رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے بدھ کی صبح شہدائے سانحہ منیٰ اور مسجد الحرام کے اہل خانہ سے ملاقات میں اس سانحے میں آل سعود کی کوتاہی اور نااہلی کو اس شجرہ ملعونہ خبیثہ کی جانب سے حرمین شریفین کے تصرف اور اسکے انتظام و انصرام میں ایک بار پھر ناتوانی کے اثبات پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر وہ سچ کہتے ہیں کہ وہ اس سانحے کے سلسلے میں بے قصور ہیں تو اس بات کی اجازت دیں کہ ایک بین الاقوامی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی اس سانحے کی سنجیدہ اور تفصیلی تحقیقات انجام دے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شہدائے منیٰ اور مسجد الحرام کے اہل خانہ سے ملاقات کو گذشتہ سال وقوع پذیر اس المناک سانحے کی یاد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ منیٰ کا سانحہ اور عبادت کی حالت میں اور سورج کی تپش میں تشنہ لب ایرانی حاجیوں کی شہادت ایک نہایت غمگین اور نا قابل فراموش سانحہ ہے۔ البتہ اس سانحے نے سیاسی، سماجی، اخلاقی اور مذہبی حوالے سےگوناگوں زاویے برملا کر دیئے ہیں جنہیں فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ گذشتہ سال اہل خانہ کو ان کے عزیزوں کی شہادت کی خبر ملنا اور ان کے جنازوں کی وطن واپسی ایک انتہائی سخت مرحلہ تھا لیکن اس مصیبت کے مقابلے میں اس حقیقت کی جانب توجہ کہ ہمارے وہ عزیز دوسرے شہدا کی مانند خداوند متعال کی رحمت، مغفرت اور نعمات کے زیر سایہ ہیں انکے اہل خانہ کے لئے تسلی بخش امر ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس کے بعد خانہ خدا میں سانحہ منیٰ کے دوران سات ہزار سے زیادہ زائرین کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات پر کڑی تنقید کی کہ مختلف ممالک اور حکومتوں نے کیوں اس عظیم اور اندوہناک سانحے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا؟
آپ نے حکومتوں حتیٰ علماء، سرگرم سیاسی افراد، عالم اسلام کی روشن فکر اور برجستہ شخصیات کی جانب سے سات ہزار زائرین کی شہادت پر خاموشی اختیار کرنے کو اسلامی امت کی عظیم مصیبت قرار دیا اور فرمایا کہ منیٰ جیسے دلسوز اور عظیم سانحے کو اہمیت نہ دینا عالم اسلام کی حقیقی مصیبت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سعودی حکام کی جانب سے زبانی معذرت بھی نہ کئے جانے کو انتہائی قبیح اور بے شرمانہ اقدام قرار دیا اور فرمایا کہ حتیٰ اگر یہ واقعہ عمدی نہ بھی ہو تب بھی ایک سیاسی اور حکومتی مجموعے کی جانب سے عدم منصوبہ بندی اور نااہلی کو جرم شمار کیا جائے گا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شہدائے منیٰ کے اہل خانہ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ جب ایک حکومت حتی مہمانان خدا کہ جو اس کے لئے آمدن کا زریعہ ہیں کے انتظامات نہیں کرسکتی تو کیا ضمانت ہے کہ اس سے مشابہت رکھنے والے ایام میں منیٰ جیسا واقعہ دوبارہ پیش نہیں آئے گا؟
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ ملت ایران آل سعود کی جہالت اور گمراہی کے سامنے پوری شجاعت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے اور اپنے قرآنی اور برحق مواقف کو نہایت فخر اور صراحت کے ساتھ بیان کرے گی اور دوسرے ممالک اور اقوام کو بھی چاہئے کہ وہ پوری شجاعت کے ساتھ سعودیوں کا گریبان پکڑیں۔
آپ نے فرمایا کہ سعودیوں کی نا اہلی اور ان کی جانب سے خانہ خدا کے حجاج کرام پر مسلط شدہ عدم تحفظ کی صورتحال نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ حکومت حرمین شریفین کے انتظام و انصرام کے قابل نہیں ہے اور اس حقیقیت کی عالم اسلام میں ترویج کی جانی چاہئے اور اسے رائج ہونا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے سانحہ منیٰ کا دوسرا پہلو انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کی جانب سے مرگبار خاموشی کو قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والے اداروں کی جانب سے بعض ملکوں میں عدالتی احکامات کے اجرا پر سیاسی اور تشہیراتی شور شرابہ کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک حکومت کی جانب سے اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے پر کوتاہیوں اور ساتھ ہزار مظلوم اور بے گناہ افراد کی شہادت پر سکوت محض نے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے جھوٹے چہرے کو آشکارا کردیا ہے اور جنہوں نے بین الاقوامی اداروں سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اس تلخ حقیقت سے درس عبرت حاصل کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی ممالک اور انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والے اداروں کی جانب سے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دیئے جانے کو ایک واجب اور ضروری امر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس اندوہناک سانحے کو ایک سال گذرنے کے باوجود اب بھی اس سلسلے میں موجود سمعی، بصری اور تحریری دستاویزات اس سانحے کی حقیقت کو بہت حد تک سامنے لے آئیں گے۔
آپ نے ملکی عہدیداروں کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کے لئے سنجیدگی سے اقدامات انجام دینے کی تاکید کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ آل سعود اگر سانحہ منیٰ کے سلسلے میں اپنی بے گناہی پر مطمئن ہے تو وہ لوگوں کا منہ پیسے دے کر بند نہ کرے اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو اس مسئلے کی تفصیلی جانچ پڑتال کرنے دے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں سانحہ منیٰ میں سعودی حکومت کے حامیوں کو شریک جرم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بے شرم سعودی حکومت امریکی پشت پناہی کی وجہ سے مسلمانوں کے سامنے بے شرمی کے ساتھ کھڑی ہے اور یمن، شام، عراق اور بحرین میں خون بہا رہی ہے، بنا بر ایں امریکہ اور ریاض کے دوسرے حامی ممالک سعودیوں کے جرم اور جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اغیار سے وابستہ بعض تشہیراتی اداروں کی جانب سے سانحہ منیٰ کے جرم کو شیعہ سنی یا عرب و عجم کے اختلافات کا نمونہ قرار دینے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سعودی حکام کے حامی ایسے عالم میں اپنے کھلے جھوٹ کی تکرار کر رہے ہیں کہ جب سات ہزار شہدائے منیٰ میں سے اکثر افراد من جملہ ایرانی شہداء کی ایک بڑی تعداد کا تعلق اہل سنت سے ہے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ آل سعود اور انکے دست پروردہ جلاد دہشتگرد یمن، شام اور عراق میں عرب عوام کو خاک و خون میں غلطاں کر رہے ہیں بنا بر ایں مغربی ممالک کی خباثت بھری تشہیرات کے برخلاف سعودی حکام عربوں کے حامی نہیں اور سانحہ منیٰ کا عرب اور غیر عرب کی لڑائی سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اس واقعے کی حقیقیت یہ ہے کہ منفور سعودی، اسلام کے اندر ایک گروہ ہیں کہ ان میں سے بعض دانستہ اور بعض نا دانستہ طور پر مسلمانوں کے ساتھ دشمنی میں مصروف ہیں اور عالم اسلام کو چاہئے کہ انکے مقابلے میں قیام کر کے سعودیوں کے آقائوں یعنی امریکہ اور خبیث برطانوی حکومت سے برائت اور بیزاری کا اعلان کرے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے آخری حصے میں مخلتف اداروں من جملہ وازرت خارجہ، بعثہ، ادارہ حج اور شہید فائونڈیشن کو منیٰ کے عظیم سانحے کے مقابلے میں اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر اور سنجیدگی کے ساتھ ادا کرنے کی نصیحت فرمائی۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے ادارہ حج و زیارات میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے حجت الاسلام والمسلمین قاضی عسکر نے شہدائے 8 ستمبر ۱۹۷۸، سن ۱۹۸۷ کو مکہ کے خونی جمعے اور گذشتہ سال حج کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ منیٰ اور مسجد الحرام جیسے دو سانحوں کی وجہ سے حج کی مٹھاس تلخی میں تبدیل ہوگئی جس نے بہت سارے گھرانوں کو سوگ میں مبتلا کر دیا۔
حجت الاسلام والمسلمین قاضی عسکر نے سعودی حکام کی جانب سے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل نہ دیئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بعثہ مقام معظم رہبری اور ادارہ حج اس سانحے کے متاثرین اور عینی شاہدین کے انٹرویوز ریکارڈ کر رہا ہے اور قانونی ماہرین کے تعاون سے اس نے عالمی اداروں کے زریعے اس سانحے کی تحقیقات کے مراحل تک رسائی حاصل کر لی ہے اور یہ ادارہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے گا کہ سانحہ منیٰ کو فراموشی کے سپرد کر دیا جائے۔
ولی فقیہ کے نمائندے اور شہید فائونڈیشن کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین شہیدی نے بھی منیٰ اور مسجد الحرام کے سانحے کی یاد منانے والے ادارے کی سرگرمیوں اور اقدامات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ منیٰ کا اندوہناک سانحہ آل سعود کی نا اہلی اور بدانتظامی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا۔