رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رضاکار فورس بسیج کے ڈھائی ہزار کمانڈروں سے ملاقات میں اس ادارے کو بابرکت اور بالیدگی کی منزلیں طے کرنے والا ملت ایران کا نمائندہ قرار دیا اور ملت ایران سے استکباری طاقتوں کی دشمنی کے طریقوں کی وضاحت کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ملت ایران استکبار کے ساتھ حقیقی جنگ میں اپنی خود مختاری اور تشخص کی حفاظت کے لئے سرگرم محاذ بالخصوص مظلومین اور فلسطین کی شجاع ملت اور غرب اردن کی تحریک انتفاضہ کی حمایت کے اپنے فریضے پر عمل کرے گی۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پانچ آذر مطابق چھبیس نومبر کے دن یعنی رضاکار فورس بسیج کی تشکیل کے فرمان جاری ہونے کے دن کی مبارک باد دیتے ہوئے اس فرمان کو امام خمینی رح کا ہنر اور ایک بابرکت و تخلیقی حقیقت سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض ملکوں میں ظلم و جبر کے خلاف مزاحتمی گروہوں کی تشکیل کا ماضی رہا ہے، لیکن اس کے بعد مزاحمتی گروہ اس تحریک کی کامیابی کے بعد بھی باقی رہیں، بالیدگی کی مزید منزلیں طے کریں اور تعداد اور معیار کے لحاظ سے ان میں توسیع پیدا ہو یہ بات صرف رضاکار فورس بسیج سے مخصوص ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عوامی رضاکار فورس بسیج کی صحیح تعریف پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ بسیج عوام کے اندر سے سامنے آنے والا اور عوام کا نمائندہ ادارہ ہے اور بسیجی عوام الناس کا ہی حصہ ہوتے ہیں جو عظیم الہی اہداف کے لئے اور انتھک جذبے سے سرشار، ہر اس میدان میں جہاں ان کی ضرورت پڑے، حاضر ہوجاتے ہیں اور اپنی استعداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس راستے میں سامنے آنے والے خطرات سے بھی ڈر و خوف نہیں کھاتے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عوامی صلاحیتوں اور توانائیوں میں اضافے اور نکھار کو بسیج کی صورت میں سامنے آنے کو بسیج کی ایک حیرت انگیز حقیقت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مقدس دفاع کے عظیم اور نامور کمانڈروں کے علاوہ بھی، سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں کے نامور افراد مثلا شہید ایٹمی سائنسدان کہ جنھوں نے عظیم کارنامے انجام دیئے اور دے رہے ہیں، در حقیقت بسیج کے رکن تھے اور ہیں۔
آپ نے مختلف فوجی، علمی، سائنسی، فنی، ہنری، ثقافتی، مزاحمتی اقتصاد کے میدانوں بھرپور شرکت کو عوامی رضاکار فورس بسیج کی اہم خصوصیات قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ میں نے اعلی حکام سے سفارش کی ہے کہ مزاحمتی اقتصاد کے سلسلے میں بسیج کی توانائیوں سے استفادہ کیا جائے تاہم بسیج کے کمانڈروں کو بہت محتاط رہنا چاہئے کیونکہ مالی اور اقتصادی امور قدم ڈگمگا جانے والے اور دشمن کے جال کے طور پر استعمال ہونے والے امور ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں بسیج کی موجودگی کے مقصد کو غدار، مکار، دھوکے باز اور شیطان صفت دشمن کے مقابلے میں ملی و انقلابی تشخص، اقدار اور اہداف کی حفاظت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آج امریکی حکومت ملت ایران سے استکبار کی دشمنی کا مظہر ہے۔
آپ نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ آج عالمی سطح پر امریکا کی قیادت والے استکباری محاذ اور ایران کی سربراہی میں تشکیل پانے والے ملی خود مختاری اور تشخص کی حفاظت کے محاذ کے مابین ہے فرمایا کہ استکبار کو سیاسی اداروں اور تنظیموں کے علاوہ بڑی صیہونی کمپنیوں کی مالی پشت پناہی بھی حاصل ہے اور در حقیقت استکباری محاذ، طاقت، پیسہ اور فریب کے مثلث کو بروئے کار لاتے ہوئے دائمی طور پر منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ استکبار کے سیاسی اور سفارتی اداروں کے عمل میں فریب کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس وقت آپ سے مسکری کر ملتے ہیں اور آپ سے بغل گیر ہوتے ہیں، اسی لمحہ آپ کے دل میں خنجر گھونپ دیتے ہیں۔
آپ نے استکبار کی مختلف چالوں ( عملی اور فکری دشمنی) کی جانب سے ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن کی فکری دشمنی کا ایک طریقہ اثر و نفوذ بڑھانے کے منصوبے پر عمل درآمد ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اثر و نفوذ کو بیان کئے جانے کے بارے میں کچھ لوگ رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ گروہی مفادات کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، یہ غلط ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن یہ باتیں خود دراندازی کے مسئلے سے غافل ہونے کا سبب نہ بن جائیں اور اصل مسئلہ یعنی دراندازی کو فراموش نہ کر دیا جائے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ یہ بات ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں اور یقین کریں کہ دشمن اس سلسلے میں منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے محدود اثر و نفوذ اور گروہی شکل میں یا نیٹورک بنا کر دراندازی کو منصوبہ سازوں اور سازشیں رچنے والوں کی دو بنیادی روشیں قرار دیا۔
آپ نے محدود دراندازی کہ جس کی ماضی اور زمانہ حال میں بہت سی مثالیں موجود ہیں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس روش کو سیاسی، حکومتی یہاں تک کہ دینی اداروں میں بھی طویل عرصے سے استعمال کرتے آ رہے ہیں اور اس کے تحت درانداز عناصر، دوست کی شکل میں اور رفتار و گفتار کا ماسک پہن کر، مطلوبہ افراد کے گھروں، اداروں یا سسٹم میں جگہ بنا لیتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اطلاعات جمع کرنا اور جاسوسی کرنے کو اس قسم کی دراندازی کے اصل مقاصد قرار دیا لیکن اس بات کی تاکید فرمائی کہ دراندازی کی اس روش میں اس سے بھی زیادہ اہم ہدف جو پیش نظر رہتا ہے وہ فیصلہ سازی ہے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ فیصلہ سازی کے مسئلے میں درانداز شخص یہ کوشش کرتا ہے کہ معاشرے یا ملک کے مختلف مسائل کے بارے میں کئے جانے والے فیصلوں میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے والے عہدیدار یا موثر شخص کی مختلف مسائل کے بارے میں رائے کو تبدیل کر دے تاکہ وہ شخص وہی فیصلہ کرے جو وہ چاہتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے گروہی شکل میں یا نیٹ ورک بنا کر دراندازی کو دوسری روشوں سے زیادہ خطرناک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس روش میں دشمن بنیادی طور پر دو چیزوں پیسے اور جنسی کشش کے ذریعے قوم اور ملک کے اندر نیٹ ورک تیار کرتا ہے تاکہ اہداف، عقائد اور بالآخرطرز زندگی کو تبدیل کر دے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ گروہی شکل میں یا نیٹورک بنا کر کی جانے والی خطرناک دراندازی میں کچھ افراد جھوٹے ہدف کو بنیاد بنا کر مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط برقرار کرتے ہیں تاکہ مختلف امور کے بارے میں بتدریج ان کی فکر کو تبدیل کردیں تاکہ وہ بھی دشمن کی طرز پر سوچنے لگیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فکر و نظر کی تبدیلی کو اہداف، اقدار اور عقائد کی تبدیلی کا زمینہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح اغیار اپنی شناخت کروائے بغیر اور کسی خطرے سے دوچار ہوئے بغیر، اپنے اہداف حاصل کر لیتے ہیں۔
حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اعلی حکام، منتظمین، اہم شخصیات اور بڑے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرنے والے افراد کو دراندازی کے پروجیکٹ کا اصلی نشانہ گردانتے ہوئے ایک بار پھر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ صرف اس بات کو بہانہ بنا کر کہ دراندازی کے مسئلے سے کچھ لوگ گروہی اور جماعتی مفادات کے لئے سوء استفادہ کر سکتے ہیں اس مسئلے کی اہمیت کو کمرنگ نہیں کرنا چاہئے۔
آپ نے ذیلی اور فروعی مسائل کو دراندازی کے میں مددگار واقع ہونے کا زریعہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ اس مسئلے میں ان لوگوں پر جو اقدار اور بنیادی اصولوں پر زور دیتے ہیں، انتہا پسندی کا الزام لگا دیا جاتا ہے تاکہ انھیں چپ کراکے اور اقدار و اہداف کو بتدریج کمزور کرکے دراندازی کے پروجیکٹ کے اہداف کی تکمیل کا راستہ ہموار کیا جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ان افراد اور حلقوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہ جو انتہا پسندی کا الزام لگا کر بسیج کی سرزنش کرتے ہیں فرمایا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ افراد اور یہ حلقے جان بوجھ کر یہ کام کر رہے ہیں، لیکن یہ الزامات دانستہ یا نادانستہ طور پر بسیج کے مستحکم بنکروں کو کمزور اور دشمن کی دراندازی کے خطرناک پروجیکٹ کی تکمیل کر رہے ہیں۔
آپ نے ان افراد کو نصیحت کرتے ہوئے کہ جو مختلف پلیٹ فارموں سے انقلاب کی بنیادوں اور اصولوں کو کمزور کرنے یا غلط قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں فرمایا کہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جو بھی انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اصولوں اور اقداروں کی بات کرے اس پر دھڑے بندی اور انتہا پسندی کا الزام لگا دیا جائے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں بسیج کے رشد اور بالیدگی اور گہرے اثرات و دائمی ثمرات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بسیج کا مستقبل تابناک ہے لیکن ان آفتوں کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے کہ جو بالخصوص اندر سے بسیج کے تناور درخت کے لئے خطرات پیدا کر سکتی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے غرور اور اس غرور کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غفلت نیز دنیاوی چمک دمک کی دوڑ میں الجھ جانے کو بسیج کے لئے اندرونی آفت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بسیج اور بسیجیوں کو اس سلسلے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بسیج کی ترجیحات کو بیان کرتے ہوئے تقوی و بصیرت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں ملک کے داخلی میدان، دشمن کے نقش قدم اور اندرونی استحکام کے امور کا بخوبی ادراک ہونا چاہئے اور دنیا اور علاقے میں ملت ایران کی بلند اور باوقار پوزیشن سے آگاہ ہونا چاہئے۔
آپ نے مغرب کے مقابلے میں شدید احساس کمتری کی وجہ سے ملت ایران کی عظیم توانائیوں اور صلاحیتوں کا انکار کرنے والے افراد پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ بیشک ملک کے اندر نقائص موجود ہیں، لیکن اغیار کے شیدائی بن کر اور قوم کی تحقیر کرتے ہوئے علاقے اور دنیا میں ایران کی انتہائی اہم پوزیشن اور باشرف، باوقار اور عظیم عوام کی توانائیوں اور کارناموں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے روز افزوں آمادگی کو بھی بسیجکی اہم ترجیحات کا جز قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہم حریت پسندی اور اقدار کے محاذ کے خلاف استکبار کی جنگ سے لا تعلق نہیں رہ سکتے، اور اسی وجہ سے خطے کے مختلف مسائل خاص طور پر فلسطین اور بحرین، یمن، شام اور عراق کے بحرانوں کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف بالکل منطقی اور واضح ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ استکبار کا اصلی ہدف یہ ہے کہ فلسطین کے اعلی اہداف و مقاصد کو فراموش کر دیا جائے فرمایا کہ استکبار کی تمام تر کوششوں حتیٰ عرب حکومتوں کی جانب سے استکبار سے تعاون کے باوجود غرب اردن میں فلسطین کے عوام کی تحریک انتفاضہ شروع ہو چکی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں استکبار کے ذرائع ابلاغ کی ظالمانہ کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ میڈیا ان عوام کو جو اپنی سرزمین پر غاصبانہ قبضے اور اپنے گھروں کے ڈھائے جانے کے جواب میں پتھراؤ کرتے ہیں، دہشت گرد قرار دے دیتا ہے اور اس گروہ کی حمایت میں جس نے فلسطین کی زندگی اور عزت و آبرو چھین لی ہے، کہتا ہے کہ وہ اپنا دفاع کر رہا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں یہ رویہ اور یہ سوچ کیا کوئی معمولی غلطی اور کوئی چھوٹا ظلم ہے کہ جسے آسانی سے نظر انداز کر دیا جائے اور اس سے لا تعلق رہا جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم فلسطینی عوام کی تحریک کا اپنی پوری طاقت سے اور جب بھی اور جس طرح بھی ممکن ہوا دفاع کریں گے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بحرین کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بحرین کے عوام کا کیاگناہ ہے؟ آیا وہ تمام شہریوں کو ووٹ ڈالنے کے حق سے زیادہ کسی اور چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ کیا یہ جمہوریت نہیں ہے؟ کیا مغرب جمہوریت کی حمایت کا دعویدار نہیں ہے؟
آپ نے بحرین میں اقتدار پر براجمان ظالم اقلیت کے ہاتھوں ملک کے عوام کی توہین اور ان پر شدید دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ نوبت یہ آ گئی ہے کہ یہ ظالم اقلیت بحرین کے عوام کے مقدسات اور ماہ محرم میں عزاداری کی توہین کر رہی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یمن کے مظلوم عوام پر مسلسل کئی ماہ سے جاری بمباری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویدار ادارے ان حالات میں ان لوگوں کی حمایت کر رہے ہیں جنہوں نے یمن کے عوام کو اپنے حملوں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شام اور عراق کے مسائل کے بارے میں فرمایا کہ استکبار ان دو ملکوں میں انتہائی خبیث اور شقی ترین دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے اور شام کے سلسلے میں اس بات پر مصر ہے کہ حکومت کی تشکیل کا طریقہ وہ خود طے کرے گا۔
آپ نے فرمایا کہ تم کون ہوتے ہو اور تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ دنیا کے دوسرے کونے سے آکر شام کے عوام کے وظایف طے کرو۔ ہر قوم کے لئے ضروری ہے کہ اپنی حکومت کا تعین خود کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بسیج یہ بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ فلسطین، شام، عراق، یمن اور بحرین کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف پوری طرح منطقی ہے کہ جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان اختیار کرسکتا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں رضاکار فورس بسیج کو ایک گراں قدر اور نا ختم ہونے والا خزانہ قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ خداوند متعال کی توفیقات کی وجہ سے ایرانی قوم اس خزانے کی حفاظت کریگی اور اسے مزید نکھارےگی اور ملت ایران اپنی ہمت، بلند ارادوں اور بصیرت کی مدد سے اوج ثریا پر اپنی ترقی و پیشرفت حاصل کرے گی اور دشمن اس کا بال بھی بیکا نہیں کرپائیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ کے خطاب سے پہلے پاسداران انقلاب فورس کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری نے بسیج کو اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رح کی روحانی اولاد سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ بسیج اس وقت اسلامی انقلاب کے اعلی اہداف کے حصول کے لئے عالمی سطح پر امور سنبھالنے اور حالات کا رخ مستضعفین اور مسلمانوں کے حق میں موڑنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
بسیج کے سربراہ جنرل محمد رضا نقدی نے بھی اس ملاقات میں تمام اصناف و طبقات تک بسیج کا دائرہ پھیل جانے کی امام خمینی کی خواہش پوری ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بسیج کے جوانوں نے شہیدوں سے جو عہد کیا ہے اس پر اپنے خون کے آخری قطرے تک قائم رہیں گے اور ظلم کی نابودی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔