ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈروں اور اہلکاروں سےخطاب

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم

میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے عزيزجوانوں اور اس عظیم انقلابی خاندان کے تمام ارکان کو "یوم پاسدار" کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ  اس مبارک مہینے میں جو اعیاد ہیں وہ بھی ہمیں عظیم اور مایہ ناز واقعات کی یاد دلاتی ہیں۔ خود شعبان کا مہینہ بھی بخشش اورمغفرت کا مہینہ ہے، رحمت کا مہینہ ہے، دعا و توسل و ذکر اور مناجات کا مہینہ ہے، لہذا تمام مؤمنین کو اس مبارک مہینے کی بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
یہ بہت ہی عمدہ اور دلچسپ بات ہے کہ حضرت سید الشہدا امام حسین سلام اللہ علیہ کے یوم ولادت با سعادت  کو یوم پاسدار کے نام سے موسوم کیا گيا ہے جو ایک خاص معنی و مفہوم پر مشتمل عمل ہےجن ذہنوں میں سب سے پہلے یہ خیال پیدا ہوا اور جنہوں نے سب سے پہلے ہماری توجہ اس امر کی جانب مبذول کی ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ سپاہ پاسداران کی تشکیل کے پیچھے کارفرما جذبہ بڑا عظیم جذبہ ہے، یہ اسلامی انقلاب کی پاسداری کا جذبہ ہے جس کے متعلق میں ابھی کچھ  باتیں پیش کروں گا۔
پاسداری کا مفہوم اپنے تمام پہلوؤں، تمام ممکنہ وسائل و ذرائع کے ساتھ حضرت سید الشہدا امام حسین علیہ السلام  کے وجود مقدس میں مجسم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دوسرے آئمہ (ع) نے دین کی حفاظت و پاسداری نہیں کی تاہم یہاں یہ مراد ہے کہ حضرت سید الشہدا کے دس سالہ دور امامت میں یہ تحریک پوری طرح عملی جامہ پہن کر سامنے آئی۔ پیغمبر اسلام (ص) کی میراث کی حفاظت کے لئے جو طریقے بھی ممکن ہو سکتے تھے وہ سید الشہداء (ع) کی حیات مبارکہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بیان، خوف دلانا، تبلیغی مہم، لوگوں کو بیدار کرنا، خاص افراد کے ضمیر کو جھنجھوڑنا، سب کچھ سید الشہدا کی زندگی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ایک بڑے انحراف کے سامنے سختی کے ساتھ  اور ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹ جانا اور جان ہتھیلی پر رکھ کر مقابلے پر آجانا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ امام حسین علیہ السلام کو اپنے اقدام کے انجام کی اطلاع نہ رہی ہو۔ وہ تو امام (ع) تھے۔ امام (ع) کی معرفت، امام (ع) کا علم اور امام (ع) کی آگہی اس سے بہت بلند ہوتی ہے جس کا ادراک عام انسان کرتے ہیں۔ امام حسین (ع) باقاعدہ طور پر ایک دستور العمل تیار کرتے ہیں، حالات سے سمجھوتا کرنا گوارا نہیں کرتے، لوگوں کو اپنی نصرت کی دعوت دیتے ہیں اور جب کچھ لوگ تیار ہو جاتے ہیں جن کا تعلق کوفہ سے تھا اور انہوں نے حضرت (ع)کو دعوت دی کہ وہ آمادہ ہیں اور حضرت (ع) کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو امام حسین علیہ السلام ان کی درخواست قبول کرتے ہیں اور ان کی طرف چل پڑتے ہیں۔ حضرت امام حسین (ع) کسی بھی مرحلے پر پس و پیش میں مبتلا نہیں ہوئے۔ آپ ان کے بیانات کو م لاحظہ کیجئے تو آپ کومحسوس ہوگا کہ وہ کس طرح کے پختہ عزم کے ساتھ اہم کام انجام دینے کے لئے آگے بڑھ رہے تھے۔ اس وقت کے شدید انحرافی ماحول کے خلاف حضرت امام حسین علیہ السلام جو اتنی سختی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے، وہ ایک عظیم سبق ہے۔ خود حضرت نے اپنے اس عمل کی اسلامی بنیاد کا تعین کرتے ہوئے فرمایا: «انّ رسول الله قال: من رأى سلطانا جائرا مستحلاّ لحرمات الله ناكثا لعهد الله مخالفا لسنّة رسول‌الله يعمل فى عبادالله بالاثم و العدوان فلم يغيّر عليه بفعل و لا قول كان حقاّ على الله ان يدخله مدخله»؛(1) "یعنی رسول اللہ کا قول ہے کہ جو شخص ظالم و جابر، اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال قرار دینے والے، عہد خدا کو تو توڑنے والے، سنت پیغمبر (ص)کے مخالف، بندگان خدا کے درمیان گناہ اور سرکشی کا عمل انجام دینے والے حاکم کو دیکھے اور اپنے قول و فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے، اللہ تعالی کو یہ حق ہے کہ اسے اسی مقام پر پہنچائے جو اس سلطان جائر کے لئے ہے "
حضرت امام حسین (ع)  نے اسے بیان کر دیا۔ یعنی میرا فریضہ یہ ہے، جو کام مجھے کرنا ہے وہ انجام دے رہا ہوں، مجھے مخالفت کا اعلان کرنا ہے، مجھے مخالفت کے راستے پر ثابت قدمی سے آگے بڑھنا ہے۔ انجام جو بھی ہوتا ہے ہوتا رہے۔ اگر فتح ملی تو اچھا ہے اور اگر شہادت نصیب ہوئی تو بھی اچھا ہے۔ اس طرح سے امام حسین علیہ السلام نے عمل کیا اور حقیقی ایثار اور اسلام کی حفاظت یہی عمل ہے۔ اسی تحریک نے اسلام کو محفوظ کر دیا۔ اسی تحریک کے نتیجہ میں معاشرے کے اندر اقدار کو دوام حاصل ہوا۔ اگر حضرت نے یہ خطرہ مول نہ لیا ہوتا، اپنی بے مثال تحریک شروع نہ کی ہوتی، اقدام نہ کیا ہوتا، جام شہادت نوش نہ کرتے، رسول خدا (ع)کے اہل حرم ان مصائب سے نہ گزرتے، امیر المومنین  علی (ع) کی بیٹی اور خاندان پیغمبر (ع)کے نونہالوں کے لئے وہ سانحے رونما نہ ہوتے تو یہ واقعہ تاریخ میں لازوال نہ بن پاتا۔ یہ عمل جو اس عظیم انحراف کے سد باد کے لئے انجام دیا گيا وہ ایسا عظیم عمل ہونا چاہیے تھا جو تاریخ اور معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دے اور ایسا ہی ہوا۔ یہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا ایثار ہے۔
البتہ ان چیزوں کو زبانی بیان کر دینا بہت آسان ہے۔ جو معرکہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے فتح کیا وہ غیر معمولی معرکہ تھا۔ آج ہم اس کے سلسلے میں جو اندازے لگا رہے ہیں یہ واقعہ اس سے کہیں زیادہ عظیم تھا۔ ہم اس کے مختلف پہلوؤں اور باریک نکات کو محسوس نہیں کر پاتے۔ میں نے ایک بار ایک اجلاس میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے صبر کی تشریح کی تھی۔ حضرت (ع) کا صبر بس یہیں تک محدود نہیں تھا کہ آپ نے پیاس پر صبر کیا، اپنے اصحاب باوفا کے قتل پر صبر کیا، یہ تو صبر کے آسان مراحل تھے۔ صبر کا اس سے زیادہ سخت مرحلہ یہ تھا کہ بعض بااثر افراد، باخبر افراد، لوگوں کے درمیان خاص مقام کے حامل افراد سے یہ سننا پڑا کہ آپ کیوں یہ مہم شروع کر رہے ہیں، یہ کام غلط ہے، یہ کام خطرناک ہے، بار بار شک و شبہ پیدا کرتے تھے، یہ لوگ کون تھے؟ ان میں عبد اللہ ابن جعفر جیسے لوگ تھے، عبد اللہ ابن زبیر جیسے لوگ تھے، عبد اللہ ابن عباس جیسے افراد تھے، اس وقت کی یہ بڑی ہستیاں، اسلام کی بڑی شخصیات کے فرزند بار بار کہہ رہے تھے کہ ایسا نہ کیجئے۔ اگر وہ حسینی عزم و ارادہ، وہ ثبات و استحکام نہ ہو تو کوئی بھی انسان یہ صورت حال دیکھ کر یہی سوچے گا کہ اب مجھ پر کوئی ذمہ داری باقی نہیں ہے۔ جب یہ لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں، دنیا بھی اپنے منفرد انداز میں  آگے بڑھ رہی ہے تو پھر ہم بھی کنارہ کشی کر لیں۔
اگر اس طرح کے تبصروں بلکہ در حقیقت وسوسوں، شکوک و شبہات  اور من گھڑت شرعی جوازوں کے سامنے ڈٹ جائے، اس کے قدموں میں لغزش پیدا نہ ہو اور اپنے راستے پر آگے بڑھے تو یہ وہی عظیم ہستی ہے جو عظیم تبدیلی پیدا کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہمارے عظیم الشان امام (رہ) اس سلسلے میں سید الشہدا کے نقش قدم پر چلے، آپ کی پیروی کی، اس کی تشریح میں ایک موقعہ پر بیان کر چکا ہوں اور یہاں اس وقت اسے دوہرانا نہیں چاہتا کیونکہ بہت طولانی بحث ہے۔ تو حضرت امام حسین علیہ السلام کی پاسداری و پاسبانی ایسی ہے۔
سپاہ در حقیقت اپنے اس نام کے ذریعہ تلویحی طورپر یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہم نے اس راستے پر قدم رکھا ہے۔ یہ بہت اہم، عظیم اور بابرکت قدم ہے۔ ممکن ہے کہ عیب جوئی کرنے والے بعض نکتہ چیں افراد کہیں کہ فلاں مقام پر غلطی سرزد ہوئی، فلاں موقعہ پر اشتاہ ہو گیا ، فلاں شخص نے غلط کام کیا۔ اس طرح تو آپ کسی بھی جماعت، تنظیم، یونٹ اور شخصیت کے اندر خامی تلاش کر سکتے ہیں، تاہم اگر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی کارکردگی کا منصفانہ انداز میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پہلے دن  سے لیکر آج تک  حقیقت میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے قول پر عمل کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اپنے راستے پر ثابت قدم رہی ہے۔ افراد تو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن مجموعی شناخت ہمیشہ باقی اور یکساں رہتی ہے۔
میں نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی سے اپنے گذشتہ خطاب میں اس اہم نکتے کو بیان کیا تھا، اس وقت میں سرسری طور پر اس کا ذکر کروں گا۔ میں نے کہا تھا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی نئی نسلیں، آئندہ نسلیں اس کوشش میں رہیں کہ گذشتہ نسلوں سے ایک قدم آگے بڑھیں۔ دنیا مسلسل ترقی کے مراحل طے کر رہی ہے، کمال کی جانب بڑھ رہی ہے، منزل کمال کی جانب حرکت جاری ہے، لہذا ہماری یہ خواہش اور توقع بے جا نہیں ہے کہ آج سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی  میں شامل ہونے والا جوان معرفت، بصیرت، آگاہی، فداکاری، آمادگی، کاموں کی صحیح انجام دہی، بر وقت انجام دہی، بر وقت اقدام میں مستعد اور آگے رہے جو ان طویل برسوں میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا خاصہ رہا ہے، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو گذشتہ نسل کی نسبت ایک قدم آگے اور بلند مقام پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج "سپاہ" کو دیکھ کر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ معیار بہت بلند ہو چکا ہے۔ یہ کوئی ناممکن چیز نہیں تھی، یہ عین ممکن بات تھی۔ آپ ملاحظہ کیجئے کہ ماضی میں کیا حالات تھے؟ جنگ چل رہی تھی، دشمن ہماری سرزمین کے اندر تھا۔ آٹھ سالہ جنگ سے قبل انقلاب کے دشمن مسلح عناصر تھے اور بعد کے دور میں جب جنگ شروع ہو گئی تو اس سے ان لوگوں میں بھی جوش و جذبہ پیدا ہونے لگا جو الگ رہنا پسند کرتے تھے، لوگ میدان میں آنے لگے۔ آج وہ جنگ تو نہیں ہے لیکن ایک دوسری باریک اورظریف جنگ جاری ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔ اس جنگ کی گہرائیوں کو سمجھنے کے لئے زیادہ دانشمندی اور خاص فہم و شعور کی ضرورت ہے۔ آج جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ اس میدان میں موجود ہیں، محنت کر رہے ہیں، جفاکشی کر رہے ہیں، پوری آگاہی و بصیرت کے ساتھ میدان میں کھڑے ہوئے ہیں تو اس پر ہمارا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ان افراد کا جذبہ اور عمل کسی سے کمتر نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ اگر بہتر عمل کیا تو ان کا مقام ماضی کے افراد سے زیادہ بلند ہو۔ یہ صورت حال مستقبل میں بھی جاری رہنے والی ہے، اس کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سپاہ کی شناخت، پاسباں اور پاسدار کی شناخت ہے۔ پاسداری کا مطلب ہے نگہداشت کرنا، محافظت کرنا۔ اس محافظت کا ایک رجعت پسندانہ مفہوم بھی نکالا جا سکتا ہے کہ اس سے مراد ہے انقلاب کو اسی موجودہ صورت حال میں باقی رکھنا۔ لیکن میری مراد یہ نہیں ہے۔ انقلاب کی حفاظت سے مراد انقلاب کی موجودہ صورت حال کو باقی رکھنا نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ انقلاب اپنے آپ میں ایک ارتقائی حرکت ہے، تیز حرکت ہے، کس سمت میں؟ معینہ اہداف کی سمت میں۔ اہداف تبدیل نہیں ہوتے۔ یہ اقدار اور اصول جن پر ثابت قدمی کی ضرورت ہے اور جن پر جان نچھاور کی جاتی ہے، ایسے اقدار اور اصول ہیں جن کا تعین اہداف کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ منزل کمال پر پہنچنا اور قرب الہی حاصل کرنا آخری ہدف ہے ۔ اس سے کچھ کمتر اہمیت کا حامل ہدف ہے انسان سازی، انسان سازی سے کمتر ہدف ہے تمام خصوصیات اور ثمرات سے آراستہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کہ جس میں انصاف و مساوات کا قیام شامل ہے، یکتا پرستی و معنویت شامل ہے۔ یہ سب اہداف ہیں جو کبھی بدلیں گے نہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم کوشش کرکے ان اہداف میں سے کچھ کو کم کر دیں۔ مثلا یہ کہیں کہ ٹھیک ہے ہم ایک زمانے میں انصاف قائم کرنے کی بات کرتے تھے لیکن اب جب دیکھ رہے ہیں کہ پورا انصاف قائم نہیں ہو سکتا تو چلئے تھوڑا ساانصاف ہی قائم کر دیا جائے۔ جی نہیں! انصاف ایک ہدف ہے۔ توحید، مکمل طور پر اسلامی شریعت کا نفاذ، یہ سب اہداف ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ان اہداف کی جانب حرکت میں کبھی رفتار کو کم یا زیادہ کر دیا جائے، روشوں کو کسی قدر تبدیل کر دیا جائے، الگ الگ تدبیریں اختیار کی جائیں۔ انقلاب انہی اہداف کی سمت آگےبڑھ رہا ہے۔ انقلاب کی حفاظت و پاسداری کا مطلب یہ ہے کہ آگے بڑھنے اور دوسروں کو بھی آگے لے جانے کی اس خصوصیت کو باقی رکھا جائے۔ انقلاب کی پاسداری و پاسبانی سے یہی مراد ہے۔ اگر ہم نے اس انداز سے سوچا اور پاسداری کو اس زاویہ سے سمجھا تو پاسداران انقلاب اسلامی کی حرکت میں جو جوش و خروش اور نشاط و تازگی پائی جاتی ہے وہ دوچنداں ہو جائے گی۔
ہمارا آج کا نوجوان صرف ظواہر پر جسے ہمارے معاشرے میں کچھ زیادہ ہی اہمیت دی جاتی ہے، اکتفا نہیں کرے گا بلکہ گہرائیوں کو، ذہنوں کو اور عمل و کردار کو توجہ کا مرکز بنائے گا اور ان کی جانب بڑھےگا۔ ایمان کی پختگی، وسیع آگاہی جیسی باتوں پر ہماری توجہ ہونی چاہیے۔ یہی پاسداری کا حقیقی، صحیح اور مکمل مفہوم ہے۔ یہ انقلاب کی حرکت اور انقلاب کی پیش قدمی کی حفاظت یہی ہے۔
اگر ہم یہ کام انجام دینا چاہتے ہیں تو ہمیں دو سطح پر کام کرنا ہوگا۔ ایک تو ہمیں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی اندرونی سطح پر کام کرنا ہوگا، اپنے اندر کام کرنا ہوگا یعنی اپنے استحکام اور مضبوطی میں اضافہ کرنا ہوگا۔ دوسرے یہ کہ ہمیں نظام اور انقلاب کو آگے لے جانے کے لئے کام کرنا ہوگا یعنی بیرونی سطح پر اسے مؤثر بنانا ہوگا۔ یہ دونوں کام ایک ساتھ انجام دینے ہوں گے۔ اگر ہم پہلے کام سے غافل رہ گئے اور سپاہ پاسداران انقلاب کے اندر ہم نے وہ ترقیاتی عمل پورا نہیں کیا تو بیرونی سطح پر انقلاب کو آگے لے جانے کی ہماری کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ اگر اس طرح ہم نے جد وجہد بھی کی تو اس سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔
کیونکہ؛

ذات نايافته از هستى بخش
كى تواند كه شود هستى‌بخش

مختصر یہ کہ دونوں سطح پر کام کرنا ضروری ہے۔ اندرونی سطح پر ضروری کام کے بعض پہلوؤں کا ذکر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے محترم کمانڈر نے اپنی گفتگو میں  پیش کیا، جو بالکل صحیح اوربجا ہے، میں اس کی تائید کرتا ہوں، یہ کام انجام دیئے جانے چاہییں۔ اندرونی سطح پر انجام دیئے جانے والے اس کام کے مادی و معنوی دو پہلو ہیں۔ معنوی پہلو سے مراد ہے حقیقی معنی میں اقدار پر توجہ دینا۔ یعنی پاسداری کے معیاروں کا تعین اور پھر اہداف کی سمت آگے بڑھنے کے لئے، پیشرفت حاصل کرنے کے لئے خود کو اور دوسروں کو ان معیاروں پرجانچنا۔ یہ معنوی پہلو ہے ۔ اس کا مادی پہلو بھی قابل تعریف ہے جو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اندر انجام دیئے جا رہے ہیں۔ یہی سائنسی ریسرچ وتحقیقات، یہی اداری اقدامات، ساز و سامان کی پیداوار، فوجی تربیت وغیرہ جیسے متعدد امور۔ یہ دونوں کام ساتھ ساتھ انجام دینا چاہیے۔ اس صورت میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی شادابی سے بھرپور ایسے مجموعے میں تبدیل ہو جائے گی جس پر نہ کبھی زوال آئے گا نہ بڑھاپا۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ آج اس کے لئے زمین پوری طرح ہموار ہے، اس کی بنیادیں تیار ہیں، تجربات موجود ہیں، جوش و جذبہ بھی بحمد اللہ موجود ہے۔ یہ اندرونی سطح کا کام ہے ۔ یہ ادارہ ایک معیار اور نمونہ عمل کی حیثیت سے ہمیشہ سامنے رہے گا۔ ممکن ہے کہ ہمارے بعض نوجوان جو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا جزو نہیں ہیں وہ بھی اس نمونہ عمل کو روحانیت کے اس حقیقی نمونے کو، صحیح فکر و تدبر کے نمونے کو، تعمیر و ترقی کے میدان کے اس صحیح راستے کو اپنی زندگی کے لئے مشعل راہ قرار دیں۔ اس کے بعد اسلامی انقلاب میں اس کے مؤثر کردار اور تعاون کی باری آتی ہے ۔ یہ ہدف خود بخود حاصل ہو جائے گا۔ جب اسلامی نظام کے اندر گرمی حیات اور امید و نشاط سے سرشار، مسلسل آگے بڑھنے والا، اقدار اور اصولوں کا پابند ایک اہم مجموعہ موجود ہے، جو مسلسل حرکت کر رہا ہے، سب کچھ دیکھ رہا ہے، پوری طرح آگاہ ہے، بصیرت رکھتا ہے، گہرا اثر رکھتا ہے اور یہ مجموعہ  اس پورے نظام کی پیشرفت میں فیصلہ کن کردار کا حامل بھی ہے۔ البتہ یہ چیز صرف سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی تک محدود نہیں ہے۔ میں یہی سفارش دینی علوم کے مراکز سے بھی کرتا ہوں، سرکاری اداروں کو بھی یہی ہدایت کرتا ہوں۔ تاہم ان سب کی اہمیت اور مقام یکساں نہیں ہے۔ ہر ادارے کا اپنا ایک خاص مقام ہے، اپنی الگ اہمیت ہے۔ اس وقت ہماری گفتگو سپاہ کے بارے میں ہو رہی ہے۔ ہمیں اس تعمیری اور آگے لے جانے والی حرکت کی شدید ضرورت ہے۔ اسلام کو اس حرکت کی سخت ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کی حرکت نے دنیا میں اپنا اثر دکھا دیا ہے، اپنا گہرا اثر چھوڑا ہے، سامراجی اور شیطانی طاقتوں کو کمزور کردیا ہے، ایرانی قوم نےدنیا کی قوموں کے سامنے ایک نیا راستہ کھول دیا ہے۔ دنیا میں ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ آپ نظر دوڑائیے! اس کی کوئی اور مثال نہیں ملےگی۔ میں نے اپنی زندگی میں، نوجوانی کے ایام میں اور تاریخ کی کتابوں میں دنیا کے مختلف خطوں منجملہ ہمارے اپنے علاقے میں تبدیلیوں کو دیکھا اور ان کے بارے میں پڑھا ہے۔ افریقی ممالک میں، لاطینی امریکہ کے ملکوں میں، انیس سو ساٹھ کے عشرے میں رونما ہونے والے انقلابات کو میں نے دیکھا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں تاریخ کے ان انقلابات کا پس منظر معلوم نہیں ہے۔ ہم نے انہیں دیکھا ہے لیکن اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ بے مثال ہے، اس کی کوئی اور نظیر نہیں ہے۔ انیس سو ساٹھ کے عشرے میں افریقہ کے علاقے میں، لاطینی امریکہ کے ممالک میں اور بعض ایشیائی ملکوں میں جو کچھ ہوا وہ ایک قوم کے مستقبل پر ایک پارٹی اور ایک تنظیم کے غلبہ سے ہوا ہے۔ ایسی پارٹی اور تنظیم کا غلبہ جس کے مادہ پرستانہ اور مارکسی نظریات تھے اور جس کا روحانیت اور خدا سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان تحریکوں کو یوں تو عوامی تحریک کا نام دیا جاتا تھا لیکن ان کا عوامی ہونا یہیں تک محدود تھا کہ کوئی جماعت بغاوت کرکے اقتدار تک پہنچ جاتی تھی۔ یہی نام نہاد انقلابی پارٹیاں اور حکومتیں جنہوں نے شمالی افریقہ میں زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی سب نے بغاوت کے ذریعہ یہ مقصد حاصل کیا۔ جیسے جمال عبد الناصر، جیسے یہی قذافی وغیرہ۔ یہ واقعی کوئی عوامی تحریک نہیں تھی۔ آج جو چیز دیکھنے میں آ رہی ہے وہ میدان میں عوام کی دامے ، درہمے اور سخنے موجودگی اور قربانی ہے ۔ آج میدان میں خود عوام موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ پارٹیاں بھی نظر آئیں اور ان کا اپنا ایک اثر بھی ہو لیکن میدان میں جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ کوئی فوجی یونٹ نہیں ہے، کوئی باغی جماعت نہیں ہے، یہ عوامی سیلاب ہے، یہ انسانوں کا عظیم اجتماع ہے توحیدی رجحان کے ساتھ، خدائی و الہی سوچ کے ساتھ، اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ اور نماز جماعت کے شاندار جلؤوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہے۔ امریکی اور صیہونی پروپگنڈہ نیٹ ورک اس کا منکر ہے تو ہوا کرے، ان کے انکار سے حقیقت نہیں بدل سکتی ۔ سچائی یہی ہے۔ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے۔ انقلابات کی تاریخ میں جہاں تک ہم نے دیکھا، سنا اور پڑھا ہے اس وسعت اور ہمہ گیری کا حامل کوئی اور انقلاب نظر نہیں آتا۔ یہ بالکل انوکھی چیز ہے۔ یعنی واقعی علاقے کی تاریخ اور اسی طرح دنیا کی تاریخ نے لمبا سفر طے کیا جس کے بعد یہ نیا باب شروع ہوا ہے۔ ہم کچھ کہنے والے کون ہیں؟ میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ اسلامی انقلاب ہی سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔ بعض لوگ اس سلسلے میں بہت اصرار کرتے ہیں کہ موجودہ تغیرات کا سرچشمہ اسلامی انقلاب کو قرار نہ دیا جائے۔ ہم بھی اس طرح کا دعوی نہیں کرنا چاہتے، ایسا کوئی دعوی کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ تیس سال قبل، بتیس سال قبل ایرانی قوم نے جو مہم شروع کی آج عالم اسلام میں کئی ممالک کے اندر معمولی سے علاقائی، تاریخی اور جغرافیائی فرق کے ساتھ وہی مہم بعینہ دوہرائی جا رہی ہے۔ میں یہ بات بھی عرض کر چکا ہوں کہ اس تحریک کی اگلی لہر بہت دور دراز کے علاقوں تک بھی پہنچے گي اور یہی سب کچھ پیش آئے گا جو ہمارے لئے بہت حوصلہ افزا ہے۔ یہ ہمارے لئے بہت بڑی بشارت اور خوش خبری ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مستقبل کے بارے میں ہماری امیدوں کو بہت قوی ہونا چاہیے۔
دشمن خاص طور پر اس نکتہ پر کام کر رہا ہے۔ اور اس کی کوشش ہے کہ مسلمان قومیں ایران کو اپنے لئےنمونہ عمل نہ بنا لیں، کہیں یہ نہ کہنے لگیں کہ ایران کہاں پہنچ گيا؟! لیکن وہ چاہیں یا نہ چاہیں، پسند کریں یا نہ کریں، تو کام  تو عملی طور پر ہو چکا ہے۔ یہی سائنسی، تکنیکی، فنی اور تحقیقاتی امور جو آپ اور مسلح فورسز کے دیگر ادارے انجام دے رہے ہیں اور مسلح فورسز کے باہر یونیورسٹیوں میں، مختلف تحقیقاتی مراکز میں جو کام انجام پا رہا ہے، یہ ایسے امور ہیں جن سے مستقبل کی واضح اور دقیق تصویر کشی ہوتی ہے۔ یعنی مستقبل کی بساط پر مہرے ایک ایک کرکے سجائے جا رہے ہیں۔ انہی امور سے طے ہوتا ہے کہ مستقبل کس کا ہے۔ یہ در حقیقت اسلام کی برکتیں اور انقلابی جذبات کے ثمرات ہیں۔ ان جذبات کو مضبوط اور قوی بنانا چاہیے ۔لہذا انقلاب کی پاسداری کو اس مفہوم میں لینے کی ضرورت ہے، اس جدید اور پیشرفتہ مفہوم میں لینے کی ضرورت ہے۔
اس وقت میدان عمل میں جن باتوں پر خاص طور پر توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے ان میں ایک یہی ہے کہ مسلسل جاری پیشرفت کے اس عمل میں انقلابی اداروں کی توجہات غیر تعمیری اور خدانخواستہ نقصاندہ  امور کی جانب مرکوز نہ ہونے پائیں۔ اس سلسلے میں اختلافات کا مسئلہ بہت اہم ہے جس پر میں خاص توجہ اسی وجہ سے دیتا ہوں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی حلقہ انقلاب کے مد مقابل معرض وجود میں آتا ہے اور انقلاب کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے، ایسی صورت حال میں ہر شخص کا فریضہ انقلاب کا دفاع کرنا ہے۔ انقلاب خود بھی ایک موجود ذی حیات کی حیثیت سے اپنا دفاع کرتا ہے۔ جو انقلاب پرآشوب دور میں، فتنہ کے وقت گوناگوں سیاسی، فوجی اور دیگر بغاوتوں کے مواقع پر اپنا دفاع نہ کر سکے وہ زندہ انقلاب نہیں ہے۔ اسلامی انقلاب ایک زندہ انقلاب ہے جو اپنی حفاظت آپ کرتا ہے اور دوسروں پر غلبہ بھی حاصل کرتا ہے، کامیاب بھی ہوتا ہے۔ یہ بالکل مسلمہ امر ہے۔ جیسا کہ سنہ دو ہزار نو میں آپ نے اس کا مشاہدہ کیا۔ کبھی معاملہ اس صورت میں سامنے آتا ہے اور کبھی مسئلہ ذرا مختلف ہوتا ہے، انقلاب کا تختہ الٹنے کی کوئی مہم در پیش نہیں ہوتی بلکہ پسند ناپسند کے اختلاف کا مسئلہ ہوتا ہے، مزاج کے اختلاف کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ان چیزوں کو جہاں تک ممکن ہو کم کرنا چاہیے۔ ان چیزوں کو حتی الامکان ختم کرنا چاہیے۔ ان اختلافات کو ہوا دینا بہت نقصاندہ ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کبھی کسی نے کوئی غلط بات منہ سے نکال دی تو کیا اس کا جواب دیا جانا ضروری ہے یا نہیں؟ ظاہر سی بات ہے کہ ضروری ہے۔ لیکن غلط بات کا جواب دینے کا اپنا مخصوص انداز ہوتا ہے، خاص طریقہ ہوتا ہے، یہ ایک الگ کام ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی نے کوئی غلط بات کہہ دی اب ہم اس کو سو جگہوں پر موضوع بحث بناتے پھر رہے ہیں، ہنگامہ کر رہے ہیں کہ صاحب فلاں نے یہ بات کہہ دی! یہاں تک کہ سب کو معلوم پڑ گیا۔ یہ درست نہیں ہے، یہ غلط بات ہے۔ کوئی بھی شخص، کوئی بھی ادارہ اگر اصلاحی کام کر رہا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ میں خود اس وضاحت اور رہنمائی کا قائل ہوں۔ ابتدا ہی سے ہماری بنیادی اسٹراٹیجک یہی رہی ہے کہ حقیقت کو بیان کیا جائے، حقیقت کو سامنے لایا جائے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم داخلی اختلافات کی آگ کو شعلہ ور کریں۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ سب کو بہت محتاط رہنا چاہیے ، خاص طور پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔ سیاسی حلقوں میں، مختلف فکری حلقوں میں جذبات کو برانگیختہ کرنا درست نہیں ہے۔ آپ سب بابصیرت اور باخبر افراد ہیں۔ آپ کو حالات اور فکری رجحانات کی خبر ہے۔ اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں کہ بد قسمتی سے کچھ لوگ ایک دوسرے کے مخالف بن گئے ہیں اور غیر ملکی ادارے تالی بجا رہے ہیں، اور خوش ہو ہو کر تبصرے کر رہے ہیں کہ اب ان کے اندر اختلاف کی آگ بھڑک اٹھی ہے اور یہ تباہ ہو رہے ہیں! وہ اپنی دلی آرزوئيں بار بار زبان پر لا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ہماری اپنی کمزوری ہے۔ ہمیں اپنی اس کمزوری کو دور کرنا چاہیے اور اس ضعف کو ختم کرنا چاہیے ۔ ان چیزوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بہت مضبوط ، مستحکم ، ٹھوس اور مدلل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اختلاف نظر ہے تو اسے منطقی طریقے سے بیان کیا جائے۔ میں نے عرض کیا کہ میں حقیقت حال کو بیان کئے جانے کا قائل ہوں۔ انقلابی تحریک کے دوران مارکسی نظریات کے افراد اور بائیں بازو کے حلقوں سے ہمارا اختلاف اسی بات پر تھا کہ ہم مصر تھے کہ حقیقت کو بیان کیا جائے اور انہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی  یہ لوگ حکومت سے بر سر پیکار تھے،۔ وہ کسی اور نظریئے کے حامل تھے۔ اسلامی انقلاب شروع ہی سے ہنگامہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے وضاحت، منطقی بیان اور مستدل اظہار خیال پر کاربند رہا۔ ہنگامہ آرائی شروع ہو جاتی ہے تو منطقی باتیں نظر انداز ہونے لگتی ہیں۔ ممکن ہے کہ چند افراد اس ہنگامہ کی طرف متوجہ ہو جائیں لیکن چار ذی شعور افراد یہ دیکھ کر کنارہ کشی بھی اختیار کر لیں گے۔ یہ ہمارا نظریہ ہے اور یہی ہمارا مؤقف ہے۔
ہماری تحریک کو مسلسل آگے کی جانب گامزن رہنا چاہیے ۔ اس کے لئے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے۔ ان میں سب کا ایک ہی صف میں شامل ہونا اہم چیز ہے، باہمی اتحاد انّ الله يحبّ الّذين يقاتلون فى سبيله صفّا كانّهم بنيان مرصوص»؛(2) کسی مستحکم ستون کی مانند، کسی سیسہ پلائی ہوئي دیوار کی طرح دشمن کے حملوں کے مقابلے میں ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے آپ جیسے عزیز جوانوں کو، علماء کو نوجوانوں کو، با ایمان اور فعال طلبہ کو دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ ایک بات یہ ہے کہ آپ سب کو بہت کچھ کرنا ہے، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے جوانوں کو بھی اور محترم علماء کرام کو بھی بہت سے کام انجام دینے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ یقین رکھیے کہ اگر آپ نے ہمت سے کام لیا تو یہ معرکے آپ یقینی طور پر فتح کر لیں گے۔ بتدریج وقت گزرنے کے ساتھ آپ ملاحظہ کریں گے کہ آپ کی رسائی بہت بلند مقام پر ہو چکی ہے۔ آپ کی پیش قدمی یقینی ہے۔ اگر محنت ہو، بلند ہمتی ہو، قوی امید ہو تو پیشرفت بھی یقینی ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو  یہ حقیقت ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہیے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اندر اعلی سطح پر مختلف منصوبوں پر منظم طریقہ سے کام ہونا بہت ضروری ہے۔ جو کام انجام دیا جارہا ہے اسے پایہ تکمیل تک پہنچآنا چاہیے، یہ بہت اچھی بات ہے۔ اللہ تعالی سےدعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کی مدد و نصرت فرمائے ۔ اللہ تعالی سےدعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے لطف و کرم کو آپ کے شامل حال فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته

1) مقتل ابی‌مخنف، ص 85
2) صف: 4