور عوام کے ساتھ انس و محبت اورعوامی جذبہ کو نویں حکومت کی تین گرانقدر خصوصیات قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب کا چوتھا عشرہ ، عدل وانصاف و پیشرفت کا عشرہ ہے اور تمام منصوبوں اور کوششوں کو اس سمت میں انجام پاناچاہیے۔
رہبر معظم نے شہید رجائی اور شہید باہنر کو علم و عمل کا مظہر قراردیا اور انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا: ان دو شہیدوں کی اقدار حکام کی عام رفتار و کردار میں جلوہ گر رہنی چاہیے۔
رہبر معظم نے نویں حکومت کی ممتاز خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: حکومت کی قدردانی ان ممتاز خصوصیات کی بنا پر ہے جو اسلامی منطق میں شرافت و تشخص کا حقیقی معیار شمار ہوتی ہیں۔
رہبر معظم نے نویں حکومت کی پہلی ممتاز خصوصیت کو آقای احمدی نژاد کی حکومت کےفعال ، سرگرم اور کارآمد ہونے کو قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام کی خدمت میں تلاش و کوشش ، نشاط ، سنجیدگي، تحرک و فعالیت حکومت کی بہت ہی گرانقدر اور مستمر خصوصیت ہے جو تین سال کے بعد بھی اسی طرح ممتاز ہے اور صوبائی سفر اس کا ایک نمونہ ہیں۔
رہبر معظم نے حکومت کے کلام و نعروں کو امام(رہ) اور انقلاب کے کلام اور نعروں سے منطبق ہونے کو حکومت کی دوسری گرانقدر خصوصیت قراردیتے ہوئے فرمایا: امام (رہ) اور انقلاب کی بعض بنیادی و اساسی خصوصیات کی تعمیر اور انھیں زندہ کرنا اور ان لوگوں سے مقابلہ کرنا جو ان گرانقدر اقدار اور بنیادی مفاہیم کو منسوخ کرنا چاہتے تھے اس حکومت کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہیں۔
رہبر معظم نے اسی سلسلے میں فرمایا: حقیقی عدل و انصاف کا قیام اورظلم وستم کا مقابلہ حکومت کے انقلابی نعروں میں شامل ہےاور جو شخص ملک کی پیشرفت و ترقی کو انقلاب کی ہدایت کی روشنی میں چاہتا ہے وہ اس خصوصیت کا قدرداں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے " قومی عزت اور حقیقی استقلال " کے اعادہ کو حکومت کے قابل تعریف اقدامات شمار کرتے ہوئے فرمایا: قومی عزت و تشخص پر اعتقاد اور افتخار ہر قوم کے حقیقی استقلال کی بنیاد ہے۔
رہبر معظم نے ماضي میں دشمنوں اور غیروں کے سامنے انفعال و شرمندگي کا احساس کرنے والے لوگوں پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: موجودہ حکومت عالمی معاملات میں انقلاب کے اصولوں پر وفاداری کو اپنا فخر سمجھتی ہے اور اس نے مغرب کی خطرناک تقلید کرنے والوں اورسیکولرزم کی طرف جھکاؤ رکھنے والوں کے راستوں کو مسدود کیا ہے جو افسوس کے ساتھ ملک کے اداری ڈھانچوں میں نفوذ پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
رہبر معظم نے جوہری توانائي کے معاملے میں حکومت کی پائداری کو قومی تشخص کے دفاع کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض منہ زور و تسلط پسند ممالک اور ان کے حقیر حامی ایرانی عوام کے مد مقابل اپنی بات منوانا چاہتے تھے لیکن ایرانی قوم اور خود صدر اور حکومت نے ان کے مد مقابل استقامت و پائداری دکھائي اور آگے نکل گئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تحول ایجاد کرنے میں ہمت و جرأت، بڑی مشکلات حل کرنے کے لئے پختہ عزم و شجاعت اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنے کی جرأت کو حکومت کے انقلابی اصولوں کا اہم نمونہ قراردیتے ہوئے فرمایا: بدعنوانیوں کا مکمل طور پر قلع وقمع اور خاتمہ بہت مشکل ہے اور ابھی تک یہ امر محقق نہیں ہوا ہے لیکن اس حکومت میں بد عنوانیوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت و جرأت مکمل طور پر محسوس و مشہود ہے۔
رہبر معظم نے انفعالی اور دفاعی کی حالت سے نکلنے اور منہ زور عالمی طاقتوں کے مد مقابل ہجومی جذبہ کو انقلاب اسلامی کے اصولوں اور نعروں کے ساتھ حکومت کی وفاداری کے جلوے قراردیتے ہوئے فرمایا: استکباری طاقتوں میں بہت سی کمزوریاں ہیں جنھیں نمایاں کرکے تسلط پسند طاقتوں کو جواب دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے اور موجودہ حکومت میں ایسا کرنے کی ہمت ہے۔
رہبر معظم نے حکومت کی تیسری ممتازخصوصیت کو اس کاعوامی ہونا قراردیتے ہوئے فرمایا: آپ کی شرافت ، قوم کے ہم پلہ ہونا، سادہ زندگی بسر کرنااور عوام کے ساتھ مسلسل انس و محبت اور رابطہ رکھناہے اور ان خصوصیات کا صدر اور کابینہ کی رفتار میں عملی طور پر جلوہ گر ہونے سے عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اوراس سے اسراف و شاہانہ زرق و برق کوختم کرنے میں مدد ملے گی ۔
رہبر معظم نے حکومتوں کی حمایت کو حضرت امام (رہ) اور رہبری کی روش و سیرت قراردیتے ہوئے فرمایا: قوہ مجریہ کے دوش پر ملک کی مدیریت کا بہت بڑا بوجھ ہے اور اسی وجہ سے گذشتہ حکومتوں کی حمایت کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن موجودہ حکومت کی خصوصیات کا تقاضا ہے کہ اس کی مزید اور پر جوش حمایت کی جائے اور اس کے اقدامات پر اسے مزید حوصلہ ملناچاہیے۔
رہبر معظم نےفرمایا: حکومت کی حمایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی کمزوریوں پر آنکھ بند کرلی ہے البتہ ایسے کام ابھی ہیں جن کے بارے میں حکومت کوتدبیرکرنا یا انھیں انجام دینا چاہیے۔
رہبر معظم نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں حکومت سے اپنی توقعات اور مطالبات کی تشریح میں قانون پر توجہ کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: جب کوئی قانون پارلیمنٹ اور گارڈین کونسل میں بنیادی آئین کی روشنی میں منظور کیا جائے تو اس پر عمل اس وقت تک ضروری ہے جب تک اس میں کوئی رد وبدل نہ ہو۔
رہبر معظم نے فرمایا: ممکن ہے حکومت ایک ابلاغ شدہ قانون کو صحیح نہ سمجھتی ہو لیکن اس معاملہ کی عہدیدار حکومت و قوہ مجریہ نہیں ہے حتی حکومت اگر ایک قانون کے ضعف و کمزوری پر یقین بھی رکھتی ہو پھر بھی اسے اس پر عمل کرنا چاہیے۔
رہبر معظم نے ذیلی اداروں پر دائمی نگرانی کو بہت ہی اہم اور ممکنہ رکاوٹوں کے برطرف کرنے اور امور کی پیشرفت کا سبب قراردیتے ہوئے فرمایا: صدر کو بھی وزیروں کے عمل پر نگرانی رکھنی چاہیے البتہ اس مسئلہ سے وزیروں کے کام کے استقلال میں کوئی منافات نہیں ہونی چاہیے کیونکہ کابینہ کے اراکین نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیا ہے لہذا وہ اپنے دائرہ کار میں استقلال سے بہرہ مند ہیں۔
رہبر معظم نے منظور شدہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے اور عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو نبھانے کو حکومت سے اپنی دوسری توقعات قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام معتقد ہیں کہ حکومت نہم عوام کی حکومت اور ان کی جنس سےہے اور یہ امتیاز عوام کی توقعات میں اضافہ کا سبب بھی ہے اگر کسی جگہ حکومت کو اپنا وعدہ پورا کرنے میں کوئی مشکل نظر آتی ہے تو اسے عوام کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔
رہبر معظم نے قوہ مجریہ کے قوہ مقننہ اور عدلیہ کے ساتھ تال میل اور ممتاز شخصیات کے ساتھ منظم رابطہ کو حکومت کی دیگر ضروریات قراردیتے ہوئے فرمایا: ممتاز شخصیات کے اصلاحی نظریات اور تمام انسانی وسائل سے استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے درست اور ماہرانہ اطلاع رسانی کو حکومت کی اہم ذمہ داری قراردیتے ہوئے فرمایا: حکومت کے کام اور اس کی کارکردگی کی رپورٹ درست اور ماہرانہ انداز میں عوام کے سامنے پیش کی جانی چاہیے۔
رہبر معظم نے حکومت کی طرف سے علم و ٹیکنالوجی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں دائمی توجہ کو لازمی قراردیتے ہوئے فرمایا: ثقافت کا مقولہ بھی بہت اہم ہے اور ہمیشہ سب سے اونچی سطح پر اس پر توجہ رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم نے تنقید اور تخریب کی حدود بیان کرتے ہوئے فرمایا: ماہرانہ اور منصفانہ تنقید جائز ہے جو نیک نیتی پر مبنی ہوتی ہے اور اس میں مثبت اور منفی دونوں پہلو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں حکومت کو تنقید کا وسعت قلبی کے ساتھ خیر مقدم کرنا چاہیے اور اس پرخاص توجہ رکھنی چاہیے اور درست و صحیح تنقید پرمکمل توجہ کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔
رہبر معظم نے تنقید کو ملک و نظام کی خدمت اور تخریب کو ملک و نظام کے ساتھ خیانت قراردیا اور تنقید کے سائے میں نویں حکومت کی تخریب پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: مثبت و مفید نقاط اور امتیازات کا انکار اور کمزوریوں کو نمایاں کرکے پیش کرنااور مسلسل برائي کرنا تخریب ہے تنقید نہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کوصحیح اور درست تنقید قبول کرنے کی سفارش کی اور حکومت کے قوی نقاط کو ضعیف بنا کر پیش کرنے کے سلسلے میں بعض افراد کے تخریبی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: ایٹمی معاملے میں حکومت کی زبان قومی اقتدار اور عزت کی زبان ہےلیکن چونکہ فلاں حکومت ایٹمی معاملے میں ایرانی حکومت کے عزتمندانہ اور قابل فخر مؤقف سے خوشحال نہیں ہے اس لئے اس کےصحیح مؤقف کو تخریب کا نشانہ بناتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومتوں کی فعالیت کے پہلے دور کے آخری سال میں تخریب میں اضافہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: البتہ موجودہ حکومت پر تخریبی حملے مزید بڑھ گئے ہیں اور ملک کے اندر اور باہر دونوں طرف سے اسے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
رہبر معظم نے غیر ملکی میڈيا کی طرف سے نویں حکومت پر حملوں کو احزاب کی جنگ سے تشبیہ کرتے ہوئے فرمایا: حکومت نہم پر حملوں کی مسلسل بارش کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی راہ و روش اور اصول وہی ہیں جو امام (رہ) اور انقلاب کے اصول ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کی تخریب کرنے والے افراد کے مختلف اہداف و اغراض و مقاصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان میں سے بعض افراد بے غرض ہیں ان کے پاس اطلاع کم ہے یا وہ بے خبر ہیں بعض افراد کے ذاتی یا سطحی اغراض و مقاصد ہیں لیکن بعض نے تو ابتدا سے ہی امام (رہ) کو قبول نہیں کیا اور بعض وسط میں پہنچ کر انقلاب سے الگ ہوگئے اوروہ امام (رہ) کے ساتھ عمیق دشمنی اور کینہ کی وجہ سے حکومت نہم کی تخریب میں مشغول ہیں۔
رہبر معظم نے حکومت کو ماہرین کی تنقید پر توجہ دینے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے فرمایا: البتہ حکومت کو بھی اتہامات سے دور رہنا چاہیے اور تخریب کرنے والوں کے ہاتھ میں کوئی بہانہ نہ دیکر انھیں جنجال برپا کرنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے۔
رہبر معظم نے تلاش و کوشش کے جذبہ کو مضبوط بنانے اور اس کی حفاظت کرنے، ناتمام کاموں کی تکمیل کو ترجیح دینے اور عوام کی زندگي میں ان منصوبوں کے نتائج کے ثمر بخش ہونے اور ان کی شکوفا ئي کو اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب کا چوتھا عشرہ ، عدل و انصاف اور پیشرفت و ترقی کا عشرہ ہےاور تمام حکام کی تلاش و کوشش اور منصوبہ بندی ملک کی پیشرفت و ترقی اور اس میں وسیع پیمانے پرعدل و انصاف کو فروغ دینے پر مرکوز رہنی چاہیے۔
رہبر معظم نے معنویت اور عقلانیت کو عدل و انصاف کے فروغ میں لازمی قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا عزيز ملک ایران دوسروں کے لئے نمونہ عمل قرارپائے تو ہمیں ملک کی پیشرفت و ترقی کے عمل اور عدل و انصاف کے فروغ پریکساں توجہ رکھنی چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بیس سالہ منصوبہ کو ملک کی پیشرفت و ترقی کا حقیقی نقشہ قراردیا اور منصوبوں اور پرگراموں اور اداروں کی صحیح سمت میں نگرانی کو بیس سالہ منصوبہ کے ساتھ منطبق ہونےاور اس کی پیشرفت کی تشخیص کے لئے اہم قراردیا۔
رہبر معظم نے دفعہ 44 کی پالیسیوں کے درست نفاذکو عظیم تحول کی بنیادی راہیں ہموار کرنے کے
لئے اہم قراردیا اور ان پالیسیوں کے نفاذ میں سنجیدگي کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت پر زوردیا۔
رہبر معظم نے اقتصادی میدان میں عظیم تحول کو حکومت نہم کا عظیم اور اہم قدم قراردیا اور اس منصوبے کے ابواب کو قابل قبول قراردیتے ہوئے فرمایا: اس اہم اور عظیم کام کو حتمی طور پر انجام دینا چاہیے لیکن اس میں ہر قسم کی جلد بازی سے بھی پرہیز کرنا چاہیے ۔
رہبر معظم نے فرمایا: اس منصوبہ کا نفاذ ملک کی پیشرفت میں ایک عظيم اور بزرگ قدم ہے لیکن اس میں جلد بازی کی وجہ سے نقصانات اور خطرات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے لہذا اس عظيم کام کو انجام دینے سے قبل اس کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر خوب غور کرنا چاہیے اور دقت ، تدبیر اور صحیح انداز میں اس عظيم آپریشن کو انجام دینا چاہیے ۔
رہبر معظم نے عظیم اقتصادی تحول کے سلسلے میں مزید فرمایا: اگر اس منصوبے کے نفاذ میں مہنگائی کا خطرہ ہے تو ا س کے منفی اثرات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں غور و خوض کرنا چاہیے۔ رہبر معظم نے مہنگائي کو عوام کی مشکلات کا اصلی سبب اور اسےکنٹرول کرنے کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: البتہ موجودہ مہنگائی میں بین الاقوامی مہنگائی ، خشکسالی اور دیگر عوامل شامل ہیں لیکن ان کے علاوہ کچھ دوسرے عوامل بھی ہیں۔جنھیں حکومت کنٹرول کرکے مہنگائی کم کرسکتی ہے۔ رہبر معظم نے مہنگائی کو کم کرنے کے عوامل پر حکومت کی توجہ کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: مہنگائی کم کرنے اور اس پر حکومت کےکنٹرول کی وجہ سے لوگ حکومت کی عظیم خدمات سے بہرہ مندہونگے اور انھیں قریب سے محسوس کریں گے۔
رہبر معظم نے صدر ان کی کابینہ کے وزراء و قوہ مجریہ کے مختلف اداروں کے اہلکاروں کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: عوام کی خدمت ایک الہی توفیق ہے اور زيادہ سے زیادہ خدمت اور تلاش و کوشش کرکے اس کی قدر کرنی چاہیے۔
رہبر معظم نے شعبان المعظم اور رمضان المبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان دونوں مہینوں کی معنوی برکات سےاستفادہ کرنےکی سفارش کی ۔
رہبر معظم نے صدر کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے فرمایا: تمام کاموں کا مقصد خدا وندمتعال کی خوشنودی حاصل کرنا ہےاور انجام پانے والے امور کے سلسلے میں عوام کو درست اطلاعات فراہم کرنا اور آگاہ رکھنا بھی بہت ضروری ہےاور اس سلسلے میں مزید کام کی ضرورت ہے۔
اس ملاقات میں صدر احمدی نژاد نے شہید رجائی اور شہید باہنر اور حکومت کے تمام شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں حکومت کی کارکردگی کے بارے میں مفصل رپورٹ پیش کی ۔
صدر نے تیل کے محاسبہ کے بغیر ملک کے اقتصادی رشد اور سال 1386 میں اس کے 7/7 فیصد تک پہنچنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بجٹ میں جو اصلاحات انجام پائی ہیں اس کی روشنی میں عام بجٹ میں تیل کی درآمدات کا حصہ سال 1383 میں 63 فیصد سے سال 1386 میں 4/54 فیصد تک پہنچ گيا ہے ۔
صدر احمدی نژاد نے تعمیری اور رفتاری اصلاحات کو حکومت نہم کی سنجیدہ اور بنیادی ترجیحات قراردیا اور دفعہ 44 کی پالیسیوں کے نفاذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: دفعہ 44 کی پالیسیوں کے دائرے میں گذشتہ برسوں کی نسبت حالیہ تین برسوں میں دس گنا حکومتی کمپنیوں کو نجی کمپنیوں کی تحویل میں دیا گیا ہے۔
صدر احمدی نژاد نے سرمایہ کاری کے فروغ اور اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والے معاملات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : حالیہ تین سالوں میںملک کے اسٹاک ایکسچینج کے معاملات میں 80 فیصد رشد حاصل ہوا ہے۔
صدر احمدی نژاد نے حکومت کے صوبائی دوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: صوبائي سفر کے پہلے مرحلے میں منظور شدہ امور میں سے نوے فیصد امور یا تکیمل ہوچکے ہیں یا تکمیل کے قریب ہیں اور دوسرے مرحلے میں بھی منظور ہونے والے امور 36 فیصد پایہ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں ۔
صدر نے مزید کہا: سنہ 1379 سے اب تک ملک میں ایک لاکھ 43 ہزار تعمیراتی منصوبوں کا آغاز ہوا جن میں سے ایک لاکھ منصوبے حکومت نہم سے متعلق ہیں۔جن میں سے 52 ہزار تعمیراتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں۔
صدر احمدی نژاد نے صحت عامہ کے شعبہ میں کئی ہسپتالوں اور طبی مراکز کے قیام اور ہنگامی بنیادوں پر سہولیات فراہم کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حکومت نہم نے محروم اور پسماندہ دیہاتوں پر خاص توجہ دی ہے اور دیہاتوں کے لئے مخصوص بجٹ منظور کیا ہے۔
صدر نے حکومت نہم کی تیل، گیس اور پیٹروکیمیکل کےشعبوں میں پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: کئی دیہاتوں میں گیس کی سہولت فراہم کی گئی ہے اور اسی طرح پیٹرول صاف کرنے کے سات کارخانوں کی تعمیر بھی حکومت نہم کے اہم کاموں میں شامل ہے۔
صدر احمدی نژاد نے کہاکہ صنعت کے شعبہ میں سرمایہ کاری میں 172 فیصد رشد حاصل ہوا ہے اسی طرح گذشتہ تین برسوں میں بجلی کی پیداوار میں 12600 میگاواٹ کا اضافہ ہوا ہے انھوں نے کہا کہ گذشتہ تین برسوں میں پانچ لاکھ مکانات کی تعمیر کا آغاز ہوا جن میں سے چار لاکھ مکانات کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے صدر نےکہا کہ گذشتہ تین برسوں میں ٹیلیفون اور موبائل میں 40 ملین تک اضافہ ہوا ہے جبکہ ان کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
صدر نے مزيد کہا کہ ملک کی نوے فیصد آبادی بیمہ کی خدمات سے بہرہ مند ہے صدر احمدی نژاد نے زراعت کے شعبہ میں 20 سے 30 فیصد رشد کی خبر دیتے ہوئے کہا : کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 9/11 فیصد سے کم ہوکر 6/9 تک پہنچ گئی ہے۔
صدر احمدی نژاد نے سیاحت ، ورزش ، ماحولیات کی شعبوں میں حکومت نہم کی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا اور علمی تحقیقی شعبہ میں نمایاں کارکردگی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: سال 1386 میں سات ہزار اختراعات درج ہوئی ہیں۔
صدر نے کہا کہ اس سال علمی مقالات کی تعداد 13 ہزار سے اوپر پہنچ چکی ہے صدر نےتعلیم کے شعبہ میں حکوت کی کارکردگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: تربیت معلم مراکز پر توجہ ، مدارس میں توسیع اور ٹیکنیکل مدارس کے فروغ پر توجہ ،حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے، صدر نے مہنگائی کے دو اسباب اور ان کو کنٹرول کرنے پرحکومت کی توجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حکومت بیرونی مہنگائی اور بینکوں کی کارکردگی پر نگرانی کرکے مہنگائی پر کنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔
صدر نےحکومت کی خارجہ پالیسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج ملک بہترین حالت میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور عالمی سطح پر مؤثر کردار کا حامل ہے۔
اس ملاقات کے اختتام پر نماز ظہر و عصر رہبر معظم انقلاب اسلامی کی امامت میں ادا کی گئی۔