ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا عدلیہ کے سربراہ ، اعلی ججوں اور اہلکاروں سے خطاب

 بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم

میں سب سے پہلے آپ تمام عزیز بھائیوں، بہنوں، عدلیہ کے عہدیداروں، اہلکاروں، ججز صاحبان اور سات تیر (مطابق اٹھائیس جون) کے سانحہ کے شہداء کے معزز و محترم خاندانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں عدلیہ کے سربراہ جناب آملی کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اپنی جامع اور عالمانہ رپورٹ میں عدلیہ کے بارے میں انتہائی اہم نکات پر روشنی ڈالی اور عدلیہ کے متعلق جو  اچھے اور قابل تحسین اقدامات انجام دئیے ہیں ان کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ وہ عدلیہ کے سربراہ اور عدالت کے مختلف شعبہ سے  منسلک ان کےتمام اہلکاروں کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور اس نورانی اور پرخیر و برکت سفر کو جاری رکھنے میں ان کی مدد فرمائے۔ عدلیہ کےمحترم سربراہ سے ہمیں یہی توقع بھی ہے بحمد اللہ ان کی ذات و شخصیت علم و خلاقیت اور جوش و جذبے کے لحاظ سے نمایاں مقام کی حاملہے اللہ تعالی سب کی زحمتوں کو اپنی بارگاہ میں قبول اور منظور فرمائے۔
میں چندباتیں "اٹھائیس جون" کی تاریخ میں رونما ہونے والے سانحہ کے بارے میں پیش کرنا چاہتا ہوں اور کچھ جملے عدلیہ کے بارے میں بھی حاضرین کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اٹھائیس جون کا واقعہ در حقیقت ایک کڑی اور سخت آزمائش کی گھڑی تھی۔ یہ حقیقت میں ملک اور نظام کے لئے ایک کاری ضرب تھی، انتہائی ناگوار ،تلخ اور دل ہلا دینے والا واقعہ تھا۔ ملک کے انتظامی ڈھانچے کے مرکز میں شہید مظلوم آیت اللہ بہشتی جیسی شخصیت اور عدلیہ، پارلیمنٹ، مجریہ کے دیگر اہم افراد اور عہدیداران، اہم سیاسی و علمی شخصیات کے لئے اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا۔ ایسا عظیم سانحہ پیش آیا ، یہ حقیقت میں بہت سخت امتحان کی منزل تھی۔ البتہ اس موقع پر سب سے اہم بات جو پوری تاریخ میں ہمیشہ دکھائی دیتی ہے اور محسوس کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم، کوئی جماعت، کوئی شخص آزمائش اور امتحان کے وقت میں صبر و بصیرت سے کام لیتا ہے تو وہ آزمائش اس کے لئے نعمت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ تاریخ میں انسانوں کے درمیان حق کی فتح، کلمہ حق کی کامیابی، حق کی ترویج اور توحید کی پذیرائی کا راز یہی ہے۔ انبیائے کرام نے، اسی طرح ان بزرگوں کی راہنمائی میں آگے بڑھنے والی اقوام نے کتنی سختیاں اور آزمائشیں برداشت کیں؟! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انبیاء (ع)  کے پیغام اور تحریک کا تاریخ میں کوئی نام و نشان باقی نہ رہتا، ان کے افکار، ان کے نظریات، ان کا راستہ تلخ واقعات کے طوفان میں پوری طرح مٹ جاتا ہے، ختم اور نیست و نابود ہو جاتا۔ لیکن نہیں، ایسا نہیں ہوا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کے بالکل بر عکس جیسے جیسے تاریخ اپنا سفر طے کر رہی ہے  انبیاء (ع) کا پیغام لوگوں کے درمیان، عوام کے درمیان اور بھی زندہ و پائندہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کا راز اسی نکتہ  میں ہے کہ مصیبتوں اور آزمائشوں کے وقت صبر و بصیرت کا دامن مضبوطی کے ساتھ پکڑنا چاہیے۔
ہمارے عوام نے "اٹھائیس جون" کے سانحہ کے موقع پر اسی عظمت کا مظاہرہ کیا۔ لوگ مایوسی میں مبتلا نہیں ہوئے، خود اعتمادی میں کوئی کمی نہیں آنے دی، دشمن سے ہراساں نہیں ہوئے اور دشمن کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ، کمزوری یا پسپائی اختیار نہیں کی یہ سب بصیرت کی بدولت تھا جو ان میں موجود تھی اور حضرت امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی طرف سے ان کے اندر مسلسل ودیعت کی جا رہی تھی، پھیلائي جا رہی تھی اسی کی بنیاد پر عوام نے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا، استقامت و پائیداری کا ثبوت دیا اور طوفان کا رخ دشمن کی طرف موڑ دیا۔
میں نے "اٹھائیس جون" کے واقعہ کی خبریں بعد میں سنیں۔ "اٹھائيس جون" کے دن اور بعد کے چند دنوں کے دوران میری حالت ٹھیک نہیں تھی، بیہوشی اور نیم بیہوشی کی کیفیت طاری تھی۔ بعد میں جب مجھے معلوم ہوا کہ کیسا سانحہ رونما ہوا ہے عوام نے اس کے بعد کیا موقف اختیار کیا تو باہر کھڑے تماشائی کی مانند میں مبہوت رہ گيا۔ ہمارے عوام اپنی اس صلاحیت کی حفاظت کریں! ہمیں چاہیے کہ اسے ایک سبق کے طور پر ہمیشہ یاد رکھیں ، ایسے سبق کے طور پر جس پر ہم نے عمل کیا اور اسےتاریخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت کردیا۔
ایران جیسی قوم کے لئے جو اتنے بلند اہداف کے ساتھ، معاشرے میں اسلامی اقدار کی ترویج اور اسلامی اصولوں پر عمل آوری اور دنیا بھر میں اس کے نشر و اشاعت کے نصب العین کے ساتھ میدان میں اتری ہے، مشکلات اور حادثات کا پیش آنا فطری امر ہے۔ آپ اس دین اسلام پر عمل کر رہے ہیں جو ظلم کا مخالف ہے، زور و زبردستی کا مخالف ہے، دشمنوں اور جابر قوتوں کے جبر و استبداد میں قوموں کے اسیر ہو جانے کا مخالف ہے۔ جو دوسروں کے سلسلے میں بھی دنیا کے استبدادی روئے کو نظر انداز نہیں کرتا۔ آپ کی اس تحریک اور آپ کے اس راستے کا مخالف کون ہوگا؟ ظاہر ہے کہ دنیا کی استبدادی قوتیں، ظلم و جبر کی خوگر طاقتیں، استعماری حلقے، دنیا کے ستم پیشہ عناصر، بے رحم ڈکٹیٹر،یہ سب کے سب آپ کے خلاف صف آراء ہوں گے۔ ان کے پاس دولت ہے، ذرائع ابلاغ کی طاقت ہے، سیاسی قوت ہے، نشریاتی وسائل ہیں، جس کےنتیجے میں وہ مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ تاہم ان کے مقابلے میں پائیداری سے ڈٹ جانے کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم اس امتحان پر کامیاب ہوئی ہے۔
آج اسلامی جمہوری نظام طاقت کے لحاظ سے، ترقی و پیشرفت کے اعتبار سے، گوناگوں صلاحیتوں کے اعتبار سے، عالمی روابط کے لحاظ سے، قوموں میں امید کے چراغ روشن کرنے کے لحاظ سے اٹھائيس جون 1981ء کی نسبت بہت آگے بڑھ چکا ہے، دونوں حالتوں میں زمین و آسمان کا فرق صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری عزیز قوم کی استقامت و پائداری کا نتیجہ ہے۔ لہذا اٹھائيس جون (سات تیر) کے واقعہ کے سلسلے میں یہ سبق ہمارے ذہن میں ہمیشہ محفوظ رہنا چاہیے کہ جب بھی ہمارے اوپر سختیاں اور مشکلات مسلط کی جائيں اور ہم ان کے سلسلے میں صبر سے، استقامت سے اور بصیرت سے کام لیں تو وہ سختیاں ترقی و پیشرفت اور ارتقاء کی سیڑھی بن جائیں گی۔ اس کا ہم تجربہ بھی کر چکے ہیں چنانچہ آئندہ بھی انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔
عدلیہ کو دو چیزوں کی ضرورت ہے جو اسے کامیاب بنا سکتی ہیں۔ ہر نظام میں اور ہر معاشرے میں عدلیہ کا کام اختلافات کو حل کرنا اور ظلم و جارحیت و فساد کا سد باب کرتے ہوئے عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ اس عظیم ہدف کے حصول کے لئے ہمیں دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ جس میں ایک قدرت و طاقت ہے ، یعنی عدلیہ کو قوی اور مقتدر ہونا چاہیے اور دوسرے اعتمادہے۔ یعنی اس پر عوام کا بھرپور اعتماد ہونا چاہیے۔ عدلیہ کو ان دونوں چیزوں کی سخت ضرورت ہے۔ عدلیہ کی قدرت و طاقت کے لئے انہی بنیادی افرادی اور فنی وسائل سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حاصل ہونے والی پیشرفت کی کچھ تفصیلات عدلیہ کے محترم سربراہ نے بیان کیں اور خود میں بھی کسی حد تک کاموں کی انجام دہی سے باخبر ہوں۔ عدلیہ اپنی اندرونی طاقت کے ذریعہ لائق، فاضل، امین و فرض شناس افراد کی خدمات حاصل کرکے اور ان کی تربیت کرکے قوت و طاقت میں اضافہ کر سکتی ہے۔ عدلیہ درست قوانین وضع کرکے، بھرپور نگرانی کے ذریعہ، فنی اور محکمہ جاتی پیشرفت سے استفادہ کرتے ہوئے، دنیا میں موجود وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے اندر یہ طاقت پیدا کر سکتی ہے۔ ہم بار بار کہتے ہیں کہ دوسروں سے سیکھنے میں ہمیں کوئی عار نہیں ہے۔ ہم دنیا کے ہر اس ملک، ہر اس قوم اور ہر اس نظام سے کچھ سیکھنے کے لئے تیار ہیں جس کے اندر کوئی اہم خوبی موجود ہے۔ البتہ ہم آنکھیں بند کرکے کبھی اس کی اور کبھی اس کی تقلید نہیں کرنا چاہتے۔ کیونکہ یہ غلط بات ہے۔ چونکہ دنیا میں اسی طرح کام ہو رہا ہے اور ہم بھی وہی کرنے لگیں! یہ ٹھیک نہیں ہے۔ «و ان تطع اكثر من فى الارض يضلّوك عن سبيل الله ان يتّبعون الّا الظّنّ و ان هم الّا يخرصون».(1) فلاں کی اور فلاں کی روش کے ہم تابع و مطیع نہیں بننا چاہتے۔ مغرب والے اس طرح عمل کرتے ہیں، اہل مشرق اس طرح عمل کرتے ہیں، فلاں ملک کی یہ روش ہے تو ہم بھی یہی کریں! نہیں، یہ غلط ہے۔ ہم اپنی تشخیص اور شناخت کے مطابق عمل کریں گے۔ یعنی جب ہم یہ دیکھیں گے کہ دنیا کے کسی دور افتادہ ملک میں خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، عدالتی نظام میں کوئی خاص نکتہ موجود ہے جس کی وجہ سے عدالتی نظام میں آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں اور اس کے  اچھے نتائج سامنے آئے ہیں، جب ہماری عقل اس کا تعین کر لے گی تو ہم بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ اندھی تقلید اور اندھی اطاعت نہیں ہے، یہ عقل کی پیروی ہے اور یہ اچھی چیز ہے۔ اس سے عدلیہ کی طاقت بڑھتی ہے۔ بہت زیادہ سعی و کوشش، روز بروز نئی نئی اختراعات اور خلاقانہ اقدامات سے طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ انسان اپنی جگہ بیٹھا رہے اور تمام امور معمول کے مراحل طے کرتے رہیں۔ عدلیہ کے عہدیداروں کو چاہیے کہ وہ غور و فکرکریں، خامیوں کی نشاندہی کریں، مشکلات کا تعین کریں، گرہوں کو کھولیں، ان کاموں کے لئے اختراعی صلاحیتوں کو کام میں لائیں۔ اچھے اور ممتاز افراداس سلسلے میں بڑی مدد کر سکتے ہیں اور بحمد اللہ عدلیہ کے اندر ایسے ذہین  افرادموجود ہیں۔ باہر کی افرادی قوتوں سے بھی استفادہ کیا جائے۔ عدلیہ کے باہر کے افراد کی بھی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح ادارے کا ڈھانچہ مضبوط ہوگا، ادارے کی افرادی قوت مضبوط ہوگی۔ اس کے نتیجے میں عدلیہ کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ ایسی عدلیہ جو اپنے بلند اہداف کی سمت گامزن رہنا چاہتی ہے، یہ اس کے لئے سب سے  پہلی اور اہم ضرورت ہے۔
 عدلیہ کے لئےدوسری اہم ضرورت عوامی اعتماد کا حصول ہے، اس کے لئے عدل و انصاف کا قیام لازمی ہے، قانون پر باریک بینی کے ساتھ اور حکیمانہ انداز میں عمل آوری ضروری ہے۔ عوام کا اعتماد جیتنے کی ضرورت ہے۔ جب عوام محسوس کریں گے کہ عدل و انصاف قائم کرنے کے بارے میں عدلیہ اپنے وعدے پر عمل کررہی ہے تو ان کا اعتماد بڑھے گا۔ حتی وہ شخص بھی جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے جب تنہائی میں بیٹھ کر غور کرے گا تو یہی کہے گا کہ عدلیہ کا فیصلہ درست ہے۔ ممکن ہے کہ اپنی زبان سے اعتراف نہ کرے، اس کا اظہار نہ کرے لیکن دل ہی دل میں وہ اس کا قائل ضرور ہو جائے گا۔ جس کےنتیجے میں عدلیہ پر اعتماد پیدا ہوگا۔ یہ اعتماد بہت ہی ضروری ہے۔
عدل وانصاف بہت اہم ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ کے اندر انصاف پوری وسعت اور جامعیت کے ساتھ دائمی بنیادوں پر قائم ہو جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ چھوٹے بڑے جن معاملات میں بھی عدلیہ سے رجوع کیا جا رہا ہے ان میں عدلیہ کا عمل بالکل غیر جانبدارانہ اور تقوائے الہی کے مطابق ہو۔ اس کا خیال اوپر سے لیکر نیچے تک سب کو رکھنا چاہیے۔ یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے۔ اس سے عوام میں اعتماد پیدا ہوگا۔
اگر اعتماد کا عوام میں فقدان ہے تو اس سے یہ صورت پیدا ہوتی ہے کہ عوام عدلیہ، مقننہ یا مجریہ کے سلسلے میں ہمیشہ شک و شبہ میں مبتلا رہیں۔ یہ بہت بری چیز ہے۔ البتہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ چیزیں ہمیشہ رہی ہیں لیکن اس نئے دور میں چونکہ مواصلاتی ذرائع کا پھیلاؤ بہت وسیع ہو گيا ہے اس لئے اس چیز کا دائرہ بھی وسیع تر ہو گيا ہے، یہ چیز زیادہ دیکھنے میں آنے لگی ہے۔ رپورٹوں کو ہمیشہ مشکوک نگاہ سے دیکھنا بری عادت ہے۔ عدلیہ کی جانب سے کوئی رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو کوئی شخص اٹھ کر کہتا ہے کہ کیسے یقین کیا جائے کہ یہ رپورٹ صحیح ہے؟ شبہ پیدا کر دیتا ہے۔ مجریہ کی جانب سے رپورٹ پیش کی جاتی ہے، ایک انسان اٹھ کر کہتا ہے کہ کیسے تصدیق کی جائے کہ یہ اعداد و شمار درست ہیں؟! بالکل یہی چیز مقننہ کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے۔ تمام افراد اور ایک پورے مجموعے کی زحمات کو ایک بےجا بد گمانی کی بنا پر یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنا غلط ہے۔ البتہ ایسے افراد کا کوئی منہ تو بند نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اپنی مرضی اور اختیار سے گفتگو نہیں کرتے۔ تاہم حکام کو بہت ہوشیار رہنا چاہیے۔ جو ذرائع ابلاغ اپنے فریضہ و ذمہ داری سے آشنا ہیں وہ ہوشیار رہیں۔ نظام کے اعلی عہدیداروں کی سرکاری رپورٹوں کو بلا وجہ شک کے دائرے میں لانے کی کوشش نہ کریں۔ یہ بات عدلیہ کے سلسلے میں بھی اہم ہے، مجریہ کے سلسلے میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور مقننہ کے بارے میں  بھی اہم ہے۔ کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دینے سے زحمات و خدمات کی قدر و قیمت ضائع ہوجاتی ہے۔ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مجریہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں، عدلیہ کے اعداد و شمار کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ مقننہ کے تعمیری اقدامات اور بہترین سرگرمیوں کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ اس طرح تو عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔ ہم ان رپورٹوں کو سننے اور دیکھنے والے ہیں تو ہمیں بہت باریک بینی سے ان کا جائزہ لینا چاہیے لیکن رپورٹ کو مجموعی طور پر تو قبول کرنا ہوگا۔ رپورٹ کو قبول کریں۔ ممکن ہے کہ اس پوری رپورٹ میں اعداد و شمار میں کہیں کوئی غلطی بھی ہو لیکن پوری رپورٹ کو غلط قرار نہیں دینا چاہیے۔ اس سے نظام کے اداروں اور محکموں سے عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔ حکام اس نکتہ پر توجہ رکھیں، یہ اعتماد بہت قیمتی شئی ہے۔
عدلیہ کے متعلق، اس کی کارکردگی کے متعلق اور اس کارکردگی پر باہر سے آنے والے رد عمل کے متعلق ایک اور اہم چیز جس کا ذکر عدلیہ کے محترم سربراہ نے بھی کیا اور جس پر خاص توجہ دی جانی چاہیے، وہ یہ ہے کہ عدلیہ کا کام کاج  ملزم قرار پانے والے افراد سے پڑتا ہے۔ کسی شخص پر کوئی الزام عائد ہوتا ہے۔ اب عدلیہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ قانونی راستوں سے تحقیق کرے، تفتیش کرے اور یہ طے کرے کہ الزام صحیح ہے یا غلط ۔ الزام عائد ہونا تو جرم نہیں ہے۔ کسی پر بھی ممکن ہے کہ الزام عائد ہو جائے۔ جب تک قانونی طریقوں سے جرم ثابت نہیں ہو جاتا اس وقت تک نہ تو عدلیہ کے اندر، نہ ہی عدلیہ کے باہر، نہ منبر سے، نہ ہی کسی اور پلیٹ فارم سے، نہ ذرائع ابلاغ میں، کہیں بھی کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کی عزت سے بازی کرے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ بعض اوقات سننے میں آتا ہے کہ عدلیہ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ راز فاش کیا جائے۔ جی نہیں! کوئی ضرورت نہیں ہے افشاء کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض مخصوص مواقع کے لئے شریعت مقدسہ نے ہدایت کی ہے کہ سزا عوام کی نظروں کے سامنے دی جائے، یا سزا یافتہ شخص کو لوگ پہچانیں لیکن یہ حکم صرف محدود اور چندمعدود مواقع کے لئے ہے، ہمیشہ ایسا نہیں ہے۔ اگر معاشرے میں ایسے حالات ہوں کہ ایک چیز رونما ہو جائے تو اس کا اطلاق سب پر کیا جانے لگتا ہے تو انسان کو بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ جب تک جرم ثابت نہیں ہوا ہے اس وقت تک منظر عام پر ہرگز نہیں لانا چاہیے۔ الزام بھی منظر عام پر نہیں آنا چاہیے۔ کیونکہ رائے عامہ کی سطح پر ایسا ملزم شخص جس نے حقیقت میں کوئی جرم انجام نہیں دیا ہے اور اس ملزم شخص کے درمیان جس پر عائد الزام کے لئے ثبوت دستیاب ہیں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا۔ جرم ثابت ہونے کے بعد بھی منظر عام پر بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو مخصوص مواقع ہیں ان کے بارے میں میں نے عرض کر دیا کہ «و ليشهد عذابهما طائفة من المؤمنين».(2)( ان کو دی جانے والی سزا کو مؤمنین کی ایک جماعت دیکھے) بعض مواقع کے لئے یہ حکم ہے۔ لہذا مان لیا جائے کہ کسی شخص نے کسی جرم کا ارتکاب کیا، یہ جرم معتبر عدالت میں ثابت ہو گیا، اس شخص کو سزا بھی سنا دی گئی اور وہ بالفرض جیل میں بھی ڈال دیا گيا ہے تو بھی کیا ضروری ہے کہ ہم اس کا نام اخبارات میں شائع کریں اور نتیجہ یہ نکلے کہ اس انسان کا بچہ جو اسکول جا رہا ہے اب دوسرے بچوں کا سامنا کرنے کی جرئت اس میں نہیں ہے؟ اس میں کیا مضائقہ ہے کہ وہ شخص خاموشی سے اپنی سزا کاٹے، جیل سے باہر آئے اور اپنے بال بچوں کے ساتھ دوبارہ معمول کی زندگی شروع کرے؟ بیشک اس نے جرم کیا تھا تو اسے سزا بھی مل گئی، اب یہ معاملہ ختم ہوگيا۔ کیا ضروری ہے کہ اس کی بدنامی بھی ہو؟ یہ نکتہ بھی بہت ہی اہم ہے۔
اس سلسلے میں میرا خطاب صرف عدلیہ سے نہیں ہے۔ میرا خطاب، عدلیہ کے حکام سے بھی ہے، اس شعبہ کے باہر ذرائع ابلاغ اور دیگر افراد سے بھی ہے۔ کوئی دوسرا ادارہ عدلیہ کی کارکردگی کو مشکوک بنانے کی کوشش نہ کرے کہ جیسے ہی عدلیہ نے کوئی اقدام کیا،  تو وہ کہنے لگے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، کوئی نہ کوئی مفاد ضرور وابستہ ہے۔ جی نہیں، اس طرح کی باتیں درست نہیں ہیں۔ یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ جیسے ہی کسی شخص پر کوئی الزام لگے فورا اسے منظر عام پر لایا جائے، عوام کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ عوام کو اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اس سے عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا کہ انہیں یہ بتایا جائے کہ فلاں شخص یا فلاں شخص نے کیا جرم کیا ہے؟ ان باتوں پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
میں نے عرض کیا کہ ان تمام چیزوں سے بچنے کا علاج تقوی ہے۔ تقوی یہ ہے کہ ہم اپنی بات، اپنے کام، اپنے مؤقف اور اپنے عمل پر گہری نظر رکھیں۔ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے اعمال بھی لکھے جا رہے ہیں۔ «فمن يعمل مثقال ذرّة خيرا يره. و من يعمل مثقال ذرّة شرّا يره» (3) ہمارے اعمال، ہماری گفتار، ہمارے الفاظ سب تحریر کئےجا رہے ہیں۔ بعد میں ہمیں سوال و جواب کا مرحلہ در پیش ہوگا۔ ایک ایسی عظيم عدالت ہے جس میں انسان کو پیش کیا جائے گا، وہاں جواب دینا ہوگا۔ تقوی کا مطلب ہے کہ انہی باتوں کا خیال رکھا جائے۔
الحمد اللہ انقلاب کی کامیابی کے بعد سے عدلیہ میں  کافی پیشرفت ہوئی ہے۔ ہر مرحلےمیں بڑی گراں قدر پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے۔ آج عدلیہ کی سطح پر جو پیشرفت دیکھنے میں آ رہی ہے جو کام انجام پا رہے ہیں در حقیقت انہیں دیکھ کر حوصلہ بڑھتا ہے۔ جب انسان اس جوش و جذبے کو دیکھتا ہے، اس ہمت و حوصلے کو دیکھتا ہے، ان خلاقیت کا مشاہدہ کرتا ہے، اورعدلیہ کے حکام کے اندر اس قوی اور مضبوط جذبہ کو دیکھتا ہے کہ وہ بحمد اللہ عالمانہ اور خلاقانہ انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں تو بڑی خوشی ہوتی ہے، یہ اچھے مستقبل کی بشارت ہے۔
اللہ تعالی سےدعا کرتا ہوں کہ وہ  آپ سب کی دعائیں مستجاب فرمائے اور حضرت ولی عصر علیہ السلام کی دعائيں آپ کے شامل حال قرار دے اور حضرت کے قلب مبارک کو آپ سے راضی و خوشنود فرمائے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ  ہمارے عزیز شہیدوں کی ارواح طیبہ کو، ہمارے عظیم الشان امام (رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو ہم سب سے راضی اورخوشنود فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1) انعام: 116
2) نور: 2
3) زلزله: 7 و
8

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔