ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا نئے سال کے پہلے دن حضرت امام رضا (ع) کے حرم میں لاکھوں زائرین اور مجاورین سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على النّبىّ الأعظم و الصّراط الأقوم و اشرف ولد ءادم؛ سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد؛ و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين‌؛ سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌.

اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک بار پھر یہ موقع دیا اور توفیق عطا فرمائی کہ اس مبارک اور سعادت بخش مقام پر حاضر ہوں؛ سال کا پہلا دن ہے حضرت علی بن موسی الرضا (ارواحنا فداہ و صلوات اللہ علیہ) کے  روضہ اور حرم مبارک میں عید سعید نوروز اور نئے سال کے آغاز کی مناسبت سے اس عظیم الشان محفل میں حاضر ہونے والے آپ تمام حضرات اور تمام بھائیوں اور بہنوں کومبارک باد پیش کرتا ہوں ؛ تمام ان عزیز بھائیوں اور بہنوں کوبھی مبارک باد پیش کرتا ہوں جو شبستان امام خمینی(رہ) اور حرم مبارک کے دیگر ہالوں میں میری آواز سن رہے ہیں۔ عوام کی یہ عظيم تعداد در حقیقت ایرانی عوام کے بحر بیکراں کا ایک عظیم نمونہ ہے، ہمارے عوام آج کے دن ملک کے مختلف شہروں، مختلف گوشوں اور دور و نزدیک کا سفر طے کرکے حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی عظیم الشان بارگاہ کے سائے میں حاضر ہوتے ہیں اور اپنی عقیدت  ، محبت اور عزت و احترام کا اظہار کرتے ہیں اس عظیم اجتماع میں مشہد کے عزیز بھائی اور بہنیں بھی موجود ہیں، میں سب کو سلام عرض کرتا ہوں اور مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

عید نوروز تمام ایرانی عوام اوران تمام ممالک کےمسلمانوں کے لئے ایک اچھا اور غنیمت موقع ہے جو عید نوروز کا احترام اور اس سلسلے میں تقریبات منعقد کرتے ہیں ہمیں اس عظیم مناسبت اور اچھے موقع سے اسلامی حرکت کی سمت و سو استفادہ کرنا چاہیے اسلام کی شان و منزلت اور اس کی جانب حرکت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام مواقع سے ، زندگی کے تمام لمحات سے اور زندگی کے تمام مراحل سے گوناگوں شکل و صورت میں استفادہ کرنا چاہیے، انسان کے رشد و تکامل کے لئے، انسان کی مادی و معنوی پیشرفت و ترقی کے لئے، ہم ایرانی اس مناسبت سے بھر پور استفادہ کرسکتے ہیں اور اسلام نے جن امور و اعمال کو انجام دینے کی ہمیں دعوت دی ہے ان کی سمت ہم قدم بڑھا سکتے ہیں، ہم اسلامی احکا م اور اسلامی معارف کی سمت حرکت کرسکتے ہیں؛ ہم خود کو اسلام کے اعلی اہداف کے ساتھ آشنا بنا سکتے ہیں ان ایام میں صلہ رحم پر توجہ، اللہ تعالی کی بارگاہ میں راز و نیاز، اچھی اور نصیحت آموز باتوں پر توجہ، دینی و معنوی اور مقدس مقامات میں اجتماع وہ غنیمت اور عمدہ مواقع ہیں جن سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔

حقیقت امر یہی ہے کہ ہمارے ملک کے عزیزعوام نے طویل برسوں سے بالخصوص  ملک میں اسلامی نظام قائم ہونے کے بعد، اس عید کے ذریعہ، معنویت کے سلسلے میں ، معرفت کے سلسلے میں اور اللہ تعالی سے قرب حاصل کرنے کے سلسلے میں بھر پور استفادہ کیا ہے۔ اوراس بات کی واضح دلیل یہ ہے کہ آپ نئے سال کی تحویل کے وقت ملاحظہ کریں تو آپ مشاہدہ کریں گے کہ زیادہ تر لوگ دینی مراکز، مقدس مقامات، زیارتگاہوں اور مساجد میں عبادت اور ذکر و دعا کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ اس عظیم حرکت کا مطلب یہ ہے  کہ ایرانی قوم اس سنتی رسم اور اس عید سے بھی دین کے لئے استفادہ کرتی ہے، اور تمام امور میں ہمارے لئے یہ واضح معیار ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنی معرفت میں اضافہ کے لئے، اپنی معنویت میں پیشرفت کے لئے، اپنے دین کے لئے اور اسلامی احکام، اسلامی معارف اور اسلامی اخلاق کے لئے اس سے بھر پوراستفادہ کرنا چاہیے اور اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان تمام امور میں ایرانی قوم کو کامیاب اور مؤفق فرمائے۔

آج اللہ تعالی نے مجھے جو غنیمت موقع عطا کیا ہے  میں اس میں زائرین محترم اورمشہد کے عزیز بھائیوں اور بہنوں کے سامنےتین مطالب پیش کروں گا۔

پہلا مطلب مجموعی طور پر گذشتہ سال 1389 ہجری شمسی کے بارے میں رپورٹ کی مانند ہے ایک کلی نگاہ میں ملاحظہ کریں کہ ملک کے حکام اور ایرانی قوم نے گذشتہ برس کس سمت میں حرکت کی اور کس طرح انھوں نے اپنا راستہ طے کیا، دوسرا مطلب موجودہ سال کے بارے میں ہے کہ جس کا آغاز آج سے ہورہا ہے؛ اس نعرے کے پیش نظر جو میں نے اس سال عزیز قوم کے سامنے پیش کیا ہے، یعنی"  اقتصادی جہاد" اور جن چیزوں کا اس سلسلے میں انجام پانا ضروری ہے، تیسرا مطلب علاقائی مسائل کے بارے میں ہے؛ مشرق وسطی کے مسائل کے بارے میں، شمالی افریقہ کے مسائل کے بارے میں اور جو حالات اس وقت اسلامی علاقہ میں رونما ہورہے ہیں ، اور ان حالات و واقعات کے مقابلے میں اسلام اور امت اسلامی کے دشمنوں نے مکر و فریب کا جو طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے اس کے بارے میں کچھ باتیں بیان کروں گا۔

پہلے مطلب کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ سال میں ، " دگنی ہمت اور دگنے عمل" کا نعرہ  پورے سال توجہ  کا مرکز رہا اور ہماری قوم نے مختلف اور گوناگوں شعبوں میں اپنی بلند و بالا ہمت کا بھر پور ثبوت پیش کیا اور عظیم و نمایاں کام انجام دیئے، البتہ بلند اور دگنی ہمت کے نتائج مختصر مدت میں نہیں بلکہ دراز مدت میں ظاہر ہونگے؛ لیکن جب انسان گذشتہ سال پر نظر دوڑاتا ہے تو ان کاموں کے نتائج کوابتدائی مراحل میں بھی مشاہدہ کرتا ہے جو ملکی حکام نے سال کے دوران انجام دیئے ہیں اور قوم نے ان کاموں میں حکام کا مکمل اور بھر پورساتھ دیا ، حکام کا تعاون کیا  قوم نے خود ان کاموں کو انجام دیا انسان تمام ان میدانوں میں دگنی ہمت اور دگنے عمل اور دگنےکام کا مشاہدہ کرتا ہے اوربہت سے میدانوں یہ حقیقت مشہود ہے ۔

میں سائنس و ٹیکنالوجی کے موضوع سے آغاز کرتا ہوں، سال 1389 ہجری شمسی کے آغاز میں مجھے ملک کے ایک حساس صنعتی شعبہ کا دورہ اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ؛اور اسفند ماہ کے آخری ایام میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی پر مبنی ایک نمائشگاہ کو دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا موقع میسر ہوا اس ایک سالہ حرکت کے نتائج کا مشاہدہ کیا جو خود طولانی مدت کاموں کی محصول ہے میں نے اس کا خود مشاہدہ کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جدید اور پیشرفتہ ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ہم نے نمایاں کام انجام دیئے ہیں اور اس وقت ملک میں جو سائنس و ٹیکنالوجی کی لہر جاری ہے اس میں سے بہت کم چیزوں کے بارے میں عوام کو اطلاع دی گئی ہے اکثر چیزیں ابھی عوام کے سامنے پیش ہی نہیں کی گئي ہیں ؛ میں یہ چیز آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں ، کہ گذشتہ کچھ برسوں سے ملک کے مختلف شعبوں میں ایک ایسی عظیم علمی حرکت کا آغاز ہوچکا ہے اور خوش قسمتی سے اس حرکت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔

میں نے ایک مرتبہ معصوم علیہ السلام سے منقول اس  روایت کو پیش کیا ہے ، جس میں معصوم (ع) کا ارشاد ہوتا ہے: " العلم سلطان" یعنی علم و دانش ایک قوم کے لئے ایک فرد کے لئے مایہ اقتدار ہے، " من وجدہ صال و من لم یجدہ صیل علیہ" جس کے ہاتھ میں علم کی طاقت ، قدرت اوردولت آجائے وہ قوی و مضبوط اور اس کا مرتبہ بلند ہوجاتا ہے اور جس شخص کے پاس علمی طاقت اور قدرت نہ ہو وہ ہمیشہ دوسروں کا محتاج اوردست نگر رہتا ہے اور دوسروں کو اس پر برتری اورعظمت حاصل رہتی ہے، علم و سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں اس قسم کی خصوصیت ،طاقت اور قدرت ہے آج ملک میں بہت سے شعبوں  میں علم و دانش کے حصول کی تلاش و کوشش  کا سلسلہ جاری ہے علم کےنئے اور جدید شعبوں میں ایران کی پیشرفت و ترقی محسوس اور مشہود ہے،مختلف شعبوں میں ، حیاتیات کے شعبہ میں، فضائی اور خلائی شعبہ میں، نانو ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ، اسٹیم سیلز کے شعبہ میں ،انفارمیشن اور ارتباطات کے شعبہ میں، ، ایرانی طب ، اور میڈيسن کے شعبہ میں ، کینسر کے علاج کے لئے جدید دواؤں کی پیداوار کے شعبہ میں، اسی طرح ریڈيو ایزوٹوپ مشین کی تیاری اور بادی  ٹربائن انجنوں کی پیداوار  سے کافی حد تک ملک کا تیل پر انحصار ختم ہوجائےگا۔ سپر کمپیوٹر کی ساخت ملک کے لئے بہت اہم ہے، انرجی کی جدید ٹیکنالوجی کی پیداوار یہ سب علوم دنیا کے اعلی اور بالا ترین علوم ہیں، خوش قسمتی سے انسان جب مشاہدہ کرتا ہے کہ ہمارے ماہرین اور جوان سائنسداں ملک کی پیشرفت و ترقی میں محنت ، انہماک اور تندہی کے ساتھ مصروف اور مشغول ہیں؛ اور میں نے کل رات اپنے نوروز کے پیغام میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بین الاقوامی معتبر اداروں کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شعبہ میں آپ کا ملک بہت سے ممالک سے آگے حرکت کررہا ہے  اور علم و سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ایران کی حرکت عالمی حرکت سے کئی گنا زیادہ ہے۔

علم و سائنس و ٹیکنالوجی کی پیشرفت کے مسئلہ میں دو تین نکات موجود ہیں جن کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں، پہلا نکتہ یہ ہے کہ زیادہ تر ماہرین و سائنسداں جو یہ کام انجام دے رہے ہیں وہ جوان ہیں جو سائنسداں اس شعبہ میں مشغول اور مصروف عمل ہیں ان کی عمریں متوسط طور پر 35 سال تک ہیں یعنی اکثر سائنسداں جوان ہیں اور ان جوانوں پر اعتماد بہت ضروری ہے البتہ مؤمن وماہر اساتید بھی اس کام میں مشغول ہیں جو بہت ہی اچھےاور عمدہ کام انجام دے رہے ہیں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وہ مجموعہ جو ان عظیم کاموں کو انجام دے رہا ہے وہ قوی جوش ، جذبہ ، ولولہ، اور خود اعتمادی کے عزم سے سرشار ہیں ؛ جو اصلی سرمایہ ہے اصلی سرمایہ انسانی وسائل ہیں وہ چیز جو ہمارے ملک میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے جوان قوی اور مضبوط جذبہ کے ساتھ اس میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ تمام وسائل جو ملک کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے ضروری ہیں وہ ان کی تعمیر پر مکمل طور پرقادر ہیں۔

 علم کی پیشرفت کے سلسلے میں تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ علمی مجموعہ کی تشکیل ، ٹیکنالوجی، محصول کی پیداوار اور اس کی تجارت کے سلسلے میں بہت ہی اہم ہے اس مجموعہ کی تشکیل کا کام جاری ہے؛ یعنی علم کو کام میں لایا جاتا ہے، اس کو ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا جاتا ہے، محصول کو تیار کیا جاتا ہےاس محصول کو عالمی منڈی میں پیش کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ ملک کے لئے  دولت و ثروت کو حاصل کیا جاتا ہے۔یہ علم و دانش صرف دل کو سکون عطا کرنے کے لئے نہیں ہے کہ ہم جان لیں، بلکہ ہم نے اس علم کے سلسلے میں خاطر خواہ پیشرفت حاصل کی ہے؛ جی ہاں ، یہ علم ملک کو دولتمند اور ثروتمند بناتا ہے اس  کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے، یہ وہ راستہ ہے جوعلم کو ملک کی قومی ثروت و دولت میں تبدیل کرتا ہے یہ وہ راستہ ہےجو قوم کی ضروریات کو پورا کرتا ہے یہ کام علم و سائنس کے شعبہ میں ہوا ہےحقیقت اور انصاف میں اس شعبہ میں دگنی ہمت اور دگنی جدوجہد محسوس اور مشہود ہے۔

دوسرا میدان جس میں دگنی ہمت اور دگنے عمل کو انسان مشاہدہ کرتا ہے اور جس کے  ذریعہ بیشمار کاروبار حاصل ہوتا ہے وہ مسئلہ اقتصادی شعبہ سے متعلق ہے جس کا ایک نمونہ سبسیڈی کو بامقصد بنانے کا اہم اور بلند قدم ہے، یہ بات ہماری عزيز قوم کو معلوم ہونی چاہیے کہ موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے حامی اور موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے مخالف تمام اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سبسیڈی کو بامقصد بنانا بہت ہی مفید ، بنیادی اور ضروری قدم ہے اس کام کو انجام دینے کا جذبہ سب کے اندر موجود تھا اور گذشتہ حکومتوں سے اس کا مطالبہ بھی ہوتا رہا ، اس میدان میں وارد ہونا سخت اور دشوار کام تھا؛ وسائل بھی آمادہ نہیں تھے، بحمد اللہ اب اس کے وسائل فراہم ہوگئے ہیں اور یہ کام شروع ہوگیا ہے، اس سلسلے میں حکومت اور عوام کے درمیان تعاون بھی بہت اچھا ہے سبسیڈی کو با مقصد بنانے کے سلسلے میں عوام کی حرکت بہت ہی عمدہ اور اعلی حرکت تھی، اس کام کے آثاربتدریج آئندہ ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے؛ اگر چہ اس کے بعض مثبت آثار ابھی سے نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں، سب سے پہلے اس کام کا اہم ہدف سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم ہے، حکومت سبسیڈی کو عوام میں تقسیم کررہی ہے، یہ سبسیڈی پہلے جو زیادہ مصرف کرتے تھے زیادہ مالدار تھے انھیں زیادہ ملتی تھی ؛ لیکن جو لوگ غریب تھے ، کم مصرف کرتے تھے انھیں کم ملتی تھی، سبسیڈی کو با مقصد بنانے سے اس کی تقسیم منصفانہ انجام پائے گی؛ یعنی سب کو مساوی ملےگا اور سماجی انصاف کے نفاذ کے سلسلے میں یہ ایک اہم اور بلند قدم ہے۔

دوسرا مقصد ملک کے عام وسائل پر مدیریت کا ہے؛ جس میں پانی اورانرجی شامل ہے، دو سال پہلے ہم نے صحیح استعمال کی جانب عملی قدم کا نعرہ دیا تھا؛ جس میں اسراف سے پرہیز، صرفہ جوئی، جس کا ایک راستہ یہ ہے جس کے ذریعہ ہم مصرف کے نمونہ کی صحیح معنی میں اصلاح کرسکتے ہیں ؛ جیسا کہ اب تک اس کے آثار بھی دیکھے گئے ہیں سبسیڈی کے اجراء کے ان چند مہینوں میں انرجی کے مصرف میں نمایاں طور پر کمی واقع ہوئی ہے؛ یہ ملک کے مفاد میں ہے، روٹی جو عظیم نعمت ہے گندم سے حاصل ہوتی ہے اور گندم کمانے میں بہت زحمت اٹھانی پڑتی ہے روٹی کے اسراف میں کمی واقع ہوئی ہے، روٹی کو دور پھینکنے کا سلسلہ بہت کم ہوگیا ہے مصرف اور استعمال میں تعادل اور میانہ روی پیدا ہوئی ہے یہ وہ فوائد ہیں جو اب تک حاصل ہوئے ہیں البتہ اس کے  بہت سے فوائد انشا ء اللہ آئندہ ظاہر ہونگے اور اقتصادی ڈھانچے کی اصلاح بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اقتصاد کے میدان میں دگنی ہمت کا مظہر جو کام دکھائی دیتے تھے ان میں تیل کے علاوہ دیگر اشیاء کی برآمدات شامل ہے، بدقسمتی سےدسیوں سال سے ہمارے ملک کا بجٹ  تیل سے وابستہ رہا ہے، اوراقتصاد کے تمام ہمدرد اور دلسوز ماہرین اس طریقہ کار کومردود سمجھتے ہیں؛لیکن یہ روش اور طریقہ کار ہمارے ملک میں عادت بن گيا ہے، تیل نکال کر فروخت کریں اور اس سے حاصل ہونے والی در آمد سے ملک کا نظم و نسق چلائیں، یہ روش اور طریقہ کار بالکل غلط ہے، میں نے کئی سال پہلے اس بات کو بیان کیا ہے کہ میری تمناؤں میں سے ایک تمنا اور ایک آرزو یہ ہےکہ  ایک دن ایسا آجائے کہ ہم تیل کا ایک قطرہ برآمد کئے بغیر ملک کا انتظام اور انصرام چلائیں یہ وہ چیز ہے جو آج تک محقق نہیں ہوئی ہے، البتہ کوئی آسان کام بھی نہیں ہے، کام بہت مشکل کام ہے، تیل کے علاوہ دیگر اشیاء کی برآمدات سے ہم اس ہدف کے نزدیک تر پہنچ جائیں گے؛ اور یہ کام انجام پارہا ہے اور سال 1389 ہجری شمسی میں اس سلسلے میں اہم اور بلند قدم اٹھائے گئے ہیں ۔

اقتصادی میدان میں جو امور دگنی ہمت اور دگنے عمل کا مظہر ہیں ان میں  اقتصادی پابندیوں کا عقلمندی اور ہوشیاری کے ساتھ مقابلہ بھی شامل ہے امریکہ کی سربراہی میں بعض یورپی ممالک نے امریکہ کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیں، سال 1389 کے آغاز سے انھوں نے اپنے زعم ناقص میں اقتصادی پابندیوں میں تشدید کی، اس سلسلے میں ہمیں موصولہ خبروں کے مطابق وہ اپنی جگہ  اور اپنے اندازوں  کے مطابق یہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ  یہ اقتصادی پابندیاں ایران کو پانچ ،چھ مہینوں کے اندر اندر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گی؛ ان کا تصور یہ تھا وہ اس فکر میں تھے کہ ان اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ ایرانی عوام کا جینا مشکل کردیں گے اور ایسے مسائل پیدا کردیں گے کہ ایرانی قوم خود بخود تنگ آکر اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اعتراض اور احتجاج پر اتر آئیں گے؛ ان کا ہدف یہ تھا، لیکن ان  اقتصادی پابندیوں کے مقابلے میں عقلمندی اور ہوشیاری کے ساتھ عمل کیا گیا جس کی وجہ سے دشمن کی تیغ کند ہوگئی، اور دشمن ان اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکا، اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام مختلف شعبوں میں اپنی دن رات کی محنت اور تلاش و کوشش کے ذریعہ اس مشکل گھاٹی اور سخت و دشوار مرحلے سے عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے،آج خود مغربی ممالک اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم ایران کے خلاف پٹرول پر پابندی عائد کریں گے ہمارے ملک کی مختلف ادوار میں ایک مشکل یہی رہی ہے کہ ہمارا ملک تیل پیدا کرتا ہے اور تیل سے حاصل ہونے والے پٹرول کی بہت زیاد مقدار کو ہم باہر سے خریدتے ہیں انھوں نے سوچا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یہ کمزوری اور ضعف ہے اور ہم ایران کو پٹرول فروخت نہیں کریں گے ایران کے خلاف پٹرول پر پابندی عائد کریں گے، ہمارے ملک کے حکام بھی اس سے پہلے کہ وہ کوئی اقدام کریں، تلاش و کوشش میں مصروف ہوگئے اور پٹرول کے میدان میں کام کے مقدمات فراہم کرنے میں مشغول ہوگئے، اور آخر کار حکام کی محنت اور تلاش و کوشش کی وجہ سے ہمارا ملک پٹرول میں بھی خود کفیل ہوگیا؛ یہ کام ان کی اقتصادی پابندیوں کی برکت سے انجام پذیر ہوا،" انّ اللَّه يؤيّد هذا الدّين بأقوام لا خلاق لهم " ان کی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ہمارے حکام اس فکر میں مشغول ہوئے ، انھوں نے تلاش کی اور ہم پٹرول وارد کرنے سے بے نیاز ہوگئے، میں نے اسفند مہینےکے آخر میں نمائشگاہ کا دورہ کیا تھا اورنمائشگاہ میں کچھ جوان ایرانی ماہرین نےیہ بات مجھ سے کہی ، انھوں نے مجھ سے کہا کہ ہم اس مشین کو بنانا چاہتے تھے جب ہم اس کے پرزے باہر سے خریدنے کے لئے گئے تو انھوں نے کہا کہ ہمارے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد ہیں، ہم آپ کو یہ نہیں دیں گے؛ ہم سمجھ گئے کہ ہمیں ان پرزوں اور قطعات کو خود ہی بنانا پڑےگا، ایران واپس آگئے ، غور و فکرسے کام لیا، زحمت اٹھائی ، تلاش و کوشش سے کام لیا، اور دوسروں کی مدد کے بغیر ہم نےاس مشین کو بنالیا، یہ رفتار عقلمندی اور ہوشیاری پر مبنی رفتار ہے، ایرانی حکام اور ایرانی قوم  نے ملکر دشمن کی اقتصادی پابندیوں کے ساتھ ہوشیاری اور عقلمندی سے مقابلہ کیا؛ یعنی ہماری قوم اور حکام نے دشمن کے تیز ترین ہتھیاروں کو کند اور ناکام بنادیا، یہ بھی ایسے ہی ہےجیسے جنگ کے میدان میں آپ دشمن سے ہتھیار چھین لیں ؛ اور آپ نے ہتھیار چھین لیا، دگنی ہمتوں کا یہ بھی ایک عظیم اور شاندارمظہر ہے۔

روزگار فراہم کرنے کے سلسلے میں بھی اچھے اور عمدہ کام انجام پذیر ہوئے ہیں، حکومت کی رپورٹ کے مطابق سال 1389 ہجری شمسی میں ایک ملین چھ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کیا گیا ہے؛ اگر یہ رپورٹ دقیق ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ لاکھ افراد کو مجوزہ منصوبہ سے پہلے ہی روزگار فراہم کیا گیا ہے ، دیہاتوں میں گھروں کی تعمیر، شہروں میں گھروں کی تعمیر، بڑی شاہراہوں کی تعمیر، مواصلاتی نظام، الیکٹرانک ارتباطات وغیرہ یہ تمام کام ملک کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لئے انجام پذیر ہوئے ہیں اقتصاد کے شعبہ میں اچھے اور عمدہ کام انجام دیئے گئے ہیں۔

دیگر میدانوں میں بھی بہت زیادہ کام انجام پذیر ہوئے ہیں، اور وقت محدود ہونے کی وجہ سے ان کی تفصیل بیان نہیں کرنا چاہتا بہر حال سال 1389 نے جو چیز ہمارے لئے مشخص کی ہے وہ یہ ہے کہ  یہ سال حقیقت میں ہمارے لئے دگنی ہمت اور دگنے عمل اور تلاش و کوشش کا سال تھا۔ البتہ سال 1389 میں کوئی خاص خصوصیت نہیں ہے؛ یہ سال بھی اور آئندہ آنے والے سال بھی دگنی ہمت اور دگنے عمل کے سال ہیں، ایرانی عوام اور ایرانی حکام کو ہر دور میں بلند ہمتی سے کام لینا چاہیے دگنی ہمت سے کام کرنا چاہیےتاکہ ہم انشاء اللہ اس مقام تک پہنچ جائیں جو ایرانی عوام کے لائق اور شائستہ مقام ہے۔

اس سال کے نعرے کے بارے میں اور اس سال میں جو کام  انجام دینے چاہییں، جن کی تمام فصلیں اہم  اور تمام ترجیحات بڑی اہمیت کی حامل ہیں، مثال کے طور پر اداری نظام میں تحول و تبدیلی ایک لازمی کام ہے اور اسے انجام دینا چاہیے؛ وزارت تعلیم میں تغییر و تحول ایک اساسی اور بنیادی کام ہے؛ یونیوسٹیوں ، تحقیقی اور تعلمیمی مراکز میں انسانی علوم پر کام ایک اہم اور ضروری کام ہے؛ عمومی ثقافت سے متعلق مسائل، معاشرے کے اخلاق سے متعلق مسائل ، یہ تمام امور اہم امور ہیں؛ لیکن ماہرین کے مطابق ، اس دور میں اقتصادی مسئلہ ملک کے تمام مسائل میں سب سے اہم ، ضروری اور فوری مسئلہ ہے۔اگر اقتصادی مسائل میں ہمارا ملک جہاد کے مانند حرکت اور کام انجام دے، تو یہ بلند قدم جو اٹھایا ہے اور اس کے بعد جو اہم اور بلند قدم اٹھائے جائیں گے بیشک یہ تمام اقدامات ملک کی پیشرفت و ترقی اور ایران کی عزیز قوم کی مزید عزت اور سربلندی کے  لئے مفید اور مؤثر ثابت ہونگے، ہمیں اقتصادی میدان میں اقتصادی مشکلات کو حل کرکے اسلامی نظام کی قدرت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے؛ اقتصادی نمونہ کو ہاتھ میں رکھ کر دیگر قوموں کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ وہ ملاحظہ کریں کہ ایک قوم اسلام کے سائے میں  اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کس طرح ترقی اور پیشرفت کے میدان میں آگے بڑھ سکتی ہے۔

وہ چیز جو اس سلسلے میں معیار و ملاک کے عنوان سے جانی جاتی ہے اور اہم بھی ہے وہ ملک کا اس میزان تک اقتصادی رشد ہے جو پانچویں منصوبہ میں بیان کیا گیا ہے؛ یعنی کم سے کم 8 فیصد اقتصادی رشد، اس رشد میں زیادہ تر حصہ درست استفادہ سے متعلق ہے؛ یعنی ہمیں ملک کے وسائل سے بہتر اور اچھے انداز میں استفادہ کرنا چاہیے، میں نےدو سال قبل اسی موقع پر  صرفہ جوئی اور صحیح استعمال کے بارے میں جو مشکلات درپیش تھیں ان کے بارے میں بعض مطالب پیش کئے تھے، عوام کو ان کے بارے میں جاننا چاہیے، میں ملک کے حکام کو سفارش کرتا ہوں کہ وہ ملک کے اقتصادی رشد میں صحیح استعمال کی اہمیت کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں؛ عوام کو بتائیں کہ صحیح استعمال کرنے کا حصہ ملک کے اقتصادی رشد میں اور اسی طرح معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان مختلف شعبوں میں اقتصادی فاصلہ کو کم کرنے کتنی اہمیت کا حامل ہے، یہ اقتصادی فاصلہ اور شگاف ہمارے لئے مطلوب اور پسندیدہ نہیں ہے؛ اسلام اس کو پسند نہیں کرتا ہے، جس حد تک پانچویں منصوبہ میں اقتصادی رشد معین اور مقرر ہوا ہے اس کو انجام دینے کی تلاش و کوشش کرنی چاہیے اور ان امور کو انجام دینا چاہیے۔

بے روزگاری کی شرح  میں کمی اور روزگار کی فراہمی میں اضافہ  منجملہ بہت ہی اساسی اور اہم مسائل ہیں، اسی طرح نجی شعبہ میں سرمایہ کاری میں اضافہ کا مسئلہ اور نجی شعبہ میں مدد فراہم کرنے کا مسئلہ بھی اہم ہے تاکہ ملک کے اقتصادی شعبہ میں سرمایہ کاری کی مزید راہیں فراہم ہوسکیں؛ اس سلسلے میں انجام پانے والے کاموں میں کاپریٹو سوسائٹی کا قدم بہت ہی اہم قدم ہے کہ کاپریٹو سوسائٹی کے ذریعہ بڑے سرمایہ کی تشکیل پائے اور اس طرح ہم ملک کے اہم اقتصادی شعبوں میں سرمایہ کاری کرسکیں گےاور اس کے ساتھ مشکل گرہوں کو کھولنے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کام کو انجام دے ،اس سلسلے میں قانونی اور حقوقی ڈھانچے کی آمادگی ضروری ہے اور یہ قدم کام کی رونق اورخوشحالی کی حمایت پر مبنی قدم ہوگا۔

بنیادی مواد میں کفایت شعاری، منجملہ پانی کے مسئلہ میں کفایت شعاری بہت ضروری ہے آج ملک کا نوے فیصد پانی زراعت کے شعبہ میں مصرف ہوتا ہے، اگر اللہ تعالی کی توفیق اور اس کی مدد سےحکومت زراعت کی آبیاری کی روش اور طریقہ کار میں اصلاح کرے ، اگر نوے فیصد پانی کے مصرف میں سے دس فیصد پانی کم کرنے میں کامیاب ہوجائے، اس وقت آپ ملاحظہ کریں گے کہ کیا عظيم کام انجام پایا ہے، زراعت کے شعبہ کے علاوہ ، دیگر تمام شعبوں میں، گھریلو شعبہ میں، صنعتی شعبہ میں اور دیگر شعبوں میں جن میں پانی کی ضرورت ہے، ہم ملک کے صرف دس فیصد پانی سے استفادہ کررہے ہیں، اگر ہم زراعت کے شعبہ میں دس فیصد تک کفایت شعاری سے کام لیں  تو اس وقت آپ مشاہدہ کریں گے کہ کتنا بڑا کام انجام پذیر ہوا ہے، زراعت کے علاوہ دیگر شعبوں میں پانی سے استفادہ کا امکان دگنا ہوجائے گا؛ اور یہ عمل بہت ہی اچھا ، مفید اور عمدہ ثابت ہوگا۔

اقتصاد کے معاملے میں عوام کی براہ راست شرکت ضروری ہے اور یہ ضرورت طاقتور اورتوانا ہونے کا باعث ہے اس کے لئے اطلاعات کی فراہمی ضروری ہے؛ اور حکام کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں عوام کو آگاہ کریں اور انھیں اطلاعات فراہم کریں ،امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ ہمیں اس میدان میں روز بروز ترقی اور فروغ حاصل ہو، البتہ اس سلسلے میں میڈيا اور ذرائع ابلاغ کااہم نقش ہے، ریڈيو ٹی وی کا اہم کردار ہے، ذرائع ابلاغ عوام کو اقتصاد کے بارے میں آگاہ کرسکتے ہیں؛حکومت کو اس سلسلے میں فعال حرکت اور کوشش کرنی چاہیے اور انشاء اللہ اقتصادی معاملے کو آگے بڑھانے کی تلاش وکوشش کرنی چاہیے۔

اگرہم چاہیں کہ ملک میں یہ عظیم اقتصادی حرکت موجودہ برس 1390ہجری شمسی میں انجام پذیر ہو تو اس کے کچھ شرائط اور ضروریات ہیں، ان شرائط کو بھی میں فہرست کے ساتھ بیان کروں گا، اس کام کے لئے سب سے پہلے جہادی جذبہ درکار ہے،ہماری قوم انقلاب کے اوائل سے لیکر آج تک جس میدان میں بھی جہادی جذبہ لیکر وارد ہوئی ہے اس میں پیشرفت و ترقی حاصل ہوئی ہے؛ ہم نے دفاع مقدس کے دوران اس کا مشاہدہ کیا  ، تعمیری جہاد میں اس کا مشاہدہ کیا، علمی اور سائنسی حرکت میں اس کا مشاہدہ کیا، اگر ہم مختلف شعبوں میں جہادی جذبہ سے سرشار ہوں  یعنی کام کو اللہ تعالی کی مرضی اور خوشنودی کے لئے انجام دیں اور کام میں تھکن محسوس نہ کریں اور کام کو سنجیدگی کے ساتھ انجام دیں، نہ صرف ایک ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے بلکہ سنجیدگی کے ساتھ انجام دیں تو بیشک اس حرکت میں پیش رفت حاصل ہوگی۔

دوسری شرط ، معاشرے میں ایمان ، دینداری اورمعنویت کا استحکام ہے، میرے عزیز جوانو! یہ چیز سب جان لیں کہ معاشرے اور قوم کے دنیاوی امور میں بھی ایمان ودینداری کا اہم نقش ہے ، دنیاوی امور میں بھی ہمارے جوانوں کی دینداری مددگار ثابت ہوتی ہے۔یہ تصور نہ کریں کہ جوانوں کے تدین و دینداری کا اثرصرف مساجد میںاعتکاف کے ایام یا شبہای جمعہ میں دعای کمیل تک محدود ہے، اگر ایک قوم کے جوان متدین ہوں ، تو وہ بیہودہ کاموں سے دور رہیں گے ، ، وہ منشیات سے اجتناب کریں گے؛ ایسی چیزوں سے دور رہیں گے جو جوانوں کے لئے مضر اور نقصاندہ ہیں؛ ان کی صلاحیتیں فعال ہوجاتی ہیں؛ وہ ملک کی پیشرفت و ترقی کے سلسلے میں علم کے شعبوں میں، سماجی شعبوں میں ، سیاسی شعبوں میں تلاش و کوشش اور پیشرفت حاصل کرتے ہیں؛ ۔ اقتصاد میں بھی ایسا ہی ہے معنویت  اور دینداری کے جذبہ کا اقتصاد میں بھی بہت ہی اہم نقش ہے۔

ایک اور شرط یہ ہے کہ ملک جانبی مسائل میں مبتلا نہ ہو، اس بات پر توجہ دیں کہ اکثر اوقات ملک کو ایک اصلی مسئلہ کا سامنا ہے  اور سب کو ہمت و تلاش و کوشش کے ساتھ اس اصلی مسئلہ کو حل کرنا چاہیے؛ اسےملک کا اصلی اور بنیادی مسئلہ ہونا چاہیے؛ لیکن ملک کے ایک گوشہ سے اچانک ایک آواز بلند ہوتی ہے، ایک جانبی مسئلہ پیدا کرتے ہیں اور اور تمام اذہان اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک اہم مسافرت میں ایک قافلہ رواں دواں ہے جس کا مقصد ایک اہم اور خاص نقطہ تک پہنچنا ہے، اچانک بیابان میں ان کی توجہ ایک الگ مسئلہ کی جانب مبذول کردیں تو یہ قافلہ راستے میں رک جائے گا۔ اور وہ آگے کاراستہ بھی طے نہیں کرپائے گا ، جانبی مسائل کو میدان میں نہیں لانا چاہیے، خوش قسمتی سےہمارے عوام کے اندر تجزیہ و تحلیل کرنے کی اچھی صلاحیت موجود ہے، ہمارے عوام آگاہ ہیں ہمارے عوام ہوشیا ہیں ؛ وہ فرعی و جانبی مسائل کو اصلی و بنیادی مسائل سے الگ کرنے اور پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس بات پر توجہ ہونی چاہیے کہ فرعی مسائل پر عوام کی توجہ مبذول نہ کی جائے۔

ایک اور شرط قومی اتحاد و انسجام کی حفاظت ہے یہ اتحاد جو آج عوام کے درمیان اور حکام و عوام کے درمیان موجود ہے اس کی حفاظت کرنی چاہیے، عوام کو اپنے حکام  کے ساتھ محبت و الفت ہے، عوام کو حکام پر اعتماد ہے، عوام حکام کی مدد کرتے ہیں، ان کی ہمراہی کرتے ہیں حکام کا ساتھ دیتے ہیں خود عوام کے درمیان اتحاد و یکجہتی پائی جاتی ہےاس کی حفاظت ہونی چاہیے اور اس کو مضبوط و مستحکم بنانا چاہیے۔ ایرانی عوام کے دشمنوں کا سب سے اہم منصوبہ ایرانی عوام کی صفوں میں قومی لحاظ سے، مذہبی لحاظ سے اور سیاسی رجحانات کے اعتبار سے اختلاف اور تفرقہ پیدا کرنا ہے؛ دشمن مختلف بہانوں سے تفرقہ پیدا کرنے کی تلاش و کوشش میں ہے دشمن کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے اتحاد کی حفاظت ضروری ہے۔خوش قسمتی سے ہماری قوم آگاہ و بیدار ہے وہ تمام افراد جنھیں اپنے ملک کے ساتھ محبت ہے، جنھیں دینی عوامی نظام سے دلچسپی ہے جو آج قوم و ملک کے لئے باعث فخر ہے انھیں آپس میں ہم آہنگی اور تعاون کرنا چاہیے، ملک کے حکام کو بھی ایسے ہی اتحاد کامظاہرہ کرنا چاہیے ؛ اگر کسی سے کوئی گلہ و شکوہ بھی ہے اس گلہ و شکوے کو عام افکار کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہیے ممکن ہے یہ گلہ و شکوہ حق بجانب بھی ہو؛ یہ قومی اتحاد و یکجہتی پر ایک مہلک ضرب ہے؛ اس مطلب پر سب کو توجہ رکھنی چاہیے، میں اس سلسلے میں ملک کے حکام کو سنجیدگی کے ساتھ سفارش اور متنبہ کرتا ہوں ، ممکن ہے حکام کو ایکدوسرے سے گلہ و شکوہ ہو ، حکام کے درمیان انقلاب کے اوائل سے ہی ہمیشہ گلہ و شکوہ ہوتا رہا ہے ہم ان مسائل کوانقلاب کے آغاز سے مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں؛ کبھی قوہ مجریہ کے قوہ مقننہ سے، کبھی قوہ مقننہ کے قوہ قضائیہ سے ، کبھی قوہ قضائیہ کے قوہ مجریہ سے گلے و شکوے ہوتےرہے ہیں؛ اور کام کا مزاج اور اس کی طبیعت کا تقاضابھی یہی ہے، گلہ پیش آتا ہے، ممکن ہےگلے و شکوے حق بجانب بھی ہوں ،لیکن ان شکوؤں کو عمومی سطح پر بیان نہیں کرنا چاہیے اور اس سے عوام کے اذہان کو پریشان نہیں کرنا چاہیے، عوام کو مایوس نہیں کرنا چاہیے؛ ان شکوؤں کو اپنے ہی درمیان حل کرنا چاہیے، دنیا کے اہم ترین مسائل مذاکرات کے ذریعہ قابل حل ہیں؛ جزوی مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے، لہذا قوا کا ایکدوسرے کے ساتھ اتحاد و انسجام  اور تعاون و ہم آہنگی بھی بہت ہی اہم چیزہے۔

البتہ اس نکتہ کی طرف بھی توجہ مبذول کرنا ضروری ہے؛ یہ نعرہ جو ہم سال کے لئے اعلان کرتے ہیں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اچانک تہران اور دیگر شہروں کے تمام در و دیوار بینروں سے پر ہوجاتے ہیں جن پر یہ نعرہ لکھا ہوتا ہے اس سے کوئی فائدہ نہیں ؛ کبھی اس سلسلے میں مہنگے کام  انجام دیئے جاتے ہیں؛ ایسے کاموں کی کیا ضرورت ہے؟ وہ چیز جس کی مجھے حکام اور عزیز عوام سے توقع اور امید ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس نعرے کو سنیں ، اس پر یقین کریں اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی تلاش و کوشش کریں، بینر نصب کرنے، در و دیوار کو بینروں سے پر کرنے اور ان پرفوٹو لگانے کی  کوئی ضرورت نہیں ہے، اگر اس پر کوئی خرچہ نہ بھی ہو پھر بھی کوئی ضرورت نہیں ، اگر اس کام پر خرچہ ہو تو اس میں اشکال بھی ہے زیادہ خرچ والے کام انجام دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

البتہ اقتصاد کو محور قراردینے کی میں نے جو بات کہی ہے اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ  دیگر شعبوں میں غفلت اور سستی سے کام لیا جائے،دیگر میدانوں میں بھی بالخصوص سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں کام بدستور جاری رہنا چاہیے جوان سائنسدانوں کی مدد کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے ان پر اعتماد کرنا چاہیے تاکہ وہ عزم و حوصلہ کے ساتھ بڑے اور عظیم کام انجام دےسکیں۔

اور اب کچھ باتیں علاقائی مسائل کے بارے میں، حالیہ ایام میں جو واقعات علاقہ میں رونما ہوئے ہیں، مصر و تیونس ، لیبیا، و بحرین کے واقعات بہت ہی اہم واقعات ہیں اس اسلامی اور عربی علاقہ میں بنیادی تبدیلیوں کی جھلکیاں رونما ہورہی ہیں ؛ یہ امت اسلامی کی بیداری کی علامت ہے یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں دسیوں سال سے ایران میں نعرے لگائے جاتے رہےہیں آج یہ نعرے عربی ممالک میں لگائے جارہے ہیں۔

ان واقعات میں دو خصوصیتیں موجود ہیں: ایک حضوصیت یہ ہے کہ عوام میدان میں موجود ہیں، دوسری خصوصیت  یہ ہے کہ ان واقعات کی دینی اور اسلامی سمت میں حرکت ہےیہ دو خصوصیتیں اساسی و بنیادی ہیں، عوام خود اپنے جسم و جاں کے ذریعہ میدان میں حاضر ہیں، ؛ وہی واقعہ ہےجو انقلاب اسلامی ایران میں رونما ہوا، تجزیہ نگار ، پالیسیاں مرتب کرنے والے، پارٹیوں والے اور کاخ نشیں  کوئی کام نہیں کرسکے، ہمارے بزرگ امام (رہ) کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے عوام کو میدان میں وارد کردیا، جب عوام میدان میں آگئے تو انھوں نے اپنے جسم و جاں کو پیش کیا اپنے عزیزوں کو پیش کیا، اپنی بلند ہمتی کا مظاہرہ کیا اور ہر اعتبار سے میدان میں وارد ہوگئے اور انھوں نے مشکل گرہوں کو کھول دیا، بند راہیں باز ہوگئیں، آج یہی واقعات دیگر ممالک میں رونما ہورہے ہیں مصر و تیونس میں عوام سڑکوں پر آگئے ہیں، لوگ میدان میں وارد ہوگئے ہیں،ورنہ کاخ نشیں اور روشنفکر تو ہمیشہ سے موجود تھے ہمیشہ بات کرتے تھے؛ اکثر اوقات عوام کوبھی دعوت کرتے تھے لوگ ان کی بات پر زیادہ توجہ بھی نہیں کرتے تھے، یہاں خود عوام میدان میں وارد ہوگئے ہیں،  عوام کا رجحان بھی دینی اور اسلامی رجحان ہے؛ یعنی ان کا محور نماز جمعہ ہے، نماز جماعت ہے، ، اللہ تعالی کا نام ہے، علماء دین ہیں، دین کے مبلغ افراد ہیں بعض ممالک میں نئی دینی فکر کے حامل لوگ ہیں؛ یہ لوگ میدان میں آگئے ہیں، ان کے ہمراہ عوام بھی میدان میں آگئے، یہ اس انقلاب کی ایک خصوصیت ہے، لوگ میداں میں کیوں آئے؟ واضح ہے کہ عزت و انسانی کرامت و شرافت کا مسئلہ لوگوں کو میدان میں کھینچ کر لے آیا۔ مصر و تیونس اور اسی طرح دیگر ممالک میں لوگوں کی عزت اور عظمت کے مسئلہ کو جابر اور ظالم حکام نے مجروح اور پامال کررکھا تھا، مثال کے طور پر مصر کے عوام دیکھتے تھے کہ جو شخص ان کے ملک کا صدر ہے وہ اسرائیل کی نیابت میں سنگين اور گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے، غزہ کے محاصرے کے سلسلے میں اگر حسنی مبارک اسرائیل کے ساتھ تعاون نہ کرتا تو اسرائیل غزہ پر سنگین جرائم اور شدید دباؤ قائم نہیں کرسکتا تھا،حسنی مبارک میدان میں وارد ہوگيا اس نے اسرائیل کی مدد کی، حسنی مبارک نے اسرائیل کی مدد کرتے ہوئےغزہ رفت و آمد کے تمام راستے بند کردیئے، بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ غزہ کے لوگوں نے زیر زمین سرنگ تیار کرلی ہے اور وہ اس کے ذریعہ رفت و آمد کررہے ہیں تو حسنی مبارک نے یہ راستہ بھی بند کرنے کے لئے 30 میٹر اونچی فولادی دیوار کی تعمیر شروع کروادی ، اور اس طرح غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر سرنگ کا راستہ بھی بند کردیا، حسنی مبارک نے یہ کام انجام دیئے، مصری عوام حسنی مبارک کے یہ کام دیکھ رہے تھے؛ مصری عوام کے شرف کو دھچکا لگا ان کی عزت و عظمت کو ٹھیس پہنچی اور یہی حالت دیگر ممالک میں بھی جاری رہی ہے۔

مثال کے طور پر لیبیا کے صدر قذافی شروع میں مغربی ممالک کی مخالفت میں ابھرے  ، لیکن حالیہ برسوں میں قذافی نے مغربی ممالک کی بہت بڑی خدمت کی لیبیا کے عوام نے بھی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے کہ ایک کھوکھلی اور معمولی دھمکی کے بعد قذافی نے اپنا تمام ایٹمی سرمایہ جمع کیا اور کشتی میں لاد کر مغربی ممالک کے حوالے کردیا  اور مغربی ممالک سے کہا : لے جائیے ! اب آپ مشاہدہ کیجئےکہ ہماری قوم کس مقام پرہے اور وہ کس صورتحال سے دوچار ہیں، ہماری قوم نے مشاہدہ کیا کہ امریکہ کی سرپرستی میں پوری دنیا نے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف قیام کیا، اقتصادی پابندیاں عائد کیں، سازشیں کیں، فوجی حملے کی دھمکی دی، انھوں نے کہا کہ ہم حملہ کریں گے، ایرانی حکام نے بھی عقب نشینی نہیں کی بلکہ دشمن کی سازشوں اور دھمکیوں کے باوجود ہر سال اپنی ایٹمی توانائیوں میں کئی گنا اضافہ کیا، لیبیا میں عوام نے مشاہدہ کیا کہ حکومت کے سربراہ نے حکم دیا اور جو ایٹمی وسائل موجود تھے مغربی ممالک کی معمولی دھمکی یا ان کی تشویق کے مقا بلے میں وہ سب وسائل اٹھا کر ان کے حوالے کردیئے جیسے انھوں نےکسی بچہ کے منہ میں تشویق کے لئے ٹافی دی ہے لیبیا کے سربراہ  نے بھی اس تشویق کے بدلے میں اپنا تمام ایٹمی سرمایہ اٹھا کر مغربی ممالک کے حوالے کردیا اور وہ لے کر چلے بھی گئے، لیبیا کی قوم اس کو دیکھ رہی تھی، ان کا دل خون کے آنسو بہا رہاتھا، ان کی عزت و عظمت پامال ہورہی تھی ان تمام عرب ممالک میں جہاں عوام نے قیام کیا ہے سب میں یہی صورتحال موجود تھی۔

خوب، امریکیوں کا مؤقف اس سلسلے میں کیا تھا؟ ہمارے لئے یہ اہم بات ہے امریکی ان واقعات کے بارے میں پہلے تو متحیر تھے وہ ان واقعات کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کرنے سے عاجز تھے امریکیوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا رونما ہورہا ہے، انھیں یقین نہیں آرہا تھا لیکن جب عوامی تحریکیں عروج پر پہنچ گئیں تو چونکہ امریکیوں کے پاس کوئی صحیح اور  درست تجزیہ اور تحلیل نہیں تھا اس لئے انھوں نےمتضاد اور متناقض مؤقف اختیار کیا، البتہ آج تک امریکہ کا مؤقف ان ممالک اور دیگر ممالک کے بارے میں یہی رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ ان ممالک کے ڈکٹیٹروں کی حمایت کی ہے جہاں تک ممکن تھا اس نے حسنی مبارک کی آخری لمحہ تک حمایت کی ،امریکہ نےحسنی مبارک کا آخری وقت تک دفاع کیا؛  لیکن جب اس نے دیکھا کہ اب حمایت کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو اس وقت امریکہ نے اس کو دور پھینک دیا، یہ امریکہ سے وابستہ حکمرانوں کے لئے ایک عبرتناک درس ہے کہ جب ان کے مصرف اور ان سے استفادہ کا وقت ختم ہوجاتا ہے تو امریکہ ان کو میلے کپڑے کی طرح دور پھینک دیتا ہے اور ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے! لیکن اس نے آخری وقت تک ڈکٹیٹر کا دفاع اوراس کی حمایت کی۔

وہ چیز جو امریکہ کے لئے مہنگی ثابت ہوئی ہے اور جو حقیقت میں اس کے لئے ناقابل برداشت بھی تھی اوراب بھی ناقابل تحمل ہے، وہ یہ ہے کہ مصر امریکہ کی مشرق وسطی کی پالیسی کا اصلی ستون ہے؛ وہ اس پالیسی پر تکیہ کئے ہوئے تھے اور وہ اپنے اس ستون کی اپنے مفادات کے لئےحفاظت کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں؛ قومیں کامیاب ہوگئی ہیں،امریکیوں نے اب اس نظام کے ڈھانچے کی حفاظت کرنے کی کوشش شروع کردی ہے یہ امریکہ کے مکر و فریب میں شامل ہے اس نے اپنی موذیانہ اور معاندانہ کوششیں شروع کردی ہیں لیکن اس کی یہ کوششیں سطحی ہیں ؛ اگر قومیں ہوشیار اور بیدار رہیں گی تو وہ امریکہ کے اس مکر و فریب کو ناکام بنا سکتی ہیں امریکیوں نے تلاش و کوشش کی، اب جب کہ امریکیوں نے مصر میں حسنی مبارک کو اور تیونس میں بن علی کو کھودیا ہے اب وہ ان کے باقی ماندہ نظام کے ڈھانچے کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں، شخص و فرد بدل جائے نظام وہی باقی رہے؛ لہذا انھوں نے بہت ہی تلاش و کوشش کی ان ممالک میں وزیر اعظم باقی رہے؛ لیکن قوموں نے اپنی تحریک کو جاری رکھا اور انھوں نے امریکہ کی اس سازش اور فریب کو بھی ناکام بنادیا اور انھوں نے ان حکومتوں کو بھی گرا دیا اور اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے علاقہ میں امریکہ کی ناکامیوں کا سلسلہ جاری رہےگا۔

انھوں نے جب ان ممالک میں اپنے عناصر کو ہاتھ سے کھودیا تو انھوں نے دو روشوں پر عمل کیا: ایک موقع سے فائدہ اٹھایا، اور دوسرے ان تحریکوں کے مانند تحریکیں شروع کیں، موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے  انھوں نے ان عوامی تحریکوں کو اغوا کرنے کی تلاش و کوشش کی؛ یعنی انھوں نے عوام کو ٹوپی پہنانے کی کوشش کی، عوام کی ہمراہی کا اظہار کیا، اپنے طرفدار افراد کو برسر اقتدار لانے کی کوشش کی، اس فریب میں بھی انھیں شکست اٹھانا پڑی، دوسرے انھوں ان تحریکوں جیسی تحریکیں بنانے کی کوشش کی ،یعنی جیسی تحریک مصر ، تیونس، لیبیا یا بعض دیگر ممالک میں جاری ہے ویسی ہی تحریک ایران میں بھی پیدا کرنا چاہی ، ایران میں دینی عوامی حکومت ہے، انھوں نے اپنے کمزور ، ضعیف ، ہوا و ہوس میں مبتلا ، پست اور ناتواں عوامل کو ملک کے اندر اکسانے کی بہت کوشش کی تاکہ ان کے ذریعہ یہاں بھی تحریک پیدا کرسکیں لیکن انھی‍ں اپنی اس سازش میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، یہاں بھی انھوں نے مضحکہ خيز کارٹون بنانے کی کوشش کی  لیکن ایرانی عوام نے ان کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا۔۔۔(1)امریکہ حقیقی اور واقعی منافق ہے، حقیقی نفاق وہ عمل ہے جو امریکہ انجام دے رہا ہے؛ قوموں کے دفاع کا دعوی، امریکہ مصر کے بارے میں منافقت کررہا ہے،  امریکہ کہتا ہے کہ ہم قوم کے طرفدار ہیں؛ لیکن امریکہ اس سلسلے میں جھوٹ بولتا ہے امریکہ نے مصری قوم کے دشمن سے آخری وقت تک تعاون کیا، تیونس کے بارے میں بھی وہ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں ، کہتے ہیں ہم قوم کے طرفدار ہیں، اب بہتر ہے کہ ہماری عزیزقوم بھی  جان لے، کہ امریکی صدر نے ایرانی عوام کے نام پیغام دیا ہے کہ ہم آپ کے حامی اور طرفدار ہیں! دعوی کرتے ہیں کہ ہم ڈکٹیٹر کے مخالف ہیں،ہم قوموں کے حقوق کے طرفدار ہیں؛ وہ جھوٹ بولتے ہیں، وہ نہ صرف دیگر قوموں پر ظلم و ستم کرتے ہیں بلکہ اپنی قوم پر بھی ظلم وستم کرتے ہیں، امریکہ کے اسی موجودہ صدر نے امریکہ کی بدترین اقتصادی صورتحال کے پیش نظر امریکی قوم کی جیب سے کئی ہزار ارب ڈالر نکال کر بینکوں کے حوالے کئے تاکہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں اور ہتھیاروں اور تیل کی کمپنیوں کو دیئے تاکہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں؛ یعنی امریکی حکام کمپنیوں کو زندہ رکھنے کے لئے امریکی عوام کی جیب سے پیسہ نکال کر کمپنیوں کی جیب میں ڈالتے ہیں، کمپنیوں کی تھیلی پر کرتے ہیں، بینکوں کا تھیلا پر کرتے ہیں؛ لہذا امریکی حکام اپنے عوام پر بھی رحم نہیں کرتے ہیں، آج امریکی قوم عمیق اقتصادی بحران میں ہاتھ پاؤں چلارہی ہےان کے پاس کوئی راہ حل بھی نہیں ہے جبکہ بدنام زمانہ گوانٹاناموبہ اورابوغریب جیلوں  اور دیگر خفیہ شکنجوں کی مفصل داستانیں امریکہ کے دامنگیرہیں، یہ قوموں کو نہیں سمجھتے ہیں، یہ قوموں کو درک نہیں کرتے ہیں، کیا امریکہ کا موجودہ صدر سمجھتا ہے کہ وہ کیا کہتا ہے؟ کیا اس کی اس بات پرواقعی کوئی توجہ ہے کہ اس کی پالیسیوں کے پیچھے کون لوگ ہیں یا وہ نہیں سمجھتا ، اور غافل و دیوانہ ہے؟ اس چیز کو ہم نہیں جانتے ہیں وہ کہتا ہے کہ  تہران کے آزادی اسکوائر کے لوگ وہی ہیں جو مصر کے التحریر اسکوائر کے لوگ ہیں ، وہ سچ کہتا ہے؛ ہر سال 22 بہمن کے موقع پر میدان آزادی میں یہی قوم اور یہی لوگ جمع ہوتے ہیں اور وہ امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔

علاقہ میں جاری حالات کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا مؤقف واضح ہے ، ہمارا مؤقف قوموں کے دفاع اور ان کے حقوق کے دفاع پر استوار ہے ہم تمام مسلمان قوموں اور دنیا کی تمام مظلوم قوموں کے ساتھ ہیں؛ اور ہم دنیا کی منہ زور طاقتوں، ڈکٹیٹروں، تسلط پسندوں اور سامراجی طاقتوں کے مخالف ہیں؛ یہ ایرانی قوم کا مؤقف اور اسلامی نظام کا مؤقف ہے؛ یہ اسلامی جمہوری نظام کا واضح اور آشکار مؤقف ہے، یہ پالیسیاں ہیں ، دلوں میں یہی ہے، قوم اور حکام کے بیانات اور اظہارات میں بھی یہی چیز نمایاں ہے۔

دو نقطوں پر توجہ بہت ضروری ہے: ایک نقطہ لیبیا ہے اور دوسرا نقطہ بحرین ہے، لیبیا کےمعاملے میں لیبیا کی حکومت نے جو رفتار عوام کے ساتھ روا رکھی ہوئی ہے  لیبیا کی حکومت کی طرف سے عوام پر دباؤ ، عوام کا قتل عام، شہروں پر بمباری ان تمام غیر انسانی اعمال کی ہم سوفیصد مذمت کرتے ہیں؛ لیکن اس کے ساتھ امریکہ کی مداخلت اور مغربی ممالک کی مداخلت کی بھی سوفیصد مذمت کرتے ہیں، وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم عوام کے دفاع میں لیبیا میں  داخل ہونا چاہتے ہیں یا لیبیا میں فوجی کارروائی کرنا چاہتے ہیں ؛ ان کی یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں ہے اگر وہ لیبیائی عوام کے حقیقت میں طرفدار تھے اگر لیبیا کے عوام کے لئے ان کا دل جلتا تھا ، لیبیا کے عوام پر بمباری ایک مہینہ سے ہورہی ہے؛ اگر تم ان کی مدد کرنا چاہتے تھے اگر تم ان کو ہتھیار فراہم کرنا چاہتے تھے، اگر تم ان کو وسائل اور ساز وسامان دینا چاہتے تھے ، اگر تم انھیں اینٹی ايئرکرافٹ دینا چاہتے تھے تو ان کاموں کے بجائے انھوں نے ایک ماہ بیٹھ کر لیبیائی عوام کے قتل عام کا تماشا کیا؛ اب وہ لیبیا میں داخل ہونا چاہتے ہیں! تو اس سے معلوم ہوگیا کہ مغربی ممالک لیبیا کےعوام کے دفاع میں نہیں آرہے ہیں؛ وہ لیبیا کے تیل کے پیچھے ہیں ، وہ لیبیا میں اپنا پاؤں جمانا چاہتے ہیں وہ لیبیا پر اس لئے قبضہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ مصر اور تیونس میں آئندہ تشکیل پانے والی حکومتوں پر قریبی نظر رکھ سکیں، ان کی نیت فاسد نیت ہے ہم مغربی ممالک کی اس حرکت کو قبول نہیں کرتے جو وہ امریکہ کی سرپرستی میں انجام دے رہے ہیں، اقوام متحدہ کو قوموں کی خدمت میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی آلہ کار بن گئی ہے؛ جس چیز کی ان کو ضرورت ہوتی ہے اقوام متحدہ اس کو پورا کرتی ہے، اقوام متحدہ کے لئے یہ بات باعث شرم ہونی چاہیے، لہذا لیبیا میں مغربی ممالک کی مداخلت ہر گز قابل قبول نہیں ہے، اگر وہ لیبیا کے عوام کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو مدد کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں وہ عوام کی مدد کرسکتے ہیں ، عوام کو ہتھیار فراہم کرسکتے ہیں عوام خود قذافی کا صفایا کردیں گے مغربی ممالک کیوں مداخلت کررہے ہیں؟

مسئلہ بحرین، بحرین کا مسئلہ بھی ہر لحاظ سے بالکل علاقہ کے دیگر ممالک کے مسائل کے مانند ہے یعنی بحرین کے مسئلہ میں ، مصر کے مسئلہ میں، تیونس کے مسئلہ میں ، یمن کے مسئلہ میں اور لیبیا کے مسئلہ میں کوئی فرق نہیں ہے ان سب ممالک میں مسئلہ ایک جیسا ہے؛ ان ممالک میں ایسی حکومتیں عوام کے سروں پرمسلط ہیں جو عوام کے حقوق کو پامال کررہی ہیں، بحرین کے عوام اپنے قیام اور انقلاب کے ذریعہ کیا چاہتے تھے؟ ان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ ملک میں انتخابات منعقد ہوں تاکہ ہر شخص انتخابات میں اپنی رائے کا استعمال کرسکے ؛ کیا یہ مطالبہ کوئی بڑا مطالبہ ہے؟ کیا یہ کوئی بڑی توقع ہے؟ بحرینی عوام کے مطالبات میں انتخابات کا مطالبہ موجود ہے،لیکن بحرین میں عوام انتخابات میں شرکت کرنے اور ووٹنگ میں حصہ لینے سے محروم ہیں بحرین میں کسی بحرینی کو انتخابات میں شرکت کی اجازت نہیں ہے؛ ان پر ظلم و ستم ہورہا ہے وہ بنیادی حقوق سے محروم ہیں، یہاں مغربی ممالک نے علاقہ میں مداخلت کے لئے ایک جدید مسئلہ پیدا کردیا اور موقع سے استفادہ کرتے ہوئے بحرین کے مسئلہ کو شیعہ اور سنی مسئلہ قرار دینے کی کوشش شروع کردی کیونکہ بحرین کے مظلوم عوام شیعہ ہیں لہذا دنیا میں کسی کو بحرین کے مظلوم شیعوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے! وہ ٹی وی اور ذرائع ابلاغ جو علاقہ کے واقعات پر مبنی خبروں  کو نشر کرتے تھے انھوں نے بھی بحرین کے واقعات کے بارے میں سکوت اختیار کیا، انھوں نے بھی بحرین کے عوام کے قتل عام کو نشر نہیں کیا؛ خلیج فارس علاقہ میں کچھ سیاستدانوں، اورنامہ نگاروں نےایسی بیہودگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بحرین کا مسئلہ شیعہ اور سنی کا مسئلہ ہے اور بحرین کی جنگ شیعہ اور سنی کی جنگ ہے! شیعہ اور سنی کے درمیان کونسی جنگ؟ ایک قوم اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف اعتراض و احتجاج کررہی ہے؛ بحرینی عوام کی تحریک بھی بالکل ایسے ہی ہے جیسے تیونس کے عوام کی تھی، جیسے مصر کے عوام کی تحریک تھی، جیسےلیبیا کے عوام کی تحریک ہے، جیسے یمن کے عوام کی تحریک ہے، ان تحریکوں میں کوئی فرق نہیں ہے، بحرین کے عوام کی تحریک کو شیعہ اور سنی اختلاف میں بدلنے کی سازش امریکی مرضی کے مطابق ہے امریکہ علاقہ میں اپنی مداخلت کا جواز پیدا کرنے کے لئے علاقہ میں موجود اپنے تبلیغاتی اور تشہیراتی ذرائع سے اس سلسلے میں استفادہ کررہا ہے؛ وہ بحرین کے مظلوم عوام تک امدادی وسائل کو بھی روکنے کی کوشش کررہے ہیں اور واقعات کی حقیقت کو بدلنے کی سازش بھی ان کے منصوبہ میں شامل ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایران بحرین کے عوام کی پشتپناہی کیوں کرتا ہے، در حقیقت ایران نے سب کی پشتپناہی کی ہے، ایران 32 سال سے فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت اور پشتپناہی کررہا ہے؛ کون سے ممالک ، کونسی حکومتوں اور کونسی قوموں نے گذشتہ 32 برس میں فلسطینیوں کی ایسی حمایت کی ہے جیسی ایران نے کی ہے؟ کیا فلسطینی قوم شیعہ قوم ہے؟ غزہ کے بارے میں ایرانی عوام نے کتنی تلاش و کوشش کی۔ ہمارے جوان غزہ جانے کے لئے ایئر پورٹ پہنچ گئے تاکہ غزہ پہنچ کرسنی فلسطینیوں کی حمایت کریں اور اسرائیلیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیں، وہ یہ سمجھ رہے تھے  کہ راستہ کھلا ہوا ہے لیکن راستہ بند تھا وہ نہیں جاسکے ، ہم نے بھی کہا نہ جائیں ، ہم نے ان کو جانے سے روک دیا، کیونکہ راستہ مصری صدر حسنی مبارک نے بند کررکھا تھا اور ہمارے جوان راستہ میں ہی کسی مشکل میں نہ پھنس جائیں؛ وہ راستہ نہیں دیتے تھے،  لیکن ہمارے جوانوں نے غزہ کے بارے میں، فلسطین کے بارے میں، مصر کے بارے میں ، تیونس کے بارے میں ، سب جگہ احساسات کا بھر پور اظہار کیا؛ وہ تو شیعہ نہیں تھے، لہذا موضوع شیعہ اور سنی کا موضوع نہیں ہے، البتہ پست فطرت اور شر پسند افراد بحرین کے مسئلہ کو شیعہ اور سنی کے عنوان سے پیش کررہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس جال میں ایسے افراد بھی پھنس گئے جن کے بارے میں انسان تصور کرتا تھا کہ کوئی برے لوگ نہیں ہیں، البتہ جو لوگ اس معاملے میں خیر خواہ  اور نیک جذبات رکھتے ہیں میں ان تاکید  کرتا ہوں کہ آپ اس مسئلہ کو شیعہ اور سنی مسئلہ نہ بنائیں؛ کیونکہ امریکہ کی یہ سب سے بڑي خدمت ہے؛ امت اسلامی کے دشمنوں کی یہ سب سے بڑی خدمت ہے کہ استبداد کے خلاف ایک قوم کی عظیم حرکت کو شیعہ و سنی اختلاف کا رخ دیں؛ شیعہ اور سنی میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

ہم غزہ ، فلسطین، تیونس، لیبیا، مصر ، بحرین اور یمن کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں ہیں، ہم ہر قوم پر ہونے والے ظلم و ستم کی مذمت کرتے ہیں ہم قوموں کی اسلام کے نعرے کے ساتھ حرکت اور آزادی کے لئے جد وجہد کی حمایت کرتے ہیں، امریکیوں کی سب سے زیادہ پستی اس وقت ظاہر ہوئی جب سعودی حکومت کے ٹینک منامہ کی سڑکوں پر آئے تو اس کو مداخلت قرار نہیں دیا، ؛ لیکن جب ہمارے مراجع کرام نے، ہمارے علماء نے، ہمارے اچھے اور نیک لوگوں نے کہا کہ عوام کا قتل عام بند کرو، تووہ بے حیائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ آپ مداخلت کرتے ہیں ، کیا یہ مداخلت ہے؟!اگر ہم ایک ظالم و جابر حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں کہ اپنے عوام کا قتلبند کرو ، عوام پر ظلم نہ کرو، یہ مداخلت ہے؛ لیکن وہ اپنے عوام کو کچلنے کے لئے بحرین کی سڑکوں پردوسری حکومتوں کے ٹینک لے آئیں تو یہ مداخلت نہیں ہے؛ ! علاقہ میں امریکیوں اور اس کے پٹھوؤں کی ذلت و پستی کی یہ انتہا ہے جو اس  قسم کی حرکت کرتے ہیں ، اس قسم کی باتیں بناتے ہیں اور اس قسم کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں، البتہ ہماری نظر میں سعودی حکومت نے زبردست اشتباہ اوربہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے، اسے یہ کام نہیں کرنا چاہیے تھا؛ اس نے خود کو علاقہ میں منفور کردیا ہے، امریکیوں کا یہاں سے کئی ہزار کلو میٹر کا فاصلہ ہے؛ اگر وہ منفور بھی ہوجائیں تو ممکن ہے ان کے لئے اس کی اتنی بڑی اہمیت نہ ہو؛ لیکن سعودی تو اس علاقہ میں رہتے ہیں؛ قومیں اس سے متنفر ہوں گی، اس کے خلاف قوموں میں غیظ و غضب کا جذبہ پیدا ہوگا تو ان کے لئے یہ بہت بڑا اور سنگين نقصان ہے، سعودیوں نے یہ کام کرکےبہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے، جو شخص بھی اس کام کو انجام دے گا وہ بڑی غلطی کا ارتکاب کرےگا۔

جو بات میں یقینی اور قطعی طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی توفیق سے علاقہ میں ایک نئي حرکت شروع ہوگئی ہے، یہ حرکت قوموں کی حرکت ہے؛ یہ حرکت امت اسلامی کی حرکت ہے؛ یہ حرکت اسلامی نعرے کے ساتھ ہے، یہ حرکت اسلامی اہداف کی جانب حرکت ہے؛یہ حرکت قوموں کی بیداری کا مظہر ہے ، اور اللہ تعالی کے وعدے کے مطابق یہ حرکت کامیابی کی منزل تک پہنچ جائے گي، ایرانی قوم سرافراز اور سربلند ہے ، ایرانی قوم کے لئے باعث فخر ہے کہ اس نے ان تحریکوں کی داغ بیل ڈالی ہے اس نے استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کیا ہےآج کی جوان نسل جس نے کام ہاتھ میں لیا ہے اس نے انقلاب کو نہیں دیکھا؛ لیکن اگر وہ اس دور کےانقلابیوں سے زیادہ قوی اور مضبوط نہ ہوں ،کمزور بھی نہیں ہیں۔

پروردگارا ! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہمارے ان عزیز جوانوں کی حفاظت فرما، پروردگارا!  ہماری عزیز قوم پر اپنی رحمت اور اپنا فضل وکرم نازل فرما، پروردگارا! اس قوم کی خدمت کرنے والوں، اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرنے والوں کو روزبروز سرافرازی اور سربلندی عطا فرما، پروردگارا ! حضرت ولی عصر امام زمانہ (عج) کے مقدس قلب کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما، پروردگارا! محمد اور آل محمد کے طفیل ہمارے شہیدوں کی پاک ارواح اور ہمارے بزرگ امام (رہ) کی روح مطہر کو ہم سے شاد وخوشنود فرما، اور جو فیض و رحمت انھیں مرحمت کیا ہے وہ ہمیں بھی نصیب فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

..........................................

1) حاضرین کی طرف سے ( منافق مردہ باد ) کا نعرہ