ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے خطبے پیش کئے

پہلا خطبہ

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد للَّه ربّ العالمين نحمده و نستعينه و نستغفره و نتوكّل عليه و نصلّى و نسلّم    على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه حافظ سرّه و مبلّغ رسالاته‌ بشير رحمته و نذير نقمته سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفىمحمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين المكرّمين‌ سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌. و نصلّى و نسلّم على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين‌.
اوصيكم عباد اللَّه بتقوى اللَّه‌.

میں آپ تمام عزيز بھائیوں اور بہنوں ، نمازگزاروں اور اپنے آپ کو تقوی و پرہیز گاری کی سفارش اور تکید کرتا ہوں ، آج امام علی بن موسی الرضا ابی الحسن ( علیہ آلاف اتحیۃ والسلام ) کی شہادت کا دن ہے۔ ہمارے عوام نے گذشتہ دنوں میں بھی پیغمبراسلام اور نبی مکرم حضرت محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اورآنحضور (ص) کے سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی دردناک و جانسوز شہادت کی یاد کو عقیدت و عزت و احترام کے ساتھ منعقد کیا۔ میں آپ نماز گذار مؤمنین ، پوری ایرانی قوم، تمام شیعوں اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو  تاریخ  کی ان عظیم مصیبتوں ،ان سخت و ناگوار اور درد ناک حوادث پر تعزیت اور تسلیت پیش کرتا ہوں ،اللہ تعالی اپنے پیغمبر (ص) سے ارشاد فرماتا ہے: " يا ايّها النّبىّ اتّق اللَّه " (1)  پیغمبر اسلام (ص) کے وجود مقدس کوبھی تقوی ، تقوی کی رعایت، تقوی پر توجہ کرنے کا حکم ہے اللہ تعالی نے انھیں بھی مخاطب کرکے تقوی کی ہدایت کی ہے، ہمیں خدا کو مد نظر رکھنا چاہیے؛ ہمیں اپنے اعمال ، اپنی رفتار، اپنی گفتار اور حتی اپنے تصورات و افکار پر بھی نظر رکھنی چاہیے؛ تقوی کا معنی و مفہوم یہ ہے، اگر تقوی حاصل ہوگیا تو تمام بند راستے کھل جائيں گے اور وہ قوم جو تقوی سے آراستہ و پیراستہ ہے اللہ تعالی اس کی ہر مرحلے میں نصرت اور مدد کرےگا۔

اس سال عشرہ فجر اور 22 بہمن،  مطابق 11 فروری کے دن ایک خاص قسم کا جوش و جذبہ اور ولولہ پایا جاتا ہے؛ کیونکہ ہمارے عوام کئی سال کی مجاہدت کے بعد مشاہدہ کررہے ہیں کہ ان کی مظلومانہ اور مقتدارنہ آواز کی بازگشت عالم اسلام کے دیگر علاقوں میں قوت اور قدرت کے ساتھ سنائی دے رہی ہے۔

آج شمال افریقہ کے حوادث، مصر کے حالات، تیونس کے حالات ، بعض دیگر ممالک کے حالات، ہمارے لئے اور ایرانی قوم کے لئے  خاص معنی اور مفہوم رکھتے ہیں؛ یہ وہی اسلامی بیداری ہے کہ جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ایرانی عوام کے عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی کے باعث پیدا ہوگی؛ اسلامی بیداری آج پیدا ہورہی ہے؛ لہذآ یہ عشرہ بہت ہی اہم ہے۔

آج میں نماز جمعہ کے پہلے خطبہ میں اپنے انقلاب کے بارے میں ایک اہم مطلب بیان کروں گا، دوسرے خطبے میں بھی مصر اور تیونس کے مختصر مسائل کی جانب اشارہ کروں گا اور اس کے بعد آپ محترم نمازگزاروں کی اجازت سے پورے علاقہ کے عرب مسلمانوں کے لئے عربی زبان میں خطاب کروں گا ؛ انشاء اللہ ۔

وہ بات جو میں اپنے انقلاب اور ایرانی قوم کے اس عظیم اور تاریخی واقعہ کے بارے میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ہمارے لئے سبق آموز ہے وہ ہمارے لئے عبرت آموز ہے- وہ سب سے پہلے دنیا کے تمام حقائق کی ایک تصویر ہے، تاکہ ہم مشاہدہ کریں کہ دنیا کی منہ زور طاقتیں، سامراجی طاقتیں اور تسلط پسند طاقتیں کیا چاہتی تھیں اور کیا ہوگيا؛ وہ کس چیز کے پیچھے تھے اور عملی طور پر کیا رونما ہوگیا؛ اس کے بعد انقلاب کی دو خصوصیات کو بیان کروں گا جو اسی ہمارے دور سے مربوط ہیں۔

خطبہ کے پہلے حصہ میں موجودہ حالت کی تصویراور اس کے انطباق اور موازنہ کے متعلق بیان کروں گا ، کہ دنیا کی منہ زور اور گردن کش طاقتیں کس چیز کے پیچھے تھیں، امریکہ اور یورپ کے چند ممالک جو پہلی اور دوسریک عالمگير جنگ کے فاتح تھے، انھوں نے مشرق وسطی کے لئے ایک ثابت اور پائدار پالیسی اور سیاست وضع کررکھی تھی؛ چونکہ یہ علاقہ فوجی لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے، یہ علاقہ یورپ ، ایشیاء اور افریقہ کو آپس میں ملاتا ہے اور دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر بھی اسی علاقہ میں ہیں اور تیل تمام صنعتی ممالک کی شہ رگ حیات ہے جو دنیا پر مسلط ہیں اور اقوام کے لحاظ سے بھی یہ علاقہ اہم ہے اس علاقہ میں قدیم قومیں آباد ہیں ، یہ علاقہ تاریخی اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے، لہذا انھوں نے اس علاقہ کے لئے ایک ثابت اور پائدار پالیسی اختیار کی، اور وہ پالیسی یہ تھی کہ اس حساس علاقہ میں بعض ممالک کے سیاسی شعبہ ہونے چاہییں جو ان خصوصیات کے حامل ہوں: اول، وہ کمزور اور ضعیف ہوں؛ دوسرے وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوں، ایک دوسرے کے مخالف ہوں، ایک دوسرے کے قریب نہ آئيں، وہ متحد نہ ہوسکیں- ، لہذا آپ نے مشاہدہ کیا، گذشتہ کئی برسوں سے عربی نیشنلزم کی تقویت، ترکی نیشنلزم کی تقویت ، ایرانی نیشنلزم کی تقویت کا سلسلہ جاری رہا، تیسرے، حکام سیاسی لحاظ سے صرف آلہ کار ہوں، مطیع اور فرمانبردار ہوں، مغربی ممالک زیر اثر رہیں، بات سننے اور ماننے والے ہوں؛ چوتھے، اقتصادی لحاظ سے صرف مصرف کرنے والے ہوں ؛ یعنی جوتیل  وہ  ان ممالک سے تقریبا مفت لیتے ہیں ، اسی تیل کی قیمت خرچ کرکے دیگر اشیاء در آمد کریں، اپنے مصرف کی اشیاء  پر خرچ کریں ، تاکہ مغربی ممالک کی فیکٹریوں میں رونق پیدا ہو؛ پانچویں، علمی لحاظ سے پسماندہ ہوں ، انھیں علمی پیشرفت کی اجازت نہ دی جائے، یہ باتیں جو میں نے بیان کی ہیں یہ اصل عنوان ہیں ، در حقیقت ان میں سے ہر ایک کے بارے میں  ایک مفصل کتاب لکھی جاسکتی ہے، وہ کس طرح ہمارے ایران اور بعض دیگر ممالک میں علمی فروغ وتوسعہ اور علمی پیشرفت کو روکتے تھے، اس علاقہ کی قومیں ثقافتی لحاظ سے یورپی ممالک کی پیروکار ہوں ؛ فوجی لحاظ سے پست و ذلیل اور کمزور ہوں؛ اخلاقی لحاظ سے فاسد و فاسق و فاجر ہوں ؛ مذہبی لحاظ سے بھی مکمل طور پر سطحی و فردی مذہب اور بظآہر تشریفاتی مذہب کےعادی ہوں۔ یہ وہ تصویر تھی جو اس علاقہ کے لئےانھوں نے بنا رکھی تھی ، اس کے لئے انھوں نے پالیسیاں مرتب کیں ؛ شاید مغربی منصوبہ سازوں نے اس کے لئے ہزاروں گھنٹے صرف کئے ہوں انھوں نے ان مسائل کے بارے میں مطالعہ کیا انھوں نے غور و فکر سے کام لیا انھوں نے پروگرام مرتب کیا اور منصوبہ بنایا ،  اپنے افراد کو انھوں نے اس علاقہ میں معین و مقرر کیا، اور ان کے ذریعہ انھوں نے اپنے کام انجام دیئے، اس تجزیہ کے ساتھ رضا خان کی رفتار کو صحیح سمجھا جا سکتا ہے اس تحلیل کے ذریعہ محمد رضا کی رفتار کو درست سمجھا جاسکتا ہے، ترکی کے مصطفی کمال اور دوسرے لوگوں کی رفتار کو درک کیا جاسکتا ہے ، یہ ان کا منصوبہ تھا۔ وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے، وہ ان مسائل میں سے بعض میں ، ایک مختصردور کےعلاوہ ، انقلاب اسلامی سے پہلے کامیاب ہوئے ، صرف ایک مختصر دور میں مثلا مصر میں کچھ سالوں تک ایک قومی حکومت وجود میں آئی، ایران میں ایک دوسرے طریقہ سے، اور دیگر ممالک میں کچھ دوسرے طریقوں سے؛ لکن عام طور پر جب ان تمام شعبوں پر ہم نظر دوڑاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ انقلاب سے قبل انھیں پیشرفت اور کامیابی ملی ہے، لیکن اچانک ایک عظیم وا قع ہ ، ایک عظيم  دھماکہ ہوا ، جس نے ان کے تمام منصوبوں کو درہم و برہم کردیا۔ ایرانی قوم میں حضرت امام خمینی (رہ) کی صورت میں ایک عالم ، ممتاز، حکیم ، فقیہ، مجاہد ، شجاع، دلیر ، خطرہ برداشت کرنے والا ، نافذالکلمہ انسان ظاہر ہوا کہ در حقیقت اس عظیم انسان کا ظہور، اس مجاہد انسان کا حضوراور اس بزرگ انسان کی تربیت ، سب الہی کام تھا،یہ الہی ارادہ تھا جس کی بنا پر ایران کا عظیم انقلاب رونما ہوا، ایرانی عوام بھی آمادہ و تیار تھے، انھوں نے استقبال کیا، قبول کیا ، اور خطرات کا مقابلہ کیا ، میدان میں وارد ہوگئے ، اپنی جانوں کو قربان کیا، اپنے مال کو نثارکیا ، ایرانی عوام نے اچھا امتحان دیا ؛ لہذآ انقلاب اسلامی وجود میں آگیا، دشمن کے تمام حساب و کتاب درہم و برہم ہوگئے، اس کے اندازے خراب نکل گئے ، ان کے منصوبوں میں خلل ایجاد ہوگیا ، ایران میں اسلامی انقلاب قوی و مضبوط ظاہر ہوا، اور قوت کے ساتھ آگے بڑھا، یعنی ایسا نہیں تھا کہ پہلے ، دوسرے یا تیسرے سال جوش و ولولہ آئے اور بعد میں تمام مسائل ختم  ہوجائیں؛ ایسا نہیں ہوا، بلکہ اس کا سلسلہ آگے بڑھا ؛ اور میں انقلاب کے استمرار اور پیشرفت کے بارے میں آگے چل کر مزید باتیں عرض کروں گا۔

حضرت امام (رہ) پہاڑ کی مانند ڈٹ گئے ، اور قوم بھی امام (رہ) کے پیچھے پہاڑ کی مانند پشتپناہ بن گئی؛ دشمن بھی ایک نہیں تھا بلکہ دشمن کا ایک بہت بڑآ محاذ تھا۔ انھوں نے ہر ممکن تلاش و کوشش کی ؛ جو کام بھی ان سے ہوا وہ انھوں نے انجام دیا؛ سڑکوں پر لڑائیوں سے لیکر قومی لڑائیوں تک ، فوجی کودتا تک، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ تک، اقتصادی پابندیوں تک ، گذشتہ 32 سال تک نفسیاتی جنگ تک جو کچھ بھی وہ کرسکتے تھے انھوں نے کسر باقی نہیں چھوڑی، ہر حربہ ایران کے خلاف استعمال کیا، گذشتہ 32 سال سے ایرانی قوم کے خلاف ، اسلامی انقلاب کے خلاف  اور حضرت امام (رہ) کے خلاف نفسیاتی جنگ کا سلسلہ جاری ہے: انھوں جھوٹ کا سہارا لیا، الزام عائد کیا، پروپیگنڈہ کیا، اختلاف ڈالنے کی تلاش و کوشش کی، انھوں نے ملک کے اندر راستوں کو منحرف کرنے کی سعی و کوشش کی۔

وہ اہداف جن کا وہ پیچھا کرتے تھے ان میں سب سے پہلے اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کا خاتمہ تھا، ان کا پہلا مقصد اسلامی نظام کو جڑوں سے اکھیڑنا تھا اگر اس میں انھیں کامیابی نہ ملے تو ان کے بعد ان کی یہ کوشش تھی کہ خود انقلاب کو تہہ و بالا اور اس کا استحالہ کردیں ؛یعنی انقلاب کی صورت باقی رہے ، لیکن انقلاب کا باطن، انقلاب کی شکل و صورت، انقلاب کی سیرت  اور انقلاب کی روح کو ختم کردیں ، اس سلسلے میں انھوں نے بہت زیادہ تلاش و کوشش کی؛ اور اس سلسلے میں ان کا آخری ڈرامہ  اور آخری فتنہ 1388 ہجری شمسی مطابق 2009ء میں سامنے آیا، حقیقت میں ایک تلاش و کوشش تھی ، کچھ لوگ ملک کے اندر جاہ طلبی حب نفس اور اس قسم کے امراض کی بنا پر ان سازشوں کا شکار ہوگئے۔ میں متعدد بار اور اکثر کہا ہے؛ کہ اس فتنہ کے اصل محرک اور منصوبہ ساز ملک کی سرحدوں سے باہر تھے اور آج بھی ہیں ، ملک کے اندر بعض عناصر نے ان کو تعاون پیش کیا ؛ بعض نے دانستہ طور پر تعاون کیا اور بعض نے غیر دانستہ طور پر تعاون کیا۔ یہ بھی دوسرا ہدف۔

تیسرا ہدف بھی یہ تھا اور ہے کہ ایسا کام کریں کہ اگر اسلامی نظام باقی رہتا ہے تو ایسے کمزور اور ضعیف النفس  افراد سے استفادہ کریں جن کے اندار نفوذ پیدا کرسکیں اور ایسے افراد کو ملک کے مسائل میں اصلی افراد قراردیں آخر کار ایسا نظام وجود میں آجائے اور جاری رہے جس کے پاس کافی قدرت موجود نہ ہو، جو ضعیف ہو، جو مطیع و فرمانبردار ہو، اہم بات یہ ہے کہ وہ وابستہ ہو، مطیع  ہو  ، امریکہ کے مقابلے میں استقامت نہ دکھائے، امریکہ کا مقابلہ نہ کرے،  دشمن کےیہ اہداف ہیں۔

آج تک دشمن کو ان تمام  اور مختلف و گوناگوں مراحل میں شکست ہوئی ہے وہ آج تک کچھ نہیں کرسکے، البتہ انھوں نے بہت زيادہ تلاش و کوشش کی، انھوں نے مختلف کاموں کا پیچھا کیا، اپنے خطاب کے دوران جن کے متعلق میں اشارہ کروں گا۔ انھوں نے اپنی تلاش و کوشش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، لیکن انھیں اس سلسلے میں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی؛ کیونکہ عوام بیدار تھے، ہمارے معاشرے میں اچھے اور ممتاز افراد موجود ہیں، ہماری قوم اچھی قوم ہے ہمارے حکام اچھے حکام ہیں۔ الحمد للہ آج تک دشمن اپنے اہداف میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے، دشمن اپنے اہداف کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا ہے انقلاب اسلامی اپنے راستہ پر گامزن ہے اور آگے کی سمت رواں دواں ہے۔

انقلاب میں کون سا واقعہ رونما ہوا؟ اس پر غور کیجئے ، یہ چیزيں اہم ہیں، ایران میں جو انقلاب آیا ہے اس نے کچھ تبدیلیاں ایجاد کی ہیں جو عمیق ،گہری اوراہم تبدیلیاں ہیں،جو بنیادی اور اساسی تبدیلیاں ہیں،ان تبدیلیوں کی بنیاد پر معاشرے کو آگے بڑھایا جاسکتاہے اور وسیع پیمانے پر تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں یہ اصلی ستون مضبوط اور مستحکم رکھے گئے ہیں۔

میں ان اہم تبدیلیوں میں سے کچھ موارد کی طرف اشارہ کرتا ہوں، البتہ ان کے بارے میں آپ سبھی جانتے ہیں، ہم سب جانتے ہیں، یہ ہمارے سامنے ہیں قرآن مجید میں جس طرح اللہ تعالی ہمیں خورشید کی طرف متوجہ کرتا ہے" والشّمس و ضحيها " (2) سورج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے لیکن اللہ تعالی سورج کی قسم کھاتا ہے تاکہ ہم توجہ پیدا کرسکیں ، کہ یہ عظیم موجود ہے ، یہ عظیم مخلوق ہے جو بہت بڑي عظمت کی حامل ہے ہمیں بھی اپنے اطراف میں موجود عظیم موجودات اور مخلوقات پر غور اور توجہ کرنی چاہیے؛ لہذا ان لحاظ سے ان کے بارے میں کہنا ضروری ہے تاکہ ہم توجہ پیدا کریں۔

انقلاب سے پہلے ملک پر ایک ایسا نظام مسلط تھا جو اسلام دشمن اور اسلام مخالف نظام تھا، ان کا ظواہر سے کوئی خاص کام نہیں تھا لیکن وہ حقیقت میں لوگوں کو دین اور ایمان سے دور کررہے تھے، اس سلسلے میں بھی میرے ذہن میں بہت سے واقعات اور بہت سے شواہد موجود ہیں، لیکن ان کو بیان کرنے کا موقع نہیں ہے، اسلام کامیاب ہوا اور اس نے 180 درجہ حالات کو تبدیل کرکے اسلام کو محور قراردیا، اسلام کو مدیریت کا محور قراردیا؛ ملکی حکام و عہدیداروں کے عمل کا معیار اور ملکی قوانین کے قبول اور رد ہونے کا معیار ، اسلامی قوانین اور احکام پر استوار ہوگیا۔

انقلاب سے قبل ملک سیاسی لحاظ سے وابستہ تھا، یعنی حکومت ، خود محمد رضا اور اس کے تمام ادارے امریکہ کے تابع ، مطیع اور فرمانبردار تھے؛ وہ امریکہ کے اشارے پر کام کرتے تھے اس کے اشارے کے منتظر رہتے تھے اور بھی بہت سے شواہد موجود ہیں، یہاں سے ایک آدمی– ڈاکٹر امینی-

 امریکہ جاتا ہے تاکہ ایران میں وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہونے کے لئےامریکیوں کو راضی کرلے،واپس آیا اور وزير اعظم بن گیا! شاہ اس کا مخالف تھا ایک دو سال کے بعد شاہ امریکہ پہنچ گیا تاکہ امریکی کو وزیر اعظم کے برطرف کرنے پر راضی کرلے، شاہ امریکہ سے واپس آیا اور اس وزارت عظمی کے عہدے سے برطرف کردیا!مملکت کا یہ حال ہوگيا تھا کہ وزیراعظم بننے کے لئے ، شاہ بننے کے لئے ، ملک کا سربراہ بننے کے لئے امریکہ کی مرضی اور اس کی موافقت ضروری تھی! بہت سے مسائل کے لئے شاہ امریکی اور برطانوی سفراء کو شاہی محل میں دعوت کرتا تھا تاکہ جو فیصلہ جو وہ کرنا چاہتا تھا اسے ان کے سامنے پیش کرے! اگر وہ مخالف ہوتے ، تو وہ فیصلہ عملی نہیں ہوتا تھا، سیاسی وابستگی اس حد تک تھی،  کہ وہ امریکہ کے مطیع اور فرمانبردار تھے، امریکی دور سے پہلے وہ برطانیہ کے مطیع تھے، انگریز خود رضا خاں کو بر سر اقتدارلائے تھے،جب انھوں نے دیکھا کہ اب وہ ان کے لئے مفید نہیں ہے تو انھوں نے خود اسے حکومت سے برطرف کردیا، ملک سے باہر نکال دیا، اس کی جگہ اس کے بیٹے کو بر سر اقتدار لائے بیٹا انقلاب سے پہلے تک اقتدار میں رہا۔

انقلاب اسلامی آیا تو اس نے ملک کو مکمل طور پر سیاسی استقلال عطا کیا، یعنی آج اس بڑی اور وسیع دنیا میں ، کوئی بھی بڑی طاقت و قدرت نہیں جو یہ دعوی کرے کہ اس کے ارادہ یا اس کی مرضی کا  ایرانی حکام یا ایرانی قوم پر معمولی سا اثر بھی ہے۔ یہ نکتہ بالخصوص ایرانی عوام کی استقامت، استقلال، سیاسی عزت، دیگر قوموں کے لئے زیادہ پسندیدہ اور جذاب ہے، یہ جو آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ دیگر قومیں ، ایران کی عظیم اور بزرگ قوم کا احترام کرتی ہیں؛ اس کا سب سے اہم اور بڑا حصہ اسی سیاسی استقلال سے متعلق ہے۔

انقلاب سے پہلے سلطنتی حکومت تھی،اس کے مقابلے میں آج عوامی اور جمہوری نظام ہے، سلطنتی حکومت میں عوام کا کوئی نقش وکردار نہیں جبکہ جمہوری حکومت میں عوام ہی سب کچھ ہیں، اسلامی انقلاب سے قبل حکومت موروثی تھی؛ ایک مرتا تھا تو کسی دوسرے کو اپنی جگہ معین کر جاتا تھا،یعنی عوام کا اس میں کوئي کردار نہیں تھا؛ عوام چاہیں یا نہ چاہیں ، انہیں مجبوری میں قبول کرنا ہی ہوتا تھا۔ اسلامی انقلاب کی برکت سے اسلامی جمہوری نظام میں حکومت عوام کی منتخب ہے؛ حکومت کو عوام منتخب کرتے ہیں۔ عوام کی پسند، عوام کا انتخاب، عوام کا ارادہ فیصلہ کن ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلےحکومت، سیکورٹی ڈکٹیٹر شپ، سختگير اور سیاہ کارناموں پر استوار تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پاکستان سے میرا ایک دوست میرے پاس آيا، وہ خفیہ طریقے سے چھپ کر مشہد آيا تھا۔ اس نے نقل کیاکہ میں فلاں بیان اپنے دوستوں کے ساتھ پارک میں پڑھا ۔ میں نے تعجب کیا، پارک میں؟! بیان؟! کیا یہ بات ممکن ہے؟! یہ بات ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ کسی کی جیب میں اس طرح کا کوئي بیان ہو جس میں اس وقت کی حکومت پر تنقید کی گئی ہو اور وہ گلی کوچوں میں گھوم سکتا ہو؟ یہ اس وقت کی آمرانہ اور سکیورٹی ڈکٹیٹرحکومت کی صورتحال تھی۔ انقلاب اسلامی آیا اور اس نے آزاد ماحول، تنقید کے ماحول کو، اصلاح کے ماحول کو، نصیحت کے ماحول کو حتی مخالفت اور اعتراض کے ماحول کو عوام کے لیے فراہم کر دیا۔ گذشتہ بتیس برسوں میں ایسا ہی رہا ہے، حتی انقلاب کے ابتدائی برسوں میں بھی ایسا ہی رہا ہے۔
اسلامی انقلاب سے قبل ملک علم و سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پوری طرح سے مغرب کا دست نگر اور محتاج تھا۔ میں نے متعدد بار کہا ہے کہ ہمارے فوجی طیاروں کے بعض آلات اور پرزے جو خراب ہو گئے تھے، فرسودہ ہو گئے تھے، ان کی مرمت کی جانی تھی تو وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ ایرانی فضائیہ کےانجینئر اس کو کھولیں اور دیکھیں کہ کیا خرابی ہے؟ اس کی مرمت کرنے کے بارے میں سوچنے کی تو بات ہی الگ ہے۔ اس پرزے کو ہوائي جہاز میں رکھ کر امریکہ لے جاتے تھے اور اس کی جگہ ایک دوسرا پرزہ لایا جاتا، یا اگر اس کی مرمت کرنی ہوتی تو وہیں اس کی مرمت کی جاتی تھی۔ یہاں جو صنعت تھی وہ کسی بھی قسم کی جدت عمل سے عاری، صرف کل پرزوں کو جوڑنے اور اسمبلنگ کی صنعت تھی۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد علمی و سائنسی سطح پر خود اعتمادی پیدا ہوئي، قومی سطح پر خود اعتمادی وجود میں آئي۔ مختلف شعبوں میں اتنی کثیر تعداد میں دانشور اور سائنسداں اور وہ بھی بڑے عظیم اور اہم دانشور اور سائنسداں دیکھنے میں آئے۔ آج ہمارے ملک میں ایسے ایسے بے نظیر اور بے مثال دانشور اور سائنسداں موجود ہیں جو پوری دنیا میں گنے چنے افراد میں شامل ہیں، دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ ہمارے سائنسداں اور دانشور آگے بڑھے اور ان میں بھی اکثریت نوجوان سائنسدانوں کی تھی۔
اسلامی انقلاب سے قبل عالمی بلکہ علاقائی مسائل میں بھی ایران کا کوئي نقش و کردار نہیں تھا، ایران کو ایک حقیر ملک بنادیا گياتھا؛ ایران علاقائی مسائل پر کسی بھی طرح سے اثر انداز نہیں ہو سکتا تھا۔ اسلامی انقلاب کے بعد دنیا کی اقوام کی نظروں میں ایرانی قوم کی عزت و عظمت اور علاقائی مسائل میں اس کے مؤثر کردار نے دشمنوں کو مبہوت کر دیا؛ دشمن اس بات کا اعتراف اور اقرار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ آج آپ ملاحظہ کیجئے؛ ان سائٹوں کو جن میں غیر ملکی خبروں کو نشر کیاجاتا ہے، ہمیشہ ایران کے نقش و کردار، ایران کی طاقت اور علاقائی مسائل میں ایران کی موجودگی کا ذکر کیا جاتا ہے، اگر چہ یہ ذکر معاندانہ محرکات کے تحت ہی کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی  دشمن کےاعتراف کا مظہر ہے۔
اسلامی انقلاب سے پہلے، ثقافتی میدانوں میں ہم پوری طرح سے اندھی تقلید کر نے پر مجبورتھے؛ لیکن اسلامی انقلاب کے بعد ثقافتی یلغار کو ایک خطرے کے طور پر پہچانا گیا، اس قسم کے  ابواب اورعنوانات بہت زیادہ ہیں، یہ سب بہت اہم اور اساسی امور ہیں۔
جب کسی ملک میں اس قسم کی بنیادیں رکھ دی جائیں تو پھر اس ملک کی قوم امید رکھ سکتی ہے کہ ان بنیادوں پر ایک نئے اور عظیم تمدن کی عمارت قائم کی جا سکتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک خصوصیت کسی نہ کسی شکل میں اپنی طرف توجہ مبذول کراتی ہے۔ دوسری اقوام دیکھتی ہیں، مائل ہوتی ہیں، سراہتی ہیں، البتہ ان میں سب سے زیادہ اہم وہی سیاسی خودمختاری ، دشمنوں اور منہ زور طاقتوں کے مقابلے میں استقامت اور پائداری ہے۔
میں اس مقام پر ایک اعلی مغربی عہدیدار کے حوالے سے ایک جملہ نقل کرنا چاہتا ہوں۔ میری یہ عادت اور روش نہیں ہے کہ میں ان مغربی سیاستدانوں اور شخصیات کے حوالے سے کوئي بات       پیش کروں؛ تاہم یہ جملہ ایک دلچسپ جملہ ہے۔ وہ کہتا ہے: دو چیزيں ایسی ہیں جو مسلمانوں کے درمیان اگر ایک ایک کرکے سب تک پہنچ جائيں اور مختلف مسلم اقوام ان سے آگاہ ہو جائیں تو مغرب کے تمام بنیادی اصول درہم و برہم اور باطل ہو جائیں گے۔ یہ دو چیزیں کیا ہیں؟ یہ مغربی مفکر کہتا ہے : ایک اسلامی جمہوریہ ایران کا بنیادی آئین ہے؛ یہ آئین ایسا آئین ہے جو  ایک پیشرفتہ و جمہوری و عوامی  حکومت کے ساتھ مذہبی اور دینی حکومت کو بھی دنیا کے تمام مسلمانوں کی نظروں میں ممکن بناتا ہے۔ اس آئين ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایسی حکومت ہو سکتی ہے جو ترقی پسند ہو، ماڈرن ہو، پیشرفتہ ہو اور اسی کے ساتھ پوری طرح سے مذہبی اور دینی بھی ہو۔ اسلامی آئین اس کی تصویر کشی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسا کرنا اسلامی حکومت میں ممکن ہے۔ یہ ہوئي پہلی چیز۔ دوسری چیز اسلامی جمہوریہ ایران کی علمی ،سائنسی، اقتصادی، سیاسی اور فوجی شعبوں کامیابیوں کا ریکارڈ ہے جو اگر مسلمانوں کے ہاتھوں تک پہنچ گيا تو وہ یہ سوچیں گے کہ وہ ممکن چیز، عملی جامہ پہن چکی ہے۔ وہ کہتا ہے: اگر مسلمان اقوام اس امکان اور ایران میں اس کے کسی حد تک عملی جامہ پہننے کے بارے میں مطلع ہو جائيں اور اس نظام کی تیاری کو اپنے مدنظر رکھیں تو پھر انقلابی تحریکوں کے سلسلے کو نہیں روکا جا سکے گا۔
آج یہ بات عملی جامہ پہن چکی ہے۔ البتہ یہ کام آج نہیں ہوا ہے؛ بلکہ اسے تیس سال بیت چکے ہیں۔ آہستہ ، آہستہ اور بتدریج کوئي بات اقوام کے ذہن میں اترتی ہے، پروان چڑھتی ہے، مضبوط و مستحکم ہوتی ہے، اور پھر اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ آپ آج شمالی افریقہ اور دیگر علاقوں میں دیکھ رہے ہیں۔
البتہ خود مغرب والوں نے سیاسی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے؛ ان کی سیاسی غلطیوں نےبھی اسلامی جمہوریہ ایران کی مدد کی ، ملاحظہ کیجئے، اسی ایٹمی مسئلے میں مغرب والوں نے غلطی کی۔ انہوں نے ایران کے ایٹمی مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، ہنگامہ برپا کیا ، شورمچایا اور دباؤ ڈالا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی مسئلے سے بالکل دست بردار ہوجائے ، پیچھے ہٹ جائے، پسپا ہوجائے۔ وہ اس سلسلے میں گذشتہ  سات برسوں سے کوشش میں لگے ہوئے ہیں ، وہ سات برسوں سے اس سلسلے میں جد وجہد کر رہے ہیں، عالمی برادری کے لئےدو باتیں روشن اور واضح ہو گئيں: ایک یہ کہ ایران نے ایٹمی شعبے میں غیر متوقع طور پرپیشرفت حاصل کرلی ہے۔دوسرے یہ کہ ایران اتنے زیادہ دباؤ کے سامنے بھی استقامت و پائداری کا مظاہرہ کررہاہے اور پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھ رہاہے۔ عالمی سامراجی طاقتوں کا یہ دباؤ ایرانی قوم کے فائدے میں رہا۔ اب ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ، یورپ، ان کے حواری اور ان کے آلہ کار اپنے تمام تر دباؤ کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران سے اپنی بات نہیں منوا سکے اورایران کو پسپاکرنے کے بجائے خود پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہ بات خود ایرانی قوم کے دشمنوں کی وجہ سے سامنے آئی؛ یعنی انھوں نےایرانی قوم کی پیشرفت و ترقی کے بارے میں خود دنیا کو تعارف کرایا۔
انھوں نے دوسرے معاملات میں بھی ایسا ہی کیا ہے، انہوں نے پیٹرول پر پابندی عائد کرنے کے سلسلے میں بہت زيادہ ہنگامہ اور شورمچانا شروع کیا ، انھوں نے کہاکہ ہم پیٹرول پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایران کو پیٹرول فراہم نہ کیا جا سکے۔ ایران پیٹرول درآمد کرنے والے ملکوں میں شامل تھا اور اب بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پیٹرول کی برآمد کو روکنا چاہتے ہیں، بڑا شوروغل مچایا اور ہنگامہ کیا۔ ان کے تجزیہ نگاروں نے پیشنگوئي کی کہ پیٹرول پر پابندی عائد کرنے کی وجہ سے ایران میں ہنگامہ مچ جائے گا اور لوگ ایسا کریں گے، ویسا کریں گے۔ یہ دھمکی اس بات کا سبب بن گئی  کہ ایرانی حکام، پیٹرول کی پیداوار میں اضافے کے بارے میں سوچنے لگے۔ آج میرے پاس جو رپورٹ ہے اس کے مطابق بائیس بہمن (مطابق گيارہ فروری)  تک ایران پیٹرول کی درآمد سے پوری طرح بے نیاز ہو جائے گا۔ مجھے جو رپورٹ دی گئي ہے اس کے مطابق اس کے بعد ہم پیٹرول کو برآمد بھی کر سکیں گے؛ اور اس کا حکم دے بھی دیا گيا ہے، تو ان کا یہ ہنگامہ اور شوروغل، ایرانی قوم کے حق میں مفید ثابت ہوا۔ عالمی مبصرین نے بھی اس بات کو ملاحظہ کیا۔ تمام معاملوں میں ایسا ہی ہے۔ جنگ کے دوران ہتھیاروں پر پابندی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا، شدت پسند اسلامی گروہوں کو وجود میں لانے کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ان لوگوں نے ہمارے پڑوس میں ایک شدت پسند اسلامی گروہ کو تشکیل دیا، اور یہ کام اسلامی جمہوریہ ایران کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گيا تھا۔ اب وہ گروہ خود انہی کے لئے وبال جان بن گیا ہے، وہ اس گروہ کو روک نہیں پا رہے ہیں، ان کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا ہے کہ کس طرح اس کا مقابلہ کیا جائے؟ مذہبی اختلافات پیدا کرنے کے معاملے میں بھی ایسا ہی تھا۔ گذشتہ سال ملک میں جو فتنہ پیدا کیا گيا، اس میں بھی ایسا ہی تھا۔ ان لوگوں نے  بحران پیدا کرنے اورشوروغل برپا کرنے کی کوشش کی، ہنگامہ مچایا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ ہو گیا، اختلافات پیدا ہو گئے ہیں، ایسا ہو گيا ہے، ویسا ہو گيا ہے۔ بعد میں انہوں نے دیکھا تو انھیں معلوم ہوگیاکہ ایرانی قوم کامیاب رہی ہے۔ گذشتہ سال نو دی (مطاب‍ق تیس دسمبر)  اور بائيس بہمن (مطابق گیارہ فروری) ، کے ایام صحیح معنی میں ایام اللہ تھے۔ لوگوں کےدل اللہ تعالی  کے ہاتھ میں تھے، خداوند متعال ان دلوں کو میدان میں لے آيا اور ایرانی قوم نے اپنی عظمت کو دنیا کے سامنے پیش کردیا، دشمن جو کام بھی کرتا ہے، وہ کام اسی کے خلاف ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔  یہ ایک حقیقت ہے جو آج دنیا  کے سامنے موجود ہے۔ دشمن کیا چاہتے تھے اور کیاہوا!
اور اب میں اپنی گفتگو کا وہ دوسرا حصہ پیش کرنا چاہتا ہوں،جس کے بارے میں، میں نے پہلے عرض کیا تھا اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی بات یا چیز کی اہمیت کو جاننا چاہیں یا اس کی کامیابی کے بارے میں معلوم کرنا چاہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ چیز یا بات نمونہ اور آئیڈیل بننے میں کتنی کامیاب رہی ہے اور اسے کس قدر نمونہ  عمل بنایا گيا ہے، اس نے کتنے ثبات و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنی باتوں پر کس حد تک قائم رہی ہے۔ انقلاب بھی اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ اگر کوئي انقلاب، دوسروں کے ذہن اور عمل پر اثرانداز ہونا چاہے اور نمونہ بننا چاہے تو اس امر کے لئے اس میں کچھ خصوصیات ہونی چاہییں ۔ ان میں سب سے اہم خصوصیت، یہی ثبات و استحکام اور استقامت ہے۔ اگر یہ ہو گیا تو انقلاب دوسروں کے لیے نمونہ عمل بن جائے گا ورنہ جو بجلیاں ایک بار چمک کر خاموش ہو جائیں، وہ بہت زیادہ آئیڈیل نہیں بن سکتیں، دوسروں کو اپنی پیروی کی ترغیب نہیں دلا سکتیں۔ ہمارا انقلاب ایسا رہا ہے۔ ہمارا انقلاب دوسروں کے لئے نمونہ بننے اور انہیں الہام عطا کرنے میں کامیاب رہا ہے؛ اور یہ ان اصولوں اور بنیادوں پر استقامت، پائمردی اور ثبات کا نتیجہ ہےجن کا اعلان حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ۔
اس انقلاب نے پائداری و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ میں اس سلسلے میں بھی بعض نمونے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ایک نمونہ اس کا اسلامی ہونا ہے۔ حضرت امام خمینی (رہ)نے ابتدا ہی سے اس بات پر تاکید کی تھی کہ ہمارا انقلاب اسلامی ہے اور اسلام کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس بات پردنیا میں بہت زیادہ ہنگامہ کیا گياا؛  دشمنوں نےکہا کہ انقلاب کا اسلامی ہونا، جمہوریت کے مطابق نہیں ہے، اسلامی ہونا رجعت پرستی ہے، اسلامی ہونا پسماندگی ہے، اسلام کے احکام کو نافذ کرنا ممکن نہیں ہے، وغیرہ ،وغیرہ، وغیرہ۔ کچھ لوگوں نے دشمنوں کی باتوں کوملک کے اندر بھی منعکس کیا ، خوب پھیلایا؛ کتابیں لکھیں؛ مضامین لکھے، افواہیں پھیلائيں تاکہ اسلامی جمہوریہ کو اسلام پر پابند رہنے سے  پیچھے ہٹنے اور پسپائي اختیار کرنے پر مجبور کر دیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے استقامت دکھائي اور ان کے پروپیگنڈوں اورشوروغل کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے، تسلیم نہیں ہوا، جی ہاں، ہم اسلامی ہیں، ہمیں اسلامی ہونے پر فخر ہے اور ہم یہ ثابت کر دیں گے کہ انسان کی نجات کا راستہ اسلام ہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے اس کا اعلان بلند آواز میں پوری دنیا کے سامنے پیش کیا۔
آج آپ بتیس برسوں کے بعد ہمارے معاشرے کو دیکھیں اور ملاحظہ کریں؛  کہ اگر رفتار اور طرزعمل، پہلے دن سے زیادہ اسلامی نہ ہو تو کم سے کم اس انقلاب کی کامیابی کے پہلے دن کی مانند ضرور ہے۔ جن نوجوانوں نے امام خمینی(رہ)  کو نہیں دیکھا ہے، جنگ کے ایام کو نہیں دیکھا ہے، انقلاب کے ایام کے بارے میں انہیں کوئي چیز یاد نہیں ہے، اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں انہی نوجوانوں کی پابندی، ہم میں سے بعض بوڑھوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے؛ وہ زیادہ مضبوط مستحکم ہیں، ملک کے حکام کو اسلامی ہونے پر فخر ہے۔ البتہ ان بتیس برسوں میں بہت زیادہ کوششیں کی گئيں اور حکومت میں بھی ایسے لوگ تھے جنہوں نے کوشش کی کہ راستوں میں انحراف اور کجی پیدا کر دیں اور بتدریج انہیں دور کر دیں تاہم وہ ایسا نہیں کر سکے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اصولوں پر، اسلامی ہونے کے اصول پر استقامت و پائداری کے ساتھ قائم ہے، یہ بھی ایک اہم نمونہ ہے۔
ایک دوسرا نمونہ، عوامی جمہوریت کا نمونہ ہے۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدا ہی سے اعلان کر دیا تھا کہ لوگوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے؛ چاہے انتخاب خود اسلامی جمہوریہ کے کے سلسلے میں ہو، چاہے انتخاب اسلامی قانون کی تدوین کے سلسلے میں ہو، چاہے انتخاب اس قانون کو قبول کرنے کے سلسلے میں ہو جو خـبرگان کونسل میں منظور ہو چکا تھا، چاہے صدر کے انتخاب کا معاملہ ہو اور چاہے پارلیمنٹ کے انتخابات ہوں۔ امام خمینی (رہ) نے استقامت دکھائي ۔ آپ ملاحظہ کریں، اسلامی انقلاب کی کامیابی کو بتیس سال گزر رہے ہیں اور انقلاب اسلامی کے دوران  جو انتخابات اورریفرنڈم  ہوئے ہیں ان کے حساب سے دیکھا جائے تو ملک میں عوام نے بتیس بار اپنی موجودگی کا اظہار کیا ہے۔ یعنی متوسط طور پر لوگوں نے ہر سال ایک بارانتخابات میں حصہ لیا ہے، انتخاب میں شرکت کی ہے۔ لوگوں کا انتخاب بہت اہم ہے۔ جنگ کے دوران، تہران پر بموں کی بارش ہو رہی تھی لیکن انتخابات نہیں رکے۔ جنگ کے دوران ان شہروں میں، جہاں صدام حکومت کی جانب سے میزائلوں کی بارش ہو رہی تھی، انتخابات معطل نہیں ہوئے۔ ایک  دور میں پارلیمنٹ کےانتخابات مؤخر کرانے کے لئے دبآؤ ڈالا گیا  تاکہ سیاسی وجوہات کی وجہ سے انتخابات کو مؤخر کر دیا جائے، تاہم اس میں بھی انھیں کامیابی نہیں ملی ، آج تک اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابات اور عوامی موجودگی میں ایک دن کی تاخیر بھی نہیں ہوئي ہے؛ یہ ہے عوامی جمہوریت۔ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے پہلے ہی دن واضح کردیا اور اسلامی جمہوریہ ایران اس جمہوریت کے سلسلے میں ثابت قدمی کے ساتھ کھڑا ہو گیا، امام خمینی(رہ) نے جمہوریت سے ہٹنے کی بات کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ آج ملک کے حکام، خبرگان کونسل کے ارکان سے لے کر جو رہبر انقلاب اسلامی کو منصوب اور معزول کرتے ہیں، صدر مملکت تک، پارلیمنٹ تک اور بلدیاتی کونسلوں تک سب کے سب عوام کے منتخب کردہ نمائندے ہیں۔ مختلف قسم کے گروہ  اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ ایسا نہیں رہا کہ کوئي یہ کہے کہ صرف ایک ہی پارٹی ہے؛ نہیں، ابتدا سے لے کر اب تک؛ جتنے بھی صدر منتخب ہوئے ہیں ان میں سے ہر ایک کے کسی نہ کسی شکل میں اپنے سیاسی نظریات تھے؛ تاہم سب کے سب عوام کے ووٹوں سے اقتدار تک پہنچے۔
اس کے بعد کا نمونہ، سماجی انصاف کا نمونہ ہے۔ امام خمینی(رہ) نے آغاز میں ہی انصاف کا اعلان کیا۔ سماجی انصاف ان تمام کاموں میں زیادہ دشوار ہے؛ میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جمہوریت کے تحفظ سے لے کر اسلامی جمہوریہ میں ہونے والے تمام کاموں کی نسبت سماجی انصاف کو قائم کرنا زیادہ سخت کام ہے؛ بہت زیادہ دشوار کام ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ہم سماجی انصاف کو مکمل طور پر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ نہیں، ابھی منزل کافی دور ہے؛ تاہم سماجی انصاف کی جانب بڑھنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے، بلکہ اس عمل کا سلسلہ جاری ہے اور روز بروز منزل کی جانب بڑھنے کی رفتار تیزتر ہوتی جا رہی ہے۔ آج سماجی انصاف کی جانب بڑھنے کا عمل گذشتہ برسوں کی نسبت کافی تیز ہے، ماضی کی حکومتوں سے زیادہ تیز ہے۔ سماجی انصاف کے اہم نمونوں میں سے ایک نمونہ، ملک میں مواقع فراہم کرنے کی متناسب تقسیم ہے۔ سماجی انصاف کی حقیقت سے غافل نظاموں میں، کسی خاص طبقے کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے، کچھ خاص علاقوں کو زیادہ مدنظر رکھا جاتا ہے؛ تاہم اسلامی جمہوریہ میں ہم جتنا بھی آگے بڑھتے جائيں، آج انقلاب کو کامیاب ہوئے بتیس برس گزر چکے ہیں، یہ بات زیادہ مستحکم دکھائي دیتی ہے کہ دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، دور دراز کے شہروں پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ دیہی علاقوں میں اتنے زیادہ گھروں کی تعمیر، ملک کے دور دراز کے شہروں اور دیہاتوں کی جانب سڑکوں کی اتنی زیادہ تعمیر، اتنے مواصلاتی راستے، مختلف قسم کے مواصلاتی ذرائع، بجلی، مناسب پانی، ٹیلی فون، زندگی کے وسائل، ان سب کو پورے ملک میں تقسیم کیا گيا ہے۔
یہ جو ملک کے اعلی حکام  ملک کےمختلف صوبوں کا سفر کرتے ہيں، مختلف شہروں میں جاتے ہیں ان میں سے تو بعض ایسے شہر ہیں جہاں کے لوگ یہ تصور بھی نہیں کرتے تھے کہ وہ دوسرے درجے کے کسی عہدیدار کو بھی دیکھ پائيں گے؛ لیکن اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے اعلی حکام ان لوگوں سے جاکر ملتے ہیں۔ یہ ایک اہم بات ہے، اس کی بہت قدر و قیمت ہے۔ جب انسان جاتا ہے، مسائل دیکھتا ہے، تو مسائل کے حل کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے اور سماجی انصاف کا قیام اسی کا نام ہے، ہم سماجی انصاف کی سمت گامزن ہيں۔
انسان جو کچھ دنیا میں اعلی حکام کی زندگی میں مشاہدہ کرتا ہے۔ جو بھی اقتدار اورحکومت تک پہنچتا ہے، صدر بنتا ہے یا کسی اعلی عہدے تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ یقینا ہم جیسے لوگوں کو سماج کے سب سے نچلے طبقے کی زندگی کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہیے۔ ہم نے ایسا نہیں کیا، ہمیں اس میں کامیابی نہيں ملی، ابھی تک ایسا نہیں ہو پایا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے سماج میں حکام کی زندگی الحمد للہ سماج کے متوسط طبقے کی سطح کے برابر ہے بلکہ کبھی کبھی تو متوسط طبقے کی سطح سے بھی نیچے نظر آتی ہے، یہ بہت اہم چیز ہے۔
یہ جو انصاف حصص دیہی رہائشی مکانات کی تعمیر کا منصوبہ یا پھر سبسیڈی کو با مقصد بنانے کا کام ہے، یہ سب بہت بڑے کام ہيں۔ اگر ملک کے حکام ان منصوبوں پر بخوبی عمل در آمد کرنےمیں کامیاب ہو گئے تو یہ کام بہت بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔ حکومت بجلی کے لئے جو سبسیڈی دیتی تھی وہ پوری قوم کے لئے ہوتی تھی۔ جس شخص کے گھر میں دسیوں بلب جلتے ہوں، راڈوں کی سجاوٹ ہو اور بجلی کا زيادہ استعمال ہوتا ہے وہ کہاں؟ اور جس کے گھر میں ایک یا دو بلب جل رہے ہوں وہ کہاں؟ جس کے پاس زيادہ دولت ہے وہ سبسیڈی سے زیادہ فائدہ اٹھاتا تھا۔ یہ ظلم تھا، حکام اس ظلم کو ختم کرنا چاہتے ہيں۔ یہی معاملہ روٹی، پیٹرول وغیرہ کے سلسلے میں بھی ہے۔ ہم نے استقامت کا مظاہرہ کیااور نظام اسلامی بھی سماجی انصاف کے اپنے نعرے پر قائم ہے ۔
دوسرا نقطہ سامراجی طاقتوں کے ساتھ نبرد آزامائی کا نقطہ ہے اسلامی نظام نے دباؤ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ، ہم نے اس سلسلے میں بھی پائداری اور ثابت قدمی کا مظآہرہ کیا ، یہ بہت سخت کام تھا لیکن اسلامی جمہوریہ ایران یہ سخت کام کرنے میں کامیاب رہا۔ بہت سے ایسے لوگ تھے جو انقلاب کے ابتدائی دور میں کہتے تھے کہ جناب اب تو انقلاب کامیاب ہو گیا، بس اب بہت ہو گیا، چلیں امریکہ کے ساتھ ہم اپنے مسائل حل کر لیں! اس کا مطلب یہ تھا کہ انقلاب کے ان نعروں کو پس پشت ڈال دیا جائے جو ظلم جو کے خلاف تھے، اس کی ترغیب دی جاتی تھی۔ اس پورے دور میں ایسے کچھ لوگ تھے جو اس مقصد کے لئے کوشاں رہے؛ یعنی چلیں امریکہ کے ساتھ مل جائيں، جو دراصل ہمارا اصلی دشمن ہے۔ ہم اس کے زیر سایہ ہو جائيں، اس کا دامن تھام لیں۔ اس بات کا مطلب، فلسطین کے معاملے کا سودا تھا، اس بات کا مطلب ان تمام مظالم سے آنکھیں بند کر لینا تھا جو امریکہ عراق، افغانستان اور دوسرے علاقوں میں کر رہا ہے، اس بات کا مطلب ان تمام مظالم کو نظر انداز کر دینا تھا جو امریکہ پوری دنیا میں مختلف قوموں پر ڈھا رہا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ تھا کہ ہم ان مسائل پر اعتراض کرنا چھوڑ دیں۔ جی ہاں ، امریکہ کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معنی یہ ہيں کہ اس کے بعد سے ایرانی قوم اور حکام، کھل کر اعتراض نہ کر سکیں اور نہ ہی اپنی بات کھل کر کہہ سکیں، پھر اس کے بعد کے مراحل میں آہستہ ، آہستہ ان کی باتیں قبول کرنے پر بھی مجبور ہو جائيں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں اپنے مؤقف پر استقامت دکھانا کافی محنت             کا کام تھا، لیکن با برکت کام تھا، خدا کی رحمت کا باعث بھی بنا اور اقوام عالم کی توجہ کا مرکز بھی قرار پایا۔ انقلاب کے اصلی نعروں پر ان بتیس برسوں کے دوران آپ ایرانی عوام کی استقامت کی بہت سی برکتیں ظاہر ہوئي ہیں ، جنہیں آج عالم اسلام احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ جب آپ کے حکام دیگر ممالک کے دورے پر جاتے ہيں تو ان کا کس طرح سے شاندار استقبال ہوتا ہے ؟ جب دنیا کے سیاسی حکام کی مقبولیت کا جائزہ لیا جاتا ہے تو آپ کے ملک کے حکام سر فہرست رہتے ہيں۔ ایرانی قوم کا کارنامہ نمونہ بن گيا۔ آج آپ اس کی علامتوں کا مشاہدہ کر رہے ہيں۔ یہ برکت اور یہ خاصیت ایسی ہے جس کا اندازہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی لگانا ممکن ہوگا۔۔
آج مصر میں آپ کی آواز کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ امریکہ کے وہ صدر جو ہمارے انقلاب کے زمانے میں برسر اقتدار تھے، انہوں نے ابھی چند دن قبل ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مصر میں جو آوازیں سنائي دے رہی ہیں وہ میری صدارت کے زمانے میں ایران میں بھی سنائي دے رہی تھیں۔ یہ آوازيں میرے لئے جانی پہچانی ہيں! یعنی آج جو قاہرہ میں سنا جا رہا ہے وہی سب کچھ ان کی صدارت کے زمانے میں ایران میں سنا جا رہا تھا۔ دنیا اب اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے۔ اسی لئے اس برس انقلاب اسلامی کی کامیابی کی سالگرہ اورعشرہ فجر  اہم ہے، حساس ہے اور زیادہ پر جوش ہے۔ انشاء اللہ بائیس بہمن (گیارہ فروری) کی عظيم ریلیوں میں آپ عزیز قوم کی شرکت آّ پ قابل فخر کارناموں میں مزید اضافہ کا باعث بنےگی۔

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرحيم‌
انّا اعطيناك الكوثر. فصلّ لربّك و انحر. انّ شانئك هو الأبتر

دوسرا خطبہ
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
و الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما علىّ اميرالمؤمنين و الصّدّيقة الطّاهرة سيّدة نساء العالمين‌ و الحسن و الحسين سبطى الرّحمة و امامى الهدى و علىّ‌بن‌الحسين و محمّدبن‌علىّ‌ و جعفربن‌محمّد و موسى‌بن‌جعفر و علىّ‌بن‌موسى و محمّدبن‌علىّ و علىّ‌بن‌محمّد و الحسن‌بن‌علىّ و الخلف القائم الحجّة حججك على عبادك و امنائك فى بلادك‌. و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين و استغفر اللَّه لى و لكم‌.
اوصيكم عباد اللَّه بتقوى اللَّه‌.

ایک بار پھر میں آپ تمام عزیز  بھائیوں اور بہنوں اور اپنے آپ کو تقوے کی سفارش کرتا ہوں۔ میں چند منٹ مصر اور تیونس کے واقعات پر کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ واقعات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور حقیقت میں یہ ایک زلزلہ ہے۔ اگر مصری قوم خدا کی مدد اور توفیق سے اس مہم کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوگئی تو علاقے میں امریکی پالیسیوں کو ایک ایسی شکست ہوگی جس کی تلافی ممکن نہیں۔ آج شاید تیونس و مصر کے فراری حکام سے زيادہ اسرائیلیوں کو ان واقعات پر تشویش لاحق ہے۔صہیونی حکومت سب سے زیادہ پریشان اور فکرمند ہے۔انہیں علم ہے کہ اگر مصر ان کے اتحاد سے نکل گیا اور اپنا حقیقی کردار ادا کرنے لگا تو اس علاقے میں کتنے بڑے واقعات رونما ہوں گے؟! وہ پیش گوئياں جو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے کی تھیں، وہ عملی شکل اختیار کر لیں گی۔اس لئے یہ واقعات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہيں۔ عالمی سطح پر کئے جانے والے تجزیوں میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ان تحریکوں کے اصلی محرک کو نظرانداز کر دیا جائے۔ ان تحریکوں کے بارے میں اقتصادی اور دیگر مسائل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو یقینا مؤثر ہیں لیکن پہلے تیونس اور پھر مصر میں ان عظیم عوامی تحریکوں کا اصلی محرک حقارت کا وہ احساس ہے جو عوام کے دلوں میں اپنے حکام کی حالت دیکھ کر پیدا ہوا ہے۔ عوام کی تحقیر کی گئی اور انہيں محسوس ہوا کہ ان کی بے عزتی کی جا رہی ہے۔ مصر کے "نامبارک" نے مصری قوم کو ذلیل و رسوا کر دیا۔
پہلےمیں تیونس کے بارے میں ایک بات پیش کرنا چاہتا ہوں، تیونس کے فراری صدر بن علی کا مکمل طور پر اور پوری طرح سے امریکہ پر انحصارتھا۔ یہاں تک کہ ہمارے پاس ایسی رپورٹیں ہیں کہ وہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئي اے سے وابستہ تھا۔ غور کریں! ایک قوم کے لئے یہ کتنی سخت اور تکلیف دہ بات ہے کہ اس کا سربراہ، وہ بھی ایسا سربراہ جو اتنے تکبراور غرور کے ساتھ حکومت کرتا تھا وہ امریکی حکومت کا علام اور آلہ کار ہے۔ وہ یقینا بہت برا اور مغرور انسان تھا۔ اس نے کئی برس تک عوام کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا ، وہ اپنی حکومت کے دوران عوام کے دینی اور مذہبی امور میں رکاوٹ ڈالتا رہا ، عوامی مطالبات پر عدم توجہ سے کام لیتا رہا اور شدت و سختی کے ساتھ سلوک کرتا رہا، تیونس ایک اسلامی ملک ہے اور جس کا طویل اسلامی ماضی ہے تیونس میں اسلامی تہذیب کی مایہ ناز شخصیات پیدا ہوئي ہيں، اگر لوگ بن علی کے زمانے میں مسجد میں جانا چاہتے تو انہیں مخصوص قسم کا کارڈ اپنے پاس رکھناہوتا تھا۔ مسجد میں داخلے کا کارڈ حکومت دیتی تھی اور ہر ایک کو دیتی بھی نہيں تھی۔ مسجد میں جانے کی اجازت نہيں ملتی تھی۔ نماز جماعت کی بات تو دور مسجدوں میں فرادی نماز بھی ادا کرنے پر پابندی تھی۔ عام جگہوں پر لوگوں کے سامنے نماز ادا کرنے پر پابندی عائد تھی۔ حجاب پر باقاعدہ طور پر تابندی لگا رکھی تھی۔ ان حالات میں عوام کے دلوں میں موجزن ہونے والا جذبہ، اسلام پسندی کا جذبہ تھا۔ اسی لئے آپ نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ خائن ملک سے فرار ہوا اور حالات بگڑ گئے، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی طالبات حجاب پہن کر یونیورسٹیوں میں پہنچیں ۔ اس سےگہرے اسلامی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ مغربی تجزیہ نگار اس حقیقت پر پردہ ڈالنا چاہتے ہيں۔ اس کے بعد امریکہ کی آلہ کار حکومتوں کے خلاف پیدا ہونے والا جذبہ تھا ،جو انتہائي اہم ہے۔ امریکی یہ نہيں چاہتے کہ یہ کہا جائے کہ پہلے تیونس میں تحریک کے آغاز اور پھر مصر میں اس تحریک کے عروج کی وجہ انحکومتو ں کی امریکہ نواز پالیسی ہے اور امریکہ پر مکمل انحصار ہے ، جبکہ حقیقت یہی ہے۔ تیونس میں تو ایک سطحی تبدیلی ہوئی۔ بن علی بھاگ گئے لیکن اس کی جماعت اور عناصر اب بھی بر سر اقتدار ہيں۔ خدا کرے تیونس کے عوام ملک کی صورت حال پر صحیح طور پر توجہ دیں کہ کہيں خدا نخواستہ دشمن انہيں دھوکا دینے میں کامیاب نہ ہو جائے۔
کچھ مصر کے بارے میں ، مصر ایک بہت ہی اہم ملک ہے۔ میں مصر کے بارے میں  کچھ نکات مختصر طور پر بیان کرنا چاہوں گا۔ مصر پہلا اسلامی ملک ہے جو مغربی تہذیب سے آشنا ہوا۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں، مصر میں مغربی ثفاقت سے آشنائي کا آغاز ہوا۔ دوسرے تمام ممالک سے پہلے۔ مصر پہلا اسلامی ملک تھا جو یورپی ثقافت سے آشنا ہوا اور پہلا اسلامی ملک تھا جو یورپی اور مغربی ثقافت کا مقابلہ کرنے پر اتر آیا۔مصر نے مغربی ثقافت کے عیوب کو سمجھا اورمغربی ثقافت کا استقامت اور پائداری کے ساتھ مقابلہ کیا؛ اسلام کی خدمتگذار ،عظیم، شجاع ، مجاہد اور  دلیر شخصیت سید جمال الدین کو اپنی جد و جہد کے لئے سب سے بہتر جگہ مصر نظر آئي۔ اس کے بعد ان کے شاگرد محمد عبدہ اور دیگر افراد جن کی تعداد بہت زيادہ اور جنکا سلسلہ طویل ہے۔ مصر میں اسلام پسندی کی تحریک کا ماضي بہت ہی درخشاں اور تابناک ہے۔ مصر میں سیاسی شعبہ میں، ثقافتی شعبہ میں اہم شخصیات گزری ہیں جو سب کی سب حریت پسند تھیں۔ اس طرح مصر نظریاتی و سیاسی لحاظ سے عرب دنیا کا رہنما ملک بن گيا۔ ایک طویل عرصے تک عرب ممالک مصر کی طرف دیکھتے تھے اور مصر عرب دنیا کی رہنمائی کرتا تھا۔ اس دور میں استقلال و آزادی کا ہر طرف بول بالا تھا۔ بہرحال اس دور کے عوام کو کچھ عرصے کے علاوہ اچھے مواقع نہيں ملے۔ مصر پہلا یا سب سے بڑا ایسا ملک تھا جو شام کے تعاون سے فلسطین کی حمایت میں جنگ میں واردہوا۔ اسرائيل کے خلاف اس جنگ میں کسی دوسرے اسلامی ملک نے شرکت نہيں کی۔ مصر نے اپنی سپاہ کو، اپنی فوج کو، اپنے عوام کو، اپنے تمام وسائل کو استعمال کیا لیکن بہرحال اسے کامیابی نہيں ملی۔ ایک بار سنہ 1967 میں اور دوسری بار سنہ 1973 میں۔ مصر ایسا ملک ہے۔ اس لئے مصر، فلسطینیوں کی پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا بلکہ دیگر بہت سے ممالک کے انقلابیوں کی بھی پناہ گاہ مصر ہی تھا جہاں وہ جاتے تھے۔ تو اس طرح کا ملک تیس برسوں سے ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو نہ صرف یہ کہ حریت پسند نہيں ہے بلکہ حریت پسندی اور حریت پسندوں کا دشمن بھی ہے، نہ صرف یہ کہ صیہونیوں کا دشمن نہيں ہے بلکہ ان کا حامی، دوست، رازدار اور ایک طرح سے صیہونیوں کا غلام بھی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں کبھی صہیونیوں کے خلاف بلند ہونے والے پرچم سے پوری عرب دنیا کو ہمت ملتی تھی، وہ ملک گذشتہ تیس برسوں میں اس مقام پر پہنچ گیا کہ اسرائیلی اور صہیونی، فلسطینیوں کے خلاف اپنے تمام اقدامات میں، اس "نا مبارک" شخص کی مدد پر اعتماد کرنے لگے اور اس نے ان کی خوب مدد کی۔ غزہ کے معاملے میں اگر حسنی مبارک اسرائيلیوں کی مدد نہ کرتا تو صہیونی غزہ کا محاصرہ نہيں کر سکتے تھے۔ غزہ میں فلسطینی، محاصرے میں تھے، چار برس سے وہ محاصرے میں ہیں۔ 22 روزہ جنگ کے دوران، غزہ کے شہری، عورتيں اور بچے اسرائيلی گولہ باری میں جاں بحق ہو گئے، ختم ہو گئے، ان کے گھر تباہ ہو گئے لیکن امداد رسانی کے کاروانوں کو غزہ کے شہریوں کی مدد نہیں کرنے دی گئی۔ نہ صرف یہ کہ مصر سے جانے والی امداد روک دی گئی بلکہ ایران سمیت دوسرے ملکوں کو بھی حسنی مبارک نے مدد کی اجازت نہيں دی، جو مصر سے گزر کر غزہ کے شہریوں کی مدد کرنا چاہتے تھے، اس طرح کے حالات مصر میں تھے۔ ظاہر سی بات ہے اس سے عوام تنگ آ چکے تھے۔ مصر کے عوام، اپنی موجودہ حکومت کی جانب سے اسرائیل کی حمایت اور امریکہ کی اندھی تقلید کی وجہ سے ذلت محسوس کرتے ہیں۔ انہيں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تحقیر کی جا رہی ہے۔ تحریک کی اصل وجہ یہ ہے۔ یہ لوگ مسلمان ہیں، ان کی تحریک نماز جمعہ سے شروع ہوتی ہے، مسجدوں سے شروع ہوتی ہے، ان کے نعرے ، اللہ اکبر کے نعرے ہیں۔ عوام دینی نعرے لگا رہے ہيں اور ان کے درمیان سب سے زيادہ مضبوط تحریک ایک اسلامی تحریک ہے۔ مصری عوام، ذلت کے اس داغ کو اپنے چہرے سے مٹانا چاہتے ہیں، اصل وجہ یہ ہے۔ امریکہ اورمغربی ممالک اس حقیقت کو اقوام عالم اور رائے عامہ کے سامنے پیش کرنے سے اجتناب کررہے اسی لئے وہ صرف اقتصادی وجوہات کی بات کرتے ہيں۔ یقینا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حسنی مبارک جیسے شخص کی امریکہ کی غلامی کے نتیجے میں مصر ترقی کی راہ پر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاسکا۔ سات کروڑ سے زائد آبادی میں چالیس فیصد لوگ غربت کی لائن سے نیچے ہيں! خود قاہرہ میں، جیسا کہ مجھے مستند رپورٹوں سے پتہ چلا ہے، کئی لاکھ افراد قبرستانوں میں جاکر پناہ لیتے ہیں بلکہ میں نے تو بیس سے تیس لاکھ سنا ہے لیکن بہر حال کئی لاکھ کی تعداد یقینی ہے!  جوبے گھرلوگ ہیں، یہ لوگ قبرستانوں میں جاکر پناہ لیتے ہيں۔ عوام سخت معاشی بدحالی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یعنی امریکیوں نے اس غلامی کا صلہ بھی نہيں دیا۔ آج بھی اسے کوئي صلہ نہيں ملے گا۔ آج بھی وہ جیسے ہی مصر سے بھاگےگا، اسے یقین رکھنا چاہیے کہ سب سے پہلے اس کے لئے جو دروازہ بند ہوگا وہ امریکہ کا دروازہ ہوگا۔ وہ اسے امریکہ میں گھسنے نہيں دیں گے۔ جیسا کہ انہوں نے بن علی کو اپنے یہاں گھسنے نہيں دیا جیسا کہ شاہ ایران محمد رضا کو اپنے ملک میں گھسنے نہيں دیا۔ یہ لوگ ایسے ہيں۔ جن لوگوں کا امریکہ سے دوستی اور اس کی پیروی کا بہت شوق ہے انہيں ان مثالوں کو دیکھ لینا چاہیے۔ یہ لوگ شیطانوں کی طرح ہيں۔ صحیفہ سجادیہ کی ایک دعا میں آیا ہے کہ جب شیطان مجھ کو مبتلا کرتا ہے تو پھر دوسری طرف دیکھنے لگتا ہے، میری تعبیر کے مطابق وہ ہنستا ہے، وہ منہ پھیر لیتا ہے، وہتوجہ نہيں کرتا۔ امریکی بھی اس طرح کے  لوگ ہیں۔ امریکی، اس طرح پست اور کمزور لوگوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہيں۔
البتہ آج امریکی بہت پریشان اور سراسیمہ ہیں اور اسرائیلیوں کی حالت تو مزید نازک اور ناگفتہ بہ ہے۔ مصر کے مسئلہ میں کوئی راستہ تلاش کر رہے ہیں لیکن انہیں کوئي راستہ ملنے والا نہیں ہے۔ وہ فریب دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں، عوام کی حمایت کا دم بھرنے لگے ہیں۔ مبارک سے کہہ بھی دیا ہے، امریکیوں نے اس سے کہہ دیا ہے کہ جلد از جلد اقتدار چھوڑ دو اور چلے جاؤ۔ اب اسکا دار و مدار مصری عوام پر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کس طرح عمل کرتے ہیں۔

اس کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عرب بھائیوں اور بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے عربی زبان میں خطبہ دیا جس کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

امت مسلمہ  کے افراد جہاں کہیں ہوں ان ہر سلام و درود ہو ۔ اس وقت عالم اسلام میں بہت عظیم، پر شکوہ اور فیصلہ کن واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ ایسا واقعہ جو اس علاقے میں سامراجی طاقتوں کے تسلط کو دگرگوں کرکے اسےاسلام اور علاقائي قوموں کے مفاد کی جانب موڑ سکتا ہے۔
ایسا واقعہ جو عرب قوموں اور امت اسلامیہ کو ان کا کھویا ہوا وقار واپس دلا سکتا ہے اور ان قدیم قوموں پر امریکہ اور مغرب کے ظالمانہ، توہین آمیز اور حقارت آمیز برتاؤ کے نتیجے میں ان کی صورت پر دسیوں سال سے جمع گرد و غبار کو دور کر سکتا ہے۔ یہ معجزاتی واقعہ تیونس کے عوام کے ہاتھوں شروع ہوا اور مصر کی عظیم اور با شعور قوم کے ہاتھوں پروان چڑھا ہے۔ اور الگ الگ وجوہات کی بنا پرمغرب اور عالم اسلام کی سانس سینہ میں بند ہوکر رہ گئی ہے  جو دیکھ رہے ہیں کہ  مصر کی عظیم قوم اور  ملک ، حالیہ صدی کی نابغہ شخصیتوں والا مصر، جمال عبدالناصر اور الشیخ حسن البناء کا مصر، سن 1967  اور 1973 والا مصر اس وقت کیا قدم اٹھاتا ہے؟ اپنی بلند ہمتی کے پرچم کو کب تک بلند رکھتا ہے؟ اگر خدا نخواستہ یہ پرچم گرا تو بڑا تاریک دور شروع ہوگا اور اگر بلندچوٹی پر پہنچ گیا تو آسمان پر پرواز کرنے لگےگا۔
تیونس کے عوام نے خائن حاکم کو بھگا دیا جو امریکہ کا غلام اور دین کا کھلا دشمن تھا لیکن اسی کو مطلوبہ ہدف کا حصول سمجھ لینا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ سامراجی طاقتوں پرمنحصر نظام ، افراد کی تبدیلی اور ایجنٹوں کے بدلنے سے بدلتا نہیں ؛ اگ‍ر ان ایجنٹوں کی جگہ انہی کے بعض د وست اور حامی آ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا اور قوم کے سامنے اب بھی فریب کا جال بچھا ہوا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے دوران بھی بارہا یہ کوشش کی گئی کہ قوم کو اس جال میں پھنسا دیا جائے لیکن قوم کی بیداری اور اس کے عظیم الہی رہنما نے دشمن کی سازشوں کو پہچان کر نقش بر آب کر دیا اور اپنا سفر مسلسل جاری رکھا۔
البتہ جہاں تک مصر کا سوال ہے تو یہ ایک بے نظیر و بے مثال نمونہ ہے کیونکہ دنیائے عرب میں مصر ایک بے مثال ملک ہے۔ مصرعالم اسلام کا وہ ملک ہے جو یورپی ثقافت سے سب سے پہلے آشنا ہوا۔ یہ عالم اسلام کا وہ ملک ہےجس نے سب سے پہلے یورپی ثقافتی یلغار کے خطرے کو محسوس کیا اور اس کے خلاف ٹھوس مؤقف اختیار کیا۔ یہ پہلا عرب ملک ہے جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک آزاد حکومت کی تشکیل کی اور نہر سویز کو قومی دائرے میں لاکر اپنے قومی مفادات کی حفاظت کی۔ پہلا ملک ہے جو اپنی پوری توانائی کے ساتھ فلسطین کی مدد کے لئے آگے بڑھا اور عالم اسلام میں فلسطینیوں کی پناہ گاہ قرار پایا۔ سید جمال الدین مصری نہیں تھے لیکن مصر ان کی پناہ گآہ بن گيا مصر کے علاوہ کہیں ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ کسی مسلمان قوم سے اپنی گہری تشویش کا پورا ادراک کرنے کی توقع رکھ سکتے۔ مصری قوم نے دینی اور سیاسی جد و جہد میں اپنی اہلیت و صلاحیت کو ثابت اور تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا۔ محمد عبدہ اور ان کے شاگرد اسی طرح سعد زغلول ان کے حامی، کوئی رجعت پسند اور دنیا سے نا واقف افراد نہیں تھے۔ وہ ایسے عظیم اور بیدار مغز نابغہ روزگار تھے اوران جیسے کسی ایک شخص کی پرورش کرکے کوئی بھی قوم اپنی صلاحیت پر بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔ مصر اپنی اس ثقافتی، دینی اور سیاسی پوزیشن کی بنا پرعرب دنیا کا رہنما ملک بن گیا۔
مصر کے موجودہ نظام کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ اس نے اس ملک کو اس بلند ترین مقام سے گراکر علاقے کے سیاسی میدان میں اسے بے دست و پا بنا کر رکھ دیا۔ مصر کے عوام کا یہ آتش فشاں اسی بڑی خیانت کا جواب ہے جسے مغرب نواز آمر حکومت نے اپنےعوام کےساتھ روا رکھا۔
اس وقت پوری دنیا میں مصری قوم کے قیام کے بارے میں گوناگوں تجزیے پیش کئے جا رہے ہیں اور ہر ایک کوئي نہ کوئی بات کہہ رہا ہے لیکن جو بھی مصر کو پہچانتا ہے اس کو واضح طور پر یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ مصری قوم اپنے وقار اور قومی عزت کے دفاع میں مصروف ہے۔ مصری قوم نے ان خائن عناصر کا گریبان پکڑ لیا ہے جنہوں نے اس کے وقار کو پامال کرکے رکھ دیا تھا، اس قوم کو جو احترام و وقار کے اوج پر پہنچ چکی تھی اس کے دشمنوں کے غرور و تکبر کے ذریعے کچل کر رکھ دیا گيا تھا۔ اس کی ایک واضح مثال مسئلہ فلسطین میں مصر کے مؤقف کی ہے۔ فلسطین دسیوں سال سے اس علاقے کا سب سے مرکزی مسئلہ بنا ہوا ہے اور علاقے کے ممالک کے مسائل آپس میں اس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی ملک اور کوئی بھی قوم اپنی تقدیر اور اپنے مستقبل کو مس‍ئلہ فلسطین سے بالکل الگ نہیں تصور کر سکتی۔ یہاں دو ہی محاذ ہیں، ایک محاذ فلسطین اور فلسطینیوں کے منصفانہ جہاد کی حمایت کا محاذ ہے اور دوسرا محاذ  اس کے مد مقابل محاذ ہے۔
علاقے کی قوموں نے شروع سے ہی اپنا مؤقف واضح کر دیا۔ لہذا جب کوئی حکومت فلسطین کی حمایت کرتی ہے تو اسے اپنی قوم اور عرب و مسلم اقوام کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔ مصری حکومت نے ساٹھ اور ستر کے عشروں میں اس کا تجربہ بھی کیا ہے لیکن جب وہ خود کو دوسرے محاذ کے حصہ کے طور پر پیش کرے گی تو ظاہر ہے کہ قوم اس سے منہ پھیر لےگی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے مصر میں حکومت اور عوام کے درمیان یہ خلیج پیدا ہو گئی۔ مصری قوم جو سن 1967اور 1973 میں ہر لحاظ اور ہر طرح سے فلسطین کی مدد کے لئے آگے بڑھی تھی، اسے رفتہ رفتہ یہ محسوس ہوا کہ مصری حکام امریکہ کی اطاعت اور پیروی میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ مصر، غاصب صہیونی دشمن کا وفادار اور دوست ملک بن چکا ہے۔ مصری حکام پر امریکہ کے غلبے سے، فلسطین کی حمایت میں کی گئی ان کی ساری زحمتوں پر پانی پھر گيا اور مصر فلسطین کا سب سے بڑا دشمن اور صہیونیوں کا سب سے ہڑا حامی و مدد گار بن گیا۔
یہ ایسی صورت میں ہوا کہ جب سنہ 67 اور سنہ 73 کی جنگوں میں مصر کا دوست ملک شام،  امریکہ کے تمام تر دباؤ کے باوجود آزادانہ مؤقف برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ مصر کی اس پٹھو حکومت کی یہ حالت ہو گئی کہ مصر کے عوام نے تاریخ میں پہلی بار دیکھا کہ غزہ میں ان کے بھائیوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں مصری حکومت اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہوئي ہے اور نہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کو مدد  بہم نہیں پہنچارہی ہے بلکہ اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے ، تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی کہ حسنی مبارک وہیشخص ہے جو غزہ کے عوام کے ظالمانہ محاصرے اور غزہ کے مردوں اور عورتوں کے بائیس روزہ قتل عام میں اسرائیل اور امریکہ کا تعاون کرتا رہا ان شریک اور وفادار بنا رہا۔ ان دنوں مصری عوام پر کیا گذری ہوگی؟ ٹیلی ویژن پر مصری عوام کے جذباتی رد عمل کی تصاویر میں دیکھا گیا کہ وہ آبدیدہ ہوکر اپنی حالت اور فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنے کی اجازت نہ ملنے کی باتیں بیان کر رہے تھے۔ مصر کے مسلمان اور کہاں تک صبر کرتے؟ آج جو کچھ قاہرہ اور مصر کے دیگر شہروں میں ہورہا ہے اسی پاکیزہ جذبات اور غیظ و غضب کا لاوا ہے جو پھوٹ پڑا ہے، ان کدورتوں کا لاوا ہے جو نکل رہا ہے یہ مصر کی حریت پسند قوم کے ساتھ  اس طویل عرصے میں اس خائن اور مغربی آلہ کار کی رفتار کا نتیجہ ہے جو اس نے مصری عوام کے سر مسلط کررکھی تھی۔
مصر ی مسلمانوں کی تحریک اور ان کا قیام اسلامی اور حریت پسندانہ ہے۔ میں ایران کے عوام اور ایران کی انقلابی حکومت کی طرف سے اہل مصر اور اہل تیونس پر درود و سلام بھیجتا ہوں اور آپ کی مکمل فتح کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں۔ میں آپ پر اور آپ کی تحریک پر فخر کرتا ہوں۔ بے شک قوموں کے انقلابات جغرافیائی، تاریخی، سیاسی اور ثقافتی تقاضوں پر منحصر ہوتے ہیں اور ہر ملک کی اپنی الگ خصوصیات ہوتی ہیں۔ یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ تیس سال قبل ایران کے عظیم انقلاب کے دوران جو کچھ رونما ہوا بعینہ مصر اور تیونس میں بھی وہی رونما ہو لیکن کچھ مشترکات بھی ہوتے ہیں جن کے سلسلے میں ایک قوم کے تجربات دوسری قوموں کے کام آ سکتے ہیں۔ وہ تجربات جو آج کام میں آ سکتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں؛
1 ۔ ہر عوامی قیام میں حقیقی جنگ ارادوں کی جنگ ہوتی ہے۔ جس فریق میں بھی پختہ اور راسخ عزم ہو اور جو سختیوں کو برداشت کرے وہی فریق یقینی طور پرفاتح ہے۔ ہمارا قرآن ہمیں درس دیتا اور سکھاتاہے کہ «إنّ الّذینَ قالُوا رَبُّنُااللَّه ثُمَّ استَقامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیهِمُ المَلائِكَه ألَّا تَخافُوا وَ لاتَحزَنُوا وَ أبشِرُوا بِالجَنَّهِ الَّتی كُنتُم تُوعَدونَ»( 3) اورپیغمبر اسلام (ص) سے ارشاد ہوتا ہے کہ «فَلِذلِكَفَادعُوَاستَقِمكَمااُمِرتَ وَ لا تَتَّبِع أهواءَهُم»(4) دشمن طاقت اور فریب کے ذریعہ آپ کے ارادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آپ ہوشیار رہیے، آپ کا ارادہ پختہ اور مصمم ہونا چاہیے۔
2۔ آپ کا دشمن آپ کو اہداف کے حصول کے سلسلے میں مایوس اور ناامید بنانا چاہتا ہے جبکہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ «وَنُرِيدُ أَن نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَاسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُالْوَارِثِينَ»(5) اللہ تعالی کے حتمی وعدے پر اعتماد اور یقین رکھیے بیشک جس کے بارے میں پر بار بار تاکید ہوئي ہے، ارشاد ہوتاہے کہ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (6).

3 آپ کا دشمن اپنی سیکورٹی کے افراد کو مسلح کرکے آپ کے مقابلے پر بھیج رہا ہے تاکہ بد امنی اور افرا تفری پھیلا کر عوام کو تھکا دے۔ ان سے ہراساں نہ ہوں۔ آپ کی طاقت حکومتی آلہ کاروں سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ اس وقت اس مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں ، جس مرحلے میں پیغمبروں اور اولياء خدا کے پہنچ جانے کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا کہ «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىالْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِنيَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْقَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ»(7) آپ اپنے جوانوں کے ذریعہ اور اللہ تعالی پر بھروسہ و اعتماد کرتے ہوئے ہر قسم کی بد امنی و ہرج و مرج پر کنٹرول حاصل کرسکتے ہیں۔
4 ۔ سامراجی اوربڑی طاقتوں اور ان کے آلہ کاروں کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لئےقوموں کا سب سے اہم اور بڑا ہتھیار اتحاد و یکجہتی ہے۔ آپ کا دشمن مختلف حیلوں سے آپ کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ تفرقہ والی باتوں کو سامنے لانا، انحرافی نعرے بلند کرنا، خائن صدر کے جانشین کے طور پر غیر قابل اعتماد ،خراب مشکوک افراد کا نام پیش کرنا ، یہ سب اختلاف پھیلانے کے عزائم کا مظہر ہے۔ آپ دشمن کے ہاتھوں بکے ہوئے عناصر سے ملک کی نجات اور دین کے محور پر اپنے اتحاد کو قائم رکھیے۔ «وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا»(8)
5 ۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی سیاسی چالوں اور گمراہ کن بیانات پر بھروسہ نہ کیجئے۔ یہ لوگ کل تک اسی بد عنوان حکومت کی پشت پناہی کر رہے تھے اور اب اسے بچانے سے مایوس ہو گئے ہیں تو قوموں کے حقوق کا دم بھر رہے ہیں۔ وہ اس کی آڑ میں آلہ کاروں کی جگہیں تبدیل کرنے اور اپنے افراد کو نئے نئے روپ میں آپ پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ قوموں کے شعور و فہم کا مذاق اڑانا ہے۔ آپ انہیں ٹھکرا دیں اور مکمل طور پر آزاد، عوامی اور اسلام کے پابند نظام کی تشکیل سے کم کسی چیز پر رضامند نہ ہوں۔
6 ۔ علماء اسلام اور جامعۃ الازھر اپنا کردار نمایاں طور پر ادا کریں جن کا ماضی درخشاں اور جن کی کارکردگی زباں زد خاص وعام ہے ۔ جن عوام نے مسجدوں اور نماز جمعہ سے اپنی تحریک کا آغاز کیا ہے اور جن کی زبان پر اللہ اکبر کے نعرے ہیں، علماء کرام سے انہوں نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور یہ توقعات بے جا بھی نہیں ہیں۔
7 مصری فوج ، جسے صہیونی دشمن کے خلاف کم سےکم دو جنگوں میں شرکت کا افتخار حاصل ہے، اسےآج بہت بڑا تاریخی امتحان در پیش ہے۔ دشمن اسے عوام کا سر کچلنےکے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو اتنا بڑا المیہ رونما ہوگا جو ناقابل تلافی ہوگا۔ مصری فوج سے مصری عوام کو نہیں بلکہ صہیونیوں کو ہرساں ہونا چاہیے ، مصری فوج کے اہلکار خود بھی مصری عوام کا حصہ اور اسی قوم کے فرزند ہیں لہذا سرانجام وہ عوام سے جا مليں گے اور یہ اچھا اورشیریں تجربہ ایک بار پھر مصر میں دہرایا جائے گا۔
8 امریکہ تیس سال سے مصری عوام کے خلاف ضمیر فروش حکام کی مدد اور پشت پناہی کرتا رہا ہے لیکن اب اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مصر کے معاملے میں ثالث کی حیثیت سے میدان میں آئے۔ اس سلسلے میں امریکہ کے ہر اقدام اور ہر سفارش کو شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور اس پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
عزیز بھائیو اور بہنو! یہ ہمارے تجربات ہیں اور میں آپ کا مسلمان بھائی ہونے  کی حیثیت اور اپنی دینی ذمہ داری کی بنیاد پر ان تجربات کو آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ دشمن کے تبلیغاتی اور نشریاتی ادارے ہمیشہ کی طرح یقینا شور و غل برپا کریں گے کہ ایران مداخلت کرنا چاہتاہے، مصر کو شیعہ بنانا چاہتا ہے، ولایت فقیہ کے نظریے کو مصر میں بھی پھیلانا چاہتا ہے، وغیرہ وغیرہ ۔ یہ لوگ تیس سال سے جھوٹے پروپیگنڈے کرتے رہے ہیں تاکہ مسلمان قومیں ایک دوسرے سے دور اور امداد باہمی سے محروم رہیں۔ ان کے خریدے ہوئے افراد بھی یہی باتیں دہراتے ہیں۔ «يُوحِی بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْوَمَا يَفْتَرُونَ»(9) ان سازشوں کے پیش نظر ہم اپنے ان فرائض کو ہرگز نظر انداز نہیں کر سکتے جو اسلام نے ہمارے دوش پر عائد کئے ہیں۔ و الله من وراء القصد
.
واستغفرالله لی و لكم.

اللہ نیتوں سے آگاہ اور واقف ہے۔ میں اپنے اور آپ کے لئے اللہ تعالی سے مغفرت اوربخشش کا طلبگار ہوں۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) احزاب: 1
2) شمس: 1
3) فصلت:30
4)شورا: 15
5) قصص: 5
6) حج:40
7) انفال:65
8) آل عمران: 103
9) انعام: 112