ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے ممتاز طلباء اورتنظیموں سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ماہ رمضان میں منعقد ہونے والی اس نشست کی سب سے پہلی خاصیت یہ ہےکہ یہاں کی فضا میں اخلاص اور روحانی طہارت کی خوشبوئیں بسی ہوئی ہیں۔ یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے اوریہاں ایسے نوجوان حضرات تشریف لائے ہیں جن کے دل پاک اورجن کی گفتگو ہر قسم کے ذاتی وسیاسی مفاد سے دورہے(ان کی گفتگو کی دیگر خصوصیات میں آگے چل کر بیان کروں گا) اس سال یہ نشست ماہ مبارک کے آخری ایام میں ہو رہی ہے آپ تئیس روزے رکھ چکے ہیں میرے خیال سے انہیں روزوں کے طفیل نیز شبہائے قدر کے اعمال اور تلاوت قرآن کے طفیل آپ کے دل نورانی ہوئے ہیں اوراسی کی جھلک اس نشست میں نظرآرہی ہے۔

اس نشست کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جوانی اوردوران طالب علمی کی تازگی وشادابی ہے۔ ایسی نشستوں میں میری عمر کے پرانے اورمرجھائے لوگوں کو اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ ہمیں بھی آپ کے حوصلے دیکھ کر اندرونی طاقت مل جاتی ہے لہذا میرے لئےیہ نشست نہایت غنیمت اور عمدہ ہے۔ میں یہاں گفتگو کرنے والے سبھی برادران کا مشکور ہوں، یہاں کا انتظام وانصرام سنبھالنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان برادران کا بھی مشکورہوں جنہوں نے اس نشست کے انعقاد کی راہیں ہموار کیں۔

یہاں جو کچھ بیان ہوا وہ کم وبیش طلبہ اورنوجوانوں کی ہر نشست میں سننے کو ملتا ہے اس کی چند ایک خصوصیات ہیں انہیں خصوصیات کی بنا پر ہمیں یہ نشستیں بہت اچھی لگتی اورپسند آتی ہیں ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ جو کچھ کہتے اورسوچتے ہیں اس میں ایک نیا پہلو ضرور ہوتا ہے یہی بات اس قسم کی نشستوں میں نظر آتی ہے جسے ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس ذیل دو تین باتیں جو میں عرض کرنے جارہا ہوں ان کا مقصد صرف اجلاس کی تھوڑی بہت تعریف کردینا نہیں بلکہ اس امر کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے کہ آپ طلباء کی یہ پرکشش اورواضح خصوصیات آپ کی پہچان ہیں ان کی حفاظت کیجئے گا۔

دوسری خصوصیات آپ کے خیالات اورتمنائیں ہیں، یہ عرض کر دوں کہ آپ کے خیالات کا اگر تجزیہ کیا جائے توآخر میں کچھ بھی نہیں بچے گا لیکن ایسے خیالات اورتمنائیں خوداپنی جگہ اچھی چیز ہیں۔ ہوسکتا ہے کسی آرزوتک رسائی بھی ممکن نہ ہو لیکن اس آرزو کو ترک کر دینا بھی جائز نہ ہو لہذا آپ کی آرزوئیں اوران سے جنم لینے والی توقعات ہمیں پسند ہیں ایسا ہی ہونا چاہئے۔

تیسری خصوصیت آپ کا تنقیدی لب ولہجہ ہے۔ تنقید اگر کچھ تلخ بھی ہو تومیں اس پر ناراض نہیں ہوں گا ایسا کوئی نہ سوچے چونکہ یہ تنقیدی لب ولہجہ بھی انہیں خیالات کا عطیہ ہے جتنا کچھ ہمارے پاس ہے اس پر راضی نہ ہونے کا مطلب یہی ہے کہ ہم وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہے اوریہی تو ہم چاہتے ہیں۔

لہذا "نئی فکر" "تمنا اورآرزو" اور" ان سے وجود میں آنے والا لب ولہجہ" آپ کے پاس ہونا چاہئے یہ اچھی چیز ہے اگر یہ خصوصیات باقی رہیں تومعاشرہ میں ایک نوجوان کا کرداراتنا کلیدی ہوجائے گا جتنا ٹرین میں موٹر کا ہوتا ہے اسٹارٹ بھی وہی کرے گا، آگے بھی وہی لے جائے گا موڑ بھی وہی موڑے گا بصورت دیگر اگر نوجوان طبقہ بھی جتنا ہے اتنے پر راضی وقانع ہو جائے تو کسی ترقی کا تصور ہی نہیں رہ جائے گا ان کے اندرہمیشہ بلندیاں چھونے کی تمنا ہونی چاہئے۔

آپ حضرات کی بیان کردہ کچھ باتیں وضاحت طلب ہیں یعنی ان کی وضاحت انصاف کا تقاضا ہے یہ جو کہا گیا کہ بد عنوانی کے مقابلہ یا دفعہ چوالیس کے نفاذ کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے یہ صحیح نہیں ہے ایسا نہیں ہے بہت کچھ ہوچکا اور بہت کچھ ہو رہا ہے جتنا کچھ ہوا ہے میں اتنے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ملک کے اعلی سطحی حکام سے مستقل پوچھتا رہتا ہوں اوران سے مزید کام کے لئے کہتا رہتا ہوں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں جی نہیں واقعاً وہ لگے ہوئے ہیں اور کافی حد تک آگے بھی جا چکے ہیں خاص طور سے رواں سال میں اچھی کارکردگی سامنے آئی ہے آپ بھی یہ نہ کہیں کہ کچھ نہیں ہوا ہے مزید کرنے کا مطالبہ کیجئے مزیدمانگ کیجئے! ہم یہی چاہتے ہیں۔

آپ حضرات کی گفتگو سے محسوس ہوا کہ ایسا تصور کیا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت( نویں دورکی حکومت) کے بیوروکریٹس نا اہل ہیں یا سرے سے اس حکومت کے پاس بیوروکریٹس ہیں ہی نہیں! مختلف سیاسی رجحانات کے ترجمان سولہ سترہ اخبارروزانہ میری نظروں سے گذرتے ہیں یہی پوائنٹ حکومت مخالف پارٹیاں اچھال رہی ہیں ہم سوچ رہے تھے کہ اس پروپیگنڈہ کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے لیکن اب پتہ چلا کہ یہ اتنا بھی غیر مؤثر واقع نہیں ہوا یعنی آپ طلبہ جومعاشرہ کا نچوڑہیں واقعاً یہ سوچ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس بیوروکریٹس نہیں ہیں؟ ایسا کیسے کوئی کہہ سکتا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ حکومت میں ردوبدل سے پوری مجریہ الٹ پھر جاتی ہے ایسا بھی نہیں ہے کئی حکومتیں میرے سامنے رہی ہیں میں ان کے ساتھ کام کرتا آیا ہوں ان کے کام کا طریقہ کار، اقدامات اورردوبدل دیکھتا آیا ہوں۔ حکومت کے سیاسی مخالفین یا حکومتی طورطریقہ کے مخالفین تقریباً سب سے بڑایہی اعتراض کر رہے ہیں میں ہر گز اس کی تصدیق نہیں کرتا ایسا نہیں ہے۔ تبدیلیاں ہر حکومت میں رونما ہوتی رہی ہیں کسی میں کم کسی میں زیادہ! موجودہ حکومت بعد والی قسم میں سے نہیں ہے اس سے قبل وسیع وعریض پیمانہ پر تبدیلیاں آتی رہی ہیں ان اخباری افواہوں پر زیادہ کان نہ دھرا کیجئے اس مقام پر ایک اہم بات عرض کرتا چلوں جسے میں اکثر طلبہ سے کہتا رہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اپنے اندر موجودہ ملکی مسائل اورسیاسی رجحانات کے تجزیہ وتحلیل کی صلاحیت پیدا کیجئے میں ہمیشہ جو یونیورسٹیوں میں سیاست کی بات کرتا ہوں اس کا مطلب یہی ہے سیاسی تأثراورسیاست بازی الگ ہے میں اس کی وکالت نہیں کرتا نہ یونیورسٹی کے اندر نہ یونیورسٹی سے باہر، خاص طور سے یونیورسٹی کے اندر یہ کام قابل تائید نہیں ہے۔ تیسری چیز سیاست فہمی ہے جس کے معنی ہیں اپنے اندر سیاسی تجزیہ وتحلیل کی صلاحیت پیدا کرنا یہ طلبہ تنظیموں کے فرائض کا حصہ ہے میں پھر تاکید کر رہا ہوں کہ طلبہ تنظیمیں جن کے اکثراراکین یہاں تشریف فرما ہیں اس طرح اپنے پروگرام ترتیب دیں کہ طلبہ کے اندر سیاسی تجزیہ وتحلیل کی صلاحیت پیدا ہو جائے نہ ہر بات آسانی سے مان لیں نہ ہر بات آسانی سے ردکردیں سیاسی تجزیہ وتحلیل کی صلاحیت بہت ضروری ہے ہم اس کا نقصان اٹھا چکے ہیں نہ صرف ہم بلکہ بہت سی دیگر قومیں بھی سیاسی غلط فہمیوں کے باعث بڑے بڑے مسائل سے دوچارہوئیں ہیں یہ بہت ضروری ہے۔

دوسری بات طلبہ میں عمیق" معرفت فی الدین" پیدا کرنا ہے یہ بھی میری تاکید ہے اور کئی بار کہہ بھی چکا ہوں لیکن طلبہ چونکہ آتے جاتے رہتے ہیں لہذا آپ سے بھی عرض کردوں دین یا ظواہر دین سے محض جذباتی لگاؤ رکھنا یا جذباتی لگاؤ کا اظہار کرنا کافی نہیں ہے، جہاں دینی فہم وفراست کام میں لانے کی ضرورت ہو وہاں ہمارے اذہان ماؤف ہو جائیں اورہم اپنا فرض تشخیص نہ دےسکیں، ایمان عمل کی بنیاد نہ بن سکے تومحض جذباتی لگاؤ کام نہیں آئے گا لہذا دین کے بارے میں گہری اورعمیق معلومات کی ضرورت ہے۔

عزیزجوانو ملاحظہ کیجئے! حالیہ تبدیلی محض یہی نہیں کہ جس طرح ہر ملک میں کوئی نہ کوئی حکومت بنتی ہے اور اس کا اپنا موقف ہوتا ہے اس طرح یہاں بھی اپنا موقف لے کر ایک حکومت تشکیل پا گئی ہے جی نہیں ہماری بات الگ ہے، اسلامی جمہوریہ کی بات الگ ہے۔

یہاں یعنی دنیا کے ایک اہم حصہ میں ایک عظیم تحریک آہستہ آہستہ آگے بڑھی اورپھلی پھولی ہے ایک ایسا نظام تشکیل پایا ہے جس کی بنیاد معنویت پر استوار ہے اس اہم تحریک کی انسانیت کو ضرورت تھی لہذا اس کی خوب پذیرائی ہوئی اورآئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ اسلامی تفکر کی بنیاد پر جو نظام تشکیل پاتا ہے روحانیت اس کا جزء لاینفک ہوا کرتا ہے البتہ ایسا نہیں کہ یہ نظام صرف روحانی امور ہی کی جانب توجہ مبذول کرے گا اور مادی ضروریات کو یکسر نظر انداز کردے گا یہ مغالطہ ہے ہمارے خلاف ہورہے عالمی پروپگینڈے یہی کہہ کہہ کے ہماری شبیہ خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہر گز ایسا نہیں ہے۔ اس نظام کا مطلب یہ ہے کہ یہ انسانیت کو اس کی کھوئی ہوئی شے واپس دلانا چاہتا ہے جسے عالمی لٹیروں کے طاقتور پنجوں نے اس سے چھین لیا ہے اور وہ ہے معنویت جس طرح انسان کو کھانے پانی، ہوا، صنعت، سائنس، ترقی اوردیگرمادی لذائذ کی ضرورت ہے اسی طرح اسے ایمان، تقوی، پاکدامنی، باطنی طہارت، قلبی نورانیت، تعلیمات الہی، حسن خلق اور اخلاقی مکارم کی ضرورت ہے جسے طاقت کے نشے میں چور مادیت پرستوں نے آہستہ آہستہ انسانیت سے چھین لیا ہے آج سے سوسال قبل یہ صورتحال نہ تھی دوسوسال قبل کی صورتحال اوربہتر تھی موجودہ عالمی نظام کی یہ خاصیت ہے۔ یہ نظام آج سے ڈیڑھ سودوسوسال قبل مضبوط ہونا شروع ہوا اوراس کا تقاضا ہی یہ تھا کہ انسانی زندگی سے آہستہ آہستہ روحانیت کا قلع قمع کردیا جائے جس کا انسانیت کو بہت نقصان ہوا ہے ۔ انسان سائنسی ترقی اور نت نئے انکشافات کا محتاج ہے جیسا کہ اس وقت اس کام میں پوری طرح سرگرم اور حیرت انگیز طور پر ترقی کر رہا ہےلیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے روحانیت کی بھی ضرورت ہے اسلامی نظام حکومت انسانی زندگی سے غائب شدہ اس عنصر کو واپس لانا چاہتا ہے کہنا تو آسان ہے لیکن اسے عملی شکل دینا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ عالمی داداگیروں کی مخالفت مول لینا ہے۔ جن کے مفادات ہی دنیا میں جنگ کی آگ بھڑکانے سے پورے ہوتے ہیں وہ اس کے مخالف ہیں، جن کا کاروبار ہی دنیا میں جنسیات کے پھیلاؤ سے چلتا ہے وہ اس کے مخالف ہیں، جو اقوام عالم کے حیات بخش ذخائر پر قابض ہونا چاہتے ہیں وہ اس کے مخالف ہیں، جن کا مقصد حیات محض توسیع پسندی ہے وہ اس کے مخالف ہیں چاہے ان کے پاس چھوٹی موٹی حکومت ہو یا سپر پاور ہوں، تو کہنے کا مطلب یہ کہ ہمارے اہداف ومقاصد کے مخالفین عالمی سطح کے غنڈے اورشیطان صفت طاقتیں ہیں۔

تو ایران میں اس طرح کے نظام کی بنیاد رکھی جا چکی ہے، اس کی نیو میں اس کے پیغامات کا مسالہ لگایا جا چکا ہے اوراب تعمیری کام بھی شروع ہو چکا ہے لیکن یاد رکھئے کوئی بھی نظام عمارت کی مثل بے جان نہیں بلکہ انسان کی مثل جاندار موجود ہوتی ہے اس میں اگر خامیاں ہوتی ہیں تو انہیں دورکیا جاسکتا ہے لیکن اگر غافل وبے توجہ رہے گا تو خامیاں کبھی دور نہ ہوں گی اگر غوروفکر اور محنت ومشقت سے کام لے گا تو جلد اور بہتر انداز سےخامیاں اور نقائص دور ہو جائیں گے انسانی نظام ایک نمو رکھنے والی موجود کےجیسا ہوتا ہے تو مطلب یہ کہ ہم چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ میرا کہنا ہے کہ ہم اپنے اہداف ومقاصد ہی کی سمت میں آگے بڑھے ہیں اور اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس وقت انقلاب کی تیسری اور چوتھی نسل اسلامی اہداف ومقاصد سے آشنا ہی نہیں بلکہ ان کی دلدادہ ہے، ظواہر اسلامی کی جانب اس کا رجحان کافی ہے، یہ تیسری اور چوتھی انقلابی نسل مسلط کردہ جنگ کے زمانہ کے جوانوں کی طرح ہر قسم کے سخت ودشوار مراحل سے گذر سکتی ہے کچھ لوگ موجودہ نسل کا جنگ کے دور سے تقابل کرتے ہیں!!! وہ ایک آزمائش کا مرحلہ تھا دنیا کےکسی بھی ملک کو اگراس طرح کے مرحلہ کا سامنا ہو تو کتنے لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کرکچھ بھی کرنے کو تیارہو جاتے ہیں چھپی صلاحیتیں سامنے آجاتی ہیں موجودہ حالات ویسے نہیں ہیں اگر ویسے حالات دوبارہ پیش آجائیں توصورتحال بھی وہی ہو جائے گی میں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ ایسا ہے۔

ہم نے ترقی کی ہے اسلامی نظام میں کچھ کمیاں ہیں اورکچھ خوبیاں لیکن مجموعی طور پر خوبیاں خامیوں سے زیادہ ہیں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم آگے بڑھے ہیں اس سے ہٹ کے سائنسی میدان میں بھی ہم نے کافی ترقی کی ہے اب اس کی تفصیل میں نہیں جانا ہے اسے آپ جانتے ہیں اورابھی تذکرہ بھی ہو رہا تھا۔ لیکن ابھی ہم ابتدائی مراحل میں ہیں سب سے پہلے ہمیں نظام کی فکری بنیادیں مکمل کرنا ہوں گی اس کے بعد انہیں کے مطابق نظام تعمیر کرنا ہوگا مطلب یہ کہ اسلامی نظام، اسلامی حکومت اوراسلامی ملک تینوں ایک دوسرے پرمبنی ہیں یہ تینوں الگ الگ چیزیں ہیں ملک کو اسلامی بنانے کے لئے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے، اسلامی اخلاق کے رواج اوریونیورسٹیوں کے اسلامی ہونے تک ابھی بہت فاصلہ ہے یہی آپ کی توقعات ہیں یہی ہماری جوان نسل کی تمنا ہے ہمارے ابتدائی مرحلہ میں ہونے کی ایک علامت یہی ہے دوسری جانب یہ فکرخاص جغرافیائی سرحدوں تک محدود رہنے والی نہیں ہے یہ خود ہی پھیلے گی اوراقوام عالم کو اپنا ہمنوابنائے گی۔ انقلاب کی آمد سے ہی ہمیں دوسری اقوام کا تعاون مل رہا ہے آج بھی مل رہا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سلسلہ مزید شدت سے جاری رہے۔

ایسا مستقبل تعمیر کرنے میں ہمیں حوصلہ مند، پرجوش، مومن، محنتی، باخبراورواقف کارنوجوانوں کی ضرورت ہے تقوی اور ایمان پہلی شرط ہے طلبہ تنظیموں سے وابستہ یا غیر وابستہ طلبہ کو دین کے بارے میں عمیق اور گہری معلومات کی تاکید کرنے کا ہمارا مقصد یہی ہے کہ طلبہ یہ بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا اورنبھا سکیں بصورت دیگر یہ ممکن نہیں! طلبہ سے ہمارا یہی کہنا ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی عرض کردوں کہ اسلامی فکرومعرفت رکھنے والے طلبہ آپسی رقابتوں یا رقابتوں کے نام پر اختلافات کے ذریعہ خود کو کمزور نہ کریں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے دوسرے کی بقا کا سبب بنیں، کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ سب کا مزاج اور سب کی فکر ایک ہو ایسا نہ ممکن ہے اور نہ ضروری لیکن اختلاف اورایک دوسرے کو کمزور کرنے سے سختی سے پرہیز کیجئے اس وقت تو آپ یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں آج سے دس پندرہ سال قبل کے طلبہ اس کی ضروریت واہمیت نہیں جانتے تھے لہذا انہیں باربار کہنا پڑتا تھا اور ہم کہتے بھی رہتے تھے لیکن آج تو آپ اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں دشمن یونیورسٹیوں میں گھس کراپنے حامی تیار کرنے کے لئے طلبہ پارٹیوں پر خاص طور سے سرمایہ لگاتے ہیں مختلف ناموں سے یہ کام ہو رہا ہے۔ امریکی واسرائیلی خفیہ تنظیمیں ایرانی یونیورسٹیوں کے اندر بظاہرسابقہ ماس پارٹی سے وابستہ طلبہ تنظیموں پرپیسہ خرچ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتیں( یعنی اس کا برملا اطہار بھی کرتی ہیں) یہ چیز آپ کی یونیورسٹیوں میں ہے۔ کچھ سال قبل کے مارکسوادی یونیورسٹیوں میں اپنےمالی تعاون سےتنظیمیں بناتے ہیں (ان لوگوں نے ایک بار ٹی، وی پر توبہ بھی کی اوررورو کے حکام سے معافی بھی مانگی) اب جب مارکسزم پوری طرح مٹ چکا ہے، ان کے افکار اورفلسفہ نما نظریات سب کے لئے غلط ثابت ہو چکے ہیں اور بایاں محاذ نام کی کسی چیز کا وجود نہیں ہےاس کے با وجود یہ اس طرح کی پارٹیاں یونیورسٹیوں میں بنا اوربچا رہے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ صحیح اوراصل طلبہ یعنی اسلام کے پابند، روحانیت کے دلدادہ اوراپنے ایرانی ہونے پر فخر کرنے والے طلبہ سے مقابلہ کے لئے ان کی ضرورت ہے۔ تو وہ کسی بھی بینر تلے طلبہ کو اکٹھا کرنے کے لئے آمادہ ہیں کبھی مارکسزم تو کبھی سلطنت طلب تو کبھی کچھ اور! آپ کو محتاط رہنا ہوگا آپ کی ذمہ داری سخت ہے، پڑھئے بھی اوراپنی سیاسی پوزیشن بھی سمجھئے۔ سیاسی ماحول پراثرانداز بھی ہوئیے اورخود کو فکری اوراندرونی لحاظ سےروحانیت پرمبنی اس نظام یعنی اسلامی جمہوریہ کے مستقبل کے لئے تیار بھی کیجئے مستقبل میں اسلامی جمہوریہ بین الاقوامی سطح پرآج سے دس گنا زیادہ با اثرہوگا۔ یقیناً ہماراآنے والا کل ایسا ہوگا اورآپ نوجوان اسے دیکھیں گے اس وقت ہم تو بظاہر نہ ہوں گے لیکن آپ ہوں گے اور آپ دیکھیں گے کہ سیاسی، سائنسی اورفکری لحاظ سے اسلامی جمہوریہ بین الاقوامی سطح پرآج سے دس گنا زیادہ مضبوط ہو چکا ہوگا، اس دن کے لئے اپنے آپ کو تیار کیجئے۔

دعا ہے کہ پروردگار متعال آپ سب کی حفاظت فرمائے، آپ کو مستقبل کے لئے قیمیتی ذخیرہ قراردے، آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اورانشاء اللہ خداوند آپ کو آپ کے والدین کے لئے سلامت رکھے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ