ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

وزارت خارجہ کے حکام اور دیگر ممالک میں تعینات ایران کے سفیروں کی رہبر معظم سےملاقات۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح وزارت خارجہ کے حکام اور دیگر ممالک میں تعینات جمہوری اسلامی ایران کے سفیروں سے ملاقات کے دوران قومی مفادات کی حفاظت کو ملک کی خارجہ پالیسی کا اصل مقصد قرار دیتے ہوئے فرمایا: ایران کی خارجہ پالیسی تسلط پسند اور تسلط پذیر تعلقات کی نفی اور عالمی سامراجی نظام سے عقل و ہوشیاری کے ساتھ مقابلہ پر مبنی ہے اور اس چیلنج کے مدمقابل گذشتہ تین دہائیوں کے تجربے ملت ایران کی کامیابی کی واضح دلیل ہیں۔
رہبر معظم نے انقلابی افراد کے توسط سےوزارت خارجہ کے طریقہ کار کے تشکیل پانے اور اسی پر باقی رہنے کو اس وزارت کا نہایت ہی اہم اور مثبت عمل قرار دیا اور خارجہ پالیسی کے فطرتی اور ذاتی چیلنجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :وزارت خارجہ کو چاہیے کہ ملکی مفادات یعنی طویل مدت میں اسلامی انقلاب کے اہداف کے حصول اور مختصر مدت میں بیس سالہ منصوبہ کے اہداف تک رسائی کی بنیاد پر منصوبہ سازی کا عمل انجام دے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کے اصولوں اور قومی مفادات اور شناخت کے ناقابل تفکیک ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یاددلایا : خارجہ پالیسی کے موجودہ اہم مسائل کا اس زاویہ نگاہ سے بھی جائزہ لیاجانا چاہیے۔
رہبر معظم نے انسان کی ہمہ جہت سعادت کے لیے دین مبین اسلام کے پروگرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اسلامی انقلاب ، ایران میں اسلام کے سیاسی ، اقتصادی ، سماجی اور ثقافتی نظام کو عملی جامہ پہنانے کے لیےآیا ہے اور عالمی روابط کے سلسلے میں بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ظالمانہ تسلط پسند نظام کو مسترد کرکے اقوام عالم کی بھلائی ، تحفظ اور سعادت کے لیے کوشاں ہے یہی وجہ ہے کہ فطرتی طور پرعالمی تسلط پسند نظام کے سامنے اسلامی نظام ایک چیلنج ہے اوراس حقیقت کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: عالمی ڈپلومیسی ، تسلط پسندوں کی نظر میں ایسا شطرنج بورڈ ہے ، جس میں بعض ممالک کو تسلط پسند نظام کے سپاہی کا رول ادا کرنا چاہیے۔اور جب تسلط پسندطاقتوں کے مفادات پورے ہوجائیں تو تسلط پذیرممالک کا گلا گھونٹ دیا جائے۔
رہبر معظم نے فرمایا: ہمیں تسلط پسند نظام کا رویہ قطعا قبول نہیں ہے ، البتہ ہمیں خود تسلط پسندی کا کوئی شوق نہیں ہے لیکن کسی بھی مسئلہ میں تسلط قبول نہ کریں گے اور اپنی خارجہ پالیسی کا ستون عالمی تسلط پسند نظام کا مقابلہ اور تسلط پسند اور تسلط پذیر والے قاعدہ سے ہمیشہ الگ رکھیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تسلط پسندوں کی طرف سے ایران کو سرکش قرار دینے کے پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: بڑاشیطان امریکہ عالمی ڈیکٹیٹر شپ قائم کرنے کا خواہاں ہے اور حقیقت میں امریکہ خود اقوام عالم کے فطری حقوق پائمال کرکے انسانی سماج میں سرکش بن گیا ہے لیکن شریف ایرانی قوم کو سرکش کہتا ہے ہاں اگر عالمی ستمگروں اور مغروروں سے مقابلہ اور مظلوموں کی حمایت سرکشی ہے تو ہمیں اس پر فخر ہے ۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فطری طور پر تسلط پسند نظام کے سامنے اسلامی جمہوری نظام کے چیلنج ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اہم سوال اٹھایا اور فرمایا: دنیا پر تسلط پسندوں کے عجیب قبضہ کے مدنظر ، کیا اس سرکش ومغرور محاذ کے خلاف ایرانی قوم کا چیلنج میں کوئی فائدہ ہے اور کیا یہ چیلنج کسی نتیجےتک پہنچے گا؟
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں اپنے خیال کا اظہار کرنے سے پہلےاس سوال کے غیر واقعی جواب کو محل خطا قرار دیتے ہوئے فرمایا: بہت سے افراد اس سوال کا واضح جواب نہیں دے سکے یا ان کی نظر میں اس کا جواب منفی تھا انہوں انقلابی اصولوں سے پیجھے ہٹتے ہوئے اعلان کیا: سرکش طاقتوں کے مقابلے میں کچھ نہیں کیا جاسکتا لہذا پیچھے ہٹ جانا چاہیے ۔
رہبر معظم نےاس کے بعدگذشتہ تین دہائیوں کے دوران ایرانی قوم کی توانائیوں سے متعلق تجربات کو مذکورہ سوال کا جواب ڈھوڈھنے کےلیے اصلی بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا: موجودہ متعدد اور فیصلہ کن تجربات کے مد نظر یقینی طور سے کہا جا سکتا ہے کہ ایرانی عوام اسلام کی دی ہوئی طاقت کے ذریعہ تسلط پسند محاذ کا مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ اس سے بھی مضبوط محاذ جیت سکتے ہیں ۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تسلط پسندطاقتوں کے مدمقابل کامیابی کے امکان کوثابت کرنے والے تجربات کاذکر اور ستمگر شہنشاہی حکومت اور اسکے حامیوں کے مقابلے میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : امریکہ نواز شاہی طاغوتی حکومت کا غور سے تجزیہ کرنے بعد معلوم ہوجاتاہے کہ ہتھیاروں سے مسلح حکومت پر انقلاب اسلامی کی کامیابی ایک معجزہ تھا جو اسلام پر عوام کے اعتمادکی برکت سے وقوع پذیر ہوا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدامی بعثی حکومت کے مد مقابل جنگ میں ایرانی عوام کی فتح کو دوسرا ایسا تجربہ قراردیا ، جس کی روشنی میں عالمی تسلط پسندطاقتوں کو چیلنج کرنے میں اسلامی نظام کی کامیابی کی پیشنگوئی کی جاسکتی ہے ۔
آپ نے مزیدفرمایا : آٹھ سالہ دفاع مقدس کے حقائق گویا ہیں کہ مشرق و مغرب کی تسلط پسند طاقتیں اور انکے پٹھو صدام کے پیچھے پیچھے اسلامی نظام کے مدمقابل صف آرا ہوگئے تھے لیکن ایران کی عظیم قوم نے اس ظاہری طاقتور اتحاد کو شکست سے دوچار کردیا اور صدام اور اسکے حامیوں کو ایرانی سرزمین سے باہر نکال دیا ۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے" جمہوری اسلامی ایران کی بقا،اسکی روز بروز بڑھتی ہوئی طاقت " اور علاقائی اورعالمی سطح پر ایران کے مؤثر کردار میں اضافہ کو اقوام عالم اور تسلط پسندطاقتوں کے درمیان مقابلہ کا ایک اور گرانقدر تجربہ قرار دیتے ہوئےفرمایا: جمہوری اسلامی ایران دشمنوں کی طرف سے مختلف اور مسلسل دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود علمی، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، اور اجتماعی میدان میں دن بدن ترقی و پیشرفت کی جانب گامزن ہے اور یہی حقیقت تسلط پسندطاقتوں کو چیلنج کرنے میں قوم کی حتمی کامیابی کی خوشخبری دیتی ہے۔
رہبر معظم نے اس ضمن میں ایران کے جوان سائنس دانوں کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں پیشرفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تمام با اثر ممالک کوشش کرتے رہے کہ ایران ایٹمی ٹیکنالوجی کی واحد چار دیواری کے قریب نہ پہنچنے پائے لیکن ایرانی قوم اقتصادی پابندیوں کے باوجود آج اس پیشرفتہ ٹیکنالوجی کی مالک بن گئی ہے اور کوئی بھی طاقت کسی بھی صورت میں اسے ہم سے چھین نہیں سکتی۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اقوام عالم خصوصا مسلم اقوام کے درمیان اسلامی انقلاب کی بہتر پوزیشن اور مسلم اقوام کی بیداری کو ایک اور ایسا تجربہ اور حقیقت قرار دیا جو بلاتردید عالمی تسلط پسند طاقتوں کے مقابلہ میں اسلام کی کامیابی کی نشاندہی کرتا ہے
آپ نے صہیونی فوج سے 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی فتح کو عظیم اسلامی طاقت کی ایک علامت اور ایک عجیب عبرت قرار دیا اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی حکومت کے روز بروز بگڑتے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: علاقہ میں تمام امریکی منصوبے ناکام ہوگئے ہیں امریکہ کوعراق ، لبنان اور افغانستان میں سخت ناکامی کا سامنا ہے اور مشرق وسطی میں بڑےشیطان کی اسٹریٹجیک پالیسیوں کی ناکامی مزید واضح تجربات ہیں جو مجموعی طور پر اس بات کی دلیل ہیں کہ اگر ایرانی قوم اور اسلامی نظام کے حکام اپنے ایمان، شادابی اور امیدوں کی حفاظت کریں تو عمل صالح، درست پالیسی اور مسلسل جد وجہد و محنت کے ذریعہ عالمی تسلط پسند نظام کو چیلنج کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے اختتام پر ملک کے سفارتی حکام کو اس ملاقات میں بیان کئے گئے مطالب پر غور کرنے اور انھیں عملی جامہ پہنانے کی دعوت دیتے ہوئےفرمایا: خدا پر بھروسہ، خود سازی، عاقلانہ اور مفکرانہ منصوبہ سازی اور درست اقدامات کے ذریعہ جمہوری اسلامی کے سفارتی اہداف یعنی ایران کے قومی مفادات تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔
اس ملاقات کے آغاز میں وزیر امور خارجہ منوچہرمتکی نےسفارتی حکام کی حالیہ میٹنگ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: علاقہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں حکام کا صحیح تجزیہ اور سفارتخانوں کے درمیان باہمی ہم آہنگی کی وجہ سے علاقہ میں ایران بہتر اور موثر پوزیشن میں ہے۔
وزیر خارجہ نے تعلقات کو فروغ دینے کی پالیسی برقرار رکھنے، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں خارجہ تعلقات کو مضبوط بنانے، ایرانی ماہرین کی عملی توانائیوں کو متعارف کرانے، غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے ، اسلامی یکجہتی کا موضوع پیش کرنے ، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے ، اور ملک سے باہر مقیم ایرانیوں کے مسائل حل کرنے کی کوششوں کو وزارت خارجہ کے اہم کارناموں کے طور پر پیش کیا۔
جناب متکی نے ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے ہمراہ ملک کے جوہری حقوق کی حفاظت کے سلسلے میں وزارت خارجہ کی جانب سے کی جانے والی سفارتی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مسلسل سیاسی کوششوں اور عالمی رائے عامہ ہموار کرنے سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ دشمن ایران کے مسلمہ حقوق سے انکار نہ کرسکے ۔
700 /