ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی سے طلبہ تنظیموں کے اراکین کی ملاقات

طلبہ تنظیموں کو رہبر انقلاب اسلامی کی بارہ اہم نصیحتیں

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای سے ہفتے کے شام ایک ہزار سے زیادہ طالبعلموں من جملہ مختلف طلبہ تنظیموں کے نمائندوں نے تقریبا پانچ گھنٹے جاری رہنے والی اپنی بے تکلف ملاقات میں نوجوان طالبعلم نسل کے ثقافتی، اجتماعی، سیاسی اور اقتصادی مسائل سے متعلق گفتگو کی اور طالبعلموں، یونیورسٹیوں کے مسائل اور ملک کو درپیش مختلف مسائل اور موضوعات اور ملت کی استقامت کے سلسلے میں طالبعلموں کی ذمہ داریوں سے متعلق رہبر انقلاب اسلامی کے نظریات ان ہی کی زبانی سماعت کئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آغاز میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ماہ مبارک رمضان میں طالبعلموں سے ملاقات بہت زیادہ مطلوب اور شیریں ہے فرمایا کہ اس ملاقات میں جو بہت مختلف اور گوناگوں مطالب بیان کئے گئے ہیں وہ بہت اچھے اور لذت بخش تھے اور طالبعلم طبقے کی فکری سطح اور انکے مطالبات کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور یہ اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ طالبعلموں کے درمیان انقلابی نظریات، روشن فکری اور دلائل پیش کرنے کی صلاحیت میں چشمگیر اور روزافزوں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
آپ نے طالبعلموں کو قرآن اور دعاوں سے انسیت پیدا کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ طالبعلموں سے میری اصل گفتگو ایمان کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں ہے کیونکہ صرف مضبوط اور قوی ایمان کے زریعے ہی مشکلات اور مسائل کے مقابلے میں جدوجہد اور مجاہدت کی جاسکتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کی موجودہ حساس اور خاص صورتحال کو پیغمبر اکرم ص کے زمانے میں ہونے والی جنگ احزاب کے زمانے سے بہت زیادہ شباہت کی حامل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آج بھی نیز عالمی استکبار اور دنیا پرستوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سامنے صف آرائی کی ہوئی ہے اور اس ملک پر ہر طرف سے حملے کر رہے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ ایسی صورتحال میں وہ لوگ کہ جن کا ایمان ضعیف ہے اور شاید اندورنی طور پر دشمنوں کی جانب مائل ہیں وہ مایوسی، نا امیدی اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن مستحکم ایمان کے حامل افراد اپنے قوی عزم و ارادے کے ساتھ استقامت دکھاتے ہیں چاہے شرائط اس سے کہیں زیادہ سخت کیوں نہ ہوجائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ استکباری محاذ کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے شائستہ عزت و شرف تک پہنچ جائیں تو ہمیں اپنے انفرادی اور عمومی کردار میں تقویٰ و پرہیزگاری کی حفاظت اور اسکی تقویت کرنا ہوگی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے با ایمان قوموں کی آئندہ نسلوں کے انحطاط کے بارے میں بعض قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ نماز کو ضائع کرنا اور شہوات کی پیروی، استقامت اور جدوجہد کے انحطاط اور اسکے ضعیف ہونے کے دو اصلی عوامل ہیں۔
آپ نے مزید فرمایا کہ طالبعلموں کی مخلوط پکنکوں کے انعقاد نہ کئے جانے پر میری جانب سے حکام کو تاکید اسی وجہ سے ہے کیونکہ شرعی حدود کی مراعات نہ کرنے سے باطنی ایمان ضعیف ہوجاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے استقامت میں ایمان کے کردار کو بیان کرنے کے بعد استکباری محاذ سے ملت ایران کے نتیجہ خیز اور ناگزیر مقابلے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مقابلے کا آغاز اس وقت ہوا جب ملت ایران نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آزاد اور ترقی یافتہ زندگی گذاریں گے اور یہ بات دنیا پر مسلط بڑی طاقتوں کے فائدے میں نہیں ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بعض افراد کی اس بات کو سطحی اور بغیر سوچے سمجھے بات کئے جانے سے تعبیر کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران بڑی طاقتوں سے عدم اعتماد کی فضا قائم کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس مقابلے کے لئے کسی بہانہ کی ضرورت نہیں کیونکہ جب تک ایرانی قوم اپنی غیرت، انقلاب اور اسلام کے حوالے سے اپنے درخشاں ماضی کی بنیاد پر استقامت دکھاتی رہے گی، یہ مقابلہ موجود رہے گا اور اسکے خاتمے کے لئے بھی صرف دو ہی راستے موجود ہیں یا اسلامی جمہوریہ ایران اتنی توانائی اور طاقت حاصل کر لے کہ فریق مقابل کو مداخلت کی جرات ہی نہ رہے یا یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی شناخت کھو بیٹھے اور ایک بے جان وجود کی مانند باقی رہ جائے۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اس مقابلے اور جدوجہد کے خاتمے کے لئے ملت ایران کے مورد نظر پہلا راستہ یعنی مکمل اقتدار کا حصول ہے، فرمایا کہ البتہ آج شاید امریکی سیاست کا تقاضہ یہ ہو کہ وہ اسلامی نظام کے عہدیداروں کے درمیان فرق کا قائل ہو اور انہیں اچھے اور برے عہدے داروں میں تقسیم کر رہا ہو، لیکن اگر امریکیوں کو موقع ملے تو انکی اپنی اصطلاح میں جو آج اچھے عہدیدار ہیں وہ بھی انکی نظر میں برے ہوجائیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملت ایران کے دشمنوں سے مقابلے کے اصل ہدف کو اسلامی نظام کی اصل شناخت اور پہچان قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ اسلامی نظام سے مراد اسکا ڈھانچہ، اقدار اور عدل و عدالت، علمی ترقی، اخلاق، جمہوریت، قانون پسندی اور آئیڈیل ازم جیسے اہداف ہیں۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اس جدوجہد میں بڑی مشکلات موجود ہیں کہ جن سے استقامت اور تدبیروں کے زریعے عبور کیا جاسکتا ہے فرمایا کہ اس مقابلے میں اور اسی طرح ان مشکلات کو حل کرنے کی راہ میں طالبعلم ملت کی توانائیوں کے جوہر کے عنوان سے نہایت اہم کردار کے حامل ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طالبعلموں کی جانب سے مطالبات کئے جانے کو بہت زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملکی سطح پر تمام مسائل حل کرنے کی ذمہ داری اعلیٰ حکام کے کاندھوں پر ہے لیکن اگر طالبعلموں کی جانب سے کئے جانے والے مطالبات مطالعے اور دقیق اطلاعات کے ہمراہ ہوں تو یہ اعلیٰ حکام کے لئے مشکلات کے حل کی تلاش میں معاون ثابت ہوں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملاقات میں طالبعلموں کے بعض مطالبات من جملہ تیل کی نئی قراردادوں کے موضوع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تک اس قرارداد میں ملکی مفادات کے دائرے میں اصلاحات انجام نہیں دی جاتیں یقینا یہ معاہدہ طے نہیں پاسکتا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قومی اداروں کی جانب سے بعض فیصلے کئے جانے پر طالبعلموں کی تنقیدوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ قانون اور منطقی اعتبار سے رہبر اداروں کے جزئی اور اجرائی فیصلوں میں مداخلت نہیں کرسکتا اور اگر حکام اشتباہ کرتے ہیں تو پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ نظارت اور ان افراد کو پارلیمنٹ میں بلانے جیسے اقدامات سے استفادہ کرے اور یا یہ کہ صدر مملکت ان کے غلط فیصلوں پر عمل درآمد کو روکنے کی کوشش کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ البتہ رہبر جہاں محسوس کرے گا کہ یہ کام نظام کو اس کے اصل راستے سے منحرف کررہا ہے تو وہاں، بعض اقدامات حتی بعض جزئی اقدامات میں بھی مداخلت کرے گا اور اس کام کا راستہ روکے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے استقامت کی وجہ سے ملکی ترقی کو درپیش مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سلسلے میں بعض مسائل من جملہ اقتصاد کو مضبوط کرنے اور اپنی دفاعی قوت میں اضافہ کئے جانے جیسے موضوعات ان ملکی امور میں شامل ہیں کہ جنہیں عملی جامہ پہنانا اور ان کی راہ میں حائل مشکلات کو برطرف کرنا اعلی حکام کی ذمہ داری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ بعض مشکلات کا تعلق ملک کی اندرونی صورتحال سے ہے اور طلبہ تنظیموں کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں حکومتی عہدیداروں کی مدد کریں۔
آپ نے تھکاوٹ اور نا امیدی سے پرہیز کو مشکلات کے حل کی چابی قرار دیا اور تمام طلبہ تنظیموں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ نے استقامت دکھائی اور عوام کے ذہنوں کو آمادہ کر کے مطالبات کو عوامی رائے میں تبدیل کر دیا تو حکام بھی آپ کے مطالبات پر عمل کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی طرح ایک طالبعلم کی اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ رہبر کی مخالفت میں بات کئے جانے کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں فرمایا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ رہبر کی مخالفت نہ جرم ہے اور نہ ہی اس پر کوئی اعتراض کیا جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں ملک میں موجود طالبعلموں کو ایک عظیم نعمت، ثروت اور نظام کی قوت اور طاقت قرار دیتے ہوئے اور اعلیٰ حکام کی جانب سے اپنے منصوبوں میں اس طبقے کی آراء پر خاص توجہ دینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کے طالبعلم انقلاب کے آغاز کے زمانے میں موجود طالبعلموں سے کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے بہت اچھے ہیں، انکے نظریات بہت زیادہ انقلابی اور اسلامی ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ انقلاب کے آغاز کے زمانے کے بہت سارے انقلابی اور انقلابی جذبہ رکھنے والے طالبعلم آج اس ملک کے محققین اور ماہرین کی صف میں موجود ہیں، بنا بر ایں انقلابی ہونے اور تعلیم حاصل کرنے کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے۔
آپ نے طالبعلموں کو تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان کی تقویت اور روحانیت اختیار کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ طالبعلم کو بصیرت کا حامل ہونا چاہئے اور اسے چاہئے کہ وہ تعلیمی ماحول اور ملکی مسائل اور ملک، خطے اور دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر چشم بصیرت موجود نہ ہو تو ممکن ہے کہ طالبعلم دوست اور دشمن کی پہچان کرنے میں یا بین الاقوامی اور خطے کے مسائل کی تحلیل کرنے میں غلط حساب کتاب اور غلط فہمی کا شکار ہوجائے۔
آپ نے تمام طالبعلموں کو دشمن کی میڈیا اسٹریمنگ سے سوء ظن رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمنوں نے بڑے پیمانے پر سرمایہ گذاری کر کے، اسلامی نظام کے خلاف پیچیدہ اور وسیع میڈیا اسٹریمنگ شروع کی ہے اور انکا اصل ہدف اسلامی جمہوریہ ایران کی قوت کا باعث بننے والے نکات کو چھپانا اور عوام اور نوجوانوں میں مایوسی پیدا کرنے کے لئے منفی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اغیار کے میڈیا میں یوم القدس کے موقع پر ریلیوں میں عوام کی بھرپور شرکت کو منعکس نہ کرنے کو دشمن میڈیا اسٹریمنگ کے برتائو کا ایک نمونہ قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ جمعے کے دن یوم القدس کے موقع پر ہوا نہایت گرم تھی اور ایسے میں روزہ رکھ کر باہر نکلنا درحقیقت ایک حیرت انگیز کام ہے لیکن اس طرح کے حیرت انگیز کاموں کو اغیار کے میڈیا میں خاطر خواہ انداز میں نہیں دکھایا جاتا حالانکہ اگر اس کے مقابلے میں اگر کوئی منفی نکتہ ہو تو اسے سوگنا بڑا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طلبہ تنظیموں کے رکن طالبعلموں کی ذمہ داریوں کو دوسرے طالبعلموں سے کہیں زیادہ قرار دیتے ہوئے اور موجودہ سیاسی صورتحال کی پیچیدگیوں اور مسائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب کے پہلے عشرے میں اور مقدس دفاع کے دوران دشمن سے مقابلہ کیا جانا ایک واضح ذمہ داری اور تمام افراد کے لئے قابل درک موضوع تھا لیکن آج مختلف سیاسی، ثقافتی، اجتماعی، اقتصادی اور سیکورٹی مسائل کی باہم موجودگی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے اور اس کے ساتھ ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے، اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ آنکھیں کھلی رکھ کر اور توجہ، عقل اور تدبیر سے کام لیا جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے موجودہ صورتحال کی پیچیدگیوں اور اسکے مختلف زاویوں پر مشتمل ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے طلبہ تنظیموں کی ذمہ داریوں کے بارے میں ۱۲ نصیحتیں فرمائیں۔
آپ کی پہلی نصیحت سرگرم طالبعلموں کے لئے فکری اعتبار سے ملک کے اصلی مسائل میں اور ضرورت پڑنے پر بنفس نفیس موجودگی کے سلسلے میں تھی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کو درپیش اصلی مسائل کے سلسلے میں طلبہ تنظیموں کی جانب سے اپنا موقف بیان کئے جانے کو اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ مضبوط اور اصل مواقف، بخوبی اور واضح انداز میں بیان کئے جائیں، تو انقلاب کے دوستوں کی انقلاب سے دوستی مزید مستحکم ہوجائے گی اور اس ملک کے دشمنوں من جملہ امریکہ کو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ انہیں غیر حقیقی اور منحرف شدہ رپورٹوں سے ایرانی نوجوانوں کا دل موہ لینے کی کوششیں نہیں کرنی چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مشترکہ ایکشن پلان، امریکہ سے رابطے، استقامتی معیشت اور ملک کے مستقبل کو ان اہم مسائل میں سے قرار دیا کہ جن پر طلبہ تنظیموں کو نرم جنگ کے افسروں کے عنوان سے اپنے انقلابی، مدلل اور محکم مواقف کا اظہار کرنا چاہئے۔
آپ نے دقیق، مدلل، صحیح اور موقع پر دی جانے والی اطلاعات کو طالبعلموں کے مواقف کی تشکیل کے اہم عناصر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ان مواقف کو بخوبی طلبہ کے مجلات میں منعکس کیا جانا چاہئے اور اسکے ساتھ ساتھ ان تنظیموں کے نمائندوں کو بڑے شہروں میں ہونے والے نماز جمعہ کے اجتماعات میں موقع دیا جانا چاہئے تاکہ وہ اپنے مواقف عوام کے گوش گذار کرسکیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طالبعلموں کے اجتماعات اور انکی کی موجودگی کو بھی ضروری قرار دیا لیکن صحیح طریقے اور روش کے ساتھ۔
آپ نے ہر اجتماع اور محفل کو درہم برہم کرنے کی ہمیشہ کی طرح مخالفت کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ یہ کام مضر ہے یا کم از کم اسکا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اہم مواقع پر اجتماعات یا جلسات کے انعقاد کے زریعے مخالفین کے اجتماعات کے مقابلے میں اپنی بات طالبعلموں تک پہنچائی جاسکتی ہے چونکہ طالبعلم حقیقت کو سمجھنے کے درپے ہوتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے وزارت تعلیم و صحت اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ اور عہدیداروں کو انقلابی تنظیموں کی حمایت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ البتہ عمومی حقوق کے حصول کے لئے تمام طلبہ تنظیمیں یکساں ہیں لیکن یہ بات طبیعی اور منطقی ہے کہ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ، انقلابی اور متدین طلبہ تنظیموں کا دفاع اور انکی حمایت کریں اور انکے لئے مزید سرگرمیوں کے امکانات فراہم کریں۔
طلبہ تنظیموں کو رہبر انقلاب اسلامی کی دوسری نصیحت بیان کرنے اور دلوں کو مطمئن کرنے کے بارے میں تھی۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اسلامی نظریات میں دلوں کو مطمئن کرنا اور انہیں اپنا بنانا ایک اہم مسئلہ ہے اور طلبہ تنظیموں کو چاہئے کہ وہ محکم اور روشن دلیلوں کے زریعے اپنے مواقف عوام اور طالبعلموں کے سامنے بیان کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے استقامتی معیشت، علمی پیشرفت و ترقی، طرز زندگی اور امریکہ سے رابطہ جیسے موضوعات کو ان موضوعات میں سے قرار دیا کہ جن کے بارے میں سرگرم طلبہ تنظیموں کی جانب سے مواقف بیان ہونے چاہئیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ سے رابطوں کے بارے میں فرمایا کہ طلبہ تنظیمیں خاص طور پر رہبر کی جانب سے بیان شدہ مواقف من جملہ امریکہ سے رابطہ نہ رکھنے، اور اس ملک سے خاص اور معین شدہ موارد کے علاوہ مذاکرات نہ کئے جانے جیسے مواقف پر غور و فکر کریں اور اس سلسلے میں موجود مستحکم دلائل کے واضح ادارک کے زریعے ان باتوں کو مدلل طریقوں سے طالبعلموں اور غیر طالبعلم طبقے کے سامنے بیان کریں۔
آپ نے طلبہ تنظیموں کی جانب سے اپنے مواقف کو مسلسل، صحیح، واضح، اور مدلل انداز میں بیان کرنے کو عوامی مطالبات کی شکل اختیار کرنے اور صحیح سمت میں ملک کی عمومی حرکت  کے لئے ضروری اور موثر قرار دیا۔
سیاسی اور مذہبی آگاہی کی سطح میں اضافہ، طلبہ تنظیموں کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کی تیسری نصیحت تھی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی طرح طالبعلم مخاطب طبقے میں اضافے کو طلبہ تنظیموں کی ایک اور ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اخلاق، تحمل، مخالفین کی بات سننے کا حوصلہ، اور بیان کئے جانے والے مطالب پر تسلط، اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے ضروری چیزیں ہیں۔
طالبعلموں کو رہبر انقلاب اسلامی کی پانچویں نصیحت اسلامی نظام کے صریح اور بغیر تقیہ کے دفاع کرنے کے سلسلے میں تھی۔
آپ نے فرمایا کہ دشمن کمزوریوں، کمی، نقائص، اور ان جیسے دوسرے مسائل پر تکیہ کرتے ہوئے انقلاب کی اہمیت کو کم کر کے دکھانا چاہتا ہے اور ہماری ترقی و پیشرفت سے صرف نظر کرتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ انقلابی تنظیمیں اس غیر مساوی مقولہ کو درہم برہم کردیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ دنیا کی بڑی مادی طاقتوں کی ۳۷ سالہ مکمل دشمنی کے مقابلے میں استقامت اسلامی نظام کی اہم قابل فخر کامیابی ہے، وہ بھی ایسی صورتحال میں کہ جب ان بڑی مادی طاقتوں کی ذرا سی ناراضگی بادشاہت کا دعوی کرنے والے فلاں ملک کو تعظیم و تسلیم پر مجبور کردیتی ہے۔
آپ نے انقلابی طالبعلموں کی جوش و جذبے سے بھرپور کمیت اور کیفیت کو انقلاب کی ذاتی استعداد اور صلاحیت قرار دیا اور فرمایا کہ البتہ نظام کے دفاع سے مراد رہبر کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ اقدار کے اس مکمل مجموعے کا دفاع کرنا ہے کہ جو آپس میں نتھی ہے اور انقلاب جس پر تکیہ کرنے کی وجہ سے اپنے رشد اور بالیدگی کے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کی چھٹی نصیحت محروم علاقوں اور دیہاتوں میں جہادی بنیادوں پر تعمیر و ترقی کے لئے لگائے جانے والے کیمپوں میں توسیع اور اس سلسلے کے جاری رہنے کے بارے تھی۔
آپ نے مزید فرمایا کہ جہادی بنیادوں پر تعمیر و ترقی کے لئے لگائے جانے والے کیمپ خود سازی کا زریعہ بھی ہیں، خدمت بھی اور ملک کی حقیقی فضا سے آشنائی کا بہترین موقع بھی ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے موجودہ حکومت اور سابقہ حکومتوں سے دیہاتوں کی تعمیر و ترقی کے بارے میں اپنی جانب سے مسلسل بنیادوں پر دیئے جانے والے تذکر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مسئلے کے عملی ہونے کے لئے واضح راستے موجود ہیں کہ جن میں چھوٹی صنعتوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے، البتہ اس نصیحت پر مستقل بنیادوں پر عمل کرنے کے لئے ہمت درکار ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کی ساتویں اور آٹھویں نصیحت اپنی فکر اور عمل میں ایرانی اسلامی طرز زندگی کو شامل کئے جانے پر توجہ، انقلاب کے اصلی نظریات من جملہ عدل و عدالت، استقامتی اور نالج بیسڈ معیشت، اسلامی ایرانی پیشرفت وترقی اور علمی ترقی کے سلسلے میں تھی۔
آپ نے اسی سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ میں مغربی توسیع پسندی کو ہرگز قبول نہیں کرتا کیونکہ اس کے اصول و مبانی اور بنیادیں غلط ہیں اور اسی وجہ سے ہم نے اسلامی ایرانی پیشرفت و ترقی کا نظریہ پیش کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے استقامتی معیشت کے بارے میں مزید فرمایا کہ موصولہ رپورٹوں کے مطابق بہت اچھے اقدامات کئے جا رہے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ وہ جاری بھی رہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی نویں نصیحت میں طلبہ تنظیموں کو عالم اسلام کے طالبعلموں کی سطح پر امریکہ اور صیہونیت مخالف مرکزی محاذ بنانے کی دعوت دی۔
آپ نے مزید فرمایا کہ سائبر اسپیس اور دوسرے پیشرفتہ مواصلاتی وسائل اور امریکی اور صیہونی سیاست کی مخالفت کی بنیاد پر عمومی کمپین چلا کر مسلمان طالبعلموں کو جمع کیا جائے تاکہ وقت پڑنے پر دنیا بھر کہ لاکھوں طالبعلم اپنے مواقف کے زریعے عالم اسلام میں ایک عظیم تحریک شروع کرسکیں۔
رہبر انقلاب کی اگلی نصیحت غیر انقلابی ہونے کا الزام لگانے سے پرہیز کرنے کے بارے میں تھی۔
آپ نے طالبعلموں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ انقلابی ہونے کے مشخص شدہ مراتب اور معیارات ہیں اور آپ کو چاہئے کہ آپ کسی بھی ایسے شخص پر غیر انقلابی ہونے کا الزام عائد نہ کریں کہ جو اس معیار کا حامل تو ہے لیکن اس سے آپ کے نظریات نہیں ملتے۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گیارہویں نصیحت مشترکہ نکات پر تکیہ کرتے ہوئے مختلف طلبہ تنظیموں کے باہمی تعاون کے بارے میں تھی۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اختلافات کو کشمکش میں تبدیل نہیں ہونا چاہئے اور انقلابی تنظیموں کو اس طرح عمل کرنا چاہئے کہ یونیورسٹیوں میں رواداری اور مد مقابل کو برداشت کرنے کے حوصلے کی فضا پیدا ہوجائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی آخری نصیحت انقلاب پر اسٹریٹجک نگاہ اور مستقبل کے بارے میں غور و فکر کے بارے میں فرمائی۔
آپ نے طالبعلموں کا مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ عشروں میں صدور مملکت، پارلیمنٹ کے نمائندوں اور اس ملک کے مختلف عہدیداروں کا آپ میں سے ہی انتخاب کیا جائے گا، بنا برایں اپنی مکمل پر امید اور پر نشاط نگاہ میں ملک کے مستقبل کی ۲۰ ۳۰ سالہ آئیڈئل تصویر بنائیں اور اپنی حرکت کو اس واضح اور روشن افق سے ہماہنگ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آخری حصے میں ملک کے داخلی مسائل کے بارے میں چند نکات بیان فرمائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ان افراد پر تنقید کرے ہوئے کہ جو نظام، امام اور انقلاب کی حمایت بھی کرتے ہیں لیکن انہوں نے فتنے سے متعلق اپنے مواقف کو ابھی تک واضح انداز میں بیان نہیں کیا ہے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ سن ۲۰۰۹ کے فتنے کے بارے میں میرا موقف واضح اور روشن ہے اور میں اس موضوع پر بہت سنجیدہ ہوں اور اس کا ملاک بھی ان افراد کی حمایت نہ کرنا ہے جنہوں نے اس فتنے کی حمایت کی تھی یا اس سے سوء استفادہ کیا تھا اور آج تک انہوں نے اعلان برائت نہیں کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ قدامت پسند، اصلاح پسند، یا جدید اصلاح پسند اور روایتی قدامت پسند جیسی تقسیم کی کسی بھی قسم کی کوئی اہمیت نہیں، فرمایا کہ سب سے اہم موضوع محتوا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی طرح ملک میں سمجھداری کی ضرورت پر ہونے والے بحث و مباحثہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کل سیاسی گروہوں کی جانب سے سمجھداری اور عقلی بنیادوں پر مشتمل گفتگو کئے جانے کے بارے میں بہت زیادہ مطالب پیش کئے جا رہے ہیں اور عقلمندی بذات خود بہت پسندیدہ عمل ہے اور اسلام اور قرآن کی جانب سے تائید شدہ ہے اور امام خمینی رح بھی نیز دنیا کے عظیم عقلمند افراد میں سے ایک تھے۔
آپ نے اسلامی انقلاب کو عقلمندی اور سمجھداری پر مبنی انقلاب قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ عقلمندی کی بنیادوں پر ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ملکی ترقی کے لئے ہمیں مغرب کا سہارا لینا چاہئے ان کی عقلیں زائل ہوچکی ہیں کیونکہ عقل کہتی ہے کہ تجربات سے درس حاصل کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے بہت زیادہ برے تجربات من جملہ ڈکٹیٹر شپ اور پہلوی استبداد مسلط کئے جانے، قومی حکومت کے سرنگوں کرنے، اور ساواک جیسی وحشتناک کریک ڈاون اور تشدد کرنے والی تنظیم کی تاسیس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی ابتدائی پابندیاں، خیانتیں، جاسوسی، وسیع پیمانے پر تشہیراتی یلغاریں، ضد انقلاب گروہوں کی حمایت، آٹھ سالہ جنگ مسلط کیا جانا، صدام کی ہمہ جانبہ حمایت، مسافر بردار طیارہ مار گرانے سے لے کر مشترکہ جامع ایکشن پلان کی بد عہدیوں تک یہ تمام کام مغربی ممالک اور خاص طور پر امریکہ کی جانب سے انجام پایا ہے۔
آپ نے مشترکہ ایکشن پلان کے سلسلے میں فرانسیسی اور امریکی حکام کی جانب سے انتہائی برے کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مشترکہ ایکشن پلان کے معاملے میں ثابت ہوگیا کہ امریکی چاہے وہ کانگریس ہو یا حکومتیں اب بھی ملت ایران سے اپنی دشمنی میں سرگرم ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ عقل اس بات کا حکم دیتی ہے کہ اس طرح کے دشمن سے عقل و خرد اور تدبر کے ساتھ برتاو کرنا چاہئے اور ان سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے اور کسی ایسی سازش کا شکار نہیں ہونا چاہئے جسے اس نے ہمارے لئے تیار کیا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خطے خاص طور پر بحران شام کے مسائل کے سلسلے میں ایران کے ساتھ ہماہنگی اور مذاکرات کے امریکی دعوے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہمیں ایسی ہماہنگی نہیں چاہئے کیونکہ انکا اصل ہدف خطے میں ایران کی موجودگی کو ختم کرنا ہے۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں امریکہ کی موجودگی اور مداخلت کا خاتمہ چاہتا ہے مزید فرمایا کہ خطے کے مسائل کے سلسلے میں اسلامی نظام کا یہ موقف عقلانیت کے دائرے میں ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ جب تک میرے جسم میں جان ہے میں اپنے دینی اور شرعی وظیفے کی بنا پر قیام کروں گا اور مجھے اپنی عوام پر اعتماد ہے، کیونکہ مجھے استقامت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی پر یقین ہے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ ملک کے تعلیم یافتہ طبقے خاص طور پر یونیورسٹیوں کے طالبعلموں نیز مومن اور انقلابی افراد میں ایک بہت بڑی تعداد ہے کہ جو استقامت پر یقین رکھتی ہے اس انداز میں کہ وہ ہر نا امید شخص کو بھی امید دلاتے رہتے ہیں۔
اس ملاقات کے آغاز میں مختلف طلبہ تنظیموں کے نمائندوں نے تقریبا دو گھنٹے طالبعلم طبقے کے خیالات اور مسائل پر گفتگو کی۔
ملاقات میں طالبعلموں نے رہبر انقلاب اسلامی کی اقتداء میں مغرب و عشاء کی نماز ادا کی اور انکے ساتھ روزہ افطار کیا۔

 

700 /