ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم سے مازنداران کے ہزاروں لوگوں نے ملاقات کی

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

میں تمام بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو طویل مسافت طے کرنے کے بعد یہاں تشریف فرما ہوئے ہیں ، جنہوں نے  اس حسینیہ کو اپنی گرم سانسوں اور شوق و اشتیاق سے لبریز دلوں سے منوّر کیا ہے ۔ میں آپ حضرات بالخصوص شہداء کے معززگھرانوں ، محترم علمائے دین ، خدمت گزار اور محنتی حکام کو دلی طور پر خوش آمدید کہتا ہوں جنہوں نے یہاں حاضر ہو کر ۶ بہمن سنہ ۶۰ ہجری شمسی کے عظیم واقعہ کی یاد کو ہمارے ذہنوں میں تازہ کیا ۔ چھ بہمن کا واقعہ ایرانی قوم کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے اور شہر آمل کے عوام کا ایک قابل فخر کارنامہ ہے ۔

میرا یہ عقیدہ ہے کہ انقلاب کی تاریخ کے ان بے مثال ، باشکوہ اور راستے کا تعیّن کرنے والے واقعات کو فراموش یا ذہنوں میں اس کے رنگ کو پھیکا پڑنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے ۔ ہماری جوان نسل کو ان واقعات کو صحیح طور پر پہچاننا چاہیے ، ان کا درست تجزیہ و تحلیل کرنا چاہیے ۔ ان کو اپنے مستقبل اور بلند اہداف و مقاصد کے لئیے چراغ راہ قرار دینا چاہیے ۔

 البتہ صوبہ مازندران خاص کر شہر آمل کے عوام کے قابل فخر کارنامے کچھ کم نہیں ہیں ، خواہ وہ راہ خدا میں جہاد کا میدان ہو ؛ یا علم و فقاہت ، معرفت و عرفان کی وادی ہو ، انصاف یہ ہے کہ ہر میدان میں شہر آمل کا چہرہ تابناک اور درخشاں چہرہ ہے ۔

الحمد للہ آج بھی شہر آمل کے علمائے دین کا شمار حوزہ علمیہ کی قابل فخر شخصیات میں ہوتا ہے اور وہ ملک کا انتہائی قیمتی معنوی سرمایہ شمار ہوتے ہیں۔ ہمارے اوپر تھوپی گئی آٹھ سالہ جنگ کے دوران اس وسیع و عریض صوبہ مازندران اور شہر آمل نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ۔ میں اس دور میں اس صوبے کے فوجیوں اور رضاکار جوانوں سے واقف تھا ،دور و نزدیک سے میں انہیں جانتا تھا ، ان کے جذبہ ایثار و قربانی سے آگاہ تھا ۔ ان کے یہ کارنامے انقلاب کی تاریخ سے محو نہیں ہوسکتے ۔ آج ،آپ اسلامی انقلاب کی مضبوط و مستحکم ، باشکوہ اور سربلند عمارت کا مشاہدہ کر رہے ہیں ؛ اس کا سنگ بنیاد کس نے رکھا ؟ اس کی اینٹیں کس نے لگائیں ؟ اس عمارت کو کس نے تعمیر کیا ؟ کس نے اس عمارت کے خاکے کو عملی جامہ پہنایا اور اس عظیم عمارت کو کھڑا کیا ؟ کیا ان واقعات اور شخصیات کو بھلایا جا سکتا ہے جن کے جذبہ ایثار و قربانی ، احساس ذمہ داری کی بنیاد پر یہ عمارت کھڑی ہوئی اور رفتہ رفتہ اپنے ارتقائی سفر کو طے کیا اور موجودہ عزت و عظمت پر فائز ہوئی ۔ کبھی کبھی ان کرداروں کو نظر انداز کرنے کی غلطی کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔

اس شہر کو " ہزار مورچوں " کے شہر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیا یہ کوئی معمولی تعبیر ہے ؟ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے ؟ چھ بہمن کا واقعہ اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ ہمارے امام امت (رہ) نے اپنی تاریخی وصیت میں اس کا ذکر کیا ہے اور ہمارے لئیے یادگار کے عنوان سے چھوڑا ہے ؛ اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کو فراموش نہ کیا جائے ۔ اس واقعہ کو کیوں یاد رکھا جائے ؟ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ تاریخی واقعات ، سبق آموز بھی ہوتے ہیں اور عبرتناک  بھی ۔ کسی بھی قوم کے واقعات ،  غالبا مختلف اوقات میں دہرائے جاتے ہیں ، اور تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ آج اس واقعہ کو اٹھائیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے ، لیکن نہ ہی جمہوری اسلامی کا راستہ بدلا ہے اور نہ ہی اس کے دشمن بدلے ہیں۔ پس وہ واقعہ جو اس دور میں رونما ہوا ، جب تک ایرانی قوم پروردگار عالم کے لطف و کرم سے اسلامی انقلاب کے اصولوں کی دلدادہ ہے  ہماری قوم کے حال و مستقبل کے لئیے عبرت قرار پا سکتا ہے ، اس کے لئیے سبق آموز بن سکتا ہے ؛ لہٰذا اس واقعہ کو ہرگز فراموش نہیں ہونا چاہیے ۔

ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ یہاں چھ بہمن کے فضائل کے بارے میں مزید ایک جملہ عرض کر دیں کہ اس شہر کو جو " ہزار مورچہ " کا شہر کہا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ شہر آمل کے عوام نے شرپسند اور دہشت گرد عناصر کا مقابلہ کرنے کے لئیے اس شہر میں ایک ہزار یا اس سے کچھ کم یا زیادہ مورچے بنا رکھے تھے ۔ لیکن میر ے ذہن میں اس کی ایک دوسری تفسیر ہے ؛ میری تحلیل یہ ہے کہ ان مورچوں سے وہ مورچے مراد نہیں ہیں جو شہر کی سڑکوں پر موجود تھے بلکہ ان مورچوں سے " دل کے مورچے " مراد  ہیں جن کی تعداد ایک ہزار میں محدود نہیں ہے بلکہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے ؛ ہر صاحب ایمان ، ہر شرافتمند انسان کا دل ، دشمن کی یلغار کے مقابلے میں ایک مورچہ ہے ۔ اگر کوئی قوم کسی ہدف کی تلاش میں ہو لیکن اسے راستے کے خطروں اور کمین گاہوں کا علم نہ ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ ان خطروں کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے اور وہ ان خطروں کے بارے میں غفلت و لا پرواہی کا مظاہرہ کرے تو ایسی قوم کو شدید نقصان پہنچےگا ۔ وہ تمام قومیں جو ایک عظیم مقصد کے تعاقب میں تھیں لیکن وسط راہ میں ہی ہجوم کا شکار ہوئیں اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی دوبارہ کھڑی نہیں ہو سکیں ، ان کی مشکلات کا نقطہ آغاز یہی تھا ؛ انہیں اپنے راستے کی مشکلات کا اندازہ نہیں تھا ؛ اور نہ ہی انہوں نے اپنے آپ کو ان کا مقابلہ کرنے کے لئیے آمادہ کیا تھا ۔ تاریخ کے ان اسباق سے ہم کو مدد ملتی ہے کہ ہم اپنے راستے کو پہچانیں ، کمین گاہوں کو پہچانیں اور گھات لگانے والوں کو پہچانیں ۔

ہمارا انقلاب ، انتہائی عزت و عظمت کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہوا، نہتے عوام نے سفاک پہلوی حکومت کےاسلحوں کا مقابلہ کیا اور انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ، اس کے بعد بھی یہی عوام وارد میدان ہوئے اور ریفرنڈم میں " جمہوری اسلامی " کے حق میں ووٹ ڈالا اور اس کا انتخاب کیا ۔ کوئی منصف اور شرافتمند انسان ، عوام کے اس مطالبہ کے مقابلے میں کیا رد عمل ظاہر کرتا ہے ؟ لیکن کچھ لوگ میدان میں وارد ہوئے جو عوام کی جانبداری کا دم بھر رہے تھے ، اپنے آپ کو ڈیموکریٹک اور جمہوریت نواز ظاہر کر رہے تھے ، اپنے آپ کو عوام کا طرفدار بتاتے تھے لیکن یہ لوگ انہیں عوام کے مد مقابل صف آرا ہوگئے جنہوں نے بہت بڑی قیمت ادا کر کے اس نظام کو اقتدار بخشا تھا ۔ ان لوگوں کی صفوں میں منافق بھی تھے ، کھلے کافر بھی تھے ، مغرب نواز بھی تھے ، ظاہری طور پر دین کا دم بھرنے والے بھی تھے ، ان سب نے مل کر  اسلامی نظام اور انقلاب کے مقابلے میں ایک متحدہ محاذ تشکیل دیا ۔ عوام کی طرفداری کا دعوی کرنے والے ، عوام کے مقابلے پر اتر آئے ، ڈیموکریسی اور جمہوریت کی حمایت کا دم بھرنے والے ، عوامی رائے اور اس کے نتیجے کے خلاف صف آرا ہو گئے ۔ روشن خیالی اور آزادی فکر کا دعوی ٰ کرنے والے ، مغربی متفکرین کی دقیانوسی فکر کو قبول کرتے نظر آئے جو کہ بد خواہی اور کینہ پروری پر استوار تھی ؛ ان لوگوں نے ایرانی قوم کے مد مقابل صف آرائی کی ۔ ابتداء میں ان لوگوں نے اپنی روشن خیالی یا اس کے شبیہ فکر کے ذریعہ ، امام امت (رہ) ، جمہوری اسلامی اور امام امت(رہ) کے اصول پر تنقید و اعتراض کا سلسلہ شروع کیا ، رفتہ رفتہ انہوں نے پاس و لحاظ کے نقاب کو اپنے چہرے  سے ہٹایا اور میدان میں کود پڑے   ، سیاسی اور فکری میدان کارزار کو مسلحانہ اور آشوب گرانہ  میدان میں تبدیل کر دیا ۔ یہ واقعات ہمارے ملک میں رونما ہوئے ہیں ؛ کوئی تاریخی بات نہیں ہے ۔ بلکہ ہمارے انقلاب کے پہلے عشرے کی بات ہے ۔ ان افراد نے اسلامی انقلاب کے مقابلے میں مزاحمت کا آغاز کردیا ، انہوں نے ملک کی مشکلات پر غور و فکر ، ملکی مسائل کے خاتمہ کے بارے میں تعاون  اور اس سلسلے میں ملک کے حکام کی راہنمائی، ان کا ہاتھ بٹانے  کے بجائے   کینہ پروری ، دشنام دہی اور اس نظام کا مقابلہ کرنے کا عزم کرلیا حالانکہ ملک گونا گوں مشکلات کا شکار تھا ، کچھ مشکلات طاغوت کے دور کی دین تھیں تو کچھ دیگر مسائل کو زبردستی اس نظام پر تھوپا جارہا تھا ، ملک کی مختلف سرحدوں پر جنگ جاری تھی ۔ انہوں نے جنگ کی بھی پر واہ نہیں کی ؛ انہوں نے اسی شہر تہران میں ، اس کے چوراہوں اور گلی کوچوں میں ، الغرض جہاں بھی ان سے بن پڑا ، اس نظام کا مقابلہ شروع کر دیا ۔

یہ بات واضح ہے کہ جمہوری اسلامی کی شناخت اور اس کی پہچان ، ایرانی عوام کی شناخت ، ان کے ایمان اور عزم و ارادے کے سوا کچھ  نہیں ہے ۔ آج بھی یہی صور تحال ہے ۔ ہم کچھ نہیں ہیں ، ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے ؛ یہ پروردگار عالم ہی ہے جو ایرانی عوام اور ان کے دلوں کے ذریعہ ، اس نظام کی حمایت کر رہا ہے ؛ " ھو الّذی ایدک بنصرہ و با لمؤمنین " ؛ (۱) پروردگار عالم اپنے حبیب (ص)سے ارشاد فرماتا ہے کہ اس نے صاحبان ایمان کے ذریعہ آپ کی نصرت کی ۔ آج جمہوری اسلامی کی مثال بھی ایسی ہی ہے ؛ اس دور میں بھی یہی حالت تھی۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا وسیلہ نہیں ہے ؛ یہی عوام کا جذبہ ایمان ہے جو کسی بھی اسلحے کے مقابلے میں زیادہ کارآمد ہے ، اور کسی بھی دوسرے وسیلے سے زیادہ مؤثر ہے ۔ اس دور میں بھی یہی جذبہ کارفرما تھا ۔ عوام نے میدان میں داخل ہو کر ان سازشوں  کو ناکام کیا ۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی ایک سازش ناکام ہوگئی تو سازشوں کا سلسلہ ختم ہوگیا؛ ایسا نہیں ہے ۔ دشمن بیدار ہے ؛ وہ آئے دن نت نئی سازشوں ، اور منصوبوں میں مصروف ہے ۔ اگر عوام بیدار و ہوشیار ہوں تو ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا ،   اگر وہ سینکڑوں سازشیں کریں تو بھی عوام ان کا مقابلہ کریں گے اور اپنی تحریک کو جاری رکھیں گے ۔ ایرانی قوم کی عظیم تحریک پورے آب وتاب کے ساتھ جاری رہے گی ؛ ایرانی عوام اپنی پیش قدمی کو جاری رکھیں گے ، اس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی دشمنی اور مزاحمت کا بھر پور مقابلہ کریں گے ۔ یہ وہ صورت حال ہے جو گزشتہ تیس برسوں سے درپیش رہی ہے ۔ 

جمہوری اسلامی کے مخالفین نے دو بڑی غلطیوں کا ارتکاب کیا اور ان میں جب تک یہ غلطیاں پائی جاتی ہیں ، عین ممکن ہے کہ عوام کے لئیے کچھ مسائل و مشکلات پیدا کریں لیکن  ان غلطیوں کا خمیازہ زیادہ تر انہیں خود بھگتنا پڑے گا : ان کی ایک غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عوام سے بالا تر سمجھتے رہے  ہیں۔ ان کی دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ عوام کے دشمنوں سے وابستہ اور منسلک رہے ہیں ، یہ دو بڑی غلطیاں ہیں ۔ اپنے آپ کو عوام سے بالا تر سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر عوام کسی قانونی حرکت کے ذریعہ کوئی اقدام کرتے ہیں ، کسی چیز کا مطالبہ کرتے ہیں ، اور کسی چیز کو مسترد کر تے ہیں ، کسی چیز کا انتخاب کرتے ہیں ، کو ئی عمل انجام دیتے ہیں تو یہ لوگ اس کو ٹھکرا دیتے ہیں ؛ یہ کہتے نظر آتے ہیں ، ہمیں یہ انتخاب قبول نہیں ہے چونکہ عوام تو عوام ہیں،  یہ عوام گرائی ہے ، ہمیں یہ قبول نہیں ہے ۔ اپنے آپ کو عوام سے بالاتر سمجھنے کا نتیجہ یہاں ظاہر ہوتا ہے ۔عوامی ہونے کا صرف زبانی دعوی کافی نہیں ہے بلکہ عمل میں بھی اس کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔

اسلامی نظام کے مخالفین کی دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ عوام کے دشمنوں (جن کی دشمنی روز روشن کی طرح عیاں ہے )  سے اپنی توقّعات وابستہ کئیے ہوئے ہیں ۔ ان تیس برسوں میں کون عوام کا دشمن رہا ہے ؟ اس سلسلے میں سب سے پہلے امریکہ اور صیہونزم کا نام آتا ہے ۔آیا ان سے بھی بڑھ کر جمہوری اسلامی کا کوئی دشمن قابل تصوّر ہے ؟اس انقلاب کی کامیابی کے پہلے دن سے ہی ، امریکہ ، غاصب صیہونی حکومت اور عالمی صیہونی لابی اس انقلاب کے مد مقابل صف آرا ہوگئے۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو آج بھی اسلامی انقلاب کے سب سے بڑے دشمن یہی ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مغربی حکومتیں کبھی کبھی کچھ بے بنیاد اور بے معنی باتوں کو دہراتی رہتی ہیں لیکن جب ہم ان پر غور کرتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ ان  کا اصلی محرّک اور عامل ، صیہونی لابی ہے ۔ ان کا عامل وہی طبقہ ہے جو امریکی حکومت اور وہاں کے انتخابات پر مسلّط ہے ؛ان کے پس پردہ یہی عوامل ہیں ۔ پس یہ ایرانی قوم کے سب سے بڑے دشمن ہیں ، اب اگر کوئی اس قوم کی مخالفت میں ان سے توقّعات وابستہ کرے تو یہ بہت بڑی غلطی ہے ، دشمن سے لگاؤ اور اس سے وابستگی ؟! جب ہم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ دشمن ، میدان میں اتر چکا ہے ، تو ہمیں سمجھنا چاہیے ؛ اگر ہم کسی غلطی کے مرتکب ہوئے ہوں تو ہمیں اس کا ازالہ کرنا چاہیے ۔ روز اوّل سے ہی امریکیوں نے جمہوری اسلامی کے خلاف سازشیں کرناشروع کردیں تھیں۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ سازشیں غیر مؤثّر ثابت ہوئیں چونکہ اگر یہ سازشیں ذرّہ برابر بھی مؤثر ہوتیں تو آج جمہوری اسلامی کا نام و نشان تک باقی نہ رہتا ؛ حالانکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج وہ ، روز اوّل کے مقابلے میں ، دس گناطاقتور ہے ؛ پس یہ سازشیں کارگر نہیں ہوئیں ۔ آج بھی نت نئی سازشوں میں مشغول ہیں ، ماضی سے عبرت بھی نہیں لیتے ۔مجھے سخت حیرت ہوتی ہے کہ یہ اپنے ماضی پر نگاہ کیوں نہیں ڈالتے اور اس پر غور و فکر کیوں نہیں کرتے کہ ہم نے جمہوری اسلامی کے خلاف اس قدر سازشیں کیں، اس قدر پیسہ بہایا ، ملک کے اندر اپنے زر خرید غلاموں کی پرورش کی ، بیرون ملک ، مختلف حکومتوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اکسایا ؛ لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا ۔اب دوبارہ اسی حماقت کو دہرا رہے ہیں ، اور جمہوری اسلامی کو شکست سے دوچار کرنے کے لئیے پینتالیس ملین ڈالر کا بجٹ پاس کر رہے ہیں! وہ اس غرض سے بجٹ پاس کر رہے ہیں تاکہ  انٹر نیٹ کے ذریعہ ، انقلاب ایران کو مٹا سکیں ؛ جمہوری اسلامی کو سرنگون کر سکیں ! آپ ملاحظہ کیجئیے کہ یہ دشمن کس قدر زبوں حال ہے ۔  تم لوگوں نے اب تک نہ جانے کتنے ہی پینتالیس ملین ڈالر خرچ کئیے ہیں ؟ اسلامی جمہوریہ ایران کو شکست دینے کے لئیے بے پناہ سفارت کاری کی ہے ، اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں ، قسم قسم کی سازشیں رچی ہیں ، اپنے جاسوس روانہ کئیے ان کی تربیت کی ؛ تمہیں ان اقدامات سے کیا فائدہ حاصل ہو ا ہے جو دوبارہ اسی راستے پر گامزن ہو اور اپنے خام خیال میں ایرانی قوم کو انقلاب سے جدا کرنے میں کوشاں ہو ؟ ہمارے دشمن اس حقیقت کے ادراک سے عاجز ہیں ۔ یہ وہی سنت الٰہی ہے ۔ یہ پروردگار عالم سے غافل ، افراد کے کانوں اور آنکھوں کو ناکارہ بنانے کی مثال ہے جس کے بعد وہ حقائق کے ادراک سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ " فسینفقونھا ثم تکون علیھم حسرۃ " ؛ (۲) پیسے خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد کف افسوس ملتے ہیں ؛ چونکہ اس سے انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے کس قدر وقت صرف کیا ہے تاکہ تہران میں کسی بہانے سے بلوے اور آشوب بپا کریں ؛ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ کب سے ان سازشوں میں مشغول تھے ؛ لیکن ان سازشوں کا نتیجہ کیا نکلا ؟ کیا ان سازشوں کا اس کے علاوہ بھی کوئی نتیجہ بر آمد ہوا ہے کہ عوام پہلے کے مقابلے میں زیادہ بیدار اور ہوشیار ہو گئے ہیں ؟ اگر کوئی یہ تصوّر کر رہا تھا کہ اب اسلامی نظام کے دفاع کے لئیے میدان میں آنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے لیکن ان واقعات کے بعد سبھی میں یہ احساس پیدا ہوا کہ جمہوری اسلامی کے دفاع کے لئیے ہمیشہ ہی تیار و آمادہ رہنا چاہیے ۔

   کبھی کبھی ہمارا دشمن ہم سے خراج وصول کرنے کے لئیے یہ کھیل کھیلتا ہے ، انقلاب کی ابتدا میں بھی ہمیں اسی صورت حال کا سامنا تھا ؛ اس دور میں اس ہلڑ ہنگامہ کا مطلب یہ تھا کہ اسلامی جمہوری نظام انہیں کسی عوامی پشت پناہی کے بغیر ، عوام کی مرضی کے بغیر ، بغیر کسی اہلیت و استحقاق کے قدرت کا حصّہ بنائے ، انہیں اقتدار میں شریک کرے ۔ کبھی کبھی ہمارے عالمی دشمن ، ان مسائل کو اس لئیے پیدا کرتے ہیں تاکہ جمہوری اسلامی کو     بعض دوسری حکومتوں کی طرح خراج دینے پر مجبور کر سکیں ، جو خطرے کا احساس کرتے ہی اپنے آقاؤں کے سامنےحاضر ہو جاتی ہیں اور انہیں پیسے اور سیاسی خراج دینے پر آمادہ ہوجاتی ہیں  ؛  سبھی لوگ یہ بات کان کھول کر اچھی طرح سن لیں کہ نہ ہی ہمارے حضرت امام امت(رہ)  نے کبھی کسی کو باج دیا اور نہ ہی ہم اپنی طرف سے اور ایرانی قوم کی طرف سے کسی کو باج دیں گے ۔

ہم نے ایک حق بات کہی ہے اور اسی پر قائم ہیں ؛ ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اوپر کسی تسلط پسند اور منہ زور طاقت کا تسلّط نہ ہو ؛ ہم اپنے امور کا نظم و نسق خود  چلائیں ۔ ہم ایک ، فعّال، متحرک  اور آگے کی سمت پیش قدمی کرنے والی  قوم بننا چاہتے ہیں ۔ ہم وہ قوم بننا چاہتے ہیں جو نہ صرف زبان سے بلکہ عمل سے اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کرے ؛ ہم احکام الٰہی پر عمل کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ حقیقی معنی میں ایک اسلامی معاشرہ ہو ۔ ہم اپنی زندگی میں ، مادی متفکرین اور مغربی سیاستدانوں کے افکار و نظریات کو نصب العین قرار نہیں دینا چاہتے ؛ ہم حکم خدا کی پیروی کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا یہ کوئی جرم ہے ؟

ہم نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ اگر ہم اس دنیا میں " مسلمان " کے طور پر زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں طاقتور بننا ہوگا تاکہ دشمنوں کے مقابلے میں ہم اپنا ، اپنے عقائد اور اہداف و مقاصد کا دفاع کر سکیں ۔ ہمیں طاقتور بننا ہو گا تاکہ ہم اپنے ، اپنے ملک و ملّت کے حقوق کا دفاع کر سکیں ؛ ہم یہ چاہتے ہیں ۔ کیا یہ کسی قوم کے لئیے جرم ہے ؟ ہماری بات حق پر مبنی ہے ، ہم اس پر قائم ہیں ، ہمارا عقیدہ ہے کہ حق و باطل کی نبرد میں اگر صاحبان حق ، استقا مت کا مظاہرہ کریں تو یقینا باطل کو شکست ہوگی ۔ ہم نے اس کا تجربہ بھی کیا ہے ۔ ہم نے گزشتہ تیس  برس کے عرصے میں اس کا بارہا تجربہ کیا ہے : ہم نے جہاں جہاں استقامت کا مظاہرہ کیا ، وہاں وہاں پیش قدمی کی ، ہم نے جہاں کہیں بھی عقب نشینی کی وہاں  ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، چونکہ وہاں ہمارے پائے ثبات میں لغزش واقع ہوگئی تھی ۔ ہم نے جہاں کہیں بھی استقامت کا مظاہرہ کیا ، کامیابی نے ہمارے قدم چومے ۔ اس کے بعد بھی  ایسا ہی ہوگا ۔

          ہم سب کے لئیے لازم و ضروری ہے ، پورے عوام ، ملکی حکام ، بالخصوص جوانوں اور ان افراد پر جن کی بات میں تاثیر ہے  اس بات کی زیادہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ میدان میں موجود رہیں ۔ کوئی بھی شخص یہ نہ کہے کہ میری کوئی ذمّہ داری نہیں ہے ؛ سبھی جوابدہ ہیں ۔ احساس ذمّہ داری کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم اسلحہ لے کر سڑکوں پر ٹہلیں ؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس شعبے سے بھی وابستہ ہیں وہاں اپنی ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے انجام دیں ،انقلاب اور جمہوری اسلامی کے نظام کا دفاع ؛ در حقیقت اسلام اور لوگوں کے حقوق  اور ملک کی عزت و عظمت  کا دفاع ہے ۔ اس کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ سبھی اپنی ذمّہ داری محسوس کریں ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم میں یہ احساس ذمّہ داری پایا جاتا ہے ۔ اس بات کو ہمارے ملک کے عوام نے ماضی میں بھی ثابت کیا ہے اور حال میں بھی اس کا مظاہرہ کر رہے ہیں ؛ اس کی ایک برجستہ مثال یہی 9 دی کو نکالی جانے والی ریلیاں تھیں جن کی طرف یہاں پر اشارہ کیا گیا ، اس کا ایک دوسرا نمونہ بائیس بہمن اور عشرہ فجر ہے جو  ہمارے سامنے ہے ۔ عوام نے اپنی موجودگی ، اپنی آمادگی ، اپنے جوش و ولولہ ، شوق و نشاط کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے اور اس کے بعد بھی اس کا مظاہرہ کرتے رہیں گے ۔

ملک کے حکام ، اپنی پوری توانائی ، انتھک محنت ، تدبیر ، شوق و اشتیاق اور پروردگار عالم پر توکل اور اس سے مدد مانگتے ہوئے ملک و عوام کی مشکلات و مسائل کا ازالہ کریں ۔ مشکلات سے مراد ،صرف سیاسی اور سلامتی کے مسائل نہیں ہیں ۔ یہ تو مشکلات کا ایک حصّہ ہیں ۔ اس ملک کو سیاسی ، اقتصادی ، سائنس وٹیکنالوجی اور معاشرتی اعتبار سے آگے لے جانے کی ذمہ داری بھی ، ملک کے حکام پر عائد ہوتی ہے ۔ تینوں قوا ( عدلیہ ، پارلیمنٹ اور حکومت ) کے حکام اور ملک کے دیگر عہدیدار اپنے فرائض منصبی کو پہچانیں اور عوام کی خدمت کے جذبہ سے دن رات کام کریں ، کام اور تدبیر یہ دونوں چیزیں بہت اہم ہیں ۔ ایک لمحے کے لئیے بھی ان سے غفلت نہ کریں۔ ہم برق رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں ، اس رفتار کو متوقف نہ ہونے دیں ؛ اس رفتار میں سستی نہ آنے دیں ۔ ہم مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں ، ہمیں اس پیشرفت کو جاری رکھنا چاہئے ، بلکہ اس کی رفتار میں مزید اضافہ کرنا چاہیے ، اور اس کی ہمہ گیریت پر توجّہ مبذول کرنا چاہیے ۔ تمام نقاط کو اس کے دائرے میں لانا چاہیے ۔

 ملک کے حکام کےسلسلے میں ، عام لوگوں کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ان پر اعتماد وبھروسہ رکھیں اور ان کی حمایت کریں ۔ حکام پر اعتماد کرنے اور ان کی ہمراہی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کے نقائص و عیوب سے چشم پوشی کرلیں ، جہاں کہیں ان  پر تنقید ضروری ہو وہاں تنقید نہ کریں ، یہ مراد نہیں ہے ۔ لیکن ہمیں آپسی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا ، دشمن کا ایک مقصد ، عوام کو حکومت اور ملکی حکام سے بدگمان کرنا ہے ، یہ دشمن کی چال ہے ۔ پس سبھی کا فریضہ ہے کہ وہ دشمن کے محاذکے مقابلے میں انقلاب اور ملک کے دفاع کے میدان میں موجود رہیں ؛ خوش نصیبی سے ہمارے دشمن کا محاذ ، عصر حاضر میں گزشتہ تیس برس کے مقابلے میں ، کہیں زیادہ متزلزل ، پیچھے اور طرح طرح کے مسائل میں گرفتار ہے ۔ وہ افغانستان ، عراق اور پاکستان میں مشکلات کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے ۔ کچھ دن پہلے اس نے یمن میں ایک نیا محاذ کھول لیا ہے ؛ وہ ہمارے خطے کی قوموں کے علاوہ خود اپنی قوموں سے بھی دست و گریبان ہے ، یورپ میں بھی اسے مسائل کا سامناہے ۔ دشمن کے محاذ کا مقابلہ کرنے کے لئیے سبھی پر ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ۔ حکام کی ذمّہ داری یہ ہے کہ وہ عوام کی خدمت گزاری کے لئیے اس وقت کے لمحہ لمحہ کو غنیمت جانیں ، اور عوام کی مشکلات  و مسائل کو حل کرنے کےاپنی پوری توانائی کو کام میں لائیں ۔ اور حکام کے لئے، عام لوگوں پر یہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان پر بھروسہ رکھیں ، ان کی پشت پناہی کریں ، ان کا ہر ممکن تعاون کریں ۔ اگر اس سلسلے میں کسی کےپاس کوئی تجویز ہو تو وہ اسے پیش کرے ۔ اگر کسی کو حکومت کے کسی اقدام پر اعتراض ہو تو وہ بھی اسے پیش کرے لیکن اعتراض کو مقابلے کے میدان میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے ؛ اعتراض بھی ہمراہی کا نقیب ہو ، بالکل ویسے جیسے کسی مورچے کے دو سپاہی ایک دوسرے پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم نے اپنے پیر کیوں پھیلا رکھے ہیں ، تمہیں نیند کیسے آگئی ؟ لیکن یہ کبھی بھی ایک دوسرے کے مد مقابل صف آرا نہیں ہوتے ۔

میرے عزیزو جان لو! کہ قرائن و شواہد کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خداوند متعال کا دست قدرت اور ارادہ آپ کا پشت پناہ ہے ۔ آپ یہ جان لیں کہ انشاء اللہ امام زمانہ (عج ) کی مستجاب دعائیں آپ کے شامل حال ہیں، اور یہ جان لیجئیے کہ پروردگار عالم کی توفیق اس کا  فضل وکرم  اس قوم  کواس کے  بلند و بالا اہداف و مقاصد اور آرزؤوں تک پہنچا دے گا اور انشاء اللہ آپ کے دشمنوں کو آپ کے مقابلے میں ذلیل و رسوا کرے گا ۔

خداوندا! اس عظیم قوم کے ساتھ ، ان کے ایمان ، ان کی نیتوں ، اور ان کے  پاک دلوں کے مطابق سلوک فرما ۔ خداوندا ! شہر آمل اور صوبہ مازندران کے شہداء کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما ۔ خداوندا ! ہمارے امام امت (رہ)اور شھیدوں کی روحوں کو آئمہ طاہرین کے ساتھ محشور فرما۔

                    والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ا۔ سورہ  انفال  : آیت ۶۲

۲۔ سورہ انفال : آیت ۳۶