ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا قم میں مقیم غیر ایرانی طلباء کے اجتماع سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
و الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌.
السّلام عليك يا فاطمة يا بنت موسى‌بن‌جعفر ايّتها المعصومة سلام اللَّه عليك و على ابائك الطّيّبين الطّاهرين المعصومين‌.

میں اس بات سے بہت ہی خوشحال اور مسرور ہوں کہ آج مجھےیہ توفیق نصیب ہوئی کہ میں آپ غیر ایرانی طلاب اور اس مجموعہ کے مدیروں ، اساتید و مدرسین کے ساتھ کچھ  گرانقدر دقائق تک ملاقات کرسکوں۔ غیر ایرانی عزیز طلاب و فضلا یہ بات جان لیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران میں غریب اور اجنبی نہیں ہیں،آپ حتی مہمان بھی نہیں ہیں، آپ گھر کے مالک اور صاحبخانہ ہیں، آپ میرے عزیز فرزند ہیں، ہم آپ کی اس عاشقانہ پرواز کا خیر مقدم کرتے ہیں آپ نے اسلامی معارف حاصل کرنےکے شوق و ذوق اور جذبہ کے ساتھ اس  سرزمین پر قدم رکھا ہے۔ ہم اپنی یہ ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ اپنی توانائی کے مطابق اسلام کے درخشاں معارف اور اہلبیت علیھم السلام  کے عظیم معارف جو ہمارے پاس موجود ہیں وہ آپ کے اختیار میں قرار دیں۔

انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوری نظام نے سب سے پہلا درس جو ہمیں یاد دیا، وہ یہ تھا کہ ہم اپنی فکر و سوچ کو ایران کی چار دیواری اور ایران کی حدود سے باہر نکال کر امت اسلامی کے وسیع و عریض میدان پر مبذول کریں، ہمارے عظيم رہنما حضرت امام (رہ) نے ہمیں یہ نظریہ سکھایا کہ ہماری نگاہ  پوری امت اسلامی پر مرکوز ہونی چاہیے یہ بات درست ہے کہ ایران طاغوت کے دور میں استعمار اور استبداد کے دباؤ سے تنگ آگیا تھا ان کے دباؤ میں کچلا اور پسا جارہا تھا اور اس کو نجات دینا بہت ضروری تھا ، لیکن سامراجی طاقتوں  بنیادی دباؤ ، اساسی حملہ اور تاریخی حملہ امت اسلامی پر تھا، امت اسلامی جو جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے حساس ترین علاقہ میں آباد ہے، وہ بڑی طاقتوں کی مداخلت، منہ زور طاقتوں کی حرص و لالچ کا نشانہ بنی ہوئی تھی ، وہ کئی صدیوں سے سامراجی طاقتوں کے ظلم و تعدی کی بنا پر کمزور و ضعیف، پسماندہ ، ناتواں ، ستمدیدہ، فقیر ، مادی اور علمی دونوں لحاظ سے درماندہ ہوچکی تھی  ان حالات کے پیش نظر انقلاب اسلامی کی نگاہ پورے عالم اسلام پر مرکوزتھی؛ انقلاب اسلامی  امت اسلامی کے سر سے اور امت اسلامی کی زندگي سے ظالم اور حملہ آور طاقتوں کے منحوس سائے کو ختم کرنے کی فکر میں تھالہذاجب انقلاب اسلامی ایران میں کامیاب ہوگیا ، تو مشرق و مغرب میں مسلمان قوموں نے یہ محسوس کیا کہ ان کی زندگی میں ایک تازہ نسیم چلی ہے ان کی زندگي میں نئی بہار آگئی ہے، ہوا بدل گئی ہے؛ انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے امور میں گشائش پیدا ہوگئی ہے، لہذا افریقہ میں ، ایشیاء میں ، تمام ان علاقوں میں جہاں مسلمان آباد ہیں جہاں مسلمان رہتے اورزندگی بسر کرتے ہیں  وہاں مسلمانوں نے یہ محسوس کیا کہ ایران میں  انقلاب اسلامی کی کامیابی سے اور اسلامی نظام کی تشکیل سے ان کے سامنے ایک نئی راہ باز ہوگئی ہے یہ سبق ہم نے حضرت امام (رہ) سے سیکھا تھا اور ابتدا سے لیکر آج تک اسلامی جمہوری نظام کا یہ واضح اور روشن خط رہا ہے۔

اس عظیم کام کا کچھ حصہ یہ ہے جو آپ انجام دے رہے ہیں آپ تقریبا ایک سو ممالک سے یہاںجمع ہوئے ہیں تاکہ ایسے اسلامی معارف سے آشنا ہوں جو نجات بخش اور سعادت مند ہیں، مقصد یہ نہیں ہیں کہ ہم عرف اور لغت میں رائج سیاسی شکل و صورت میں انقلاب کو اس  ملک میں اور اس ملک میں صادر کریں؛ انقلاب کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کو سیاسی وسائل کے ذریعہ صادر کیا جاسکے؛ یا فوجی اور سکیورٹی وسائل کے ذریعہ اس کو آگے بڑھایا جاسکے؛ یہ غلط بات ہے اور ہم نے پہلے ہی اس کا راستہ بند کردیا تھا۔

اسلامی جمہوری  نظام کا مسئلہ اسلام کے اعلی معارف کی دوبارہ نشر و اشاعت اور پیداوار کا مسئلہ ہے، تاکہ مسلمان اسلامی تشخص کا احساس کریں، اسلامی شخصیت کا احساس کریں،  تاکہ اسلام کی تعلیمات سےآشنا ہوں جو بشریت کے لئے باعث نجات ہیں؛ یہ جان لیں کہ اللہ تعالی کے اس ارشاد کا مطلب کیا ؟  کہ ہم نے پیغمبر (ص) کو بھیجا " و يضع عنهم اصرهم و الأغلال الّتى كانت عليهم " ؛(1)  یہ شرک و بت پرستی کی زنجیریں اور بیڑیاں جو انسان کے پاؤں میں بندھی ہوئی ہیں اسلام ان کو کھولنا چاہتا ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟  ان حقائق کو امت اسلامی نے غفلت کی بنا پرطویل مدت سے فراموش کردیا تھا، امت اسلامی آزاد رہ سکتی ہے، امت اسلامی ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن رہ سکتی ہے، عالم بن سکتی ہے ، عزیز بن سکتی ہے، طاقتور اور مقتدر بن سکتی ہے ، یہ چیزيں اسلامی تعلیمات کی برکت سے حاصل کی جا سکتی ہیں، سامراجی طاقتوں اور استعماری اداروں نے دو سو سال تک ان مفاہیم کو مسلمانوں سے دور کرنےکی تلاش و کوشش کی؛ تاکہ مسلمان اپنے تشخص سے غافل رہیں تاکہ اس طرح مسلمانوں کے سیاسی ماحول ، مسلمانوں کے اقتصادی ماحول اور مسلمانوں کی مقامی ثقافتی فضا پر اپنے ہاتھ پھیلا کر قبضہ کرسکیں اور انھیں تباہ و برباد کرسکیں۔ لیکن انقلاب اسلامی نے یہ تمام چیزیں امت اسلامی کو یاد دیں۔

آج اسلامی جمہوریہ ایران میں، قم کے اس عظیم علمی مرکز میں اور جامعہ المصطفی میں آپ کے لئے ایک  بہترین اور شاندار موقع ہے آپ اسلام کے ان اعلی معارف سے آشنائی حاصل کریں " ليتفقّهوا فى الدّين و لينذروا قومهم اذا رجعوا اليهم "؛ (2) آپ خود نور افشانی کرسکتے ہیں آپ فضا کو منور کرسکتے ہیں آج عالم اسلام کو اس کی سخت ضرورت ہے۔

البتہ آپ یہاں پر غربت اور پردیس میں زندگی بسر کررہے ہیں، اگر چہ یہ آپ کا گھر ہے، لیکن آپ اپنے خاندان ، اپنے عزیزوں ، اپنے رشتہ داروں سے دور ہیں، آپ کو کچھ دشواریوں کا سامنا ہے، کچھ مشکلات کا سامنا ہے، آپ کو آپ کے بچوں کو ، آپ کے خاندان والوں کو مشکلات درپیش ہیں؛ لیکن آپ ان مشکلات کا مقابلہ کریں ، اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام (ص)کی بعثت کے آغاز میں کچھ بنیادی خطوط پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے پیش کئے تاکہ پیغمبر اسلام (ص) ان اہم اور بنیادی خطوط کی روشنی میں اس سنگین ، گراں اور بے نظیر بوجھ کو برداشت کرسکیں ، ان خطوط میں سے ایک راستہ صبر کا راستہ تھا؛ " ولربّک فاصبر"۔ " بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یا ايّھاالمدثر قم فأنذر. و ربّك فكبّر. و ثيابك فطهّر. و الرّجز فاهجر. و لاتمنن تستكثر. و لربّك فاصبر" .(3) اللہ تعالی نے صبر کا راستہ پیغمبر اسلام (ص)کے سامنے رکھا،صبر کرنا چاہیے، صبر یعنی استقامت و پائداری، یعنی تھکاوٹ محسوس نہ کرنا، یعنی مشکلات کے سامنے مغلوب نہ ہونا، ہم سب کو مختلف قسم کی مشکلات درپیش ہیں، ہمیں ان مشکلات کے سامنے مغلوب نہیں ہونا چاہیے، یہ سبق بھی حضرت امام (رہ) نے ہمیں عملی طور پر یاد دیا ہے؛ انھوں نے صبر کیا، وہ دن جس دن حضرت امام (رہ) کی آوازقم کے  اس شہر میں بلند ہوئی ، تو حضرت امام (رہ) کے اردگرد چند طلباء کے علاوہ کسی کو ان پر یقین نہیں تھا؛ حضرت امام (رہ) غریب تھے؛ حضرت امام (رہ) اپنے وطن میں غریب اور مظلوم  تھے، وہ اپنے شہر میں غریب تھے؛ لیکن انھوں نے استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کیا، اس عظیم انسان پر مختلف قسم کے مادی اور معنوی دباؤ ڈالے گئے لیکن انھوں نے استقامت دکھائی، صبر کا مظاہرہ کیا " المؤمن كالجبل الرّاسخ لا تحرّكه العواصف" تند و تیز ہواؤں اور عظیم طوفانوں میں سے کوئی بھی ان کے فولادی عزم اور پختہ ارادے میں خلل ایجاد نہیں کرسکا؛ وہ اپنی جگہ ڈٹے رہے، جب کسی بلند جگہ میں پانی کا چشمہ ابلتا ہے تو اس سے نشیبی زمینیں بھی سیراب ہوتی ہیں ان کا صبر بھی عظیم تھا دوسروں نے بھی صبر کرنا یاد کیا؛ ایرانی قوم بھی اس صبر و پائداری کے ذریعہ دشمن کی تمام سازشوں پر کامیاب ہوگئی۔

آپ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابی کے آغاز سے لیکر اب تک  ایرانی قوم اور اسلامی نظام کے خلاف کتنی سازشیں اور کتنے زہر آلودہ خنجر استعمال کئے گئے ہیں؟ ہمارے خلاف سازش کی ایک جھلکی آٹھ سالہ جنگ تھی ، آج دشمن ہمارے خلاف اقتصادی پابندیوں کا شور و واویلا مچاتے ہیں پابندیوں کا سلسلہ آج سے نہیں ہے؛ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف تیس  سال سے اقتصادی  پابندیاں لگی ہوئی ہیں لیکن ایرانی قوم ، صبر و استقامت اور پائداری کے ساتھ ان تمام عداوتوں ، خباثتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں کامیاب ہوگئی۔آج اسلامی جمہوریہ ایران اللہ تعالی کے حکم اور اس کےفضل وکرم سے سکیورٹی اورسیاسی  اقتدار کے لحاظ سے عظیم بلندی پر فائز ہے۔ آپ صبر و استقامت اور پائداری کو فراموش نہ کریں؛ ہر انسان کی زندگی کے پروگرام میں یہ ایک اہم عنصر ہے جو اعلی ہدف اور مقصد کا حامل ہےآپ اسلام کے ذخائر ہیں، آپ اسلام کے لئے عظیم سرمایہ ہیں، یہاں پر اجھی طرح علم حاصل کیجئے انقلاب اسلامی اور نظام اسلامی کے ماحول اور فضا میں اچھی طرح سانس لیجئے اور اللہ تعالی پر امید رکھتے ہوئے مناسب وقت میں اپنی قوم میں واپس جائیں  اور مہر و محبت ، عجز و انکساری ، اخلاق و بردباری اور علم کے ذریعہ ان حقائق کو منتقل کیجئے۔

آپ کی یہاں موجودگی کا مقصد سیاسی مقصد نہیں ہے؛ بلکہ علمی مقصد ہے، تربیتی مقصد ہے اور یہ بات واضح اور روشن ہے کہ علم کے خریدار ہر جگہ موجود ہیں، نیک بات ، اچھی بات اور معرفت کے خریدار ہر جگہ ہیں، حضرت امام علی بن موسی الرضا (علیہ الصلاہ و والسلام) نے اپنےایک صحابی سے  فرمایا: " رحم اللَّه عبدا احيا امرنا"  اللہ تعالی اس شخص پر رحمت نازل ہو جو ہمارے امر اور ہمارے مطلب کو زندہ کرے، راوی کہتا ہے: " فقلت کیف یحیی امرکم "  آپ کا امر، آپ کا دستور ، آپ کا حکم اور آپ کے مطلب اور موضوع کو کس طرح زندہ رکھا جاسکتا ہے؟  قال یتعلم علومنا و یعلمھا الناس" فرمایا ہمارے ،علوم کو یاد کریں ، اہلبیت (ع) کے معارف کو یاد کریں اور پھر انھیں عوام کے ذہنوں اور مشتاق و تشنہ دلوں تک منتقل کریں" فان الناس لو علموا محاسن کلامنا لاتّبعونا" (4) اگر لوگ ہمارے کلام کے محاسن اور خوبیوں سے آگاہ اور واقف ہوجائیں تو وہ ہماری پیروی کریں گے۔

 اہلبیت کے معارف کو فروغ دینے کے لئے آپ کو ادھر ادھر جانے کی کوئی ضرورت نہیں؛ بد اخلاقی کرنے اور کسی دوسرے پر تعرض کرنے  ،طعن  وطنزکرنے اور چھینٹے کسنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ اسی قدر کافی ہے کہ ہم اہلبیت (ع) کے معارف کو صحیح حاصل کریں اور انھیں دوسروں تک منتقل کریں؛ یہ توحیدی معارف، یہ انسان شناسی پر مبنی معارف، انسانی زندگی سے متعلق مسائل کے بارے میں بیشمار معارف خود بخود جذاب ہیں، اہلبیت (ع) کے معارف دلوں کو جذب کرتے ہیں، لوگوں کو آئمہ کے راستہ پر گامزن ہونے کا راستہ دکھاتے ہیں؛ آپ کے لئے یہاں ایک عظيم موقع ہے آپ مختلف جگہوں اور مختلف قوموں اور مختلف ممالک سے یہاں جمع ہوئے ہیں آپ میں سے  ہر ایک اس ماحول میں دوسرے مسلمان بھائیوں اور ان کی مقامی ثقافت کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتا ہے ۔

آپ یورپ سے ہیں آپ یہاں مشرقی ایشیاء کے رہنے والے سے رابطہ برقرار کرسکتے ہیں، آپ افریقہ سے ہیں آپ یہاں مشرق وسطی کے افراد سے رابطہ قائم کرسکتے ہیں۔ قوموں کے ممتازگلدستے یہاں اکٹھا ہوئے ہیں۔ آپ ایکدوسرے سے آشنائی حاصل کریں ، آپ یہاں ایکدوسرے کو پہچانیں، ایکدوسرے کی ثقافتوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں، ایکدوسرے کی آرزوؤں اور اہداف کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں  جو مختلف قوموں کے اندر موجود ہیں ان چیزوں کو ایکدوسرے سے یاد کیجئے؛ مسلمانوں کے اندر جامعیت پیدا ہوسکتی ہےیہ آپ کے لئے بہت ہی اچھا اور غنیمت موقع ہے، یہ موقع کہیں اور پیدا نہیں ہوسکتا،  یہاں پر بین الاقوامی اسلامی حلقہ تشکیل پایا ہےآپ کا ایکدوسرے کے پاس  بیٹھنا، ایک ماحول اور ایک ہی فضا میں سانس لینا، ایکدوسرے کے ساتھ آپ کی آشنائی، یہاں پر پہلا بین الاقوامی علمی اسلامی ایک حلقہ تشکیل پایا ہے آپ اس فرصت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔

آپ جوان ہیں، جوان سب سے بڑا سرمایہ ہیں، جوان کا دل پاک اور نورانی  ہوتا ہے، میرے عزیزو! اس پاک اور نورانی دل سے استفادہ کیجئے، آپ اپنا رابطہ خداوند متعال سے مضبوط اور مستحکم کیجئے وہ جوان جس کے اندر آمادگی ہے اگر وہ اپنے دل کو توسل، تضرع و زاری، ذکر اور خشوع کے ساتھ  اللہ تعالی سے آشنا بنا سکتا ہےتو یہ وہی چیز ہوگی جو " نور علی نور"  کا مصداق ہے؛  اللہ تعالی کی معرفت کا نور آپ کے دلوں کو منور کرےگا، گناہ سے دوری اختیار کرنا، اللہ تعالی کے ساتھ انس پیدا کرنا،                   نماز کو غنیمت شمار کرنا اہم امور کا حصہ ہیں۔

اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمتوں میں ایک نعمت نماز ہے نماز ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم دن میں کئی مرتبہ اپنے پروردگار متعال سے گفتگو کریں اپنے خداوند متعال سے مخاطب ہوں ہم اس سے مدد و نصرت طلب کریں اس کے سامنے  اپنی نیاز پیش کریں،  ہمیں اپنے پروردگار کے سامنے تضرع و زاری کے ذریعہ اپنی بندگی و تسلیم کے رشتہ کو مضبوط بنانا چاہیے، بزرگ لوگ نماز کو بہت بڑی اہمیت دیتے تھے، نماز سب کے دائرہ اختیار میں ہے، ہم اکثر نماز کی قد ر و قیمت اور اہمیت کو نہیں سمجھتے ہیں فقط یہ نہیں ہے کہ ہمیں اپنے دوش سے ایک تکلیف اور ذمہ داری کو اتار دینا چاہیے بلکہ یہ ایک عظيم فرصت اور موقع ہے اور اس سے استفادہ کرنا چاہیے، ارشاد ہوتا ہے کہ نماز پانی کے جشمہ کے مانند ہے جو آپ کے گھر میں ہے اور آپ روزانہ پانچ بار اس چشمہ سے اپنے آپ کو دھوتے ہیں ، اور یہ عمل جوانوں دلوں پر یادگار آثار قائم کرسکتا ہے، طہارت و تقوی کے ذریعہ انسان اللہ تعالی سے بات میں تاثیر کا ہدیہ حاصل کرسکتا ہے۔

ملک کی عام و عظيم فضا میں اور سخت و دشوار حالات میں حضرت امام (رہ) کے ایک کلمہ کی حیرت انگیز تاثیر کی اصل وجہ ان کی معنویت میں مضمر اور پوشیدہ تھی، ان کی باطنی پاکیزگی عظیم تھی، خدا وند متعال کے ساتھ ان کا گہرا رابطہ اور لگاؤ تھا، آدھی رات میں بہنے والے آنسو تھے، حضرت امام (رہ) کے فرزند مرحوم حاج سید احمد خمینی نے حضرت امام (رہ) کی حیات میں مجھ سے کہا: حضرت امام (رہ) آدھی رات کو جب اٹھتے ہیں  تو وہ اتنا گریہ کرتے ہیں کہ معمولی رومال ان کے آنسو صاف کرنے کے لئے کافی نہیں ہوتے ہیں؛ اور وہ اپنے آنسوؤں کوتولیہ سے صاف کرتے ہیں؛ وہ اسقدر آنسو بہاتے تھے، وہ فولادی مرد ، اور وہ عظیم انسان جس کے پائے ثبات میں ایسے سخت و دشوارحوادث کوئی خلل ایجاد نہیں کرسکے جو ایک قوم  کو ہلا کر رکھ دیتے ،  وہ عظيم انسان کہ جس کی نگاہ میں دنیاوی طاقتوں کی کوئی قدر وقیمت نہیں تھی لیکن وہی انسان اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس طرح اشک بہا رہا ہے وہ اللہ تعالی کے سامنے گریہ و زاری اور دعا کررہا ہے یہ بہت قیمتی عمل ہے ان فرصتوں کی قدر و قیمت پہچانیے۔

مین یہ بات پھر عرض کرتا ہوں کہ آج مجھے آپ عزیزوں سے ملاقات کرکے بہت بڑی خوشی نصیب ہوئی، جناب آقای اعرافی  اور جامعہ المصطفی کے دیگر حکام، اہلکاروں ، اساتید اور تمام ان افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس عظیم حرکت میں اپنا اہم نقش ایفا کیا ہے۔

انشاء اللہ خداوند متعال آپ سب پر اور تمام ان افراد پراپنا لطف و کرم نازل فرمائے جنھوں نے اس راہ میں مدد فراہم کی ہے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

(1)
اعراف: 157
2)
)توبه: 122
3)
)مدثر: 1 - 7
(4)
بحارالانوار، ج 2، ص 30