پہلا خطبہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
والحمد للہ رب العالمین۔نحمدہ ونستعینہ ونتوکل علیہ ونستغفرہ ونصلی ونسلم علی حبیبہ ونجیبہ وخیرتہ فی خلقہ حافظ سرہ ومبلغ رسالاتہ بشیررحمتہ ونذیرنقمتہ سیدنا ونبینا ابی القاسم المصطفی محمدوعلیٰ آلہ الاطیبین الاطہرین المنتخبین الھداۃ المھدیین المعصومین سیمابقیۃ اللہ فی العالمین والسلام علیٰ ائمۃ المسلمین وحماۃ المستضعفین وھداۃ المؤمنین۔
قال الحکیم فی کتابہ''ھو الذی انزل السکینۃ فی قلوب المؤمنین لیزداداواایماناًمع ایمانھم ولللہ جنود السمٰوات والارض وکان اللہ علیماً حکیماً(۱)۔
میں تمام برادارن وخواہران عزیز کوہرحال میں تقوائے الہی اختیارکرنے ، خداسے لولگانے اوراس کی رحمت وفضل سے دلبستگی رکھنےکی دعوت دیتا ہوں ۔اگرہم تقوائے الہی اختیارکرلیں ،ہرحال میں اسی سے لولگائے رہیں اوریہ فراموش نہ کریں کہ ہرحال میں اسی کےحضورمیں ہیں جوکہ تقویٰ کے حقیقی معنی ہیں تویقیناًخدا کی رحمت وبرکت اوراس کی مدد ہمارے شامل حال ہوجائے گی ۔ہر ہفتہ نماز جمعہ میں شرکت کرنے والے اورخدا سےلولگانے والے شخص کوتقویٰ کے یہ حیرت انگیزمعنی دہرانے چاہئیں اورخود کوتقویٰ وپرہیز گاری کی تلقین کرنی چاہیے۔
یہ ایام ایک طرف سے صدیقہ کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت وباسعادت سے ملےہوئے ہیں یعنی آپ کی ولادت کی تاریخ گذری ہے اوردوسری جانب ماہ رجب کےگراں قیمت ایام آرہے ہیں۔یہ ذکر کا وقت ہے،دعا کا وقت ہے، خدا سےلولگانے کا وقت ہے۔میں نے جس آیہ کریمہ کی تلاوت کی ہے اس میں مؤمنین کوبشارت اورسکینہ الٰہی کے نزول کی یاددلائی جارہی ہے۔سکینہ کا مطلب ہوتاہےمختلف طرح کےاندرونی (روحانی )اوربیرونی تلاطم سے سکون۔یہ آیت واقعہ حدیبیہ سے متعلق ہے۔ ( ۶ہجری کو سرکاررسالت مآب اپنے سیکڑوں اصحاب کے ہمراہ عمرہ کی غرض سے مکہ سے مدینہ کی سمت چلے توراستہ میں کچھ ایسے واقعات پیش آگئے جن کی وجہ سے کئی لحاظ سے مؤمنین کے دل میں تلاطم اوربے چینی پیدا ہوگئی؛ایک یہ کہ مسلح دشمنوں نے ان کا محاصرہ کرلیا تھا ،یہ لوگ مدینہ سے دورتھے ، حدیبیہ مکہ سے نزدیک ہے، دشمن مکہ کاسہارالئے ہوئے تھے، ان کےپاس طاقت تھی، اسلحہ تھا، لشکر تھا۔ایک طرف یہ پریشان کن صورتحال تھی اوربہت سے مؤمنین مضطرب تھے۔اوردوسری طرف سرکارختمی مرتبت(ص)اپنی پوشیدہ خدائی سیاست کی بنا پرجو بعد میں سب پرعیاں ہوگئی کفارکے سامنے بہت سے مراحل پرعقب نشینی اختیارکرتے چلے گئے؛انہوں نے کہا رحمان ورحیم اوربسم اللہ کومٹادیا جائےآپ(ص) نے مان لیا۔اس طرح کے اوربھی چند واقعات ہوئے جن سے مؤمنین کے دلوں میں تشویش اوراضطراب پیداہوگیا، کچھ شکوک وشبہات کا شکارہوگئے۔
جب ذاتی یا اجتماعی مسائل کے باعث مؤمنین اضطراب کا شکارہوجائیں توایسے مواقع پرسکینہ الٰہی کا انتظارکرنا چاہئے۔ارشادہوا''ھوالذی انزل السکینۃ فی قلوب المؤمنین''خدانے دلوں کی تکلیف دورکی ،انہیں سکون بخشا،ان کے اندرسے تلاطم دورکیا اورمسلمان خدا کی اس عنایت کے بعد سکون پاگئے۔اس کے بعد اس روحانی وقلبی سکون کا نتیجہ کیا ہوتاہے''لیزدادواایماناً مع ایمانھم'' اس کے بعد ان کےدلوں میں ایمان مزید راسخ ہوجاتاہے ، انہیں مزید نورانیت ملتی ہے۔اسی لئے مسلمانوں اورمؤمنین کوخدا سے حسن ظن رکھنا چاہئے،یہ یقین رکھنا چاہئے کہ خداان کا ناصرومددگارہے،یہ یقین رکھنا چاہئے کہ راہ مستقیم پرچلنے والوں کے ساتھ خداہے۔جب دل مطمئن ہوجاتے ہیں توقدم لڑکھڑاتے نہیں اورجب قدم مضبوط ہوجائیں راستہ آسانی سے طے ہوتاہے ،منزل نزدیک ہوجاتی ہے۔
اسلام کے دشمنوں نے مسلمانوں کے دلوں کوہمیشہ مضطرب کرنا چاہا ہے۔تاریخ اسلام میں ایسے کئی واقعات ہیں۔اسلام سے قبل بھی انبیاءکے عظیم جہادی اقدامات کے موقع پرجولوگ ایمان پرقائم رہے انہیں روحانی سکون ملا ۔اس سکون کے باعث ان کے قدم ایمان کی راہ میں اٹھنے لگے، نہ کسی تشویش میں مبتلاہوئےاورنہ انہیں کسی قسم کا اضطراب ہوا،نہ اپنا راستہ بھولے۔اس لئےکہ اضطراب اورذہنی پریشانی کے وقت صحیح راستہ کا انتخاب مشکل ہوتاہے۔جسے قلبی سکون ہووہ صحیح سوچتا،صحیح فیصلہ لیتا اورصحیح قدم اٹھاتاہے۔یہ رحمت الٰہی کی نشانیاں ہیں۔
اِس وقت ہمارےانقلابی معاشرہ اورمؤمن عوام کواپنے اندرکےاس سکون واطمینان میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔''الابذکراللہ تطمئن القلوب''(۲)۔یاد خدادنیااورزندگی کے طوفانوں میں انسان کی حفاظت کرتی ہے۔خدا کی یا د کی اہمیت سمجھئے۔جیسا کہ ہم نے عرض کیا ایام ماہ رجب نزدیک ہیں ۔ اس ماہ کی دعائیں معرفت کا سمندرہیں ۔دعامیں فقط اتنا ہی نہیں ہوتا کہ انسان خدا سے قربت حاصل کرتاہے۔ یہ توہے ہی، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔دعا میں تعلیم بھی ہے،تزکیہ بھی ہے۔آئمہ طاہرین سے منقول دعائیں انسان کا ذہن روشن کردیتی ہیں ۔ہمیں ایسے حقائق کی تعلیم دیتی ہیں جن کی ہمیں زندگی میں ضرورت ہے اوردل کو خدا کی جانب متوجہ بھی کرتی ہیں ۔خدا کی یاد کی بہت زیادہ قدرکرنی چاہئے۔یہ نمازجمعہ بھی خداکی یاد کا مصداق ہے''فاسعواالیٰ ذکراللہ''(۳)یہاں آپ کے دل،زبان اورحرکات وسکنات پریاد الٰہی سایہ فگن رہنی چاہئے۔دل میں خدا کی یادہو،زبان پراس کا ذکرہو،ہاتھ پیراورتمام جسمانی حرکات وسکنات خدا کی یاد اوراس کے اوامر کی اطاعت میں ہوں تویہی وہ چیزہے جس کی ہم سب کوضرورت ہے۔
میں آپ سے عرض کروں کہ انقلاب کے بعد کے ان تیس سالوں میں ہمارے سامنے ایسے ایسے مرحلے آئے جوایک قوم اورایک نظام حکومت کوزیروزبرکرنے کے لئے کافی ہوا کرتے ہیں ،ملک کوایسے بحران سے دوچارکردیتے ہیں کہ اسے سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کیا کرے اورکیا نہ کرے۔جیسی صورتحال ہم اپنے کچھ پڑوسی ممالک میں دیکھ رہے ہیں ہمارے سامنے بھی ایسے حالات رونما ہوئے لیکن ایمان،عزم محکم ،نورانی دل اورذکرخدا کے سہارے چلنے والی اِس کشتی میں ایسے ایسے طوفانی حالات میں بھی ذرہ برابرتزلزل تک نہ ہوا۔ یہ رحمت الٰہی کی نشانی ہے،یہ آپ عوام پرخدا کے فضل وکرم کی علامت ہے۔
خدا کا فضل وکرم ہمیشہ ہمارےشامل حال رہاہے اوراس فضل وکرم کی حفاظت کرنی چاہیے اورکبھی بھی غرورکا شکا رنہیں ہونا چاہیے ۔خدا کا دست مددگاردیکھ کے کبھی یہ نہ کہئے گاکہ ''ہم پرتوخدا کی توجہ ہے ہی'' اوراپنی ذمہ داریوں سے غفلت نہ کیجئے گا۔کبھی بھی دل سے خدا کی یاد محو نہ ہونے دیجئے گا۔یہ میں خاص طورپرآپ ملک کےتمام جوانوں سے کہہ رہا ہوں۔اے جوانو!ان پاک دلوں کو،ان نورانی دلوں کو،ان نرم دلوں کوغنیمت جانئے۔انہیں خدا کی یاد سے سیروسیراب کیجئےپھراس قوم پرخداکے فضل وکرم کا سلسلہ جاری رہے گا۔اورمیں آج آپ سے بتارہاہوں جان لیجئے میں جتنا اس قوم کوجانتاہوں،جتنا اس قوم اوردیگراقوام کی تاریخ سے باخبرہوں اس کی بنا پریہ یقین واطمینان سے کہہ سکتاہوں یہ قوم خدا کی توفیق اوراس کی امداد سے اپنے اعلیٰ اہداف ومقاصد تک رسائی حاصل کرلے گی۔
سماج کے روحانی ماحول کی قدرکیجئے۔کہیں سیاسی نشیب و فراز ہمیں خدا سے غافل نہ کردے۔کہیں سیاسی بحثیں (جوملک میں ہوتی رہتی ہیں اورآزاد اقوام کا شیوا ہے)ہمیں غفلت میں نہ ڈال دیں ۔ہمیں پتہ ہی نہ ہو کہ ہمیں کہاں جانا ہے اورکیسے جانا ہے۔اس انقلاب کی بناہی پاک اورسچےایمان پررکھی گئی تھی اس کی بقا بھی اسی میں مضمرہے۔
دین سے منحرف کرنےوالی تمام چیزیں موجودہونے کے باوجود ہماری قوم مؤمن،خدادوست،دین شناس اورروحانیت پسندہے۔مادیت میں غرق دنیا کے جوان حیران وسرگردان ہیں ، روحانیت سے دوری نےانہیں سرگردان کردیا ہے۔انہیں سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ کیا کریں ۔ان کے مفکرین بھی پریشان ہیں ہاں کچھ سمجھ چکے ہیں کہ ان کی بھلائی روحانیت کی طرف پلٹ آنے میں ہے۔لیکن کھوئی ہوئی معنویت جسے دوصدیوں سے مغربی ممالک میں کچلا جا رہا ہے کیسے پلٹ سکتی ہے۔یہ آسان کام نہیں ہے۔لیکن ہماری قوم کا یہ حال نہیں ہے۔ہم روحانی ماحول میں آگےبڑھے ، روحانیت ہی کے ذریعہ اتنا عظیم انقلاب کامیابی سے ہمکنارکیااورروحانیت ہی کے ذریعہ اس مادی دنیا میں روحانی بنیادوں پر اسلامی نظام قائم کیا، اس کی بنیادیں مضبوط کیں اورمختلف قسم کے حملوں اورطوفانوں میں اس کی حفاظت کی۔ ہماری قوم نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ اسی روحانیت کے سہارے جیتی۔آج بھی ہمارے جوانوں کی اکثریت مؤمن اورروحانی ہے۔یہاں تک وہ لوگ جن کی وضع قطع سے لگتا نہیں کہ یہ بھی روحانیت پسند ہوں گےلیکن حساس مواقع پرمحسوس ہوتا ہے کہ نہیں ان کا دل بھی خداسے لولگائے ہوئے ہے۔میں نے بارہا عرض کیا ہے شبہائے قدر،ایام اعتکاف اورنماز عید فطرکے موقع پرانسان جن کے لئے سوچ بھی نہیں سکتا وہ بھی خدا سے لولگائے ہوتے ہیں ۔
پالنے والے تجھے قسم ہے قرآن کی، تجھے قسم ہے آئمہ طاہرین(علیہم السلام)اورنبی کریم(ص) کی ہمارے دلوں کوپہلے سے زیادہ روحانیت سے مملوکردے۔
پروردگارا!ہمیں قرآن واہلبیت سے دورنہ کر۔
پالنے والے!اس امت پرتقوی ،ایمان اورسکینہ نازل فرما۔
پالنے والے!اس باعزت اورمظلوم قوم کودشمنوں پرغلبہ عنایت کر۔
پالنے والے!ہمارے دلوں کواپنے سے لولگائے رہنے دے۔
پالنے والے!ہم جو کہہ رہے ہیں ،کررہے ہیں اسےاپنے لئے اوراپنی راہ میں قراردے اوراسے قبول فرما۔
پالنے والے!اپنے ولی،حجت،عبد صالح،حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ)کی خدمت میں ہمارادرودوسلام بھیج۔ہمارے حق میں ان کی دعا کوقبول فرما۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
والعصران الانسان لفی خسر۔الاالذین آمنو اوعملواالصالحات وتواصوا بالحق وتواصوابالصبر۔(۴)
دوسراخطبہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمدللہ رب العالمین ۔والصلاۃ والسلام علیٰ سیدنا ونبیناابی القاسم المصطفیٰ محمد وعلی ٰ آلہ الاطیبین الاطہرین المنتخبین الہداۃ المہدیین المعصومین سیماعلیّ امیرالمؤمنین وحبیبتہ فاطمۃ الزہراءوالحسن والحسین سیدی شباب اہل الجنۃ وعلی ابن الحسین ومحمد ابن علی وجعفرابن محمدوموسیٰ ابن جعفروعلی ابن موسیٰ ومحمد ابن علی وعلی ابن محمدوالحسن ابن علی والخلف القائم المہدیّ صلواتک علیھم اجمعین وصل علیٰ ائمۃ المسلمین المستضعفین وھداۃ المؤمنین۔
اوصیکم عباداللہ بتقوی ٰ اللہ۔
اس خطبہ میں بھی میں نماز کے لئے تشریف لائے جملہ برادران وخواہران کوتقویٰ اورپرہیز گاری کی دعوت دیتا ہوں ۔
اس خطبہ میں انتخابات کے موضوع پرگفتگو کرنا ہے جوکہ اس وقت ملک کاتازہ ترین مسئلہ ہے۔مجھے تین طرح کے افراد سے تین طرح کی باتیں کہنا ہیں ۔کچھ باتیں ملک بھر کی عوام سے کہنا ہیں جہاں کہیں بھی ہیں۔کچھ باتیں سیاسی شخصیات،صدارتی امیدواروں اورالیکشن کے معاملات میں سرگرم رہنے والے افراد سے کہنا ہیں اوراس کے بعد کچھ باتیں استکباری ممالک کے سربراہان، بعض مغربی ممالک اوران کی سرپرستی میں کام کرنے والے ذرائع ابلاغ کےذمہ داروں سے کہنا ہیں۔
آپ عزیز عوام کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتاہوں اورآپ کی تعظیم واحترام بجا لاتاہوں ۔مجھے تقریر میں اپنے مخاطبوں کے سلسلہ میں غلو سے کام لینا یاتملق کرنا قطعی پسند نہیں ہےلیکن الیکشن سے متعلق میں جتنی بھی آپ کی تعریف کردوں ہرگز غلو نہ ہوگا اگرکہیں کہیں تملق بھی محسوس ہو تب بھی کوئی حرج نہیں اس لئے کہ آ پ کا کارنامہ بہت بڑاہے۔چھ جون کو ہونے والی پولنگ عوام کی جانب سے ملک کی تقدیرسازی میں ان کے احساس ذمہ داری کا مظاہرہ تھا،ملکی انتظام میں شرکت کے شوق کا عزم تھا،نظام سے وفاداری کا مظاہرہ تھا۔مجھے اس طرح کےانتخابی عمل کی مثال دنیا بھر میں کہیں نظرنہیں آتی ؛نہ جھوٹ موٹ کی ظاہری جمہوریت کے حامل ممالک میں اورنہ ہی حقیقت میں عومی مینڈیٹ پربھروسہ کرنے والے ممالک میں ۔اسلامی جمہوریہ کے اندربھی ۱۹۷۹کے ریفرینڈم کے علاوہ گذشتہ جمعہ جیسی بھاری پولنگ کی کوئی مثال نہیں ملتی۔پچاسی فیصد عوام یعنی تقریباًچارکروڑ لوگوں کا پولنگ میں حصہ لینا!واقعاً اس طرح کے واقعات کی پشت پرامام عصر(عج) کا دست مبارک نظرآتاہے۔یہ خداسے لولگانے کی نشانی ہے۔میں ملک بھر کی عوام کا دل کی گہرائیوں سے ادب واحترام بجالانا ضروری سمجھتا ہوں۔
خاص طورپرہماری نوجوان نسل نے ثابت کردیا ہے کہ اس میں بھی وہی سیاسی جوش و جذبہ ،وہی سیاسی شعوراور سیاسی لحاظ سے وہی بصیرت ہے جو ہمیں انقلاب کی پہلی نسل میں نظرآتی تھی ۔فرق یہ ہے کہ انقلاب کے دوران خود انقلابی جوش تھا اس کے بعد جنگ کے دوران بھی دوسرے لحاظ سے جوانوں میں جوش وخروش پیدا ہوتاتھا لیکن آج ایسا کچھ بھی نہیں اس کے باوجودوہی عہد،وہی احساس ذمہ داری اورسیاسی جوش کےساتھ وہی ہوش اوربصیرت بھی ہماری موجودہ نسل میں موجودہے۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ہاں لوگوں کے درمیان مزاج کا فرق ہے کچھ لوگ کسی ایک کومانتے ہیں اس کی بات پرتوجہ دیتے ہیں کچھ لوگ کسی دوسرے کومانتے اوراسی کی بات سنتے ہیں ۔یہ اپنی جگہ ہےاورقدرتی چیز ہے۔ نظریات اپنے اپنے سہی مگرعوام میں اپنے ملک اوراپنے نظام کی حفاظت کے سلسلہ میں ایک اجتماعی عزم و عہد نظرآتا ہے۔شہرہو،دیہات ہو،چھوٹا شہرہو،بڑا شہرہوہرجگہ مختلف قوموں کے لوگ، مختلف مسالک کے لوگ،مرد،عورتیں،بوڑھے، جوان سب نکل پڑے اوریہ عظیم کارنامہ سرانجام پاگیا۔
یہ الیکشن میرے عزیزو!آپ کے دشمنوں کے لئے ایک سیاسی زلزلہ اوردنیا بھر میں پھیلے آپ کے چاہنے والوں کے لئے تاریخی جشن کا موقع تھا۔انقلاب کےتیس سال پورے ہونے پرعوام کا اس انداز سےاسلامی نظام،انقلاب اورامام خمینی(رہ) کے تئیں وفاداری کا اظہارکرنامرحوم امام (رہ)اورشہداء کے ساتھ ایک عمومی تجدیدبیعت تھی جس سے اسلامی جمہوریہ کو سستانے اورپھرسے آگے بڑھنے کا بہت بڑا موقع مل گیا۔ان انتخابات نےفخریہ اندازمیں دنیاکے سامنے مذہبی جمہوریت(عوامی حکومت) کا نمونہ پیش کیاہے۔اسلامی جمہوریہ کےتمام مخالفین نے دیکھ لیا کہ مذہبی جمہوریت کیا ہوتی ہے۔یہ ایک تیسراراستہ ہے۔ایک طرف ڈکٹیٹرشپ اورمطلق العنانیت ہے اوردوسری طرف روحانیت اورمذہب سے دورڈیموکریسی!بیچ میں ہے یہ مذہبی جمہوریت جس کی سمت عوام کھنچے چلے آتے ہیں ۔تولوگوں نے اس امتحان میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔یہ تھی ان انتخابات سے متعلق پہلی بات جو مجھے عوام سے کہنا تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ۱۲/جون کے انتخابات نے ثابت کردیا کہ اس ملک میں پراعتماد،پرامیداورقومی سطح پرطراوت وشادابی رکھنے والےلوگ رہتے ہیں ۔یہ دشمن کے بہت سارے پروپيگنڈہ کا جواب ہے۔اگریہاں کے لوگوں کواپنا مستقبل تاریک نظرآرہا ہوتا تو ووٹ نہ دیتے۔اگرانہیں اپنے نظام حکومت پربھروسہ نہیں تھا توووٹ نہ دیتے۔اگرانہیں آزادی نہیں محسوس ہورہی تھی توووٹ نہ دیتے۔واضح ہوگیا کہ لوگوں کواسلامی جمہوری نظام پراعتماد ہے۔اورمیں ابھی آگے چل کرعرض کروں گا کہ دشمن یہی اعتماد توڑنا چاہتے ہیں ۔یہ اسلامی جمہوریہ کا عظیم ترین سرمایہ ہے جسے وہ ہم سے چھیننا چاہتے ہیں اب الیکشن کے سلسلہ میں لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ عوام کا اسلامی نظا م پرسے اعتماد کمزورہوجائے۔ہمارے دشمن یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب اعتماد نہیں ہوگا توالیکشن میں کم تعداد میں لوگ حصہ لیں گے اورجب الیکشن میں حصہ لینے والوں کی تعداد کم ہوجائے گی تونظام کی قانونی حیثیت پرحرف آجائے گا۔یہ ان کا مقصد ہے۔لوگوں سے اعتماد ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ الیکشن میں ان کی شرکت صفرہوجائے اوراس طرح اسلامی جمہوریہ کی قانونی حیثیت ختم ہوجائے ۔دشمن یہ چاہتا ہے اوراس کا نقصان بینکوں یا بسوں کوآگ لگانے سے کہیں زیادہ ہے۔اس کا کسی دوسرے نقصان سے موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔لوگ اتنے ذوق وشوق سے اتنا عظیم اقدام اٹھائیں ، الیکشن میں حصہ لیں اورپھران سے کہا جائے تم نے اسلامی نظام پربھروسہ کرکے غلطی کی ہے یہ نظام قابل بھروسہ تھا ہی نہیں ۔دشمن یہ چاہتاہے۔ اوراس کے لئے اس نے کوششیں الیکشن کے دوتین ماہ پہلے سے ہی شروع کردی تھیں ۔میں نےشمسی سال کے آغاز کے موقع پرمشہد کی اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مستقل پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوگی۔پہلے ہی سے ماحول بنایا جا رہا تھا میں نے اسی وقت اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ جوبات دشمن ہمارے عوام کے دل میں ڈالنا چاہتاہے اسے آپ نہ دہرائیے گا۔اسلامی جمہوری نظام پرعوام کوبھروسہ ہے۔یہ بھروسہ کوئی آسانی سے حاصل نہیں ہواہےتیس سال سے اسلامی جمہوریہ کے حکام انتھک محنت کررہے ہیں اوران کی کارکردگی دیکھ کر لوگوں میں یہ اعتماد پیداہوا ہے ۔دشمن اسی کو چھیننا چاہتاہے ۔ایک بات یہ ہوئی۔
تیسری بات رقابت اورانتخابی مقابلہ سے متعلق ہے۔صدارتی امیدواروں کے درمیان رقابت اورمقابلہ حقیقی ،پوری طرح آزاداورصاف وشفاف تھا۔سب نے ملاحظہ کیا ہے۔رقابت اورمناظرے اتنے شفاف اورواضح تھے کہ کچھ کوان پراعتراض ہونے لگا میں ابھی عرض کروں گا کسی حد تک ان کا اعتراض بھی بجا ہے۔اس کے منفی اثرات ابھی بھی باقی ہیں ۔تومیں عرض کررہا تھا کہ ان چارصدارتی امیدواروں کے درمیان رقابت اورمقابلہ اسلامی نظام کے اندرکے چارحلقوں کے درمیان تھا ۔دشمن مختلف ذرائع ابلاغ (جن کی اکثریت خبیث صہیونیوں سے وابستہ ہے)کی وساطت سے یہ ظاہرکرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ یہ مقابلہ انقلاب کے حامیوں اورمخالفوں کے درمیان ہے۔جی نہیں ایسا نہیں ہے۔و ہ ایسا کہہ کہہ کے بہت بڑی غلطی کررہے ہیں ۔یہ سچائی نہیں ہے۔
یہ چاروں صدارتی امیدواراسلامی نظام ہی سے وابستہ ہیں ۔ان میں سے ایک موجودہ صدرہیں،خادم قوم،محنتی اورقابل اعتماد صدر۔ایک خود میرے صدارتی دورمیں آٹھ سال تک وزیراعظم رہے ہیں ۔ایک کئی سال تک فوج کے سربراہ اورمقدس دفاع کے دوران ایک اہم کمانڈررہے ہیں ۔ایک دوبار پارلیمنٹ کے سربراہ رہے ہیں،مجلس شورائ اسلامی کے اسپیکررہے ہیں ۔یہ سب اسلامی نظام ہی سے منسلک افرادہیں۔ہاں ان میں نظریاتی اختلاف ضرورہے۔پروگرام اورمنصوبے الگ الگ ہیں ،سیاسی سمتیں الگ الگ ہیں ۔لیکن چاروں کے چاروں اسلامی نظام ہی کا حصہ ہیں ۔جوبھی مقابلہ ہے نظام کے اندرہے نظام کے اندراورباہرنہیں جیسا کہ صہیونی ،امریکی اورخبیث برطانیہ کے ذرائع ابلاغ رٹ لگائے ہیں ۔جی نہیں یہ مقابلہ نظام کے اندراورنظام سے وابستہ افراد کے بیچ تھا۔میں سب کا ماضی جانتا ہوں ،سب کے مزاج سے واقف ہوں ،ان کی رفتاروگفتارسےآگاہ ہوں میں سب کے ساتھ کام کرچکاہوں ۔
ہاں یہ صحیح ہے کہ میں ان کے سارے نظریات قبول نہیں رکھتا۔ان کے بعض نظریات اوراقدامات میری نظرمیں بلاشک وشبہ قابل تنقید ہیں ۔ان میں سے بعض کوملک کی خدمت کے سلسلہ میں دوسرے سے زیادہ مناسب سمجھتاہوں لیکن انتخاب کاحق عوام کے پاس ہےاورانہوں نے انتخاب کرلیا ہے میری مرضی اورخواہش نہ عوام کے سامنے بیان ہوئی ہے اورنہ اس سلسلہ میں ان کے لئے اس پرعمل ضروری ہے۔لوگوں نے اپنے معیاراوراصول کے مطابق کسی ایک کوپرکھا اورآگے بڑھ کے اسے ووٹ دیا۔چند ملین ایک طرف رہےا ورچند ملین دوسری طرف، لہٰذا یہ سارا معاملہ نظام کے اندرکا ہے۔اگراس معاملہ کو کوئی بگاڑ کے پیش کرنا چاہے تویہ سوفیصد اس کی خباثت ہے جو کسی اورمقصد کے تحت ایسا کررہا ہے۔یہ نظام کے اندراورباہروالوں کے درمیان مقابلہ نہیں تھا،نہ ہی انقلاب اورانقلاب کے مخالفین کے درمیان تھا۔مقابلہ اسلامی نظام حکومت کی چاردیواری کے اندرتھا۔
لوگوں نےان چاروں میں سے جسے بھی ووٹ دیا ہےاسلامی نظام پریقین کےساتھ ووٹ دیا ہےاوریہ سوچ کر دیا ہے کہ فلاں ملک کے لئے بہترہے،نظام کازیادہ پابندہے۔جسے نظام کی خدمت کے لئے دوسروں سے بہترسمجھا اسی کوووٹ دیا ۔لوگوں نے بھی اسلامی نظام کی چاردیواری کے اندرالیکشن میں حصہ لیا ہے۔
جہاں تک مناظروں کاتعلق ہے تویہ اچھی اوراہم ایجاد تھی،مناظرے نہایت واضح ،شفاف اورواقعی تھے۔مناظرہ ان غیرملکی پرپیگنڈوں کا منہ توڑجواب تھے کہ ایران میں انتخابی مقابلہ آرائی محض دکھاواہے۔لیکن مناظروں کے بعد انہیں پتہ چلا کہ نہیں یہ توباقاعدہ ٹکرہے۔صدارتی امیدوارآمنےسامنے بحث کررہے تھے،دلیلیں پیش کررہے تھے۔لہٰذا اس لحاظ سےمناظرے بہت ہی اچھے تھے اوران کے مثبت نتائج بھی نکلے البتہ کچھ خامیاں بھی تھیں ۔میں دونوں چیزوں پرروشنی ڈالوں گا۔
مثبت پہلویہ تھا کہ ان مناظروں اورٹی وی مذاکروں میں سب نے کھل کے بات کی،اپنے دل کی بات کی۔ایک دوسرے پرتنقید کا ایک سیلاب ساامنڈ آیا تھا اورسب کو جواب دینا پڑرہا تھا۔تنقید ہوتی تھی اورمد مقابل اس کا جواب دیتا تھا۔اشخاص اورپارٹیوں کا موقف بغیر کسی پیچیدگی اورابہام کے صاف صاف لوگوں کے سامنے آگیا ۔کیا پالیسیاں ہیں ،کیا کرنا چاہتے ہیں ، کس چیز کے پابند ہیں ،کس حد تک پابند ہیں سب عوام کے سامنے آگیا اورانہیں فیصلہ لینے میں آسانی ہوگئی۔لوگوں کواحساس ہوا کہ وہ اسلامی نظام کے اندرغیرنہیں سمجھے جاتے اورملک کے نظام میں اندراورباہرکوئی معنی نہیں رکھتا۔سب کچھ عوام کے سامنے آگیا ، سارے نظریات سامنے آگئے اورمعلوم ہوا کہ لوگ سب کچھ دیکھ سن کر ووٹ دیں گے۔عوا م کا ووٹ دکھاوا نہیں ہے بلکہ انتخاب کا حق واقعاً انہیں کوہے۔لوگ سوچ سمجھ کرووٹ دینا چاہتے ہیں ۔مناظروں نے یہ ثابت کیا ۔پچھلے الیکشن سے ایک کروڑ زیادہ لوگوں کے پولنگ میں حصہ لینے کی ایک وجہ یقیناً یہی تھی کہ عوام کے اذہان وافکارکھولے گئے اورانہوں نے خود تشخیص دے کے قدم آگے بڑھایا۔مناظرے سڑکوں تک بھی آئے، گھروں میں بھی داخل ہوئے اوراس سے لوگوں کی انتخاب کی صلاحیت میں اضافہ ہوگیا۔اس طرح کے مناظروں سے اذہان روشن ہوتے ہیں ،انتخاب کی صلاحیت میں اضافہ ہوتاہے۔اسلامی جمہوریہ کی نظرمیں یہ اچھی چیزہے۔لیکن میں یہیں پرواضح کردوں کہ مناظرے اس حد تک نہیں پہونچنے چاہئیں کہ جس سے دشمنیاں اورعداوتیں جنم لے لیں ا گرایسا ہوا توان کا اثرالٹا ہوگا۔جتنااُس دن تھا اگراتنا ہی رہے تواچھا ہے لیکن کھچتا چلا جائے،بڑھتا ہی رہے، توتومیں میں ہوتی ہی رہےتواس سے آہستہ آہستہ دشمنیاں پیدا ہوجائیں گی۔اگرمناظروں کی خامیاں دورکرلی جائیں (جن کا میں آگے چل کرتذکرہ کروں گا)توحکام کی سطح پران کے جاری رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔حکام خودکو تنقید کے میدان میں لائیں اورجواب دیں ، وضاحت کریں ۔کئی بارایسا ہوتا ہے کہ اگرکسی پرتنقید ہو تو اسے حقیقت بیان کرنے اورلوگوں کے اذہان روشن کرنےکا موقع مل جاتا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن وہ نقائص اورخامیاں دورکرلی جائیں جن کا میں آگے چل کرتذکرہ کروں گا۔اگرسال بھر یا پورے چارسالہ دورمیں مناظروں کا سلسلہ جاری رہے توالیکشن کے وقت ایک دھماکہ خیز صورتحال پید انہیں ہوگی اس لئےکہ ساری باتیں کہی سنی جا چکی ہوں گی جواب دیئے جاچکے ہوں گے۔یہ مناظروں کی خوبیاں تھیں ۔لیکن کچھ نقائص بھی تھے جنہیں دورکرنے کی ضرورت ہے۔بعض دفعہ دیکھا گیا کہ مناظروں کا منطقی پہلوکمزورہوگیا ہے اورجذبات اوراحساسات کا غلبہ ہے،کردارکشی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔اِن مناظروں میں موجودہ کیفیت کوحد سے زیادہ خراب دکھایاگیا،گذشتہ ادوارکوبھی خراب دکھایا گیا ۔دونوں باتیں غلط تھیں ۔ایسے الزام لگائے گئے جوکہیں ثابت نہیں ہوسکے ہیں ،افواہوں کاسہارالیا گیا،انصاف سے کام نہیں لیا گیا۔موجودہ حکومت کی اتنی خدمت کے باوجود انصاف سے کام نہیں لیا گیا،گذشتہ حکومتوں اورتیس سالہ دور سے متعلق بھی انصاف سے بات نہیں کی گئی۔گفتگوکے دوران حضرات جذباتی ہوگئے اوراچھی باتوں کے ساتھ ساتھ جوباتیں اچھی نہیں تھیں وہ بھی کہہ دی گئیں ۔میں نے بھی عام لوگوں کی طرح ٹی وی پر مناظرے دیکھے۔آزادی اظہاردیکھ کے لطف آیا ۔ یہ دیکھ کے لطف آیا کہ اسلامی جمہوری نظام لوگوں کی انتخاب کی صلاحیت بڑھا کے ان کے ساتھ تعاون کررہاہے۔لیکن یہ عیوب ونقائص دیکھ کے تکلیف بھی ہوئی۔صدارتی امیدواروں کے حامیوں کے لئے بھی اس طرح کی کھلم کھلاتہمتیں اشتعال انگیزاورتکلیف دہ تھیں ۔دونوں جانب سے یہ حرکت ہوئی۔
نمازجمعہ کاخطبہ خود نماز کاحکم رکھتاہے اس منبرسے میں حقائق ہی بیان کروں گا۔افسوس کہ یہ عیب دونوں جانب موجودتھا۔ایک جانب سے ملک کے آئینی صدرکی کھلم کھلا توہین کی گئی، الیکشن سے دوتین ماہ قبل بھی میرے پاس تقریروں کے ریکارڈ لائے جاتے تھےاورمیں دیکھتا یا سنتا تھاکہ تہمتیں لگائی جارہی ہیں کس پر؟ اس شخص پرجو ملک کا آئینی صدرہے، جسے عوام کامینڈیٹ ملا ہے۔جھوٹی نسبتیں دی گئیں ۔عوام کے قابل اعتماد صدرمملکت پرجھوٹ بولنے کا الزام لگایا گیا۔یہ کیا صحیح ہے؟ حکومت کی منفی کارکردگی کی جعلی رپورٹ بنا کرشائع کی گئی ۔ہم جواندرکی خبررکھتے ہیں دیکھ رہے ہیں اورجانتے ہیں کہ یہ سب حقیقت کے برعکس ہے۔گالیاں دی گئیں ،صدرجمہوریہ کوخرافاتی ،رمال اوراس طرح کے شرم آورالقاب دیئے گئے ۔اخلاق ،قانون ،انصاف سب پامال کردیا گیا۔اِس طرف سے!اس طرف سے بھی یہی ہوااس طرف سے بھی ایسا ہی کچھ دوسرے انداز سے کیا گیا۔انقلاب کی تیس سالہ شاندار کارکردگی کی قدرے پردہ پوشی کی گئی۔کچھ ایسے لوگوں کے نام لئے گئے جونظام کی اہم شخصیات ہیں جن کی زندگیاں انقلاب کے لئے وقف رہی ہیں ۔میں نماز جمعہ میں کبھی کسی کا نام نہیں لیتا رہاہوں لیکن چونکہ نام لیا گیا ہے لہٰذا مجبوراًمجھے بھی نام لینا پڑے گا۔خاص طورسے ہاشمی رفسنجانی صاحب اورناطق نوری صاحب کا نام لے کے بات کرنا میرے لئے ضروری ہے۔البتہ ان حضرات پرکسی نے غبن کا الزام نہیں لگایا ہے۔لیکن اگران کےرشتہ داروں کے سلسلہ میں کسی کا کوئی دعوی ٰ ہے تواسے قانونی طریقہ سے ثابت کیا جائے اورجب تک ثابت نہیں ہوتا تب تک ذرائع ابلاغ میں نہ لایا جائے۔اوراگرکچھ ثابت ہوتا ہے توان میں اورعوام میں کوئی فرق نہ ہوگا(ایک ہی برتاؤ ہوگا)۔لیکن ثابت ہونے سے قبل سامنے لانا اوریقین سے کہنا صحیح نہیں ہے۔ایسی باتیں جب سامنے لائی جاتی ہیں تومعاشرہ میں اس کا برااثرپڑتاہے،نوجوان کچھ اورسوچنے لگتے ہیں ،کچھ اورسمجھنے لگتے ہیں ۔
ہاشمی صاحب کوسب جانتے ہیں ۔لیکن میں انہیں انقلاب اورانقلاب کے بعدانہیں ملے عہدوں کے بعد سے نہیں جانتا ۔میں انہیں ۱۹۵۷یعنی باون سال سے جانتاہوں ،انہیں نزدیک سے پہچانتاہوں ۔ہاشمی صاحب انقلابی جدوجہد کےاصلی ترین افراد میں سے تھے،انقلاب سےپہلے ممتاز اورنامور مجاہد تھے، انقلاب کے بعدامام (رہ)کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کی اہم ترین شخصیات میں سے تھے،امام (رہ)کی رحلت کے بعد سے آج تک رہبر کے ساتھ ہیں ۔آپ کئی بارشہادت کے قریب جا کے واپس آئے ہیں ، انقلاب سے پہلے اپنا مال انقلاب کی راہ میں خرچ کرتے اورمجاہدوں کودیتے تھے۔نوجوانوں کے لئے یہ سب جاننا اچھاہے۔انقلاب کے بعد آپ کئی عہدوں پرفائز رہے ہیں ،آٹھ سال تک صدررہے ہیں ،اس سے پہلےاسپیکر تھے اوربھی ذمہ داریاں سنبھالتے رہے ہیں اس پورے عرصہ میں ہمیں ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ انہوں نے انقلاب سے اپنے لئے کچھ ذخیرہ کیا ہو۔یہ حقائق ہیں ،انہیں جاننا چاہئے۔حساس ترین مواقع پرآپ انقلاب اوراسلامی نظام کی خدمت کرتے رہے ہیں۔
ہاں بعض چیزوں میں میراان کے ساتھ نظریاتی اختلاف ہے اوریہ قدرتی امرہے لیکن لوگوں کوکچھ اورنہیں سوچنا چاہئے،کسی وہم کاشکارنہیں ہونا چاہئے۔البتہ ان کا اورموجودہ صدرکے درمیان۲۰۰۵ءکے انتخابات سے ہی نظریاتی اختلاف چلاآرہا ہےاورآج بھی ہے۔خارجہ پالیسی میں دونوں میں نظریاتی اختلاف ہے، معاشرہ میں قیام عدل سے متعلق نظریاتی اختلاف ہے، بعض ثقافتی امورمیں بھی نظریات الگ الگ ہیں اورصدرجمہوریہ کے نظریات میرے نظریات سے قریب تر ہیں۔
ناطق نوری صاحب کے متعلق بھی یہی ہے۔یہ بھی انقلاب کے خدمتگذاروں میں سے ہیں ،انہوں نے بھی بہت خدمت کی ہے،انقلاب اوراسلامی نظام سے ان کی دلبستگی میں کسی کوکوئی شک نہیں ہے۔
ٹی وی پربراہ راست مناظرے اچھی چیز ہیں لیکن یہ نقائص دورکرنے کی ضرورت ہے۔میں نے اسی وقت مناظرہ کے بعدصدرصاحب کومتوجہ کیا اس لئے کہ جانتا تھا کہ یہ بات مانیں گے۔
مالی بدعنوانی کے سلسلہ میں حکومت کا مؤقف واضح ہے۔معاشرہ میں عدل وانصاف سے متعلق اسلامی حکومت کا مؤقف صاف ہے۔بد عنوانی کہیں بھی ہواس کے خلاف جنگ کرنا ہوگی۔میں عرض کردوں کہ ہم یہ دعویٰ نہیں کررہے کہ حکومت میں مالی بدعنوانیاں نہیں ہیں۔نہ ہوتیں تومیں عدلیہ ،مجریہ اورمقننہ تینوں کے سربراہان کے نام چند سال قبل آٹھ نکاتی خط نہ لکھتا اوراتنا زیادہ اس مسئلہ پرزورنہ دیتا۔بالکل ہیں لیکن میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ اسلامی جمہوری نظام اِس وقت بھی دنیا کا سب سے پاک وصاف معاشرتی وسیاسی نظام ہے۔ لیکن یہ قطعی صحیح نہیں ہے کہ ہم کسی صہیونی رپورٹ کے بنا پرملک اورنظام پرمالی بدعنوانی کا الزام عائد کردیں اوریہ بھی صحیح نہیں ہے کہ ہم بلاوجہ کسی شخص یا عہدہ دارکوبدعنوان قراردیں ۔اسلامی نظام میں غبن بہت زیادہ بری شئی ہے اس سے مقابلہ کرنا ہوگا۔اس کے خلاف جنگ مجریہ،عدلیہ اورمقننہ تینوں کا فرض ہے اسلئے کہ اگراس کے خلاف جنگ نہ چھیڑی گئی اوراسے کنٹرول نہ کیا گیا تویہ لعنت ایسے ہی پھیلتی چلی جائے گی۔
دنیا کے بہت سارے ممالک یہی مغربی ممالک جواتنی شدت سے مالی بدعنوانی کی مخالفت کرتے رہتے ہیں خود گلے تک اس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔حال ہی میں آپ نےبرطانوی حکومت اورپارلیمنٹ ممبران کی خبریں سنی ہوں گی، پوری دنیا نےسنا یہ سب ، یہ توایک چھوٹی سی مثال ہے ،معاملہ اس سے کہیں زیادہ بڑاہے۔
تومیں عوام سے اپنے خطاب کاخلاصہ کررہا ہوں ۔میرے عزیزو! ایرانی عوام!بارہ جون کوآپ نے ایک تاریخی اورعالمی کارنامہ انجام دیا ۔اگرچہ دنیا کے گوشہ وکنارمیں ہمارے کچھ دشمنوں نے اسلامی نظام کی اس واضح اورحتمی کامیابی کومتنازعہ اورمشکوک بنانے کی کوشش کی یہاں تک کہ بعض نے تواسے قومی شکست میں بدلنا چاہا،آپ کا مزہ کرکراکرنا چاہا یہ چاہا کہ الیکشن میں شرکت کا عالمی ریکارڈ آپ کے نام نہ جائے ۔یہ سب کرنا چاہتے تھے لیکن کچھ نہ کرسکے اس لئے کہ یہ ریکارڈ آپ نے بنا لیا ہے اب اس میں ردّوبدل نہیں کی جا سکتی۔
اب نہ کوئی کسی کا حریف ہے اورنہ کسی کا کسی سے مقابلہ ، ان چاروں صدارتی امیدواروں میں سے آپ نے کسی کو بھی ووٹ دیا ہے اس کا خدا کے یہاں سے اجرملے گا،انشا اللہ۔یہ سارے امیدوارانقلاب کے خیمہ میں ہیں ،نظام سے منسلک ہیں ۔آپ نے اگرقربت کی نیت سے ووٹ دیا ہوگا تویہ عبادت بھی قرار پائے گی۔
انقلاب کوچارکروڑووٹ ملے ہیں نہ کہ دوکروڑچالیس لاکھ جوکہ منتخبہ صدرکےووٹ ہیں۔چالیس کروڑعوام نے انقلاب کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
لوگوں کو بھروسہ ہے لیکن صدارتی امیدواروں کے بعض حامیوں کو بھی بھروسہ ہونا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ عوام کے ووٹوں میں خیانت سے کام لینے والا نہیں ہے یہ اس کا کام ہے ہی نہیں ۔ہمارے ملک کاانتخابی طریقہ کار ایسا ہے کہ دھاندھلی ہو ہی نہیں سکتی۔جوشخص بھی کسی انتخابی ادارہ سے منسلک ہے یا الیکشن کا طریقہ کارجانتا ہے وہ اس کی تصدیق کرے گا۔کیسی دھاندھلی اوروہ بھی ایک کروڑدس لاکھ کی!اگردونوں کے ووٹوں میں ایک لاکھ کا فرق ہوتا،پانچ لاکھ کا فرق ہوتا،دس لاکھ کا فرق ہوتا توشاید کہا جاسکتا تھا کہ کچھ دھاندلی ہوئی ہے ادھر کے ووٹ ادھر کیے گئے ہیں لیکن ایک کروڑدس لاکھ ووٹوں کی دھاندلی کیونکرممکن ہے!بہرحال میں نے بھی کہا اورنگراں کونسل نے بھی مان لیا ہے کہ اگرکسی کو کوئی شک ہے اوراس کے پاس ثبوت ہے تواس کی ضرورتحقیق کی جائے گی لیکن صرف قانونی راستہ سے۔جوبھی کاروائی ہوگی قانونی ہوگی۔میں غیرقانونی مطالبات کے دباؤ میں ہرگز نہیں آؤں گا۔آج اگرقانون کا پاس نہ رکھا گیا تومستقبل میں کوئی بھی الیکشن معتبرنہیں مانا جائے گا۔اس لئے کہ ہرالیکشن میں کچھ لوگ ہاریں گے کچھ جیتیں گے اورایسی صورت میں الیکشن کا کوئی اعتبارنہیں رہ جائے گا۔لہٰذا جوبھی اقدام اٹھانا ہے وہ صحیح اورقانون کے مطابق ہونا چاہیے ۔واقعاًکسی کوکوئی شک ہے تواس کے لئے قانونی راستہ اختیارکیا جائے اس معاملہ میں قانون بالکل صاف ہے اوراس میں کوئی نقص نہیں ہے۔جس طرح امیدواروں کونگرانی کا حق دیا گیا ،شکایت کا حق دیا گیا اسی طرح ان کی شکایات کا جائزہ لیا جائے گا یہ بھی ان کا حق ہے۔میں نے نگراں کونسل سے کہا ہے کہ اگرانہوں نےبیلٹ بکس کھول کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرنا چاہی تووہاں امیدواروں کے نمائندوں کو بھی بلائیں ،ان کے سامنے ہی گنتی ہو،نتائج سامنے لائے جائیں اوران پردستخط کردیا جائے۔لہٰذا قانونی لحاظ سے اس سلسلہ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔یہ تھا انتخابات سے متعلق اورآپ عوام سے خطاب!
اب میں سیاسی شخصیات،امیدواروں اورسیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں سے مخاطب ہوں ۔ان حضرات سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت ملک ایک حساس تاریخی موڑپرکھڑاہے۔دنیا کا حال دیکھیے،مشرق وسطی ٰ کا حال دیکھیے۔دنیا کی معاشی حالت ملاحظہ کیجیے،افغانستان ،عراق، پاکستان جیسے پڑوسی ممالک کے حالات دیکھیے۔ہم ایک حساس مرحلےپرکھڑے ہیں ۔اس موڑپرہم سب کا فرض ہے کہ ہوشیاری اورسمجھداری سے کام لیں ،محتاط طریقہ اپنائیں ،غلطی نہ کریں ۔
الیکشن میں واقعاً عوام نے اپنی ذمہ داری اداکردی ہے۔ان کی ذمہ داری یہی تھی کہ ووٹ دیں اسے انہوں نے بطریق احسن نبھا دیا ہے۔لیکن ہم اورآپ کی ذمہ داری زیادہ سخت ہے۔جن لوگ کا عوام میں کسی بھی لحاظ سے اثرورسوخ ہے۔یہی سیاسی شخصیات، یہی سیاسی پارٹیوں کےسربراہان،یہی سرگرم سیاسی افرادجواپنے خاص سیاسی رجحانات کی ترویج کررہے ہیں ۔عوام میں ان کے طرفدار ہیں ،ان کی بات سنتے ہیں ۔انہیں بہت زیادہ اپنی رفتاروگفتارکاخیال رکھنا چاہئے۔اگرانہوں نے ذرا سی زیادہ روی سے کام لیاعوامی حلقوں میں اس کے اثرات خطرناک ہوسکتے ہیں اورپھر حالات خود ان کے اختیا رمیں بھی نہیں رہیں گے ۔اس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔معاشرہ میں اگرانتہا پسندی نے جنم لے لیا تویاد رکھیے کہ ایک کی انتہاپسندی دیکھ کے دوسرے بھی انتہا پسند ہوجاتے ہیں ۔اگرسیاستداں قانون کا پاس نہیں رکھیں گے ،ابرو کی اصلاح کے لئے آنکھ پھوڑ دیں گے تواس کے بعد وہ چاہیں یا نہ چاہیں جتنا بھی خون بہے گا،جتنا بھی تشدد ہوگا،جتنا بھی بلوہ و فساد ہوگا اس کے ذمہ داروہ خود ہوں گے۔میں ان سبھی حضرات کو،ان سبھی پرانے دوستوں کو،ان سبھی بھائیوں کونصیحت کرتاہوں کہ اپنے اوپرقابورکھیے،کشادہ دلی سے کام لیجیے،دشمن کے پوشیدہ ہاتھ مدنظررکھیے۔چھپے بھوکے بھیڑیوں نے اب آہستہ آہستہ ڈِپلومیسی کی نقاب اتارنا شروع کردی ہے،اب اپنا اصلی چہرہ دکھا رہے ہیں انہیں مد نظررکھیے،ان سے غافل نہ رہیے۔
میں ابھی عرض کروں گا۔کچھ مغربی ممالک کے ڈپلومیٹ جواب تک ہم سے ڈپلومیٹک زبان میں گفتگو کررہے تھے۔اب چہرہ سے نقاب الٹ چکے ہیں اوراپنا اصلی چہرہ دکھا رہے ہیں ''قدبدت البغضاء من افواھھم وماتخفی صدورھم اکبر''(۵)۔اب نظام اسلامی سے اپنی دشمنی کا اظہارکررہے ہیں جن میں سب سے خبیث برطانوی حکومت ہے۔میں ان بھائیوں سے عرض کررہاہوں کہ خدا کی جانب سے آپ پرجوذمہ داری عائد ہے اس کی فکر کیجئے ۔امام (رہ)کی آخری وصیت یاد کیجئے۔قانون حرف آخرہے۔قانون کو حرف آخرسمجھیے۔الیکشن آخرکیوں ہوتاہے؟ الیکشن اس لئے ہوتاہےکہ تمام اختلافات بیلٹ بکس کے ذریعہ حل ہوجائیں اورپتہ چل جائے کہ عوام کیا چاہتے ہیں اورکیا نہیں چاہتے۔یہ کام سڑکوں پرنہیں ہوتا۔اگرہرالیکشن کے بعدہارنے والے امیدواراپنا لاؤلشکرلے کر سڑکوں پہ نکل آئیں ،اپنے حامیوں سے جلوس نکلوائیں اوراس کے بعدجیتنے والے بھی ان کے جواب میں اپنے حامیوں کولے کرسڑکوں پرنکل آئیں توالیکشن کیوں ہواتھا؟ لوگوں کا کیا قصورہے؟سڑک لوگوں کے کام کرنے اورچلنے کی جگہ ہے،ان کے رہنے کی جگہ ہے۔ان کی کیا غلطی ہے؟کہ ہم انہیں اپنے حامیوں کی تعداد دکھائیں ۔ہارنے والے بھی یہی کریں اورجیتنے والے بھی یہی۔ایسا ماحول دہشت گردوں کے لئے مناسب واقع ہوتاہے۔جسے کوئی دہشت گردانہ کاروائی کرنا ہے اس کے لئے یہ ماحول بڑا اچھا ہے۔اسے سیاست سے کیا غرض ۔اسے توان مظاہرین میں چھپنے کا بہترین موقع مل جاتاہے۔اگریہ جلسے اورمظاہرے دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن جائیں تو اس کا ذمہ دارکون ہوگا؟حال میں جوعام یا رضاکاردستوں کے اہلکار مارے گئے ہیں ان کے خون کا جواب کون دے گا؟اورپھر اس کا رد عمل بھی سامنے آئے گا۔سڑک پربھیڑ سے فائدہ اٹھا کے جب یہ کسی رضاکارکوہلاک کردیں گے، کسی پولیس والے کو مارڈالیں گے توبہرحا ل اس کا رد عمل توظاہرہوگا۔اس رد عمل کا جواب کون دے گا؟بعض توایسے واقعات پیش آئے ہیں جنہیں دیکھ اورسن کے انسان کا دل خون روتاہے۔یونیورسٹی کیمپس میں جوانوں پرطلبہ پراوروہ بھی شورشرابہ کرنے والوں پرنہیں مؤمن اورحزب اللہی طلبہ پرحملہ کرتے ہیں اوررہبرکے حق میں نعرے بھی لگاتے ہیں !ایسے واقعات پرانسان کا دل خون روتاہے۔توسڑکوں پرزورآزمائی نہ کیجئے یہ صحیح نہیں ہےیہ تواصل انتخابات اورجمہوریت کوچیلنج کرنا ہے۔میں سب سے کہہ رہا ہوں کہ یہ سلسلہ بند کیجئے۔یہ صحیح نہیں ہےاگریہ سلسلہ بند نہیں ہوتا تواس کے نتائج کی ذمہ داری خود ان پرہوگی۔
یہ بھی کوئی نہ سوچے کہ وہ مظاہروں سے حکومت پردباؤ بنالیں گے،حکام مجبورہوجائیں گے اورآخرکارمصلحت جان کے ان کے غیرقانونی مطالبات مان لیے جائیں گے۔جی نہیں یہ بھی غلط فکرہے۔پہلی بات یہ کہ دباؤمیں آکے غیرقانونی مطالبات تسلیم کرلینا لاقانونیت کا آغازہے۔یہ سوچ غلط ہے،ایسا تصورصحیح نہیں ہے۔اس کے جوبھی نتائج ہوں گے ان کے ذمہ داربراہ راست وہی لوگ ہوں گے جوپس پردہ یہ سب کروارہے ہیں اگرضرورت پڑی تومناسب وقت پرلوگ انہیں بھی پہچان لیں گے۔
میں ان تمام بھائیوں اوردوستوں سےیہی کہنا چاہتاہوں کہ بھائی چارہ کومعیاربنائیے،مفاہمت کی بنیاد پرآگے بڑھیے،قانون کی رعایت کیجئے،قانون کا دروازہ کھلاہے۔محبت اورصدق وصفا کاراستہ کھلاہے اس راستہ سے آگے بڑھیے۔امید ہے کہ خدا کی توفیق سے سب یہی راستہ اختیارکریں گے۔سب ملک کی ترقی ہی چاہتے ہیں ، توہمارے یہ بھائی بھی چالیس کروڑعوام کی الیکشن میں شرکت کا جشن منائیں اوردشمن کوجشن کا یہ ماحول خراب کرنے کاموقع نہ دیں ۔دشمن یہی کرنا چاہتاہے اس کے بعد بھی اگرکچھ لوگ کوئی دوسراراستہ اپنانے کی کوشش کرتے ہیں تومیں پھرعوام کے درمیان آؤں گااوراس سے زیادہ شفاف لفظوں میں گفتگو کروں گا۔
اب میں استکباری حکومتوں اوراستکباری ذرائع ابلاغ کے سربراہان سے مخاطب ہوں ۔ان آخری دوتین ہفتوں سے میں نے امریکہ اورکچھ یوروپی ممالک کے حکمرانوں کی رفتاروگفتارپر نظررکھی ہوئی ہے۔انتخابات سے چند ہفتے قبل، انتخابات کے دن ،انتخابات کے بعد کی رات اورپھرانتخابات کے بعد ان دوتین دنوں میں ان کی رفتاروگفتارمستقل بدلتی رہی ہے۔انتخابات سے قبل ان کا میڈیا اورحکمران خود انتخابات ہی کومشکوک قراردینے میں لگے تھے تاکہ کم تعداد میں لوگ ووٹ دینے کے لئے نکلیں البتہ الیکشن کے جونتائج برآمد ہوئے ہیں امریکی ویورپی بھی یہی قیاس آرائیاں کررہے تھے لیکن انہیں یہ نہیں اندازہ تھا کہ اتنی تعدادمیں لوگ ووٹ دینے نکلیں گے۔پچاسی فیصد یا چالیس کروڑلوگوں کی شرکت کا انہوں نےسوچابھی نہیں تھا۔اس کے بعد جب یہ منظردیکھا تودم بخود رہ گئے سمجھ گئے کہ ایران میں کتنا بڑا واقعہ رونما ہوگیا ہے۔سمجھ گئے کہ اب انہیں، بین الاقوامی معاملات ہوں ،مشرق وسطی ٰ کا مسئلہ ہو، عالم اسلام کے معاملات ہوں یا جوہری توانائی کا مسئلہ، ہرجگہ موجودہ صورتحال سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔اب ایران کے معاملات میں دم بخود تھے۔سمجھ گئے کہ اسلامی جمہوریہ سے متعلق معاملات میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگیا ہے اورانہیں مجبوراًاسے ماننا پڑے گا۔یہ اس وقت کی صورتحال تھی جب انہوں نے عوام کی بھاری تعداد دیکھی یاان کے گماشتوں کے ذریعہ مستقل یہاں سے بتائی جارہی تھی۔سب نے حیرت کا اظہارکیاجمعہ کی صبح سے ہی یہ سلسلہ شروع ہوگیا اورخود وہاں بھی اس حیرت کے اظہار پررد عمل ہوا۔
لیکن جیسے ہی دیکھا کہ کچھ امیدوار اعتراض کررہےہیں توانہیں محسوس ہوا کہ موقع ہاتھ لگ رہاہے۔اس موقع سے فائدہ اٹھا کے وہ اپنا کام کرسکتےہیں ۔سنیچراوراتوارکے بعد سے ان کےلہجہ میں تبدیلی آگئی ۔اوراس کے بعد جب انہیں آہستہ آہستہ مثلاًہارے ہوئے امیدواروں کے کہنے پرتہران کے سڑکوں پرعوامی مظاہرے نظرآنے لگے تواب ان کی امیدیں بندھ گئیں ۔اب آہستہ آہستہ چہروں سے نقابیں ہٹنے لگیں اوراپنی حقیقت دکھانے لگے۔امریکہ اوریورپی ممالک کے کچھ وزرائے خارجہ اورسربراہان مملکت نے ایسے بیان دینا شروع کئے جن سے ان کی حقیقت عیاں ہوتی ہے۔امریکی صدر سے منسوب یہ بیان سامنے آیا کہ ہمیں اسی دن کاانتظارتھاکہ لوگ سڑکوں پرنکل آئیں ۔ایک طرف سے خط لکھتے ہیں ،ایران سے تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہرکرتے ہیں،اسلامی جمہوریہ کے تئیں احترام کا اظہارکرتے ہیں اوردوسری جانب اس طرح کا بیان دیتے ہیں ۔ہم کسے صحیح مانیں ؟ملک کے اندربھی ان کے گماشتے حرکت میں آگئے اورتخریب کاری شروع ہوگئی ،تخریب کاری،آتش زنی!عوامی املاک و جائدادکوآگ لگانے لگے،لوگوں کا روزی روٹی کمانا خطرے میں پڑگیا،دکانوں کے شیشے توڑنےلگے،کچھ دکانیں بھی لوٹیں ،لوگوں کا جان ومال غیرمحفوظ ہوگیا،ان کی سلامتی خطرہ میں پڑگئی۔اس سب کا تعلق عام لوگوں یا کسی صدارتی امیدوارکے حامیوں سے نہیں ہے۔یہ دشمنوں کا کام ہے،گماشتوں کا کام ہے،مغربی اورصہیونی خفیہ تنظیموں کے ایجنٹوں کا کام ہے۔توملک کے اندربعض افراد کے غیرذمہ دارانہ اقدامات نے انہیں للچادیا سوچنے لگے ایران بھی جارجیاہے!کچھ سال پہلے ایک صہیونی سرمایہ دارنے ذرائع ابلاغ میں یہ دعویٰ کیا تھا(جیسا کہ ذرائع ابلاغ میں آیا) کہ میں نےدس ملین ڈالرخرچ کرکے جارجیا میں مخملی انقلاب برپاکردیا۔ایک حکومت ہٹا کے دوسری حکومت قائم کرادی۔احمق سوچنے لگے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اوریہ عظیم قوم بھی ویسی ہی ہے۔ایران کاکس سے تقابل کررہے ہو؟ہمارے دشمنوں کی پریشانی یہ ہے کہ وہ ابھی بھی ایرانی قوم کوسمجھ نہیں پائے ہیں۔اس دوران سب سے بری چیزجودکھائی دی وہ یہ تھی کہ امریکی حکمران انسانی حقوق اورلوگوں کے ساتھ سختی برتنے کی دہائی دینے لگے۔ہم لوگوں کے ساتھ ہورے اس قسم کے برتاؤ کے مخالف ہیں ، ہمیں تشویش ہے!تم عوام کے لئے پریشان ہو؟!تم انسانی حقوق نام کی کوئی چیز مانتے بھی ہو؟!افغانستان میں لوگوں کے خون کی ہولی کس نے کھیلی اورآج بھی کھیلی جا رہی ہے؟عراق کی فوجی جوتوں سے توہین کس نے کی؟فلسطین میں ظالم صہیونی حکومت کی اس قدرسیاسی اورمالی مدد کس نے کی؟واقعاً تعجب ہوتا ہے ۔خود امریکہ کے اندرانہیں ڈیموکریٹس کی حکومت میں ،ابھی جومحترمہ بیان دی رہی ہیں انہیں کے شوہرکی حکومت میں داؤدی فرقہ سے تعلق رکھنے والے اسی سے زائد افراد کوزندہ جلادیا گیا تھا۔اس سے تو کوئی انکارنہیں کرسکتا۔انہیں لوگوں نے انہیں ڈیموکریٹس نے یہ کیا تھا۔داؤدی فرقہ پر جسے یہ لوگ ڈیوڈی کہتے ہیں کسی وجہ سے امریکی حکومت غضبناک ہوگئی ۔یہ لوگ ایک مکان کے اندر ہڑتال کررہے تھے جتنی بھی کوشش کی گئی باہرنہیں نکلے تواسی مردوں ،عورتوں اوربچوں کومکان کے اندرزندہ جلا دیا گیا۔تم جانتے بھی ہوانسانی حقوق کیا ہوتے ہیں؟میرا خیال ہے ان امریکی ویورپی حکام اورسیاستدانوں کوکچھ شرم وحیا بھی سیکھنی چاہئے۔اسلامی جمہوریہ انسانی حقوق کا علمبردارہے؛ہماری طرف سےفلسطین،لبنان،عراق،افغانستان اوردنیا کے کسی بھی خطہ کے مظلوم عوام کی حمایت اسی کی علامت ہے۔اس بات کی علامت ہے کہ اسلام پراعتقاد اورایمان کے باعث ہمارا ملک انسانی حقوق کی علمبرداری کررہاہے۔انسانی حقوق کے سلسلہ میں ہمیں کسی کی نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔یہ تھے انتخابات سے متعلق ہمارے معروضات۔
آخرمیں اپنے آقا ومولاحضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی خدمت میں عرض ہے؛اے ہمارے سید وسردار!ہمیں جوکرنا چاہئے کررہے ہیں ۔جوکہنا چاہئے کہہ رہے ہیں اورکہتے رہیں گے۔میرے پاس حقیرسی جان ہے،ناقص سا جسم ہے، تھوڑی بہت عزت ہے جوآپ ہی کی دی ہوئی ہے۔یہ سب میں نے ہتھیلی پررکھا ہے اورانقلاب اوراسلام کی راہ میں فدا کردوں گا،یہ سب بھی آپ پرنثار!اے ہمارےمولاوآقا!ہمارے لئے دعا کیجئے۔ہم آپ کے ہیں،یہ ملک آپ کا ہے ،یہ انقلاب آپ کا ہے ،ہمارے ناصرومددگارآپ ہیں۔ہم اسی راہ پرگامزن رہیں گے اورسختی سے گامزن رہیں گے۔اپنی دعا،حمایت اورتوجہ کے ذریعہ اس راہ میں ہماری مدد فرمائیے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اذاجاء نصراللہ والفتح ورأیت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجاً۔فسبح بحمد ربک واستغفرہ انہ کان تواباً۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
۱۔فتح۴
۲۔رعد۲۸
۳۔جمعہ۹
۴۔عصر۱۔۳
۵۔آل عمران ۱۱۸