ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا عید غدیر خم کے موقع پر عوام کے مختلف طبقات سے خطا ب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

 میں آپ سبھی بھائیوں اور بہنوں ، پوری ایرانی قوم ، تمام شیعوں اور مسلمانان عالم کی خدمت میں اس عید سعید ، اس عظیم دن ، اس عظیم تاریخی واقعہ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔

عید غدیر  کو ہماری روایات میں " عید اللہ الاکبر " سے  تعبیر  کیا گیا ہے ؛یہ عید اسلامی کلینڈر کی دیگر عیدوں سے بڑھ کر ہے ؛ زیادہ با معنیٰ ہے ؛ اس عید کا اثر دوسری تمام عیدوں سے زیادہ ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ چونکہ اس دن ، ہدایت اور حکومت کے سلسلے میں امت مسلمہ کی ذمّہ داری کا تعین ہوا ۔ یہ اور بات ہے کہ پیغمبر اسلام (ص)کی وصیت اور سفارش کو بالائے طاق رکھ دیا گیا اور اس پرعمل نہیں ہوا ، بعض روایات کے مطابق ، پیغمبر اسلام (ص) پہلے ہی سے  اس کی خبر دے چکے تھے کہ ان کی وصیت پر عمل نہیں ہو گا ۔ بہر حال اس واقعہ نے امت اسلامیہ کی قیادت کے بارے میں ایک معیار اور میزان فراہم کیا؛ تاکہ رہتی دنیا تک تمام مسلمان اس معیار اور میزان کو نمونہ عمل قرار دیں اور امت کے راستے کا تعیّن کریں ۔یہ جو پیغمبر اسلام (ص)نے امامت و ولایت کے لئیے اس حساس موقع کا انتخاب کیا یہ کوئی پیغمبر (ص)کا ذاتی انتخاب نہیں تھا بلکہ یہ  پروردگار عالم کا انتخاب تھا ۔ خداوند متعال کی طرف سے وحی نازل ہوئی " بلّغ ما انزل الیک من رّبک '' (۱) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پروردگار عالم کی جانب سے ، پیغمبر اسلام (ص)کو اس سے قبل ، ولایت و امامت کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا تھا ؛ ایسا نہیں ہے ؛ بعثت کے آغاز سے ہی یہ بات پیغمبر اسلام(ص) کے لئیے روز روشن کی طرح عیاں تھی اور اس کے بعد کے  تئیس سالہ دور میں رو نما ہونے والے واقعات نےاس حقیقت کو اس طرح عیاں کر دیا تھا کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجایش باقی نہیں رہ گئی تھی ؛ لیکن اس کا رسمی اور باقاعدہ اعلان پروردگار عالم کے حکم سے  ایک حساس وقت میں ہونا چاہئیے تھا ؛ " بلّغ ما انزل اليك من ربّك و أن لم تفعل فما بلّغت رسالته»؛(2( " ؛ یعنی ولایت و امامت کا اعلان ایک الٰہی رسالت و پیغام  ہے جس کو پہنچانا ضروری ہے ۔ جب سرزمین جحفہ کے قریب غدیر خم کے مقام پر پیغمبر اسلام(ص) نے حاجیوں کے قافلے کو روکا اور انہیں ایک جگہ جمع کرنے کے بعد ولایت و امامت کا اعلان کیا تو یہ آیت نازل ہوئی "اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى"(3(آج نعمت تمام ہوگئی ، دین کامل ہو گیا ۔سورہ مائدہ میں آیہ اکمال سے پہلے یہ آیت ہے "اليوم يئس الّذين كفروا من دينكم فلا تخشوهم و اخشون '' ( ۴) آج دشمنان اسلام کی مایوسی و ناامیدی کا دن ہے ؛ یعنی آج ،معیار و میزان معیّن ہو گیا ؛ امت اسلامیہ کو  جب بھی قیادت کا مسئلہ درپیش ہوگا تو وہ اس معیار کو اپنے لئیے نمونہ عمل قرار دے گی اور کسی شک و شبہ کا شکار نہیں ہوگی ۔ واقعہ غدیر کی اہمیت اس اعتبار سے ہے ۔

جیسا کہ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امامت و ولایت کامسئلہ ، پروردگار عالم سے مربوط ہے ؛ ایسا نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے ذاتی حساب و کتاب کی بنا پر امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کو اس منصب کے لئیے منتخب کیا ہو ، اگر چہ ذاتی حساب و کتاب بھی ہر انسان کو اسی انتخاب پر مجبور کرتا ہے  کہ پیغمبر اسلام (ص) کا جانشین حضرت علی علیہ السّلام ہی ہیں  ؛ لیکن پیغمبر (ص)  کا اقدام ایک الٰہی اقدام تھا ۔ بعثت کی ابتداء سے ہی پیغمبر اسلام (ص) کی جانشینی کامسئلہ ایک الٰہی مسئلہ شمار ہوتا تھا ۔ اس واقعہ کو تمام مؤرّخین نے نقل کیا ہے ، اس میں شیعہ و سنی والی بات نہیں ہے ، یہ واقعہ تاریخ کے مسلمات میں سے ہے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے سرزمین مکہ کے مختلف قبائل میں اسلام کو پیش کیا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ، تو اس سلسلے میں آپ (ص) مختلف قبائل میں تشریف لے گئے ؛ جب آنحضرت (ص)  ان میں سے ایک قبیلے کے پاس تشریف لے گئے اور اسے اسلام کی دعوت دی تو اس قبیلہ کے ایک شخص نے آگے بڑھ کر کہا : ہمارا پورا قبیلہ ایک شرط پر اسلام لانے کے لئیے تیار ہے ، اور وہ شرط یہ ہے کہ آپ کی رحلت کے بعد آپ کی خلافت و جانشینی ہمارے قبیلے کے سردار کے حصے میں آئے ۔ تاریخ میں ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اس کی تجویز کے جواب میں فرمایا : یہ میرے دائرہ اختیار میں  نہیں ہے " ھذا امر سماوی " یہ آسمانی امر ہے ؛ اور خدا کے اختیار میں ہے ۔ اس قبیلے کے لوگ ایمان نہیں لائے اور پیغمبر اسلام (ص) کے پاس سے چلے گئے ۔ پس پیغمبر اسلام (ص)  کی جانشینی اور خلافت کا مسئلہ ، وحی الٰہی کی بنیا د پر طے پایا ہے ؛ یہ مسئلہ خدا کے ارادے و اختیار سے مربوط ہے ؛ پیغمبر اسلام (ص) کے دائرہ اختیا ر  میں نہیں تھا ۔ لیکن اگر پیغمبر اسلام (ص)  بھی انتخاب کرتے تو ایسے شخص کا انتخاب کرتے جو دین اسلام کے تمام معیاروں پرپورا  اترتا ہو۔تمام مسلمانان عالم امیرالؤمنین (ع)کو اس معیار پر تول کر دیکھیں۔ یہ درست ہے کہ بعض دیگر اصحاب رسول (ص)  کی فضیلت  میں بھی کچھ روایات نقل ہو ئی ہیں لیکن  قیادت کے معیاروں کو دیکھیں ؛انہیں  ایک دوسرے کے کنارے  رکھ کر دیکھیں ، قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھیں اور تب دیکھیں  کہ کس شخص کاا نتخاب عمل میں آتا ہے ، ان معیاروں پر کون کھرا اترتا ہے ۔ انتخاب کا ایک معیار ، علم ہے ، امیرامؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے علم کے بارے میں فریقین نے پیغمبر اسلام (ص)  سے یہ حدیث نقل کی ہے " انا مدینۃ العلم و علی بابھا '' ( ۵ )  میں شہر علم ہوں اور علی اس کادروازہ ہیں ۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کسی گواہی کا تصور کیا جاسکتا ہے ؟ امیرالمؤمنین کے جہاد کے سلسلے میں ارشاد رب العزت ہے "و من النّاس من يشرى نفسه ابتغاء مرضات اللَّه " ( ۶ ) یہ آیت امیرالمؤمنین(ع) کے جہاد و ایثار کے بارے میں نازل ہوئی ہے ؛ کسی دوسرے شخص کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ہے ۔  امیر المؤمنین (ع)کے انفاق کے بارے میں آیہ : و يطعمون الطّعام على حبّه مسكينا و يتيما و اسيرا" '( ۷ )؛ نازل ہوئی ہے ۔ امیرالمؤمنین علیہ السّلام اور آپ کے اہل خانہ اس آیت کے مصداق ہیں ۔ تمام مفسریں کا اتفاق ہے کہ آیہ '' انّما وليّكم اللَّه و رسوله و الّذين امنوا الّذين يقيمون الصّلاة و يؤتون الزّكاة و هم راكعون '' ( ۸ )   امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے  ۔یہ معیار اور اسلام میں برتری و فضیلت کے دیگر معیا ر جیسے ، علم ، تقویٰ ، جہاد ، ایثار ، انفاق وغیرہ یہ سب کے سب معیار حضر ت علی علیہ السّلام کے ذات گرامی میں جمع ہیں ۔ کس میں ہمت ہے جو اس بات سے انکار کر سکے ؟

ہم تمام مسلمانان عالم کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان حقایق پر غور و فکر کریں ۔ ہم امت مسلمہ کے اتحاد کے بارے میں ہر گز اس بات پر اصرار نہیں کرتے کہ کوئی فرقہ یا مذہب ، دوسرے فرقے کے عقائد کو قبول کر لے ؛ اتحاد کا مفہوم یہ نہیں ہے ۔ وحدت و اتحاد کا مطلب یہ کہ مختلف فرقوں اور عقائد کے باوجود تمام مسلمان ، اپنے مشترکہ نکات کو مد نظر رکھیں اور اختلافی مسائل کو برادر کشی ، جنگ و خونریزی کا وسیلہ نہ بننے دیں ؛ اتحاد کا مفہوم یہ ہے ۔

لیکن حقیقت کی وضاحت اور حق کی جستجو کے عنوان سے  یہ ایک معقول اور منطقی اپیل ہے ؛یہ لوگ جائیں اور اس سلسلے میں تحقیق کریں ۔ اور ان تحقیقات کا مطالعہ کریں جنہیں ہمارے دور کے بزرگ علماء نے بڑی جانفشانی سے تحریر کیا ہے ۔ اور عالم اسلام کے سامنے پیش کیا ہے ، دنیائے اسلام کے بڑے بڑے علماء نے ان کی تحقیقات کو داد تحسین دی ہے۔ وہ ان تحقیقات کو ملاحظہ کریں ؛ اپنے آپ کو کسی حصار میں محصور نہ کریں؛ ان تحقیقات سے اپنے آپ کو محروم نہ کریں ۔ اس سلسلے میں مرحوم سید شرف الدین عاملی کی کتابوں اور علّامہ امینی کی الغدیر کا ضرورمطالعہ کریں ۔ ان کتابوں میں حقائق کا بیش بہا خزانہ جمع ہے ۔ غدیر کا واقعہ ، تاریخ اسلام کے مسلمات میں سے ہے ۔ مرحوم علّامہ امینی (رہ) نے الغدیر میں اہل سنت کی دسیوں اسناد سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ، ان روایات کے الفاظ ، شیعوں کی کتابوں کے عین مطابق ہیں ۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو محض شیعہ حضرات کی کتابوں میں پائی جاتی ہو ۔ عین ممکن ہے کوئی شخص ، لفظ مولیٰ کے معنی ٰ میں کسی شک وشبہ کا شکار ہو اور دوسرے شخص کے ذہن میں اس کے بارے میں کوئی شبہ نہ پایا جاتا ہو ۔ لیکن واقعہ غدیر کی حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ واقعہ غدیر نے امت اسلامی کی قیادت کے حقیقی معیار کو بیان کیا ہے ۔ اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی ، اسلامی حاکم اور حکومت اور ہر مسلمان کے لئیے امیرالمؤمنین کی ذات والا صفات ، فضیلتوں کے بلند و بالا قلعہ کے مانند ہے ۔  

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کی پوری زندگی ایک درس اور نمونہ عمل ہے ۔ آپ کی جوانی ہمارے جوانوں کے لئیے مثال ہے ؛ عہد شباب میں آپ کے اندر مندرجہ ذیل خصوصیات موجزن تھیں : صداقت ، حق وحقیقت کی شناخت اور اس کا تعاقب ، پورے وجود سے حق کا دفاع ، مشکلات سے کھیلنا ، خطروں کی پرواہ نہ کرنا اور انہیں ہیچ سمجھنا ؛ صراط مستقیم سے ذرّہ برابر بھی منحرف نہ ہونا ، ہمیشہ پیغمبر اسلام (ص)کے قدم بہ قدم چلنا'' یحذو ا حذو الرّسول '' ؛ ( ۹ ) پیغبمر اسلام کے امر و نہی کےسامنے سراپا تسلیم ہونا ، ہر لمحے اپنے علم میں اضافے کے لئیے کوشاں رہنا ، علم و عمل میں یکسانیت پیدا کرنا ، یہ وہ نمایاں خصوصیات ہیں جو حضرت علی علیہ السّلام کی جوانی پر حکم فرما دکھائی دیتی ہیں ۔ جوانی کے بعد کازمانہ اور آپ کی عمر مبارک کا آخری دور بھی سخت اور عجیب و غریب امتحانوں پر مشتمل ہے ، ان تمام امتحانوں میں اسلام کی مصلحت کی خاطر، آپ نے صبرعظیم اور صبر جمیل کا مظاہرہ کیا ،آپ نے اسلام کی مصلحت کو ہر چیز پر ترجیح دی ، یہانتک کہ آپ نے مصلحت اسلام کو اپنے مسلم حق پر بھی ترجیح دی ۔ امیرالمؤمین حضرت علی علیہ السّلام کو جب اس بات کا احساس ہو اکہ ان کاحق پائمال ہو رہا ہے تو وہ قیام کر سکتے تھے ، حضرت علی علیہ السّلام کسی سے نہیں ڈرتے تھے ، اگر آپ قیام کرتے تو یقینا کچھ لوگ آپ کا ساتھ ضرور دیتے لیکن مصلحت اسلام کی خاطر آپ نے ایسا نہیں کیا جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں '' فامسکت بیدی یدی حتیٰ  رایت راجعۃ الناس قد رجعت عن الاسلام یدعون الیٰ محق دین محمد(ص)''؛  (۱۰ )   جب میں نے دیکھا کہ دلوں میں ایسے جذبات پروان چڑھ رہے ہیں جو دین اسلام کی اساس و بنیا د کے مخالف ہیں ،  کچھ اسلام دشمن قوّتیں ، اسلام کی بیخ کنی کے درپے ہیں تو میں میدان میں داخل ہوا اور جان و دل سے دین کی حفاظت کی ۔ اور اپنے مسلم حق سے چشم پوشی کی ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام نے جان ودل سے دین اسلام کی حفاظت کی ۔ اور جب تقدیر الٰہی کی بنا پر حکومت و سیاست نے آپ کے دروازے پر دستک دی اور لوگ آپ کے دروازے پر جمع ہوئے تاکہ آپ کو امت مسلمہ کے امور کی باگ ڈور سنبھالنے پر مجبور کر سکیں ، تو آپ پورے اقتدار کے ساتھ میدان میں داخل ہوئے ؛ '' لا یخاف فی اللہ لومۃ لائم '' (۱۱ ) آپ کو کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی ، کوئی بھی ملامت یا سرزنش آپ کو ذرہ بھر بھی اپنے مقصد سے منحرف نہیں کر پائی ۔ امیرالمؤمنین علیہ السّلام امت مسلمہ کے لئیے ایک مکمل نمونہ عمل ہیں ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کی ذات والا صفات ہی وہ ذات  ہے کہ شیعہ حضرات جن کی فضیلت و منزلت کے قائل  ہیں ۔

صاحب الغدیر مرحوم علّامہ امینی اور مرحوم شہید مطہری  کے نزدیک ، واقعہ غدیر ، امت اسلامیہ کے اتحاد کا باعث ہے ۔ آ پ یہ تصوّر نہ کیجئیے کہ واقعہ غدیر سے اختلاف پیدا ہوتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے ۔ آپ ملاحظہ کیجئیے کہ عصر حاضر میں  ماضی کے مقابلے میں شیعوں کے خلاف تہمتوں اور الزام تراشیوں میں کس قدر اضافہ ہوا ہے ؛ حالانکہ شیعہ عقیدے کی بنیاد وحی الٰہی اور ایک صحیح و سالم معیار پر رکھی گئی ہے ۔ اسلامی اقدار اور معیاروں کو بنیاد بنانے اور قرآنی معیاروں کو کسوٹی قرار دینے کا نام ،شیعت ہے اب اگر کچھ فضول اور بیہودہ قسم کے افراد، عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں شیعہ حضرات پر ایسی الزام تراشیوں اور تہمتوں میں مشغول ہیں ، جن سے وہ کوسوں دور ہیں ،اور شیعہ مذہب کو جعلی اور سیاسی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو واقعہ غدیر ان سب تہمتوں کو نقش بر آب کر دیتا ہے ۔

ان لوگوں کیا حاصل ہو رہا ہے جو شیعوں اور اس عظیم اسلامی تحریک کو ، دین اسلام سے خارج ظاہر کرنے کے لئیے کوشاں ہیں ، عصر حاضر میں کچھ قوّتوں کی پا لیسیوں کا محوریہی سیاست ہے ، وہ اسی عقیدے کی ترویج کر رہی ہیں ؛ آخر ایسا کیوں ہے ؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شیعہ حضرات نے روح ولایت کی برکت سے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جس کی آرزو ہر مسلمان کے دل میں ہے؛ اسلام کے خیر خواہوں ، اور اس سے ہمدردی رکھنے والے ہر صاحب فکر کے دل میں بس ایک ہی آرزو تھی کہ کاش کوئی دن ایسا بھی آئے جب اسلام اپنی پوری حقانیت اور قدرت کے ساتھ مسند اقتدار پر فائز ہو ۔ گزشتہ دو صدیوں میں بہت سے اسلامی دانشمند اور صاحب فکر و نظر افراد اس دن کی حسرت دل میں لئیے زندہ تھے اور اسی حسرت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آج ، شیعہ اس آرزو کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ، یہ اسلامی حاکمیت ، یہ اسلامی عزّت و عظمت ''ولایت '' کی برکت سے ہے ، جب دشمن کی نگاہ اس پر جاتی ہے تو شیعوں اور اہل ولایت کوعالم اسلام سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش میں مشغول ہو جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں ، شیعوں کے خلاف تہمتوں اور الزام تراشیوں میں اضافہ ہوا ہے ، البتہ طول تاریخ میں ہمیشہ ہی کچھ کج فکر افراد ، شیعوں کے خلاف ، الزام تراشیوں اور تہمتوں میں مشغول رہے ہیں ، لیکن عصر حاضر میں ان تہمتوں اور الزام تراشیوں میں اضافہ ہوا ہے ، یہ سامراج کی پالیسی ہے ، وہ اسے کیوں نہیں سمجھتے ؟

ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئیے ؛ کہ موجودہ دور میں سامراج کی پالیسی یہ ہے کہ شیعوں اور غیر شیعہ حضرات کو ایک دوسرے سے دور کر دیا جائے ۔ اہل اسلام کے مختلف فرقوں میں اختلاف و تفرقہ کا بیج بویا جائے ،انہیں ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا جائے ۔ ہمیں اس مقصد میں ان کی مدد نہیں کرنی چاہئیے ؛ ہمیں دشمن کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئیے کہ وہ اپنے اس پلید مقصد میں کامیاب ہوسکے ، دونوں فریقوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ وہ حضرات جو شیعہ نہیں ہیں بلکہ دوسرے فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ یہ جان لیں ؛کہ آج شیعہ ہی ہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی عزّت و اقتدار کا پرچم لہرا رہے ہیں ، اسے اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا ہے ، جس کے سامنے سامراج بالکل بےبس و لاچار  نظر آرہا ہے؛ یہ ایک حقیقت ہے ۔ یہ سازشیں جو گزشتہ تیس برس میں مختلف دشمنوں ( جن میں سب سے بڑھ کر امریکہ اور برطانیہ کی خبیث حکومتیں ہیں )نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف رچی ہیں ؛ ان کی ایک بڑی وجہ ، ان طاقتوں کی  بے بسی اور مرعوبیت ہے؛  یہ طاقتیں ، اسلامی بیداری ، اسلامی تحریک ، اور عالم اسلام کی اپنی عظمت رفتہ کے حصول کی دوبارہ کوششوں  سے خائف و ہراساں ہیں ؛ انہیں معلوم ہے کہ اگر عالم اسلام میں خود مختاری اور اپنی شناخت کا جذبہ بیدار ہو جائے تو دنیا کا یہ حساس ترین خطہ تو مسلمانوں کے کنٹرول میں ہے ، سامراج کے ہاتھ سے نکل جائے گا ؛ وہ اس سے خائف و ہراساں ہیں ، اس خوف کی وجہ سے سازشوں میں مشغول ہیں ؛ نئے نئے حربے استعمال کر رہے ہیں ۔ آج سامراجی طاقتیں جو عام طور سے صیہونی لابی کے زیر تسلط ہیں ، اپنی پوری طاقت لگا رہی ہیں تاکہ ایرانی قوم اور اسلامی نظام کو غیر مؤ ثر بنا سکیں اور اسے بقیہ دنیا سے الگ تھلگ کر سکیں ۔ انہیں اب تک اس میں کوئی کامیابی نہیں ملی اور پروردگار عالم کی توفیق، اس کی عنایت اور نصرت کے سائے میں آئندہ بھی انہیں اس مقصد میں کامیابی نصیب نہیں ہو گی ۔

اس ایٹمی مسئلہ کو ہی لے لیجئیے ، نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ وہ لوگ ، عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئیے ، دروغ گوئی اور غلط بیانی کا سہا را لے رہے ہیں ، کسی خاص ریڈیو یا پروپیگنڈا مشینری کی بات نہیں ہے ۔ بلکہ افسوس کہ مغربی سربراہان مملکت کا یہ مشغلہ بن چکا ہے کہ وہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئیے دروغ گوئی اور غلط بیانی کا سہارا لیتے ہیں ، ہم ان مغربی سربراہان مملکت سے اپیل کرتے ہیں کہ اس قدر دروغ گوئی سے کام نہ لیں ۔ امریکہ ، برطانیہ اور بعض دیگر یورپی ممالک ، رائے عامہ کو  اس قدر گمراہ نہ کریں۔یہ من گھڑت جھوٹ اور غلط بیانیاں ، آخر کار خود ان کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوں گی ۔ انہوں نے اسے آزمایا بھی ہے ۔وہ جب بھی دروغ گوئی سے کام لیں گے ، کچھ ہی عرصے میں حقیقت آشکار ہو جائے گی اور ان کی عزّت و آبرو خاک میں مل جائے گی ؛ جیسا کہ اس کی کچھ مثالیں ماضی  میں موجود ہیں  ، انہوں نے دروغ گوئی کے ذریعہ ، عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا اور اس کی بنیاد پر کاروائی کی اور کچھ ہی عرصے میں ان کا جھوٹ سب پر عیاں ہو گیا ۔ ان کی اپنی قومیں ، ان کا گریبان پکڑیں گی ۔

ایٹمی مسئلہ میں ہم اپنی ضرورت بھر ، ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کےلئیے کوشاں ہیں ، اگر آج ایرانی قوم اس ٹیکنالوجی کے حصول میں کامیاب نہ ہوئی تو کل بہت دیر ہو چکی ہو گی ۔ کل جب تیل کے ذخائر تمام ہوجائیں گے ، اور دنیا کی اقتصادی سرگرمیوں کا دارو مدار ، ایٹمی ٹیکنالوجی پر ہوگا ، اس دن ایرانی قوم کے ہاتھ خالی ہوں گے ؛ اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے ، دوسروں کی مد د کی محتاج ہو گی؛ ان کا مقصد یہ ہے ، ہمارے ایٹمی مسئلہ کی حقیقت یہ ہے ۔ میں نے بارہا اس بات کو بیان کیا ہے ۔

آج ہمارے لئیے اس ٹیکنالوجی کی اس قدر  اہمیت  اس لئیے ہے کہ بیس ، تیس سال بعد ہماری آئندہ کی نسلیں ، ہمارے جوان ، ایران کی عظیم قوم مغربی ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہو ۔ اہل مغرب اس تیل کے بارے میں بھی اپنی من مانی کرتے ہیں جو ہماری ملکیت ہے ، جسے ہماری سرزمین سے نکالا جاتا ہے اور انہیں دیا جاتا ہے ۔ آج اس تیل کی دولت سے مغربی حکومتیں ان حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ اٹھا رہی ہیں جن کی سرزمین سے یہ تیل نکالا جارہا ہے ۔آج جب کہ تیل ہماری ملکیت ہے ، ہمارے دائرہ اختیا ر میں ہے ، ہمارے دست قدرت میں ہے اس کے باوجود ہمیں ان کی من مانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اگر ہم کل ان سے ایٹمی توانائی کا مطالبہ کریں گے تو نہ جانے وہ ہمارے ساتھ کیا سلو ک کریں گے ۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو یہ فکر ستا رہی ہے ۔ لہٰذاآج ہم اپنے موقف پر اٹل اور ثابت قدم ہیں کہ ہمیں ہر قیمت پر اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنا چاہئیے ، اس پر مغربی ممالک اس قدر شور شرابہ اور ہلڑ ہنگامہ مچا رہے ہیں کہ آپ اس ٹیکنالوجی کو کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ ہم پربے بنیاد الزام لگا رہے ہیں ، عالمی رائے عامہ کو گمراہ کر رہے ہیں کہ ایران ایٹم بم بنانا چاہتا ہے ایران یہ اور وہ کرنا چاہتا ہے۔

۔۔۔(۱۲ ) یہ بالکل واضح ہے ، آپ میری طرف توجہ دیجئیے!یہ بالکل عیاں ہے کہ ایٹمی توانائی کا حصول ، ایرانی قوم کا ایک ناقابل تردید حق ہے ۔لیکن کچھ استکباری طاقتیں ، ایرانی قوم کے اس حق کو سلب کرنے کے لئیے نت نئے حربے اور پروپیگنڈے استعمال کر رہی ہیں ، ہمیں بصیرت ، آگاہی اور ہوشیاری سے کام لینا ہوگا ۔ قوموں کو ان حساس مواقع پر معلوم ہونا چاہئیے کہ دشمن کس سازش میں مشغول ہے ۔ جب دشمن کو کسی قوم کے بارے میں اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ فوجی طور پر اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ، ڈرانے اور دھمکانے کی سیاست اس پر کارگر نہیں ہوسکتی تو  وہ مختلف بہانوں سے اس قوم میں  اختلاف و تفرقہ، اور دشمنی کا بیج بو کر رخنہ اندازی کرتا ہے ۔

آج عالمی سامراج کی پروپیگنڈا مشینری کا محور یہی ملک کے اندرونی اختلافات ہیں ۔ کچھ لوگوں کو خدا کی بارگاہ میں جواب دینا ہو گا ، چونکہ ان کی کارکردگی کی بنا پردشمن نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ملک داخلی انتشار کا شکار ہے اور اسے اس ملک کے معاملات میں مداخلت کی جرات ہوئی ہے ۔ ہمیں دشمن کو پہچاننا چاہئیے ، اس کے حیلوں اور حربوں سے آشنا ہونا چاہئیے ، اور ہمیں معلوم ہونا چاہئیے کہ ہم کیا کہہ رہےہیں ، دشمن ہماری گفتگو کے ہر حر ف سے کیا مطلب نکالے گا ، اور ہماری گفتگو کی بنیاد پر اس کے اندرجسارت کا جذبہ پیدا ہو سکتا ہے ؛  مداخلت کا  راستہ  کھل سکتا ہے ، ہمیں ان چیزوں کو ملحوظ نظر رکھنا چاہئیے ۔

البتہ ہماری قوم الحمد للہ ایک صابر ، غیور اور ثابت قدم قوم ہے ؛ اس نے ماضی میں بھی اسے ثابت کیا ہے ، ہماری قوم نے گزشتہ تیسس برسوں میں اور اسلامی انقلاب کی تحریک کے دوران اس کا عملی نمونہ پیش کیا ہے ؛ ہم صابر ہیں ، عالمی سامراج اور اس کے ترجمان اپنے پروپیگنڈوں میں ہمیشہ یہی کہتے آئے ہیں کہ ایران کے بارے میں ان کا دامن صبر لبریزہو رہا ہے ، ان کی طاقت جواب دے رہی ہے ۔ ہم ان سےپوچھتے ہیں ، تم نے کب صبر کیا ہے ، تم نے ایرانی قوم کے مقابلے میں کبھی صبر سے کام نہیں لیا ، کیا تم نے سازشیں نہیں کیں
؟ کیا تم نے مختلف پروپیگنڈے نہیں کئیے ؟ کیا تم نے اقتصادی پابندیاں نہیں لگائیں ؟ کیا تم نے فوجی حملہ نہیں کیا ؟ کیا تم نے اس خطے میں موجود اپنے کتوں (غاصب صیہونی حکومت ) کو ہمارے اوپر حملے کے لئیے نہیں اکسایا ؟ تم نے کب صبر کیا تھا جو اب اس کے تمام ہونے کی بات کر رہے ہو ؟ ۔

صابر تو ہماری قوم ہے ، ہم نے صبر و بردباری کا مظاہرہ کیا ہے؛ ہم نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے ، ہم نے تمہارے پروپیگنڈوں ، تمہاری سازشوں ، تمہارے شور و غل سے چشم پوشی کی ہے ۔اور ان کی پرواہ کئیے بغیر اپنے راستے کو جاری رکھا ہے ۔ ہماری قوم اپنے تمام وجود کے ساتھ ، پروردگار عالم کی مدد اور ان جوانوں کی ہمت کی بدولت ، امام امت کے بتائے ہو ئے راستے پر گامزن رہے گی اور انشاء اللہ اس کی آخری بلندی پر پہنچ کر دم لے گی ۔ محنت اور کوشش کو جاری رکھئیے ؛ عزیز جوانو! آپ اپنا کام جاری رکھئیے ، بصیرت اور سیاسی شعور پر خصوصی توجہ دیجئیے ۔ امیرالمؤمنین (ع)کی ذات ہمارے لئیے نمونہ عمل ہے ؛ آپ جوانوں کے لئیے بھی اسوہ عمل ہے ، حضرت علی علیہ السّلام کا علم و تقوی ٰ ، آپ کی عفت و طہارت ہمارے لئیے نمونہ عمل ہے ۔ اسے اپنے پیش نظر رکھئیے ۔ راہ خدامیں جہاد (البتہ ہر میدان میں جہاد کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ) و تلاش وکوشش کو ترک نہ کیجئیے اور جان لیجئیے کہ اس ملک کا مستقبل اس کے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر اور تابناک ہوگا ۔ اس ملک کا مستقبل آپ سے وابستہ ہے ۔  انشاء اللہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السّلام  کی روح اور امام زمانہ  (عج )کی دعا ، آ پ کی مددگار ہو گی ۔

     والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱ ) مائدہ : ۶۷

( ۲ ) مائدہ ۶۷

( ۳ ) مائدہ : ۳

(۴ ) مائدہ : ۶۷

(۵ ) احتجاج طبرسی : جلد ۱ ص ۷۸

( ۶ ) بقرہ : ۲۰۷

( ۷ ) انسان : ۸

 (۸ ) مائدہ : ۵۵

(۹ ) مفاتیح الجنان ، دعائے ندبہ

(۱۰ ) نہج البلاغہ:   مکتوب ، ۶۲

(۱۱)بحار الانوار ، جلد ۶۸ ص ۳۶۰

(۱۲ ) اس موقع پر حضار نے نعرہ لگایا کہ ایٹمی توانائی ہمارا مسلم حق ہے ۔