ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا بندر عباس میں بحریہ کے کمانڈروں اور جوانوں سے خطاب

بسم‌‌ الله ‌‌الرّحمن‌ ‌الرّحيم‌

 

پروردگار متعال کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے آپ عزیزوں، کمانڈروں، جوانوں اور اہلکاروں سے ایک بار پھر ملاقات، تجدید عہد اور تہہ دل سے شکر ادا کرنے کے لئے اس میدان میں حاضر ہونے کا موقعہ عطا فرمایا۔
آپ یقین کیجئے! آج ایک سب سے مؤثر  اور سب سے اہم کام یہی کام ہے جو آپ بحریہ اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بحری شعبہ میں انجام دے رہے ہیں۔ آپ بحریہ کے اندر طویل مدت سے جاری پسماندگی کو دور کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں طاغوتی حکومتوں نے ایران کےبحری شعبہ میں پیشرفت اورشراکت کی راہیں کبھی ہموار نہیں کرنے دیں لیکن آج آپ کی دگنی محنت  اور مسلسل جد وجہد کی بدولت یہ دیرینہ پسماندگیاں برطرف ہوجائیں گی۔
جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ کسی بھی ملک کے پاس بحری حدود کا ہونا قومی مفادات کی حفاظت اور ترقی کے لئے بہت ہی اہم اورسنہری موقعہ تصور کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک اور قوم کے لئے سمندر سے وابستہ مفادات اسٹراٹیجک قسم کے مفادات ہوتے ہیں، بڑے اہم مفادات ہوتے ہیں۔ بعض طاقتوں نے بحری علاقوں پر تسلط قائم کرکے کئی صدیوں تک، تقریبا چار سو سال تک بین الاقوامی سطح پر اپنے تسلط کو دور دواز کے علاقوں تک پھیلایا۔ قوموں پر مظالم ڈھائے گئے، زمینیں غصب کی گئيں، قوموں کے ذخائر و وسائل کو برباد اور تاراج کیا۔ یہ توسیع پسند ممالک اور حکومتیں جن کا سمندروں پر تسلط تھا اپنے ظالمانہ اقدامات کے ذریعہ مادی طاقت اور مقام و مرتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ہمارے علاقہ کی قومیں خواہ وہ خلیج فارس کے علاقے میں بسنے والی قومیں ہوں یا بحیرہ احمر کے ساحل پر آباد قومیں ہوں، برسوں تک شاید دسیوں سال تک جنگی کشتیوں پر سوار ہوکر دور دراز کے علاقوں سے اس خطے میں آنے والوں کے جبر و استبداد کو برداشت کرنے کی عادی ہو گئی تھیں۔ ان کے سامنے چپ چاپ اور خاموش کھڑی رہتی تھیں، ان کے سامنےسانس لینے کی بھی ہمت نہیں کرتی تھیں۔
ایک دور میں اسی خلیج فارس میں، اسی انتہائی حساس بحری علاقے میں برطانوی بحری جہاز آتا تھا، بحری جہاز کا کمانڈر اندر سے فرمان جاری کرتا تھا، حکم دیتا تھا اور لوگ اس کی اطاعت کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اس علاقہ میں برسوں تک سامراجی طاقتوں کے تسلط کاسلسلہ جاری رہاہے۔
آج حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ دور تک پھیلا ہوا یہ طویل ساحل ایران کی ملکیت ہے، آج یہ ایک خود مختار حکومت اور سرفراز و بیدار قوم کے اختیار میں ہے، ایسی قوم کے اختیار میں جس کا پشتپناہ  خداوند متعال ہے، جسے اپنی صلاحیتوں کا علم اور اس پر فخر ہے، وہ ہر سیاسی و فوجی طاقت کے تسلط پسندانہ عزائم پر اپنی قوت ارادی کی فوقیت ثابت کرتی ہے اور جو لوگ قوموں پر استبدادی انداز میں حکومت کرنا چاہتے ہیں انہیں شکست و ناکامی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
آج خلیج فارس اور بحیرہ احمر کا علاقہ مختلف ممالک، امریکہ اور یورپ کے جہازوں کی نقصاندہ اور ناپسندیدہ موجودگی کے باوجود ایک آزاد اور خود مختار علاقہ ہے، اس کی وجہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرافراز و سربلند حکومت اور ایران کی مقتدر عوام کا وجود ہے۔
وہ زمانہ گزر چکا ہے جب بعض سامراجی طاقتیں آکر اپنی فوجی توانائیوں کے ذریعہ اس علاقے کی تقدیر کے فیصلے کرتی تھیں۔ ممکن ہے کہ آج بھی اس علاقے کے حکمرانوں اور عہدیداروں میں بعض ایسے بھی ہوں جو اغیار کے سر سے سر ملانے کی خواہش رکھتے ہوں لیکن اب علاقہ کی قومیں بیدار ہو چکی ہیں۔ اب قومیں پوری طرح آگاہ اورہوشیار ہو چکی ہیں۔ قوموں کو اچھی طرح علم ہے کہ صرف ہمارے علاقے میں ہی اغیار کی فوجی موجودگی بد امنی کا باعث نہیں بلکہ دنیا کے ہر گوشے میں غیر علاقائی فوجیوں کی موجودگی بد امنی اور عدم تحفظ کا باعث ہے۔ ہر جگہ اغیار کا وجود بد امنی کا باعث ہے۔ خلیج فارس اور بحیرہ احمر کی سلامتی صرف علاقے کے ملکوں کی شرارت اور باہمی تعاون سے یقینی بن سکتی ہے۔ بحری حدود کے مفادات کا تعلق سب سے ہے۔ اس بابرکت سمندر میں موجود وسائل اس علاقے کی تمام قوموں کی ملکیت ہیں۔ ان برکتوں کو کس طرح قومی مفادات کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور کس طرح ملک کو ان سے بہرہ مند کیا جا سکتا ہے؟ اس مقصد تک صرف طاقت کے ذریعہ پہنچا جاسکتا ہے۔ یہ طاقت آپ مسلح افواج کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے جو فلسفہ جہاد اور ایثار کےمفاہیم سے آشناہیں۔
اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے آغاز سے لیکر اب تک ہم نے کبھی کسی ملک کو، کسی طاقت کو جنگ اور ٹکراؤ کی تشویق نہیں کی اور نہ ہی تشویق کریں گے۔ جہاں تک ممکن ہوگا ہم سوچے سمجھے اور ناگہانی ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ ہم ایک امن پسند قوم ہیں۔ لیکن جو لوگ اپنے امور کو فوجی طاقت کے ذریعہ، فوجی تسلط کے ذریعہ اور منہ زوری سے آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے تو انہیں اپنے مد مقابل ایک مقتدر قوم کھڑی نظر آئے گی اور بحری علاقے میں اس قوم کی طاقت و قوت کا مظہر بحریہ سے تعلق رکھنے والے آپ جیسے جوان  اہلکار ہیں جو اس طویل ساحل کے گوشہ گوشہ پر تعینات ہیں۔
آپ کے شب و روز، آپ کے فرائض منصبی سے تعلق رکھنے والے دورے، آپریشن، مدد یا تربیت سے متعلق آپ کی ہر ذمہ داری ایک "حسنہ" ہے، ایرانی قوم کے مفادات اور اسلامی جمہوریہ ایران کی سربلندی کی راہ میں اٹھایا جانے والا ایک قدم ہے۔ اللہ تعالی اس مجاہدت کا مشاہدہ کرتا ہے جبکہ بہت سے افراد اس مجاہدت سےآشنا نہیں ہیں، اللہ تعالی آپ کی اس بے مثال جد وجہد کو دیکھ رہا ہےور آپ کے لئے دیوان الہی میں اجر و ثواب لکھا جاتا ہے۔ جہاں تک ہو سکے اس مقدس فریضہ کے سلسلے میں صادقانہ و مخلصانہ انداز سے اور اپنی پوری طاقت و توانائی سے مجاہدت کیجئے۔ اس سلسلے کو جاری رکھئے اور یقین کیجئے کہ یہ ملک، یہ نظام اور یہ قوم آپ جوانوں کی مرہون منت اور احسان مند ہے کیونکہ آپ اس کی طاقت و توانائی کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں۔
اس علاقہ مسلح افواج کے وجود کی برکت سے عظیم کام انجام پا رہا ہے۔ چاہے بحیرہ احمر کا علاقہ ہو یا خلیج فارس کا ساحلی علاقہ ، مختلف شعبوں اور اداروں کے حکام کو چاہیے کہ وہ مسلح فور
سز سے بھر پور تعاون کریں تا کہ یہ کام اچھے انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔
میں مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے آپ عزیز جوانوں، حکام اور کمانڈروں کے درمیان حاضر ہو بہت خوشی اور مسرت محسوس کررہا ہوں  اللہ تعالی کے لطف و کرم کا سایہ آپ پر قائم رہے اور انشاء اللہ حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ )  کی دعائے خیر آپ  سب کے شامل حال رہے۔

والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته