رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے (بروز بدھ) صبح صدرمملکت اور کابینہ کے ساتھ ملاقات میں حکومت کی کارکردگیوں اور کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے، عوام کے سامنے انجام شدہ کاموں کی رپورٹ پیش کرنے کے لئے ہفتہ حکومت کو ایک بہت مناسب موقع شمار کیا۔ اور استقامتی معیشت، خارجہ سیاست، سائینس و ٹیکنالوجی، سیکوریٹی اور امن، ثقافت، چھٹے پروگرام، سائیبر اسپیس جیسے میدانوں سے متعلق نکات کو سات مختلف فصلوں میں بیان کیا اور ان کو آنے والے سالوں میں گیارہویں حکومت کے ترجیحی پروگراموں میں سے قرار دیا۔
رہبر انقلاب نے ہفتہ حکومت کی مبارک باد پیش کی اور اس مناسبت سے شہید رجائی اور شہید باہنر کو مخلص، کام کرنے والا، اور عوام کی حامی شخصیات قرار دیا اور منافقین کا، جو اس جرم کے ذمہ دارتھے، صفایا کرنے کی کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: افسوس کہ کچھ لوگ ان مجرمین اور ظالم منافقین کے لئے جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں عوام، اہلکاران اور برجستہ شخصیات کو شہید کیا تھا، مظلومیت کی فضا قائم کرکے امام مرحوم رہ کے نورانی چہرے کو داغدار کرنا چاتے ہیں لیکن یہ خبیث اور مفاد پرست عناصر کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکیں گے اور ہمیشہ کی طرح ناکامی ہی ان کا مقدر ہوگی۔
حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے اس کے بعد صدر مملکت اور کابینہ کی کارکردگیوں سے متعلق پیش کی گئی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ رپورٹیں بہت اچھی ہیں انہیں عوام کو بھی بتایا جائے کیوں کہ ہمارا اصلی سرمایہ ہماری عوام، ان کا بھروسہ اور امید ہے۔
آپ نے مختلف مسائل کی وسعت، توقعات اور دیگر مشکلات کے پیش نظر مجریہ اور نفاذی جماعت کے ذریعہ حکومت چلانے کو ایک سخت اور مشکل کام قرار دیا، اور اس حکومت کے بہت جلدی گذر جانے والے ان تین سالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آئیندہ ایک سال میں کام اور کوشش کے لئے حکومت کو منصوبہ بندی اور سنجیدگی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کام انجام دینے چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حکومت کو غیرضروری باتوں خصوصا انتخاباتی بحثوں میں جو کہ آئندہ چند مہینوں میں ہونے والے ہیں ، سے دور رہنے کی تاکید کی ۔ آپ نے مزید فرمایا کہ کسی بھی صورت میں انتخاباتی سرگرمیوں میں مصروف نہیں ہونا چاہئے بلکہ آخری دن تک کام کرنا چاہئے اور مشکلات اور مسائل کے حل کے لئے منصوبہ بندی کرنا چاہئے، اور برسر اقتدار حکومت کے لئے بہترین تبلیغ اس کے کام اور کارکردگیاں ہیں۔
آپ نے ہفتہ حکومت کو عوام کی طرف سے، موجودہ حکومت کی کارکردگیوں کو منصفانہ طور پر تشخیص دینے کے لئے بہترین موقع قراردیا۔ اور فرمایا کہ تنقید میں کوئی نقصان نہیں ہے لیکن تنقید منصفانہ ہو اور اس کے ساتھ صحیح راہ حل بھی پیش کیاجائے۔
حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے مقدماتی نکات بیان کرنے کے بعد، سات فصلوں پر مشتمل ملک کے ترجیحی امور اور ان کو انجام دینے میں گیارہویں حکومت کے کردار کو بیان کیا۔
رہبر انقلاب نے ’’اقتصادی مسائل اور استقامتی معیشت کی سیاست کے نفاذ‘‘ کو پہلی فصل کے طور پر بیان کیا، اور فرمایا کہ آج ملک کی سب بڑی مشکل اقتصاد اور معیشت ہے، جسے حل ہونا چاہئے، اور اس کا حل استقامتی معیشت کی سیاست کے صحیح اور مناسب نفاذ پر منحصر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صدر مملکت کے مشیر کی رپورٹ کی تعریف کی اور خاص طور پر استقامتی معیشت کی کمان کے اقدامات اور فعالیتوں کو سراہا اوراس کے پروگرام کو سنجیدگی کے ساتھ مرحلہ بہ مرحلہ اس کے نتیجہ تک پہونچانے پر تاکید کی۔ اور فرمایا کہ استقامتی معیشت کی کمان کو تمام وسیع اور سنگین اقتصادی فعالیتوں پر نظر رکھنی چاہئے، چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری۔ یہ تمام فعالتیں اقتصادی معیشت کی سیاست کے ساتھ ہونی چاہئے۔
آپ نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر اس قسم کی سرگرمیوں اور معیشتی پروگراموں کی روک تھام کی جائے جو استقامتی معیشت کی سیاست کے مخالف ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے استقامتی معیشت کی سیاست کے نفاذ کے لئے ملک کی زراعت اور صنعت جیسی تمام چیزوں کو میدان میں لانے کی تاکید کی اور فرمایا کہ استقامتی معیشت کی سیاست کو عملی ہونے کے لئے ایک ضروری امر ڈائیلاگ ہے یعنی ذمہ داران کی طرف اس سیاست اور اس کے مثبت اثرات کی وضاحت کی جائے۔
حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے گذشتہ سالوں میں ملک میں علمی تحریک اور ہوائی فضا، نینو، جوہری توانائی اور فضائیات کے میدان میں ہونے والی ترقیات کو گذشتہ ۱۲ سالوں میں علمی حرکت اور سافٹ وئیر کی تحریک کی صحیح وضاحت کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ استقامتی معیشت کے مسئلے میں بھی عوام کے سامنے اس قسم کی وضاحت کی جائے۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ استقامتی معیشت کی سیاست کے نفاذ کے لئے حکومت کےعام معیشتی پروگراموں سے زیادہ بڑے اقدامات کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ استقامتی معیشت کی سیاست کو عملی کرنے کے لئے عام اور معمول سے ہٹ کر کسی نئی تبدیلی والے اقدام کی ضرورت ہے۔
حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے ’’صوبوں کو فیصلے کا اختیار دینے‘‘، ’’پیداوار اور صنعت کے لئے بینک کی سہولیات اور نقد رقم دینے‘‘، ’’ دیہاتوں اور تبدیلی لانے والی صنعتوں پر توجہ‘‘، ’’برآمد کی ترغیب‘‘ اور ’’زراعتی پیداوار کی قیمتوں کی وقت پر ادائیگی‘‘ جیسے امور کو منجملہ استقامتی معیشت کو عملی کرنے والے ممکن اور بنیادی اقدامات قرار دیا۔
انہوں نے نوکر شاہی اور صنعتی اور تاجر افراد کے لئے سخت قواںین کو استقامتی معیشت کی سیاست کے عملی ہونے کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا اور کہا: استقامتی معشیت کے تحقق کے لئے نالج بیسڈ کمپنیوں کی حمایت ضروری ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ نالج بیسڈ کمپنیوں کے وہ منصوبے جن کا استعمال ملکی صنعت کے کاموں میں کیا جاسکتا ہے،تو ان کاموں کے لئے غیر ملکی کمپنیوں کو نہ لایا جائے۔
حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے دوسری فصل یعنی خارجہ سیاست میں اشارہ کیا کہ خارجہ سیاست روحانی صاحب کی حکومت کی ترجیحات میں سے ایک رہی ہے، آپ نے فرمایا کہ میں اس بات سے متفق ہوں اور ہمیشہ سے خارجہ سیاست کا حامی رہا ہوں، لیکن خارجہ سیاست کی قوت کو مناسب اور موزوں طریقہ سے دنیا میں جاری کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایشیا، افریقہ، لاتینی امریکہ سب کو ملک کی خارجہ سیاست میں اپنا تعاون کرنا چاہئے۔
آپ نے خارجہ سیاست کے سلسلے میں سرگرم موقف اختیار کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ علاقے کے مسائل بہت ہی پیچیدہ اور کشیدہ ہیں لہذا ان سے نمٹنے کے لئے بہت ہوشیاری، دقت نظر، فعال اور مؤثر موقف کے ساتھ میدان میں اترنے کی ضرورت ہے۔
حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے خارجہ سیاست سہولیات اور گنجائش کو معیشت کی ترقی کے لئے استعمال کرنے پر زور دیا۔
رہبر انقلاب نے خارجہ سیاست میں ظاہری سلوک اور تعلقات پر بھروسہ نہ کرنے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ڈپلوسی میں صرف وہی موارد قابل اعتماد ہیں جو پختہ ، مستحکم، مسلم، دستخط شدہ اور قابل احتجاج ہوں۔
انہوں نے جوہری توانائی کے سلسلے میں ہونے والے معاہدے میں امریکیوں کی بے ایمانی سے تجربہ اور درس لینے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تجربہ ہم کو یہ سکھاتا ہےکہ امریکہ میں برسر اقتدار آنے والی کسی بھی حکومت پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور ان کے وعدے کے مقابلے میں کسی تنقید کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فرمایا کہ جوہری توانائی کے معاہدے کے سلسلے میں میری تنقید کا تعلق امریکہ کی خیانت اور خباثت سے ہے نہ کہ خود اپنی حکومت سے اور ہم حکومت کی ان زحمتوں کی قدر کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب نے اپنی تیسری فصل کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے عنوان سے پیش کیا اور حکومت کا روڈ میپ قرار دیا اور فرمایا کہ ملکی ترقی لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے اور گذشتہ سالوں میں اس میدان میں ترقی کے بہت ہی اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔
حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے گذشتہ چند سالوں میں علمی حرکت کی دھیمی رفتار پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں علمی حرکت کی رفتار بہت تیز ہے اور دنیا کی علمی پیشرفت کی رفتار کے مقابلے میں ہماری رفتار بہت ہی دھیمی ہے، چنانچہ اس عقب ماندگی سے نجات پانے کا راستہ اپنی علمی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ملک میں علمی ترقی کی وضاحت کرتے رہنا چاہئے اور اسے رکنا نہیں چاہئے۔
آپ نے یونیورسٹیوں کی بجٹ کو بڑھانے، موجودہ بجٹ کو مکمل طور پر ادا کرنے اور صنعت اور پیداروار پر تاکید کی۔
رھبر انقلاب کی چوتھی فصل کا عنوان سیکورٹی اور امن تھا۔
حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فرمایا کہ خدا کے لطف و کرم اور فوج اور سیکورٹی کی قابل تحسین کوششوں کی وجہ سے آج ہمارے ملک کے پاس ایک مستحکم حفاظتی سپر ہے جبکہ علاقے کے ممالک نا امنی اور حادثات سے دچار ہیں۔
آپ نے عوام کے انقلابی اور مذہبی جذبے کو ملک کی اس مستحکم سپر کا ایک اصلی عنصر قرار دیا اور فرمایا کہ کبھی بھی ملک کی اس دفاعی دیوار میں رخنہ نہیں پیدا ہونا چاہئے۔
رھبرانقلاب نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کی فوج اور سیکورٹی ملک کی مستحکم سپر کا ایک اور عنصر ہے، فرمایا کہ ہمیشہ اس شعبے کی مدد اور اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔
حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے ملک کے دفاعی وسائل اور ساز و سامان کو ملک کی مستحکم سپر کا تیسرا عنصر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن ملک کی دفاعی اور فوجی مضبوطی کو دیکھ کر پریشان ہورہا ہے؛ لہذا ملک کی دفاعی طاقت کو بڑھانے میں مدد اور اس کی حمایت کی جائے۔
آپ نے مسئلہ ثقافت کو اپنی گفتگو کی چوتھی فصل قرار دی اور اس کو ملک کے بہت اہم ترجیحی امور میں سے قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ثقافت، کا انحصار ادب، فن، طرز زندگی اوراجتماعی اعمال و اخلاق پر ہے۔ اور ان تمام شعبوں کی ذمہ داری ثقافتی مراکز کی ہے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ میں ثقافت کے مسائل میں خود رائے، دباؤ ڈالنے اور تنگ نظری کا طرفدار نہیں ہوں بلکہ میں آزادانہ سوچ پر اعتقاد رکھتا ہوں لیکن اس آزادانہ سوچ کا مطلب لاپروائی اور دشمن کو نقصان پہنچانے کی اجازت دینا نہیں ہے۔
حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ملک میں مؤمن اور انقلابی جوانوں کے توسط سے انجام پانے والے بہترین اور مفید کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ کیوں ایسے تھیٹر اور فلمیں بنائی جائیں جو ان جوانوں کے ایمان کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیں۔
رہبرانقلاب نے ثقافتی مراکز کی کار کردگیوں کو دفاعی اور غیر دفاعی دونوں ہی سطحوں میں کمزور قرار دیا اور ثقافت کے متنوع شعبوں کی اہمیت کو بیان کرنے اور اسی طرح ثقافتی شخصیات کے ماضی اور ان کے جذبات پر نگاہ رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایاکہ کیا ثقافتی امور کے ذمہ داروں کو ان لوگوں کو جنہوں نے ساری عمر انقلاب اسلامی اور دین کی خدمت میں صرف کردی اس شخص پر ترجیح نہیں دینی چاہئے جس نے مذہب اور انقلاب کی راہ میں ایک قدم بھی نہیں بڑھایا بلکہ اس کا نقصان بھی کیا؟
حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے اس موضوع پر اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ثقافت میں منصفانہ پروگرام کے ساتھ آزاد فکری ہونی چائے اور رہنمائی اور تعاون کے ذریعہ ثقافتی مشکلات کو برطرف کیا جانا چاہئے۔
ملک کی ترجیحات اور حکومت کے روڈ میپ کی چھٹٰی فصل کا عنوان چھٹے پروگرام کی اہمیت، اس کی توسیع اور اس کو جلد از جلد حتمی شکل دینا تھا۔
آپ نے چھٹے پروگرام کو پیش کرنے میں تاخیر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ توسیعی پروگرام، کی وجہ سے ھماھنگی اور ہم کاری وجود می آتی ہے، اور اس طرح سب زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں اور یکجہتی کے ساتھ ملک کو اس کی معینہ منزل تک پہونچاتے ہیں۔ لہذا چھٹے پروگرام کو پیش کرنے میں جلدی کریں تاکہ کام اس سے زیادہ رکا نہ رہے۔
حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنی سفارشات کا ساتواں عنوان سائیبر اسپیس کو قرار دیا اور فرمایا؛ سائیبر اسپیس ترقی کی طرف بڑھتی ایک دنیا ہے، وہ بہت وسیع اور نہ رکنے والی ہے لیکن فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے بہت بڑے نقاصانات بھی سامنے آسکتے ہیں۔
آپ نے سائیبر اسپیس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے اور اس کے خطرات کو دور کرنے پر تاکید کی اور سائیبر اسپیس کونسل کی تشکیل کا مقصد بھی اسی کو قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ قومی انفارمیشن نیٹورک بنانے اور اس کو عملی کرنے میں جلدی کی جائے۔
رہبر انقلاب نے اپنی گفتگو کے آخر میں غیر قابل یقین تنخواہوں کی طرف اشارہ کیا۔
حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اس مسئلے سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے، فرمایا کہ اس مسئلے سے عوام کے اعتماد کو بہت ٹھیس پہونچی ہے، کیوں کہ تعلیم یافتہ عوام اور جوان اپنی تںخواہ کا اس غیر منصفانہ تنخواہ سے موازنہ کرتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں کہ کس معیار، کس خصوصیت اور کس خاص کارنامہ کی وجہ سے تنخواہوں میں اس قدر فرق ہے؟
آپ نے تمام مراکز میں تںخواہ کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے مصمم ارادہ اور پرعزم ہوجانے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایاکہ ضروری اور مناسب موارد میں عدلیہ کو بھی میدان میں آکر خلاف ورزی کرنے والے افراد کے ساتھ سختی سے پیش آنا ہوگا۔
اس ملاقات کی ابتدا میں روحانی صاحب نے اپنی رپورٹ میں استقامتی معیشت کی اہمیت کے پیش نظر حکومت کے اقدامات کی تاکید کی اورگذشتہ تین سالوں میں، معیشتی استحکام اور اطمینان کو حکومت کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا۔ اور انہوں نے امید ظاہر کی اس سال کے آخر تک معیشتی ترقی میں پانچ فیصد تک اضافہ ہوجائیگا۔ حکومت کی اس ایک اور کامیابی کو قومی صنعت کی ترقی قرار دیتے ہوئے کہاکہ تیل اور گیس کی برآمدات ایک ملین ۲لاکھ ۳۰ ہزار فی بیرل، سے دو ملین ۵ لاکھ ۷۹ ہزار فی بیرل تک پہونچ گئی ہے۔ اور اسی طرح انہوں نے بتایا کہ تیل کی پیدا وار ۲ ملین ۷ لاکھ فی بیرل سے بڑھ کر ۳ ملین ۸ لاکھ ۵۰ ہزار فی بیرل ہوگئی ہے۔
صدر روحانی نے زراعت کے میدان میں ساڑھے پندرہ فی صد ترقی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس سال گیہوں کی پیداوار میں ہم خود کفا ہوگئے اور ملک کے گودام میں ۱۴ ملین ٹن گیہوں اضافہ ہوگیا اور ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
صدر مملکت نے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں ۴۵۷ کلومیٹر ریلوے لائین بچھادی گئی ہیں اور ۷۰۰ کلومیٹر بچھائی جانے والی ہیں۔
انہوں ۲۵۰۰ نالج بیسڈ اداروں کی سرگرمیوں اور ان کو سہولیات فراہم کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نالج بیسڈ اداروں کے توسط سے ۴۰ ہزار روزگار کے مواقع فراہم کئے گئے۔
صدر روحانی نے معیشتی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، بے روزگاری کو سب اہم مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ بے روزگاری کی مشکل کو ختم کرنے کے لئے ہم کو سال میں ایک ملین افراد کے لئےروزگار پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر مملکت نے، بینکوں کو حکومت کی طرف سے قرضہ، پانی کے کمی، ماحولیات کے میدان میں بڑی مشکلات، وسائل کا صحیح استعمال نہ ہونا، بجٹ کے ذرائع اور مصرف میں عدم توازن، تیل کی آمدنی اور آمدنی کے ذرائع میں کمی اورپینشن فنڈ کی مشکلات جیسے دیگر مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ملک کے تمام اداروں اور حکومتی اراکین کو ملکر مدد کرنی چاہئے تاکہ ہم ایک نظر ہوکر ان مشکلات سے نکل سکیں۔
اس ملاقات میں نائب صدر اسحاق جہانگیری نے بھی استقامتی معشیت کی کمان میں منظور ہونے ۱۲۰ پروگراموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام وزارت خانوں، مراکز اور صوبوں میں استقامتی معیشت کی سیاست اور پروگراموں پر بہت ہی سنجیدگی اور منظم طریقہ سے عمل در آمد ہورہا ہے۔
اس ملاقات میں مختلف وزرائے مملکت نے اپنے اپنے شعبوں کی کارکردگی رپورٹ بھی پیش کی۔
ملاقات کا اختتمام رہبر انقلاب اسلامی کی اقتدا میں نماز ظہر و عصر کے ساتھ ہوا۔