ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حج کمیٹی کے اراکین سے خطاب

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

میں دل کی گہرائی سے پروردگار عالم کا شکر گزار ہوں جس نے ہمیں ایک بار پھر اس بات کی توفیق عطا فرمائی اور یہ موقع عنایت فرمایا کہ ہم  اس سال بھی فریضہ حج کی انجام دہی  اور حجاج کرام کی توحید کے اس مرکز کی طرف روانگی کا مشاہد ہ کر سکیں جو تاریخ میں ہمیشہ سے ہی اہل اسلام کے دلوں کا محبوب رہا ہے ۔

ہمیں ، فریضہ حج کوایک نعمت اور پروردگار عالم کے عطا کردہ عظیم موقع کے طور پر دیکھنا چاہئیے ۔ سبھی عبادتوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے ؛ فریضہ نماز بھی ایک سنہرا موقع ہے ، ایک نعمت ہے ۔ اگر نماز ہم پر واجب نہ ہوتی تو اس بات کا خوف تھاکہ ہم غفلت کے دریا میں غرق ہو جاتے ۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ ہمیں ہر روز کئی مرتبہ پروردگار عالم کی ملاقات ، اس سے راز و نیاز اور گفتگو کا  موقع ملتا ہے  ؛ یہ بہت بڑی نعمت ہے ، یہ عظیم موقع ہے ؛ فریضہ حج میں بھی یہی خصوصیت پائی جاتی ہے ۔ دیگر عبادتوں کے مقابلے میں ، حج کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ یہ ایک عالمی اور بین الاقوامی پیمانے کی عبادت ہے ۔ وہ راز و نیاز ، اور خضوع و خشوع جس کی ضرورت ہر مسلمان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے وہ حج کے موقع پر ایک بین الاقوامی اور عمومی رخ اختیار کر لیتا ہے ۔رنگ ونسل ، زبان  ، عادات و اطوار کے اختلاف کے باوجود ، تمام مسلمانان عالم جب وہاں پہنچتے ہیں تو ہر ایک پر خضوع و خشوع ، گریہ و زاری کی کیفیت طاری ہوتی ہے ۔ یہ انتہائی عجیب چیز ہے لیکن چونکہ یہ ہمارے لئیے عادت بن چکی ہے اس لئیے ہم اس کی اہمیت اور عظمت کی طرف  صحیح انداز میں متوجّہ نہیں ہو پاتے ۔یہ عجیب چیز ہے کہ مسلمانان عالم ایک جگہ ،ایک نقطہ پر جمع ہوں اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کریں ؛ ہمیں اس زاویے سے فریضہ حج پر نگاہ ڈالنی چاہئیے ؛ اور اسے ایک سنہرے موقع کے طور پر دیکھنا چاہئیے ۔

اگر ہم حج کو غنیمت موقع کے طور پر دیکھیں گے تو اس وقت ہماری نگاہ میں وسعت پیدا ہو گی ، اور ہم اپنے فرائض پر زیادہ توجّہ دے پائیں گے ۔ آپ کو دیگر مسلمانان عالم کے ہمراہ اظہار بندگی و عبودیت کا موقع ملے گا ۔ یہ اس غنیمت موقع کے سلسلے میں پہلا نکتہ ہے ۔اگر ہم فریضہ حج کو ایک غنیمت موقع کے طور پر دیکھیں گے تو کسی بھی قیمت میں ہاتھ سے نہیں جانیں دیں گے ۔ یہ بہت بڑی نا انصافی اور زیادتی ہے کہ ہم مکہ مکرمہ یا مدینہ منوّرہ میں پیغمبر اسلام (ص) کے روضہ اقدس ، آئمہ بقیع  علیم السّلام کی قبور منوّرہ ، اور دیگر بزرگان دین ،(جو تاریخ اسلام کے درخشاں ستارے ہیں ) اصحاب  کرام ، شہدائے احد کے  مزاروں پر حاضر ہوتے ہوئے بھی ذکر و مناجات ، دعا کے بجائے اس فانی دنیا کی فکر میں ہوں ؛ وہ بھی پست و حقیر دنیا کی فکر میں ؛ اپنی ذاتی اور نجی زندگی کی فکر میں ؛ یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم وہا ں بازاروں میں ادھر ادھر ٹہلیں گھومیں اور روز مرّہ کے ان  ناچیز امور یا بے جا سرگرمیوں  میں  اس عظیم وقت کو صرف کریں جن میں ہم اپنے وطن میں بھی عام طور پر مصروف رہتے ہیں حالانکہ وہاں کا لمحہ لمحہ اکسیر ہے ، وہاں کی  ہر گھڑی انمول ہے ۔یہ سب سے پہلا نکتہ ہے ۔ ہمیں مکہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ میں زاد راہ کی فکر میں رہنا چاہئیے ۔ اپنے ایمانی ، معنوی ،ذکر و مناجات، اپنے پروردگار کے سامنے خضوع و خشوع کے سرمایے میں اضافہ کی فکر میں رہنا چاہئیے ۔ یہ سب سے پہلا قدم ہے۔

  اس موقع کو غنیمت جاننے کا ایک دوسرا مظہر ، عالم اسلام سے  آپ کا رابطہ ہے ۔ دنیا سے مراد عام لوگ ہیں ، حکام اور سیاستدان نہیں ۔ دنیا سے مراد ، تسلظ پسند فوجی  جرنیل یا دنیا کے متکبر اور استعمار پیشہ افراد نہیں ہیں ۔ کبھی کبھی یہی متکبّر و مغرور افراد اپنی ذاتی رائے کو پوری دنیا سے منسوب کرتے رہتے ہیں ! یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اقوام عالم یہ مطالبہ کر رہیں ہیں ! پوری دنیا سے مراد ،اربوں انسان ہیں نہ یہ چند گنی چنی تسلّط پسند حکومتیں ۔  اسلامی معاشرے سے مراد، امت مسلمہ کا عظیم ڈھانچہ ہے ۔ امت مسلمہ سے مراد وہ زید وعمرو نہیں ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے اس عظیم امت پر مسلّط ہیں اور اس پر حکومت کر رہے ہیں ۔ امت سے مراد عام لوگ ہیں ، خیر و برکت ،اس عظیم مجموعہ میں ہے ؛ امت مسلمہ  کا عزم و ارادہ پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا سکتا ہے ؛ اس کے اقدام سے اسلامی اقدار کو ہمہ گیریت حاصل ہو سکتی ہے اور عالمی پیمانے پر اسے فروغ مل سکتا ہے ۔ اور یہ چیز آپ کے دائرہ  اختیار میں ہے ۔ہر سال حج کے موقع پر ہر حاجی اس امت مسلمہ کے ایک عظیم اجتماع سے رو برو ہوتا ہے ۔ اس موقع کو غنیمت جاننا چاہئیے ۔ یہ ایک سنہرا موقع ہے ، اسے غنیمت سمجھنا چاہئیے ۔

ہم اس موقع کی قدر کیسے کریں  ؟ اس کے مختلف راستے ہیں ، ایک آسان طریقہ جسے سبھی افراد انجام دے سکتے ہیں یہ ہے کہ ایرانی حاجی جو اسلامی جمہوریہ اور اسلام کی حاکمیت کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہا ہے، اپنی رفتار و کردار ، اپنے اخلاق ، اپنی حرکات و سکنات سے اسلامی جمہوریہ ایران کو متعارف کرائے ، اپنا تعارف کرائے،اپنے اوپر اسلامی تربیت کے اثر کو دوسروں کے سامنے پیش کرے ۔ یہ ایک انتہائی آسان راستہ ہے ۔

وہ حاجی جو مسجد الحرام یا مسجد النبی (ص)، یا قبرستان بقیع یا شہدائے احد کی قبور یا ان جیسے دیگر مقدس مقامات مثلا منی و عرفات میں مصروف راز و نیاز ہو اسے اسلامی اخلاق کا مظہر ہونا چاہئیے ، اسے قرآنی تربیت سے مزین ہونا چاہئیے ۔ اسے خضوع و خشوع کا مرقّع ہونا چاہئیے ، الفت و محبت کا سفیر ہو نا چاہئیے ، دوسروں کی توہین نہ کرے ، اختلاف و تفرقہ سے پرہیز کرے ۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری روایات میں اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کا اس قدر ثواب بیان کیا گیا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ اگر آپ  مسجد الحرام میں اہل سنت کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے  ، تو گویا آپ نے پیغمبر اسلام (ص) کی اقتداء میں نماز ادا کی ہو۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟واضح ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السّلام اس امام جماعت کی نماز کا پیغمبر اسلام کی نماز سے موازنہ نہیں کرنا چاہتے ، بلکہ وہ اپنے پیرو کار کی نماز سے بھی اس کی نماز کا مقایسہ نہیں فرما رہے ہیں ۔ اس کا مفہوم کیا ہے ؟ یہ اتحاد و وحدت کی نمایش ہے ۔ وحدت کا عملی نمونہ پیش کیجئیے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے بیدار و آگاہ امام امت (رضوان اللہ تعالی علیہ )ہمیشہ ہی ہم سے ، ایرانی حجاج کرام سے مسجد الحرام اور مسجد النبی(ص) میں اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کرنے پر زور دیا کرتے تھے ۔ ان کے اجتماعات میں حاضر ہونے پر زور دیتے تھے ۔ ان کی نماز جماعت میں شرکت ، اسی کا ایک مصداق ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ نماز جماعت کے وقت جب سب افراد ، فریضہ نماز کی ادائیگی میں مشغول ہوں ، خدا نخواستہ کوئی  ایرانی حاجی اپنے ہوٹل کی طرف سامان  ڈھوتا ہوا دکھائی دے۔یہ چیزیں انتہائی نقصان دہ ہیں ۔ آداب اسلامی پر مبنی رفتار و کردار سب سے بہترین چیز ہے ۔ آپ تو وہاں کی زبان سے بھی آشنا نہیں ہیں لیکن اتنا ہی کافی ہے کہ انہیں یہ معلوم ہو کہ آپ ایرانی زائر ہیں ، اور وہ  آپ کے اسلامی اخلاق ، آپ کے ادب و احترام ، نظافت اور پاکیزگی ، دعا و مناجات ، دعائے کمیل  (جو سالہاسال سے منعقد ہو رہی ہے ) کا مشاہدہ کریں ، یہ سب سے بڑی تبلیغ ہے ۔ یہ بہت سی دیگر تبلیغات  سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔ جب دعائے کمیل کے روح پرور منظر میں صاحبان ایمان کا ایک عظیم اجتماع ، پروردگار عالم کے حضور میں گریہ و زاری ، توبہ و استغفار میں مصروف ہوتا ہے تو یہی سب سے بڑی تبلیغ قرار پاتی ہے ۔ مشرکین سے برائت کا اجتماع بھی ایک بہت بڑی تبلیغ ہے ۔

 اس اجتماع میں حاضری ہی بذات خود ایک تبلیغ ہے۔ یہ اس  بات کی علامت ہے کہ آپ نے فریضہ حج کو اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ ، ایک مکمل مجموعہ کے طور پر قبول کیا ہے ۔

حج ، وحدانیت کا مظہر ہے ، توحید کے دو جزو ہیں : ایک جزو پروردگار عالم کے وجود کا اقرار ہے اس کا دوسرا حصّہ غیر خدا کی نفی ہے ، جہاں ایک طرف اثبات ہے وہیں دوسری طرف نفی  بھی ہے ۔ حج ، توحید کا مظہر ہے ؛ پروردگار عالم کی ولایت کا اثبات اور غیر خداکی ولایت سے انکار ، اسی کانام برائت ہے ۔

حج کے باب میں ایک دوسرا مسئلہ دنیا اور عالم اسلام کے عصری تقاضوں کو مد نظر رکھنے کا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے قافلہ حج کو ان تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں پورا کرنے کی کوشش کرنا چاہئیے ، ہمیں ہر سال ، اس بات کا جائزہ لینا چاہئیے کہ عصر حاضر میں کس چیز کی ضرورت ہے ؟ ہم محسوس کرتے ہیں کہ عصر حاضر کی  سب سے اہم ضرورت " اسلامی اتحاد اور اخوت " ہے ، مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد و اخوت ، عصر حاضر کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔ اسلام کے دشمنوں کو دیکھئے کہ کس طرح اسلام کی نابودی پر کمر بستہ ہیں ؟اسلام کے دشمن مسلمانوں کو ٹکڑوں میں بانٹنے اور ان میں اختلاف و تفرقہ ڈالنے کے لئیے کیا کیا چالیں چل رہے ہیں ؟ ان کو ایک دوسرے کے مد مقابل لانے کے لئیے کتنا پیسہ بہا رہے ہیں ؟ اس کا ایک نمونہ کل عراق میں رونما ہونے والا خونی واقعہ ہے جس کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہو گا ،اور اس جیسے کتنے ہی واقعات ، پاکستان اور دیگر مقامات پر آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ ان واقعات کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کچھ مسلمانوں کو دہشت گردی کا اندھا دھند نشانہ بنایا جائے ، ان واقعات میں نہ جانے کتنے ہی بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ، کتنے زخمی ہوجاتے ہیں ، اور ان میں بعض ہمیشہ کے لئیے اپنے جسمانی  اعضاء سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ان دہشت گردانہ واقعات کا تعلّق زیادہ تر اسی شیعہ سنی اختلاف سے ہے ۔

سرزمین عراق میں صدیوں سے شیعہ اور سنی ، ایک دوسرے کے ساتھ پر امن اور برادرانہ زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ وہی کتابیں ، وہی عقائد جو آج پائے جاتے ہیں ماضی میں بھی تھے ، بلکہ ماضی میں عصر حاضر کے مقابلے میں زیادہ شدّت پائی جاتی تھی ؛ لیکن جو حوادث وہاں آج رونما ہو رہے ہیں گزشتہ چند صدیوں میں اس کی مثال نہیں ملتی؛ کہ دونوں فرقے ایک دوسرے کے خلاف اس طرح کے جارحانہ اقدامات اٹھائیں ۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں ۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ وہ دہشت گردانہ واقعات جو کبھی کبھی  ہمارے ملک میں بھی  رونما ہوتے ہیں ، یا پاکستان میں آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں کہ سنی ، شیعہ کے خون کا پیاسا ہے ، شیعہ ، سنی کا مخالف ہے ۔ ان حوادث میں ملوّث افراد نہ شیعہ ہیں نہ سنی ۔ وہ افراد جو ان واقعات میں ملوّث ہیں وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر اغیار اور اسلام دشمن قوّتوں کے ایجنٹ ہیں ۔وہ یقینا اغیار کے آلہ کار ہیں ؛

یہ جو آپ مسلسل مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ قبرستان بقیع، مسجد الحرام اور مسجد النبی (ص)میں کچھ نامعلوم افراد  اچانک ظاہر ہوتے ہیں اور ایرانی اور شیعہ زائرین کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں اور بسا اوقات ان کی ناموس و عزت کے حق میں گستاخی اور جسارت کے مرتکب ہوتے ہیں ، یہ کون لوگ ہیں ؟ اس سلسلے میں سبھی کو ہوشیار رہنا چاہئیے ، حکومتوں پر بھی اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، سعودی عرب کی حکومت پر بھی اس کی خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خانہ خدا، روضہ پیغمبر اسلام (ص) اور آئمہ طاہرین علیہم السّلام  کے زائرین کو تحفظ فراہم کرے  ؛یہ قطعا صحیح نہیں ہے کہ کوئی شخص، کسی ایرانی زائر یا شیعہ عالم دین یا کسی دوسرے شخص کی توہین کرے اور سعودی اہلکار ،خاموش تماشائی بنے رہیں یا توہین کرنے والے کا ساتھ دیں ؛ یہ حرکت ، اتحاد و وحدت کے منافی ہے ۔ یہ وہی چیز ہے جو امریکہ چاہتاہے ؛ یہ وہی چیز ہے جو اغیار کی خفیہ ایجینسیاں چاہتی ہیں ۔ حجاج کرام ، عالم اسلام کے مسائل سے غافل نہیں رہ سکتے ۔

آج ،  سرزمین افغانستان ، عراق ، مظلوم فلسطین اور پاکستان کا کچھ حصہ غیر ملکی افواج کے استکباری حملوں کی زد میں ہے ۔ عالم اسلام اس سے کیوں کر غافل ہو سکتا ہے ؟!کیا عالم اسلام اس سے چشم پوشی کر سکتا ہے ؟ یہ  وہ چیزیں ہیں جن کی طرف فریضہ حج کے دوران خصوصی توجّہ دینے کی ضرورت ہے ۔ فریضہ حج کو ان اقدامات کے خلاف امت مسلمہ کے عزم و ارادے کا مظہر ہونا چاہئیے جو اسلامی اتحاد اور وحدت کو نقصان پہنچاتے ہیں ؛ امت مسلمہ کی ترقّی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں، اور شان و شوکت سے لہراتے ہوئے اسلام کے پرچم کو سرنگوں کرنا چاہتے ہیں الحمد للہ آج اسلامی جمہوریہ ایران نے پر چم اسلام کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام  رکھا ہے ۔ ہمیں ان اقدامات کے بارے میں حساس ہونا چاہئیے ۔ یہ ہمارا فریضہ ہے ؛ حج کے کاروانوں کے انتظام و انصرام ، تبلیغ اور ان جیسے دیگر امور کی منصوبہ بندی میں ہمیں ان ضرورتوں کو مد نظر رکھنا چاہئیے ۔ ہماری ثقافتی اور سیاسی منصوبہ بندی ، قافلوں کی سرپرسی ، افراد کا انتخاب اور تمام حجاج کرام کو ان تقاضوں کے تابع ہونا چاہئیے ۔ ان سب امور پر یہی تقاضے حکم فرما ہونے چاہئیے ۔

 میں حج کمیٹی کے تمام اراکین کا تہ دل سے مشکور ہوں جو سالہا سال یہ عظیم ذمہ داری نبھا رہےہیں  اور اس سلسلے میں انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔ میں حج کمیٹی کے سربراہ جناب حجۃ الاسلام ری شہری ، جناب خاکسار اور حکومت  کے اعلیٰ حکام ، وزارت ثقافت (جس نے اس سلسلے میں بہت تعاون کیا ہے ) دیگر اداروں ، قافلہ سالاروں اور علماے دین کا بھی انتہائی شکر گزار ہوں ، یہ بہت عظیم کام ہے ، بڑی سنگین ذمہ داری ہے اور بہت بڑا ہدف ہے ۔

مجھے امید ہے کہ پروردگار عالم آپ سب کو مزید توفیق عنایت فرمائے گا اور امام زمانہ (عج) کی دعا آپ کے شامل حال رہےگی ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ