رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اٹلی کے وزیر اعظم متئو رنتری سے ملاقات میں ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور باہمی تعاون میں فروغ کا خیر مقدم کرتے ہوئے فرمایا کہ اٹلی اور آپ کی حکومت کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں ہماری نگاہ مثبت اور مختلف ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ سفر بھی اسی نگاہ کو تقویت دینے کے لئے انجام پایا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کے خلاف مسلط کردہ پابندیوں کے دور میں اٹلی کے رویے کو دوسرے مغربی ممالک کے مقابلے میں زیادہ منطقی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اٹلی کے ساتھ مختلف شعبوں میں رابطوں خاص طور پر اقتصادی شعبے میں تعاون کے فروغ کا خیر مقدم کرے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران آمد و رفت اور مختلف ملکوں کے ساتھ مذاکرات اور معاہدوں کے اجرا اور ان پر عملدرآمد کو ایک اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض حکومتیں اور یورپی کمپنیاں ایران آمد و رفت اورمذاکرات کی خواہاں ہیں لیکن ان مذاکرات کا نتیجہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ بعض افراد اس مسئلے کی ذمہ داری امریکیوں پر ڈال دیتے ہیں اور ان کے ماضی اور انکے کردار کی وجہ سے یہ بات قابل قبول بھی نظر آتی ہے، کیونکہ ابھی بھی ایٹمی مذاکرات کےسلسلے میں انہوں نے جو وعدے کئے تھے ان پر جس طرح عمل کیا جانا چاہئے تھا عمل نہیں کیا اور اپنے اظہار خیال اور اپنے اقدامات کے ذریعے ایران کے مدمقابل ملکوں کو ایران سے تعاون کرنے پر ڈراتے دھمکاتے ہیں۔
رہبر انقلاب نے ڈاکٹر روحانی کے جانب سے یورپ کے سفر میں سب سے پہلے اٹلی کا دورہ کئے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے اٹلی کے لئے ایران کی نگاہ کو مثبت اور خوش آئند قرار دیا اور فرمایا کہ البتہ ہماری یہ مثبت نگاہ دوسرے یورپی ممالک کے لئے نہیں ہے، کیونکہ انکی نگاہ امریکہ پر جمی ہوئی ہے تاکہ اس کے ڈکٹیشن کے مطابق عمل کریں۔
آپ نے دہشتگردی سے مقابلے کو دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا ایک اور موضوع قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض یورپی ممالک وحشی دہشتگرد گروہوں کی ایک مدت تک حمایت کرتے رہے اور آج دہشتگردی کی یہ خطرناک اور پھیلتی ہوئی لہر یورپ بھی جا پہنچی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کی جانب سے دہشتگرد گروہوں کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد کئے جانے کو دہشتگری کا مسئلہ حل کئے جانے کا سد راہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ داعش اور دوسرے دہشتگرد گروہوں کے لئے امریکی امداد کی واضح اور مستند خبریں موجود ہیں اور ابھی بھی جو انہوں نے داعش کے خلاف اتحاد تشکیل دیا ہے بعض امریکی ادارے مختلف انداز سے داعش کی مدد میں مشغول ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اٹلی کے وزیر اعظم کی " دہشتگردی سے مالی اور فوجی مقابلے کے ساتھ ساتھ ثقافتی مقابلے" کی بات کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں موجود عظیم تشہیراتی ادارے کہ جو مغربی سیاستدانوں کے زیر تسلط ہیں، بعض شرپسند اور دہشتگرد گروہوں کے خلاف اقدامات انجام دینے کے بہانے اسلام کے خلاف جنگ شروع کر رہے ہیں اور اس کے پیچھے موجود سیاسی سازشیں ثقافتی حوالے سے کئے جانے والے مقابلے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔
اس ملاقات میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی بھی موجود تھے، اٹلی کے وزیر اعظم متئو رنتری نے کہا کہ آض کی ملاقات میں ہم نے اہم مسائل خاص طور پر اقتصادی موضوعات پر گفتگو کی اور ہمیں چاہئے کہ ہم اقتصادی اور مالی معاملات کی اصلاح کریں اور انہیں تقویت پہنچائیں۔
اٹلی کے وزیر اعظم نے کہا کہ اٹلی طے پانے والے معاہدوں کا احترام کرتا ہے اور اسی بنا پر ہمارا ماننا ہے کہم ایٹمی معاہدے کے بعد ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ ہو جانا چاہئے اور ہمیں بھی اس بات پر پریشانی ہے اور ہمارا مصمم ارادہ ہے کہ ہم اپنے وعدے کی پابندی کریں گے اور اس پر عمل کریں گے۔
اٹلی کے وزیر اعظم رنتری نے اپنی گفتگو میں یورپ میں دہشتگردی میں اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دہشتگرد گروہوں کی فوجی آپریشن کے زریعے بیخ کنی اور آثار قدیمہ اور تیل کی فروخت جیسے مالی منابع منقطع کر نے کو ان سے مقابلے کا واحد راستہ قرار دیا اور کہا کہ داعش کی بیخ کنی ہماری اولویت میں ہے اور ہمیں کوشی ہے کہ اس سلسلے میں ہمارے اور ایران کے نظریات مشترک ہیں۔
اٹلی کے وزیر اعظم نے دہشتگردی کے بہانے اسلام کا چہرہ خراب کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا آج جب یورپ میں دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہیں تو بعض حکام دہشتگردی کی مذمت کرنے کے بجائے اسلام کی مذمت کرتے ہیں مثلا امریکی صدارتی انتکابات کے امیدوار اپنی انتخابی مہم میں اعلان کرتے ہیں کہ دہشتگردی کے اس مسئلے کا قصوروار اسلام ہے۔
انہوں نے ثقافتی سرگرمیوں کو دہشتگردی سے مقابلے کا ایک اور زریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ ثابت کرنا چاہئے کہ مختلف مذاہب صلح، گفتگو اور انسانوں کی ہماہنگی کے ساتھ باہم زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں اور عالم اسلام کے عظیم رہبر کے عنوان سے اس نظریے کی ترویج میں جناب عالی کا کردار بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔