رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بدھ کی صبح اسلامی جمہوریہ ایران کی تمام طلبہ یونینوں کے ہزاروں اراکین سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی استکبار سے جنگ کے اہم میدان کو جوانوں کا موضوع قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اسلامی نظام کے مد مقابل موجود استکباری محاذ اور ایرانی جوانوں کی شناخت تبدیل کرنے کے درپے اور ان سے امید، نشاط اور جوش و جذبہ چھین لینے کے درپے ہے اور اس ڈھکی چھپی اور پیچیدہ جنگ سے مقابلے کی تنہا راہ متدین، انقلابی، پاکدامن، مصمم ارادے کے حامل، ہوشیار، جذبے سے سرشار، امیدوار، غور و فکر کرنے والے، شجاع اور فداکار جوانوں کی سافٹ وار کے کمانڈروں کے عنوان سے تربیت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات کے آغاز میں جوانوں کو ماہ رجب اور اس کے بعد ماہ شعبان اور ماہ مبارک رمضان میں موجود بہت زیادہ مواقع سے فائدہ اٹھانے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تین مہینے روحانی بہار کے مہینے ہیں اور وہ جوان کہ جو اپنی عمر کی بہار میں ہیں، اپنے وجود میں موجود روحانی پہلو کی تقویت کے لئے اس گراں قدر موقع سے بہرمند ہو سکتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا اور صیہونی حکومت کی سربراہی میں استکباری محاذ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی بعض لڑائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ملکی آزادی چاہے وہ سیاسی لحاظ سے ہو یا اقتصادی اور ثقافتی لحاظ سے انہی محاذوں میں سے ایک محاذ ہے کیونکہ بڑی طاقتیں ہر اس ملک سے مقابلہ کریں گی کہ جو اغیار کے تسلط اور انکے اثر و رسوخ کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اور اپنی آزادی کا دفاع کرے۔
آپ نے ترقی اور پیشرفت کے موضوع کو اسلامی جمہوریہ ایران سے استکباری طاقتوں کی جنگ کا ایک اور سبب قرار دیا اور فرمایا کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ہر اس ملک کے سامنے رکاوٹ بن جاتی ہیں کہ جو ان پر تکیہ کئے بغیر پیشرفت اور ترقی حاصل کرنا چاہتا ہو کیونکہ اس طرح دوسرے ممالک اور ملتوں کے لئے اس طرح کی ترقی اور پیشرفت ایک نمونہ عمل بن جائے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے استکباری طاقتوں کی ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے مقابلے میں صف آرائی کا اصل مقصد اسی موضوع کو قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر ان طاقتوں کے سامنے جھک جائیں گے تو وہ بائیو ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی اور اسی طرح دیگر حساس علمی موضوعات میں اپنی مخالفت کو بڑھانا شروع کر دیں گے، کیونکہ یہ لوگ اسلامی جمہوری ایران کی ہر طرح کی علمی، اقتصادی، اور تمدنی ترقی و پیشرفت کے مخالف ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مغربی ایشیا اور دنیا میں ایران کے قدرتمند موجودگی ، فلسطین کے موضوع، استقامت کے موضوع، اور اسلامی ایرانی طرز زندگی کے موضوع کو اسلامی نظام کے خلاف استکبار طاقتوں کی مخالفت کا ایک اور موضوع قرار دیا اور فرمایا کہ اگر کسی ملک میں مغربی طرز زندگی رائج ہوجائے تو اس معاشرے کے اہم افراد استکبار کی سیاست کے مقابلے میں تسلیم شدہ افراد میں تبدیل ہو جائیں گے۔
آپ نے جوانوں کے موضوع کو اختلافات کا ایک اور اہم موضوع قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آج جوانوں کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ اور صیہونیوں اور انکے ساتھیوں کے درمیان ایک منظم اور خفیہ نرم جنگ جاری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طالبعلموں کو اس سافٹ وار کا کمانڈر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سافٹ وار میں دو کمانڈرز کو ایک دوسرے سے مختلف شناخت کا حامل تصور کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے جنگ کا نتیجہ بھی ان کمانڈرز کی شناخت کی وجہ سے مختلف نظر آئے گا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ سافٹ وار عام جنگوں سے زیادہ خطرناک ہے، دشمنوں کی بعض بھڑکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض اوقات ہمیں جنگ اور بمباری کی دھمکیاں دیتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں کرنا بہت بڑی غلطی ہے، کیونکہ اس کا زمینہ موجود نہیں نہ ہی انہیں اسکی جرات ہے اور اگر کبھی کوئی ایسا انجام بھی دیا تو انہیں منہ کی کھانا پڑے گی۔
آپ نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ابھی بھی اسلامی نظام کے خلاف سافٹ وار جاری ہے اور ہمیں صرف اپنا دفاع کرنے کے بجائے حملہ بھی کرنا چاہئے، فرمایا کہ اگر ہمارے پاس فوجی مراکز اور مورچوں میں متدین، انقلابی، مصمم، ہوشیار، محنت طلب، اہل فکر، شجاع اور فداکار کمانڈرز موجود ہوں تو اس لڑائی کے نتیجے کے بارے میں تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ لیکن اگر اس سافٹ وار میں سر تسلیم خم کرنے والے، فریب خوردہ، دشمن کی مسکراہٹ پر اعتماد کرنے والے، جوش و جذبے سے عاری، بے فکر، اپنے اور دوسروں کے مستقبل کی فکر نہ کرنے والے اور اپنی ہوا و ہوس میں مشغول افراد ہمارے فوجی مراکز اور مورچوں میں موجود ہوں تو اس لڑائی کا نتیجہ بھی بالکل واضح ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ بنا بر ایں سافٹ وار میں دو کمانڈرز دو مختلف شناخت کے ساتھ سامنے آسکتے یں، ایک وہ کمانڈر کہ جو اسلامی جمہوریہ کے لئے قابل قبول ہے اور ایک وہ کمانڈر کہ جو استکباری محاذ کے لئے قابل قبول ہے اور یہ دو مختلف شناخت کے حامل کمانڈرز اس لڑائی کے نتیجے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ جوانوں کی دینداری، پاکدامنی اور پرہیزگاری اور انکی جانب سے شہوت میں مشغول ہونے سے پرہیز کئے جانے کو تعصب اور تحجر کا نام نہیں دیا جانا چاہئے، مزید فرمایا کہ مغربی طاقتیں خاص طور پر امریکہ اس بات کی کوشش میں ہے کہ ایرانی نوجوان ایک بے ایمان، بزدل، بی انگیزہ، غیر متحرک، نا امید، دشمن کے بارے میں خوش فہم اور اپنے کمانڈر اور عقبہ کے بارے میں غلط فہمی کا شکار عنصر میں تبدیل ہوجائے لیکن اسلامی نظام استکباری محاذ کے مقابلے میں اپنے جوانوں کی تربیت کی خواہاں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کالج اور یونی ورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس کی اسلامی یونینوں کو اپنے تمام ساتھیوں کے درمیان مذہبی اور انقلابی شناخت کی تشکیل اور اسے توسیع دینے کے لئے اقدامات انجام دینے کی نصیحت کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ جس طرح ہم نے اپنے ملک کے جوانوں کی علمی، مذہبی اور انقلابی پیشرفت کے لئے طویل مدتی پروگرام تشکیل دیا ہے، دشمین نے بھی طویل مدتی پلاننگ کر رکھی ہے اور انقلابی اور متدین جوانوں میں ان کی تعداد اور کیفیت کے لحاظ سے اضافہ اور استقامت اور ثبات قدم اس سے مقابلے کا واحد راستہ ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے جوانوں کے سلسلے میں اعلی حکام کی ذمہ داریوں کی اجنب اشارہ کیا اور اس بات پر تاکید کرتے پوئے کہ تعلیمی اداروں کی باگ دوڑ متدین افراد کے ہاتھ میں ہے اور اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے، فرمایا کہ اسکولوں میں طالبعلموں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ منظم پلاننگ کے ساتھ انہیں انقلابی کام انجام دینے کا موقع دیا جانا چاہئے تاکہ ہماری جوان نسل انقلابی نسل کے طور پر سامنے آسکے۔
آپ نے تعلیمی اداروں کے حکام کو نصیحت کی کہ وہ اسلامی طلبہ تنظیموں کی یونین جیسی انقلابی اور متدین طلبہ تنظیموں کو موقع فراہم کریں۔ آپ نے مزید فرمایا کہ سنا گیا ہے کہ بعض اسکولوں میں انقلابی سرگرمیوں کی مخالفت کی جاتی ہے اور حکام کو چاہئے کہ وہ اس روش کو نوٹس لیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے جوانوں کے ماحول کو امید افزا ماحول قرار دیا اور فرمایا کہ منحرف ہونے کے مختلف عوامل موجود ہونے اور دشمن کے وسیع محاذ کے باجود آج ہمارے ملک میں مومن، انقلابی، اہل توسل، اربعین پر پیدل سفر کرنے والے، اہل اعتکاف اور انقلابی میدانوں میں استقامت دکھانے والے جوان موجود ہیں ، جس پر خداوند متعال کا شکر ادا کیا جانا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملک میں اس طرح کے جوانوں کی موجودگی کو بہت با عظمت قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ۳۷ سال گذر جانے کے باوجود استکباری محاذ، اسلامی جمہوریہ ایران کو نابود نہیں کرسکا اور نہ علاقے میں اس کی قدرت اور طاقت کو روک سکا۔ آپ نے فرمایا کہ بے تحاشہ عملی اور تشہیراتی دبائو اور دھمکیوں کے باوجود آج حزب اللہ لبنان نے اپنے پیرکہ رشید کو اسلامی دنیا کے سامنے ثابت کردیا ہے اور ایک فاسد، اغیار سے وابستہ، اندر سے خالی اور کھوکھلی حکومت کی جانب سے ایک کاغذ کے ٹکڑے کے زریعے ہدف تنقید بنانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ۳۳ روزہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کے ہاتھوں غاصب صیہونی حکموت کی شکست کا غاصب صیہونی حکومت کی تین بڑے عرب ممالک کو دی جانے والی شکست سے موازنہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ حزب اللہ اور اسکے مومن جوان سورج کی طرح دمکتے ہیں اور اسلامی دنیا کے لئے باعث فخر ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حقیقت اور سچائی پر مبنی پیشرفت کو فروغ پذیر قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ ممکن ہے کہ سچائی اور حقیقت کو سختیوں کا سامنا کرنا پڑے لیکن بالآخر سچائی اور حقیقت کامیاب ہو جائے گی۔
حضرت آیت اللہ نے سچائی کی کامیابی کی اصل شرط سافٹ وار کی کمانڈرز کی مشکلات کے مقابلے میں استقامت کو قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ سچائی جوانوں کا خاصہ ہے اور خداوند متعال کے لطف و کرم سے وہ دن بھی آئے گا مشکلات بہ تدریج ختم ہوتی چلی جائیں گی اور ہمارے جوان بلندیوں پر پہنچ جائیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے اسلامی اسٹوڈنٹس یونینوں میں مقام معظم رہبی کے نمائندے حجۃ الاسلام والمسلمین حاج علی اکبری نے اس یونین کی سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ کہ اسلامی انقلاب کو مدنظر رکھتے ہوئے جوانوں کی تربیت کی جائے اور اس بنیاد پر معارف علوی سے استفادہ کرتے ہوئے انقلابی تربیت ہمارے تمام پروگراموں میں اولویت رکھتی ہے۔
اس ملاقات میں طلبہ کی اسلامی یونین کے دو جوان اراکین نے ملک کے مختلف تعلیمی مراکز میں طالبعلموں اور جوانوں اور تعلیمی اور تربیتی مسائل، کے بارے میں گفتگو کی۔