رہبر انقلاب اسلامی نے صدر مملکت اور حکومتی اراکین سے ملاقات میں حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حضرت مالک اشتر کے نام خط کے بعض حصوں کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ روحی، فکری اور معنوی حمایت تمام تر مشکلات کے حل کی اصلی عامل ہے اور مولائے متقیان کے خطبات اور فرامین پر مشتمل کتاب نہج البلاغہ میں غور و فکر کے زریعے اس حمایت کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت کی جانب سے ایٹمی مذاکرات کے نتیجے کے بارے میں کی جانے والی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے مذاکراتی ٹیم کی صادقانہ اور بھرپور جدوجہد کو سراہا اور انکا شکریہ ادا کیا۔
آپ نے حضرت مالک اشتر کی شخصیت کے اہم پہلووں کو بیان کرتے ہوئے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے نزدیک انکے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنا فرمان اس طرح کی شخصیت کو مخاطب کرتے ہوئے جاری کیا ہے اور یہ نکتہ خود فکر و تدبر کا باعث ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امیر المونین کے مالک اشتر کے نام فرمان میں حکام کے وظائف پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام سے ٹیکس اور دوسرے مالی حقوق کی وصولی کہ جو حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں، اپنی سرزمین کے باسیوں کا دفاع، معاشرے کو امن و صلح، سعادت، تعمیر اور ترقی کی جانب گامزن کرنا، یہ وہ چار اصلی اور اہم ذمہ داریاں ہیں کہ جنہیں امیر المومنین نے مالک اشتر کے نام اپنے فرمان میں حکام کے فرائض میں سے قرار دیا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی حکمرانوں کو ہر طرح کے ماحول اور شرائط میں تقوائے الہی اختیار کرنے، فرائض، سنتوں اور مستحبات کی انجام دہی میں سنجیدگی، اپنے دل، زبان اور عمل کے زریعے خداوند متعال سے نصرت طلب کرنے اور نفسانی شہوات کے مقابلے میں اپنے نفس کو قابو کرنے کو وہ اہم عوامل قرار دیا کہ جو امیر المومنین نے اپنے فرمان میں مالک اشتر کو خود سازی کے لئے بیان فرمائے ہیں۔
سابقہ حکام کے بارے میں منصفانہ قضاوت بھی رہبر انقلاب اسلامی کا اگلا نکتہ تھا جسے آپ نے مالک اشتر کے نام امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فرمان کا حوالہ دیتے ہوئے بیان فرمایا۔
آپ نے ذمہ داریوں کے دور میں عمل صالح کو تمام افراد کے لئے بہترین ذخیرہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عوام غور و فکر کے ساتھ کئے جانے والے فیصلوں میں غلطی نہیں کرتے بنا بر ایں اس طرح کے فیصلوں میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کون سا حاکم یہ حکومتی عہدیدار صالح ہے کون سا نہیں۔
منحرف ہونے اور نابود ہونے سے بچنے کے لئے نفس کو حرص و ہوس کے مقابلے میں کنٹرول کرنا اور ہر چیز کے مقابلے میں حکم الہی کو ترجیح دینا یہ وہ دو فرائض تھے کہ جو رہبر انقلاب اسلامی نے امیرالمومنین علیہ السلام کے حکومتی فرمان کو پڑھتے ہوئے بیان کئے اور فرمایا کہ امام راحل عظیم الشان ان الہی سفارشات کا عملی مظہر تھے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مالک اشتر کے نام امیر المومنین کے فرمان کے دیگر نکات یعنی عوام کو صمیم قلب کے ساتھ دوست رکھنے اور انکے ساتھ محبت و مدارا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امیر المومنین علیہ السلام کے حکم کے مطابق لوگوں کی خطاوں اور لغزشوں سے درگزر کیا جانا چاہئے سوائے ان موارد کے کہ جن میں الہی حدود کو پیروں تلے روندا جائے یا اسلام اور اسلامی حکومت سے جنگ و جدل جیسا کوئی مورد ہو۔
آپ نے اپنی گفتگو کے اختتام پر مالک اشتر کے نام حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ اسلام کے فرمان کو ایک عظیم ثقافتی روثہ قرار دیا اور حکومتی عہدیداروں کی زحمتوں کی قدر دانی کرتے ہوئے انکے لئے توفیقات میں اضافے کی دعا فرمائی۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے ایٹمی مذاکرات کے نتیجے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حکومت اور مذاکراتی ٹیم کی حمایت اور ہدایات دیئے جانے پر رہبر انقلاب اسلامی کا شکریہ ادا کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ یہ مسئلہ تمام تر دبائو اور پابندیوں کے خاتمے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کی جانب سے بے بنیاد الزامات کے خاتمے کا سبب بنے گا اور اس کے زریعے ملک کی ترقی و پیشرفت کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔
صدر مملکت نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے حکومتی اقدامات کا تذکرہ کیا۔
ڈاکٹر روحانی نے آخری دو سالوں کے دوران حکومت کی مشکلات اور کامیابیوں، ہمسایہ ممالک سے نزدیکی تعلقات اور ایٹمی مذاکرات کو جاری رکھنے کے لئے لازمی اقدامات کو خارجہ سیاست میں حکومت کے اقدامات قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ایسے عالم میں کہ جب یہ خطہ آشوب اور دہشتگردی کا شکار ہے، اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے کے ممالک کی حمایت کی ہے کہ جو اس دہشتگردی کی لعنت کا شکار ہیں اور ہم اس حمایت کو جاری رکھیں گے۔
صدر مملکت نے اقتصادی میدان میں، جمود سے باہر نکلنے، اقتصاد کی منفی رشد کے مثبت رشد میں بدلنے، مہنگائی کو قابو کرنے، گندم کی واردات میں کمی اور غیر پٹرولیم مصنوعات کی ایکسپورٹ کو حکومت کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نوکریوں کے مسائل اور اقتصادی ترقی و پیشرفت کے لئے ہمیں سرمائے اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر روحانی نے مرکزی بینک اور پرائیویٹ سیکٹر کے بھاری قرضوں، یارانہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات، بے کاری، غیر قانونی کریڈٹ انسٹیٹیوٹس کے فعال ہونے، بینکوں کو درپیش مشکلات، پانی اور زیر زمین قدرتی ذخائر میں کمی، خشکسالی، ماحولیات کے مسائل اور پٹرول کی قیمت میں کمی کو حکومت کو درپیش مسائل میں سے قرار دیا۔
صدر مملکت نے عوام کے مسائل کے حل کے لئے حکومت کی تمام تر توانائیوں کے استعمال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان مشکلات کے حل کے لئے تمام اداروں کا تعاون ضروری ہے تاکہ باقیماندہ راستے کو تیزی کے ساتھ طے کیا جاسکے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت کی جانب سے ایٹمی مذاکرات کے نتیجے کے بارے میں کی جانے والی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے مذاکراتی ٹیم کی صادقانہ اور بھرپور جدوجہد کو سراہا اور انکا شکریہ ادا کیا۔
آپ نے حضرت مالک اشتر کی شخصیت کے اہم پہلووں کو بیان کرتے ہوئے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے نزدیک انکے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنا فرمان اس طرح کی شخصیت کو مخاطب کرتے ہوئے جاری کیا ہے اور یہ نکتہ خود فکر و تدبر کا باعث ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امیر المونین کے مالک اشتر کے نام فرمان میں حکام کے وظائف پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام سے ٹیکس اور دوسرے مالی حقوق کی وصولی کہ جو حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں، اپنی سرزمین کے باسیوں کا دفاع، معاشرے کو امن و صلح، سعادت، تعمیر اور ترقی کی جانب گامزن کرنا، یہ وہ چار اصلی اور اہم ذمہ داریاں ہیں کہ جنہیں امیر المومنین نے مالک اشتر کے نام اپنے فرمان میں حکام کے فرائض میں سے قرار دیا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی حکمرانوں کو ہر طرح کے ماحول اور شرائط میں تقوائے الہی اختیار کرنے، فرائض، سنتوں اور مستحبات کی انجام دہی میں سنجیدگی، اپنے دل، زبان اور عمل کے زریعے خداوند متعال سے نصرت طلب کرنے اور نفسانی شہوات کے مقابلے میں اپنے نفس کو قابو کرنے کو وہ اہم عوامل قرار دیا کہ جو امیر المومنین نے اپنے فرمان میں مالک اشتر کو خود سازی کے لئے بیان فرمائے ہیں۔
سابقہ حکام کے بارے میں منصفانہ قضاوت بھی رہبر انقلاب اسلامی کا اگلا نکتہ تھا جسے آپ نے مالک اشتر کے نام امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فرمان کا حوالہ دیتے ہوئے بیان فرمایا۔
آپ نے ذمہ داریوں کے دور میں عمل صالح کو تمام افراد کے لئے بہترین ذخیرہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عوام غور و فکر کے ساتھ کئے جانے والے فیصلوں میں غلطی نہیں کرتے بنا بر ایں اس طرح کے فیصلوں میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کون سا حاکم یہ حکومتی عہدیدار صالح ہے کون سا نہیں۔
منحرف ہونے اور نابود ہونے سے بچنے کے لئے نفس کو حرص و ہوس کے مقابلے میں کنٹرول کرنا اور ہر چیز کے مقابلے میں حکم الہی کو ترجیح دینا یہ وہ دو فرائض تھے کہ جو رہبر انقلاب اسلامی نے امیرالمومنین علیہ السلام کے حکومتی فرمان کو پڑھتے ہوئے بیان کئے اور فرمایا کہ امام راحل عظیم الشان ان الہی سفارشات کا عملی مظہر تھے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مالک اشتر کے نام امیر المومنین کے فرمان کے دیگر نکات یعنی عوام کو صمیم قلب کے ساتھ دوست رکھنے اور انکے ساتھ محبت و مدارا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امیر المومنین علیہ السلام کے حکم کے مطابق لوگوں کی خطاوں اور لغزشوں سے درگزر کیا جانا چاہئے سوائے ان موارد کے کہ جن میں الہی حدود کو پیروں تلے روندا جائے یا اسلام اور اسلامی حکومت سے جنگ و جدل جیسا کوئی مورد ہو۔
آپ نے اپنی گفتگو کے اختتام پر مالک اشتر کے نام حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ اسلام کے فرمان کو ایک عظیم ثقافتی روثہ قرار دیا اور حکومتی عہدیداروں کی زحمتوں کی قدر دانی کرتے ہوئے انکے لئے توفیقات میں اضافے کی دعا فرمائی۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے ایٹمی مذاکرات کے نتیجے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حکومت اور مذاکراتی ٹیم کی حمایت اور ہدایات دیئے جانے پر رہبر انقلاب اسلامی کا شکریہ ادا کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ یہ مسئلہ تمام تر دبائو اور پابندیوں کے خاتمے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کی جانب سے بے بنیاد الزامات کے خاتمے کا سبب بنے گا اور اس کے زریعے ملک کی ترقی و پیشرفت کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔
صدر مملکت نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے حکومتی اقدامات کا تذکرہ کیا۔
ڈاکٹر روحانی نے آخری دو سالوں کے دوران حکومت کی مشکلات اور کامیابیوں، ہمسایہ ممالک سے نزدیکی تعلقات اور ایٹمی مذاکرات کو جاری رکھنے کے لئے لازمی اقدامات کو خارجہ سیاست میں حکومت کے اقدامات قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ایسے عالم میں کہ جب یہ خطہ آشوب اور دہشتگردی کا شکار ہے، اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے کے ممالک کی حمایت کی ہے کہ جو اس دہشتگردی کی لعنت کا شکار ہیں اور ہم اس حمایت کو جاری رکھیں گے۔
صدر مملکت نے اقتصادی میدان میں، جمود سے باہر نکلنے، اقتصاد کی منفی رشد کے مثبت رشد میں بدلنے، مہنگائی کو قابو کرنے، گندم کی واردات میں کمی اور غیر پٹرولیم مصنوعات کی ایکسپورٹ کو حکومت کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نوکریوں کے مسائل اور اقتصادی ترقی و پیشرفت کے لئے ہمیں سرمائے اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر روحانی نے مرکزی بینک اور پرائیویٹ سیکٹر کے بھاری قرضوں، یارانہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات، بے کاری، غیر قانونی کریڈٹ انسٹیٹیوٹس کے فعال ہونے، بینکوں کو درپیش مشکلات، پانی اور زیر زمین قدرتی ذخائر میں کمی، خشکسالی، ماحولیات کے مسائل اور پٹرول کی قیمت میں کمی کو حکومت کو درپیش مسائل میں سے قرار دیا۔
صدر مملکت نے عوام کے مسائل کے حل کے لئے حکومت کی تمام تر توانائیوں کے استعمال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان مشکلات کے حل کے لئے تمام اداروں کا تعاون ضروری ہے تاکہ باقیماندہ راستے کو تیزی کے ساتھ طے کیا جاسکے۔