رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ایرانی پارلیمنٹ کے ممبران اور اسپیکر سے ملاقات کے دوران اسلامی اقدار اور اصولوں پر کاربند رہنے کو ساتویں دور کی منتخب اسلامی پارلیمنٹ کی شناخت قرار دیا اور پارلیمنٹ کی اپنی اسی شناخت پر مبنی کارکردگی اور منصوبہ سازی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کمزور طبقہ پر خصوصی توجہ، عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش، عالمی مسائل خصوصاً جوہری مسئلہ سے متعلق بڑی طاقتوں کی مرضی کے خلاف دوٹوک اصولی موقف اور اصول پسند حکومت سے تعاون موجودہ پارلیمنٹ کی بعض ممتاز خصوصیات ہیں اورآئندہ سال بھی ملکی مفادات کو مد نظر رکھ کر یہی طریقہ کار اپنی پوری قوت سے جاری رہنا چاہئے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے ساتویں دور کی پارلیمنٹ کے نمائندگان اور اسپیکر کی زحمات پر اظہار قدردانی کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی تین سالہ کارکردگی کو سراہا اور فرمایا: ساتویں پارلیمنٹ اس دور میں تشکیل پائی جب کچھ غافل افراد اختلافی اوراسلامی نظام کے بنیادی اصولوں کے مخالف مسائل بیان کررہے تھے ان نا مساعد حالات میں عوام نے اس پارلیمنٹ کا انتخاب کیا اوراسلامی و انقلابی اقدار محو کرنےکے درپے افراد کی مخالفت کی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ اسلامی اصولوں اور انقلابی اقدار کو دل و جان سے چاہتے ہیں۔
آپ نے ان حالات میں عوام کی طرف سے ایسی پارلیمنٹ منتخب کرنے کو ملکی تاریخ کا نہایت حساس موڑ قراردیتے ہوئےفرمایا: ساتویںپارلیمان اپنی مذکورہ شناخت کے ساتھ وجود میں آئی اوراس شناخت نے تین سال کے اندراسے ممتاز اور اہم خصوصیات کا حامل بنا دیا ہے۔
رہبر معظم نے کمزور اور بہت ساری سہولیات سے محروم طبقہ پر خصوصی طور سے توجہ دینے کوساتویں پارلیمان کی اہم خصوصیت قرار دیتے ہوئے فرمایا: دفعہ چوالیس کے جامع منصوبوں پر عملدرآمد کے سلسلہ میں پارلیمان کی طرف سے مناسب جواب اور اس سلسلہ میں خصوصی کمیشن کی تشکیل بھی پارلیمنٹ کا ایک بنیادی مثبت نقطہ ہے ضرورت ہے کہ اس کمیشن کے ساتھ باقاعدہ تعاون کیا جائے تاکہ دفعہ چوالیس کے نفاذ کے لئے ایک محکم، مضبوط اور پائدار قانون پاس ہو جائے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید فرمائی کہ بڑی طاقتوں کے مقابلہ اور عالمی مسائل سے متعلق ساتویں پارلیمان کا مضبوط اور اصولی موقف بھی ایک واضح مثبت نقطہ ہے آپ نے مزید فرمایا: امریکہ کی آمرانہ اور متکبرانہ پالیسیوں کے جواب میں اسلامی نظام کی منطق مدلل اور عالم اسلام اور جملہ آزاد اقوام کی جانب سے تسلیم شدہ ہے چونکہ ایرانی قوم یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ کوئی جارح ملک ، طاقت کا مدعی اور دوسروں کو اپنا مقروض سجھنے والا اس کے وسائل سے استفادہ کرے اور اس کی ذمہ داریوں کا تعین کرے۔
رہبر معظم نے مزید فرمایا: ساتویں پارلیمنٹ نے قانون سازی کے اس بلند ، عظیم اور رفیع مقام سے مختلف موضوعات سے متعلق ملت ایران کی بات صاف اور منطقی انداز میں پہنچائی اور یہ بات بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
رہبر معظم نے اختلاف ایجاد کرنے والے مسائل سے پرہیز کو ساتوین پارلیمان کا ایک اور امتیاز قرار دیتے ہوئےفرمایا: جوہری مسئلہ میں پارلیمان کا مؤقف اور حکومت کو ثابت قدم رہنے پر ملزم کرنے (حالانکہ خود حکومت بھی یہی چاہتی اور اس سلسلہ میں پیش قدم تھی) کا فیصلہ ملک کے مسقبل کو مد نظر رکھ کر کیا گیا تھا اور یہ بھی ساتویں پارلیمان کا ایک واضح اورمثبت نقطہ ہے۔
رہبر معظم نےموجودہ دورمیں حکومت اور پارلیمان کی باہمی مفاہمت کو برکت قرار دیتے ہوئےفرمایا: حکومت کے ساتھ بھر پورتعاون کیا جانا چاہئے اور اسلامی و انقلابی اصولوںپر گامزن اور عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشارحکومت کو کمزورکرنے پرہیز کرنا چاہیے۔
رہبر معظم نے حکومت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کے چلنے کو بنیادی طور سے مصلحت پر مبنی گام قرار دیتے ہوئے فرمایا: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تنقید بھی نہ کی جائےلیکن تنقید میں ہمدردی ہونی چاہئے منفی باتوں کے ساتھ مثبت باتیں بھی بیان ہونی چاہئیں تاکہ ذاتی اور حزبی مسائل کا شائبہ پیدا نہ ہو۔
رہبر معظم نے کچھ لوگوں کی طرف سےحکومت اور پارلیمان کے درمیان مفاہمت کی مخالفت اور دشمنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت اور پارلیمنٹ کو یکساں کردیا گیا ہے جبکہ پارلیمنٹ بھی عوام کے منتخب افراد پرمشتمل ہے اور صدر کو بھی عوام ہی نے منتخب کیا ہے مزید یہ کہ حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان یکسانیت کوئی عیب نہیں بلکہ اچھی بات ہے اس لئے کہ اس طرح یہ دونوں طاقتیں آپسی تعاون کے ذریعہ اپنے مشترکہ مقاصد حاصل کر سکتی ہیں۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے پارلیمان کے آخری سال کو خدائی آزمائش و امتحان کا سال قرار دیتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ کو اپنےاس آخری سال میں قوم قبیلہ، علاقہ اور پارٹی سے بالا تر ہو کر ملک کی بنیادی اور فوری ضروریات اور ترجیحات پراپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
رہبر معظم نے نمائندگان کو اپنے بیانات اور اظہارات پردقیق توجہ رکھنے ، دشمن تک کوئی غلط پیغام نہ پہنچنے اور کسی مسئلہ کا تجزیہ تحلیل کرتے وقت بعض باتوں کا خیال رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایسا کوئی مسئلہ چھیڑنا ہی نہیں چاہئے جسکے بارے میں پہلے سے ہی پتہ ہے کہ یہ آئین کے برعکس ہے اس طرح کی باتوں سے پارلیمنٹ کا وقت ضائع ہوتا ہے اسی طرح عملدرآمد سے متعلق معمولی مسائل میں بھی پارلیمنٹ کا وقت برباد نہیں ہونا چاہئے۔
رہبر معظم نے اپنے ذاتی اور اجتماعی عمل کا جائزہ لینے کو اسلام کا اہم حکم قراردیتے ہوئےفرمایا: اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا اور محاسبہ کرنا کمزوریاں دور کرنے کا باعث بنتا ہے مزید یہ کہ اپنے مثبت نقاط دیکھ کرحوصلہ ملتا ہے جس سے انسان اپنی راہ پر گامزن رہتا ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی پارلیمنٹ کے اسپیکر جناب حداد عادل نے ساتویں پارلیمنٹ کی تین سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کسی شورو ہنگامہ کے متحرک رہنے، ملک و قوم کی عزت و استقلال کا دفاع کرنے، نطام کے اصولوں اورانقلابی اقدار کی حفاظت اور مالی بد عنوانی کے خلاف جنگ کو پارلیمنٹ کی اہم خصوصیات قرار دیا اور کہا: ساتویں پارلیمنٹ کے نمائندگان کو ہمیشہ لوگوں کی اصلی مشکلات و ضروریات کی فکر رہی ہے اور پارلیمنٹ کےہر بل میں اس بات کواولین ترجیح حاصل رہی ہے۔
دفعہ چوالیس کے جامع منصوبوں کے نفاذپرپارلیمنٹ کی خصوصی توجہ سے متعلق پیش کئے گئے بلوں پر نمائندگان کی طرف سےماہرانہ غور کرنے میں پارلیمنٹ کےتحقیقاتی مرکز کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: دفعہ چوالیس سے متعلق خصوصی کمیشن تشکیل دے کر کوشش کی گئی ہے کہ یہ دفعہ جامعیت کے ساتھ ماہرانہ طرز پر نافذ ہو۔
اسلامی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے پارلیمنٹ اور حکومت کےدرمیان مفاہمت پر زور دیا اور قانونی چارہ جوئی اور احتساب کمیشن کے ذریعہ پارلیمنٹ کی نظارتی ذمہ داریوں کیجانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: بین الاقوامی مسائل میں بھی ساتویں پارلیمنٹ نے فعال کردارادا کیا ہے فلسطینی انتفاضہ اور قدس شریف کی حمایت میں عالمی کانفرنس کا انعقاد اورایشیائی پارلیمانی انجمن برائے امن کو ایشیائی پارلیمانی مجمع میں بدلنا اور اس کام کو تہران میں انجام دینا بین الاقوامی سطح پر عوامی نمائندوں کے بعض اقدامات ہیں۔
جناب حدادعادل نے تیسرے دور کے بلدیاتی انتخابات پر نگرانی کو ساتویں پارلیمان کا ایک اوراہم اقدام قرار دیا۔