ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا قم میں عوام کے عظیم اجتماع سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على  سيّدنا و نبيّنا ابى القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌

میں حضرت ثامن الآئمہ امام رضا ( علیہ آلاف التحیۃ والثناء )  اور اسی طرح عشرہ کرامت اور حضرت معصومہ ( سلام اللہ علیھا ) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارک باد پیش کرتا ہوں ، اللہ تعالی کا شکر و سپاس ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے قم کے عظيم، عزیز اور غیور عوام کے ساتھ ملنے کا ایک بار پھر موقع عطا کیا، قم کا شہر علم کا شہر ہے، جہاد کا شہر ہے، بصیرت کا شہر ہے قم کے عوام کی بصیرت ایک اہم نکتہ ہے جسے قم کے عوام نےگذشتہ تیس برسوں میں ہمیشہ عملی طور پرثابت کیا ہے۔ یہ امرقابل توجہ امرہے کہ قم بصیرت اورجہادی حرکت کے ہمراہ معرض وجود میں آیایعنی اشعری خاندان یہاں آیا اور اس نے اس خطے کو اپنی سکونت کا محل قرار دیا،  در حقیقت انھوں نے اس جگہ کو اہلبیت اطہار ( علیھم السلام ) کے معارف کو نشر کرنے کا محور اورمرکز قراردیا، انھوں نے یہاں پرایک ثقافتی جہاد کا آغاز کیا، اشعریوں نے قم میں آنے سے قبل جنگ و پیکار کے میدان میں بھی جہاد کے عظیم  اور قابل قدرجوہر دکھائے تھے؛ انھوں نے فوجی جہاد بھی کیا تھا، اشعریوں کے بزرگ نے زيد بن علی (علیھماالسلام ) کے ہمراہ میدان جہاد میں بھر پورشرکت کی تھی؛ اور اسی وجہ سے حجاج بن یوسف  ان کے خلاف بہت زيادہ غیظ و غضب اور غصہ میں ڈوبا ہوا تھا اور اشعری وہاں سے نکلنے پرمجبور ہوگئے اوروہ یہاں پہنچ گئے اور یہاں آکر آباد ہوگئے ، انھوں نےاس علاقہ کو اپنی بصیرت، اپنے علم، اپنی تلاش و کوشش کے ذریعہ علم و دانش کا مرکز قراردیا اور یہی امر اس بات کا سبب بھی بنا کہ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا اس علاقہ میں پہنچیں تو انھوں نے اشعریوں کی وجہ سےقم جانے کا اظہار کیا؛ اور اشعری خاندان کے لوگ گئے اور انھوں نے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کا والہانہ استقبال کیا اور حضرت بی بی کو اس شہر میں عزت و احترام کے ساتھ لے آئے اور یہ نورانی بارگاہ اسی دن سے اور حضرت معصومہ  سلام اللہ علیھا کی وفات کے بعد سےاس شہر میں نور افشانی کررہی ہے۔ قم کے لوگ جو اس عظیم ثقافتی حرکت کو معرض وجود میں لانے والےتھے انھوں نے اس دن سے اس شہر میں اہلبیت علیھم السلام کے معارف کا مرکز تشکیل دیا اور انھوں نے سیکڑوں عالم، محدث، مفسر، اسلامی اور قرآنی احکام کے مبلغ مشرق و مغرب میں عالم اسلام کے گوشہ گوشہ میں روانہ کئے، قم سے علم  خراسان، عراق اور شامات کے علاقوں میں منتقل ہوا، ان ایام میں قم کے عوام کی بصیرت کا یہ عالم تھا؛ کہ قم کی بنیاد بصیرت اور جہاد کے محور پر رکھی گئی۔

ہمارے موجود ہ دور میں بھی بالکل یہی مسئلہ رونما ہواہے ؛ یعنی قم اسلامی اور الہی معارف کی سب سے بڑی اور عظیم دینی درسگاہ بن گئی ہے، اور بزرگ علماء کی موجودگی ، بصیرت اور تلاش و کوشش کی بدولت یہاں علم کا ایک سرچشمہ ابل پڑا ہے جس سے عالم اسلام کا مغرب و مشرق فیضیاب ہورہا ہے۔

میں دو اہم تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہوں اوران دونوں اہم موقعوں پر قم کے لوگوں نے حقیقی نقش  و حقیقی کردارایفا کیاہے؛ قم کے لوگوں نے ان دو اہم اور تاریخی موقعوں پریاد گار اور مؤثر نقوش قائم کئے ہیں؛ ان میں سے پہلا واقعہ سن 1342 ہجری شمسی میں عاشورا اوراس کے دو دن بعد پندرہ خرداد کو رونما ہونے والا واقعہ ہے، اس سال عاشور کے دن قم کے لوگ اسی مدرسہ فیضیہ میں جمع ہوئے تھے، قم کے لوگوں نے امام (رہ) کی بلند اور عظیم آوازکو  سنا، اور اپنی جانوں کو آمادہ کرلیا اور دو دن کے بعد جب قم کے لوگوں نے حضرت امام (رہ) کی گرفتاری کی خبر سنی،  تو وہ حرم مطہرکے صحن میں جمع ہوگئے، ان کی یہ عظیم حرکت اس بات کا موجب بن گئی کہ حضرت امام (رہ) کی رہبری میں علماء کی تحریک  حوزہ علمیہ اور دینی درسگاہ  تک محدود نہ رہی ؛ وہ تحریک معاشرے میں داخل ہوگئی اور اس تحریک کے پیشرو قم کے لوگ تھے اور انھوں نے یہ مایہ ناز اورعظیم کام انجام دیا۔

دوسرا واقعہ 1356ہجری شمسی میں رونما ہوا جس میں قم کے لوگوں نے دشمن کی طرف سے حضرت امام (رہ) کی توہین کی سازش کو گہرائی کے  ساتھ درک کرلیا تھا، لوگ سمجھ گئے تھے کہ مسئلہ کیا ہے؛ دشمن کے پیش نظر صرف حضرت  امام (رہ) کی توہین ہی  نہیں ہے،اس خيانت آمیز حرکت کے مقابلے میں سب سے پہلے قم کے لوگوں نے وسیع پیمانے پر مظاہرے کئے۔ اورقم کے جوانوں کا لہوان سڑکوں پر، ارم روڈ پر، چہار مرداں روڈ پر زمین پر بہا ، جوان شہید ہوئے ؛ انھوں نے اپنے خون سے اپنی بات کی سچائی کو ثابت کیا، انقلاب کی کامیابی کے بعد گذشتہ تیس برسوں میں تمام مواقع پر قم کے لوگ سچائی کے ساتھ ، خلوص کے ساتھ ،ہمدردی اور بصیرت کے ساتھ تمام  میدانوں میں موجود رہےہیں، دشمن نے قم کے لئے باقاعدہ طور پر سازشی منصوبہ بنا رکھا تھا؛اگر قم کے لوگ بیدار نہ ہوتے، اگر قم کے لوگ  اہل بصیرت نہ ہوتے توقم کے بارے میں  دشمن کے سازشی منصوبےبڑے خطرناک  منصوبے تھے،  عوام کی بیداری اور اس شہر میں حوزہ علمیہ کی موجودگی کی وجہ سے یہ شہر بصیرت کا مرکز بن گیا ہے۔

مرحوم آیت اللہ حائری (مؤسس اور بانی حوزہ علمیہ قم) کے دور سے ہی اس شہرمیں بڑے بڑے اوربزرگ علماء موجود رہے ہیں؛ مرحوم آیت اللہ بروجردی اور موجودہ  مراجع ؛ مرحوم آیت اللہ گلپائگانی، مرحوم آیت اللہ اراکی ، مرحوم آیت اللہ مرعشی۔ مرحوم آیت اللہ بہجت، اور الحمد للہ آج بھی اس شہر میں بزرگ مراجع تقلید موجود ہیں، ممتاز فضلا موجود ہیں؛ حوزہ علمیہ فیض و برکت کا باعث ہے اور اس شہر کےسچے ، باوفا ، صاحب بصیرت اور فی سبیل اللہ مجاہد لوگوں  نے واضح کردیا ہے کہ وہ حوزہ علمیہ کی قدر و قیمت پہچانتےہیں، علماء کی قدر و قیمت جانتے ہیں ضروری موقع پر اپنی موجودگي کا مظاہرہ کرتے ہیں،  اور یہ وہی شہر ہے جہاں سے اس عظیم انسان  یعنی حضرت امام خمینی (رہ) نے قیام کیا یہ شہر انقلاب کی امید اور انقلاب کا مرکز اور محورہے۔

اس عظیم اجتماع میں میری گفتگو کا وقت محدود وقت ہے عوام کی محبت و الفت کی وجہ سے راستہ میں ہمارا کافی وقت گذر گيا، ہم لوگوں کے اژدھام  اور بھیڑکی وجہ سے سڑکوں پر کافی دیر تک معطل رہے جس کی وجہ سے کافی وقت بیت گیا ، میں یہاں صرف چند مختصر جملے عرض کرنا چاہتا ہوں۔

اول یہ  کہ قم انقلاب کا مرکز ہے قم ملک کا سب سے اہم مذہبی شہر  ہے قم موجودہ دور کے سب سے عظیم انقلاب کا مرکز اور پناہ گاہ ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری دنیا یہ جان لے کہ یہ انقلاب ایک دینی اور مذہبی انقلاب ہے اس انقلاب کے بارے میں تفسیر بالرائے اورکوئی مادی تفسیر نہیں کی جاسکتی؛ اس کا مرکز قم ہے؛ اس کا رہبر ایک فقیہ، ایک عظیم عالم ، ایک عظيم فلسفی اور ایک عظیم معنوی شخصیت ہے دنیا میں اس انقلاب کا شناختی کارڈ یہ ہے اور یہ ایک اہم نکتہ ہے۔

اس نکتہ کے بعد اس مطلب کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ اس  انقلاب کے دشمنوں نے جب بھی اس انقلاب اور اسلامی نظام کو چوٹ پہنچانے کی کوشش کی ہے تو انھوں نے اپنے حملوں کا نشانہ کونسی جگہ کو بنایا ہے؟ دشمنوں نے اپنے حملوں کا نشانہ دو اساسی اور بنیادی جگہوں کو بنایا ہے؛ ایک دین اور دوسرے عوام اور عوام کی وفاداری کو نشانہ بنایا ہے،  وہ جانتے ہیں کہ اگر یہ انقلاب ایک دینی اور مذہبی انقلاب نہ ہوتا تو اس میں مزاحمت اور مقاومت کی طاقت و قدرت بھی  نہ ہوتی؛  کیونکہ دین اپنے ماننے والوں کو ظلم کے سامنے تسلیم ہونے سے  منع کرتا ہے، ظالم کے ساتھ مقابلہ کرنے کی تشویق اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ انسانوں کو عدل و انصاف، معنویت اور پیشرفت کی طرف راغب کرتا ہے یہ دین کی خصوصیت ہے، لہذا وہ نظام جو دین کی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ منہ زور اور تسلط پسند دشمنوں کے مقابلے میں تسلیم ہونے دے، اگر دین کا عنصر اس انقلاب میں نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ انقلاب کے عہدیدار اور انقلاب کے رہنما امتیاز حاصل کرکے دشمن کے مقابلے میں پیچھے ہٹ جاتے اور دشمن کے دوبارہ تسلط کے لئے راستہ ہموار کردیتے؛ لیکن چونکہ دین اس انقلاب کی ریڑھ کی ہڈی ہے لہذا اب تک ایسا کوئی معاملہ پیش نہیں آیا ہے اور اس کے بعد بھی پیش نہیں آئے گا۔

حضرت امام (رہ) کا بھی ہمارے اور ہماری عزيز قوم کے لئے یہی درس تھا، آپ اپنی طاقت پر ایمان رکھئے اور اپنی اس طاقت میں روزبروز  اضافہ کرنے کی تلاش و کوشش کیجئے، اور اللہ تعالی کے وعدوں پر اطمینان اور اعتماد رکھئے؛ اگر آپ نے استقامت کا مظاہرہ کیا ، اگر آپ نے تدبیر کے ساتھ حرکت کی ،تو آپ مطمئن رہیں کہ اللہ تعالی کی مدد اور نصرت آپ کے شامل حال رہےگی۔، یہ لوگوں کے دیندار ہونے  اور اس انقلاب اور اسلامی نظام کے دینی ہونے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔

یہ انقلاب عوامی انقلاب ہے، اس انقلاب کو عوام کی زبردست حمایت ، مدداور پشتپناہی حاصل ہے؛ اسلامی نظام کو عوام کی مکمل حمایت اور تائید حاصل ہے اور گذشتہ تیس برس میں عوام نے عملی طور پر اپنی بھر پور حمایت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔

اگر عوام کی میدان میں موجودگی نہ ہوتی، اگر عوام اور اسلامی نظام کے درمیان فاصلہ ہوتا،  تو دشمنوں کے مقابلے میں اسلامی نظام مزاحمت اور مقاومت کے جوہر نہیں دکھا سکتا تھا۔ عوام کا یہ مستحکم اور پائدار حضور ہے جو حکام کی استقامت کا پشتپناہ ہے، یہ دو نقاط اصلی نقاط ہیں؛ دین اور عوام ،  لہذا دشمن نے بھی انہی دو نقطوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے؛ دین کے خلاف وہ ایک طرح حملہ کرتا ہے اور عوام کے اعتقاد اور وفاداری کے خلاف دوسرے زاویہ سے حملہ کرتا ہے، یہ آپ سن ساٹھ کی دہائي اور حضرت امام (رہ) کی با برکت زندگی کے دور سے مشاہدہ کررہے ہیں کہ بیرونی دشمن یا ملک کے اندر ان کے نوکر اور غلام دینی مقدسات کی توہین ، دینی حقائق کی بے حرمتی اور اسلام کے واضح اور روشن حقائق کے بارے میں شک و تردید اور ان کا انکار کررہے ہیں یہ کوئی اتفاقی کام نہیں ہے؛ اور اس بات پر وہ تکیہ کئے ہوئے ہیں اس مسئلہ کا آغاز سلمان رشدی سے ہوا اور اسلام کے خلاف ہالی وڈ کی فلموں ، توہین آمیز کارٹونوں ، قرآن مجید کو آگ لگانے اور دنیا کے مختلف گوشوں میں اسلام کے خلاف  گوناگوں حوادث و واقعات تک اسلامی مقدسات کی توہین سلسلہ جاری رہاہے تا کہ اس حرکت و عمل کے ذریعہ اسلام اور اسلامی مقدسات کے بارے میں لوگوں کے ایمان کو کم کرسکیں، ملک کے اندر مختلف طریقوں سے وہ  عوام اورجوانوں کے ایمان کو کمزوراورمتزلزل کرنے کی تلاش و کوشش میں مشغول ہیں؛ وہ ملک میں بے حیائی اوربے دینی پھیلا رہے ہیں حقیقی عرفان کے برعکس جھوٹے عرفان کو فروغ دے رہے ہیں ، بہائیت کی ترویج کررہے ہیں، گھروں کے اندر گرجا گھروں کا نیٹ ورک قائم کررہے ہیں یہ وہ کام ہیں جو دشمنان اسلام پہلے سے طے شدہ منصوبہ  ، مطالعہ اور تدبیر کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔

اسلام اور انقلاب کے بارے میں لوگوں کی وفاداری کو کم کرنے کے لئے بھی وہ بہت سے کام کررہے ہیں؛ پروپیگنڈہ کرتے ہیں،عوام کو ملک کےحکام اور سربراہان قوا کے بارے میں مایوس کرنے کے لئے غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کررہے ہیں ، بد گمانی کا بیج بو رہے ہیں۔ ملک کے اندر جو بھی اچھا اور قیمتی کام انجام پاتا ہے اس کے بارے میں وہ اپنے ذرائع ابلاغ میں شک اور تردید پیدا کرتے ہیں، لیکن وہ معمولی خامیوں اور کمزوریوں کو کئی گنا بڑھا کر پیش کرتے ہیں اور لوگوں کو مایوس اور نا امید کرنے کے لئےقوی نقاط کو بالکل بیان ہی نہیں کرتے ہیں بالخصوص وہ جوان نسل کو مایوس کرنے کی کوشش میں ہیں، ایران کے مستقبل کو عوام اور جوان نسل  کے سامنے تاریک بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں ہیں اوران کی یہ تمام کوششیں عوام کو میدان سے باہر کرنے کے لئے ہیں ۔ لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ ایرانی عوام اور انقلاب اسلامی کے دشمنوں نے گذشتہ بتیس برسوں میں ان دونوں موارد کے سلسلے میں جوعظیم سرمایہ صرف کیا وہ بالکل تباہ و برباد ہوگيا اور اس سلسلے میں ان کی ہر قسم کی جد و جہد اور تلاش وکوشش بھی ناکام ہوگئی اور حقیقی معنی میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ، انھوں نے یہ خیال اور تصور کیا تھا کہ لوگوں کو انقلاب اسلامی سے جدا کیا جاسکتا ہے لیکن وہ دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں کی دین اور دینی اقدار سےمحبت اور لگاؤ میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے لوگ اپنے دینی مسائل اور احکام پرمزيد پابند ہیں ان میں معنوی اقدار کے بارے میں لگاؤ اور دلچسپی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، ہمارے ملک میں کب اتنی بڑی تعداد میں جوان معنوی تقریبات میں شرکت کرتے تھے؛ رمضان المبارک  اور عید الفطرکی عبادی اور معنوی تقریب میں؟ یہ عظیم اجتماعات، اور سیاسی مسائل کے بارے میں لوگوں کے اندر اتنی معلومات اور روشنی ، بے نظیر اور بے مثال ہے گذشتہ برس 1388 ہجری شمسی میں بعض محدود لوگوں کی جانب سے عاشور کے دن حضرت امام حسین (ع) کے بارے میں جو توہین ہوئی تھی تو دو دن بعد 9 دی کو لوگ سڑکوں پر آگئے اور اپنے واضح مؤقف کا اظہار کردیا، دشمن کے پروپیگنڈوں کی وجہ سے نہ صرف لوگ دین سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں بلکہ دین کے بارے میں لوگوں کے اندر احساسات اور جذبات کا روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

بیشک  اوربلا شبہ دشمنان اسلام ، لوگوں کو اسلامی نظام سے الگ کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں گذشتہ برس 40 ملین لوگوں نے انتخابات میں شرکت کی ، یہ در حقیقت اسلامی نظام کے حق میں چالیس ملین افراد کا واضح رفرینڈم تھا اور عوام کی اسی حرکت کی وجہ سے دشمن غیظ  و غضب میں آگیا اور انھوں نے فتنہ کے ذریعہ اس کے اثر کو  مٹانے اور زائل کرنے کی کوشش شروع کی لیکن وہ اس میں بھی ناکام ہوگئے لوگ اس فتنہ کے مقابلے میں بھی ڈٹ گئے ، عوام فتنہ کے خلاف کھڑے ہوگئے، گذشتہ برس ( 1388 ہجری شمسی )کے فتنہ  کی وجہ سے ملک مزید محفوظ ہوگیا؛ اس فتنہ کی وجہ سےلوگ سیاسی اور سماجی جراثیموں کے بارے میں آگاہ ہوگئے یہ خطرناک جراثیم لوگوں پر اثر انداز ہوسکتے تھے ؛ اس فتنہ کے باعث عوام کی بصیرت میں مزید اضافہ ہوگیا۔

گذشتہ برسوں میں ملک کی بعض مطبوعات میں علم وفہم کے مدعی بعض افراد نے دین کے خلاف ، اسلامی اصولوں کے خلاف اپنے قلم سے خوب استفادہ کیا لیکن ان کی ان حرکتوں نے بھی عوام پر کوئي اثر قائم نہیں کیا، آپ کو اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ دشمن دین کے بارے میں دو اساسی اور بنیادی نکتوں کا پیچھا کرتا ہے؛ کیونکہ انھیں معلوم ہوگيا ہے کہ یہ دو نکتہ عوام کے اندر کس قدر مؤثر ہیں: ایک نکتہ یہ کہ وہ ایسے اسلام کے پیچھے ہیں جس میں علماء کا کوئی کردار نہ ہو اسلام بغیر علماء ، کیونکہ انھیں ایرانی معاشرے میں علماء کے حیرت انگيز اثر کے بارے میں معلوم ہے وہ جانتے ہیں علماء کاعوام پر کتنا زیادہ اثرو رسوخ ہے اور اس اثر کی بنا پر یہ ‏عظيم حرکت وجود میں آئی ہے البتہ انقلاب اسلامی سے پہلے بھی وہ اس قسم کی باتیں کرتے تھے، انقلاب میں علماء کی موجودگی اور انقلاب میں ان کی پیشقدمی نے وقتی طور پر اس قسم کی تبلیغات کا منہ بند کردیا؛ لیکن انھوں نے اس قسم کی باتوں کا سلسلہ پھر شروع کردیا ہے۔ دوسرا نکتہ جس کے پیچھے دشمن ہے وہ سیاست کو اسلام سے الگ سمجھنے کا نکتہ ہے وہ سیاست کو دین سے الگ قراردیتے ہیں، یہ وہ موضوعات ہیں جن کے بارے میں وہ آج مطبوعات، ذرائع ابلاغ، تحریرات اور انٹرنیٹ ذرائع میں شدت کے ساتھ تبلیغ کررہے ہیں، یہ مسئلہ ان کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے، ہمیں دشمن کی ان کوششوں کے بارے میں توجہ رکھنی چاہیے جس چیز پر دشمن زیادہ تکیہ کرتا ہے جس چیز کے بارے میں دشمن منصوبہ اور نقشہ تیار کرتا ہے اور اپنی توجہ اس پر مبذول  اور متمرکزکرتا ہے وہ ہمارے لئے بھی ایک جامع منصوبہ اور نقشہ تیار کرنے کا باعث بن سکتا ہے جن چیزوں کو دشمن اپنے حملوں اور اپنی یلغار کا نشانہ بنانا چاہتا ہے ہمیں ان کی حفاظت کے لئے بہت زيادہ توجہ مبذول کرنی چاہیے، ہمیں ان چیزوں کی مکمل حفاظت کرنی چاہیے؛ میدان میں عوام کی موجودگی اور  دینی و اسلامی معارف کے فروغ پر خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

انھوں نےسال 58 اور 59 ہجری شمسی سے ہمارے خلاف اقتصادی پابندیوں کا آغاز کیا؛ اقتصادی پابندیوں میں شدت لانے کا مقصد در حقیقت  عوام پر دباؤ قائم  کرنے کے لئے تھاتاکہ لوگ اسلامی نظام سے الگ ہوجائیں، لیکن خوش قسمتی سے حکام نے بھی کہا ہے عوام نے بھی اعلان کیا ہے او عملی طور پر ثابت بھی کیا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ان اقتصادی پابندیوں کا عوام کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑےگا اور جن لوگوں نے سن ساٹھ کی دہائی اور انقلاب کے پہلے عشرے کی مشکلات کو برداشت اورتحمل کیا، آج عظیم ترقیات کے پیش نظر ان کے اطیمنان میں مزید اضافہ ہوا ہے اور لوگ جانتے ہیں کہ ان کا مستقبل درخشاں اور تابناک ہے اور وہ دشمن کے مد مقابل میدان میں موجود ہیں اوروہ دشمن کی سازش کو ناکام بنادیں گے۔

اس بات کےپیش نظر کہ اول وقت نماز ادا کرنے میں مؤمنین کے لئے کوئی خلل ایجاد نہ ہو میں دشمن کے نقشہ کے پیش نظر صرف رفتار کی اصلاح کے بارے میں کچھ مختصر اصول بیان کرتا ہوں۔

ایک مسئلہ قومی اتحاد کا مسئلہ ہے، یہ خطاب خواص اور عوام سب کے لئے یکساں ہے، ہمیں اتحاد کے مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ لینا ہوگا۔ میں نے قومی اتحاد کے بارے میں کافی باتیں بیان کی ہیں اور اتحاد کے کچھ ملاک اور معیار بھی میں نے بیان کئے ہیں کسی کا صرف یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ہم اتحاد کے طرفدار ہیں؛ اتحاد کی کچھ علامتیں ہیں ، اتحاد کے کچھ اصول اور معیار ہیں۔

دوسرا مسئلہ خواص اور عوام کا تینوں قوا کے ساتھ روز افزوں تعاون کا مسئلہ ہے ملک کی تینوں قوا کے ساتھ تعاون میں روز بروز اضافہ ہونا چاہیے، حکام کی مدد کرنی چاہیے؛ بالخصوص قوہ مجریہ کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ اس کے دوش پر سنگین ذمہ داری عائد ہے، پروپیگنڈہ کرنا اور حکومت کی زحمات کو مد نظر نہ رکھنا،ملک کے صلاح و مفاد اور ملک کے مستقل کے لئے صحیح نہیں ہے۔

تیسرا مسئلہ اور نکتہ دینی ایمان کی تقویت کا مسئلہ ہے جوانوں کی فکر اور ان کے سوالات و استفہامات کی ضروریات کو پورا کرنا ہے؛ یہ امر زیادہ تر علماء اور حوزات علمیہ سے متعلق ہے، دشمن مسلسل شبہات پیدا کرنے کی تلاش و کوشش میں مصروف ہے اور علماء کو ان شبہات کا پیہم اور روز مرہ جواب دینا  چاہیے۔

چوتھا مسئلہ اور نکتہ علماء کی درست اور اچھے و بہتر انداز میں معرفی ہے؛ یہ صرف علماء کی ذمہ داری نہیں ہے؛ بلکہ مفکرین اورروشنفکر افراد ، علماء کے نقش و کردار کو ملک و معاشرے میں اچھی طرح  وضاحت کرسکتے ہیں اور عوام کو بتا سکتے ہیں کہ حوزات علمیہ کے  بزرگ علماء و فضلا بالخصوص مراجع عظام نے حساس اور سخت مواقع پر قوم کو سخت اور دشوار مرحلوں سے پار کیا ہے۔

ایک اور مسئلہ جوانوں کے اندر بصیرت میں اضافہ کرنے کا مسئلہ ہے، خود جوانوں کو بھی اپنی بصیرت میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں تلاش و کوشش کرنی چاہیے، دشمن کو پہچاننا چاہیے، دشمن کی روش اور طور و طریقوں کو پہچاننا چاہیے یہ کام خود جوانوں کے دوش پر ہے۔

ایک اور نکتہ جو ہمارے ضروری کاموں کی فہرست میں قرار پانا چاہیے وہ مسئلہ علم کی پیشرفت و ترقی  اور ملک کے جامع علمی نقشہ کی جانب حرکت کا مسئلہ ہے؛ یہی کام جو الحمد  للہ گذشتہ پانچ برسوں سے سرعت کے ساتھ انجام پارہا ہے، علمی پیشرفت کے سلسلے میں اچھے کام انجام دیئے گئے ہیں اس سلسلے میں مزید تلاش و جد وجہد کی ضرورت ہے، انشاء اللہ اس حرکت کو برق رفتاری کے ساتھ جاری رہنا چاہیے، حوزات علمیہ کے اندر بھی ایک عظيم حرکت کا اجراء لازمی ہے؛ انشاء اللہ اس سلسلے میں حوزات علمیہ کے دوستوں ، بھائیوں اور بہنوں سے مزید گفتگو کروں گا۔

ایک اور اہم مسئلہ  جس کی ذمہ دار اور مخاطب حکومت ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے عوامل کو دور اور برطرف کرنے کی تلاش و کوشش کرے جو عوام کے لئے مشکلات پیدا کرتے اور ان کی ناراضگی کا باعث بنتے ہیں؛ عوام کی معیشت کا مسئلہ ، روزگار کا مسئلہ، دفتری اور اداری پیچيدگیوں کا مسئلہ ، اداروں کے اعلی اہلکاروں کا مسئلہ، میونسپلٹی اور شہری انتظامیہ کا مسئلہ،پولیس کا مسئلہ جو براہ راست عوام کے اندر اور ہمیشہ عوام کے ساتھ ہیں اور عوام کی بہت سی مشکلات کو برطرف اور حل کرنے میں کلیدی کردارکرسکتے ہیں اور کہیں خدا نخواستہ عوام کے اندر ناراضگی پیدا نہ کریں لہذا حکومتی اداروں کو مختلف مسائل میں آپس میں ہم آہنگی رکھنی چاہیے؛ باہمی ہمدردی اور تعاون میں اضافہ کرنا چاہیے؛ اختلاف نہیں ہونا چاہیے اور یہ امر بھی حکومتی اداروں سے متعلق ہے۔

کچھ جملے قم شہر کے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں؛ قم انقلاب اسلامی کا مرکز اور محور ہے؛ قم ملک  اور پوری دنیا کے اس عظیم اور تاریخی انقلاب کی پیدائش کی جگہ ہے۔قم  پر بین الاقوامی نگاہ ایک خصوصی نگاہ ہے؛مختلف ممالک سے یہاں رفت و آمد کا سلسلہ رہتا ہے اس کے علاوہ جو لوگ بعض وجوہات اور دلائل کی بنا پر یہاں نہیں آسکتے وہ بھی اس شہر کی بارے میں کافی حساس ہیں،  اس شہر پر ان کی بھی ایک خصوصی نگاہ ہے وہ بھی اس شہر میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر رکھتے ہیں ان کی نظر آپ کے آج کے اس اجتماع پر بھی ہے ممکن ہے وہ اپنی خبروں اور نشریات میں اس کا تذکرہ نہ کریں ، وہ لوگ جو پالیسیاں بناتے ہیں جو پالیسی ساز ہیں، وہ اس کو مشاہدہ کرتے ہیں وہ محاسبہ کرتے ہیں  اور وہ بین الاقوامی تناظر میں دیکھتے ہیں ، اس شہر میں عالم اسلام اور اسلامی تعلیمات کی سب سے بڑی دینی درسگاہ اور سب سے بڑا حوزہ علمیہ ہے۔ حوزہ علمیہ قم سب سےبڑا، عظیم اور بزرگ حوزہ علمیہ ہے کوئي دوسرا حوزہ اتنا بڑا اور عظیم نہیں ہے، قم ایک زیارتی اور معنوی قطب ہے؛ یہاں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا عظيم حرم  اور بابرکت رو ضہ موجود ہے؛ مسجد جمکران بھی قم میں بنی ہوئی ہے گوناگوں امامزادوں کے حرم اس شہر میں موجود ہیں؛ قم کی سڑکوں کے قریب مدفون  امامزدے اگر کسی دوسرے شہر میں ہوتے تو وہ اس شہر کے مرکز اور محور قرارپاتے ، اس مقدش شہر میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تمام ظرفیتیں موجود ہیں۔

طاغوتی دور میں قم قہر و غضب کا شکارتھا لہذا یہا ں بڑے پیمانے پر محرومیت اورپسماندگی ہے اور پسماندگی کو دور کرنے کے لئے اعلی حکام کو سنجیدگی ، متانت اور سرعت کے  ساتھ  کام انجام دینا چاہیے، البتہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد یہاں گذشتہ برسوں میں نمایاں کام انجام دیئے گئے ہیں۔ یہ شہر سنہ 1379 ہجری شمسی سے اس طرف صوبہ میں بھی تبدیل ہوگیا ہے اس کے بجٹ میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اس کے لئے مزید بجٹ منظور کیا گیا ہےجیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی ہے سنہ 1384 ہجری شمسی کے بعد بجٹ کو اس شہر میں صرف کیا گیا ہے لہذا اس شہر میں بہت اچھے کام انجام دیئے گئے ہیں اس کی پسماندگی اور محرومیت کو کافی حد تک دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے؛ لیکن وہ تمام کام مکمل ہونے چاہییں جن کا اس شہر کے لئے انجام دینا بہت ضروری ہے اور یہ شہر عوام کی ضروریات کے لحاظ سے بھی اور شہری ترقی اور پیشرفت  کےلحاظ سے بھی قم کے عوام کی شان و عظمت کے مطابق ہونا چاہیے۔

پانی کا مسئلہ اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے؛ اور گذشتہ کئی برسوں سے اس مسئلہ کا سنجیدگی کے ساتھ پیچھا کیا گیا ہے اس سلسلے میں بہت ہی عمد ہ کام انجام دیئے گئے ہیں اس  کام کا بہت بڑا مرحلہ انجام پا گیا ہے اور یہاں  میں  اس کام میں مشغول اہلکاروں کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں ؛ اور متعلقہ حکام سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہوں کہ  قم کے لئے جو دور دراز کے چشموں سے پانی لایا جارہا ہے اس کو بہت جلد اور سرعت کے ساتھ قم پہنچانے کی کوشش کریں اور قم کے  لوگوں کی یہ بنیادی اور اساسی ضرورت بہت جلد اور سرعت کے ساتھ پوری ہونی چاہیے۔

قم میں زراعت کا مسئلہ بھی بڑا اہم مسئلہ ہے میں نے سنا ہے کہ تہران سے مسیلہ علاقہ میں پانی لایاجائے گا اور قم کی زراعت جو کبھی اس علاقہ میں پر  رونق ہوا کرتی تھی ایک بار پھر اس میں رونق پیدا ہوجائے گی ۔

قم کی مقامی اور دستی صنعت کی بھی حمایت کرنی چاہیے بالخصوص قم کے معروف فرش کی حمایت بہت ضروری ہے ، انشاء اللہ ہم اس سفر میں حکام کو اس سلسلے میں مزید سفارش اور تاکید کریں گے۔

 

میں قم کی شہری تعمیر اور معماری کے بارے میں خاص طورپر تاکید کرتا ہوں ، آج قم میں بہت ہی اچھے اور نمایاں کام انجام دیئے جارہے ہیں تعمیراتی کاموں کا سلسلہ چل رہا ہے ان تعمیرات میں اسلامی معماری کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے اس شہر کے علائم اس شہر کی معماری میں جلوہ گر ہونے چاہییں کیونکہ یہ شہر انقلاب اور اسلام کا شہر ہے۔

آخری مسئلہ اور نکتہ یہ ہے کہ اگر اس شہر کے حکام کے درمیان آپس میں کسی مسئلہ میں کوئی اختلاف ہے تو اس اختلاف کا اثر عوام کی زندگی پر نہیں پڑنا چاہیے اس سے عوام کے لئے مشکل پیدا نہیں ہونی چاہیے مختلف اداروں میں آپس میں اختلافات ہوتے ہیں  اور ممکن ہے ان اختلافات کا اثر عوام کی زندگی پر پڑے؛ میں نے ان امورکو یہاں یاداشت کیا ہے میں ان کو یہاں ذکر نہیں کروں گا؛ لیکن میری ایک کلی اور مجموعی سفارش یہ ہے کہ سب کو ایکدوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر عوام کی خد مت کرنی چاہیے حکام کو باہمی ہمدردی ، ہمدلی اور آپسی تعاون کے ساتھ عوام کی خدمت کرنی چاہیے؛ عوام نےبھی ہمیشہ اپنی حمایت ، تعاون اور اپنے عظیم حضور کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے اور آج بھی وہ میدان میں موجود ہیں  ملک کے اندراس دور میں جو عظیم کام انجام دیئے گئے ہیں وہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائيں تاکہ ان کے فوائد سے عالم اسلام بہرہ مند ہوسکے۔

پروردگارا ! محمد اور آل محمد کے طفیل ان لوگوں اور ایران کی پوری قوم پر اپنی برکات نازل فرما، پرودگارا ! ہم کو ان لوگوں کا قدرداں قراردے ،جن کی تلاش و کوشش سے یہ کام یہاں تک پہنچا ہے، پرودگارا! ہم کو حقیقی معنی میں اسلام کا سپاہی قراردے، ملک کے عزیز خدمتگذاروں اور حکام کو خدمت کی توفیق عنایت فرما، حکام کے منصوبوں اور پروگراموں میں عوام کی خدمت اور مدد کو اپنی توفیق ، مدداور نصرت کے ذریعہ  آسان فرما، امام زمانہ (عج) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرما، ان کی غیبت اور ان کے حضور کے زمانہ میں ہمیں ان کے دوستوں میں شامل فرما۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ