ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا آذربائیجان کے عوام کے اجتماع سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں تمام بھائیوں اور بہنوں کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جو سردی کے اس موسم میں طولانی سفر طے کرکے صوبہ آذربائیجان کے صدر مقام تبریز اور دیگر  شہروں سے یہاں تشریف لائے اور اپنی اس تشریف آوری سے ہمارے اس حسینیہ کی فضا کو معنوی اور مہر و محبت کی خوشبو سے معطر کیا، ہر سال انتیس29 بہمن مطابق اٹھارہ فروری کی تاریخ میرے لئے ولولہ انگيز سالانہ ملاقات کی سوغات لیکر آتی ہے اور اس مقام پر آذربائيجان کے علاقے سے رہنے والے غیور، بہادر اور شجاع نوجوانوں اور عزیزوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ میرے لئے یہ ملاقات بڑی ولولہ انگیز ،دل آویز اور شیریں ملاقات واقع ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ عزیزوں پر اپنے الطاف، اپنی ہدایت خاص اور اپنی غیبی امداد میں روز بروز اضافہ فرمائے اور آپ  اپنےوطن عزیز کے سب سےزیادہ درخشاں ، سب سے زيادہ دلچسپ  اور سب سےزیادہ دلکش مستقبل کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام سے ہمیں جو سبق اور جو عبرتیں حاصل ہوئی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں اور ہر قدم پر ہمارے عوام کی، ہمارے حکام کی اور خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کی بلندیوں کی جانب پیش قدمی میں مدد کرتی ہیں۔ ہمیں حاصل ہونے والی عبرتیں، ہمارے تجربات اور ہمارے مشاہدات، یعنی یہ صرف معلومات نہیں ہیں بلکہ ہم نے ان کا مشاہدہ کیا ہے، ہمیں ان مشاہدات سے راہنمائی ملتی ہے۔ اس کا ایک نمونہ جسے میں بیان کرنا لازمی سمجھتا ہوں یہی بائیس بہمن مطابق گیارہ فروری کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی مناسبت سے ریلیوں میں عوام کی عظیم اور شاندار شرکت ہے۔ یہ بات سب نے کہی کہ اس سال ملک کے تمام حصوں میں ریلیوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد گزشتہ برسوں کی نسبت کہیں زیادہ تھی، لوگوں کا جوش و جذبہ زیادہ تھا اور لوگوں کی خوشی دوبالا اور دو چنداں تھی۔ کیوں؟ یہ ایک ، دو یا چند لوگوں کی بات نہیں ہے۔ تہران میں، دیگر صوبوں میں، تبریز، اصفہان، مشہد اور دیگر شہروں میں جہاں کی خبریں ہمیں ملی ہیں، لوگوں کی شرکت بڑی عظیم اور شاندار تھی۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کی اس عظیم شرکت کی وجہ کیا ہے؟ اس سال ایسا کیا ہوا کہ عوام زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ، زیادہ شوق و ولولہ کے ساتھ اور زیادہ انس و محبت کے ساتھ میدان میں حاضر ہوئےاور سڑکوں کو اپنے وجود سے مملو کردیا؟ اس سوال کا جواب ہمارے لئے بڑا اہم درس بھی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ایرانی قوم  نے اس سال محسوس کیا کہ عزیز وطن ، اسلامی نظام اور دین اسلام کو اس حضور اور شراکت کی ضرورت اور احتیاج ہے۔ شرپسند اور موذی دشمن کے اختیار میں دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ اور مواصلاتی وسائل ہیں اور مغرب کے بہت سے سیاستداں اس کے آلہ کار ہیں، یعنی یہی سرمایہ داروں کا محاذ، یہی بڑے بڑے کارٹل، یہی بڑے بڑے ٹرسٹ، یہ کثیر القومی کمپنیوں کے مالکان، یہ خون چوس جانے والے سرمایہ دار، یہ صیہونی، یہ عالمی صیہونی نیٹ ورک جس کے اختیار میں دنیا کے ذرائع ابلاغ اور انتہائی پیشرفتہ الیکٹرانک میڈیا ہے،  ٹی وی چینل ہیں، جس کے اختیار میں انٹرنیٹ کا نیٹ ورک ہے، یہ لوگ کئی مہینوں سے اپنے پروپیگنڈوں میں یہ تاثر عام کرنے کی کوشش شروع کر رہے تھے کہ ایرانی قوم میں نظام کے بارے میں ، اسلام کے تعلق سےبارے میں، اعلان شدہ اہداف کے بارے میں  عدم توجہی اور عدم دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کا خوب پرچار کیا، اپنے ذرائ‏ ابلاغ ،  لاؤڈ اسپیکروں سے بار بار یہ بات دوہرائی تا کہ ایران کی عظيم قوم کو اس جھوٹ کا یقین دلا دیں۔ مقصد کیا تھا؟ مقصد یہ تھا کہ ایران کی شجاع قوم، باایمان قوم، سخت اور دشوار امتحانوں پر ہمیشہ پوری اترنے والی قوم میں  بے رغبتی اور بد دلی کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ جب کسی قوم میں یہ کیفتیت پیدا ہو جاتی ہے تو قومی دفاع بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ جب قوم میدان سے ہٹ جائے تو حکام تنہا رہ جاتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی سیاسی نظام قوم کی پشتپناہی کے بغیر اپنا مشن آگے نہیں بڑھا سکتا۔ دشمن یہی چاہتا تھا۔ خاص طور پر گیارہ فروری کی ریلیوں کو انہوں نے ذہن میں رکھا اور انواع و اقسام کے پروپیگنڈے شروع کردیئے تاکہ شاید انقلاب کی سالگرہ کی ریلیوں  میں عوام کی شرکت کو محدود کر سکیں، عوامی شراکت کی رونق کو کم کر سکیں، عوام کو ان ریلیوں سے دور رکھ سکیں۔ عوام اس چال کو بھانپ گئے۔ جس چیز کو دیکھ کر انسان حیرت کے سمندر میں غوطے لگانے لگتا ہے، وہ چیز جس کی وجہ سے انسان اس قوم کی عظمت کو سلام کرکے فخر محسوس کرتا ہے، وہ چیز ایرانی قوم کی یہی بصیرت اور موقعہ شناسی ہے۔ ۔۔۔(1) عوام الناس کی یہ بے مثال بصیرت، یہ موقعہ شناسی انسان کو مبہوت کر دیتی ہے۔ اسی خصوصیت نے اس قوم کو ثابت قدم رکھا ہے، اسی سے ملک کو تحفظ ملا ہے۔ ملت ایرایرانی قوم نے بھانپ لیا کہ اس وقت دشمن کا ہدف کیا ہے؟ قوم نے اپنے اقدام سے دشمن کو بھرپور طمانچہ رسید کیا۔ اپنی بھرپور شراکت کے ذریعہ دشمن کی ساری سازشوں کو نقش بر آب کردیا ۔ بچے، نوجوان، بوڑھے اور عمررسیدہ افراد، مرد اور خواتین پورے ملک میں سڑکوں پر نکل آئے۔ مجھے جو مصدقہ اطلاعات ملیں ان کے مطابق ملک کے کم از کم ساڑھے آٹھ سو شہروں میں عوام کی ایسی زبردست شرکت رہی کہ ٹیلی ویزن بھی اس عظیم واقعہ کو پوری طرح نشر کرنے سے قاصر ہے۔ یہ ایرانی قوم ہے ، یہ ایرانی قوم کی بصیرتہے یہ قوم کی موقعہ شناسی اور شراکت ہے۔ اس قوم کو ہرگز شکست نہیں ہو سکتی۔ جن لوگوں تک اس کا پیغام پہنچنا تھا پہنچ گیا۔ جو لوگ شراب کے نشے مدہوش اپنے بیمار دماغوں میں ایرانی قوم کے خلاف کچھ منصوبے بنا رہے تھے ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ ایران کے کیا حالات ہیں،انہوں نے اپنے پروپیگنڈوں میں ایک بار پھر اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن اس حقیقت کا ادراک جسے ہونا چاہیے تھا اسے اس کا ادراک ہو گیا۔ ہمارے دشمنوں کے خفیہ ادارے، اسلامی جمہوریہ کے دشمن ممالک کے سیاستداں سب سمجھ گئے کہ ایرانی قوم کس طرح میدان میں ثابت قدمی سے کھڑی ہوئی ہے، ویسے انہوں نے اس عوامی حضور کو بھی چھپانے کی بڑی کوشش کی کیونکہ اس سے ان کی رسوائی ہوگی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ذرائع ابلاغ کی آزادی کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔ جن کا دعوی ہے کہ وہ کبھی بھی خبروں کو نہیں چھپاتے، کسی خبر کو مخفی نہیں رکھتے، سینسر شپ کے قائل نہیں ہیں۔ اگر وہ واقعی سینسر نہ لگاتے تو ملک بھر میں نکلنے والی ریلیوں میں شرکت کرنے والے عوام کی کروڑوں کی تعداد کے بارے میں یہ نہ کہتے کہ تہران میں چند ہزار لوگ آئے تھے! یہ چند ہزار لوگ تھے، گیارہ فروری کو تہران میں سڑکوں پر نکلنے والے لاکھوں افراد آپ کو بس چند ہزار نظر آئے،  کہتے ہیں کہ پورے ایران میں چند لاکھ افراد نے ریلیوں میں شرکت کی! یہ چندلاکھ کی تعداد تھی، ایک ایک شہر میں لاکھوں افراد نے ریلیوں میں شرکت کی ہے، پورے ملک میں کروڑوں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر انقلاب کا جشن منایا ہے۔ بہرحال ہم اپنے دشمنوں کی طرف سے جھوٹ، فریب دہی اور پست چالیں شروع ہی سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ انقلاب کے آغازسے  اب تک یہ سلسلہ جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا لیکن ان کا مقصد پورا ہونے والا نہیں ہے۔
جب کسی قوم کے دلوں کی گہرائیوں سے اس کا سچا اور صداقت پر مبنی پیغام نکلتا ہے تو وہ اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے۔ ہم نے یہ بات بارہا کہی ہے کہ عوامی شراکت، انقلابی جذبہ اور پرعزم اقدام باد بہاری کی مانند  دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچتا ہے اور اپنے ہلکے ہلکے جھونکوں سے پورے وجود کو نوازتا ہے۔ اس کی مثال چاہیے تو ایک نظر شمالی افریقا پر ڈالئے ، تمام عرب ممالک پر ڈالئے، پورے عالم اسلام پر ایک نظر ڈالئے اس کا نمونہ دیکھنا ہے تو صاحب فکر مسلمانوں کے دلوں کی گہرائی میں جھانکئے ان ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ان گذشتہ برسوں کے دوران رفتہ رفتہ ان میں اپنے تشخص کا احساس بیدار ہوا ہے، ان کی اسلامی پہچان بحال ہوئی ہے۔ اسلام اپنے عظیم مشن میں انتہائی حساس موڑ پر پہنچ گیا ہے۔ آئندہ نسلیں اپنی آنکھوں سے بڑی اہم تبدیلیوں کا مشاہدہ کریں گی۔ دنیا دگرگوں ہو جائے گی۔ یہ سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی پالیسیاں رفتہ رفتہ کمزور پڑتی جائيں گی نابود ہوتی جائيں گی، بے اثر ہوتی جائيں گی۔جنہوں نے قوموں کو جکڑ رکھا ہے یہ دنیا کا مستقبل ہے۔ اس درمیان اصلی مرکز یہاں ہے، یہیں سے یہ چشمہ جاری ہوا ہے اور یہیں پر عوام نے استقامت کی نئي داستان رقم کی ہے۔ استقامت و پائداری ہی بنیادی نکتہ ہے۔ میرے عزیزو! میرے نوجوانو! تبریز اور آذربائیجان کے عزیز بھائیو اور بہنو! اصلی نکتہ اسی استقامت میں پوشیدہ ہے۔ ہم ہر سال انتیس بہمن مطابق اٹھارہ فروری کے واقعہ کی یاد کیوں مناتے ہیں؟ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بس ماضی میں گم رہنا چاہتے ہیں۔ یہاں اس اجتماع میں اور اسی طرح آذربائیجان اور شہر تبریز میں ایسے بہت سے نوجوان ہیں جنہوں نے اٹھارہ فروری کے واقعہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے لیکن پھر بھی آپ سب اس دن کی یاد مناتے ہیں۔ یہ ماضی میں الجھے رہنا نہیں ہے۔ یہ در حقیقت مستقبل کی طرف پیش قدمی کے صحیح راستے اور خطوط پر چلنے کی علامت ہے۔
تبریز اور آذربائیجان کے عوام کا جہاں تک تعلق ہے، ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ آذربائیجان کے رہنے والے، خصوصا تبریز شہر اور دیگر متعدد شہروں میں بسنے والے افراد سو سال سے بھی قبل کے دور سے لیکر تاحال ملک کے اہم اور فیصلہ کن حیثیت کے حامل واقعات میں ہمیشہ پیشقدم رہے ہیں اور ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے دکھائی دیئے ہیں۔ تنباکو کے بائیکاٹ کی تحریک سے لیکر جس میں الحاج میرزا جواد مجتہد تبریزی مرحوم وارد میدان ہوئے آئینی تحریک تک، جد و جہد کا سرچشمہ آذربائیجان اور شہر تبریز رہا ہے۔ تبریز کے نامور مجاہدین کی جیب میں ہمیشہ ممتاز علمائے کرام کے خطوط اور احکامات ہوتے تھے اور وہ انہی احکامات کو اپنے اقدام کی بنیاد قرار دیتے تھے اور اس کا برملا اظہار کرتے تھے۔ ستارخان اور باقر خان جیسے شجاع افراد اور آذربائیجانی مجاہدین آشکارا طور پر کہتے تھے کہ وہ علمائے دین کے پیرو اور مراجع تقلید کے احکامات کے تابع ہیں۔ اس دور کے باقی ماندہ دستاویزات جو باقی بچ گئے ہیں وہاس حقیقت کے غماز ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ تحریک بغیر کسی ہدف کے خود بخود شروع ہو گئی ہو۔ یہ مذہبی تحریک تھی، غیرت دینی کے جذبے کے تحت یہ تحریک شروع ہوئی تھی۔ دیندار لوگ تو پورے ملک میں تھے لیکن بعض خطوں میں پائی جانے والی خاص شجاعت و حمیت و ہمت کی وجہ سے یہ تحریک زیادہ نمایاں ہوئی۔ تبریز اور آذربائيجان ایسے ہی علاقوں میں شمار کئےجاتے ہیں۔
جب اسلامی تحریک کا آغاز ہوا تو پندرہ خرداد سنہ 1342 ہجری شمسی سے تبریز اور آذربائیجان کے علمائے کرام کو وہاں سے جلاوطن کیا گیا، اور انھیں وہاں سے لاکر تہران کی جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد بھی یہی صورت حال قائم رہی۔ اسلامی انقلاب کے ابتدائی دور میں اٹھارہ فروری کی تاریخ ایک اہم شناخت کا درجہ رکھتی ہے، ایرانی عوام کی اس عظیم تحریک کا اہم ترین سنگ میل ہے۔ میں یہ بات متعدد بار کہہ چکا ہوں کہ اگر اٹھارہ فروری کا واقعہ رونما نہ ہوا ہوتا تو انیس دی مطابق 13 جنوری کا قم کا واقعہ کتنا اثر دکھا پاتا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اٹھارہ فروری کا اہل تبریز کا قیام تھا جس نے انیس دی مطابق 13 جنوری کے اہل قم کے قیام کے شہیدوں کے خون کی سرخی کو مزید بڑھا دیا اور اس کا پیغام ملک کے گوشے گوشے تک پھیلا دیا۔ تو اہل تبریز کے قیام کا یہ نتیجہ نکلا۔ اسی طرح انقلاب سے متعلق تغیرات میں اور میدان جنگ میں بھی اس کی مثالیں سامنے آئيں۔ پہلے شہید محراب اور جام شہادت نوش کرنے والے پہلے امام جمعہ تبریز کے تھے۔ پانچ شہدائے محراب میں سے دو کا تعلق تبریز سے ہے۔ مختلف بٹالینوں اور دلیر کمانڈروں میں عاشورا بٹالین اور آذربائیجانی و تبریزی کمانڈروں کے نام بہت نمایاں ہیں۔ بٹالین تو جوانوں کا ایک مجموعہ ہوتی ہے، تمام عوام تو بٹالین میں شامل نہیں ہوتے۔ لیکن اگر تمام عوام میدان میں نہ ہوں، تمام لوگوں کے دل اسی سمت میں مائل نہ ہوں تو عاشورا بٹالین جیسی شجاع اور دلاور بٹالین وجود میں نہیں آ سکتی۔ شہیدوں کے جنازوں پر جنازے چلے آرہے ہیں، عوام ان کی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں لیکن عوام کے ایثار اور اشتیاق میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، والدین اب بھی اپنے نونہالوں کو اور بھی جوش و جذبے کے ساتھ محاذ جنگ پر بھیجتے ہیں۔ یہ بہت عظیم چیزیں ہیں اور یہی ایرانی قوم کی کامیابی کا راز ہے۔
محترم عزیزو! شاہی حکومت کے دور میں ہماری بڑی توہین کی گئی، ہماری تحقیر کی گئی، ہمیں ذلیل و حقیر سمجھا گیا۔ ہمارا حق لوٹا جا رہا تھا، ہمارا تیل لوٹا جا رہا تھا، ہمارے نوجوانوں کی استعداد اور صلاحیتوں کو نکھرنے سے پہلے ہی کچل دیا جاتا تھا، ہم علم و دانش کے شعبہ میں پیچھے رہ گئے۔ ٹکنالوجی سے ہم بیگانہ ہوکر رہ گئے۔ عالمی سیاست سے بے بہرہ ہو گئے۔ دنیا کی اقوام پر ہمارا کوئی اثر نہیں رہا۔ ہمارے ہاتھ پاؤں کٹ کر رہ گئے۔ ایرانی قوم نے اس صورت حال کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنا راستہ تبدیل کر دیا۔ آج ایران عالمی استکبار اور عالمی سطح پر ہونے والے ظلم کے خلاف جدوجہد کا منادی اور علمبردارہے، البتہ اس میں ایرانی قوم کا بھی بہت فائدہ ہے۔ جب کوئی قوم رعب  و دبدبے والے دشمن کے سامنے ڈٹ جاتی ہے اور اسے للکارتی ہے تو یقین جانئے کہ وہ علم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہے، اس کی معیشت استحکام کی منزلیں طے کر رہی ہے، اس کے سماجی امور بہترین طریقے  سے انجام پا رہے ہیں، اس کی فکر، اس کا نعرہ اور اس کا عقیدہ دنیا میں پھیل رہا ہے۔ ایک زمانے میں جب ہماری زبانوں سے مظلومانہ انداز میں نعرے بلند ہوتے تھے تو ایرانی قوم اس وقت تنہا ہوا کرتی تھی لیکن آج ان نعروں کی گونج تقریبا پورے عالم اسلام میں سنائی دے رہی ہے۔ قوم اگر اپنے پختہ عزم سے کام لے تو وہ خود کو مستحکم بنا سکتی ہے، بااثر بن سکتی ہے اور استحکام کا یہ عمل پیہم و مسلسل جاری بھی رہ سکتا ہے۔ ہم علم و دانش کے شعبے میں مزید آگے بڑھیں گے، معاشی میدان میں انشاء اللہ پیشرفت حاصل کریں گے، تعمیر و ترقی کے میدان میں ہمارے قدم بلندیوں پر پہنچیں گے۔ یہ قوم، یہ نوجوان، یہ بلند ہمتی، یہ استقامت ہمارے وطن  کو کسی گلدستے کی مانند سنوار دےگی اور اسلامی جمہوریہ ایران پورے عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل بن جائے گا۔
ہماری ذمہ داری بس اتنی ہے کہ ہم صحیح خطوط پر،  صحیح سمت میں، صراط مستقیم پر، راہ خدا پر، راہ اسلام پر، راہ دین پر، راہ شریعت پر اسی طریقے اور پختہ عزم  کے ساتھ  آگے کی سمت گامزن رہیں، ہمیشہ ہوشیار رہیں، بیدار رہیں اور اپنے فرائص کی ادائیگی میں غفلت سے کام نہ لیں۔
کل کو انتخابات ہونے والے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے ایک بار پھر وہی پرانا ڈرامہ اور پروپیگنڈہ  شروع کردیا ہے، میڈیا نے پھر یہی رٹ لگا دی ہے کہ اس دفعہ انتخابات میں سردمہری نظر آئے گی۔ میں بارہا یہ کہہ چکا ہوں اور آج اس کا پھر اعادہ کرتا ہوں کہ انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت ملک کو آگے لے جائیگی، اسے دشمن کے شر سے محفوظ بنانے میں مؤثر واقع ہوگی، دشمن کی سازشوں کو نقش بر آب کر دے گی، دشمن کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی۔ پرجوش انداز میں انتخابات کا انعقاد در حقیقت دشمن کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔
اللہ آپ کے ساتھ ہے، "من کان للہ کان اللہ لہ" جب قوم اللہ کے راستے پر گامزن ہے تو اللہ تعالی بھی اس کی مدد کرتا ہے، الہی نظام سے اسے مدد ملتی ہے۔ لوگوں کے دل تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ پختہ عزم و ارادہ، قدرت اللہ تعالی  کی دینعطا کردہ ہے، انشاء اللہ اس مرتبہ  کے انتخابات میں بھی اللہ تعالی لوگوں کی مدد کرے گا۔ انشاء اللہ نویں پارلیمنٹ کے انتخابات میں بھی عوام الناس کو اللہ تعالی کی طرف سے توفیق حاصل ہوگی اور انتخابات بھرپور قومی جوش و جذبے کے ساتھ، بصیرت و آگاہی کے ساتھ اور عوام کی بھرپور شرکت کے ساتھ انجام پائی منعقد ہوں گے جس کے نتیجے میں ملک کو انشاء اللہ ایک بہترین پارلیمنٹ نصیب ہوگی۔ انشاء اللہ بہترین افراد پارلیمنٹ کے رکن بن کرمیدان عمل میں وارد ہوں گے، اور ملک کی خدمت کی وادی میں قدم رکھیں گے۔
اللہ تعالی  کی بارگاہ سے آپ سب کے لئے توفیقات کا طلبگار ہوں، اللہ تعالی آپ سب کو ہمیشہ سلامت رکھے، آپ کے جوش و جذبے کو قائم رکھے، ہمیشہ آپ کی نصرت  اور تائید فرمائے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه وبركاته‌
1) حاضرین کے فلک شگاف نعرے "آذربايجان اوياخدى، انقلابا داياخدى "( یعنی آذربائیجان بیدار ہے، حامی انقلاب ہے)