رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ہفتے کو شہر قم کے ہزاروں افراد سے ملاقات میں 9 جنوری 1978 کو شہر قم کے عوام کے تاریخ ساز قیام کی قدردانی اور دیرپا انقلاب کے اسباب اور عوامل پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام افراد کی شعوری شرکت کے سائے میں، دیرپا انقلاب، ملت کا قلبی آرام و سکون اور دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں کامیابی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتاہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے جنوری 1978 کو شاہ کی ڈکٹیٹر حکومت کے خلاف اور مرجعیت اور علماء کے حمایت میں شہر قم کے عوام کے تاریخ ساز قیام کی قدردانی کرتے ہوئے قم کے عوام کو پیشرو اور پیشروان انقلاب قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ برسوں کی جدوجہد، امام خمینی رح کے بیانات اور علمائے دین اور مراجع کرام کے مقام و منزلت کی وجہ سے عوام کے درمیان ظالم شاہی حکومت کے خلاف جدوجہد کا سازگار ماحول فراہم ہو گیا تھا اور 9 جنوری کے قیام نے اس زندہ و تابندہ تحریک کا آغاز کر دیا۔
آپ نے عوام کی شجاعت، بصیرت اور میدان میں اترتے وقت احساس ذمہ داری کو 9 جنوری کے قیام کے بنیادی عناصر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عوام کا وہ قیام امام خمینی رح کے دفاع میں انجام پایا اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات اسلامی انقلاب کی کامیابی کا سبب بنے۔
رہبر انقلاب نے بیرونی طاقتوں کی پٹھو اور استکباری قوتوں کی حمایت یافتہ ڈکٹیٹر حکومت کی سرنگونی کو مادی اندازوں کے مطابق ناممکن اور محال قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کامیابی سے ثابت ہوگیا کہ عالم خلقت میں ایسی سنتیں یا الہی قوانین موجود ہیں جن کے ادراک سے مادی انسان قاصر و محروم ہے۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ موجودہ حالات میں اسلامی جمہوریہ ایران امریکا، صیہونی حکومت، استکبار کے آلہ کاروں، تکفیری عناصر اور داعش جیسے دشمنوں کے بہت وسیع محاذ پر برسرپیکار ہے، اب اگر الہی سنتوں کے تقاضوں یعنی استقامت، بصیرت اور بروقت اقدام کی بنیاد پر عمل کیا جائے تو ہم اسلامی انقلاب کی کامیابی کی مانند اس وسیع محاذ میں بھی فتح حاصل کرسکتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد معاصر تاریخ میں رونما ہونے والے انتہائی اہم واقعات کے باوجود اسلامی انقلاب کے باقی رہنے کے علل و اسباب پر روشنی ڈالی۔
حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تیل کی صنعت کے قومیائے جانے اور آئینی انقلاب جیسے دو اہم واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تیل کی صنعت کو قومیائے جانے کی تحریک میں عوام کا مطالبہ بہت چھوٹا اور صرف تیل کی صنعت کو برطانیہ کے قبضے سے آزاد کئے جانے کے مطالبے پر مشتمل تھا، اسی طرح آئینی انقلاب میں بھی کمترین سطح کے مطالبات تھے جن میں بادشاہ کے اختیارات اور اسکی مطلق العنانیت کو محدود کئے جانے کی بات کی گئی تھی۔
آپ نے مزید فرمایا کہ یہ دونوں ہی تحریکیں، کمترین مطالبات اور میدان عمل میں عوام کی موجودگی کے باوجود شکست سے دوچار ہوئیں، لیکن اسلامی انقلاب اسکے باوجود کے اپنے بلند ترین اہداف یعنی ہمہ جہتی خود مختاری اور استبدادی شاہی نظام کی سرنگونی کے مطالبے کے ہمراہ تھا کامیاب ہوا اور اسے بقا نصیب ہوئی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر نوجوان اس حقیقت کا درست تجزئیہ کر لیں تو عوام کے دلوں میں خوف و وحشت اور نا امیدی کے بیج بونے کی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوں گی اور ملک کے مستقبل کا صحیح راستہ بالکل واضح ہو جائے گا۔
آپ نے اسی طرح فرانس اور سوویت یونین کے انقلابوں کی سمت تبدیل ہو جانے اور متعدد انقلابات کے نابود ہوجانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران کا اسلامی انقلاب واحد انقلاب ہے جسے یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ اپنے اولین اصولوں اور اہداف کی حفاظت کرتے ہوئے اپنا وجود باقی رکھ سکے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ سامراجی دنیا کے تھنک ٹینکس کا سب سے بنیادی ہدف اسلامی انقلاب کے دوام کے عناصر کو ختم کرنا ہے مزید فرمایا کہ گزشتہ برسوں میں مسلط کردہ جنگ، اقتصادی ناکہ بندی اور حالیہ پابندیوں سمیت دشمن کے تمام تر اقدامات اسلامی انقلاب کے تسلسل اور دوام پر وار کرنے کے لئے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہر دور میں نئی اور جدید روشوں سے سازشیں کر رہے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ 2009 میں امریکی اس کوشش میں لگ گئے تھے کہ بعص ملکوں میں اپنے کامیاب تجربات کو انتخابات کے بہانے ایران میں بھی آزمائیں، اور اس اقلیت کہ جنہیں کامیابی کے لئے ضروری مقدار میں ووٹ نہیں ملے تھے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ان کی مالی و سیاسی حمایت کے زریعے انہوں نے انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن ایران میں عوام کے بھرپور تعاون کے نتیجے میں ان کی رنگین بغاوت اور انقلاب شکست سے دوچار ہوا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سن ۲۰۰۹ کے فتنے میں امریکی صدر کی جانب سے نظام اور انقلاب کے مخالفین کی حمایت کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا امریکی حکومت جہاں تک ان واقعات کی حمایت کر سکتی تھی اس نے انکی حمایت کی لیکن عوام کے موقع پر میدان میں آنے کی وجہ سے انکی سب تدبیریں ضائع ہوگئیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ آج امریکی کہتے ہیں کہ ایٹمی مذاکرات کے بعد کا زمانہ ایران کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا زمانہ ہے یعنی ایسا لگتا ہے کہ گویا اس سے قبل ایران کے ساتھ انکا رویہ جارحانہ نہیں تھا۔ لیکن ہمارے نوجوانوں، عوام اور حکومتی عہدیدار مکمل آگاہی، ہوشیاری، امید، استقامت اور خدا پر مکمل توکل اور ملکی توانائیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمنوں کے مقابلے پر ڈٹ گئے اور یہ نہایت اہم ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں انتخابات کی فضا کو ملت ایران کے لئے ایک تازہ ہوا کے جھونکے سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام کی جانب سے ذمہ داری کا احساس کہ جو انتخابات میں جلوہ گر ہو گا اور دشمن کو نامراد کر دے گا انقلاب کے دوام اور تسلسل کے عناصر میں سے ایک ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انتخابات کے لئے دو موضوعات کو بہت اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلا موضوع " خود انتخابات میں شرکت" ہے جبکہ دوسرا موضوع " صحیح انتخاب کرنا اور صالح ترین افراد کو ووٹ دینا" ہے۔
آپ نے ایک بار پھر انتخابات میں تمام ووٹ دالنے کے حق دار افراد کی شرکت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلے کی طرح اب بھی ہم اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ تمام افراد حتی وہ افراد بھی کہ جو نظام اور رہبری کو نہیں مانتے پولنگ اسٹیشنوں میں آئیں کیونکہ ان انتخابات کا تعلق ملت، ایران اور اسلامی جمہوری نظام سے ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انتخابات میں تمام افراد کی شرکت کو اسلامی نظام کی پائیداری اور تقویت کا سبب، مکمل امن و امان کے حصول، دنیا کی نظروں میں ملت ایران کی عزت و آبرو میں اضافے اور دشمنوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے رعب و دبدبے کا سبب قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صالح ترین افراد کے ووٹ ڈالنے کی بہت زیادہ اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مختلف آراء اور سلیقوں میں فرق میں کوئی مسئلہ نہیں، اہم یہ ہے کہ ہم اس بات کی کوشش اور توجہ کریں کہ ہمارا انتخاب صحیح انتخاب ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اگر یہ توجہ کی جائے حتی اگر بعض منتخب افراد، اس کے بعد امیدوں پر پورا نہ اتریں تب بھی " شائستہ افراد کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالنے والے کی کوشش اور توجہ"۔ خداوند متعال کی رضایت کا باعث بنے گی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے داخلی اور خارجی مسائل میں پارلیمنٹ یعنی مجلس شورائے اسلامی کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پارلمنٹ مختلف زاویوں سے خاص طور پر بل پاس کرنے، حکومتوں کو کام کرنے کے لئے مواقع فراہم کرنے، اور قوم کی استقامت کی تجلی اور مظہر کے سلسلے میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔
آپ نے بین الاقوامی مسائل میں پارلیمنٹ کے مواقف کو بہتر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ پارلیمنٹ کہ جو ایٹمی مسائل اور اس طرح کے دوسرے مسائل کے سلسلے میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑی ہوجائے اور شجاعانہ، آزاد اور مستقل، انداز میں ملت کے مواقف کو بیان کرے اسکا اس پارلیمنٹ سے زمین اور آسمان کا فرق ہے کہ جو مختلف مسائل کے سلسلے میں دشمن کے موقف کو دہرائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ میں موجود ایک ایک رکن کو پارلیمنٹ کے فیصلوں میں دخیل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسی وجہ سے تمام شہروں اور صوبوں کے عوام کو چاہئے کہ اپنے نمائندوں کے انتخاب میں بہت زیادہ توجہ کریں اور انتخاب کے شفافیت کے سلسلے میں اطمینان حاصل کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا کہ البتہ ایک ایک امیدوار کی مکمل شناخت ایک دشوار کام ہے لیکن وہ افراد کہ جو انتخابی فہرستیں پیش کر رہے ہیں انکے ماضی اور مواقف کو مدنظر رکھتے ہوئے فہرستوں کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اگر لسٹیں پیش کرنے والے افراد مومن اور انقلابی ہیں اور وہ امام رح کے راستے کو مانتے ہیں تو انکی پارلیمانی انتخابات اور مجلس خبرگان کے انتخابات کے سلسلے میں پیش کی گئی لسٹوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے لیکن اگر وہ انقلاب، دین اور استقلال کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور انکے دل امریکیوں اور اغیار سے وابستہ ہیں تو وہ قابل اعتماد نہیں ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مجلس خبرگان کو بھی نہایت اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض تصورات کے برخلاف مجلس خبرگان صرف سال میں ایک یا دو مرتبہ اجلاس بلانے کے لئے نہیں بنائی گئی بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ دن کہ جس دن موجودہ رہبر اس دنیا سے چلا جائے تو رہبر یعنی انقلابی تحریک کے سربراہ کا انتخاب کرے اور یہ ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔
آپ نے مجلس خبرگان کے امیدواروں کے انتخابات میں مکمل توجہ کئے جانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ممکن ہے کہ ضرورت پڑنے پر مجلس خبرگان ایک ایسے شخص کو رہبری کے لئے انتخاب کریں کہ جو خدا پر توکل اور دشمن کے سامنے ڈٹ جانے کی شجاعت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو اور امام رح کے مشن کو آگے بڑھائے لیکن یہ بھی امکان ہے کہ بعض دوسری خصوصیات کے حامل شخص کو رہبری کے لئے چنا جائے، بنا بر ایں تحقیق، توجہ، شناخت اور اطمینان حاصل کرنے کے بعد انکو ووٹ دیا جانا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انتخابات میں شرکت کرنے اور خاص طور پر صالح اور اصلح امیدواروں کے انتخاب میں توجہ کئے جانے کو دو اعلیٰ اہداف یعنی انقلاب کی بقا اور ملت کے امن و امان کے حصول کا زریعہ قرار دیا۔
آپ نے انقلاب کی بقا میں صحیح انتخاب کی تاثیر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب کے آغاز سے ہی انقلاب سے جڑنے اور جدا ہونے کا عمل جاری ہے، بعض انقلابی افراد نے " ممکنہ انفرادی ظلم" کی بنیاد پر کہ جو ان پر ہوا، غلطی سے اصل انقلاب سے منہ موڑ لیا ہے اور بعض افراد نے اپنے ذاتی اور گھریلو مسائل کی وجہ سے دوسرے مواقف اختیار کر لئے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ انقلاب کے حامیوں جن میں مختلف میدانوں من جملہ مومن، انقلابی، ماہرین، پڑھے لکھے اور کارآمد افراد شامل ہیں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ موجودہ دور میں بھی اگر لوگ پارلیمنٹ اور ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان کے صالح امیدواروں کے انتخاب کے سلسلے میں اپنے فریضے پر صحیح طریقے سے عمل کریں تو انقلاب کے حامیوں میں اضافہ ہوگا اور انقلاب کی بقا کا زمینہ فراہم ہوجائے گا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے عوام کے دلوں کو امن و سکون بخشنے کو انقلاب کی بقا کے لئے اپنے فریضے پر عمل کرنے کی دوسری خصوصیت قرار دیتے ہوئے اور قرآن کریم کی آیات کہ جو پیغمبر اکرم ص کی بیعت کرنے والوں کے دلوں پر سکینہ اور آرام و سکون کے نزول کے بارے میں ہے فرمایا کہ آج جو بھی انقلاب، امام خمینی رح اور راہ امام کی بیعت کرے گا اسکی بیعت پیغمبر ص کی بیعت کے مترادف ہے اور پروردگار کریم اس بیعت کے صلے میں قوم کے دلوں سے پریشانی، اضطراب اور نا امیدی کو برطرف کردے گا اور انکے دلوں کو اطمینان اور آرام و سکون سے بھر دے گا
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اختتام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا انقلاب کی بقا اور امید و اطمینان سے سرشار استقامت، یقینا ملت ایران کی امریکہ اور دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں کامیابی کا باعث بنے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے جنوری 1978 کو شاہ کی ڈکٹیٹر حکومت کے خلاف اور مرجعیت اور علماء کے حمایت میں شہر قم کے عوام کے تاریخ ساز قیام کی قدردانی کرتے ہوئے قم کے عوام کو پیشرو اور پیشروان انقلاب قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ برسوں کی جدوجہد، امام خمینی رح کے بیانات اور علمائے دین اور مراجع کرام کے مقام و منزلت کی وجہ سے عوام کے درمیان ظالم شاہی حکومت کے خلاف جدوجہد کا سازگار ماحول فراہم ہو گیا تھا اور 9 جنوری کے قیام نے اس زندہ و تابندہ تحریک کا آغاز کر دیا۔
آپ نے عوام کی شجاعت، بصیرت اور میدان میں اترتے وقت احساس ذمہ داری کو 9 جنوری کے قیام کے بنیادی عناصر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عوام کا وہ قیام امام خمینی رح کے دفاع میں انجام پایا اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات اسلامی انقلاب کی کامیابی کا سبب بنے۔
رہبر انقلاب نے بیرونی طاقتوں کی پٹھو اور استکباری قوتوں کی حمایت یافتہ ڈکٹیٹر حکومت کی سرنگونی کو مادی اندازوں کے مطابق ناممکن اور محال قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کامیابی سے ثابت ہوگیا کہ عالم خلقت میں ایسی سنتیں یا الہی قوانین موجود ہیں جن کے ادراک سے مادی انسان قاصر و محروم ہے۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ موجودہ حالات میں اسلامی جمہوریہ ایران امریکا، صیہونی حکومت، استکبار کے آلہ کاروں، تکفیری عناصر اور داعش جیسے دشمنوں کے بہت وسیع محاذ پر برسرپیکار ہے، اب اگر الہی سنتوں کے تقاضوں یعنی استقامت، بصیرت اور بروقت اقدام کی بنیاد پر عمل کیا جائے تو ہم اسلامی انقلاب کی کامیابی کی مانند اس وسیع محاذ میں بھی فتح حاصل کرسکتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد معاصر تاریخ میں رونما ہونے والے انتہائی اہم واقعات کے باوجود اسلامی انقلاب کے باقی رہنے کے علل و اسباب پر روشنی ڈالی۔
حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تیل کی صنعت کے قومیائے جانے اور آئینی انقلاب جیسے دو اہم واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تیل کی صنعت کو قومیائے جانے کی تحریک میں عوام کا مطالبہ بہت چھوٹا اور صرف تیل کی صنعت کو برطانیہ کے قبضے سے آزاد کئے جانے کے مطالبے پر مشتمل تھا، اسی طرح آئینی انقلاب میں بھی کمترین سطح کے مطالبات تھے جن میں بادشاہ کے اختیارات اور اسکی مطلق العنانیت کو محدود کئے جانے کی بات کی گئی تھی۔
آپ نے مزید فرمایا کہ یہ دونوں ہی تحریکیں، کمترین مطالبات اور میدان عمل میں عوام کی موجودگی کے باوجود شکست سے دوچار ہوئیں، لیکن اسلامی انقلاب اسکے باوجود کے اپنے بلند ترین اہداف یعنی ہمہ جہتی خود مختاری اور استبدادی شاہی نظام کی سرنگونی کے مطالبے کے ہمراہ تھا کامیاب ہوا اور اسے بقا نصیب ہوئی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر نوجوان اس حقیقت کا درست تجزئیہ کر لیں تو عوام کے دلوں میں خوف و وحشت اور نا امیدی کے بیج بونے کی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوں گی اور ملک کے مستقبل کا صحیح راستہ بالکل واضح ہو جائے گا۔
آپ نے اسی طرح فرانس اور سوویت یونین کے انقلابوں کی سمت تبدیل ہو جانے اور متعدد انقلابات کے نابود ہوجانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران کا اسلامی انقلاب واحد انقلاب ہے جسے یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ اپنے اولین اصولوں اور اہداف کی حفاظت کرتے ہوئے اپنا وجود باقی رکھ سکے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ سامراجی دنیا کے تھنک ٹینکس کا سب سے بنیادی ہدف اسلامی انقلاب کے دوام کے عناصر کو ختم کرنا ہے مزید فرمایا کہ گزشتہ برسوں میں مسلط کردہ جنگ، اقتصادی ناکہ بندی اور حالیہ پابندیوں سمیت دشمن کے تمام تر اقدامات اسلامی انقلاب کے تسلسل اور دوام پر وار کرنے کے لئے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہر دور میں نئی اور جدید روشوں سے سازشیں کر رہے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ 2009 میں امریکی اس کوشش میں لگ گئے تھے کہ بعص ملکوں میں اپنے کامیاب تجربات کو انتخابات کے بہانے ایران میں بھی آزمائیں، اور اس اقلیت کہ جنہیں کامیابی کے لئے ضروری مقدار میں ووٹ نہیں ملے تھے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ان کی مالی و سیاسی حمایت کے زریعے انہوں نے انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن ایران میں عوام کے بھرپور تعاون کے نتیجے میں ان کی رنگین بغاوت اور انقلاب شکست سے دوچار ہوا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سن ۲۰۰۹ کے فتنے میں امریکی صدر کی جانب سے نظام اور انقلاب کے مخالفین کی حمایت کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا امریکی حکومت جہاں تک ان واقعات کی حمایت کر سکتی تھی اس نے انکی حمایت کی لیکن عوام کے موقع پر میدان میں آنے کی وجہ سے انکی سب تدبیریں ضائع ہوگئیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ آج امریکی کہتے ہیں کہ ایٹمی مذاکرات کے بعد کا زمانہ ایران کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا زمانہ ہے یعنی ایسا لگتا ہے کہ گویا اس سے قبل ایران کے ساتھ انکا رویہ جارحانہ نہیں تھا۔ لیکن ہمارے نوجوانوں، عوام اور حکومتی عہدیدار مکمل آگاہی، ہوشیاری، امید، استقامت اور خدا پر مکمل توکل اور ملکی توانائیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمنوں کے مقابلے پر ڈٹ گئے اور یہ نہایت اہم ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں انتخابات کی فضا کو ملت ایران کے لئے ایک تازہ ہوا کے جھونکے سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام کی جانب سے ذمہ داری کا احساس کہ جو انتخابات میں جلوہ گر ہو گا اور دشمن کو نامراد کر دے گا انقلاب کے دوام اور تسلسل کے عناصر میں سے ایک ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انتخابات کے لئے دو موضوعات کو بہت اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلا موضوع " خود انتخابات میں شرکت" ہے جبکہ دوسرا موضوع " صحیح انتخاب کرنا اور صالح ترین افراد کو ووٹ دینا" ہے۔
آپ نے ایک بار پھر انتخابات میں تمام ووٹ دالنے کے حق دار افراد کی شرکت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلے کی طرح اب بھی ہم اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ تمام افراد حتی وہ افراد بھی کہ جو نظام اور رہبری کو نہیں مانتے پولنگ اسٹیشنوں میں آئیں کیونکہ ان انتخابات کا تعلق ملت، ایران اور اسلامی جمہوری نظام سے ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انتخابات میں تمام افراد کی شرکت کو اسلامی نظام کی پائیداری اور تقویت کا سبب، مکمل امن و امان کے حصول، دنیا کی نظروں میں ملت ایران کی عزت و آبرو میں اضافے اور دشمنوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے رعب و دبدبے کا سبب قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صالح ترین افراد کے ووٹ ڈالنے کی بہت زیادہ اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مختلف آراء اور سلیقوں میں فرق میں کوئی مسئلہ نہیں، اہم یہ ہے کہ ہم اس بات کی کوشش اور توجہ کریں کہ ہمارا انتخاب صحیح انتخاب ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اگر یہ توجہ کی جائے حتی اگر بعض منتخب افراد، اس کے بعد امیدوں پر پورا نہ اتریں تب بھی " شائستہ افراد کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالنے والے کی کوشش اور توجہ"۔ خداوند متعال کی رضایت کا باعث بنے گی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے داخلی اور خارجی مسائل میں پارلیمنٹ یعنی مجلس شورائے اسلامی کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پارلمنٹ مختلف زاویوں سے خاص طور پر بل پاس کرنے، حکومتوں کو کام کرنے کے لئے مواقع فراہم کرنے، اور قوم کی استقامت کی تجلی اور مظہر کے سلسلے میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔
آپ نے بین الاقوامی مسائل میں پارلیمنٹ کے مواقف کو بہتر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ پارلیمنٹ کہ جو ایٹمی مسائل اور اس طرح کے دوسرے مسائل کے سلسلے میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑی ہوجائے اور شجاعانہ، آزاد اور مستقل، انداز میں ملت کے مواقف کو بیان کرے اسکا اس پارلیمنٹ سے زمین اور آسمان کا فرق ہے کہ جو مختلف مسائل کے سلسلے میں دشمن کے موقف کو دہرائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ میں موجود ایک ایک رکن کو پارلیمنٹ کے فیصلوں میں دخیل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسی وجہ سے تمام شہروں اور صوبوں کے عوام کو چاہئے کہ اپنے نمائندوں کے انتخاب میں بہت زیادہ توجہ کریں اور انتخاب کے شفافیت کے سلسلے میں اطمینان حاصل کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا کہ البتہ ایک ایک امیدوار کی مکمل شناخت ایک دشوار کام ہے لیکن وہ افراد کہ جو انتخابی فہرستیں پیش کر رہے ہیں انکے ماضی اور مواقف کو مدنظر رکھتے ہوئے فہرستوں کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اگر لسٹیں پیش کرنے والے افراد مومن اور انقلابی ہیں اور وہ امام رح کے راستے کو مانتے ہیں تو انکی پارلیمانی انتخابات اور مجلس خبرگان کے انتخابات کے سلسلے میں پیش کی گئی لسٹوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے لیکن اگر وہ انقلاب، دین اور استقلال کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور انکے دل امریکیوں اور اغیار سے وابستہ ہیں تو وہ قابل اعتماد نہیں ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مجلس خبرگان کو بھی نہایت اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض تصورات کے برخلاف مجلس خبرگان صرف سال میں ایک یا دو مرتبہ اجلاس بلانے کے لئے نہیں بنائی گئی بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ دن کہ جس دن موجودہ رہبر اس دنیا سے چلا جائے تو رہبر یعنی انقلابی تحریک کے سربراہ کا انتخاب کرے اور یہ ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔
آپ نے مجلس خبرگان کے امیدواروں کے انتخابات میں مکمل توجہ کئے جانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ممکن ہے کہ ضرورت پڑنے پر مجلس خبرگان ایک ایسے شخص کو رہبری کے لئے انتخاب کریں کہ جو خدا پر توکل اور دشمن کے سامنے ڈٹ جانے کی شجاعت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو اور امام رح کے مشن کو آگے بڑھائے لیکن یہ بھی امکان ہے کہ بعض دوسری خصوصیات کے حامل شخص کو رہبری کے لئے چنا جائے، بنا بر ایں تحقیق، توجہ، شناخت اور اطمینان حاصل کرنے کے بعد انکو ووٹ دیا جانا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انتخابات میں شرکت کرنے اور خاص طور پر صالح اور اصلح امیدواروں کے انتخاب میں توجہ کئے جانے کو دو اعلیٰ اہداف یعنی انقلاب کی بقا اور ملت کے امن و امان کے حصول کا زریعہ قرار دیا۔
آپ نے انقلاب کی بقا میں صحیح انتخاب کی تاثیر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب کے آغاز سے ہی انقلاب سے جڑنے اور جدا ہونے کا عمل جاری ہے، بعض انقلابی افراد نے " ممکنہ انفرادی ظلم" کی بنیاد پر کہ جو ان پر ہوا، غلطی سے اصل انقلاب سے منہ موڑ لیا ہے اور بعض افراد نے اپنے ذاتی اور گھریلو مسائل کی وجہ سے دوسرے مواقف اختیار کر لئے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ انقلاب کے حامیوں جن میں مختلف میدانوں من جملہ مومن، انقلابی، ماہرین، پڑھے لکھے اور کارآمد افراد شامل ہیں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ موجودہ دور میں بھی اگر لوگ پارلیمنٹ اور ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان کے صالح امیدواروں کے انتخاب کے سلسلے میں اپنے فریضے پر صحیح طریقے سے عمل کریں تو انقلاب کے حامیوں میں اضافہ ہوگا اور انقلاب کی بقا کا زمینہ فراہم ہوجائے گا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے عوام کے دلوں کو امن و سکون بخشنے کو انقلاب کی بقا کے لئے اپنے فریضے پر عمل کرنے کی دوسری خصوصیت قرار دیتے ہوئے اور قرآن کریم کی آیات کہ جو پیغمبر اکرم ص کی بیعت کرنے والوں کے دلوں پر سکینہ اور آرام و سکون کے نزول کے بارے میں ہے فرمایا کہ آج جو بھی انقلاب، امام خمینی رح اور راہ امام کی بیعت کرے گا اسکی بیعت پیغمبر ص کی بیعت کے مترادف ہے اور پروردگار کریم اس بیعت کے صلے میں قوم کے دلوں سے پریشانی، اضطراب اور نا امیدی کو برطرف کردے گا اور انکے دلوں کو اطمینان اور آرام و سکون سے بھر دے گا
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اختتام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا انقلاب کی بقا اور امید و اطمینان سے سرشار استقامت، یقینا ملت ایران کی امریکہ اور دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں کامیابی کا باعث بنے گی۔