رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے پارلیمنٹ یعنی مجلس شورائے اسلامی کے دسویں انتخابات اور مجلس خبرگان کے پانچویں دور کے انتخابات کے انتخابی عملے سے ملاقات میں شفاف انتخابات کے آداب اور عناصر کی تشریح کرتے ہوئے ملت اور اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک قومی اور مضبوط مقابلے کے لئے انتخابات کے با افتخار انعقاد میں ایران کی کامیابی قرار دیا اور مشترکہ جامع ایکشن پلان کے اجرا کے سلسلے میں اعلیٰ حکام کو مخاطب کرتے ہوئے اہم نکات بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ وہی قدیمی امریکہ ہے، ایٹمی مذاکرات کے اجرا کے نتائج کے سلسلے میں اسکی مکاریوں کا خیال رکھا جانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آئندہ آنے والے انتخابات کو بہت اہم اور عظیم قرار دیتے ہوئے اور اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ یہ ایک قومی مقابلہ ہے فرمایا کہ اس مقابلے میں در حقیقت ملت کی ہار جیت معنی نہیں رکھتی کیونکہ ان انتخابات میں حقیقی اور انتہائی کامیابی ملت ایران کو ہی حاصل ہونی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اگر ملت ایران اپنے اچھے، مضبوط اور مصمم ارادے کے ساتھ انتخابات کے میدان میں داخل ہو اور اپنے بیلٹ باکس کو اپنے عزم و ارادوں سے سرشار ووٹوں سے پر کردے، تو اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اوپر نازاں ہو گی اور فخر کرے گی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شفاف انتخابات میں مقابلے کی لازم شرائط کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام شرائط کے حامل افراد کی ووٹنگ میں شرکت اور حتی ان افراد کی بھی شرکت کہ جنہیں نظام سے کوئی مسئلہ ہے ایک صحتمندانہ مقابلے کی اہم ترین شرط ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ ممکن ہے کہ بعض افراد کو نظام سے کچھ مسئلہ ہو لیکن ان لوگوں کو ملک کے امن و امان، پیشرفت اور ترقی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اسی لئے اگر وہ ملک میں امن و امان کے تسلسل، قومی عزت میں اضافے اور ملک کی ترقی و پیشرفت میں اضافے کے خواہشمند ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ انتخابات میں شرکت کریں۔
آپ نے فرمایا کہ البتہ بعض افراد کہ جو اپنے فرائض اور الہی نیت کی بنا پر انتخابات میں شرکت کرتے ہیں انہیں رضایت الہی حاصل کرنے کا زمینہ ضرور فراہم کیا جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے اس حصے کو سمیٹتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ صحتمندانہ رقابت کی پہلی شرط انتخابات میں عوام کی با نشاط شرکت ہے اور خداوند متعال کے اذن اور توفیق کی وجہ سے ایران کے با بصیرت اور آگاہ عوام آئندہ آنے والے دونوں انتخابات میں اسی انداز میں شرکت کریں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ بعض افراد یہ کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کی انتخابات میں عدم شرکت، پابندیوں اور انتخابی عمل کو سست کرنے کے ذریعے اسلامی انقلاب پر انگلی اٹھا سکیں، لیکن ملت ایران ان گھات لگائے ہوئے برے افراد کے مقابلے میں اپنی توانائیوں کا لوہا منوا چکی ہےاور ان انتخابات میں بھی وہ اس کا عملی مظاہرہ کرے گی۔
آپ نے سالم انتخابات کی دوسری شرط عوام کی با بصیرت اور با فکر شرکت اور صالح افراد کے انتخاب کو قرار دیا اور فرمایا کہ ایسے افراد کو منتخب کرنا چاہئے کہ جو عہدہ سنبھالتے ہی اپنے آپ کو ملک کو درپیش مشکلات کے مقابلے میں ڈھال کے طور پر پیش کر سکیں اور عوام کی خدمت، انکی مصلحتوں اور منافع کے حصول میں فنا ہوجائیں اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کو دشمن کو فروخت نہ کریں، اور کسی بھی مصلحت کا شکار ہو کر عوامی مفادات کا سودا نہ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے اس حصے میں ایک بار پھر اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ حتی وہ لوگ بھی کہ جنہیں اس نظام سے کوئی مسئلہ ہے ان انتخابات میں شرکت کریں فرمایا کہ میری اس بات کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر کوئی شخص نظام کو نہیں مانتا تو اسے بھی مجلس یا پارلیمنٹ بھیج دیا جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ دنیا میں کہیں بھی فیصلہ سازی کے اداروں میں نہیں بھیجا جاتا کہ جو اس ملک کے اصل نظام کو ہی نہ مانتے ہوں اور حتی امریکہ جیسے ممالک کہ جو اپنے آپ کو آزادی کی علامت کا عنوان دیتے ہیں اور بعض سادہ لوح افراد بھی انکی اس بات کو مانتے اور اسکی ترویج کرتے ہیں، مشرقی اور مغربی بلاک کے درمیان مقابلے کے زمانے میں لوگوں کو سوشلسٹ ہونے کے الزام میں برکنار کر دیا جاتا تھا۔
آپ نے فرمایا کہ اگر ہم اس بات کی پابندی کریں کہ ایسے افراد کو پارلیمنٹ بھیجا جائے کہ جو اس نظام اور اسکی مصلحتوں اور اس ملک کی قدروں کو تسلیم کرتے ہوں یہ ایک عمومی حق ہے اور انتخابات کے صحیح و سالم انعقاد میں اسکا بہت موثر کردار ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں صحتمندانہ انتخابات کے انعقاد کے دوسرے اہم عوامل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا انتخابی عملے کی جانب سے قانون کا احترام اور قوانین کی رعایت، قانونی اداروں کی توہین نہ کرنا، افکار عامہ کے اذہان کو تشویش میں مبتلا نہ کرنا، نامزد امیدواروں کی توہین نہ کرنا اور ایک دوسرے کی غیبت سے پرہیز کیا جانا، غیر قانونی اور غیر عملی وعدے نہ کرنا، اور عوام سے حقیقت پر مبنی برتائو صحتمندانہ انتخابات کے لئے لازمی معیارات اور آداب ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خاص طور پر بعض غیر سنجیدہ بیانات اور رویے کے ذریعے افکار عامہ کے اذھان کو تشویش میں مبتلا کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض افراد مسلسل لفظ انتہا پسند کی تکرار کرتے ہیں اور اس سے انکی مراد مومن اور حزب اللہی افراد ہیں۔ حالانکہ انقلابی اور حزب اللہی نوجوانوں پر انتہاپسندی کی تہمت نہیں لگانا چاہئے کیونکہ یہ نوجوان اپنے مکمل خلوص اوراپنی بھرپور توانائیوں کے ساتھ میدان میں موجود ہیں اور جب بھی ملک و قوم کی سرحدوں اور قومی شناخت کے دفاع کا وقت آئے گا یہ میدان میں موجود ہوں گے۔
آپ نے تاکید فرمائی کہ سعودی عرب کے سفارت خانے کو آگ لگانے جیسے انتہائی غلط اور برے واقعے کی وجہ سے حزب اللہی، انقلابی اور مومن نوجوانوں کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انہی انقلابی و حزب اللہی نوجوانوں کےفہم و شعور بہت سے معاملات کے تجزئے اور تحلیل بعض بزرگوں سے بہتر ہوتے ہیں، چنانچہ انقلاب اور اسلام کے شیدائی ان نوجوانوں کو، سعودی عرب کے سفارت خانے پر یا اس سے پہلے برطانیہ کے سفارت خانے پر ہونے والے حملے کی وجہ سے کہ جس سے ملک اور اسلام کو نقصان پہنچا اور مجھے بھی بہت برا لگا، کمزور نہ کیا جائے اور ان پر یلغار نہ کی جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اس حصے میں انتخابات کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات ایک نعمت اور بڑا اہم موقع ہے کہ اس نعمت کا شکرانہ صحیح و سالم انتخابات کا انعقاد ہے، بنابرایں بغیر سوچے سمجھے کہی جانے والی بعض باتوں اور انجام دیئے جانے والے اقدامات سے اس عظیم افتخار اور عمل کو مخدوش اور مسخ نہیں ہونے دینا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے سلسلے میں انتہائی کلیدی نکات بیان فرمائے۔
آپ نے صدر مملکت، وزیر خارجہ اور ایٹمی مذاکراتی ٹیم کے دیگر ارکان کی زحمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام مطالبات پورے نہیں ہوئے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عہدیداران نے اس مسئلے میں بڑی محنت کی اور ان شاء اللہ خداوند عالم انہیں اس کا اجر دے گا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان لوگوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہ جو جامع ایکشن پلان سے ملنے والے ان محدود نتائج کو امریکا کا لطف و کرم قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، فرمایا کہ کچھ لوگ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر استکبار کے منحوس چہرے کا بناو سنگھار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بہت بری اور خطرناک کوشش ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ یہ کوشش غیر منطقی ہے فرمایا کہ اگر محلے کا غنڈہ زبردستی آپ کے گھر اور املاک پر قبضہ کر لے اور آپ آخر کار بڑی محنتوں اور زحمتوں کے بعد اسے اپنے گھر کا ایک حصہ چھوڑنے پر مجبور کر دیں تو کیا یہ نتیجہ اس غنڈے کی مہربانی ہے یا آپ کی قوت اور محنت کا ثمر ہے؟
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ایٹمی میدان میں ملنے والی کامیابیاں، جوہری سائنسدانوں منجملہ چار جوہری شہیدوں کی کاوشوں اور مہارتوں نیز قوم کی پشت پناہی و استقامت کا ثمر ہے اور ان حقائق کے ساتھ ہی حکام کی محنتوں کے نتیجے میں دشمن کو بعض جگہوں پر پسپا ہونا پڑا، بنابریں یہ بے حد ناانصافی ہوگی کہ کچھ لوگ اسے امریکیوں کی کرم فرمائی قرار دے کر اس کا پروپیگنڈا کریں۔
آپ نے امریکی حکام کے حال ہی میں دئے گئے اعلانیہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ پابندیاں عائد کرنے کے پیچھے دشمن کا مقصد عوام کو روغلا کرکے انھیں سڑکوں پر لانا تھا، لیکن ہماری قوم نے صبر و استقامت کا ثبوت دیا اور اسلامی نظام اور حکام کے ساتھ مل کر وقار اور قدرت کا مظاہرہ کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ البتہ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بھی بہتر کام کیا جا سکتا تھا، لیکن بہرحال توانائیوں، مواقع اور وسائل کے نتیجے میں یہ جو نتیجہ ملا ہے وہ بھی قابل قدر ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کو بڑا بت اور مغرب کی دیگر سامراجی طاقتوں کو حاشیے کے بتوں سے تعبیر کیا اور ایٹمی مسئلے میں ایران دشمن طاقتوں کے اصلی اہداف کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی تو قسم کھائی جا سکتی ہے کہ ہمارے مد مقابل فریقوں کو بخوبی معلوم تھا کہ ایران ایٹم بم حاصل کرنے کے درپے نہیں ہے، لہذا ان کے پیش نظر کچھ اور ہی اہداف تھے۔
آپ نے ملت ایران کی پیشرفت کا راستہ روکنے، اور خطے اور دنیا میں اسلامی جمہوریہ کے روز افزوں اثر و رسوخ کو ختم کرنے ایٹمی مسئلے میں ملت ایران پر دبائو ڈالنے کو استکباری محاذ کے اصلی اہداف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ چاہتے تھے کہ اپنے اہداف حاصل کرکے قوموں کو یہ باور کروائیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی دین پر استوار نظام کو چلانے اور جاری رکھنے پر قادر نہیں رہا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ تمام افراد بشمول حکام کے، امریکیوں کے اصلی اہداف پر نظر رکھیں، وہ چاہتے ہیں کہ دبائو اور پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کریں، لہذا ان کی طرف سے ہوشیار رہنے اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکومتی عہدیداران اور جامع مشترکہ ایکش پلان کے نفاذ کی نگراں کمیٹی کے ارکان کو امریکا کے فریب کی طرف سے ہوشیار رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہ فریق مقابل دھوکے باز ہے اس کی مسکراہٹوں اور چہرے پر بڑی نقاب پر اعتماد نہ کریں۔
آپ نے امریکا کی موجودہ پالیسیوں اور اہداف کو انہی ایران مخالف امریکی پالیسیوں اور اہداف سے تعبیر کرتے ہوئے کہ جو ریگن اور بش کے زمانے میں تھیں فرمایا کہ حکام پوری نظر رکھیں کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نفاذ کے سلسلے میں امریکی اپنے وعدوں پر کاربند ہیں، ورنہ دوسری صورت میں ضرور جوابی کارروائی کریں۔
رہبر انقلاب نے امریکی میرینز کے ایرانی سمندری حدود میں داخل ہونے کے مسئلے میں پاسداران انقلاب فورس کی کارکردگی کی بہت زیادہ قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے دشمن کی اس خلاف ورزی کے جواب میں ایران کی شناخت اور قوت کا مظاہرہ کیا، حکام کو بھی چاہئے کہ تمام میدانوں میں اسی انداز سے عمل کریں اور جہاں بھی دشمن، ایران کے قومی مفادات کی سرحدوں کو عبور کرنے کی کوشش کرے پوری طاقت سے اسکا راستہ روک دیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکا کی ماہیت کی ایک اور مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ علاقے کے موجودہ حالات و واقعات نے چند سال قبل نئے مشرق وسطی کی تشکیل کے امریکیوں کے بیان کے مقصد کو واضح کردیا ہے۔ ان کے مد نظر جدید مشرق وسطی جنگ، دہشت گردی، تعصب، رجعت پسندی، خانہ جنگی اور مسلکی تصادم میں گرفتار مشرق وسطی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تمام افراد کو یہ سفارش فرمائی کہ امریکا کی اصلی تصویر اس کی اسی کارکردگی کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی گفتگو میں اس بات کو رد کرتے ہوئے کہ پابندیوں کے اٹھ جانے کا مطلب ملکی اقتصاد اور عوامی معیشت کی مشکلات کا حل ہو جانا ہے فرمایا کہ عوام کے دسترخوان پر آنے والی بہتری اور اقتصادی ترقی کے لئے منصوبہ بندی اور پلاننگ کی ضرورت ہے جس کی تمام حکومتوں کو تلقین کرتا رہا ہوں۔
آپ نے استقامتی معیشت کو اقتصادی مشکلات کے ازالے کی بنیادی حکمت عملی قرار دیا اور طے شدہ پروگراموں کے نفاذ پر مسلسل نگرانی رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن سے امید لگانے سے مشکلات حل ہونے والی نہیں ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم ایران کی معیشت کو اتنا مستحکم اور مضبوط بنا دیں کہ وہ بیرونی تلاطم کا ڈٹ کر سامنا کر سکے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک اور اہم نکتے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت غیر ملکی وفود کی آمد و رفت اور معاہدوں پر دستخط سے ملکی صنعت، پیداوار اور زراعت کو ہرگز نقصان نہیں پہنچنا چاہئے، حکام اس کا ضرور خیال رکھیں۔
آپ نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں فرمایا کہ دینداری، بصیرت، انقلابی جذبہ اور ملت ایران کی قوت تاحال قسم خوردہ دشمنوں کی مداخلتوں کے سد راہ بنی رہی ہے اور پروردگار کے فضل و کرم سے عمومی و پرخلوص کوششوں اور ہمدلی و مہربانی کے نتیجے میں آپ سامراجی طاقتوں کی تمام پالیسیوں کی ناکامی اور انقلاب کے تمام اہداف کی تکمیل کا بہت جلد مشاہدہ کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے شورائے نگہبان کے سیکریٹری آیت اللہ جنتی نے تقریر کرتے ہوئے انتخابات کو نعمت پروردگار، امن و سلامتی کا ضامن اور ملت و اسلامی نظام کا وقار قرار دیا اور انتخابات کے انعقاد کے مختلف مراحل میں وزارت داخلہ کی طرف سے کئے جانے والے تعاون کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پوری توجہ صحتمند، آزادانہ، قانونی، مقابلے پر مبنی اور مکمل طور پر پرامن انتخابات کے انعقاد پر مرکوز ہے اور اس ہدف کی تکمیل کے لئے نگراں کونسل صلاحیتوں کی جانچ پڑتال سمیت تمام مراحل کی پوری توجہ کے ساتھ نظارت اور اقدامات کرے گی اور کسی قسم کا دبائو قبول نہیں کرے گی۔
اس ملاقات میں وزیر داخلہ نے بھی نیز ملک میں قانونی انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے مراکز کی سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔
رحمانی فضلی نے وزارت داخلہ کے مختلف اقدامات من جملہ ملک میں موجود قانونی توانائیوں سے فاءدہ اٹھانے، اطلاعات کو موقع پر اور شفاف انداز میں فراہم کرنے، مکمل امن و امان کے کئے کوششیں کئے جانے اور تمام تر امکانات و وسائل کو منظم کئے جانے کے بارے میں کہا کہ انتکابات سے مربوط اداروں کے ساتھ وزارت داخلہ کا تعاون بہت اچھا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آئندہ آنے والے انتخابات کو بہت اہم اور عظیم قرار دیتے ہوئے اور اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ یہ ایک قومی مقابلہ ہے فرمایا کہ اس مقابلے میں در حقیقت ملت کی ہار جیت معنی نہیں رکھتی کیونکہ ان انتخابات میں حقیقی اور انتہائی کامیابی ملت ایران کو ہی حاصل ہونی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اگر ملت ایران اپنے اچھے، مضبوط اور مصمم ارادے کے ساتھ انتخابات کے میدان میں داخل ہو اور اپنے بیلٹ باکس کو اپنے عزم و ارادوں سے سرشار ووٹوں سے پر کردے، تو اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اوپر نازاں ہو گی اور فخر کرے گی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شفاف انتخابات میں مقابلے کی لازم شرائط کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام شرائط کے حامل افراد کی ووٹنگ میں شرکت اور حتی ان افراد کی بھی شرکت کہ جنہیں نظام سے کوئی مسئلہ ہے ایک صحتمندانہ مقابلے کی اہم ترین شرط ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ ممکن ہے کہ بعض افراد کو نظام سے کچھ مسئلہ ہو لیکن ان لوگوں کو ملک کے امن و امان، پیشرفت اور ترقی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اسی لئے اگر وہ ملک میں امن و امان کے تسلسل، قومی عزت میں اضافے اور ملک کی ترقی و پیشرفت میں اضافے کے خواہشمند ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ انتخابات میں شرکت کریں۔
آپ نے فرمایا کہ البتہ بعض افراد کہ جو اپنے فرائض اور الہی نیت کی بنا پر انتخابات میں شرکت کرتے ہیں انہیں رضایت الہی حاصل کرنے کا زمینہ ضرور فراہم کیا جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے اس حصے کو سمیٹتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ صحتمندانہ رقابت کی پہلی شرط انتخابات میں عوام کی با نشاط شرکت ہے اور خداوند متعال کے اذن اور توفیق کی وجہ سے ایران کے با بصیرت اور آگاہ عوام آئندہ آنے والے دونوں انتخابات میں اسی انداز میں شرکت کریں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ بعض افراد یہ کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کی انتخابات میں عدم شرکت، پابندیوں اور انتخابی عمل کو سست کرنے کے ذریعے اسلامی انقلاب پر انگلی اٹھا سکیں، لیکن ملت ایران ان گھات لگائے ہوئے برے افراد کے مقابلے میں اپنی توانائیوں کا لوہا منوا چکی ہےاور ان انتخابات میں بھی وہ اس کا عملی مظاہرہ کرے گی۔
آپ نے سالم انتخابات کی دوسری شرط عوام کی با بصیرت اور با فکر شرکت اور صالح افراد کے انتخاب کو قرار دیا اور فرمایا کہ ایسے افراد کو منتخب کرنا چاہئے کہ جو عہدہ سنبھالتے ہی اپنے آپ کو ملک کو درپیش مشکلات کے مقابلے میں ڈھال کے طور پر پیش کر سکیں اور عوام کی خدمت، انکی مصلحتوں اور منافع کے حصول میں فنا ہوجائیں اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کو دشمن کو فروخت نہ کریں، اور کسی بھی مصلحت کا شکار ہو کر عوامی مفادات کا سودا نہ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے اس حصے میں ایک بار پھر اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ حتی وہ لوگ بھی کہ جنہیں اس نظام سے کوئی مسئلہ ہے ان انتخابات میں شرکت کریں فرمایا کہ میری اس بات کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر کوئی شخص نظام کو نہیں مانتا تو اسے بھی مجلس یا پارلیمنٹ بھیج دیا جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ دنیا میں کہیں بھی فیصلہ سازی کے اداروں میں نہیں بھیجا جاتا کہ جو اس ملک کے اصل نظام کو ہی نہ مانتے ہوں اور حتی امریکہ جیسے ممالک کہ جو اپنے آپ کو آزادی کی علامت کا عنوان دیتے ہیں اور بعض سادہ لوح افراد بھی انکی اس بات کو مانتے اور اسکی ترویج کرتے ہیں، مشرقی اور مغربی بلاک کے درمیان مقابلے کے زمانے میں لوگوں کو سوشلسٹ ہونے کے الزام میں برکنار کر دیا جاتا تھا۔
آپ نے فرمایا کہ اگر ہم اس بات کی پابندی کریں کہ ایسے افراد کو پارلیمنٹ بھیجا جائے کہ جو اس نظام اور اسکی مصلحتوں اور اس ملک کی قدروں کو تسلیم کرتے ہوں یہ ایک عمومی حق ہے اور انتخابات کے صحیح و سالم انعقاد میں اسکا بہت موثر کردار ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں صحتمندانہ انتخابات کے انعقاد کے دوسرے اہم عوامل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا انتخابی عملے کی جانب سے قانون کا احترام اور قوانین کی رعایت، قانونی اداروں کی توہین نہ کرنا، افکار عامہ کے اذہان کو تشویش میں مبتلا نہ کرنا، نامزد امیدواروں کی توہین نہ کرنا اور ایک دوسرے کی غیبت سے پرہیز کیا جانا، غیر قانونی اور غیر عملی وعدے نہ کرنا، اور عوام سے حقیقت پر مبنی برتائو صحتمندانہ انتخابات کے لئے لازمی معیارات اور آداب ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خاص طور پر بعض غیر سنجیدہ بیانات اور رویے کے ذریعے افکار عامہ کے اذھان کو تشویش میں مبتلا کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض افراد مسلسل لفظ انتہا پسند کی تکرار کرتے ہیں اور اس سے انکی مراد مومن اور حزب اللہی افراد ہیں۔ حالانکہ انقلابی اور حزب اللہی نوجوانوں پر انتہاپسندی کی تہمت نہیں لگانا چاہئے کیونکہ یہ نوجوان اپنے مکمل خلوص اوراپنی بھرپور توانائیوں کے ساتھ میدان میں موجود ہیں اور جب بھی ملک و قوم کی سرحدوں اور قومی شناخت کے دفاع کا وقت آئے گا یہ میدان میں موجود ہوں گے۔
آپ نے تاکید فرمائی کہ سعودی عرب کے سفارت خانے کو آگ لگانے جیسے انتہائی غلط اور برے واقعے کی وجہ سے حزب اللہی، انقلابی اور مومن نوجوانوں کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انہی انقلابی و حزب اللہی نوجوانوں کےفہم و شعور بہت سے معاملات کے تجزئے اور تحلیل بعض بزرگوں سے بہتر ہوتے ہیں، چنانچہ انقلاب اور اسلام کے شیدائی ان نوجوانوں کو، سعودی عرب کے سفارت خانے پر یا اس سے پہلے برطانیہ کے سفارت خانے پر ہونے والے حملے کی وجہ سے کہ جس سے ملک اور اسلام کو نقصان پہنچا اور مجھے بھی بہت برا لگا، کمزور نہ کیا جائے اور ان پر یلغار نہ کی جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اس حصے میں انتخابات کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات ایک نعمت اور بڑا اہم موقع ہے کہ اس نعمت کا شکرانہ صحیح و سالم انتخابات کا انعقاد ہے، بنابرایں بغیر سوچے سمجھے کہی جانے والی بعض باتوں اور انجام دیئے جانے والے اقدامات سے اس عظیم افتخار اور عمل کو مخدوش اور مسخ نہیں ہونے دینا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے سلسلے میں انتہائی کلیدی نکات بیان فرمائے۔
آپ نے صدر مملکت، وزیر خارجہ اور ایٹمی مذاکراتی ٹیم کے دیگر ارکان کی زحمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام مطالبات پورے نہیں ہوئے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عہدیداران نے اس مسئلے میں بڑی محنت کی اور ان شاء اللہ خداوند عالم انہیں اس کا اجر دے گا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان لوگوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہ جو جامع ایکشن پلان سے ملنے والے ان محدود نتائج کو امریکا کا لطف و کرم قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، فرمایا کہ کچھ لوگ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر استکبار کے منحوس چہرے کا بناو سنگھار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بہت بری اور خطرناک کوشش ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ یہ کوشش غیر منطقی ہے فرمایا کہ اگر محلے کا غنڈہ زبردستی آپ کے گھر اور املاک پر قبضہ کر لے اور آپ آخر کار بڑی محنتوں اور زحمتوں کے بعد اسے اپنے گھر کا ایک حصہ چھوڑنے پر مجبور کر دیں تو کیا یہ نتیجہ اس غنڈے کی مہربانی ہے یا آپ کی قوت اور محنت کا ثمر ہے؟
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ایٹمی میدان میں ملنے والی کامیابیاں، جوہری سائنسدانوں منجملہ چار جوہری شہیدوں کی کاوشوں اور مہارتوں نیز قوم کی پشت پناہی و استقامت کا ثمر ہے اور ان حقائق کے ساتھ ہی حکام کی محنتوں کے نتیجے میں دشمن کو بعض جگہوں پر پسپا ہونا پڑا، بنابریں یہ بے حد ناانصافی ہوگی کہ کچھ لوگ اسے امریکیوں کی کرم فرمائی قرار دے کر اس کا پروپیگنڈا کریں۔
آپ نے امریکی حکام کے حال ہی میں دئے گئے اعلانیہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ پابندیاں عائد کرنے کے پیچھے دشمن کا مقصد عوام کو روغلا کرکے انھیں سڑکوں پر لانا تھا، لیکن ہماری قوم نے صبر و استقامت کا ثبوت دیا اور اسلامی نظام اور حکام کے ساتھ مل کر وقار اور قدرت کا مظاہرہ کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ البتہ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بھی بہتر کام کیا جا سکتا تھا، لیکن بہرحال توانائیوں، مواقع اور وسائل کے نتیجے میں یہ جو نتیجہ ملا ہے وہ بھی قابل قدر ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کو بڑا بت اور مغرب کی دیگر سامراجی طاقتوں کو حاشیے کے بتوں سے تعبیر کیا اور ایٹمی مسئلے میں ایران دشمن طاقتوں کے اصلی اہداف کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی تو قسم کھائی جا سکتی ہے کہ ہمارے مد مقابل فریقوں کو بخوبی معلوم تھا کہ ایران ایٹم بم حاصل کرنے کے درپے نہیں ہے، لہذا ان کے پیش نظر کچھ اور ہی اہداف تھے۔
آپ نے ملت ایران کی پیشرفت کا راستہ روکنے، اور خطے اور دنیا میں اسلامی جمہوریہ کے روز افزوں اثر و رسوخ کو ختم کرنے ایٹمی مسئلے میں ملت ایران پر دبائو ڈالنے کو استکباری محاذ کے اصلی اہداف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ چاہتے تھے کہ اپنے اہداف حاصل کرکے قوموں کو یہ باور کروائیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی دین پر استوار نظام کو چلانے اور جاری رکھنے پر قادر نہیں رہا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ تمام افراد بشمول حکام کے، امریکیوں کے اصلی اہداف پر نظر رکھیں، وہ چاہتے ہیں کہ دبائو اور پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کریں، لہذا ان کی طرف سے ہوشیار رہنے اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکومتی عہدیداران اور جامع مشترکہ ایکش پلان کے نفاذ کی نگراں کمیٹی کے ارکان کو امریکا کے فریب کی طرف سے ہوشیار رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہ فریق مقابل دھوکے باز ہے اس کی مسکراہٹوں اور چہرے پر بڑی نقاب پر اعتماد نہ کریں۔
آپ نے امریکا کی موجودہ پالیسیوں اور اہداف کو انہی ایران مخالف امریکی پالیسیوں اور اہداف سے تعبیر کرتے ہوئے کہ جو ریگن اور بش کے زمانے میں تھیں فرمایا کہ حکام پوری نظر رکھیں کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نفاذ کے سلسلے میں امریکی اپنے وعدوں پر کاربند ہیں، ورنہ دوسری صورت میں ضرور جوابی کارروائی کریں۔
رہبر انقلاب نے امریکی میرینز کے ایرانی سمندری حدود میں داخل ہونے کے مسئلے میں پاسداران انقلاب فورس کی کارکردگی کی بہت زیادہ قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے دشمن کی اس خلاف ورزی کے جواب میں ایران کی شناخت اور قوت کا مظاہرہ کیا، حکام کو بھی چاہئے کہ تمام میدانوں میں اسی انداز سے عمل کریں اور جہاں بھی دشمن، ایران کے قومی مفادات کی سرحدوں کو عبور کرنے کی کوشش کرے پوری طاقت سے اسکا راستہ روک دیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکا کی ماہیت کی ایک اور مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ علاقے کے موجودہ حالات و واقعات نے چند سال قبل نئے مشرق وسطی کی تشکیل کے امریکیوں کے بیان کے مقصد کو واضح کردیا ہے۔ ان کے مد نظر جدید مشرق وسطی جنگ، دہشت گردی، تعصب، رجعت پسندی، خانہ جنگی اور مسلکی تصادم میں گرفتار مشرق وسطی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تمام افراد کو یہ سفارش فرمائی کہ امریکا کی اصلی تصویر اس کی اسی کارکردگی کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی گفتگو میں اس بات کو رد کرتے ہوئے کہ پابندیوں کے اٹھ جانے کا مطلب ملکی اقتصاد اور عوامی معیشت کی مشکلات کا حل ہو جانا ہے فرمایا کہ عوام کے دسترخوان پر آنے والی بہتری اور اقتصادی ترقی کے لئے منصوبہ بندی اور پلاننگ کی ضرورت ہے جس کی تمام حکومتوں کو تلقین کرتا رہا ہوں۔
آپ نے استقامتی معیشت کو اقتصادی مشکلات کے ازالے کی بنیادی حکمت عملی قرار دیا اور طے شدہ پروگراموں کے نفاذ پر مسلسل نگرانی رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن سے امید لگانے سے مشکلات حل ہونے والی نہیں ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم ایران کی معیشت کو اتنا مستحکم اور مضبوط بنا دیں کہ وہ بیرونی تلاطم کا ڈٹ کر سامنا کر سکے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک اور اہم نکتے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت غیر ملکی وفود کی آمد و رفت اور معاہدوں پر دستخط سے ملکی صنعت، پیداوار اور زراعت کو ہرگز نقصان نہیں پہنچنا چاہئے، حکام اس کا ضرور خیال رکھیں۔
آپ نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں فرمایا کہ دینداری، بصیرت، انقلابی جذبہ اور ملت ایران کی قوت تاحال قسم خوردہ دشمنوں کی مداخلتوں کے سد راہ بنی رہی ہے اور پروردگار کے فضل و کرم سے عمومی و پرخلوص کوششوں اور ہمدلی و مہربانی کے نتیجے میں آپ سامراجی طاقتوں کی تمام پالیسیوں کی ناکامی اور انقلاب کے تمام اہداف کی تکمیل کا بہت جلد مشاہدہ کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے شورائے نگہبان کے سیکریٹری آیت اللہ جنتی نے تقریر کرتے ہوئے انتخابات کو نعمت پروردگار، امن و سلامتی کا ضامن اور ملت و اسلامی نظام کا وقار قرار دیا اور انتخابات کے انعقاد کے مختلف مراحل میں وزارت داخلہ کی طرف سے کئے جانے والے تعاون کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پوری توجہ صحتمند، آزادانہ، قانونی، مقابلے پر مبنی اور مکمل طور پر پرامن انتخابات کے انعقاد پر مرکوز ہے اور اس ہدف کی تکمیل کے لئے نگراں کونسل صلاحیتوں کی جانچ پڑتال سمیت تمام مراحل کی پوری توجہ کے ساتھ نظارت اور اقدامات کرے گی اور کسی قسم کا دبائو قبول نہیں کرے گی۔
اس ملاقات میں وزیر داخلہ نے بھی نیز ملک میں قانونی انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے مراکز کی سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔
رحمانی فضلی نے وزارت داخلہ کے مختلف اقدامات من جملہ ملک میں موجود قانونی توانائیوں سے فاءدہ اٹھانے، اطلاعات کو موقع پر اور شفاف انداز میں فراہم کرنے، مکمل امن و امان کے کئے کوششیں کئے جانے اور تمام تر امکانات و وسائل کو منظم کئے جانے کے بارے میں کہا کہ انتکابات سے مربوط اداروں کے ساتھ وزارت داخلہ کا تعاون بہت اچھا ہے۔