ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا قومی نشریاتی ادارے کے سربراہ بعض اہلکاروں اورفنکاروں سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

میں آپ عزیز دوستوں، بھائیوں، بہنوں اور ممتاز فنکاروں کو بہت زیادہ  خوش آمدید کہتاہوں، آپ کاوجود حقیقی معنیٰ میں ہمارے لئے غنیمت ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس سے پہلے میں کبھی بھی ایسی بہترین ترکیب کے اجتماع سے روبرونہیں ہوا ، کہ  جس اجتماع میں کچھ ایسے افراد کی آراء و نظریات  سے مستفید ہوں اور ان محبوب چہروں کی زیارت کر سکوں کہ اس سے پہلے  جن کا صرف نام سنا تھا یا ٹیلیویژن کی اسکرین پر انہیں دیکھا تھا ۔

الحمد للہ آج یہ موقع میسّر آیا کہ ہم نے آپ دوستوں میں سے بعض کو نزدیک سے دیکھا اور ان کے خیالات سنے۔ بقول شاعر:" بہ چشم، آنچہ شنیدم زداستان ، دیدم" ( میں نے جو داستان سنی تھی اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا)آپ دوستوں کی زیارت میرے لئے بہت دلچسپ ہے ۔ آپ اطمینان رکھیے کہ اگر دامنِ وقت میں گنجایش ہوتی تو میرے اندر اتنا حوصلہ تھا کہ میں کئی گھنٹے تک بیٹھا رہتا اور مزید افراد کے خیالات سنتا ، شاید ان تمام افراد کی باتیں سنتا جو یہاں اظہارِ خیال کرنا چاہتے تھے ، میں ان باتوں کی سماعت سے کافی لطف اندوز ہوتا ہوں۔ آپ کے ذہن میں ایسے بہت سے نکات ہیں جن کے بارے میں آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کو ہم تک منتقل کر کے کچھ امور کی اصلاح کی جاسکتی ہے یا ایسے نکات  کی طرف توجّہ دلائی جاسکتی ہے جو موردِ غفلت قرار پائے ہیں ۔

وقت بہت  کم ہے ، میں نے اس جلسہ میں بیان کرنے کے لئے بہت سے مطالب کو یادداشت کر رکھا تھا  ، ہمارے پاس صرف اذانِ ظہر تک کا وقت ہے ، جب اذان ہوگی تو میں ناگزیر طور پر آپ سے جدا ہوجاؤں گا ، ہمارے پاس ، ۲۵ منٹ سے لے کر آدھے گھنٹہ تک کا وقت ہے ، اسی مختصر سے وقت میں ، میں کچھ مطالب آپ کے سامنے پیش کروں گا ۔

آپ کے خیالات کو سننے کی آمادگی اور حوصلہ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میرے خیال میں ریڈیو اور ٹیلیویژن ، بالخصوص دورِحاضرمیں فنِ تمثیل یعنی فلموں اور سلسلہ وار ڈراموں کا شعبہ  ہمارے لئے کسی بھی دور سے زیادہ اہم ہے ۔  ٹیلویژن کے سلسلہ میں ، میں نے کبھی بھی لاپرواہی نہیں برتی ، اس پر سرسری نظر نہیں ڈالی اور نہ ہی اس کے پروگراموں کی کمّیت  کو اہمیت دی  ہے ۔ تمثیلی فنون بہت اہم ہیں، ان فنون کی تاثیر کا دائرہ بہت وسیع ہے ، معاشرے کی ثقافتی تعمیر و ترقی میں  تمثیلی فنون کا ناقابلِ تردید کردار ہے ، چونکہ ہم ایک زندہ قوم ہیں ، ایک صاحب فکر و نظر قوم ہیں ، ہمیں اپنی شناخت اور وجود کا احسا س ہے اس لئے ہمارے دشمن بھی بہت زیادہ ہیں ، آج ہمیں نت نئی عداوتوں کا سامنا ہے ، مختلف راستوں اور طورطریقوں سے ہم سے دشمنی کی جارہی ہے منجملہ مختلف فنون سے استفادہ کیا جارہا ہے ، سب سے بڑھ کر  تمثیلی فنون  (فلم و سنیما) کو استعمال کیا جارہا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ ایک زندہ اور دنیا کے لئے نیا پیغام رکھنے والی قوم کے اعتبار سے تمثیلی فنون  کو کس قدر اہمیت دینا چاہیے  ،اس پر مادی و معنوی سرمایہ کاری کرنا چاہیے ، یہی وجہ ہے کہ میں اس موضوع کو بہت اہمیت دیتا ہوں ۔

         دورِحاضر میں ریڈیو و ٹیلیویژن کا کردار بہت اہم ہے اور اس کی ذمّہ داریاں بھی بہت سنگین ہیں ،  میرے عزیز دوستو !ریڈیو اور ٹیلیویژن کا ایک انتہائی حسّاس شعبہ آپ کے اختیار میں ہے آپ اپنے  ملک کے حال و مستقبل کی تعمیر میں ناقابل تردید کردار کے حامل ہیں۔ ہم ریڈیو اور ٹی وی کو فکری ہدایت کا سب سے بڑا مرکز سمجھتے ہیں ، امامِ امّت نے ریڈیو و ٹیلیویژن کو ایک عظیم یونیورسٹی قرار دیا ، اس میں تکلّف و تصنّع والی کوئی بات نہیں ہے بلکہ یہ عینِ حقیقت ہے ؛ ریڈیو و ٹیلیویژن حقیقی معنیٰ میں ایک یونیورسٹی ہے ۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہمارے عوام اس یونیورسٹی کے صاف و زلال الٰہی اور انسانی معارف ، اس کے انسانی و سیاسی سرچشمہ سے سیراب ہوں ، زندگی کے مختلف دروس حاصل کریں ؛ ہمیں ریڈیو و ٹی وی سے یہ امّید ہے ، اب آپ کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ آپ اس سلسلہ میں کیا کر سکتے ہیں ۔

جوخیالات یہاں پیش کئے گئے مجھے ان کا پہلے ہی سے اندازہ تھا ، میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ، آپ نے جو مطالب بیان کئے ہیں  ان میں سے بعض بلکہ اکثر  سے ہم واقف تھے ۔آپ نے کسی فنّی شاہکار کی تخلیق میں روحانی  و نفسیاتی سکون  ، احساسِِ سلامتی  کی تشویش بے جا تنقیدکے خوف ، اور کبھی کبھی پولیس اور عدلیہ سے روبرو ہونے کے خوف کا شکوہ کیا ، آپ اس شکوہ میں حق بجانب بھی ہیں لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ آپ فنکار ہیں ، آپ ظرافتِ طبع کے مالک ہیں، مجھ جیسے افراد میں آپ جیسی ظرافت نہیں پائی جاتی، یہ ظرافتیں جو آپ کو اس درجہ تشویش میں ڈالے ہوئے ہیں ، آپ کے جسم پر لرزہ طاری کئے ہوئے ہیں ، آپ کو شکوہ و شکایت پر مجبور کر رہی ہیں اگر ہم بھی ان جیسی تشویشوں کی پرواہ کرتے تو آج ملک کے حالات بالکل مختلف ہوتے ، میں اپنے دورانِ جوانی سے ہی مختلف فنکاروں سے رابطہ میں ہوں زیادہ تر شعر و ادب، قصّہ وداستان جیسے شعبوں سے  دلچسپی رکھتا ہوں، اس لئے میں فنکاروں کی روح کی ظرافت و لطافت سے آگا ہ ہوں ، میں ان سے یہ مطالبہ کیسے کر سکتا ہوں کہ وہ ان تنقیدوں کی پرواہ نہ کریں ، اپنے کام سے کام رکھیں ؟ تنقید کرنے دیجئے ، وہ کہتے ہیں تو کہتے رہیں ، تنقید کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔ بعنوانِ مثال " یوسف ِ پیغمبر(ع)" نامی سیریل کو ہی  لے لیجئے، یہ ایک ایسا سیریل ہے جس میں تمام موازینِ شرعی کا لحاظ رکھا گیا ہے ، یہ سیریل ایک پیغمبرِالٰہی کی زندگی پر بنایا گیا ہے ۔ اس سیریل کی بنیاد دنیا کی دیگر فلموں کے برخلاف  عفّت و پاکدامنی پر استوار ہے ، دنیا کی دیگر فلموں میں عام طور سے عشق و شہوت غالب ہوتی ہے ، عالم اسلام میں (شاید غیر مسلم ممالک میں بھی) اس سیریل کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی ، لیکن اس کے باوجود ہمارے اخبارات میں اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، برا بھلا کہا گیا ، کھلّم کھلّا تنقید کی گئی ،دیگر مسائل و مشکلات کھڑی کی گئیں ؛ بہر حال یہ چیزیں تو رہیں گی ۔میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ آپ کو ان تنقیدوں اور باتوں کی زیادہ پرواہ نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر آپ اندیشوں کی پرواہ کریں گے تو آپ میدانِ عمل میں آگے نہیں بڑھ سکیں گے ، ممکن ہے ان میں سے بعض اندیشوں کی کوئی حقیقت نہ ہو لیکن آپ اپنی لطیف و ظریف روح کی بنا پر ویسے ہی پریشان خاطر ہوں ،خوف کا تصوّر آپ پر غالب ہو ، میں بھی اس کی تصدیق کرتا ہوں ، لہٰذا آپ کو ان اندیشوں  کے سلسلہ میں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ اس مسئلہ کا ایک رخ ہے ۔

اس مسئلہ کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کچھ ممنوعہ حدود بھی ہیں جن کاخیال رکھنا ضروری ہے ، فلموں اور ڈراموں میں اخلاقی حدود کو عبور کرناصحیح  نہیں ہے ، سیاسی ممنوعہ حدود کی زیادہ اہمیت نہیں ہے ، ہم دین اور اخلاق کے بارے میں زیادہ پریشان ہیں۔ اگر کسی اچھے ڈرامہ میں یہ اضافی امور نہ ہوں تو ڈارمہ  کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ، ہمیں بعض ڈراموں میں یہ بعض اضافی امور دکھائی دے رہے ہیں ، بعض فلموں میں ، لڑکے اور لڑکی کے درمیان جو  معاشقہ دکھایا جاتا ہے وہ بری چیز ہے ، بدآموز بھی ہے ۔ لیکن اس چیز کے برعکس ہے جو " اغماء " (ایک ٹی وی ڈرامہ کا نام )  میں پائی جاتی تھی ، اس ڈرامہ کے ابتدائی مراحل میں تو ایسا لگتا ہے کہ شاید  لڑکے اور لڑکی کے درمیان عشق معاشقہ چل رہا ہے لیکن سیریل کے آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا ، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ، اس میں آپ حق بجانب ہیں ۔ لیکن یہ  بات سراسر غلط ہے کہ آپ غلط عشق و محبت   کو   فلموں کا حصّہ بنائیں ، یہ نقصان دہ چیز ہے ، اس پر غلط اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں ، ہمیں اپنی فلموں میں ایسے مناظر فلمانے سے گریز کرنا چاہیے ، سب سے پہلااعتراض  یہ ہے ۔

آپ فرض کیجئے کہ کسی فلم کا ظاہر اور قالب قابلِ تنقید ہو ، چونکہ تنقید اچھی چیز ہے  لہذا تنقید کو بہانہ بنا کر اس کی عیب جوئی کی جاتی ہے ،   تنقید اور عیب جوئی میں ایک بنیادی فرق ہے، تنقید کا مطلب یہ ہے کہ آپ فلم یا ڈرامہ کے کسی  منفی پہلو کو تلاش کریں اور اس فلم یا ڈرامہ کے مثبت پہلوؤں کی بنیاد پر اس کا تجزیہ کریں ، اس منفی پہلو کی نشاندہی کریں  اور اسے حد سے زیادہ اہمیت نہ دیں ۔ کسی بھی فلم و ڈرامہ کی روح وہ قصّہ ، کہانی اور ماجرا ہوا کرتا ہے جس کے اردگرد یہ فلم یا ڈرامہ گھومتا ہے ۔ اس قصّہ  میں ایک ہیرو ہوا کرتا ہے  ، ایک مقصد کا حصول آپ کے پیشِ نظر ہوتا ہے ، آپ کی داستان کا ہیرو اس مقصد کے حصول کے لئے قسم قسم کی رکاوٹوں  سے جنگ کرتا ہے ، آپ اس داستان میں ایک حقیقی اور سنجیدہ چیلنج  کا سامنا کرتے ہیں ، آپ کی داستان کا ہیرو اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے ان رکاوٹوں سے پیکار کرتا ہے ، برائیاں اس کے راستہ کی رکاوٹ ہیں ۔ یہاں پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ  فلم نویس  ،  پروڈیوسر   یا ڈائریکٹر  اس فلم سے کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں  ؟ وہ خیر و شر کے اس مقابلہ  میں کس کے سر کامیابی کا سہرا باندھنا چاہتے ہیں ؟ اگر خیر و شر(اچھائی و برائی ) کی جنگ میں اچھّائی کو برائی پر غالب دکھانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی فلم میں اچھّائی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہوگا ، برائی کو بھی دکھائیے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ واضح ہونا چاہیے کہ اس داستان کا محور " اچھّائی " ہے اور فلم کا ہیرو اس کےلئے بر سرِ پیکار ہے ، اس کے لئے قربانی پیش کر رہاہے ، کبھی کبھی اس  مقصد کے حصول کی راہ  میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے   ، اگر چہ آپ نے اس فلم میں برے کردار کو بھی دکھایا ہے لیکن آپ کا مقصد اس سے کہیں بالا ہے ، آپ اس کے ذریعہ برائیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے جہاد کے راستہ کو دکھاتے ہیں ، اسے تنقید کہا جاتا ہے ۔ میں ایک روحانی اور جمہوری اسلامی کی ایک ذمّہ دار شخصیت کے عنوان سے کہتا ہوں کہ اس  جیسی تنقید میں کوئی قباحت نہیں ہے ، بلکہ یہ تنقید ضروری ہے ، چونکہ ایسی تنقید ہمارے سماج  کے نقائص کے ازالہ میں معاون ثابت ہوتی ہے اور اسے آگے کی سمت بڑھاتی ہے، یہ بہت اچھی چیز ہے۔

لیکن کبھی کبھی عیب جوئی اور ملامت  کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے ، عیب جوئی کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی منفی  پہلو کو بار بار دہرائیں ، کیا کوئی ایسا معاشرہ بھی ہے جس میں کوئی کمی نہ پائی جاتی ہو؟ کیا کسی معاشرہ سے تمام نقائص کی بیخ کنی ہو چکی ہے ؟ آپ ایک نقص دور کریں گے ایک دوسرا نقص پیدا ہوجائے گا ۔ ایسی عیب جوئی کسی بھی فنکار کا ہدف و مقصد قرار نہیں پاسکتی ،  اس میں کوئی فخر کی بات نہیں ہے کہ انسان دوسروں کی عیب جوئی ، سرزنش و ملامت میں مصروف رہے ، دوسروں کے کاموں پر بد نمادھبہ لگائے ، ان میں مایوسی پیدا کرے۔ جب آپ کسی برائی کو دکھاتے ہیں لیکن اس نیکی اور اچھائی کو نہیں دکھاتے جو اس برائی سے لڑ سکتی ہے اور اس پر غالب آسکتی ہے تو معاشرہ میں مایوسی اور ناامیدی پیدا ہوتی ہے ، آپ کی فلم کو جو بھی دیکھےگا آخر میں یہی کہتا نظرآئے گا کہ اس فلم کا کیا فائدہ ؟  حالانکہ فلم کی تاثیر اور اس کا کردار بہت اہم ہے ۔

میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ تنقید کیجئے ، لیکن ایسی تنقید کیجئے جو حقیقی معنیٰ میں تنقید ہو ، یعنی خیر و شر کی جنگ کو دکھائیے تاکہ معلوم ہو کہ اگر سماج میں کچھ برائیاں ہیں تو اس میں ان برائیوں کو ختم کرنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے  ، ان  کی بیخ کنی کے لئے ایک تحریک چلائی جا رہی ہے۔ اگر آپ اپنی فلموں میں فقر و ناداری کو دکھاتے ہیں تو اس کا یہ مقصد نہ ہو کہ ہمارے سماج میں مفلسی و غربت تو پائی جاتی ہے لیکن اسے دور کرنے کا کوئی محرّک اور جذبہ نہیں پایا جاتا ، اگر آپ ایساکریں گے تو آپ کی فلم سے مایوسی میں اضافہ ہوگا ، ایسی فلم  ہمارے ماحول کو تاریک ظاہر کرے گی، یہ چیز حقیقت کے بالکل برخلاف ہے ۔

جیسا کہ بعض دوستوں نے بھی اشارہ کیا یہ دور سیاسی لحاظ سے ایک استثنائی اور غیر معمولی دور ہے ۔ میرے بھائیو اور بہنو! موجودہ دور میں ہم ایک انتہائی دشوارمنزل  سے گزر رہے ہیں ،  البتّہ ہماری قوم اس منزل سے آسانی سے گزر جائے گی ایک پر امن مقام تک پہنچ جائےگی ، لیکن اس وقت وہ ایک عظیم تحریک چلا رہی ہے ، کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی ، سیاسی ، فوجی اور سائنسی طاقت ہمارے ساتھ کھلے عام دشمنی  کر رہی ہے ؟ یہ بہت اہم چیز ہے ، یہ انتہائی معنیٰ خیز چیز ہے ، آخر اس قوم نے کس چیز کا مظاہرہ کیا ہے کہ وہ طاقتیں جو  بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں ، اپنے ممالک کے سامنے کسی بھی ملک کو کچھ نہیں سمجھتیں ، وہ اس طریقہ سے میدان میں کود پڑی ہیں اور اس قوم کا مقابلہ کر رہی ہیں ؟ البتّہ ان کی باتیں بہت دلکش ہیں ، جمہوریت ، انسانی حقوق ،  آزادی اور قوموں کی حمایت کا دم بھرتے ہیں لیکن آج کی دنیا کا کون سا صاحبِ عقل ہے جو یہ نہ جانتاہو کہ یہ طاقتیں جھوٹ کا سہارا لے رہی ہیں ، اور وہ بھی ذلت آمیز دروغ گوئی۔

وہی لوگ جنہوں  نے تیس سال تک اس قوم سے  جنگ کی ، اس کی ہر محاذ پر مخالفت کی ، اس کی دشمنی میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، وہ مشینریاں اور حکومتی نطام جنہوں نے اپنے  کیمیاوی کارخانوں  سے صدّام ملعون کو کیمیاوی اسلحہ فراہم کیا تاکہ اسے محاذِ جنگ ، سڑکوں اور عام  شہروں  پر استعمال کر سکے ، وہی لوگ  جو ثقافتی میدان میں سٹیلائٹ  ٹی وی اسٹیشن قائم کر رہے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ خاندانی اقدار  کو پامال کر سکیں، حریمِ عفّت کو تار تار کر سکیں ، اس حجاب پر وار کر سکیں جو ماقبلِ اسلام سے ایرانی قوم کی ہزاروں سال پر محیط ثقافت  کا حصّہ رہا ہے ، ایرانی قوم ہمیشہ سے ہی شہوانی اور جنسی لحاظ سے عفّت و نجابت   کا مظہر رہی ہے ، وہی لوگ جنہوں نے ایرانی قوم کی عزّت و آبرو پر حملہ کرنے کے لئے " بدونِ دخترم ہر گز" اور " ۳۰۰ ' ' جیسی فلمیں بنائیں جو سراسر جھوٹ اور خباثت کا پلندہ ہیں  ، وہی لوگ آج یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہمیں ایران سے کوئی دشمنی نہیں ہے ، ہمیں ایرانی قوم سے کوئی عناد نہیں ہے ، لیکن دن رات دشمنی میں مشغول ہیں ۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے ، یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ ہماری قوم ایک عظیم میدان میں مصروفِ پیکار ہے ، ہماری قوم سامراج اور استکبار ، دنیا کی غاصب و جابر طاقتوں کے سامنے  آج بھی سینہ سپر ہے ۔ ہم ایک ہمہ گیر لڑائی لڑ رہے ہیں ، ہماری قوم ایک عام جنگ میں مصروف ہے ، ان حالات میں  ہمیں اپنی سیاسی سمت و سو ، فلمی صنعت کی سیاسی پالیسیوں  کے سلسلہ میں اپنے فرائض پر توجّہ دینا چاہیے۔

اگر کوئی  ڈائریکٹر ، کوئی  اداکار ،کوئی  فلمی رائٹر ، کیمرہ مین ، الغرض جو بھی عوامل  کسی  جذّاب و دلکش فلم کی تخلیق میں  مؤثّر ہوتے ہیں ، اگر انہوں  نے مزاحمت اور دشمن شناسی کا کردار اداکیا، اپنے کردار کو پہچانا اور اسے نبھایا تووہ بھی ایک حقیقی قصّہ کے  ہیرو بن سکتے ہیں ، وہ  بھی ہیرو بن سکتے ہیں ، بالکل ویسے جیسے کسی فلم کی کہانی میں ایک ہیرو ہوا کرتا ہے اور ایک ہیرو اپنے مقصد کے حصول کی خاطر  جدّ و جہد  کرتا ہے، محنت کرتا ہے   اسی طریقہ سے اگر آپ لوگ  بھی اپنے کردار کو بخوبی نبھائیں گے تو آپ بھی ہیرو کہلائیں گے ، اس صورت میں آپ کی اداکاری  میں تازگی و طراوت ، گہرائی اور گیرائی پیدا ہوجائے گی ، یہ وہ چیز ہے جو ہم اپنے ملک کی فلم انڈسٹری بالخصوص قومی میڈیا سے توقّع رکھتے ہیں ۔

میں فلم وڈارمہ کی قدر و قیمت سے واقف ہوں ، میں ان کی قیمت جانتا ہوں ، مجھے معلوم ہے کسی بھی فلم یا ڈرامہ کے ایک منٹ بلکہ ایک سکینڈ کے پسِ پردہ کس قدر غور و خوض، خلّاقیت ،  نئی سوچ، فن ، محنت ، جدّ و جہد کارفرما ہوتی ہے  ، اس کے لئے کبھی کبھی رات بھر  جاگنا پڑتا  ہے ۔ آپ کے بہت سے مخاطب نہیں جانتے کہ وہ جو چند گھنٹہ کی فلم یا ڈرامہ دیکھ رہے ہیں اس کے پیچھے  کام اور محنت کی ایک عظیم دنیا کارفرما ہے ۔ایک اچھے اسکرپٹ سے لے کر فلم کی داستان نویسی تک، ایک ڈائریکٹر کی تلاش  اور اسے فلم سازی کی ذمّہ داری سونپنے تک ، میک اپ ، ڈیکوریشن ، لباس ،  فلم کی ایڈیٹنگ  وغیرہ کا مرحلہ ، نہ جانے ان مراحل میں کتنے ہی لوگ   دن رات محنت کرتے ہیں، کتنے ہی ہنرمند ہاتھ کام کرتے ہیں ، کس قدر خلّا ق ذہن  سرگرم ہوتے ہیں جب کہیں جا کر یہ چندگھنٹہ کی فلم یا ڈرامہ وجود میں آتا ہے۔آپ کی قدردانی اور شکریہ ہمارا فریضہ ہے ، کچھ دوستوں نے یہاں پراس سلسلہ میں جو گلہ شکوہ کیا وہ حق بجانب ہے ، لیکن جن نکات کی طرف میں نے اشارہ کیا انہیں بھی پیشِ نظر رکھیے ۔

یہاں پیش کرنے کے لئے میں نے  بہت سے مطالب کو یاد داشت کر رکھا تھا شاید ان کا حجم ایک پمفلٹ کے برابر ہو، ان مطالب کے آخر میں ، میں نے مختلف مسائل کے سلسلہ میں چوّدہ  سفارشیں تحریر کر رکھی تھیں لیکن  افسوس کہ  اذان کا وقت نزدیک  ہونے کی وجہ سے  ہم انہیں بیان نہیں کر سکتے ۔ ہم یہ سفارشیں جناب ضرغامی کے گوش گزار کریں گے ، ہم جناب ضرغامی اور قومی میڈیا کے مختلف شعبوں  خاص کر فلم و ڈرامہ کے شعبہ سے منسلک حکام کے انتہائی شکر گزار ہیں ، اگر ان منتظمین کے کردار کو نظر انداز کر دیا جائے تو یقینا فنکاروں کا کام بہت مشکل ہوجائے گا ، ہم آپ سبھی کا شکریہ ادا کرتے ہیں ، لیکن آپ سے اتنا ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ابھی اس میدان میں کرنے کو بہت کچھ باقی ہے ۔ مواقع بہت زیادہ ہیں ، یہاں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے اس کے لحاظ سے پورے سال کے دوران تینتیس ہزار گھنٹوں پر محیط فلم و ڈرامے دکھائے گئے ، ان میں سے ساٹھ فیصد سے زیادہ ڈرامے  ملک  کے اندر تیّار  ہوئے تھے ، فلم کے شعبہ میں تقریبا چالیس فیصد فلمیں ملکی ساخت کی تھیں ، یہ بہت بڑی تعداد ہے ، یہ  چیزاس شعبہ میں ہمارے ملک کی عظیم صلاحیتوں کی   غمّاز ہے ، دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ استعداد نہیں پائی جاتی ، دنیا کے چند مشہور و معروف ممالک میں ہی یہ صلاحیت پائی جاتی ہے ، در حقیقت مختلف ممالک کے ریڈیو و ٹیلیویژن پر چند گنے چنے ممالک کی اجارہ داری ہے ، انہیں عام طور سے امریکہ اور ہالی وڈ  چلاتے ہیں ۔ لیکن ہمارا ملک وسائل اور افرادی قوّت  ، سافٹ وئیر ،ہارڈ وئیر  اور تاریخی  ورثہ کی عظیم دولت سے مالا مال ہے ، ہم اس میدان میں بہت ترقّی کر سکتے ہیں ۔

آپ نے اس راہ میں بہت زحمتیں برداشت کی ہیں ، فلم و ڈرامہ کی دنیا کے یہ بہترین آثار آپ کی محنت کا ثمرہ ہیں ،لیکن جو چیز انجام پائی ہے اور ان عظیم صلاحیتوں کے پیشِ نظر جن کاموں کو انجام پانا چاہیے تھا ان میں ابھی  بہت فاصلہ ہے ، اس سلسلہ میں ہمیں آپ سے بہت سی توقّعات ہیں ، نہ فقط آپ سے بلکہ ملک کے بہت سے حکام سے جب بھی ہم روبرو ہوتے ہیں ، تو یہ توقّعات میرے سامنے مجسّم ہو جاتی ہیں ، میری نظر میں یہ توقّعات منطقی و معقول توقّعات ہیں ، انہیں کسی بھی طریقہ سے غیر منظقی و غیرِ معقول نہیں کہا جاسکتا ، آپ کی کاوشیں اس بات کی علامت ہیں کہ ہماری توقّعات ، محض  ایک خیا ل و تصوّر  نہیں ہیں بلکہ انہیں عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے ، ماضی میں یہ  وسائل میسّر نہیں تھے  ، آج کے دور میں ہمارے پاس  فنی تخلیقات اور ممتاز تمثیلی تخلیقات کا ایک بیش بہا خزانہ ہے ، قیمتی اداکاروں کا اتنا بڑا مجموعہ ، ہمارے بعض اداکار وں کا شمار حقیقی معنیٰ میں دنیا کے صفِ اوّل کے اداکاروں میں ہوتا ہے ، وہ ہر فن مولیٰ ہیں ، ہمارے ملک کےبعض ڈائریکٹر اعلیٰ معیار کے ہیں ۔ میں اس سلسلہ میں صاحبِ نظر نہیں ہوں  لیکن ایک سامع اور ناظر کی حیثیت سے ممتاز  فنّی آثار کو سمجھتا ہوں ، لہٰذا آپ اس میدان میں مزید ترقّی کر سکتے ہیں ، آپ اپنی کوششوں کو جاری رکھئے ۔

تاریخی فلموں کے سلسلہ میں ایک چیز ہمیشہ ہی مجھے پریشان کئے رہتی ہے ،  میں نے کبھی کبھی اس کی یاد دہانی بھی کی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ان فلموں کی زبان کو زیادہ رسا اور عام فہم بنائیے ، یہ صحیح نہیں ہے کہ جو فلمیں ہماری تاریخ سے متعلّق ہیں جب ہم ان کے ڈائلاگوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان میں کتابی اور قدیمی  زبان دکھائی دیتی ہے لیکن اس زبان کا حق ادا نہیں ہو پاتا ، فلم نویس سعدی ، بیہقی  یا زمانۂ قدیم کے  کسی دوسرے ادیب یا شاعر کی زبان استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پایا ، ایک ناموزون اور بے ڈھنگی چیز سامنے آتی ہے ، جو سامع  کے لئے قابلِ فہم نہیں ہوتی ، صاحبانِ فکرونظر کے نزدیک بھی ایک خراب چیز ہے ، ان تاریخی آثار کی زبان ایک غلط زبان  ہوا کرتی ہے ، اس کی کیا ضرورت ہے ؟ اصحاب فلم کا جواب ہوتا ہے کہ ہم اس کے ذریعہ اپنی قدیمی ثقافت اور ماحول کو منعکس کرنا چاہتے ہیں ، اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، قدیمی ماحول کودیگر ذرائع سے بھی منتقل کیا جاسکتا ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں  ہے کہ ہماری آج کی روز مرّہ زبان اور لب و لہجہ میں خواجہ نظام الملک ،  شاہ عبّاس  یا دیگر تاریخی شخصیتوں کی گفتگو کو پیش کیا جائے ، اس سے فلم کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ، بلکہ اگر آپ اس کے برخلاف  اقدام کریں گے تو فلم کو نقصان پہنچے گا ۔

ان جیسی اور بھی بہت سی باتیں ہیں ۔ البتّہ ان باتوں کے اصلی مخاطب جناب ضرغامی  ہیں ، ہماری رسائی آپ تک تو نہیں ہے لیکن بہر حال جناب ضرغامی  تک ہماری رسائی ہے ، انہیں اپنی تمام تر کاوشوں کو بروئے کار لانا چاہیے ، جیساکہ ہم نے موصوف کے حکمِ انتصاب میں بھی ذکر کیا ہے کہ قومی میڈیا  کے امور میں ارتقاء و تکامل  دکھائی دینا چاہیے ، بالخصوص فلم و ڈرامہ کے شعبہ پر خصوصی توجّہ دینی چاہیے ، اس شعبہ میں انتھک محنت کیجئے تا کہ آپ  اس میدان میں اپنے غیر منصف رقباء پر کامیابی حاصل کر سکیں ۔

ہماری بہت سی باتیں اور گزارشات باقی رہ گئیں ، انشاء اللہ کسی مناسب موقع پر انہیں بھی آپ کے گوش گزار کروں گا ، پروردِ گارِ عالم آپ کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ  فرمائے ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ